قبر ولا سنتا ، پہچانتا ، جواب دیتا ہے
برزخ کا مطلب ہے پردہ، الحاجز والحد بين الشيئين یعنی دو چیزوں میں حد اور رکاوٹ۔
البرزخ ما بين الموت الی القيامة. مرنے سے لے کر قیامت تک کا وقفہ ۔
(مفردات راغب، 43)(روح المعانی، 27: 106)
قرآنِ مجید میں اللہ تبارک تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ.
ترجمہ : اور ان کے آگے اس دن تک ایک پردہ (حائل) ہے (جس دن) وہ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے۔(سورۃ الْمُؤْمِنُوْن، 23: 100)
مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے یعنی قیام قیامت تک کا زمانہ عالم برزخ کہلاتا ہے۔ زندگی تین ادوار پر منقسم ہے : (1) حیات دنیوی ۔ (2) حیات برزخی ۔ (3) حیات اخروی
سب سے پہلے دنیوی زندگی ہے اس کے اپنے لوازمات ہیں، پھر حیات برزخی ہے اس کے اپنے لوازمات و احکام ہیں پھر حیات اخروی ہے اس کے اپنے لوازمات و احکام ہیں۔ زندگی بمنزلہ جنس ہے اور یہ تینوں قسمیں بمنزلہ نوع ہے، جہاں نوع ہو وہاں جنس ضرور ہوتی ہے‘ لہٰذا زندگی تینوں میں موجود ہے۔ ہاں ہر نوع دوسری نوع سے مختلف ہوتی ہے اسی لئے حیات دنیوی، برزخی اور اخروی کی جنس ایک ہونے کے باوجود اختلاف انواع کی وجہ سے اکثر احکامات الگ الگ ہیں۔ مثلاً احکام شرع کی پابندی حیات دنیا میں ہے، برزخ و آخرت میں نہیں۔ حیات انسانی کی خصوصیات ہیں سمع، بصر، ادراک وغیرہ یہ زندگی کی تینوں انواع میں موجود ہیں بلکہ دنیوی زندگی سے بڑھ کر اخروی زندگی میں ہیں۔
قبر میں ہونے والے عذاب و ثواب کے بارے میں علمائے اسلام کی تین آراء ہیں:
(1) عذابِ قبر صرف روح کو ہوتا ہے
(2) عذابِ قبر صرف جسم کو ہوتا ہے
(3)عذابِ قبر جسم و روح دونوں کو ہوتا ہے
تیسری رائے صحیح تر ہے کہ قبر کی زندگی میں عذاب یا نعمتیں جسم اور روح دونوں کو ملتی ہیں۔ چنانچہ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : محله الروح والبدن جميعاً باتفاق اهل السنة.
ترجمہ : اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عذاب و ثوابِ قبر روح اور جسم، دونوں کو ہوتا ہے۔(سيوطی، شرح الصدور، 75)
امام الوہابیہ علامہ ابنِ قیم کہتے ہیں کہ شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ سے قبر کی زندگی کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا : العذاب والنعيم علیٰ نفس و البدن جميعاً باتفاق اهل سنت.
ترجمہ : عذاب و ثواب روح و جسم دونوں کو ہوتا ہے، اسی پر اہل سنت کا اتفاق ہے۔(ابن قيم، الروح، 72)
روح کے ساتھ جسم کو بھی عذاب و ثواب اس لیے ہوتا ہے کہ روح اور جسم کے درمیان ایک معنوی تعلق ہے۔ اس تعلق کے سبب روح پر وارد ہونے والی کیفیات جسم بھی محسوس کرتا ہے۔ عذاب و ثوابِ قبر کے لیے بدن کا سلامت ہونا ضروری نہیں ہے۔ جسم گل سڑ جائے، آگ میں جلا دیا جائے، سمندر میں غرقاب ہو جائے، درندوں کے پیٹ میں چلا جائے‘ روح کا جسم کے ساتھ تعلق ہونے کے سبب ان تمام صورتوں میں بھی جسم پر اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کی وضاحت امام جلال الدین سیوطی نے ان الفاظ میں کی ہے کہ : عذاب قبر سے مراد عالمِ برزخ کی زندگی کا عذاب ہے۔ اسے عذابِ قبر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ مردوں کو قبروں میں دفنایا جاتا ہے‘ ورنہ ہر میت قبر میں دفن ہو یا نہ ہو جب بھی اللہ اسے عذاب دینا چاہے گا ضرور پہنچائے گا ۔ (سيوطی، شرح الصدور، 75،چشتی)
قرآن مجید نے فرعونیوں کے عذابِ قبر، یعنی عالم برزخ کے عذاب کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے : فَوَقَاهُ اللَّهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ. النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ. وَإِذْ يَتَحَاجُّونَ فِي النَّارِ فَيَقُولُ الضُّعَفَاءُ لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ أَنتُم مُّغْنُونَ عَنَّا نَصِيبًا مِّنَ النَّارِ.
ترجمہ : پھر اللہ نے اُسے اُن لوگوں کی برائیوں سے بچا لیا جن کی وہ تدبیر کر رہے تھے اور آلِ فرعون کو بُرے عذاب نے گھیر لیا۔ آتشِ دوزخ کے سامنے یہ لوگ صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں اور جس دن قیامت بپا ہوگی (تو حکم ہوگا:) آلِ فرعون کو سخت ترین عذاب میں داخل کر دو۔ اور جب وہ لوگ دوزخ میں باہم جھگڑیں گے تو کمزور لوگ ان سے کہیں گے جو (دنیا میں) بڑائی ظاہر کرتے تھے کہ ہم تو تمہارے پیروکار تھے سو کیا تم آتشِ دوزخ کا کچھ حصّہ (ہی) ہم سے دور کر سکتے ہو؟ (الْمُؤْمِن، 40: 45-47)
اللہ تعالی نے اس آیت میں یہ بیان کیا ہے کہ آل فرعون صبح اور شام عذاب پر پیش کیے جاتے ہیں حالانکہ قیامت قائم نہیں ہوئی۔ اسی آیت سے علماء کرام نے عذاب قبر کا ثبوت لیا ہے۔ فرعونیوں اور اُن جیسے کافروں کو قیامت سے پہلے بھی صبح و شام عذاب ہوتا ہے‘ یہی عذابِ قبر ہے یا برزخ کا عذاب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہی منافقینِ مدینہ کے بارے میں بتایا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے : وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُواْ عَلَى النِّفَاقِ لاَ تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَى عَذَابٍ عَظِيمٍ.
ترجمہ : اور (مسلمانو!) تمہارے گرد و نواح کے دیہاتی گنواروں میں بعض منافق ہیں اور بعض باشندگانِ مدینہ بھی، یہ لوگ نفاق پر اڑے ہوئے ہیں، آپ انہیں (اب تک) نہیں جانتے، ہم انہیں جانتے ہیں۔ عنقریب ہم انہیں دو مرتبہ عذاب دیں گے پھر وہ (قیامت میں) بڑے عذاب کی طرف پلٹائے جائیں گے۔(اسورۃ لتَّوْبَة، 9: 101)
یعنی منافقین کے لیے ایک مرتبہ دنیا میں ذلت کا عذاب‘ دوسری مرتبہ عالمِ برزخ کا عذاب اور اس کے بعد جہنم کا عذاب عظیم ہے۔
امام بخاری رحمۃ الله علیہ نے اپنی صحیح میں کچھ احادیث کی تخریج ایسی فرمائی ہے جس سے غیرمقلین بھی کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں : جیسا کہ معروف احادیث ہیں مردوں کی سماع جن سے ثابت ہوتی ہے، پر یہ غیر مقلدین، اہل راے ہونے کا پورا ثبوت دے کر ایسی صحیح احادیث کے مقابلے میں اپنا باطل قیاس کرتے ہیں. اور آقا علیہ السلام کے نہایت ہی واضح فرمان کو بھی رد کرتے ہیں ، چنانچہ امام بخاری نے حدیث کی تخریج سے پہلے باب باندھے، جن سے آپ کے عقیدے کی بھی وضاحت ہوتی ہے کہ آپ بھی فوت شدگان کے سننے، دیکھنے، ارد گرد کے ماحول سے آگاہ ہونے سب کا عقیدہ رکھتے تھے .
کیا آج کا کوئی غیر مقلد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو معاذ الله بدعقیدہ ہونے کا فتویٰ دیگا ؟
(1) باب الميت يسمع خفق ألنعال، ميت كا جوتوں کی آواز سننا،
(2) باب کلام المیت علی الجنازۃ‘‘۔یعنی جنازہ پر میت کے کلام کرنے کا بیان.
(3) دوسرے مقام پر یوں باب باندھا ہے۔ باب قول المیت وھو علی الجنازۃ قدمونی یعنی میت کا یہ کہنا جب کہ وہ ابھی جنازہ پر ہوتا ہے مجھے جلدی لے چلو.
.باب الميت يسمع خفق ألنعال، ميت كا جوتوں کی آواز سننا
العَبْدُ إذَا وُضِعَ فِي قَبْرهِ وَتَولَّى وَذَهَبَ أَصْحَابُهُ، حَتَّى إنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهمْ، أَتَاهُ مَلَكَانِ فَأَقْعَدَاهُ فَيَقُولاَنِ لَهُ: مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذا الرَّجُلِ محمَّدٍ صلَّى الله عليه وسلَّم ؟ فيقولُ: أَشْهدُ أنَّهُ عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ، فيُقَالُ: انْظُرْ إلَى مَقْعَدِكَ فِي النَّارِ أَبْدَلَكَ اللهُ بهِ مَقْعَداً مِنَ الْجَنَّةِ. قالَ النَّبيُّ صلى الله عليه وسلّم: فَيَراهُمَا جَمِيْعَاً، وَأمَّا الكَافِرُ أو الْمُنَافِقُ فَيَقولُ: لاَ أَدْرِي، كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ. فَيُقَالُ: لاَ دَرَيْتَ وَلاَ تَلَيْتَ، ثُمَّ يُضْرَبُ بِمْطَرَقَةٍ مِنْ حَديدٍ ضَربةً بَيْنَ أُذُنَيْهِ فَيَصِيْحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيَهُ إلاَّ الثَّقَلين.
ترجمہ : جب مردے کو قبر میں دفنایا جاتا ہے اور اُسکے اصحاب واپس پلٹتے ہیں تو وہ ان کے قدموں کی چاپ سنتا ہے۔ اور دو فرشتے اسکے پاس آتے ہیں اور اسے بٹھا دیتے ہیں اور یہ سوال کرتے ہیں: "تم اس آدمی (رسول ﷺ) کے متعلق کیا کہتے ہو؟" وہ کہتا ہے: "میں گواہی دیتا ہوں کو وہ اللہ کے عبد ہیں اور رسول ہیں۔" پھر اس سے کہا جاتا ہے: "دوزخ میں ذرا اپنی جگہ دیکھو، مگر اللہ نے اسکی بجائے تمہیں جنت دی ہے۔" پھر رسول ﷺ نے مزید فرمایا: "مردہ اپنی دونوں جگہیں دیکھتا ہے، مگر کافر یا منافق فرشتوں سے کہتا ہے: "میں نہیں جانتا، مگر میں وہی کہا کرتا تھا جو کہ دوسرے لوگ کہتے تھے۔" اس پر اُس سے کہا جائے گا: "نہ تم نے یہ جانا اور نہ تم نے (قران) سے ہدایت حاصل کی۔" پھر اس کے دونوں کانوں کے درمیان لوہے کی سلاخ سے چوٹ ماری جائے گی اور وہ چیخے گا۔ اور اِس کی یہ چیخ ہر مخلوق سنے گی سوائے جنات اور انسانوں کے۔"صحيح البخاري، كتاب الجنائز : رقم ١٣٣٨،چشتی)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ، وَتَوَلَّي عَنْهُ أَصْحَابُهُ وَ إِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ أَتَاهُ مَلَکَانِ فيُقْعِدَانِهِ، فَيَقُوْلاَنِ : مَا کُنْتَ تَقَوْلُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ لِمُحَمَّدٍ صلي الله عليه وآله وسلم، فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَيَقُوْلُ : أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُاﷲِ وَرَسُوْلُهُ. فيُقَالُ لَهُ : أنْظُرْ إِلَي مَقْعَدِکَ مِنَ النَّارِ، قَدْ أَبْدَلَکَ اﷲُ بِهِ مَقْعَداً مِنَ الْجَنَّةِ، فَيَرَاهُمَا جَمِيْعا. قَالَ وَأَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْکَافِرُ فَيُقَالُ لَهُ : مَاکُنْتَ تَقُوْلُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُوْلُ : لَا أَدْرِي! کُنْتُ أَقُوْلُ مَا يَقُوْلُ النَّاسُ! فَيُقَالُ : لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ، ويُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِيْدٍ ضَرْبَةً، فَيَصِيْحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيْهِ غَيْرَ الثَّقَلَيْنِ.
ترجمہ : بندے کو جب اس کی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے لواحقین واپس چلے جاتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر کہتے ہیں : تو اس شخص یعنی (سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق (دنیا میں) کیا کہا کرتا تھا؟ اگر مومن ہو تو کہتا ہے : میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس سے کہا جائے گا : (اگر تو ایمان نہ لاتا تو تیرا ٹھکانا جہنم میں ہوتا) جہنم میں اپنے اس ٹھکانے کی طرف دیکھ! اللہ تعالیٰ نے تجھے (نیک اعمال کے سبب) اس کے بدلے جنت میں ٹھکانا دے دیا ہے۔ پس وہ دونوں کو دیکھتا ہوگا، اور اگر منافق یا کافر ہو تو اس سے پوچھا جائے گا : تو اس شخص (یعنی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق (دنیا میں) کیا کہا کرتا تھا؟ وہ کہتا ہے : مجھے تو معلوم نہیں، میں وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے۔ اس سے کہا جائے گا : تو نے نہ جانا اور نہ پڑھا۔ اسے لوہے کے گُرز سے مارا جائے گا تو وہ (شدت تکلیف سے قبر میں) چیختا چلاتا ہے جسے سوائے جنات اور انسانوں کے سب قریب والے سنتے ہیں ۔
(بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب ماجاء في عذاب القبر، 1 : 462، رقم : 1308،)(مسلم، الصحيح، کتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب التي يصرف بها في الدنيا أهل الجنة وأهل النار، 4 : 2200، رقم : 2870)(أبوداود، السنن، کتاب السنة، باب في المسألة في القبر وعذاب القبر، 4 : 238، رقم :
4752)
قبر والا جوتوں کی آواز سنتا ہے سوالوں کے جواب دیتا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق سوال ہوگا جو پہچانے گا وہ نجات پائے گا۔(صحیح بخاری جلد دوم صفحہ 357 مترجم وہابی علماء)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إِذَا قُبِرَ الْمَيِّتُ أَوْ قَالَ أَحَدُکُمْ، أَتَاهُ مَلَکَانِ أَسْوَدَانِ أَزْرَقَانِ، يُقَالُ لِأَحَدِهِمَا : الْمُنْکَرُ، وَ الآخَرُ : النَّکِيْرُ، فَيَقُوْلَانِ : مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُوْلُ : مَا کَانَ يَقُوْلُ : هُوَ عَبْدُ اللّٰهِ وَ رَسُوْلُهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ، فَيَقُوْلَانِ : قَدْ کُنَّا نَعْلَمُ أَنَّکَ تَقُوْلُ هَذَا، ثُمَّ يُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فِي سَبْعِيْنَ، ثُمَّ يُنَوَّرُ لَهُ فِيْهِ، ثُمَّ يُقَالُ لَهُ : نَمْ، فَيَقُوْلُ : أَرْجِعُ إِلَی أَهْلِي فَأُخْبِرُهُمْ؟ فَيَقُوْلَانِ : نَمْ کَنَوْمَةِ الْعَرُوْسِ الَّذِي لَا يُوْقِظُهُ إِلَّا أَحَبُّ أَهْلِهِ إِلَيْهِ، حَتَّی يَبْعَثَهُ اللّٰهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِکَ وَ إِنْ کَانَ مُنَافِقًا قَالَ : سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُوْلُوْنَ فَقُلْتُ مِثْلَهُ لَا أَدْرِي فَيَقُوْلَانِ : قَدْ کُنَّا نَعْلَمُ أَنَّکَ تَقُوْلُ ذَلِکَ، فَيُقَالُ لِلْأَرْضِ الْتَئِمِي عَلَيْهِ فَتَلْتَئِمُ عَلَيْهِ فَتَخْتَلِفُ فِيْهَا أَضْلَاعُهُ فَلَا يَزَالُ فِيْهَا مُعَذَّبًا حَتَّی يَبْعَثَهُ اﷲُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِکَ.
ترجمہ : جب میت کو یا تم میں سے کسی ایک کو قبر میں داخل کیا جاتا ہے تو اس کے پاس سیاہ رنگ کے نیلگوں آنکھوں والے دو فرشتے آتے ہیں۔ ایک کا نام منکر اور دوسرے کا نام نکیر ہے۔ وہ دونوں اس میت سے پوچھتے ہیں۔ اس عظیم ہستی (رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں تو کیا کہتا تھا؟ وہ شخص وہی بات کہتا ہے جو دنیا میں کہا کرتا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بیشک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے (خاص) بندے اور رسول ہیں۔ فرشتے کہیں گے ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی کہے گا پھر اس کی قبر کو لمبائی و چوڑائی میں ستر ستر ہاتھ کشادہ کر دیا جاتا ہے اور نور سے بھر دیا جاتا ہے پھر اسے کہا جاتا ہے : (آرام سے) سو جا، وہ کہتا ہے میں واپس جاکر گھر والوں کو بتا آؤں۔ وہ کہتے ہیں نہیں، (اب تو نئی نویلی) دلہن کی طرح سو جاؤ، جسے گھر والوں میں سے اسے محبوب ترین شخص ہی اٹھاتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالی (روزِ محشر) اُسے اس کی خواب گاہ سے اٹھائے گا اور اگر وہ شخص منافق ہو تو (سوالات کے نتیجے میں) کہے گا : میں نے ایسا ہی کہا جیسا میں نے لوگوں کو کہتے ہوئے سنا، میں نہیں جانتا (وہ صحیح تھا یا غلط)۔ پس وہ دونوں فرشتے کہیں گے کہ ہم جانتے تھے کہ تم ایسا ہی کہو گے۔ پس زمین سے کہا جائے گا کہ اس پر تنگ ہو جا پس وہ اس پر اکٹھی ہو جائے گی یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک دوسری میں داخل ہو جائیں گی وہ مسلسل عذاب میں مبتلا رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو اس ٹھکانے سے اٹھائے گا۔
(ترمذي، السنن، کتاب الجنائز، باب : ما جاء في عذاب القبر، 3 : 383، رقم : 1071)(ابن حبان، الصحيح، 7 : 386، رقم : 3117)
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے ایک طویل روایت میں مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبر کے سوالات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : وَيَأتِيهِ مَلَکَانِ فَيُجْلِسَانِهِ فَيَقُولَانِ لَهُ : مَنْ رَبُّکَ؟ فَيَقُولُ : رَبِّيَ اﷲُ. فَيَقُولَانِ لَهُ : مَا دِينُکَ؟ فَيَقُولُ : دِينِيَ الإِسْلَامُ. فَيَقُولَانِ لَهُ : مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيکُمْ؟ قَالَ : فَيَقُولُ : هُوَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم . فَيَقُولَانِ : وَمَا يُدْرِيکَ؟ فَيَقُولُ : قَرَأتُ کِتَابَ اﷲِ فَآمَنْتُ بِهِ وَصَدَّقْتُ.
ترجمہ : اُس (میت) کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اُسے اُٹھا کر بٹھاتے ہیں اور اُس سے پوچھتے ہیں : تیرا رب کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے : اﷲ میرا رب ہے۔ فرشتے اُس سے سوال کرتے ہیں : تیرا دین کیا ہے؟ وہ جواب دیتا ہے : اسلام میرا دین ہے۔ فرشتے اُس سے پوچھتے ہیں : یہ شخص (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جو تمہارے درمیان مبعوث ہوئے کون ہیں؟ وہ جواب دیتا ہے : وہ اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ فرشتے اُس سے پوچھتے ہیں : تجھے یہ کیسے معلوم ہوا؟ وہ جواب دیتا ہے : میں نے اﷲ تعالیٰ کی کتاب (قرآن مجید) پڑھی، لہٰذا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کی ۔ (أبو داود، السنن، کتاب السنة، باب في المسألة في القبر وعذاب القبر، 4 : 239، رقم : 4753،چشتی)
عن عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنهما أنّ رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ذکر فتاني القبر فقال عمر بن الخطاب : وأترد علينا عقولنا يا رسول اﷲ؟ فقال : نعم کهيئتکم اليوم قال : فبفيه الحجر.
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبر کے فرشتوں کا ذکر فرمایا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا ہمیں ہماری یہ سمجھ بوجھ لوٹا دی جائے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بالکل! آج جیسی ہی سوجھ بوجھ (قبر میں) دی جائے گی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : فرشتے کے منہ میں پتھر (یعنی میں اس کو خاموش کرا دوں گا)۔
(ابن حبان، الصحيح، 7 : 384، رقم : 3115)(أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 172، رقم : 6603)(هيثمي، موارد الظمأن، 1 : 196، رقم : 778)(هيثمي، مجمع الزوائد، 3 : 47)(منذري، الترغيب والترهيب، 4 : 193، رقم : 5391)
احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہوا کہ قبر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہچان کا لازمی سوال ہو گا اور اس میں کامیابی ہی نجات کا باعث ہو گی۔ معلوم ہوا کہ عالم برزخ میں نجات کا واسطہ و وسیلہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک ہی ہیں پس جو شخص دنیا میں ذات رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنا تعلق مضبوط کرے گا اسے عالم برزخ میں بھی اسی واسطہ کے باعث نعمتوں بھرا جنت کا ٹھکانا نصیب ہو گا ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment