برطانوی انگریز جاسوس ہمفرے کے چشم کشا انکشاف
اس کتاب کے مطالعے نے مجھے تھوڑا سا حیران کر دیا ۔ حیرانی کے اس عالم میں میں نے اس کتاب میں بیان کئے گئے واقعات کی تصدیق دوسرے مواد سے کی تو راز کھلا کہ اس میں بیان کئے گئے واقعات و حالات کافی حد تک درست ہیں ۔
یہ کتاب ایک برطانوی جاسوس ہمفرے کی ڈائری ہے جس میں اس نے نہ صرف اپنی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی ہے بلکہ برطانیہ کے وزارت نو آبادیات کے منشور، مقاصد اور منصوبوں کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ آج کا برطانیہ وہ نہیں جو تین صدیاں قبل تھا کیونکہ اس وقت برطانیہ ایک عالمی قوت تھا جو مختلف ممالک کو سازشوں، جوڑ توڑ، معاشرتی نفاق، رشوت اور عسکری قوت کے بل پر اپنی کالونی یعنی غلام بنا رہا تھا اور ان ممالک کے وسائل پر قابض ہو کر اپنی معاشی ترقی کی راہیں تراش رہا تھا۔ اگرچہ یہ کتاب تین صدیاں پرانی داستان بے نقاب کرتی ہے لیکن اس میں بیان کی گئی بنیادی سچائیاں، خاص طور پر مسلمان معاشرے کی کمزوریاں، مذہبی نفاق، فرقہ بندی، ترقی کی خواہش اور حکمت عملی کا فقدان، غلط عقائد کی پیدا کردہ بے عملی اور بدعملی، جہالت کے سبب پسماندگی وغیرہ وغیرہ آج بھی اسی طرح موجود ہیں جس طرح تین چار صدیاں قبل موجود تھیں۔ نتیجے کے طور پر مسلمان معاشرہ جو پچاس سے زیادہ ملکوں پر محیط ہے تین صدیاں گزرنے کے باوجود تقریباً وہیں کھڑا ہے اور ہر دن سائنسی، تکنیکی ، علمی اور معاشی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ رہا ہے۔ سنگا پور، کوریا، جاپان، چین جیسے ممالک جو چند صدیاں قبل قابل توجہ بھی نہیں سمجھے جاتے تھے آج ترقی کی دوڑ میں تیزی سے منزلیں طے کر رہے ہیں اسلامی دنیا کے پچاس سے زیادہ ممالک میں سے فقط آپ دو مثالوں کا ذکر کرتے ہیں جو ملائشیا اور انڈونیشیا اور تھوڑی حد تک یو اے ای تک محدود ہیں۔ اسلامی دنیا میں سائنس، تعلیم، مالیات کے میدانوں میں آگے بڑھنے کی سب سے بڑی صلاحیت اور وسائل پاکستان کے پاس تھے لیکن گزشتہ تیس چالیس برسوں میں ساری امیدیں خاک میں مل گئیں۔ یہ اسلامی تاریخ کا ایک بڑا سانحہ ہے کہ ہندوستان نے سیاسی حکمت عملی اور عسکری قوت کی بنا پر پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا لیکن یہ سانحہ بھی کسی سانحے سے کم نہیں کہ پاکستان ٹوٹنے کے باوجود تمام تر انسانی اور قدرتی وسائل کے باوجود ترقی نہ کر سکا۔ بلاشبہ پاکستان ایٹمی قوت بن گیا لیکن سیاسی، معاشی، تعلیمی اور سائینسی قوت نہ بن سکا حالانکہ یہ منزلیں طے کرنے کے لئے پاکستان کے پاس وسائل موجود تھے۔ اب تو خیر عالمی سطح پر ترقی کا ذکر ہی کیا پاکستان کو سیاسی عدم استحکام، لوڈ شیڈنگ، مذہبی تشدد اور معاشی پسماندگی کے ”لالے پڑے“ ہوئے ہیں اور یہ سب کچھ ہماری بے بصیرت حکمت عملی، کرپشن اور سیاسی قیادت کی نااہلی کا کیا دھرا ہے۔ دو دہائیاں قبل اور اس سے قبل پاکستان ٹیکسٹائل کے میدان میں عالمی سطح پر ممتاز مقام رکھتا تھا لیکن آج صورت یہ ہے کہ ہماری چالیس فیصد ٹیکسٹائل بنگلہ دیش اور بہت سی تھائی لینڈ سپین اور یو اے ای منتقل ہو چکی ہے۔ یہ معاشی خود کشی نہیں تو اور کیا ہے؟
ہاں تو میں انگلستان کے جاسوس ہمفرے کی ڈائری کا ذکر کر رہا تھا جسے انگلستان کی وزارت برائے نوآبادیاتی علاقوں نے 1710 میں مصر، عراق، ایران، حجاز اور عثمانی خلافت میں جاسوسی پر مامور کیا اور جو اپنے ملک کی خدمت اور برطانوی استعمار کو ترقی دینے کے خواب آنکھوں میں سجا کر اپنا گھر بار چھوڑ کر ایک خطرناک سفر پر روانہ ہو گیا۔ اس کے اپنے الفاظ کے مطابق ”مجھے ان علاقوں میں وہ راہیں تلاش کرنی تھیں جن سے مسلمانوں کو درہم برہم کر کے مسلم ممالک میں سامراجی نظام رائج کیا جا سکے۔ میرے ساتھ نوآبادیاتی علاقوں کی وزارت کے نو اور بہترین تجربہ کار جاسوس اسلامی ممالک میں اس کام پر مامور تھے اور بڑی تندہی سے انگریز سامراج کے اثر ونفوذ اور استحکام کیلئے سرگرم عمل تھے۔ ان وفود کو وافر سرمایہ فراہم کیا گیا تھا۔ یہ حضرات مرتب شدہ نقشوں اور تازہ اطلاعات سے بہرہ مند تھے۔ ان کو امراء، وزراء، حکومتی اعلیٰ عہدیداروں، علماء اور روساء کے ناموں کی مکمل فہرست دی گئی تھی۔ میرے ذمے دو اہم کام تھے۔ اول ترکی زبانی پر عبور حاصل کرنا اور اس کے بعد عربی زبان، قرآن اس کی تفسیر اور پھر فارسی سیکھنا اور مہارت کے اعتبار سے اس پر پوری دسترس حاصل کرنا تاکہ مجھ میں اور وہاں کے لوگوں میں کوئی فرق محسوس نہ ہو۔ ہمفرے تھکا دینے والے سفر کے بعد استنبول (قسطنطنیہ) پہنچا، بحری جہاز سے اترنے سے پہلے اپنا نام محمد رکھا اور شہر کی جامع مسجد میں داخل ہو گیا۔ پھر اس نے شہر کے ایک نیک اور بزرگ عالم احمد آفندی سے تعلقات استوار کئے۔ ”احمد آفندی دن رات عبادت میں مشغول رہتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اپنی زندگی کا مطمع نظر بنائے ہوئے تھا۔ اسے جب معلوم ہوا کہ میں غریب الوطن اور یتیم ہوں اور عثمانی سلطنت کیلئے کام کر رہا ہوں جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی جانشین ہے تو وہ مجھ پر مہربان ہو گیا۔“ شیخ سے ہمفرے نے جس طرح عربی، قرآن، تفسیر اور تجدید پڑھی، اس میں دو برس لگ گئے کس طرح ہمفرے راتیں مسجد میں سو کر گزارتا تھا اور مسجد کے خادم کو کچھ رقم دے کر راضی رکھتا تھا یہ تفصیلات خاصی دلچسپ ہیں۔ شیخ کو جب معلوم ہوا ہمفرے غیر شادی شدہ ہے تو اس نے اسے شادی کا مشورہ دیا اور اس مقصد کے لئے اپنی ہی بیٹی کا انتخاب کیا لیکن ہمفرے نے نہایت مودبانہ انداز سے اپنے آپ کو شادی کے ناقابل ظاہر کر کے خود کو شادی اور شیخ کی ناراضگی سے محفوظ کر لیا۔ استنبول میں دو سال قیام کے دوران ہمفرے ہر ماہ رپورٹ بھجواتا رہا۔ پھر اس کی وزارت نے اسے واپس بلا لیا تاکہ وہ کچھ دن اپنے خاندان کے ساتھ گزارے، وزارت کو زبانی بریفنگ دے اور مزید تربیت لے کر کسی اور مسلم ملک میں فرائض کی سرانجام دہی کے لئے بھیج دیا جائے۔ لندن میں ہمفرے نے اپنی وزارت کو تفصیلی رپورٹ دی، وزیر اس کی ترکی، عربی، تجوید قرآن اور اسلامی شریعت پر دسترس سے بہت خوش تھا۔ چنانچہ اس نے کہا ”آئندہ کے لئے تمہیں دو اہم باتوں کا خیال رکھنا ہے۔ (1) مسلمانوں کی ان کمزوریوں کی نشاندہی کرو جو ہمیں ان تک پہنچنے اور ان کے مختلف گروہوں میں پھوٹ ڈالنے میں مددگار ثابت ہوں (2) کمزوریاں جان لینے کے بعد تمہارا کام ان میں پھوٹ ڈالنا ہے۔ چھ ماہ لندن میں گزارنے کے بعد ہمفرے کی منزل بصرہ تھی۔“ صرف اتنا ذہن میں رکھیں جو کام سترہویں اٹھارویں اور انیسیویں صدی میں انگلستان کر رہا تھا وہی کام گزشتہ ایک صدی سے دوسری بڑی قوت کر رہی ہے۔ مقاصد اور حکمت عملی وہی ہے البتہ انداز اور طریقہ واردات جدید سوچ، ماڈرن ایجوکیشن اور ٹیکنالوجی میں ڈھل گئے ہیں۔
ہمفرے نے اپنی کتاب ”ہمفرے کے اعترافات“ میں لکھا ہے کہ وہ جب استنبول کے ممتاز سکالر شیخ احمد آفندی سے وزارتِ قرآن کی تجوید اور تفسیر سیکھنے میں مصروف تھا تو روزی کمانے کا بھرم قائم رکھنے کے لئے نصف دن خالد بڑھئی کی دکان پر کام کرتا تھا۔ جہاں سے اسے حقیر سی رقم مل جاتی تھی۔ خالد بڑھئی اچھے کردار کا حامل نہ تھا۔ خالد نے اسے ایک بداخلاقی پر مجبور کیا۔ ہمفرے ہر ماہ رپورٹ برطانوی حکومت کو بھجواتا تھا۔ ایک رپورٹ میں اس نے خالد کی بدکرداری کا ذکر کیا تو اسے نوآبادیاتی وزارت کی طرف سے حکم ملا کہ وطن کی خدمت کے لئے ہر قسم کا کام کر گزرو۔ مطلب یہ کہ جاسوسی کی دنیا میں اخلاقیات نامی کوئی شے نہیں ہوتی اور اس میدان میں مقصد کے حصول کے لئے ہر قسم کے ہتھکنڈے جائز سمجھے جاتے ہیں۔ اس حکمت عملی نے برطانوی انٹیلی جنس کو کس طرح اپنے مقاصد میں کامیاب کیا، اس کا ذکر بعد میں آئے گا۔
دو سال کے دوران قرآن، تفسیر، حدیث اور تجوید پر عبور حاصل کرنے کے بعد جب وہ لندن پہنچا اور وزارت نوآبادیاتی علاقے کو رپورٹ دی تو اسے پتہ چلا کہ اس کے باقی جن نو ساتھیوں کو لندن بلایا گیا تھا ان میں صرف پانچ واپس لوٹے تھے۔ غائب شدگان میں ایک نے مصر میں شادی کرکے وہیں رہائش اختیار کرلی تھی لیکن وزارت کا سیکرٹری خوش تھا کہ اس نے راز فاش نہیں کئے۔ دوسرا جاسوس روسی نژاد تھا۔ وہ روس پہنچا تو وہیں بودوباش اختیار کرلی۔ تیسرا بغداد کے ہیضے میں مر گیا۔ چوتھا صنعا میں کہیں گم ہو گیا۔ وزارت برائے نوآبادیاتی علاقے نے جاسوسی کا وسیع جال بچھا رکھا تھا۔ اس جاسوسی کے جال کے تحت نہ صرف اپنے جاسوسوں کی نگرانی کی جاتی تھی اور ان کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کی جاتی تھی بلکہ ان کی بھیجی گئی رپورٹوں کی خفیہ تصدیق بھی کی جاتی تھی۔ اس ساری واردات کو جاسوس سے پوری طرح اوجھل رکھا جاتا تھا۔
لندن میں جب ہمفرے اپنی وزارت کے سیکرٹری سے ملا تو ہمفرے کے الفاظ میں ”سیکرٹری نے میری آخری رپورٹ کے اہم حصوں کے مطالعے کے بعد مجھے کانفرنس میں شرکت کی ہدایت دی جس میں لندن میں بلائے گئے پانچوں جاسوسوں کی رپورٹیں سنی جانا تھیں۔ یہ کانفرنس وزیرخارجہ کی صدارت میں ہوئی اور اس میں میرے ساتھیوں کی رپورٹوں کے اہم حصوں کو پڑھ کر سنایا گیا۔ میری رپورٹ کو بہت سراہا گیا تاہم ان پانچ میں کارکردگی کے حوالے سے مجھے نمبر تین پوزیشن پر رکھا گیا اور جی بلگوڈ کو نمبر ون اور ہنری فانس کو نمبر دو قرار دیا گیا۔ میں نے ترکی عربی تجوید قرآن اور اسلامی شریعت میں سب سے زیادہ دسترس حاصل کی تھی لیکن عثمانی حکومت (سلطنت عثمانیہ ترکی) کے زوال کے سلسلے میں میری رپورٹ اعلیٰ درجے کی نہیں تھی۔ سیکرٹری نے کانفرنس کے اختتام پر میری کمزوری کا ذکر کیا اور کہا کہ آئندہ دو باتوں کا خیال رکھنااول مسلمانوں کی ان کمزوریوں کی نشاندہی کرو جو ہمیں ان تک پہنچنے اور ان کے مختلف گروہوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے میں کامیابی فراہم کریں۔ دوم تمہارادوسرا کام ان میں پھوٹ ڈالنا ہے۔ اس کام میں پوری قوت صرف کرنے کے بعد تمہیں اطمینان ہوجاناچاہئے کہ تمہارا شمار صف اول کے انگریز جاسوسوں میں ہونے لگا ہے اور تم اعزازی نشان کے حقدار ہوگئے ہو۔“ چھ ماہ لندن میں گزارنے اور شادی کے بعد جب ہمفرے کو نئے مہمان یعنی بچی بچے کا انتظار تھاتو اسے فوری طور پر عراق پہنچنے کاحکم ملا جو اس وقت خلافت ِ عثمانیہ کا حصہ تھا۔ کئی ماہ سمندروں میں دھکے کھانے اور گزارنے کے بعد ہمفرے بصرہ پہنچا۔ ہمفرے لکھتاہے: ”بصرہ میں عیسائیوں کی تعداد کم تھی۔ زندگی میں پہلا موقع تھاکہ میں اہل تشیع اور ایرانیوں سے مل رہا تھا… شیعہ سنی اختلافات کا ناقابل فہم پہلو ان کا مسلسل جاری رہنا ہے۔ اگرمسلمان حقیقتاً عقل سے کام لیتے تو تاریخ اور گزشتہ زمانے کی بجائے آج کے بارے میں سوچتے۔ ایک دفعہ میں نے شیعہ سنی اختلافات کے موضوع کو نوآبادیاتی علاقوں کی وزارت کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا ”مسلمان اگر زندگی کاصحیح مفہوم سمجھتے تو اختلافات کو چھوڑ کر وحدت و اتحاد کی بات کرتے“ اچانک صدر کانفرنس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا ”تمہارا کام مسلمانوں کے درمیان اختلاف کی آگ بھڑکانا ہے نہ کہ اتحاد کی دعوت دینا“
”عراق جانے سے پہلے سیکرٹری نے اپنی ایک نشست میں مجھ سے کہا ”ہمفرے! تم جانتے ہو کہ جنگ اور جھگڑے انسان کے لئے ایک فطری امر ہیں۔ جب سے خدا نے آدم کو خلق کیا اور ہابیل اورقابیل پیدا ہوئے اختلاف نے سر اٹھایا اور اب اس کو حضرت عیسیٰ کی بازگشت تک اسی طرح جاری رہنا ہے۔ ہم انسانی اختلافات کو پانچ موضوعات پرتقسیم کرتے ہیں۔ (۱) نسلی اختلافات (۲) قبائلی اختلافا ت (۳) ارضی اختلافات (۴) قومی اختلافات (۵) مذہبی ختلافات۔ اس سفر میں تمہارا اہم ترین مشن مسلمانوں کے درمیان اختلافات کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنا اور انہیں ہوا دینے کے طریقوں کو سیکھنا ہے۔ اس سلسلے میں جتنی بھی معلومات مہیا ہوسکیں انہیں لندن پہنچانا ہے۔ اگر تم اسلامی ممالک کے بعض حصوں میں شیعہ سنی فساد برپا کرسکو توگویا تم نے حکومت ِ برطانیہ کی عظیم خدمت کی۔ جب تک ہم نوآبادیاتی علاقوں (کالونیز) میں تفرقہ او ر اختلافات کی آگ کو ہوا نہیں دیں گے ہم عثمانی سلطنت کو شکست نہیں دے سکتے۔ اتنے بڑے علاقے پر انگریزوں کی مختصر سی قوم سوائے اس ہتھکنڈے کے اور کس طرح چھا سکتی ہے؟“
”بصرہ پہنچ کر میں ایک مسجد میں داخل ہوا جس کے پیش امام مشہور عالم شیخ عمر طائی تھے۔ میں نے ادب سے سلام کیا اور پوچھنے پر بتایا کہ میں ترکی کا رہنے والا ہوں اور مجھے قسطنطینہ کے شیخ احمد آفندی کی شاگردی کا شرف حاصل ہے۔ میں نے وہاں خالد بڑھئی کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔ مسجد میں چند دن گزارنے کے بعد میں نے دو تین مسافر خانے بدلے اوربالٓاخر ایک ترکھان کی دکان پراس شرط میں نوکری کرلی کہ وہ مجھے رہنے سہنے کی سہولت بھی دے گا۔ ترکھان عبدالرضا شریف انسان تھا اور مجھ سے بیٹوں جیسا سلوک کرتاتھا۔ وہ خراسانی شیعہ تھا چنانچہ میں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اس سے فارسی سیکھنا شروع کی۔ ترکھان کی دکان پر میری ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جو وہاں اکثر آتا جاتا رہتا تھا اورترکی، فارسی اور عربی میں گفتگو کرتا تھا۔ وہ دینی طالب علمو ں کا لباس پہنتا تھا اور جاہ طلب انسان تھا۔ اسے عثمانی حکومت سے نفرت تھی لیکن حکومت ایران سے اس کاکوئی سروکار نہیں تھا۔ سنی ہونے کے باوجود اس کی شیعہ ترکھان سے دوستی تھی۔ بہرحال وہ آزاد خیال انسان تھا اور کہا کرتا تھاکہ حنفی، شافعی، حنبلی اور مالکی مکاتب فکر میں سے کسی کسی بھی اہمیت نہیں کیونکہ خدا نے جو کچھ قرآن میں کہہ دیا ہے بس وہی ہمارے لئے کافی ہے۔ اس کا قرآن و حدیث کا مطالعہ بہت اچھا تھا۔ وہ بات بات پر کہتا کہ پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف کتاب اور سنت کو ناقابل تغیر اصول بنا کر ہمارے لئے پیش کیا ۔پس ہم پر واجب کہ ہم صرف کتاب و سنت کی پیروی کریں۔ اس کی اکثر مذہبی حوالے سے دوسروں سے جھڑپیں ہوتی رہتی تھیں اور مجھے اس کی گفتگو میں بڑا مزا آتا تھا۔ میں نے اس سے دوستی قائم کرلی۔ میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ شخص برطانوی حکومت کے مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بہت موزوں ہے۔ اس کی اونچا اڑنے کی خواہش ، جاہ طلبی، علما و مشائخ سے دشمنی اور خودسری سے فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا۔ میں نے اس سے گہرے تعلقات قائم کرلئے اور بار باراس کے کانوں میں یہ رس گھولتا رہتا کہ اللہ نے تمہیں بڑی فضیلت اور بزرگی بخشی ہے۔ میں چاہتا ہوں اسلام میں جس انقلاب کو رونما ہونا ہے وہ تمہارے ہی مبارک ہاتھوں سے انجام پذیر ہو۔ تم ہی وہ شخصیت ہو جو اسلام کو زوال سے بچا سکتے ہو۔
ہمفرے نے اس شخص (محمد بن عبد الوھاب نجدی) کو مذہبی تاویلوں کے ذریعے کس طرح اپنے جال میں پھنسایا، اسے خفیہ جنسی لذت اور شراب کا عادی بنایا اور مسلمانوں میں تفرقے کے لئے استعمال کیا۔
ہمفرے کے دلچسپ اعترافات کا ذکر کرنے سے پہلے میںآ پ کی توجہ ایک برطانوی اخبار میں چھپنے والی خبر کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں ۔ آج سے دس سال قبل سنڈے ٹائمز میں پانچ مئی 2002 کو خبرچھپی تھی کہ کئی درجن برطانوی مشنریوں کو خفیہ سرگرمیوں کے لئے مختلف حیلے بہانے سے مسلمان ممالک میں بھجوایا جارہا ہے۔ ان کو وہاں مختلف نوکریاں لے کردی جارہی ہیں تاکہ وہ ان کی آڑ میں خفیہ کام کرسکیں“ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کو مسلمان ممالک میں بھجوانے سے پہلے اسلامی تعلیمات دی جاتی ہیں تاکہ وہ لوگوں میں گھل مل سکیں۔ کچھ عرصہ قبل ایک ہندوستانی خفیہ ایجنٹ نے وطن واپس پہنچ کر انکشاف کیا تھا کہ وہ پاکستان میں ایک مسجد کا امام رہا۔ آپ کو وہ پرانا واقعہ یاد ہوگا کہ گوجرانوالہ کے علاقے سے ”را“ (RAW) کا ایک ہندو ایجنٹ پکڑا گیا تھا جو کئی سا ل سے امام مسجد کے فرائض سرانجا م دے رہا تھا اور لوگوں کو مذہبی فرقہ بندی کے ذریعے بھڑکاتا تھا۔ مختصر یہ کہ مسلمان ساہ لوح لوگ ہیں اور آسانی سے فرقہ بندی کے جھانسے میں آجاتے ہیں اور یہی وہ راستہ ہے جہاں سے غیرممالک کے خفیہ ایجنٹ داخل ہو کر مسلمانوں میں منافرت پھیلاتے اور اپنا کھیل کھیلتے ہیں۔چند رو ز قبل ایک برطانوی پاکستانی بزرگ ملنے آئے۔ ان کا تعلق کتاب اور تحقیق سے ہے۔ باتوں باتوں میں انکشاف کیا کہ ایک امریکی سے ان کی دوستی ہوگئی۔ وہ اس کی پاکستان اور خاص طور پر فاٹا کے علاقے کی معلومات سے بے حد متاثر ہوئے۔ پھر راز کھلا کہ وہ صاحب اسلامی تعلیمات کے ماہر تھے اور وزیرستان کے کسی قصبے یا دیہات میں کئی برس تک امامت فرماتے اور معلومات اکٹھی کرکے سی آئی اے کو بھجواتے رہے تھے۔ اس وقت بھی پاکستان میں امریکی، برطانوی، ہندوستانی اورکئی ممالک کے جاسوسوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ میں سنڈے ٹائمز کی خبر پڑ ھ رہا تھا تو مجھے ”ہمفرے کے اعترافات“ کا ایک صفحہ یاد آگیا۔ آپ بھی پڑھئے ”میں چھٹی پر لندن گیا ہوا تھا۔ نو آبادیاتی امور کے خصوصی کمیشن کی مرضی کے مطابق وزیر نے یہ حکم دیا کہ مجھے دو اہم رازوں سے آشنا کیا جائے۔ جن سے صرف چندایک ممبران آگاہ ہیں۔ مجھے وزارت کے ایک کمرے میں لے جایا گیا جہاں لوگ گول میز کے اردگرد بیٹھے تھے۔ انہیں دیکھ کر میری چیخ نکل گئی کیونکہ اجلاس میں شریک آدمیوں کی کیفیت کچھ یوں تھی (1) ہوبہو سلطنت عثمانی کا جلالت، ترکی اور انگریزی پر مہارت (2) لباس، انداز قسطنطنیہ کے شیخ الاسلام کی سو فیصد نقل (3) دربار ایران کے شیعہ عالم کی مکمل شبیہ (4) نجف میں شیعوں کے مرجع تقلید کا بے مثل سراپا۔ آخری تین حضرات فارسی کے ماہر تھے۔ پانچوں سوانگی اپنے فرائض اور مقام و منصب سے بخوبی آشنا تھے۔ ہمفرے کو ان کا امتحان لینے کے لئے کہا گیا۔ اس نے کئی سوالات کئے۔ جوابات نہایت ماہرانہ انداز سے خالصتاً مسلمان عالموں کے لہجے میں دیئے گئے جن کی تفصیل کتاب میں موجود ہے۔
ہمفرے نے محمد بن عبد الوھاب نجدی سے گہری دوستی قائم کرلی اور باتوں باتوں میں اسے ٹٹولنے اور اپنے جال میں پھنسانے لگا ۔ ایک دن ہمفرے نے اس سے پوچھا ” عورتوں کے ساتھ متعہ جائز ہے؟ “ جواب تھا ہرگز نہیں ۔ پھر ہمفرے نے بہت سی دلیلیں دے کر اسے خاموش کر دیا اور وقفے کے بعد پوچھا کیا تم متعہ کے ذریعے زندگی پرمسرت بنانا چاہتے ہو ؟ اس نے رضا کی علامت سے سر جھکا دیا ۔ ہمفرے نے اسے یقین دلایا کہ سب کچھ خفیہ رہے گا اور میں تمہارے لئے انتظام کروں گا ۔ پھر ہمفرے اسے ایک بدقماش عورت کے پاس لے گیا جو برطانوی وزارت نوآبادیاتی کی طرف سے بصرہ میں عصمت فروشی کا اڈا چلاتی تھی اور مسلمان نوجوانوں کو بے راہ روی پر ابھارتی تھی ۔ اس کا جعلی نام صفیہ تھا ۔ ہمفرے اپنے شکار کو اس کے پاس لے گیا اور ایک اشرفی مہر پر ایک ہفتے کے لئے صفیہ سے اس کا عقد کردیا ۔ پھر یہ سلسلہ بڑھتا رہا ۔ اپنے شکار کو صفیہ کے جال میں پھنسانے کے بعد ہمفرے نے اسے شراب پر آمادہ کرنے کے لئے تاویلیں دیں کہ صرف وہ شراب منع ہے جو نشہ آور ہو، یادِ خدا او ر نماز سے باز رکھے ۔ چنانچہ شراب میں پانی ملا کر پینا جائز ہے ۔ ہمفرے نے اپنی سازش سے صفیہ کو بھی آگاہ کر دیا جو اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے بندوبست کرنے لگی ۔ ہمفرے لکھتا ہے کہ اس موقعہ پر مجھے وزیر نوآبادیاتی علاقے کی بات یاد آئی جو اس نے الوداع کے وقت کہی تھی ”ہم نے اسپین کو مسلمانوں سے شراب اور جوئے کے ذریعے دوبارہ حاصل کیا۔ اب انہی دو طاقتوں کے ذریعے دوسرے علاقوں کو پامردی کے ساتھ واپس لینا ہے“
مختصر یہ کہ ہمفرے دن رات اپنے شکار کے ساتھ رہنے لگا اور مسلسل رپورٹ اپنی وزارت کو بھجواتا رہا جس کی تصدیق وزارت براہ راست صفیہ سے بھی کرتی تھی اوردوسرے ایجنٹوں کے ذریعے بھی ۔ ہمفرے لکھتا ہے کہ پھرایک دن اس نے ایک جھوٹا خواب گھڑا ۔ اپنے شکار کے مذہبی جذبات کو ابھارا اور اسے مذہبی فرقہ بندی پر مائل کرلیا ۔ میں تو فقط دامن بچا بچا کر آپ کو یہ بتا رہا ہوں کہ ہمفرے نے اپنے نشانے پر کس طرح تیر چلائے۔
اس کے بعد ہمفرے وزارت کے حکم کے تحت کربلا اور نجف چلا گیا ’ایک بربری سوداگر کے بھیس میں نجف پہنچا اور وہاں کے شیعہ علما سے راہ و رسم بڑھانے کے لئے ان کی درسی مجلسوں اور مباحثوں میں شامل ہونے لگا۔ نجف میں وہ ایک جان لیوا بیماری میں مبتلا ہوا بالآخر تین ہفتوں بعد افاقہ ہوا تو بغداد چلا گیا۔ یہاں ہمفرے نے ان علاقوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ بغداد سے ہمفرے نے عراق کے بارے میں سو صفحات پر مشتمل رپورٹ بغداد میں وزارت کے نمائندے کے ذریعے بھجوائی۔ اپنے شکار سے رابطہ کیا، زکوٰة کے نام پر اسے رقم فراہم کی اور اسے ایران بھجوا دیا۔
عراق سے متعلق رپورٹ نے وزارت کے دل جیت لئے ”چنانچہ مجھے لندن بلایا گیا کہ میں وزارت کے کمیشن کے سامنے رپورٹ پیش کروں۔ وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ وزارت نے کچھ افراد کو میرے پیچھے لگا رکھا تھا ان کی رپورٹوں نے میرے طرز ِ عمل اور معلومات کی تصدیق کی تھی۔ وزیر میرے شکار کے قابو آنے پر بہت خوش تھے۔
انہوں نے میرے شکار کے ساتھ عبدالکریم نامی شخص کو لگا دیا تھا جو اسے اصفہان میں ملا، گہری دوستی گانٹھ لی وغیرہ وغیرہ ۔ ہمفرے لکھتا ہے کہ جب وہ چھٹی پر لندن گیا تو وزارت کی جانب سے اسے ایک کتاب پڑھنے کے لئے دی گئی جو مسلمانوں کی پسماندگی پر سیرحاصل بحث کرتی تھی ۔ چند ایک بڑی کمزوریوں کا ذکر یوں تھا (1) شیعہ سنی اختلافات (2) حکمرانوں کے ساتھ قوموں کے اختلافات (3) قبائلی اختلافات (4) علماء اور حکمرانوں کے درمیان غلط فہمیاں (5) جہالت اور نادانی کی فراوانی (6) فکری جمود اور تعصب اور محنت سے جی چرانا (7) مادی زندگی سے بے توجہی اور جنت کے خواب ( حکمرانوں کے مظالم (9)امن وامان، سڑکوں، علاج معالجے وغیرہ کا فقدان (10) حکومتی دفاتر میں بد انتظامی، قاعدے قانون کا فقدان (11) اسلحہ دفاعی سامان کی کمی (12) عورتوں کی تحقیر (13) گندگی کے انبار اشیائے فروخت کے بے ہنگم ڈھیر۔ مسلمانوں کے ان کمزور پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے بعد لکھا گیا تھا کہ مسلمانوں کا طرز ِ زندگی شریعت اور اسلامی قوانین سے رتی برابر بھی میل نہیں کھاتا۔ مسلمانوں کو اسلام کی روح سے بے خبر رکھا جائے وغیرہ وغیرہ
ذرا غور کیجئے کہ جن کمزوریوں اور تلخ حقائق کا ذکر تین صدیاں قبل کیا گیا تھا کیا وہ آج بھی بدستور موجود نہیں؟ ان تین صدیوں میں دنیا ترقی کرتے کرتے کہاں پہنچ گئی لیکن مسلمان اسی طرح مذہبی نفرتوں، تشدد، جہالت، غربت ، پسماندگی وغیرہ کے شکار ہیں۔ میرے دوست الفت صاحب کا خیال ہے کہ یہ کتاب مصدقہ نہیں جبکہ لندن کے دو سکالر اس کے مصدقہ ہونے کی تصدیق کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ کتاب اس لنک پر موجود ہے (http://www.marfat.com/BookDetailPage.aspx?bookId=280a8d79-a35c-4858-9f1e-f08283ba272c) لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ جس طرح اس دور میں برطانوی استعمار نے مڈل ایسٹ میں مذہبی فرقہ بندی کی حکمت عملی بنائی اسی طرح انگریزوں نے 1857 کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں میں بھی اپنی آزمودہ حکمت عملی پر عمل کیا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment