Wednesday 28 February 2024

حروف تہجی اور حروف مقطعات قابلِ احترام ہیں

0 comments

حروف تہجی اور حروف مقطعات قابلِ احترام ہیں

محترم قارئینِ کرام : حروفِ تہجی  قابلِ احترام ہیں ، اس لیے ان حروف کو ایسی جگہ لکھنا جس سے اس کی بے ادبی کا اندیشہ ہو درست نہیں ہے ، یہاں تک کہ فقہاء کرام نے ذکر کیا ہے کہ اگر تیر کے نشانہ کی جگہ (ہدف) پر ابوجہل ، فرعون وغیرہ کا نام لکھا تو بھی اس پر تیر کا نشانہ لینا مکروہ ہے ، اس لیے ان حروف کی حرمت ہے ۔ لہٰذا پہننے کے کپڑوں پر اگر حروف تہجی پرنٹ ہوں تو  اس میں بعض صورتوں میں تو بے ادبی کا صدور اور بعض میں اس کا اندیشہ موجود ہے ، مثلاً قمیص وغیرہ پر اگر حروف پرنٹ ہوں تو اگرچہ ظاہر میں بے ادبی نہیں ہے ، لیکن اندیشہ ہے کہ دھلنے میں یا بعد میں پرانے ہونے کی صورت میں پھینکنے پر بے ادبی ہو گی ، اور اگر شلوار یا پائجامہ پر یہ حروف ہوں تو اس میں بے ادبی ہونا ظاہر ہے ، اس لیے ایسے کپڑوں کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے ۔ البتہ اگر کپڑے پر کتابت کا مقصد انہیں فریم وغیرہ کرا کر (جیسا کہ آیۃ الکرسی وغیرہ لکھی جاتی ہے) اونچی جگہ لگانا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ مسلمانوں کے جذبات ایمانی اتنے زیادہ کمزور ہو گئے کہ وہ اپنے وقار و شعار کو کھوتے ہوئے چلے جاتے ہیں ان کو اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ ہم کیا تھے اور کیا ہو گئے جب ان کی بے حسی اس درجہ بڑھ گئی اور حمیت اور غیرت ایمانی یہاں تک کم ہوگئی کہ دوسری قوموں میں جذب ہوتے جاتے ہیں پامردی اور استقلال کے ساتھ اسلامی روایات و احکام کی پابندی نہیں کرتے تو ان سے کیا امید ہو سکتی ہے کہ اسلامی احکام کا احترام کرائیں گے اور حقوق مسلمین کی پابندی کریں گے مسلم کے ہر فرد کو تعلیمات اسلام کا مجسمہ ہونا چاہیے اخلاق سلف صالحین کا نمونہ ہونا چاہیے اسلامی شعار کی حفاظت کرنی چاہیے تا کہ دوسری قوموں پر اس کا اثر پڑے ۔ (قانون شریعت صفحہ 470)

عربی حروف تہجی اور وہ بھی ایسے سٹائل اور خط میں جو قرآنی ہو اس کی قطعاً حمایت نہیں کی جا سکتی ، اور نہ اس کو جواز بنایا جاسکتا ہے ۔ اس عورت کو دیکھ کر احتجاج کرنے والے جاہل نہیں بلکہ اس بیہودہ گندے اور کمینے عمل کی حمایت کرنے والے پرلے درجے کے جاہل ، اجڈ اور دین بیزار ہیں ، جو اپنے آپ کو نام نہاد روشن خیالی کے پردے میں چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ کسی بھی زبان کے حروف تہجی کا بھی احترام ہوتا ہے اور ہم مسلمانوں کے ہاں عربی جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ہمارے قرآن اور ہمارے دین کی زبان ہے ہمارے لیے بہت محترم ہے ، ہم اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دے سکتے کہ کوئی شخص  ایسا لباس پہنے کہ اس لباس کی ایسی جگہوں پر قرآنی سٹائل میں حروف لکھے ہوں جہاں پیشاب اور گندگی بھی لگ سکتی ہے اور ان حروف کے اوپر پچھوڑا رکھ کر بیٹھنا بھی پڑتا ہے ۔ جن  لوگوں کے ہاں عربی حروف تہجی کا احترام نہیں وہ بے شک احترام  نہ کریں کوئی زبردستی نہیں لیکن اس کی آڑ میں سیکولرازم کے نظریات یعنی ”دنیوی معاملات کو کسی بھی آسمانی دین و مذہب سے دور رکھیں” کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی دین اسلام اور عربی زبان کی تضحیک کی اجازت دی جاسکتی ہے ۔

زبان انسانی مقاصد کے حصول باہم رابطے، جذبات کے اظہار اور علم کے حصول کا ذریعہ ہے ۔ یہاں تک کہ اللہ عزوجل سے ہمکلام ہونے کا ذریعہ بھی زبان ہی ہے۔ دنیا کی تمام حکومتوں ، اداروں اور تعلیمی اداروں کا سارا نظام زبان ہی کی مرہون منت ہے ۔ اللہ تعالیٰ بھی انسانوں کو کسی زبان میں ہی مخاطب کرتا ہے، انسانی تاریخ میں مختلف علاقوں اور مختلف ملکوں میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ان کی مختلف زبانوں سے مخاطب کیا اور ہدایات دیں ۔ لیکن سب سے آخر میں پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد پر آخری کتاب قرآن اور آخری دین ، دین اسلام کےلیے اللہ تعالیٰ نے عربی زبان کا انتخاب کیا ۔ چنانچہ اسلام کی پوری تاریخ میں مسلمانوں نے عربی زبان کو ایک خدائی نشانی سمجھتے ہوئے ہمیشہ اس کا احترام کیا۔دین اسلام نے عربی زبان کو بعض عبادات میں اتنا ضروری قرار دیا کہ عربی زبان کے بغیر وہ عبادت اللہ کے ہاں قابل قبول ہی نہیں قرار پاتی۔  اسی وجہ سے مسلمانوں کا عربی سے رشتہ ہمیشہ ادب و احترام والا رہا ہے ۔ جس طرح کسی بھی ملک ، حکومت اور سلطنت کی ایک قومی زبان ہوتی ہے اور اس سلطنت کے تمام امور اسی زبان میں سرانجام پاتے ہیں اور اس ملک میں اس زبان کو خصوصی احترام والا مقام ملتا ہے ، اسی طرح دونوں جہاں کے بادشاہ ، خالق و مالک اللہ رب العزت کی حکومت اور سلطنت کی زبان عربی ہی ہے ، جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اپنے ارشادات میں بیان کیا ہے ۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ہمارے علماء تصریح فرماتے ہیں کہ نفسِ حروف قابلِ ادب ہیں اگرچہ جدا جدا لکھے ہوں جیسے تختی یا وصلی پر، خواہ ان میں کوئی برا نام لکھا ہو جیسے فرعون ، ابوجہل وغیرہما تاہم حرفوں کی تعظیم کی جائے اگرچہ ان کافروں کا نام لائقِ اہانت و تذلیل ہے ۔ حروفِ تہجی خود کلام اللہ ہیں کہ ہُود علیہ الصَّلٰوۃ و السَّلام پر نازل ہوئے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 23 صفحہ 336 ، 337)

ادب احترام بہت بڑی چیز ہوتی ہے ، عربی زبان تو کیا اردو زبان کے حروف تہجی کا بھی احترام ضروری ہے چہ جائیکہ کوئی ان حروف کی بے ادبی کا کوئی سامان پیدا کرے ۔ چونکہ اچھرہ واقعہ میں پورے لباس (شلوار ، قمیص) پر کچھ جملے لکھے ہوئے تھے جو واضح طور پر بے ادبی کے زمرے میں آتا ہے بالکل غلط فعل تھا ۔ ہمارے لیے حجت سعودیہ کا کوئی برینڈ یا کمپنی نہیں بلکہ دین اسلام کی تعلیمات اور اکابرین اسلام کا عمل ہے ۔چنانچہ اس واقعہ کے رونما ہونے سے بہت پہلے ہی ہمارے علماء اور جامعات نے ایسے فتاویٰ صادر کر دیے تھے جن میں ایسے لباس کی کراہت اور ممانعت کو بیان کیا ہے ۔

ایسا لباس جس پر کچھ تحریر ہو خواہ وہ سادہ تحریر ہو یا شاعری وغیرہ ،اسے پہننا منع ہے کہ اس میں حروف تہجی (جن سے کلام بنتا ہے )کی بے ادبی کے کئی پہلو موجود ہیں۔اور حروف تہجی کا ادب کرنے کا کہا گیا ہے۔ دنیا میں جتنی بھی زبانیں ہیں وہ الھامی (اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتاری گئی)ہیں اور ان کا ادب ضروری ہے ۔ تفسیر کبیر میں امام فخرالدین الرازی فرماتے ہیں : الغات كلها توقيفية ۔
ترجمہ : (دنیا میں بولی جانے والی) تمام زبانیں الھامی ہیں ۔ (التفسیر الکبیر الجزالثانی سورہ البقرہ آیت نمبر 31 جلد 1 صفحہ 396 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ،چشتی)

واضح رہے  کہ عربی زبان کے حروف تہجی  قابلِ احترام ہیں اس لیے ان  حروف کو ایسی جگہ لکھنا جس سے ان کی بے ادبی کا اندیشہ ہو ،  کراہت سے خالی نہیں : ⏬

إذاكتب ‌اسم ‌فرعون ‌أو‌كتب أبوجهل على غرض يكره أن يرمواإليه؛لأن لتلك الحروف حرمة،كذافي السراجية ۔ (فتاویٰ الهندية جلد 5 صفحہ 374)

ويكره أن يجعل شيئافي كاغذة فيهااسم الله تعالى كانت الكتابة على ظاهرهاأوباطنها ۔ (فتاویٰ الهندية جلد 5 صفحہ 322)

قلت :‌ لكن ‌نقلوا ‌عندنا‌أن ‌للحروف ‌حرمة ولو مقطعة ۔ (ردالمحتارعلى الدرالمختار جلد 1 صفحہ 552)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی قادری علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں : کہ حروف کی تعظیم کا حکم ہے خصوصاً قرآن مجید تو واجب التعظیم ہے ہی اس میں کیا کلام ہو سکتا ہے یوں ہی اسماء طیبہ والی کاغذات کہ ان کی بھی تعظیم کی جائے یہ امر مستحسن ہے کوئی واجب یا فرض نہیں اور امید اجر ہے اور دیگر کاغذات بھی اٹھائے تو اچھا ہی ہے اگر نہ اٹھائے تو کوئی مواخذہ نہیں ۔ (فتاویٰ امجدیہ کتاب الحظر والاباحہ،چشتی)

لہٰذا اسی طرح دوپٹہ، قمیص، شرٹ وغیرہ لباس بنانے اور بیچنے سے اجتناب کرنا چاہیے ۔ یہ فتنوں کا دور ہے ، ہم مسلمان ہر آئے دن فیشن کے نام پر طرح طرح کے لباس پہنتے ہیں اگر اس کو منع نہ کیا گیا تو معلوم نہیں کہ کون کون سے فیشن کو فروغ ملے گا ۔ اس طرح کی امور کا سد باب ہونا لازم و ضروری ہے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے : إذا كتب اسمَ ’’فرعون‘‘ أو كتب ’’أبو جهل‘‘ على غرض، يكره أن يرموه إليه؛ لأن لتلك الحروف حرمةً، كذا في السراجية ۔  (فتاوی ہندیہ جلد ٥ صفحہ ٣٢٣ مطبوعہ کتبخانہ رشيديہ)

وفیه أیضاً : ولو كتب القرآن على الحيطان و الجدران، بعضهم قالوا: يرجى أن يجوز، و بعضهم كرهوا ذلك مخافة السقوط تحت أقدام الناس، كذا في فتاوي قاضيخان ۔ (فتاوی ہندیہ الباب الخامس في آداب المسجد، و ما كتب فيه شيئ من القرآن، أو كتب فيه اسم الله تعالى جلد ٥ صفحہ ٣٢٣ مطبوعہ کتبخانہ رشيديہ،چشتی)

محترم سید محمد شفیع قادری رضوی صاحب لکھتے ہیں : اہلِ عرب بھی اس بات کا واضح فہم و ادراک رکھتے ہیں کہ عربی حروف تہجی کے الفاظ اور عربی خطاطی میں کیا فرق ہوتا ہے ۔ عربی زبان فصیح و بلیغ زبان ہے جس میں بڑی وسعت اور گہرائی ہے لیکن یہاں مسلئہ حروف تہجی کی حرمت کا ہے نا کہ خطاطی شدہ لباس کا ۔ لیکن پاکستان میں لبرل ازم کے غلیظ کنوئیں کا پانی پئے ہوئے ناعاقبت اندیش دانشور اور سستے بازاروں کے تجزیہ نگاروں کے نزدیک لفظوں اور حروفوں کی کوئ اہمیت وقعت اور قدر نہیں ہے وہ ہر غلط فعل کے مرتکب لوگوں کی بےجا حمایت کر کے معاملے کو مزید شدت پسندی کی طرف دھکیل دیتے ہیں ۔ جیسا کہ گزشتہ شب لاہور اچھرہ کے ایک ریسٹورنٹ کا واقعہ ہے جس میں ایک پاکستانی خاتون نے عربی خطاطی میں لکھا حلوہ الفاظوں کا لباس پہنا ہوا تھا ۔ پاکستان ایک مادر پدر آزاد معاشرے کا حامل ملک ہرگز نہیں ہے کہ جہاں جس کا جو دل چاہے وہ کرتا رہے اور اسے کوئ روکنے ٹوکنے والا نہ ہو حتی کہ وہ شعائر اسلام کا بھی کھلم کھلا مذاق اڑائے ۔

کسی بھی خاتون یا مرد کو یہ حق ہرگز حاصل نہیں ہے کہ وہ دین اسلام یا شعائر اسلام سے منسلک کسی بھی لفظ یا اشعار کو اپنی سستی شہرت کا ذریعہ بنائے ۔ تمام مکتب کے فقہا کا متفقہ فیصلہ ہے کہ عربی حروف تہجی کا احترام ہر ایمان رکھنے والے عاقل و بالغ مسلمان پر فرض ہے اگر وہ جان بوجھ کر توہین کرتا ہے یا  مذاق اڑاتا ہے تو شخص سخت گناہ گار ہوگا اور اگر ریاست میں اسلامی قانون نافذ ہے تو سزا دی جائے گی ۔ کیونکہ اگر ہر شخص کو یہ کہہ کر چھوڑ دیا جائے کہ فیشن ہے یا خطاطی ہے تو غالب گمان ہے چلن معاشرے کو مذہبی تصادم اور کشیدگی کی دلدل میں دھکیل دے گا ۔ چنانچہ اگر دینی شعور و آگہی سے عاری لبرل ازم کے حامی آزاد خیال مرد و خواتین  عربی حروف تہجی کا احترام و تقدس نہیں کرتا ہے اور اسے صرف ایک بے معنی لفظ جان کر بار بار  تضحیکی راستہ اختیار کرتا ہے تو اس کے خلاف آئینی اور اسلامی قوانین کے مطابق تادیبی کارروائی عمل میں لائ جائے ۔ تاکہ انکی دیکھا دیکھی دوسرے ذہنی پستی کا شکار لوگ بھی کرنا نہ شروع کردیں ۔

خاتون کے لباس پر اعتراض کرنے والے ہجوم کو تو لنڈا بازار کے تجزیہ کار اور سستے بازاروں کے دانشور پاگل اور متشدد قرار دے رہے ہیں اور سماجی رابطے کی واٹس گروپ میں بڑھ چڑھ کر بحث و مباحثہ بھی کر رہے ہیں لیکن اتنی توفیق نہیں ہو رہی ہے کہ اس شر انگیز فعل پر عورت کے متنازع لباس پر اعتراض کریں یا کم از کم برا ہی سمجھ لیں یعنی ایسے گدھوں کے نزدیک عربی حروف تہجی کی توہین کچھ حیثیت نہیں رکھتی ہے ۔ ایسے دو نمبر گدھوں کو میری صلاح ہے کہ پھر اپنی بے غیرتی و کم ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھل کر شعائر اسلامی کے خلاف زبان درازی کریں تاکہ  آزاد خیالی اور روشن خیالی کا جو کیڑا اندر گھس گیا ہے اسے پوری شان و شوکت کے ساتھ نکال دیا جائے گا ۔ بالکل اسی طرح پنجاب بھر میں موجود ڈبہ پیرو نے مذہبی اقدار اور شعار کو بدنام کر کے رکھا ہوا ہے ۔ ایک تصویر میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک بے غیرت ڈبہ پیر برہنہ لیٹا ہوا ہے اور اس مردود کے جسم پر کلمہ و قل شریف لکھا ہوا چادر اوڑھا ہوا ہے ۔ ایسے شخص کو زندہ دفن کر دینا چاہیے ۔ تاکہ یہ مذہبی لبادہ اوڑھے ہوئے ڈبہ پیرو اور لبرل زادو کو عبرتناک سبق ملے ۔

سماجی رابطے کی ایک واٹس اپ گروپ میں ایک لنڈا بازار کے آزاد خیال صاحب سے اسی موضوع پر بحث و مباحثہ میری جاری تھی کہ اِسی دوران اُس نے عربی حروف تہجی کے بارے توہین آمیز جملہ بولنا اور لکھنا شروع کر دیا اور اس حد تک آگے بڑھ گیا کہ اُس نے یہاں تک کہہ کہ میں حروف تہجی کو اپنے پاؤ تلے روندتا ہوں میرے لئے الف ب پ کے حروف بے معنی ہیں میرے نزدیک کوئ تقدس نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو کفریہ جملہ بولنے و لکھنے سے بچائے ۔ بہرکیف وہ صاحب سٹی کورٹ میں ایڈوکیٹ ہے اللہ انہیں ہدایت دے آمین ۔ قارئین کرام عربی حروف تہجی ہی قرآن کریم کے حروف ہیں جنکی توہین جان بوجھ کر کی جائے یا شراتاً کی جائے قابلِ گرفت اور سخت متنازع عمل ہے ۔ یہ کام غیرت ایمانی رکھنے والا مسلمان نہ تو کبھی کر سکتا ہے اور نہ ہی کرنے کا سوچ سکتا ہے کہ وہ قرآنی حروف تہجی کو پاؤ تلے روندے یا اسکی تذلیل و تضحیک کرے یا اسکے بارے میں بولے کہ میرے نزدیک اسکی کوئ اہمیت و فضیلت نہیں ہے ۔ عموماً یہ عمل دین اسلام سے بیزار گمراہ اور ملحد افراد کرتے ہیں ۔ کیونکہ انکا اولین مقصد عام مسلمانوں کے قلب و اذہان پر مذہبی حملہ کرنا ہوتا ہے ۔

پاکستانی معاشرے میں آزاد خیالی اور لبرل ازم کا زہر بڑی شدت کے ساتھ پھیل رہا ہے ۔ جس کے زیر اثر تعلیم یافتہ طبقہ اور اچھے خاصے باشعور آگئے ہیں ۔ جو معاشرے کی اصلاحی تشکیل میں سب سے بڑی غیر فطری رکاوٹ ہے ۔ لوگوں کو دین اسلام سے دور کیا جا رہا ہے اور اسلامی تعلیمات پر بے جا اعتراض کرکے اسلامی عمارت کو منہدم کرنے کی غلیظ کوشش کی جا رہی ہے ۔ ایسے مادر پدر آزاد افراد معاشرے کےلیے ناسور اب خواہ انکا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبہ جات سے ہو ۔ اس خاتون کی عربی خطاطی شدہ لباس کی وجہ سے ایک نیا مذہبی  ہیجان ملک بھر میں عروج پر پہنچ چکا ہے ۔ اس سنگین معاملہ میں تمام فیشن ڈیزائنرز حلقوں کو چاہیے کہ وہ اس واقعہ کے بارے میں اپنا مثبت موقف عوام کے سامنے پیش کریں تاکہ دوریاں ختم ہوں اور کشیدگی کا خاتمہ ہو ۔

مغرب پرستی اور آزاد خیالی کا چورن بیچنے والا طبقہ پاکستان میں ہر اس شخص کی حمایت میں کھڑا ہو جاتا ہے جو  توہین رسالت کا مرتکب ہوا ہو یا توہین قرآن و حروف تہجی کی حرمت کا یا توہین اصحاب رسول رضی اللہ عنہم و اولیاء کاملین علیہم الرحمہ کا ۔ یہ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ اور استعماری قوتوں کا کھیل ہے جسے پاکستان میں کھیلا جا رہا ہے ۔ اور ہماری عوام و خواص دونوں ہی اسکا آسان ہدف بن رہی ہے ۔ اس حساس مسلئے کو دور اندیشی اور حکمت عملی سے دیکھنا ہوگا ورنہ پاکستان خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ جائے گا اور اس خانہ جنگی کے دو بڑے محرکات ہیں ایک مذہبی ایک لسانی ۔ جو بھی چال چل جائے ۔ ایسے حالات میں عوام و خواص دونوں کو ہی زمینی حقائق کے مطابق قدم اٹھانا پڑے گا ۔ آئیے پاکستان کو مسالک و قومیت کا گلدستہ بنائیں نہ کہ جنونی درندوں اور ملحد شیطانوں کی آماجگاہ ۔ جہاں مادر پدر آزاد خیالی کے خنزیر نما دانشور دینِ اسلام کے جسم کو نوچ رہے ہوں ۔ ان شاءاللہ عزوجل پاکستان کو ملحدانہ سوچ کی جنت کبھی نہیں بننے دیا جائے گا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Monday 26 February 2024

پانچ وقت کی نمازوں کی رکعات کی تعداد

0 comments
پانچ وقت کی نمازوں کی رکعات کی تعداد
محترم قارئینِ کرام : فرض نمازوں میں سنتِ مؤکدہ کی تعداد بارہ ہے جن میں نماز فجر کی دو، ظہر کی چھ ، مغرب کی دو اور عشاء کی دو رکعات شامل ہیں جبکہ سنتِ غیر مؤکدہ کی تعداد آٹھ ہے جن میں نماز عصر کی چار اور نماز عشاء کی چار سنتیں شامل ہیں ۔ فرائض کی مندرجہ بالا تعدادِ رکعات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے اب تک امت کے تواتر عملی سے ثابت ہے ۔ علاوہ ازیں کتب حدیث میں یہ تعداد مفصلاً مذکور ہے ۔

عَنْ اَبِیْ مَسْعُوْدِنِالْاَنْصَارِیِّ رضی اللہ عنہ قَالَ جَائَ جِبْرَائِیْلُ اِلَی النَّبیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ قُمْ فَصَلِّ وَذٰلِکَ دُلُوْکُ الشَّمْسِ حِیْنَ مَالَتْ فَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَصَلَّی الظُّھْرَ اَرْبَعاً ثُمَّ اَتَاہُ حِیْنَ کَانَ ظِلُّہٗ مِثْلَہٗ فَقَالَ قُمْ فَصَلِّ فَقَامَ فَصَلَّی الْعَصْرَ اَرْبَعاً ثُمَّ اَتَاہُ حِیْنَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَقَالَ لَہٗ قُمْ فَصَلِّ فَقَامَ فَصَلَّی الْمَغْرِبَ ثَلَاثاً ثُمَّ اَتَاہٗ حِیْنَ غَابَ الشَّفَقُ ۔ فَقَالَ لَہٗ قُمْ فَصَلِّ فَقَامَ فَصَلَّی الْعِشَائَ الاِرَۃَ اَرْبَعاً ثُمَّ اَتَاہُ حِیْنَ بَرَقَ الْفَجْرُ فَقَالَ لَہٗ قُمْ ! فَصَلِّ ! فَقَامَ فَصَلَّی الصُّبْحَ رَکْعَتَیْنِ ۔ (مسند اسحاق بن راھویہ بحوالہ نصب الرایۃ جلد 1 صفحہ 223 باب المواقیت)(المعجم الکبیر للطبرانی جلد 7 صفحہ 129,130 رقم 14143،چشتی)(السنن الکبریٰ للبیہقی جلد 1 صفحہ 361 باب عدد رکعات الصلوات الخمس)
ترجمہ : حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ کھڑے ہوں اور نماز پڑھیں ۔ یہ سورج کے ڈھلنے کا وقت تھا ، جبکہ سورج ڈھل گیا تھا ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور ظہر کی چاررکعات پڑھیں پھر ان کے پاس حضرت جبرئیل آئے ، جبکہ سایہ ایک مثل کے برابر ہو گیا تھا۔ تو انہوں نے کہا کہ کھڑے ہوں اور نماز ادا کریں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عصر کی چار رکعات پڑھیں ۔ پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام اس وقت آئے جب سورج غروب ہو گیا تھا ۔ توانہوں نے کہا کہ کھڑے ہوں اور نماز پڑھیں ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مغرب کی تین رکعات پڑھیں ۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام اس وقت آئے جب شفق غائب ہو گئی تھی اور کہا کہ نماز پڑھیں ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عشاء کی چار رکعات پڑھیں ۔ پھر جبرئیل علیہ السلام اس وقت آئے جب صبح طلوع ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ نماز ادا کریں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبح کی دو رکعت پڑھیں ۔

سنن مؤکدہ کی بارہ رکعتیں ہیں تفصیل درج ذیل ہے : ⏬

2 رکعات فجر سے پہلے ۔ 4 رکعات ظہر سے پہلے اور 2 رکعات ظہر کے بعد
2 رکعات مغرب کے بعد ۔ 2 رکعات عشاء کے بعد ۔

عَنْ اُمِّ حَبِیْبَۃَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مَنْ صَلّٰی فِیْ یَوْمٍ وَّلَیْلَۃٍ ثِنَتَیْ عَشَرَۃَ رَکْعَۃً بُنِیَ لَہٗ بَیْتٌ فِی الْجَنَّۃِ اَرْبَعًا قَبْلَالظُّھْرِ وَرَکْعَتَیْنِ بَعْدَھَا وَرَکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ وَرَکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْعِشَائِ وَرَکْعَتَیْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ صَلَاۃِ الْغَدَاۃِ ۔ (جامع الترمذی جلد 1 صفحہ 94 باب ماجاء فی من صلی فی یوم ولیلۃ ثنتی عشرۃ رکعۃ،چشتی)
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص دن رات میں بارہ رکعتیں پڑھے گا اس کےلیے جنت میں گھر بنا دیا جائے گا چار ظہر سے پہلے ، دو ظہر کے بعد، دو مغرب کے بعد ، دو عشاء کے بعد اور دو فجر سے پہلے ۔

فجر کی رکعات : 2 سنت (مؤکدہ) اور 2 فرض : ⏬

عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ لَمْ یَکُنِ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عَلٰی شَیْئٍ مِنَ النَّوَافِلِ اَشَدَّ تَعَاھُدًا مِنْہُ عَلٰی رَکْْعَتَیِ الْفَجْرِ ۔ (صحیح البخاری جلد 1 صفحہ 156 باب تعاھد رکعتی الفجر،چشتی)(صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 251 باب استحباب رکعتی الفجر والحث علیھاالخ)
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی نفل کی اتنی زیادہ پابندی نہیں فرماتے تھے جتنی فجر کی دو رکعتوں کی کرتے تھے ۔

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَاتَدَعُوْھُمَا وَاِنْ طَرَدَتْکُمُ الْخَیْلُ ۔ (سنن ابی داؤد جلد 1 صفحہ 186 باب فی تخفیفھما رکعتی الفجر)(شرح معانی الآثار جلد 1 صفحہ 209 باب القرأۃ فی رکعتی الفجر)
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ فجر کی دو رکعتوں کو نہ چھوڑو خواہ تمہیں گھوڑے روند ڈالیں ۔

نمازِ ظہر کی رکعات : 4 سنت (مؤ کدہ) 4 فرض 2 سنت (مؤکدہ) 2 نفل : ⏬

عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کَانَ لَایَدَعُ اَرْبَعًا قَبْلَ الظُّھْرِوَرَکْعَتَیْنِ قَبْلَ الْغَدَاۃِ ۔ (صحیح البخاری جلد 1 صفحہ 157 باب الرکعتین قبل الظھر)
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور فجر سے پہلے دو رکعتیں کبھی نہیں چھوڑتے تھے ۔

عَنْ اُمِّ حَبِیْبَۃَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مَنْ صَلّٰی قَبْلَ الظُّھْرِ اَرْبَعًا وَبَعْدَھَا اَرْبَعًاحَرَّمَہٗ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلَی النَّارِ ۔ (جامع الترمذی جلد 1 صفحہ 98 باب اٰخر من سنن الظھر)
ترجمہ : حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ظہر سے پہلے چار اور ظہر کے بعد چار رکعات پڑھیں تو اللہ تعالیٰ اس کو آگ پر حرام فرمادے گا ۔

حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ روایت میں دو رکعت سنت مؤکدہ کا ثبوت ملتا ہے اور اس روایت میں ظہر کے بعد چار رکعت کا تذکرہ ہے ۔ تو دو رکعت سنت مؤکدہ کے لاوہ یہ دو نفل ہیں ۔

نمازِ عصر کی رکعات : 4 سنت (غیر مؤکدہ) 4 فرض : ⏬

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ رَحِمَ اللّٰہُ امْرَأً صَلّٰی قَبْلَ الْعَصْرِاَرْبَعًا ۔ (جامع الترمذی جلد 1 صفحہ 98 باب ما جاء فی الاربع قبل العصر)
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو عصر سے پہلے چار رکعت پڑھتا ہے ۔

نمازِ مغرب کی رکعات : 3 رکعات فرض ۔ 2 سنت مؤکدہ ۔ 2 نفل : ⏬

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہما قَالَ مَنْ رَکَعَ بَعْدَ الْمَغْرِبِ اَرْبَعَ رَکْعَاتٍ کَانَ کَالْمُعَقِّبِ غَزْوَۃً بَعْدَغَزْوَۃٍ ۔ (مصنف عبدالرزاق جلد 2 صفحہ 415 باب الصلاۃ فیمابین المغرب والعشا رقم الحدیث 4740)
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جس نے مغرب کی نماز کے بعدچار رکعت پڑھیں تو وہ ایسا ہے جیسے ایک غزوے کے بعد دوسرا غزوہ کرنے والا ۔

عَنْ اَبِیْ مَعْمَرٍعَبْدِاللّٰہِ بْنِ سَنْجَرَۃَ رحمہ اللہ قَالَ کَانُوْا یَسْتَحِبُّوْنَ اَرْبَعَ رَکْعَاتٍ بَعْدَ الْمَغْرِبِ ۔ (مختصر قیام اللیل للمروزی صفحہ 85 باب یصلی بین المغرب والعشاء اربع رکعات)
ترجمہ : حضرت ابو معمر عبداللہ بن سنجرہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مغرب کے بعد چارکعت پڑھنے کو مستحب سمجھتے تھے ۔

نمازِ عشاء کی رکعات : ⏬

4 سنت غیر مؤکدہ ، 4 فرض ، 2 سنت مؤکدہ ، 2 نفل ، 3 وتر ، 2 نفل ۔

عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ رضی اللہ عنہما کَانُوْا یَسْتَحِبُّوْنَ اَرْبَعَ رَکْعَاتٍ قَبْلَ الْعِشَائِ الْاٰخِرَۃِ ۔ (مختصر قیام اللیل للمروزی ص85 یصلی بین المغرب والعشاء اربع رکعات)
ترجمہ : حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عشاء کی نماز سے پہلے چار رکعت پڑھنے کو مستحب سمجھتے تھے ۔

عَنْ زُرَارَۃَ بْنِ اَوْفٰی رضی اللہ عنہما اَنَّ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا سُئِلَتْ عَنْ صَلٰوۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فِیْ جَوْفِ اللَّیْلِ فَقَالَتْ کَانَ یُصَلِّیْ صَلٰوۃَ الْعِشَائِ فِیْ جَمَاعَۃٍ ثُمَّ یَرْجِعُ اِلٰی اَھْلِہٖ فَیَرْکَعُ اَرْبَعَ رَکْعَاتٍ ثُمَّ یَأوِیْ اِلٰی فِرَاشِہٖ ۔ (سنن ابی داؤد جلد 1 صفحہ 197 باب فی صلوۃ اللیل)
ترجمہ : حضرت زرارہ بن اوفی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی درمیانِ رات والی نماز کے متعلق پوچھا گیا ، تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھ کر گھر تشریف لاتے تو چار رکعتیں پڑھتے پھر اپنے بستر پر آرام فرماتے ۔

عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہااَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کَانَ یُؤْتِرُبِثَلَاثٍ یَقْرَئُ فِیْ اَوَّلِ رَکْعَۃٍ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی وَفِی الثَّانِیَۃِ قُلْ یَااَیُّھَاالْکَافِرُوْنَ وَفِی الثَّالِثَۃِ قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ وَالْمُعَوَّذَتَیْنِ ۔ (شرح معانی الآثار جلد 1 صفحہ 200 باب الوتر،چشتی)(صحیح ابن حبان صفحہ 718 ذکر الاباحۃ للمرء ان یضم قراءۃ المعوذتین الخ رقم الحدیث 2448)(مصنف عبد الرزاق جلد 2 صفحہ 404 باب ما یقرء فی الوتر الخ، رقم الحدیث 1257)
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وتر تین رکعت پڑھتے تھے پہلی رکعت میں’’سبح اسم ربک الاعلیٰ‘‘ پڑھتے ، دوسری رکعت میں’’قل یا ایھا الکافرون‘‘ اور تیسری رکعت میں’’ قل ھو اللہ احد‘‘ اور معوذتین پڑھتے تھے ۔

عَنْ اَبِیْ سَلْمَۃَ رضی اللہ عنہما قَالَ سَاَلْتُ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا عَنْ صَلٰوۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَتْ کَانَ یُصَلِّیْ ثَلَاثَ عَشَرَۃَ رَکْعَۃً یُصَلِّیْ ثَمَانَ رَکْعَاتٍ ثُمَّ یُوْتِرُ ثُمَّ یُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ وَھُوَ جَالِسٌ ۔ (صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 254 باب صلوۃ اللیل و عدد رکعات النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی اللیل صحیح البخاری جلد 1 صفحہ 155 باب المداومۃ علی رکعتی الفجر)
ترجمہ : حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے متعلق سوال کیا تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے ۔ پہلے آٹھ رکعت (تہجد) پڑھتے ، پھر وتر پڑھتے ، پھر دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے ۔

عَنْ اُمِّ سَلْمَۃَ رضی اللہ عنہا اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کَانَ یُصَلِّیْ بَعْدَ الْوِتْرِ رَکْعَتَیْنِ ۔ (جامع الترمذی جلد 1 صفحہ 108 باب ماجاء لا وتران فی لیلۃ،چشتی)(سنن ابن ماجۃ جلد 1 صفح 83 باب ما جاء فی الرکعتین بعد الوتر جالساً)
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے ۔

نمازِ عشاء کی رکعتوں کی کل تعداد سترہ (17) ہے جس کی ترتیب اس طرح ہے : چار (4) سنت غیرمؤکدہ ۔ چار (4) فرض ۔ دو (2) سنت مؤکدہ ۔ دو (2) نفل ۔ تین (3) وتر ( واجب) ۔ دو (2) نفل ۔

عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ رضی اللہ عنہما کَانُوْا یَسْتَحِبُّوْنَ اَرْبَعَ رَکْعَاتٍ قَبْلَ الْعِشَائِ الْاٰخِرَۃِ۔(مختصر قیام اللیل للمروزی ص85 یصلی بین المغرب والعشاء اربع رکعات)
ترجمہ : حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عشاء کی نماز سے پہلے چار رکعت پڑھنے کو مستحب سمجھتے تھے ۔

عَنْ زُرَارَۃَ بْنِ اَوْفٰی رضی اللہ عنہما اَنَّ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا سُئِلَتْ عَنْ صَلٰوۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فِیْ جَوْفِ اللَّیْلِ فَقَالَتْ کَانَ یُصَلِّیْ صَلٰوۃَ الْعِشَائِ فِیْ جَمَاعَۃٍ ثُمَّ یَرْجِعُ اِلٰی اَھْلِہٖ فَیَرْکَعُ اَرْبَعَ رَکْعَاتٍ ثُمَّ یَأوِیْ اِلٰی فِرَاشِہٖ۔(سنن ابی داؤد جلد 1 صفحہ 197 باب فی صلوۃ اللیل،چشتی)
ترجمہ : حضرت زرارہ بن اوفی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی درمیانِ رات والی نماز کے متعلق پوچھا گیا ، تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھ کر گھر تشریف لاتے تو چار رکعتیں پڑھتے پھر اپنے بستر پر آرام فرماتے ۔

عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہااَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کَانَ یُؤْتِرُبِثَلَاثٍ یَقْرَئُ فِیْ اَوَّلِ رَکْعَۃٍ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی وَفِی الثَّانِیَۃِ قُلْ یَااَیُّھَاالْکَافِرُوْنَ وَفِی الثَّالِثَۃِ قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ وَالْمُعَوَّذَتَیْنِ ۔ (شرح معانی الآثار جلد 1 صفحہ 200 باب الوتر،چشتی)(صحیح ابن حبان صفحہ 718 ذکر الاباحۃ للمرء ان یضم قراء ۃ المعوذتین الخ رقم الحدیث 2448)(مصنف عبد الرزاق جلد 2 صفحہ 404 باب ما یقرء فی الوتر الخ رقم الحدیث 1257)
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وتر تین رکعت پڑھتے تھے پہلی رکعت میں’’سبح اسم ربک الاعلیٰ‘‘ پڑھتے، دوسری رکعت میں’’قل یا ایھا الکافرون‘‘ اور تیسری رکعت میں’’ قل ھو اللہ احد‘‘ اور معوذتین پڑھتے تھے ۔

عَنْ اَبِیْ سَلْمَۃَ رضی اللہ عنہما قَالَ سَاَلْتُ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا عَنْ صَلٰوۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فَقَالَتْ کَانَ یُصَلِّیْ ثَلَاثَ عَشَرَۃَ رَکْعَۃً یُصَلِّیْ ثَمَانَ رَکْعَاتٍ ثُمَّ یُوْتِرُ ثُمَّ یُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ وَھُوَ جَالِسٌ ۔ (صحیح مسلم جلد 1 صفخحہ 254 باب صلوۃ اللیل و عدد رکعات النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی اللیل)(صحیح البخاری جلد 1 صفحہ 155 باب المداومۃ علی رکعتی الفجر،چشتی)
ترجمہ : حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے متعلق سوال کیا تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے ۔ پہلے آٹھ رکعت (تہجد) پڑھتے ، پھر وتر پڑھتے ، پھر دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے ۔

عَنْ اُمِّ سَلْمَۃَ رضی اللہ عنہا اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کَانَ یُصَلِّیْ بَعْدَ الْوِتْرِ رَکْعَتَیْنِ ۔ (جامع الترمذی جلد 1 صفحہ 108 باب ماجاء لا وتران فی لیلۃ،چشتی)(سنن ابن ماجۃ جلد 1 صفحہ 83 باب ما جاء فی الرکعتین بعد الوتر جالساً)
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے ۔

نمازِ عشاء کی مذکورہ رکعات پڑھنے کا صحابہ کرام ضی اللہ عنہم کے یہاں معمول تھا ، اور ظاہر سی بات ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا ہوگا ، چناں جہ ”قیام اللیل للامام المروزی“ میں حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے : عن سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کانوا یستحبون أربع رکعات قبل العشاء الآخرة ۔ (قیام اللیل لمحمد نصر المروزي جلد ۱ صفحہ ۸۸ مطبوعہ فیصل آباد پاکستان)

نیز ”الاختیار لتعللہ المختار“ جو فقہ حنفی کی معتبر کتاب ہے ، اس میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت نقل کی گئی ہے ، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ معمول بیان کیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عشاء سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے تھے اورعشاء کے بعد بھی چار رکعتیں پڑھتے تھے ، پھر آرام فرماتے ۔ عن عائشة أنہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان یصلي قبل العشاء أربعا ثم یصلي بعدہا أربعًا ثم یضطجع ۔ (۱/۶۶ الاختیار لتعلیل المختار، ط: بیروت،چشتی)

بخاری 1180،  مسلم 1699 اور بخاری 697 میں دو سنت موکدہ اور دو نفل یعنی چار رکعت عشاء کے بعد ادا کرنے کا ثبوت ملتا ہے ۔ 

حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے فرماتے ہیں : صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ العِشَاءَ ، ثُمَّ جَاءَ ، فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ نَامَ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عشاء کی نماز پڑھی پھر گھر آئے تو چار رکعتیں ادا کیں , پھر سو گئے ۔ (صحیح البخاری : 697،چشتی)

حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : مَنْ صَلَّى أَرْبَعًا بَعْدَ الْعِشَاءِ كُنَّ كَقَدْرِهِنَّ مِنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ ۔
ترجمہ : جس نے عشاء کے بعد چار رکعتیں ادا کیں , تو وہ لیلۃ القدر میں ان ہی جیسی رکعتوں کے برابر ہو جائیں گی ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ : 7273)

ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : أَرْبَعٌ بَعْدَ الْعِشَاءِ يَعْدِلْنَ بِمِثْلِهِنَّ مِنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ ۔
ترجمہ : عشاء کے بعد چار رکعتیں لیلۃ القدر میں ان ہی جیسی رکعتوں کے برابر ہیں ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ حدیث نمبر 7274،چشتی)

حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : مَنْ صَلَّى أَرْبَعًا بَعْدَ الْعِشَاءِ لَا يَفْصِلُ بَيْنَهُنَّ بِتَسْلِيمٍ، عَدَلْنَ بِمِثْلِهِنَّ مِنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ ۔
ترجمہ : جس نے عشاء کے بعد ایک سلام سے چار رکعتیں ادا کیں , تو وہ لیلۃ القدر میں ان ہی جیسی رکعتوں کے برابر ہو جائیں گی ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ حدیث نمبر 7275) 

غیر مقلد وہابی نام نہاد اہلحدیث حضرات کہتے ہیں عشاء کی پہلی چار سنت غیرمٶکدہ حدیث کی کس کتاب سے ثابت نہیں اور نہ ہی فقہ حنفی کےعلاوہ کسی اور فقہ میں یہ چار رکعت ہے ۔ سوچنے کی بات ہے نہ تو دنیا کی کسی حدیث سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پڑھی ہوں ۔ اور نہ ہی کسی صحابی سے ثابت ۔ تو یہ سنت کیسے بن گئیں دنیا کا کوئی حنفی عالم ان چار رکعت کو سنت ثابت نہیں کر سکتا ۔ غیر مقلد وہابی نام نہاد اہلحدیث حضرات کہتے ہیں کہ فقہ حنفی قرآن و حدیث سے نہیں بلکہ مرضی سے گھڑی گئی فقہ ہے جس میں نماز کی رکعتیں بھی گھر سے گھڑ لی جاتی ہیں ۔

جواب : پہلے فقہ حنفی سے اصل مسلہ سمجھیے : يُسْتَحَبُّ أَنْ يُصَلِّيَ قَبْلَ الْعِشَاءِ أَرْبَعًا وَقِيلَ رَكْعَتَيْنِ ۔ عشاء سے پہلے چار رکعت اور کہا گیا ہے کہ دو رکعت مستحب ہیں یعنی سنت غیر موکدہ ہیں ۔ (رد المحتار جلد 2 صفحہ 13)

وَالْأَرْبَعُ قَبْلَ الْعِشَاء وَقِيلَ أَرْبَعًا عِنْدَهُ وَرَكْعَتَيْنِ عِنْدَهُمَا كَمَا فِي النِّهَايَة ۔ عشاء سے پہلے چار رکعت مستحب ہیں سنت غیر موکدہ ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ امام اعظم کے نزدیک چار سنت غیر مؤکدہ ہیں اور صاحبین کے نزدیک دو رکعت سنت غیر موکدہ ہیں جیسے کہ نھایہ میں ہے ۔ (مجمع الأنهر جلد1 صفحہ 131 بحذف یسییر،چشتی)

غیر مقلد وہابی نام نہاد اہلحدیث حضرات جو کہتے ہیں کہ کسی اور فقہ میں نہیں ہیں تو یہ صاف جھوٹ ، عدمِ توجہ یا کم علمی ہے : قَالَ فِي الْمَجْمُوعِ وَرَكْعَتَانِ قَبْلَ الْعِشَاءِ) أَيْ فَأَكْثَرُ؛ إذْ عِبَارَتُهُ ۔
(فَرْعٌ) يُسْتَحَبُّ أَنْ يُصَلِّيَ قَبْلَ الْعِشَاءِ الْأَخِيرَةِ رَكْعَتَيْنِ فَصَاعِدًا انْتَهَتْ اهـ حَلَبِيٌّ..وَعِبَارَةُ الشَّوْبَرِيِّ قَالَ الشَّيْخُ وَفِي شَرْحِ الْمُهَذَّبِ يُسْتَحَبُّ أَنْ يُصَلِّيَ قَبْلَ الْعِشَاءِ الْأَخِيرَةِ رَكْعَتَيْنِ فَصَاعِدًا ثُمَّ اسْتَدَلَّ بِحَدِيثِ الصَّحِيحَيْنِ ۔
فقہ شافعی کی کتاب المجموع میں ہے کہ عشاء سے پہلے دو رکعت یا دو رکعت سے زیادہ سنت غیر موکدہ ہیں، المجموع کی عبارت یوں ہے کہ مستحب ہے یعنی سنت غیر موکدہ ہے کہ عشاء سے پہلے دو رکعتیں اور دو سے زیادہ رکعتیں پڑھے …الشوبری کی عبارت یوں ہے کہ شیخ نے فرمایا کہ (فقہ شافعی کی کتاب) شَرْحِ الْمُهَذَّبِ میں ہے کہ مستحب ہے سنت غیر موکدہ ہے کہ عشاء سے پہلے دو رکعت یا دو رکعت سے زیادہ پڑھے اس مسئلے پر صحیحین کی حدیث سے دلیل پکڑی (صحیحین کی حدیث نیچے آ رہی ہے)(حاشية الجمل على شرح المنهج فتوحات الوهاب بتوضيح شرح منهج الطلاب جلد 1 صفحہ 481،چشتی)

بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلاَةٌ ، بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلاَةٌ»، ثُمَّ قَالَ فِي الثَّالِثَةِ : لِمَنْ شَاء ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اذان و اقامت کے درمیان نماز پڑھنا ہے ۔۔۔ اذان و اقامت کے درمیان نماز پڑھنا ہے پھر تیسری مرتبہ فرمایا جو چاہے پڑھے ۔ (صحيح البخاري جلد 1 صفحہ 128 حدیث نمبر 627)

اس حدیث پاک سے واضح ہوتا ہے کہ ہر اذان اور اقامت کے درمیان سنت نماز ہے ۔۔۔ لہٰذا عشاء کی اذان کے بعد اور اقامت سے پہلے نماز پڑھنا بھی سنت سے ثابت ہوگیا اور اس بات میں کوئی تخصیص نہیں ہے کہ دو رکعت ہو یا چار رکعت یا اس سے زیادہ لھٰذا چار بھی ثابت ہوگئ ۔

فَلَمْ يَزَلْ يُصَلِّي حَتَّى صَلَّى الْعِشَاءَ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز (سنت غیرموکدہ) پڑھتے رہے عشاء کے فرض تک ۔ (أحمد بن حنبل ,مسند أحمد ط الرسالة ,38/430،چشتی) ۔ مسند احمد کےحاشیہ میں اس حدیث پاک کا حکم و تخریج یوں ہے کہ : إسناده صحيح . إسرائيل: هو ابن يونس السبيعي، والمنهال: هو ابن عمرو الأسدي مولاهم. وأخرجه ابن أبي شيبة 12/96، والنسائي في “الكبرى” (380) و (381) و (8365) ، وابن خزيمة (1194،چشتی) ، وابن حبان (6960) ، والحاكم 1/312-313، والبيهقي في “دلائل النبوة” 7/78 من طريق زيد بن الحباب، بهذا الإسناد. وبعضهم يرويه مطولاً بنحو الرواية السالفة برقم (23329)

اس حدیث مبارکہ سے بھی واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عشاء کی نماز سے پہلے بہت سارے سنت غیر موکدہ پڑھے ۔ لھٰذا عشاء سے پہلے دو رکعت سنتیں غیر موکدہ بھی ثابت ہو گئیں عشاء سے پہلے چار رکعت سنت غیر مؤکدہ بھی ثابت ہوگئیں اور عشاء سے پہلے چار سے زیادہ بھی سنت غیر موکدہ ثابت ہو گئیں ۔

فَفِي سنَن سعيد بن مَنْصُور من حَدِيث الْبَراء رَفعه من صَلَّى قبل الْعشَاء أَرْبعا كَانَ كَأَنَّمَا تهجد من ليلته ۔
سنَن سعيد بن مَنْصُور میں حدیث مبارکہ ہے کہ جس نے عشاء سے پہلے چار رکعت پڑھے گویا کہ اس نے اس رات کی تہجد نماز پڑھ لی ۔ (ابن حجر الدراية في تخريج أحاديث الهداية جلد 1 صفحہ 198)

ندب أربع قبل “العشاء” لما روي عن عائشة رضي الله عنها أنه عليه السلام كان يصلي قبل العشاء أربعا ۔
ترمہ : عشاء سے پہلے چار رکعت سنت غیر موکدہ ہیں کیونکہ حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عشاء سے پہلے چار رکعت پڑھتے تھے ۔ (مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح صفحہ 146)

نماز وتر جس کا ثبوت سنن ابو داٶد کی حدیث نمبر 1419 اور 1416میں موجود ہے ، اس لیے بخاری 541 کے مطابق وتر عشاء کی نماز کے ساتھ ، سونے سے پہلے ، سونے کے بعد ، فجر کی اذان سے پہلے ادا کرنے کا ثبوت ملتا ہے ۔ وتر کی نماز واجب ہے اگر نمازِ وتر چھوٹ جائے تو قضا کی جائے گی ۔

نمازِ وتر کی تین رکعات ہیں : ⏬

غیر مقلد وہابی حضرات اپنی ذمے لگائی گئی ڈیوٹی کے مطابق ہر اسلامی مسلے پر امتِ مسلمہ سے الگ تھلگ راستہ اختیار کرتے ہیں انہیں میں سے ایک نمازِ وتر بھی ہے جس کے متعلق یہ لوگ ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں کہتے ہیں کہ نمازِ وتر ایک رکعت ہے ۔ دلائل کی روشنی میں پڑھتے ہیں کہ نمازِ وتر کی کتنی رکعات ہیں ایک یا تین جب آپ مکمل دلائل پڑھ لیں تو سوچیے گا ضرور آخر غیر مقلد وہابی حضرات کا کیا بنے گا اور یہ کس کے مشن پر ہیں : ⏬

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وترکی تین رکعت ادا فرماتے تھے اور سلام آخر ہی میں پھیرتے تھے ۔ (سنن نسائی مترجم جلد اوّل کتاب قیام اللیل وتطوع النھار باب کیف الوتر بثلاث صفحہ نمبر 613 مطبوعہ ضیاء القرآن،چشتی)

جیسے اور نمازوں میں آخری رکعت میں سلام پھیرا جاتا ہے ویسے ہی وتر میں بھی آخری رکعت میں سلام پھیرا جائے دو رکعت پر نہیں ۔

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زائد نہیں پڑھتے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم چار رکعت (تہجد) ادا کرتے پھر آپ تین رکعت (وتر) ادا فرماتے ۔ (بخاری کتاب التہجد جلد اول حدیث 1077 صفحہ 472 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)(مسلم شریف جلد اول کتاب صلوٰۃ المسافرین و قصرہا حدیث 1620 صفحہ 573 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)

حضرت عبد ﷲ ابن عباس رضی ﷲ عنہما ایک طویل حدیث نقل فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ دو دو رکعت کرکے چھ رکعت (تہجد) پڑھی اور اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے تین رکعت وتر ادا کئے ۔ (مسلم شریف جلد اول کتاب صلوٰۃ المسافرین وقصرہا حدیث 1696 صفحہ 597 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)

حضرت ابی بن کعب رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نماز وتر کی پہلی رکعت میں سورۃ الاعلی ، دوسری رکعت میں سورۃ الکافرون اور تیسری رکعت میں سورۃ الاخلاص پڑھتے اور تینوں رکعتوں کے آخر میں سلام پھیرتے تھے ۔ (سنن نسائی، جلد اول کتاب قیام اللیل وتطوع النہار، حدیث 1702 صفحہ 540 مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور،چشتی)

حضرت علی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تین رکعت و تر پڑھتے تھے ۔ امام ترمذی علیہ الرحمہ نے کہا اہل علم صحابہ کرام و تابعین کرام رضی اللہ عنہم کا یہی مذہب ہے ۔ (جامع ترمذی جلد اول، ابواب الوتر حدیث 448، ص 283، مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور،چشتی)(زجاجۃ المصابیح باب الوتر جلد 2،ص 263)

حضرت انس رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ وتر تین رکعت ہے ۔ (طحاوی شریف)

سیدنا عبد ﷲ ابن عباس رضی ﷲ عنہما و ترکی تین رکعتوں میں تین سورتیں تلاوت فرماتے ۔ سبح اسم ربک الاعلیٰ اور قل یاایھا الکفرون اور قل ہو اﷲ احد ۔ (سنن نسائی ، جلد اول حدیث نمبر 1706، ص 541، مطبوعہ فرید بک لاہور پاکستان)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے دریافت کیا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم وتروں میں کیا پڑھتے تھے تو انہوں نے فرمایا ۔ پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلیٰ ، دوسری میں قل یاایھا الکفرون اور تیسری میں قل ہو ﷲ احد پڑھتے تھے ۔ (سنن ابن ماجہ، جلد اول، باب ماجاء فیما یقرا فی الوتر، حدیث نمبر 1224، ص 336، مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور،چشتی)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فرمایا : وِتْرُ اللَّيْلِ ثَلَاثٌ، کَوِتْرِ النَّهَارِ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ ۔
ترجمہ : دن کے وتروں یعنی نمازِ مغرب کی طرح رات کے وتروں کی بھی تین رکعات ہیں ۔ (سنن دار قطنی ، 2 : 27)

نام وَر تابعی اور حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت قاسم بن محمد حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنھما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فرمایا : صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَی مَثْنَی، فَإِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَنْصَرِفَ فَارْکَعْ رَکْعَةً تُوتِرُ لَکَ مَا صَلَّيْتَ ۔
ترجمہ : رات کی نماز کی دو دو رکعتیں ہیں۔ جب تم فارغ ہونا چاہو تو ایک رکعت اور پڑھ لو۔ یہ تمہاری پڑھی ہوئی نماز کو وتر بنا دے گی ۔ اِس کے بعد حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت قاسم بن محمد رضی اللہ عنہ اپنا قول یوں بیان کرتے ہیں : وَرَأَيْنَا أُنَاسًا مُنْذُ أَدْرَکْنَا يُوتِرُونَ بِثَلَاثٍ ۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا تو ہم نے لوگوں کو تین وتر پڑھتے ہوئے ہی دیکھا ہے ۔ (صحيح بخاری ، کتاب الوتر، باب ما جاء فی الوتر، 1 : 337، رقم : 948،چشتی)

مذکورہ احادیث سے احناف کے مذہب کی واضح تائید ہو رہی ہے کہ وتر کی تین رکعتیں ہیں کیونکہ مذکورہ تمام احادیث میں تین تین سورتیں پڑھنا وارد ہوا ہے ۔

غیر مقلدین کے دلائل : ⏬

پہلی حدیث : حضرت عبد ﷲ ابن عمر رضی ﷲ عنہما ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا رات کی نماز دو دو رکعت ہے ۔ پس جب تم لوٹنے کا ارادہ کرو تو ایک رکوع کرو۔ وتر کرو، جو تم پڑھ چکے (نسائی شریف)

دوسری حدیث : حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم رات میں گیارہ رکعت نماز پڑھتے تھے ۔ ان میں سے ایک کے ساتھ وتر کرے ۔ پھر اپنے سیدھے کروٹ لیٹ جاتے ۔ (نسائی شریف)

تیسری حدیث : حضرت نافع رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عبد ﷲ ابن عمر رضی ﷲ عنہما وتر میں ایک اور دو رکعت کے درمیان سلام پھیرتے تھے ۔ یہاں تک کہ اپنی بعض ضروریات کا حکم دیتے ۔

غیر مقلدین کے دلائل کا جواب

پہلی حدیث کا جواب : اس حدیث کا جواب خود اسی میں موجود ہے ۔ دو دو رکعت کرکے جب نماز پڑھیں گے اور ایک رکعت ملا کر وتر ادا کریں گے تو تعداد تین ہوگی ، کیونکہ یعنی جو تم پڑھ چکے ، اس کے ساتھ ایک ملالو ۔
اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ تُوْتِر کا مصدر الایتار ہے ۔ اور یہ بابِ افعال سے ہے ۔ بابِ افعال کی خاصیت تعدی ہونا ہے ۔ لہٰذا تعدی اسی وقت ہوگی جب دو کے ساتھ ایک رکعت ملالی جائے ۔

دوسری حدیث کا جواب : احناف کے دلائل میں تیسری حدیث ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا کی روایت گزر چکی ہے ۔ چار چار رکعت پڑھنے کے بعد تین رکعت ادا فرمائی ۔ اس لئے دوسری حدیث کی تفسیر خود راوی کی طرف سے موجود ہے کہ گیارہ رکعت میں سے آٹھ رکعت صلوٰۃ اللیل (تہجد) ہے اور تین رکعت وتر ہے ۔

تیسری حدیث کا جواب : حضرت عقبہ بن مسلم نے حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما سے وتر سے متعلق سوال کیا ۔ تو آپ نے فرمایا کہ کیا تم دن کے وتر کو جانتے ہو ۔ آپ نے فرمایا جی ہاں ! نماز مغرب یہ سن کر حضرت عبد ﷲ ابن عمر رضی ﷲ عنہما نے فرمایا کہ رات کے وتر بھی ایسے ہیں ۔ حضرت نافع علیہ الرحمہ کی روایت سے آپ کا فعل ثابت ہو رہا ہے اور حضرت عقبہ علیہ الرحمہ کی روایت سے آپ کا قول ثابت ہورہا ہے ۔ قاعدے کے مطابق حدیث قولی کو ترجیح ہوگی اور وتر کا طریقہ نماز مغرب کی طرح ایک سلام سے تین رکعت ہوگی ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دم کٹی (یعنی صرف ایک رکعت نماز) پڑھنے سے منع فر مایا : ⏬

حضرت سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دم بریدہ نماز پڑھنے سے منع فرمایا یعنی کوئی شخص ایک رکعت وتر پڑھے ۔ (اس حدیث کو علامہ ذیلعی نے نصب الرایہ جلد ۲ صفحہ ۱۲۰،چشتی)(حافظ ابن حجر نے درایہ جلد ۱ صفحہ ۱۱۴)(علامہ عینی نے عمدہ القاری جلد ۴ صفحہ ۴ پر بیان کیا ہے)

حضرت محمد بن کعب قرظی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دم کٹی (ایک رکعت) نماز پڑھنے سے منع فرمایا ۔ (نیل الاوطار مصنفہ قاضی محمد بن علی شوکانی)

بظاہر کچھ حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک رکعت کے ذریعے اپنی نمازوں کو طاق بنایا ، ایسی تمام روایات اس معنیٰ پر محمول ہے کہ وہ ایک رکعت دو رکعات سے ملی ہوئی تھی ۔ کیونکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف ایک رکعت نماز پڑھنے سے منع فرماتے تھے ۔ اور اسی پر تمام امت کا اجماع ہے کہ وتر کی نماز تین رکعات ہیں ۔ چنانچہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’اجمع المسلمون علے ان الوتر ثلاث لا یسلم الا فی آخر ھن‘‘ تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ وتر تین رکعات ہیں اور اس کی صرف آخری رکعت کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ جلد ۲ صفحہ ۲۹۴) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Saturday 24 February 2024

امتناعِ قادیانیت آرڈیننس کے حقائق و پسِ منظر

0 comments
امتناعِ قادیانیت آرڈیننس کے حقائق و پسِ منظر
محترم قارئینِ کرام : 17 فروری 1983ء میں جناب محمد اسلم قریشی مبلغ تحفظ ختم نبوت سیالکوٹ کو مرزائی سربراہ مرزا طاہر کے حکم پر مرزائیوں نے اغوا کیا ۔ جس کے ردعمل میں پھر سے تحریک منظم ہوئی ۔ بالآخر 26 اپریل 1984ء کو امتناع قادیانیت آرڈیننس صدر مملکت جنرل محمد ضیاء الحق صاحب کے ہاتھوں جاری ہوا ۔ قادیانیت کے خلاف آئینی طور پر جتنا ہونا چاہیے تھا اتنا نہیں ہوا لیکن جتنا ہوا اتنا بھی آج تک کبھی نہیں ہوا تھا ۔

امتناع قادیانیت آرڈیننس کیا ہے ؟

1974میں کی گئی قانونی ترمیم کے بعد قادیانیوں کےلیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہیں یا اپنے دین کو دین اسلام کہہ کر اُس کی اشاعت کریں ۔ مگر اُنہوں نے قانونی ترمیم پر عمل کرنے کی بجائے اُس کے برخلاف رویّہ اپنایا اور اپنے خود ساختہ دین کو دینِ اسلام ہی کہتے رہے ۔ اس عمل  کو روکنے کےلیےحکومت نے 1984 میں آرڈیننس نمبر 20 (امتناع قادیانیت آرڈیننس) جاری کیا ۔ امتناع قادیانیت آرڈیننس 26 اپریل 1984 کو ۔ نافذ کیا گیا جس کے تحت 298 بی اور 298 سی کو آئین کا حصّہ بنایا گیا ۔ مگراُنکا یہ رویّہ اور عمل جو آئین پاکستان اور شریعت کے خلاف ہے آج تک جاری و ساری ہے ۔

امتناعِ قادیانیت آرڈیننس نمبر ٢٠ مجریہ ١٩٨٤ء ۔ ١٩٨٤ء میں جنرل ضیاءالحق کے دور میں مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے مطالبہ پر جنرل ضیاءالحق نے امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری کیا جس کی رو سے قادیانیوں کو شعائر اسلام استعمال کرنے سے روکا گیا ۔ اس طرح مسلمانوں کے تمام مکاتبِ فکر کے علمائے کرام ، سیاسی جماعتوں کی شراکت عام مسلمانوں کی قربانیوں سے اللہ تعالٰی نے اس مسئلہ کو حل کیا ۔ اس کا تمام تر سہرا اور کریڈٹ عام مسلمانوں کو جاتا ہے جو آج بھی عقیدہ ختم نبوت پر جان نچھاور کرنے کےلیے تیار رہتے ہیں ۔

سلام ہے ختم نبوت کے ان پروانوں پر

امتناعِ قادیانیت آرڈیننس نمبر ٢٠ مجریہ ١٩٨٤ء : قادیانی گروپ ، لاہوری گروپ اور احمدیوں کو خلاف اسلام سرگرمیوں سے روکنے کےلیے قانون میں ترمیم کرنے کا آرڈیننس ۔ چونکہ یہ قرین مصلحت ہے کہ قادیانی گروپ ، لاہوری گروپ اور احمدیوں کو خلاف اسلام سرگرمیوں سے روکنے کےلیے قانون میں ترمیم کی جائے ۔ اور چونکہ صدر کو اطمینان ہے کہ ایسے حالات موجود ہیں جن کی بنا پر فوری کاروائی کرنا ضروری ہو گیا ہے ۔
لہٰذا اب ٥ جولائی ١٩٧٧ کے اعلان کے بموجب اور اس سلسلے میں اسے مجاز کرنے والے تمام اختیارات استعمال کرتے ہوئے صدر نے حسب ذیل آرڈیننس وضع اور جاری کیا : ⏬

حصہ اول ابتدائیہ

١ ۔ مختصر عنوان اور آغاز نفاذ ۔

(١) یہ آرڈیننس قدیانی گروپ ، لاہوری گروپ اور احمدیوں کی خلافِ اسلام سرگرمیاں (امتناع و تعزیر) آرڈیننس ١٩٨٤ء کے نام سے موسوم ہو گا ۔

(٢) یہ فی الفور نافذالعمل ہو گا ۔

٢ ۔ آرڈیننس عدالتوں کے احکام اور فیصلوں پر غالب ہو گا ۔ اس آرڈیننس کے احکام کسی عدالت کے کسی حکم یا فیصلے کے باوجود موثر ہوں گے ۔

حصہ دوم

مجموعہ تعزیرات پاکستان (ایکٹ نمبر ٤٥ بابت ١٨٦٠ء) کی ترمیم

٣ ۔ ایکٹ نمبر ٤٥ بابت ١٨٦٠ء میں نئی دفعات ٢٩٨ ب اور ٢٩٨ ج کا اضافہ
مجموعہ تعزیراتِ پاکستان (ایکٹ نمبر ٤٥، ١٨٦٠ء میں باب ١٥ میں، دفعہ ٢٩٨ الف کے بعد حسب ذیل نئی دفعات کا اضافہ کیا جائے گا یعنی ۔ ٢٩٨ ب بعض مقدس شخصیات یا مقامات کےلیے مخصوص القاب ، اوصاف یا خطابات وغیرہ کا ناجائز استعمال ۔

(١) قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ (جو خود ، احمدی ، یا کسی دوسرے نام سے موسوم کرتے ہیں) کا کوئی شخص جو الفاظ کے ذریعے خواہ زبانی ہوں یا تحریری یا مرئی نقوش کے ذریعے ۔

(الف) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلیفہ یا صحابی کے علاوہ کسی شخص کو امیرالمومنین ، خلیفتہ المومین ، خلیفتہ المسلمین ، صحابی یا رضی اللہ عنہ کے طور پر منوب کرے یا مخاطب کرے ۔

(ب) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی زوجہ مطہرہ کے علاوہ کسی ذات کو ام المومنین کے طور پر منسوب کرے یا مخاطب کرے ۔

(ج) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان (اہل بیت) کے کسی فرد کے علاوہ کسی شخص کو اہل بیت کے طور پر منسوب کرے یا مخاطب کرے یا ۔
(د) اپنی عبادت گاہ کو ،،مسجد،، کے طور پر منسوب کرے یا موسوم کرے یا پکارے ۔

تو اسے کسی ایک قسم کی سزائے قید اتنی مدت کےلیے دی جائے گی جو تین سال تک ہو سکتی ہے اور وہ جرمانے کا بھی مستوجب ہو گا ۔

(٢) قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ (جو خود ،احمدی، یا کسی دوسرے نام سے موسوم کرتے ہیں) کا کوئی شخص جو الفاظ کے ذریعے خواہ زبانی ہوں یا تحریری ، یا مرئی نقوش کے ذریعے اپنے مذہب میں عبادت کےلیے بلانے کے طریقے یا صورت کو اذان کے طور پر منسوب کرے یا اس طرح اذان دے جس طرح مسلمان دیتے ہیں تو اسے کسی قسم کی سزائے قید اتنی مدت کےلیے دی جائے گی جو تین سال ہو سکتی ہے اور وہ جرمانے کا مستوجب بھی ہو گا ۔

٢٩٨ ۔ قادیانی گروپ وغیرہ کا شخص جو خود کو مسلمان کہے : قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ (جو خود ،احمدی، یا کسی دوسرے نام سے موسوم کرتے ہیں) کا کوئی شخص جو بلاوسطہ یا بالواسطہ خود کو مسلمان ظاہر کرے یا اپنے مذہب کو اسلام کے طور پر موسوم کرے یا منسوب کرے یا الفاظ کے ذریعے خواہ زبانی ہوں یا تحریری یا مرئی نقوش کے ذریعے اپنے مذہب کی تبلیغ یا تشہیر کرے یا دوسروں کو اپنا مذہب قبول کرنے کی دعوت دے یا کسی بھی طریقے سے مسلمانوں کی مذہبی احساسات کو مجروح کرے کسی ایک قسم کی سزائے قید اتنی مدت کےلیے دی جائے گی جو تین سال تک ہو سکتی ہے اور وہ جرمانے کا بھی مستوجب ہو گا ۔

٤ ۔ ایکٹ نبر ٥ بابت ١٨٩٨ء کی دفعہ ٩٩۔الف کی ترمیم : مجموعہ ضابطہ فوجداری ١٨٩٨ء (ایکٹ نمبر ٥ بابت ١٨٩٨ء) میں جس کا حوالہ بعدازیں مذکورہ مجموعہ کے طور پر دیا گیا ہے دفعہ ٩٩، الف میں، ذیلی دفعہ (١) میں : ⏬

(الف) الفاظ اور سکتہ ،اس طبقہ کے، کے بعد الفاظ ، ہندسے ، قوسین ، حروف اور سکتے اس نوعیت کا کوئی مواد جا کا حوالہ مغربی پریس اور پبلی کیشنز آرڈیننس ١٩٦٣ء کی دفعہ ٢٤ کی ذیلی دفعہ (١) کی شق (ی ی) میں دیا گیا ہے شامل کر دیے جائیں گے ، اور  (ب) ہندسہ اور حرف ٢٩٨ الف کے بعد الفاظ ، ہندسے اور حرف یا دفعہ ٢٩٨ ب یا دفعہ ٢٩٨ ج شامل کر دیے جائیں گے  یعنی تین سال کلیے کسی ایک قسم کی سزائے قید اور جرمانہ ، ناقابل ضمانت ، بعض مقدس شخصیات کےلیے مخصوص القاب ، اوصاف اور خطابات وغیرہ کا نا جائز استعمال ٢٩٨ ب ۔ قادیانی گروپ وغیرہ کا شخص جو خود کو مسلمان ظاہر کرے یا اپنے مذہب کی تبلیغ یا تشہیر کرے ٢٩٨ ج ۔

Friday 23 February 2024

عورت اور مرد کی نماز میں فرق مستند دلائل کی روشنی میں

0 comments
عورت اور مرد کی نماز میں فرق مستند دلائل کی روشنی میں
محترم قارئینِ کرام : مرد اور عورت کی جسمانی ساخت میں جو فرق پایا جاتا ہے ، شریعت کی رُو سے شرعی اَحکام و مسائل میں بھی ان کا پاس و لحاظ رکھا گیا ہے ۔ طہارت کے مسائل ہوں یا حج کے ، روزہ کے مسائل ہوں یا زکوٰۃ کے ، عورت کے عورت ہونے کا کسی نہ کسی حکم سے اِظہار ہو جاتا ہے جس طرح نمازِ جمعہ و عیدین مردوں پر فرض ہے عورتوں پر نہیں ۔ اِسی طرح نماز جیسی افضل عبادت میں بھی بعض مخصوص مواقع پر عورت کا طریقہ نماز مرد سے مختلف رکھا گیا تاکہ عورت کے پردہ کا لحاظ رکھا جائے ۔ اس کے اعضائے نسوانی کا اعلان و اظہار نہ ہو مثلاً عورت نماز میں تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ کندھے تک اٹھاتی ہے جبکہ مرد کانوں کی لو تک، مردوں کو سجدہ میں پیٹ رانوں سے اور بازو بغل سے جدا رکھنے کا حکم ہے ۔ جبکہ عورت کو سمٹ کر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ کہ وہ سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو اپنی دونوں رانوں سے چپکائے ۔ امام بیہقی علیہ الرحمہ نے لکھی ہے : اجماع مایفارق المرأۃ فیه للرجل من احکام الصلاۃ راجع الستروهی انما مامورۃ بکل ما هو استر لها ۔ (سنن الکبریٰ جلد ۲ صفحہ ۲۲۲)
ترجمہ : جامع بات یہ ہے کہ نماز کے ان احکام کی بنیاد جن میں مرد و عورت میں فرق ہے ، پردہ پوشی اور ستر ہے ، عورت کو ہر اس کام کا حکم دیا گیا ہے جو اس کےلیے زیادہ پردہ کا باعث ہے ۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِکٌ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہٖ لَقَدْ ہَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ، فَیُحْطَبَ، ثُمَّ آمُرَ بِالصَّلاَۃِ، فَیُؤَذَّنَ لَہَا، ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَیَؤُمَّ النَّاسَ، ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَی رِجَالٍ، فَأُحَرِّقَ عَلَیْہِمْ بُیُوتَہُمْ ۔
ترجمہ : ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اس ذات پاک کی قسم جس کی قبضے میں میری جان ہے میں نے ارادہ کیا کہ کچھ لوگوں کو لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں پھر نماز کے لئے اذان کہنے کا حکم دوں پھر کسی کو حکم دوں کہ وہ اقامت کرے اس کے بعد انہیں چھوڑ کر ان لوگوں کی طرف جاؤں جو جماعت میں حاضر نہیں اور ان کے گھروں کو جلا ڈالوں ۔ (صحیح بخاری،ج 1، کِتَابُ الْاذَان، باب وُجُوْبِ الصَّلوٰۃِ الْجَمَاعَۃِ صفحہ 300 حدیث نمبر 613،چشتی)

حَدَّثَنَا خَلَفٌ، قَالَ:حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ، عَنْ سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیِّ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ :لَوْلَا مَا فِی الْبُیُوتِ مِنَ النِّسَاء وَالذُّرِّیَّۃِ، لَأَقَمْتُ الصَّلَاۃَ، صَلَاۃَ الْعِشَاء، وَأَمَرْتُ فِتْیَانِی یُحْرِقُونَ مَا فِی الْبُیُوتِ بِالنَّارِ” ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اگر گھروں میں عورتیں اور بچے نہ ہوتے تو میں نماز عشا کا حکم دے کر خادموں کو حکم دیتا کہ وہ ان کے گھروں کو آگ سے جلا ڈالیں ۔ (مسند امام احمد، مُسْنَدِ اَبِی ہُرَیْرَہ، حدیث8796)
نوٹ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتوں اور بچوں پر جماعت نہیں ہے ۔

حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّی، أَنَّ عَمْرَو بْنَ عَاصِمٍ، حَدَّثَہُمْ قَالَ: حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ مُوَرِّقٍ، عَنْ أَبِی الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: صَلَاۃُ الْمَرْأَۃِ فِی بَیْتِہَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِہَا فِی حُجْرَتِہَا، وَصَلَاتُہَا فِی مَخْدَعِہَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِہَا فِی بَیْتِہَا ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ عورت کی نماز گھر میں پڑھنا اس کے صحن میں پڑھنے سے بہتر ہے اور گھر کی کوٹھری میں پڑھنا اس کے گھر میں پڑھنے سے بہتر ہے ۔ (سنن ابو داؤد، ج1کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب مَا جَاء فِی خُرُوجِ النِّسَاء إِلَی الْمَسْجِدِ، ص253، حدیث567) ، شیخ ناصر البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ۔

بعض لوگ بخاری شریف کی اس حدیث : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے روایت کی ہے کہ تمہاری عورتیں جب رات کے وقت تم سے مسجد کی طرف جانے کی اجازت مانگیں تو انہیں اجازت دے دیا کرو ۔ (بخاری، کتاب الاذان، حدیث 820) ، کو دلیل بناتے ہیں کہ عورتوں کو مسجدوں سے روکنا غلط ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بارگاہ میں نہایت گستاخی اور بے ادبی کا مظاہرہ اس انداز میں کرتے ہیں گویا بے ادبی اور گستاخی ان کو وراثت میں ملی ہے ۔ دیکھئے ان کی گستاخی ، کہتے ہیں : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اجازت دی ہے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کون ہوتے ہیں منع کرنے والے ، معاذ اللہ ایسے جملے اپنی زبان سے ادا کرنے سے پہلے ذرا یہ سوچ لیا ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لئے ہی فرمایا کہ ’’جس راستے پر حضرت عمر چلتے ہیں تو شیطان اپنا راستہ بدل لیتا ہے ۔‘‘ اور فرمایا کہ ’’میرے بعد کوئی نبی ہوتے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہوتے ۔‘‘ تو شاید ایسی گستاخی کرنے سے رک جاتے ۔ مگر صحیح کہا کسی نے کہ ’’ خدا جب دین لیتا ہے تو عقلیں چھین لیتا ہے ۔‘‘بہر حال یہ ان کی گستاخانہ ذہنیت کی دلیل ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل و کرم ہے کہ اس نے ہم سنیوں کو گستاخ نہیں بنایا ۔ اور عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور عشق صحابہ رضی اللہ عنہم و اولیاءاللہ علیہم الرّحمہ ہمارے دلوں میں موجزن فرمایا ۔
رہی بات حدیث بخاری شریف کی تو اس حدیث میں مسجد حرام اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں عورتوں کی حاضری کو روکنے سے منع کیا گیا تھا پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں مذکورہ مسجدوں سے بھی روک دیا گیا ۔ آنے والی حدیث کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ مسجد حرام اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے علاوہ دیگر مسجدوں میں عورتوں کے لئے نماز مناسب نہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ، ثنا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ، عَنْ أَبِی عَمْرٍو الشَّیْبَانِیِّ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: مَا صَلَّتِ الْمَرْأَۃُ فِی مَکَانٍ خَیْرٌ لَہَا مِنْ بَیْتِہَا إِلَّا أَنْ یَکُونَ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ، أَوْ مَسْجِدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَّا امْرَأَۃً تَخْرُجُ فِی مَنْقَلَیْہَا یَعْنِی خُفَّیْہَا ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عورت کی نماز مکان کے اندرونی حصہ سے زیادہ بہتر کہیں نہیں سوائے مسجد حرام اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے مگر یہ کہ وہ اپنے موزے پہن کر نکلے ۔ (اَلمُعْجَمُ الْکَبِیْر لِلْطِبْرَانِی، باب عین 1، 9472،چشتی)

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِکٌ، عَنْ یَحْییٰ بْنِ سَعِیدٍ، عَنْ عَمْرَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، قَالَتْ: لَوْ أَدْرَکَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا أَحْدَثَ النِّسَاء لَمَنَعَہُنَّ کَمَا مُنِعَتْ نِسَاء بَنِی إِسْرَائِیلَ قُلْتُ لِعَمْرَۃَ: أَوَمُنِعْنَ؟ قَالَتْ: نَعَمْ ۔
ترجمہ : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا : اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دیکھ لیتے جو بعد میں عورتوں نے کیا تو انہیں مسجدوں سے روک دیتے جیسے بنی اسرائیل کی عورتیں روکی گئی تھیں ۔ میں (یحییٰ) نے عمرہ سے کہا : کیا وہ منع کی گئی تھیں فرمایا ، ہاں ۔ (صحیح بخاری،ج 1، کِتَابُ الْاذَان، باب خُرُوجِ النِّسَاء إِلَی المَسَاجِدِ، ص369-370، حدیث824)

عورتوں کا سجدہ

حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ: إِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَۃُ فَلْتَحْتَفِرْ وَلْتَضُمَّ فَخِذَیْہَا ۔
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عورت جب سجدہ کرے تو بہت سمٹ کر سجدہ کرے اور رانوں کو آپس میں ملا لے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، ج1,کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب الْمَرْأَۃُ کَیْفَ تَکُونُ فِی سُجُودِہَا؟، حدیث2777)

حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ قَالَ: نا جَرِیرٌ، عَنْ لَیْثٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَضَعَ الرَّجُلُ بَطْنَہُ عَلَی فَخِذَیْہِ إِذَا سَجَدَ کَمَا تَضَعُ الْمَرْأَۃُ ۔
ترجمہ : حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مرد کے لئے یہ مکروہ ہے کہ سجدہ میں اپنے پیٹ کو اپنی رانوں پر رکھے جیسا کہ عورت رکھتی ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، ج1,کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب الْمَرْأَۃُ کَیْفَ تَکُونُ فِی سُجُودِہَا؟، حدیث2780)

حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ قَالَ: نا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ، قَالَ: إِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَۃُ فَلْتَلْزَقْ بَطْنَہَا بِفَخِذَیْہَا، وَلَا تَرْفَعْ عَجِیزَتَہَا، وَلَا تُجَافِی کَمَا یُجَافِی الرَّجُلُ ۔
ترجمہ : حضرت ابراہیم نخعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عورت جب سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں سے ملا لے اور اپنی سرین کو زیادہ نہ اٹھائے، اعضاء کو ایک دوسرے سے دور نہ رکھے جیسے مرد دور رکھتے ہیں ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، ج1,کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب الْمَرْأَۃُ کَیْفَ تَکُونُ فِی سُجُودِہَا؟، حدیث2782)

عورت نماز میں کس طرح بیٹھیں ؟

حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ قَالَ: نا إِسْمَاعِیلُ بْنُ عُلَیَّۃَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ زُرْعَۃَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلَاجِ، قَالَ: کُنَّ النِّسَاء یُؤْمَرْنَ أَنْ یَتَرَبَّعْنَ إِذَا جَلَسْنَ فِی الصَّلَاۃِ، وَلَا یَجْلِسْنَ جُلُوسَ الرِّجَالِ عَلَی أَوْرَاکِہِنَّ، یُتَّقیٰ ذَلِکَ عَلَی الْمَرْأَۃِ مَخَافَۃَ أَنْ یَکُونَ مِنْہَا الشَّیْئُ۔
ترجمہ : خالد بن لجلاج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عورتوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ وہ چوکڑی مار کر بیٹھیں، مردوں کی طرح اپنی سرین کو پاؤں پر رکھ کر نہ بیٹھیں ، ۔۔۔۔۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، ج1,کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب فِی الْمَرْأَۃِ کَیْفَ تَجْلِسُ فِی الصَّلَاۃِ؟، حدیث نمبر 2783،چشتی)

حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ قَالَ: نا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَطَاء ٍ: تَجْلِسُ الْمَرْأَۃُ فِی مَثْنًی عَلَی شِقِّہَا الْأَیْسَرِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: ہُوَ أَحَبُّ إِلَیْکَ مِنَ الْأَیْمَنِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: تَجْتَمِعُ جَالِسَۃً مَا اسْتَطَاعَتْ، قُلْتُ: تَجْلِسُ جُلُوسَ الرَّجُلِ فِی مَثْنًی، أَوْ تُخْرِجُ رِجْلَہَا الْیُسْرَی مِنْ تَحْتِ أَلْیَتِہَا؟ قَالَ: لَا یَضُرُّہَا أَیُّ ذَلِکَ جَلَسَتْ إِذَا اجْتَمَعَتْ ۔
ترجمہ : حضرت ابن جریج رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عطا رضی اللہ عنہ سے عرض کی کہ عورت ہماری طرح بائیں طرف بیٹھیں گی ؟ انہوں نے فرمایا ہاں ۔ میں نے کہا بائیں طرف بیٹھنا مجھے دائیں طرف بیٹھنے سے زیادہ پسند ہے ۔ انہوں نے کہا : ہاں بیٹھے مگر جتنی طاقت رکھے اتنی ہی سمٹ کر مجتمع (سمٹ) ہو کر بیٹھے ۔ میں نے عرض کی مردوں کی طرح بیٹھے جیسے ہم بیٹھتے ہیں یا اپنا بایاں پاؤں سرین کے نیچے سے باہر نکال کر بیٹھے ؟ انہوں نے فرمایا کوئی ضرر نہیں البتہ بیٹھے مجتمع ہو کر یعنی سمٹ کر ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، ج1,کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب فِی الْمَرْأَۃِ کَیْفَ تَجْلِسُ فِی الصَّلَاۃِ؟، حدیث2791،چشتی)

عَنْ وَاِئلِ بْنِ حُجْرٍقَالَ قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَا وَائِلَ بْنَ حُجْرٍ! اِذَا صَلَّیْتَ فَاجْعَلْ یَدَیْکَ حِذَائَ اُذُنَیْکَ وَالْمَرْاَۃُ تَجْعَلُ یَدَیْھَا حِذَائَ ثَدْیَیْھَا ۔
ترجمہ : حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے وائل بن حجر!جب تو نماز پڑھے تو اپنے ہاتھ اپنے کانوں کے برابر اٹھا اور عورت کے لیے فرمایا کہ وہ اپنی چھاتیوں کے برابر ہاتھ اٹھائے ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی ج 9ص 144حدیث نمبر17497)

عَنْ سَالِمِ الْبَرَّادِ قَالَ: اَتیْنَا عُقْبَۃَ بْنَ عَمْروٍ الْاَنْصَارِی اَبَا مَسْعُوْدٍ فَقُلْنَا لَہٗ حَدِّثْناَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَامَ بَیْنَ اَیْدِیْنَا فِی الْمَسْجِدِ فَکَبَّرَ فَلَمَّارَکَعَ وَضَعَ یَدَیْہِ عَلٰی رُکْبَتَیْہِ وَجَعَلَ اَصَابِعَہٗ اَسْفَلَ مِنْ ذٰلِکَ وَ جَافٰی بَیْنَ مِرْفَقَیْہِ ۔
ترجمہ : حضرت سالم البراد رحمہ اللہ (تابعی) کہتے ہیں کہ ہم ابو مسعود عقبۃ بن عمرو الانصاری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ ہم نے کہا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں بتائیں؟ تو وہ مسجد میں ہمارے سامنے کھڑے ہو گئے، پس تکبیر کہی۔ پھر جب رکوع کیا تو اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھااور اپنی انگلیوں کو اس سے نیچے کیااور اپنی کہنیوں کو اپنے پہلو سے دور رکھا ۔ (سنن ابی داود ج1 ص 133باب صلوۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع والسجود)

غیر مقلد عالم ابو محمد عبد الحق ہاشمی نے رکوع‘ سجود‘ قعود میں مرد و عورت کے فرق پر ایک رسالہ بنام : ’’نصب العمود فی مسئلۃ تجافی المرأۃ فی الرکوع و السجود و القعود.‘‘ تصنیف کیا۔ اس میں ابن حزم ظاہری اور جمہور علماء کے موقف کو نقل کر کے لکھتے ہیں : عِنْدِیْ بِالْاِخْتِیَارِ قَوْلُ مَنْ قَالَ:اِنَّ الْمَرْأۃَ لَاَ تُجَافِیْ فِی الرُّکُوْعِ… لِاَنَّ ذٰلِکَ اَسْتَرُ لَھَا ‘‘ ۔ (نصب العمود فی مسئلۃ تجافی المرأۃ فی الرکوع و السجود و القعود صفحہ نمبر52)
ترجمہ : میرے نزدیک ان لوگوں کا مذہب راجح ہے جو یہ کہتے ہیں کہ عورت رکوع میں اعضاء کو کشادہ نہ کرے…… کیونکہ یہ کیفیت اس کے جسم کو زیادہ چھپانے والی ہے ۔

عَنْ اَبِیْ حُمَیْدٍ فِیْ صِفَۃِ صَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:وَاِذَ ا سَجَدَ فَرَّجَ بَیْنَ فَخِذَیْہِ غَیْرَ حَامِلٍ بَطَنَہٗ عَلٰی شَیْ ئٍ مِّنْ فَخِذَیْہِ ۔
ترجمہ : حضرت ابو حمید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تھے تو پیٹ کو رانوں سے بالکل نہیں ملاتے تھے ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی ج 2ص115)

وَعَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاِذَا سَجَدَتْ اَلْصَقَتْ بَطْنَھَا فِیْ فَخْذِھَاکَاَسْتَرِ مَا یَکُوْنُ لَھَافَاِنَّ اللّٰہَ یَنْظُرُ اِلَیْھَا وَ یَقُوْلُ: یَا مَلَائِکَتِیْ! اُشْھِدُکُمْ اَنِّیْ قَدْ غَفَرْتُ لَھَا ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب عورت سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں کے ساتھ ملا دے کیونکہ یہ کیفیت اس کے جسم کو زیادہ چھپانے والی ہے اور اللہ تعالی عورت کی اس حالت کو دیکھ کر فرماتے ہیں اے میرے فرشتو! میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اس کو بخش دیا ہے ۔ (الکامل لابن عدی ج 2ص631)

عَنْ مُجَاھِدٍ کَانَ یَکْرَہُ اَنْ یَضَعَ الرَّجُلُ بَطَنَہٗ عَلٰی فَخِذَیْہِ اِذَا سَجَدَ کَمَا تَضَعُ الْمَرْاَۃُ ۔
ترجمہ : حضرت مجاہد (تابعی) رحمہ اللہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ مرد جب سجدہ کرے تو عورت کی طرح پیٹ کو اپنی رانوں پر رکھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ ج1 ص302 باب المراۃ کیف تکون فی سجودھا)

عَنْ اَبِیْ اِسْحَاقَ قَالَ وَصَفَ لَنَا الْبَرَائُ بْنِ عَازِبٍ فَوَضَعَ یَدَیْہِ عَلٰی رُکْبَتَیْہِ وَ رَفَعَ عَجِیْزَتَہٗ وَ قَالَ ھٰکَذَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْجُدُ ۔
ترجمہ : حضرت ابو اسحاق(تابعی) رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سجدہ کا طریقہ بتایا۔چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر رکھااور اپنی سرین کو اونچا کیااور فرمایا کی بنی علیہ السلام اسی طرح سجدہ کرتے تھے ۔ (سنن ابی داود ج 1ص137 باب صفۃ السجود، سنن النسائی ج 1ص166 باب صفۃ السجود،چشتی)

عَنِ الْحَسَنِ وَ قَتَادَۃَ قَالاَ: اِذَا سَجَدَتِ الْمَرْاَۃُ فَاِنَّھَا تَنْضَمُّ مَا اسْتَطَاعَتْ وَ لَا تُجَافِیْ لِکَیْ لَا تَرْتَفِعُ عَجِیْزَتُھَا ۔
ترجمہ : حضرت حسن بصری(تابعی) اور حضرت قتادہ (تابعی) رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جب عورت سجدہ کرے تو جس حد تک سمٹ سکتی ہے‘ سمٹنے کی کوشش کرے اور اعضاء کو کشادہ نہ کرے تاکہ اس کی سرین اونچی نہ ہو ۔ (مصنف عبد الرزاق ج 3ص137)

عَنْ مَیْمُوْنَۃَ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا سَجَدَ جَافٰی یَدَیْہِ حَتّٰی لَوْ اَنَّ بَھْمَۃً اَرَادَتْ اَنَّ تَمَرَّ تَحْتَ یَدَیْہِ مَرَّتْ ۔
ترجمہ : حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو اپنے بازؤں کو زمین اور پہلو سے اتنا دور رکھتے کہ اگر بکری کا بچہ بازؤں کے نیچے سے گزرنا چاہتا تو گزر سکتا ۔ (سنن النسائی ج1 ص167 باب التجافی فی السجود)

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ۔ وَ قَالَ : اِنَّمَا سُنَّۃُ الصَّلَاۃِاَنْ تَنْصَبَ رِجْلَکَ الْیُمْنٰی وَ تَثْنِی الْیُسْریٰ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’نماز میں بیٹھنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ آپ دائیں پاؤں کو کھڑا رکھیں اوربائیں پاؤں کو بچھا دیں ۔ (الصحیح للبخاری ج 1ص 114باب سنۃ الجلوس فی التشھد)

عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْرِشُ رِجْلَہٗ الْیُسْریٰ وَ یَنْصِبُ رِجْلَہٗ الْیُمْنٰی ۔
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بائیں پاؤں کو بچھاتے اور اپنے دائیں پاؤں کو کھڑا رکھتے تھے ۔ (الصحیح لمسلم ج1 ص195 باب صفۃ الجلوس بین السجدتین و فی التشھد الاول)

عَنِ ابْنِ عُمَرَ اَنَّہٗ سُئِلَ کَیْفَ کَانَ النِّسَائُ یُصَلِّیْنَ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: کُنَّ یَتَرَبَّعْنَ ثُمَّ اُمِرْنَ اَنْ یَّحْتَفِزْنَ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عورتیں کیسے نماز پڑھتی تھیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیاکہ وہ پہلے قعدہ میں آلتی پالتی مار کر بیٹھتی تھیں‘ پھر ان کو حکم دیا گیا کہ اپنی سرینوں پر بیٹھا کریں ۔ (جامع المسانید ج 1ص400،چشتی)

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَقَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:صَلٰوۃٌ مَعَ الْاِمَامِ اَفْضَلُ مِنْ خَمْسٍ وَّ عِشْرِیْنَ صَلٰوۃً یُصَلِّیْھَا وَاحِدٌ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’امام کے ساتھ نماز پڑھنا تنہا پچیس نمازیں پڑھنے سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے ۔ (الصحیح لمسلم ج 1ص 231)

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: صَلٰوۃُ الْمَرْاَۃِ وَحْدَھَا اَفْضَلُ عَلٰی صَلٰوتِھَا فِی الْجَمْعِ بِخَمْسٍ وَّ عِشْرِیْنَ دَرَجَۃً ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عورت کا اکیلے نماز پڑھنا اس کی نماز با جماعت پر پچیس گنا فضیلت رکھتی ہے ۔ (التیسیر الشرح لجامع الصغیر للمناوی ج2 ص195‘ جامع الاحادیث للسیوطی ج 13ص497 حدیث نمبر13628)

عَنْ اُمِّ حُمَیْدٍ اِمْرَأۃِ اَبِیْ حُمَیْدِ السَّاعِدِیِّ اَنَّھَا جَائَتْ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!اِنِّیْ اُحِبُّ الصَّلٰوۃَ مَعَکَ۔ قَالَ قَدْ عَلِمْتُ اَنَّکِ تُحِبِّیْنَ الصَّلٰوۃَ مَعِیْ وَ صَلٰوتُکِ فِیْ بَیْتِکِ خَیْرٌ مِّنْ صَلاَ تِکِ فِیْ حُجْرَتِکِ وَ صَلٰوتُکِ فِیْ حُجْرَتِکِ خَیْرٌ مِّنْ صَلٰوتِکِ فِیْ دَاِرکِ وَ صَلٰوتُکِ فِیْ دَارِکِ خَیْرٌ مِنْ صَلٰوتِکِ فِیْ مَسْجِدِ قَوْمِکِ وَ صَلٰوتُکِ فِیْ مَسْجِدِ قَوْمِکِ خَیْرٌ مِّنْ صَلٰوتِکِ فِیْ مَسْجِدِیْ۔قَالَ فَاَمَرَتْ فَبُنِیَ لَھَا مَسْجِدٌ فِیْ اَقْصٰی شَیْئٍ مِنْ بَیْتِھَا وَ اَظْلَمِہٖ وَ کَانَتْ تُصَلِّیْ فِیْہِ حَتّٰی لَقِیَتِ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ ۔
ترجمہ : حضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ کی بیوی ام حمید رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اورعرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے کو پسند کرتی ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں جانتا ہوں کہ تو میرے ساتھ نماز پڑھنے کو پسند کرتی ہے۔(لیکن) تیرا اپنے گھر میں نماز پڑھنا تیرے حجرے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے‘ اور تیرا حجرے میں نماز پڑھنا چار دیواری میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے‘چاردیواری میں نماز پڑھنا تیری قوم کی مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور قوم کی مسجد میں نماز پڑھنا میری مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ حضرت ام حمید رضی اللہ عنہا نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منشا سمجھ کر) اپنے گھر والوں کو حکم دیا تو ان کے لیے گھر کے دور اور تاریک ترین گوشہ میں نماز کی جگہ بنا دی گئی۔ وہ اپنی وفات تک اسی میں نماز پڑھتی رہیں ۔ (الترغیب والترھیب للمنذری ج1 ص225 باب ترغیب النساء فی الصلاۃ فی بیوتھن و لزومھا و ترھیبھن من الخروج منھا،چشتی)

مرد و عورت کی نماز کا فرق اور فقہاء اربعہ

(1) : قَالَ الْاِمَامُ الْاَعْظَمُ فِی الْفُقَھَائِ اَبُوْحَنِیْفَۃَ:وَالْمَرْاَۃُ تَرْفَعُ یَدَیْھَاحِذَائَ مَنْکَبَیْھَا ھُوَ الصَّحِیْحُ لِاَنَّہٗ اَسْتَرُ لَھَا ۔ (الھدایۃ فی الفقہ الحنفی ج1 ص84 باب صفۃ الصلوۃ) وَقَالَ اَیْضاً:وَالْمَرْاَۃُ تَنْخَفِضُ فِیْ سُجُوْدِھَاوَتَلْزَقُ بَطْنَھَا بِفَخْذَیْھَا لِاَنَّ ذٰلِکَ اَسْتَرُ لَھَا۔ (الھدایۃ فی الفقہ الحنفی ج1 ص92)
ترجمہ : امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عورت اپنے ہاتھوں کو اپنے کندھوں تک اٹھائے کیونکہ اس میں پردہ زیادہ ہے ۔
مزید فرمایا : عورت سجدوں میں اپنے جسم کو پست کرے اور اپنے پیٹ کو اپنی رانوں کے ساتھ ملائے کیونکہ اس کے جسم کو زیادہ چھپانے والا ہے ۔
(2) : قَالَ الْاِمَامُ مَالِکُ بْنُ اَنَسٍ:وَالْمَرْاَۃُ دُوْنَ الرَّجُلِ فِی الْجَھْرِ وَھِیَ فِیْ ھَیْاَۃِ الصَّلاَۃِ مِثْلَہٗ غَیْرَ اَنَّھَا تَنْضَمُّ وَ لاَ تُفَرِّجُ فَخْذَیْھَا وَلاَ عَضُدَیْھَاوَتَکُوْنُ مُنْضَمَّۃً مُتَرَوِّیَۃً فِیْ جُلُوْسِھَا وَسُجُوْدِھَا وَاَمْرِھَا کُلِّہٖ۔ (رسالۃ ابن ابی زید القیروانی المالکی ص34)
ترجمہ : اما م مالک بن انس رحمہ اللہ نے فرمایا:عورت کی نماز کی کیفیت مرد کی نماز کی طرح ہے مگر یہ کہ عورت سمٹ کر نماز پڑھے ‘ اپنی رانوں اور بازؤں کے درمیان کشادگی نہ کرے اپنے قعود‘ سجود اور نماز کے تمام احوال میں ۔
(3) : قَالَ الْاِمَامُ مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ الشَّافَعِیّ:وَقَدْ اَدَّبَ اللّٰہُ النِّسَائَ بِالْاِسْتِتَارِ وَاَدَّبَھُنَّ بِذَالِکَ رَسُوْلُہٗ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاُحِبُّ لِلْمَرْاَۃِ فِی السُّجُوْدِ اَنْ تَنْضَمَّ بَعْضَھَااِلٰی بَعْضٍ وَتَلْصَقُ بَطَنَھَا بِفَخِذَیْھَا وَتَسْجُدُ کَاَسْتَرِمَایَکُوْنُ لَھَاوَھٰکَذَا اُحِبُّ لَھَا فِی الرُّکُوْعِ وَ الْجُلُوْسِ وَجَمِیْعِ الصَّلَاۃِ اَنْ تَکُوْنَ فِیْھَا کَاَسْتَرِ َمایَکُوْنُ لَھَا ۔ (کتاب الام للشافعی ج 1ص 286ص 287باب التجافی فی السجود)
ترجمہ : امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:اللہ تعالی نے عورت کو پردہ پوشی کا ادب سکھایا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی ادب سکھایا ہے۔ اس ادب کی بنیاد پر میں عورت کے لیے یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ سجدہ میں اپنے بعض اعضاء کو بعض کے ساتھ ملائے اور اپنے پیٹ کو رانوں کے ساتھ ملا کر سجدہ کرے‘ اس میں اس کے لیے زیادہ ستر پوشی ہے۔ اسی طرح میں عورت کے لیے رکوع ،قعدہ اور تمام نماز میں یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ نماز میں ایسی کیفیات اختیار کرے جس میں اس کے لیے پردہ پوشی زیادہ ہو ۔
(4) : قَالَ الْاِمَامَ اَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ:وَالْمَرْاَۃُ کَالرَّجُلِ فِیْ ذٰلِکَ کُلِّہٖ اَنَّھَا تَجْمَعُ نَفْسَھَا فِی الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ وَتَجْلِسُ مُتَرَبِّعَۃً اَوْتَسْدُلُ رِجْلَیْھَافَتَجْعَلُھُمَا فِیْ جَانِبِ یَمِیْنِھَا۔۔۔۔۔ قَالَ اَحْمَدُ:اَلسَّدْلُ اَعْجَبُ اِلَیَّ ۔ (الشرح الکبیر لابن قدامۃ ج1 ص599 ‘ المغنی لابن قدامۃ ج1 ص635،چشتی)
ترجمہ : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا: سب احکام میں مرد کی طرح ہے مگر رکوع و سجود میں اپنے جسم کو سکیڑ کر رکھے اور آلتی پالتی مار کر بیٹھے یا اپنے دونوں پاؤں اپنی دائیں جانب نکال کر بیٹھے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:’’عورت کا اپنے دونوں پاؤں اپنی دائیں جانب نکال کر بیٹھنا میرے ہاں پسندیدہ عمل ہے ۔

چند محدثین کرام علیہم الرّحمہ کے نام جنہوں نے مرد و عورت کی نماز میں فرق بیان کیا :
امام ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ م96ھ۔ آپ محدث و مفتی کوفہ ہیں ۔
امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ م102ھ۔ محدث و مفتی مکہ ہیں ۔
امام عامر الشعبی رحمۃ اللہ علیہ م104ھ۔ آپ کی 500صحابہ رضی اللہ عنہم سے ملاقات ثابت ہے ۔ کوفہ کے بہت بڑے محدث‘ فقیہ‘ مفتی اور مغازی کے امام تھے ۔
امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ م 110ھ۔ بصرہ کے محدث اور مفتی تھے ۔
امام عطاء رحمۃ اللہ علیہ م114ھ۔ آپ محدث و مفتی مکہ ہیں ۔

مولانا عبد الحئی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ کا فیصلہ فرماتے ہیں : قَالَ الْاِمَامُ عَبْدُ الْحَئْیِ اللَّکْنَوِیِّ: وَاَمَّا فِیْ حَقِّ النِّسَائِ فَاتَّفَقُوْاعَلٰی اَنَّ السُّنَّۃَ لَھُنَّ رَفْعُ الْیَدَیْنِ عَلَی الصَّدْرِ لِاَنَّھَامَا اَسْتَرُ لَھَا ۔
ترجمہ : عورتوں کے حق میں علماء نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ اس کے لیے سینہ تک ہاتھ اٹھانا سنت ہے کیونکہ اس میں پردہ زیادہ ہے ۔ (السعایۃ جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 156)

نتیجہ واضح ہو گیا کہ مقصد عورت کے پردے کا ہے ، وہ اپنی طاقت کے مطابق جتنا بھی ہو سکے اپنے بدن کے حصے کو دوسرے بدن کے حصے سے ملا کر، زمین سے سمٹ کر بیٹھے ، خواہ یہ مقصد چوکڑی مار کر بیٹھنے سے حاصل ہو یا سرین کو زمین پر رکھنے اور پاؤں کو باہر نکالنے سے حاصل ہو ۔ عورت تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ کانوں تک نہ اٹھائے کیونکہ اس کے بازو زیادہ کھل جانے اور سینے کے ابھار کا ظاہر ہونے کا خدشہ رہے گا جوا س کی بے پردگی پر دلالت کریں گے ، لیکن عورت جب اپنے ہاتھ کندھے تک بمشکل اٹھائے گی ۔ توا س کا پردہ برقرار رہے گا ۔ اسی طرح عورت جب ہاتھ باندھتے وقت اپنے ہاتھ اپنے پستانوں پر رکھ کر باندھے گی تو اس کا زیادہ پردہ ہو گا ۔

مردوں اور عورتوں کی نماز میں یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اٹھانے میں دونوں کا طریقہ الگ ہے ، روایات سے مردوں کا طریقہ ہاتھ اٹھانے کا یہ ثابت ہے کہ وہ دونوں ہاتھ کانوں کی لو تک اٹھائیں گے لیکن عورتیں مردوں کی طرح کانوں کی تک ہاتھ نہیں اٹھائیں گی بلکہ وہ اپنے کندھوں کے برابر اس طرح اپنے ہاتھ اٹھائیں گی کہ ہاتھوں کی انگلیوں کے سرے کندھے تک ہو جائیں اور گٹے سینے کے برابر ہوں ، جیسا کہ ان روایات میں عورتوں کے بارے میں یہ طریقہ بتایا گیا ہے : عَنْ وَائِلِ بن حُجْرٍ، قَالَ: جِئْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ... فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:يَا وَائِلُ بن حُجْرٍ، إِذَا صَلَّيْتَ فَاجْعَلْ يَدَيْكَ حِذَاءَ أُذُنَيْكَ، وَالْمَرْأَةُ تَجْعَلُ يَدَيْهَا حِذَاءَ ثَدْيَيْهَا. (المعجم الکبیر للطبرانی  جلد 9 صفحہ 144رقم17497، مجمع الزوائد: ج9 ص624 رقم الحدیث1605)(البدر المنير لابن الملقن:ج3ص463)
ترجمہ : حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا (درمیان میں طویل عبارت ہے، اس میں ہے کہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمایا : اے وائل ! جب تم نماز پڑھو تو اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاؤ اور عورت اپنے دونوں ہاتھ اپنی چھاتی کے برابر اٹھائے ۔

حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شَيْخٌ لَنَا ، قَالَ : سَمِعْتُ عَطَاءً؛ سُئِلَ عَنِ الْمَرْأَةِ كَيْفَ تَرْفَعُ يَدَيْهَا فِي الصَّلاَةِ ؟ قَالَ : حَذْوَ ثَدْيَيْهَا ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ: ج1ص270باب في المرأة إذَا افْتَتَحَتِ الصَّلاَةَ ، إلَى أَيْنَ تَرْفَعُ يَدَيْهَا)
ترجمہ : حضرت عطاء بن ابی رباح رحم اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ عورت نماز میں ہاتھ کہاں تک اٹھائے ؟ فرمایا : اپنے سینے تک ۔

عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ زَيْتُونَ ، قَالَ : رَأَيْتُ أُمَّ الدَّرْدَاءِ تَرْفَعُ يَدَيْهَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهَا حِينَ تَفْتَتِحُ الصَّلاَةَ ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ: ج2ص421باب فی المرءۃ اذا افتتحت الصلوۃ الی این ترفع یدیہا؟)
ترجمہ : عبد ربہ بن زیتون سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ام درداء رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ نماز شروع کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھاتی تھیں ۔ (تہذیب التہذیب ج7 ص715 رقم الترجمۃ 12193 تحت ترجمہ ام الدرداء)
ان تینوں روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں اس عمل میں مردوں کے جیسا عمل نہیں کریں گی ان کو پردہ کی رعایت میں یہ خاص طریقہ بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے ہاتھ اس طرح اٹھائیں گی کہ ہاتھوں کی انگلیاں کندھوں تک اور ہتھیلیاں سینہ کے برابر آ جائیں ۔

مردوں کے ہاتھ باندھنے کا طریقہ جو احادیث سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ مرد دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی پشت پر رکھ کر، انگوٹھے اور چھنگلیا سے بائیں ہاتھ کے گٹے کو پکڑتے ہوئے تین انگلیاں کلائی پر بچھا کر ہاتھ ناف کے نیچے رکھتے ہیں ۔ لیکن عورتوں کےلیے اس سے زیادہ پردہ والا طریقہ بتایا گیا کہ وہ قیام کے وقت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھیں گی، فقہاء اور محدثین کی تصریحات سے اس مسئلہ کی وضاحت ہوتی ہے ۔

امام ابو القاسم ابراہیم بن محمد القاری الحنفی السمر قندی علیہ الرحمہ (المتوفیٰ بعد907ھ) لکھتے ہیں : وَ الْمَرْاَۃُ تَضَعُ [یَدَیْھَا]عَلٰی صَدْرِھَا بِالْاِتِّفَاقِ ۔ (مستخلص الحقائق شرح کنز الدقائق: ص153)
ترجمہ : عورت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی ، اس پر سب فقہاء کا اتفاق ہے ۔

سلطان المحدثین امام ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ (م1014ھ) فرماتے ہیں : وَ الْمَرْاَۃُ تَضَعُ [یَدَیْھَا] عَلٰی صَدْرِھَا اِتِّفَاقًا لِاَنَّ مَبْنٰی حَالِھَا عَلَی السَّتْرِ ۔ (فتح باب العنایۃ: ج1 ص243 سنن الصلوۃ،چشتی)
ترجمہ : عورت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی،اس پر سب فقہاء کا اتفاق ہے، کیونکہ عورت کی حالت کا دارو مدار پردے پر ہے ۔

علامہ عبد الحی فرنگی محلی لکھتے ہیں :
اتفقو علی ان السنة لهن وضع الیدین علی الصدر ۔ (السعایہ:۲؍۱۵۶)
ترجمہ : فقہا ء کا اتفاق ہے کہ عورتوں کے لئے سینہ پر ہاتھ باندھنا مسنون ہے ۔
 
عورتیں مردو کی طرح رکوع نہیں کریں گی بلکہ ان کی رکوع کا طریقہ پردہ کے پیش نظر یہ ہے کہ عورتیں رکوع میں مرد کی بنسبت کم جھکیں گی ، اپنے ہاتھ بغیر کشاد کیے ہوئے گھٹنوں پر رکھیں گی اور کہنیوں کو پہلو سے ملا کر رکھیں گی ۔

عَنْ اِبْنِ عَبَّاسِ رضی اللہ عنہما َانَّہٗ سُئِلَ عَنْ صَلاَۃِ الْمَرْأۃِ فَقَالَ: تَجْتَمِعُ وَتَحْتَفِزُ ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ:۱؍۳۷۰ مصنف عبد الرزاق:۲؍۱۳۷)
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے عورت کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ وہ سمٹ کر اورچپک کر نماز پڑھے ۔

صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اس حکم سے جو کہ تعلیم نبوت کی روشنی میں ہے ، عورتوں کے بارے میں یہ حکم معلوم ہوتا ہے کہ وہ نماز میں پردہ کے پیش نظر جہاں تک ممکن ہو اپنے جسم کو سمیٹ کر ہی رکھیں ، اس لیے اس روایت کی روشنی میں عورتوں کے رکوع اور سجدہ کی کیفیت مردوں سے جداگانہ معلوم ہوتی ہے ، چناں چہ اس روایت کی روشنی میں عورتیں رکوع میں زیادہ نہ جھکیں گی ، بلکہ تھوڑا جھکیں گی ، کیونکہ پیٹھ کو بالکل سیدھا رکھنے کا حکم مردوں کےلیے ہے ، عورتوں کےلیے اصل حکم اپنے جسم کو سمیٹنا ہے ، نیز اپنی کہنیوں کو اپنے پہلو سے ملا کر رکھیں گی اور اپنے ہاتھ کو گھٹنوں پر رکھیں گی ، البتہ مردوں کی طرح انگلیوں کو پھیلانے کے بجائے ملا کر گھٹنوں پر رکھیں گی ۔ تاکہ سمٹنے کے حکم پر عمل ہو سکے اور زیادہ سے زیادہ پردہ ہو سکے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں بھی عورتوں اسی کا حکم دیا گیا ہے : اِذَا صَلَّتِ الْمَرْأَ ۃُ فَلْتَحْتَفِزْ اِذَا جَلَسَتْ وَاِذَا سَجَدَتْ وَلاَ تُخْوِیْ اَیْ تَنْضَمُّ وَتَجْتَمِعُ ۔ (مجمع البحار:۱؍۲۷۹)
ترجمہ : جب عورت نماز پڑھے گی تو بیٹھنے میں اور سجدہ کرنے میں اپنے آپ کو سمیٹ کر رکھے گی اور اپنے اعضاء کو نہ پھیلائے گی ، بلکہ سمیٹ کراور ملا کر رکھے گی ۔

مرد سجدہ میں اپنا پیٹ رانوں سے دور رکھیں گے ، اپنی کہنیوں کو زمین سے بلند رکھتے ہوئے پہلو سے جدا رکھیں گے اور سرین کو اونچا کریں گے ۔ لیکن یہ عورتیں اس طرح سجدہ نہیں کریں گی بلکہ وہ پیٹ کو رانوں سے ملائیں گی ، بازؤوں کو پہلو سے ملا کر رکھیں گی اور کہنیاں زمین پر بچھا دیں گی ؛ کیونکہ ان کو اس خاص طریقہ کی تعلیم دی گئی ہے جیسا کہ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے :

 عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلہ وَسَلَّم وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى امْرَأَتَيْنِ تُصَلِّيَانِ ، فَقَالَ : إِذَا سَجَدْتُمَا فَضُمَّا بَعْضَ اللَّحْمِ إِلَى الأَرْضِ ، فَإِنَّ الْمَرْأَةَ لَيْسَتْ فِي ذَلِكَ كَالرَّجُلِ ۔  (مراسیل ابی داؤد: ص103 باب مِنَ الصَّلاةِ، السنن الکبری للبیہقی: ج2ص223, جُمَّاعُ أَبْوَابِ الاسْتِطَابَۃ،چشتی)
ترجمہ : حضرت یزید بن ابی حبیب سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دو عورتوں کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں ۔ آپ نے فرمایا : جب تم سجدہ کرو تو اپنے جسم کا کچھ حصہ زمین سے ملالیا کرو کیونکہ عورت (کا حکم سجدہ کی حالت میں) مرد کی طرح نہیں ہے ۔

 عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَاجَلَسَتِ الْمَرْاَۃُ فِی الصَّلٰوۃِ وَضَعَتْ فَخِذَھَا عَلٰی فَخِذِھَا الْاُخْریٰ فَاِذَا سَجَدَتْ اَلْصَقَتْ بَطْنَھَا فِیْ فَخِذِھَاکَاَسْتَرِمَا یَکُوْنُ لَھَا فَاِنَّ اللّٰہَ یَنْظُرُ اِلَیْھَا وَ یَقُوْلُ یَا مَلَائِکَتِیْ اُشْھِدُکُمْ اَنِّیْ قَدْغَفَرْتُ لَھَا ۔ (الکامل لابن عدی ج 2ص501، رقم الترجمۃ 399 ،السنن الکبری للبیہقی ج2 ص223 باب ما یستحب للمراۃالخ)(جامع الاحادیث للسیوطی ج 3ص43 رقم الحدیث 1759)
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: جب عورت نماز میں بیٹھے تو اپنی ایک ران دوسری ران پر رکھے اور جب سجدہ کرے تو اپنا پیٹ اپنی رانوں کے ساتھ ملا لے جو اس کے لئے زیادہ پردے کی حالت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھتے ہیں اور فرماتے ہیں : اے میرے ملائکہ ! گواہ بن جاؤ میں نے اس عورت کو بخش دیا ۔

 عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍالْخُدْرِیِّ رضی اللہ عنہ صَاحِبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَّہٗ قَالَ... کَانَ یَاْمُرُالرِّجَالَ اَنْ یَّتَجَافُوْا فِیْ سُجُوْدِھِمْ وَ یَاْمُرُالنِّسَائَ اَنْ یَّتَخَفَّضْنَ ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی: ج 2ص222.223 باب ما یستحب للمراۃالخ)
ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مردوں کو حکم فرماتے تھے کہ سجدے میں (اپنی رانوں کو پیٹ سے) جدا رکھیں اور عورتوں کو حکم فرماتے تھے کہ خوب سمٹ کر (یعنی رانوں کو پیٹ سے ملا کر) سجدہ کریں ۔

 عن الحسن وقتادة قالا إذا سجدت المرأة فإنها تنضم ما استطاعت ولا تتجافى لكي لا ترفع عجيزتها ۔ (مصنف عبدالرزاق ج 3ص49 باب تکبیرۃ المراءۃ بیدیہا وقیام المراءۃ ورکوعہا وسجودہا)
ترجمہ : حضرت حسن بصری اور حضرت قتادہ رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ جب عورت سجدہ کرے تو جہاں تک ہو سکے سکڑ جائے اور اپنی کہنیاں پیٹ سے جدا نہ کرے تاکہ اس کی پشت اونچی نہ ہو ۔

 عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّهُ كَانَ يَكْرَهُ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ بَطْنَهُ عَلَى فَخِذَيْهِ إِذَا سَجَدَ كَمَا تَصْنَعُ الْمَرْأَةُ ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: رقم الحديث 2704)
ترجمہ : حضرت مجاہد رحمة ﷲ علیہ اس بات کو مکروہ جانتے تھے کہ مرد جب سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں پر رکھے جیسا کہ عورت رکھتی ہے ۔

عن عطاء قال... إذا سجدت فلتضم يديها إليها وتضم بطنها وصدرها إلى فخذيها وتجتمع ما استطاعت ۔ (مصنف عبدالرزاق ج3ص50رقم5983)
ترجمہ : حضرت عطاء علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ عورت جب سجدہ کرے تو اپنے بازو اپنے جسم کے ساتھ ملا لے، اپنا پیٹ اور سینہ اپنی رانوں سے ملا لے اور جتنا ہو سکے خوب سمٹ کر سجدہ کرے ۔

قعدہ اولی اور قعدہ اخیرہ میں مردوں کے بیٹھنے کا طریقہ احادیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مرد دائیں پاؤں کو انگلیوں کے بل کھڑا کر لیں اور بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھ جائیں ، لیکن عورت کے بیٹھنے کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں پاؤں دائیں جانب نکال کر سرین کے بل اس طرح بیٹھے کہ دائیں ران بائیں ران کے ساتھ ملا دے ؛ کیونکہ اس طرح سمٹ کر اور زمین سے لگ کر بیٹھنے میں مردوں کی طرح بیٹھنے کی بنسبت زیادہ پردہ ہے ، اس سلسلہ میں ان روایات سے عورت کے خاص طریقہ کا علم ہوتا ہے :

عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَاجَلَسَتِ الْمَرْاَۃُ فِی الصَّلٰوۃِ وَضَعَتْ فَخِذَھَا عَلٰی فَخِذِھَا الْاُخْریٰ فَاِذَا سَجَدَتْ اَلْصَقَتْ بَطْنَھَا فِیْ فَخِذِھَاکَاَسْتَرِمَا یَکُوْنُ لَھَا فَاِنَّ اللّٰہَ یَنْظُرُ اِلَیْھَا وَ یَقُوْلُ یَا مَلَائِکَتِیْ اُشْھِدُکُمْ اَنِّیْ قَدْغَفَرْتُ لَھَا۔(الکامل لابن عدی ج 2ص501، رقم الترجمۃ 399 ،السنن الکبری للبیہقی ج2 ص223 باب ما یستحب للمراۃالخ،چشتی)(جامع الاحادیث للسیوطی ج 3ص43 رقم الحدیث 1759)
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جب عورت نماز میں بیٹھے تو اپنی ایک ران دوسری ران پر رکھے اور جب سجدہ کرے تو اپنا پیٹ اپنی رانوں کے ساتھ ملا لے جو اس کےلیے زیادہ پردے کی حالت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھتے ہیں اور فرماتے ہیں:اے میرے ملائکہ ! گواہ بن جاؤ میں نے اس عورت کو بخش دیا ۔

 عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍالْخُدْرِیِّ رضی اللہ عنہ صَاحِبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَّہٗ قَالَ... وَکَانَ یَاْمُرُالرِّجَالَ اَنْ یَّفْرِشُوْا الْیُسْریٰ وَیَنْصَبُوْا الْیُمْنٰی فِی التَّشَھُّدِ وَ یَاْمُرُالنِّسَائَ اَنْ یَّتَرَبَّعْنَ ۔ (السنن الکبری للبیہقی ج 2ص222.223 باب ما یستحب للمراۃالخ)(التبویب الموضوعی للاحادیث ص2639)
ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مردوں کو حکم فرماتے تھے کہ تشہد میں بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھیں اور دایاں پاؤں کھڑا رکھیں اور عورتوں کو حکم فرماتے تھے کہ چہار زانو بیٹھیں ۔

 عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، أَنَّهُ سُئِلَ: كَيْفَ كُنَّ النِّسَاءُ يُصَلِّينَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ كُنَّ يَتَرَبَّعْنَ ، ثُمَّ أُمِرْنَ أَنْ يَحْتَفِزْنَ ۔ (جامع المسانید از محمد بن محمود خوارزمی ج1ص400)(مسند ابی حنیفۃ روایۃ الحصكفی: رقم الحديث 114)
ترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال کیا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں عورتیں نماز کس طرح ادا کرتی تھیں ۔ انہوں نے فرمایا پہلے توچہار زانوں ہو بیٹھتی تھیں پھر ان کو حکم دیا گیا کہ دونوں پاؤں ایک طرف نکال کر سرین کے بل بیٹھیں ۔

 عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہ اَنَّہٗ سُئِلَ عَنْ صَلٰوۃِ الْمَرْاَۃِ فَقَالَ تَجْتَمِعُ وَتَحْتَفِزُ ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ ج 2ص505، المرا ۃ کیف تکون فی سجودھا، رقم الحدیث2794)
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے عورت کی نماز سے متعلق سوال کیا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : خوب سمٹ کر نماز پڑھے اور بیٹھنے کی حالت میں سرین کے بل بیٹھے ۔

چہار زانو بیٹھنے کا حکم شروع شروع میں تھا لیکن بعد میں یہ حکم تبدیل ہو گیا ۔ اب حکم ”اِحْتِفَاز“ کا ہے یعنی ”کمر کو زمین سے لگا کر بیٹھنا ۔
ان تفصیلات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اوپر نماز کے جن اعمال کا ذکر کیا گیا ہے ان میں عورتوں کا طریقہ مردوں سے مختلف ہے اور ان کے علاوہ دیگر اعمال ومسائل میں مردو عورت کا حکم اور طریقہ یکساں ہے ، اس لیے تمام ائمہ علیہم الرحمہ اس بات کے قائل ہیں کہ چند اعمال میں جن میں عورتوں کے لئے خاص طریقہ مذکور ہے ان میں عورتوں کا طریقہ مردو سے مختلف ہے اور عورتیں انہیں خاص طریقوں کے مطابق اپنی نمازیں ادا کریں گی ۔

 فقہ حنفی کی مشہور کتاب ہدایہ میں تحریر ہے : قَالَ الْاِمَامُ الْاَعْظَمُ فِی الْفُقَھَائِ اَبُوْحَنِیْفَۃَ : وَالْمَرْاَۃُ تَرْفَعُ یَدَیْھَاحِذَائَ مَنْکَبَیْھَا ھُوَ الصَّحِیْحُ لِاَنَّہٗ اَسْتَرُ لَھَا ۔ (الھدایۃ فی الفقہ الحنفی ج1 ص84 باب صفۃ الصلوۃ،چشتی)
ترجمہ : امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عورت اپنے ہاتھوں کو اپنے کندھوں تک اٹھائے کیونکہ اس میں پردہ زیادہ ہے ۔
وَقَالَ اَیْضاً : وَالْمَرْاَۃُ تَنْخَفِضُ فِیْ سُجُوْدِھَاوَتَلْزَقُ بَطْنَھَا بِفَخْذَیْھَا لِاَنَّ ذٰلِکَ اَسْتَرُ لَھَا ۔ (الھدایۃ فی الفقہ الحنفی ج1 ص92)
ترجمہ : مزید فرمایا : عورت سجدوں میں اپنے جسم کو پست کرے اور اپنے پیٹ کو اپنی رانوں کے ساتھ ملائے کیونکہ اس کے جسم کو زیادہ چھپانے والا ہے ۔

 قَالَ الْاِمَامُ مَالِکُ بْنُ اَنَسٍ:وَالْمَرْاَۃُ دُوْنَ الرَّجُلِ فِی الْجَھْرِ وَھِیَ فِیْ ھَیْاَۃِ الصَّلاَۃِ مِثْلَہٗ غَیْرَ اَنَّھَا تَنْضَمُّ وَ لاَ تُفَرِّجُ فَخْذَیْھَا وَلاَ عَضُدَیْھَاوَتَکُوْنُ مُنْضَمَّۃً مُتَرَوِّیَۃً فِیْ جُلُوْسِھَا وَسُجُوْدِھَا وَاَمْرِھَا کُلِّہ ۔ (رسالۃ ابن ابی زید القیروانی المالکی: صفحہ 34)
ترجمہ: اما م مالک بن انس رحمة اللہ علیہ نے فرمایا : عورت کی نماز کی کیفیت مرد کی نماز کی طرح ہے مگر یہ کہ عورت سمٹ کر نماز پڑھے ‘ اپنی رانوں اور بازؤوں کے درمیان کشادگی نہ کرے اپنے قعود‘ سجود اور نماز کے تمام احوال میں ۔

قَالَ الْاِمَامُ مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ الشَّافَعِیّ:وَقَدْ اَدَّبَ اللّٰہُ النِّسَائَ بِالْاِسْتِتَارِ وَاَدَّبَھُنَّ بِذَالِکَ رَسُوْلُہٗ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاُحِبُّ لِلْمَرْاَۃِ فِی السُّجُوْدِ اَنْ تَنْضَمَّ بَعْضَھَااِلٰی بَعْضٍ وَتَلْصَقُ بَطَنَھَا بِفَخِذَیْھَا وَتَسْجُدُ کَاَسْتَرِمَایَکُوْنُ لَھَاوَھٰکَذَا اُحِبُّ لَھَا فِی الرُّکُوْعِ وَ الْجُلُوْسِ وَجَمِیْعِ الصَّلَاۃِ اَنْ تَکُوْنَ فِیْھَا کَاَسْتَرِ َمایَکُوْنُ لَھَا ۔ (کتاب الام للشافعی ج 1ص 286ص 287باب التجافی فی السجود)
ترجمہ : امام محمد بن ادریس الشافعی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا : اللہ تعالی نے عورت کو پردہ پوشی کا ادب سکھایا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی یہی ادب سکھایا ہے۔ اس ادب کی بنیاد پر میں عورت کےلیے یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ سجدہ میں اپنے بعض اعضاء کو بعض کے ساتھ ملائے اور اپنے پیٹ کو رانوں کے ساتھ ملا کر سجدہ کرے‘ اس میں اس کے لیے زیادہ ستر پوشی ہے۔ اسی طرح میں عورت کے لیے رکوع ،قعدہ اور تمام نماز میں یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ نماز میں ایسی کیفیات اختیار کرے جس میں اس کے لیے پردہ پوشی زیادہ ہو ۔

قَالَ الْاِمَامَ اَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ:وَالْمَرْاَۃُ کَالرَّجُلِ فِیْ ذٰلِکَ کُلِّہٖ اَنَّھَا تَجْمَعُ نَفْسَھَا فِی الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ وَتَجْلِسُ مُتَرَبِّعَۃً اَوْتَسْدُلُ رِجْلَیْھَافَتَجْعَلُھُمَا فِیْ جَانِبِ یَمِیْنِھَا۔۔۔۔۔ قَالَ اَحْمَدُ:اَلسَّدْلُ اَعْجَبُ اِلَیَّ ۔  (الشرح الکبیر لابن قدامۃ ج1 ص599 ‘ المغنی لابن قدامۃ ج1 ص635،چشتی)
ترجمہ: امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ نے فرمایا : سب احکام میں مرد کی طرح ہے مگر رکوع و سجود میں اپنے جسم کو سکیڑ کر رکھے اور آلتی پالتی مار کر بیٹھے یا اپنے دونوں پاؤں اپنی دائیں جانب نکال کر بیٹھے ۔ امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ نے فرمایا : عورت کا اپنے دونوں پاؤں اپنی دائیں جانب نکال کر بیٹھنا میرے ہاں پسندیدہ عمل ہے ۔

المرأة ترفع يديها حذاء منکبيها، وهو الصحيح لأنه أسترلها ۔ (ابن همام، فتح القدير، 1 : 246)
’’تکبیر تحریمہ کے وقت، عورت کندھوں کے برابر اپنے ہاتھ اٹھائے یہ صحیح تر ہے کیونکہ اس میں اس کی زیادہ پردہ پوشی ہے۔‘‘

فإن کانت إمرأة جلست علی إليتهاالأيسری و أخرجت رجليها من الجانب الأيمن لأنه أسترلها.
(ابن همام، فتح القدير، 1 : 274)
’’اگر عورت نماز ادا کر رہی ہے تو اپنے بائیں سرین پر بیٹھے اور دونوں پاؤں دائیں طرف باہر نکالے کہ اس میں اس کا ستر زیادہ ہے۔‘‘

والمرأة تنخفض فی سجودها و تلزق بطنها بفخذ يها لأن ذلک أسترلها.(مرغينانی، هدايه،1 : 50) ’’عورت اپنے سجدے میں بازو بند رکھے اور اپنے پیٹ کو اپنی رانوں سے ملا دے کیونکہ یہ صورت اس کے لئے زیادہ پردہ والی ہے۔‘‘

علامہ کاسانی حنفی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں : فأما المرأة فينبغی أن تفترش زرا عيها و تنخفض ولا تنتصب کإنتصاب الرجل و تلزق بطنها بفخذيها لأن ذلک أسترلها.(الکاسانی، بدائع الصنائع، 1 : 210) ’’عورت کو چاہیے اپنے بازو بچھا دے اور سکڑ جائے اور مردوں کی طرح کھل کر نہ رہے اور اپنا پیٹ اپنے رانوں سے چمٹائے رکھے کہ یہ اس کے لئے زیادہ ستر والی صورت ہے۔‘‘

علامہ شامی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : انها تخالف الرجل فی مسائل کثيرة.’’عورت کئ مسائل(چند) میں مرد کے خلاف ہے۔‘‘

عورت تکبیر تحریمہ کے وقت کندھوں کے برابر ہاتھ اٹھائے گی۔
آستینوں سے باہر ہاتھ نہیں نکالے گی۔
سینے کے نیچے ہاتھ پہ ہاتھ باندھے گی۔
رکوع میں مرد کی نسبت کم جھکے گی۔
انگلیوں کو گرہ نہیں دے گی نہ انگلیاں زیادہ پھیلائے گی بلکہ ملا کر رکھے گی۔
ہاتھ گھٹنوں کے اوپر رکھے گی۔
گھٹنوں میں خم نہیں کرے گی۔
رکوع و سجود میں گھٹنوں کو ملائے گی۔
سجدے میں بازو زمین پر پھیلائے گی۔
التحیات کے وقت دونوں پاؤں دائیں طرف نکال کر بیٹھے گی۔
مرد کی امامت نہیں کر سکتی۔
 نماز میں کوئی بات ہو جائے تو امام کو بتانے کے لئے تالی بجائے گی۔ سبحان اللہ نہیں کہے گی۔
بیٹھتے وقت ہاتھوں کی انگلیوں کے سرے گھٹنوں سے ملائے گی / انگلیاں ملائے گی۔
عورتوں کی جماعت مکروہ ہے مگر پڑھیں تو ان کی امام درمیان میں کھڑی ہو گی آگے نہیں۔
عورت کا جماعت میں حاضر ہونا مکروہ ہے (ہم اس سے متفق نہیں)
مردوں کے ہمراہ باجماعت نماز ادا کریں تو مردوں سے پیچھے کھڑی ہوں۔
عورت پر جمعہ کی نماز فرض نہیں ادا کرے گی تو ادا ہو جائے گی۔
عورت پر نماز عید واجب نہیں پڑھے گی تو ہو جائے گی۔
عورت پر تکبیرات تشریق نہیں۔
صبح کی نماز روشن کر کے پڑھنا عورت کے لئے مستحب نہیں۔
جہری نمازوں میں جہری قراءت نہیں کریں گی۔
عورت نماز میں سجدہ وقعدہ میں پاؤں کی انگلیاں کھڑی نہ کرے۔ یہ تمام تفصیل نماز کے حوالہ سے ہے ورنہ عورت اور مرد میں دیگر احکام میں بہت اختلاف ہے۔(شامی، ردالمختار، 1 : 506)

والمرأة الاتجافی رکوعها وسجودها وتقعد علی رجليها وفی السجده تفترش بطنها علی فخذيها.
(شيخ نظام الدين وجماعة علماء هند، عالمگيری، 1 : 75)’’عورت رکوع اور سجدہ میں اعضاء کھول کر نہ رکھے، پاؤں پر بیٹھے، سجدہ میں اپنا پیٹ رانوں پر رکھے۔‘‘

والمرأة تنحنی فی الرکوع يسيرا ولا تعتمد ولا تفرج أصابعها ولکن تضم يديها وتضع علي رکبتيها وضعا وتنحنی رکبتيها ولا تجافی عضد تيها.(شيخ نظام الدين وجماعة علماء هند، عالمگيری، 1 : 74) ’’عورت رکوع میں کم جھکے، ٹیک نہ لگائے نہ انگلیاں کھلی رکھے، ہاتھوں کو بند رکھے اور گھٹنوں پر ہاتھ جما کر رکھے، گھٹنوں کو ٹیڑھا رکھے اور بازو دور نہ رکھے۔

عن علی رضی الله عنه قال اذا سجدت المرأة فلتحتفر ولتضم فخذيها.(ابن ابي شيبه، المصنف، 1 : 241، الرقم : 2777)
’’حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے جب عورت سجدہ کرے تو سمٹ کر کرے اور اپنی ران (پیٹ اور پنڈلیوں) سے ملائے رکھے۔‘‘

عن ابن عباس أنه سئل عن صلاة المرأة فقال تجتمع وتحتفر.(ابن ابی شيبه، المصنف، 1 : 241، الرقم : 2778)
’’ابن عباس سے عورت کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا، انہوں نے فرمایا جسم کوسکیٹر کر اور سمٹا کر نماز ادا کرے۔‘‘

عن مغيرة عن ابراهيم قال إذا سجدت المرأة فلتضم فخذيها والتضع بطنها عليها.(ابن ابی شيبه، المصنف، 1 : 242، الرقم : 2779)
’’جب عورت سجدہ کرتے تو اپنے ران جوڑ کر اپنا پیٹ ان پر رکھے۔‘‘

عن مجاهد أنه کان يکره أن يضع الرجل بطنه علی فخذيه إذا سجد کما تضع المرأة.(ابن ابی شيبه، المصنف، 1 : 242، الرقم : 2780)
’’(ابن عباس کے شاگرد) مجاہد کہتے ہیں مرد سجدہ میں اپنا پیٹ عورتوں کی طرح رانوں پر رکھے، یہ مکروہ ہے۔‘‘

عن الحسن (البصری) قال المرأة تضم فی السجود.(ابن ابی شيبه، المصنف، 1 : 242، الرقم : 2781)
’’عورت سجدہ میں سمٹ جڑ کر رہے۔‘‘

عن إبراهيم قال إذا سجدت المرأة فلتلزق بطنها بفخذيها ولا ترفع عجيزتها ولا تجا فی کما يجافی الرجل.(ابن ابی شيبه، المصنف،1 : 242، الرقم : 2782)
’’جب عورت سجدہ کرے تو پیٹ اپنے زانوؤں سے ملائے اور اپنی پیٹھ (سرین) مرد کی طرح بلند نہ کرے۔‘‘

عن خالد بن اللجلاج قال کن النسآء يؤمرن أن يتربعن إذا جلسن فی الصلوة ولا يجلسن جلوس الرجل علی أور اکهن يتقی علی ذلک علی المرأة مخافة أن يکون منها الشی…(ابن ابی شبيه، المصنف، 1 : 242، الرقم : 2783،چشتی)
’’عورتوں کو نماز میں چوکڑی بھر کر (مربع شکل میں) بیٹھنے کا حکم تھا اور یہ کہ وہ مردوں کی طرح سرینوں کے بل نہ بیٹھیں تاکہ اس میں ان کی پردہ پوشی کھلنے کا ڈر نہ رہے۔‘‘

عن نافع ان صفية کانت تصلی وهی متربعة.(ابن ابی شبيه، المصنف،1 : 242، الرقم : 2784)’’نافع سے روایت ہے حضرت سیدہ صفیہ نماز میں مربع شکل میں بیٹھا کرتی تھیں۔‘‘

قال إبراهيم النخعی کانت المرأة تؤمر إذا سجدت أن تلزق بطنها بفخذيها کيلا ترتفع عجيزتها ولا تجا فی کما يجا فی الرجل.(بيهقی، السنن الکبری، 2 : 223)
’’ابراہیم نخعی رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں عورت کو حکم تھا یہ سجدہ کرتے وقت اپنا پیٹ رانوں سے ملائے رکھے تاکہ اس کی پیٹھ بلند نہ ہو۔ اس طرح بازو اور ران نہ کھولے جیسے مرد۔‘‘

قال علی رضی الله عنه إذا سجدت المرأة فلتضم فخذيها.(بيهقی، السنن الکبری، 2 : 222، الرقم : 3014)’’حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا عورت سجدہ میں سکڑ کر رہے اعضاء کو ملا کر رکھے۔‘‘

عن ابی سعيد الخدری صاحب رسول ﷲ عن رسول ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم  أنه قال خير صفوف الرجال الاول و خير صفوف النساء الصف الأخر وکان يامر الرجال أن يتجا فوا فی سجودهم يأمر النسآء أن ينخفضن فی سجود هن وکان يأمر الرجال أن يفر شوا اليسریٰ وينصبوا اليمنی فی التشهدو يأمر النسآء أن يتربعن وقال يا معشر النسآء لا ترفعن أبصار کن فی صلاتکن تنظرن إلی عورات الرجال.(بيهقی، السنن الکبری،2 : 222، الرقم : 3014)
’’ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا نماز میں مردوں کی سب سے بہتر صف پہلی عورتوں کی سب سے بہتر صف آخری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سرکار مردوں کو نماز میں سجدہ کے دوران کھل کھلا کر رہنے کی تلقین فرماتے اور عورتوں کو سجدوں میں سمٹ سمٹا کر رہنے کی۔ مردوں کو حکم فرماتے کہ تشہد میں بایاں پاؤں بچھائیں اور دایاں کھڑا رکھیں اور عورتوں کو مربع شکل میں بیٹھنے کا حکم دیتے اور فرمایا عورتو! نماز کے دوران نظریں اٹھا کر مردوں کے ستر نہ دیکھنا۔‘‘

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا : إذا جلست المرأة فی الصلاة وضعت فخذها علی فخذها الاخریٰ و إذا سجدت الصقت بطنها فی فخذيها کأستر مايکون لها وإن ﷲ تعالی ينظر إليها ويقول يا ملآ ئکتی أشهد کم إنی قد غفرت لها.(بيهقی، السنن الکبری، 2 : 222، الرقم : 3014)
’’جب عورت نماز میں اپنا ایک ران دوسرے ران پر رکھ کر بیٹھتی ہے اور دوران سجدہ اپنا پیٹ رانوں سے جوڑ لیتی ہے جیسے اس کے لئے زیادہ ستر والی صورت ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھ کر فرماتا ہے میرے فرشتو! میں تمہیں گواہ بنا کر اس کی بخشش کا اعلان کرتا ہوں۔‘‘

عن يزيد بن أبی حبيب أن رسول ﷲ  صلی الله عليه وآله وسلم  مر علی إمرأتين تصليان فقال إذا سجدتما فضمّا بعض اللحم إلی الأرض فإن المرأة ليست فی ذلک کالر جل.(بيهقی، السنن الکبری، 2 : 223، الرقم : 3016)
’’یزید بن ابی حبیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نماز پڑھنے والی دو عورتوں کے پاس سے گزرے۔ فرمایا جب تم سجدہ میں جاؤ تو گوشت کا کچھ حصہ زمین سے ملا کر رکھا کرو! عورت مرد کی طرح نہیں۔‘‘

قلت لعطاء التشير المرأة بيديها کالر جال بالتکبير؟ قال لا ترفع بذلک يديها کالر جال وأشار أفخفض يديه جدا وجمعهما إليه وقال إن للمرأة هية ليست للرجل.(عبدالرزاق، المصنف، 3 : 137، الرقم : 5066)
’’میں نے عطا سے پوچھا کہ عورت تکبیر کہتے وقت مردوں کی طرح ہاتھوں سے اشارہ کرے گی؟ انہوں نے کہا عورت تکبیر تحریمہ کے وقت مردوں کی طرح ہاتھ نہیں اٹھائے گی، اشارہ سے بتایا عطاء نے اپنے ہاتھ بہت نیچے کئے اور اپنے ساتھ ملائے اور فرمایا عورت کی صورت مرد جیسی نہیں۔‘‘

عطا کہتے ہیں : تجمع المراة يديها فی قيامهاما استطاعت . ’’عورت کھڑے ہوتے وقت نماز میں جہاں تک ہوسکے ہاتھ جسم سے ملا کر رکھے ۔ (عبدالرزاق، المصنفً، 3 : 137، الرقم : 5067)

حسن بصری اور قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : إذا سجدت المرأة فأنها تنفم ما استطاعت ولا تتجافی لکی لا ترفع عجيز تها.(عبدالرزاق، المصنف،3 : 137، الرقم : 5068)
جب عورت سجدہ کرے تو جتنا ہو سکے سمٹ جائے اعضاء کو جدا نہ کرے مبادا جسم کا پچھلا حصّہ بلند ہو جائے۔

کانت تؤمر المرأة ان تضع زراعيها بطنها علی فخذيها إذا سجدت ولا تتجا فی کما يتجا فی الرجل. لکی لا ترفع عجيز تها.(عبدالرزاق، المصنفً، 3 : 138، الرقم : 5071)
’’عورت کو حکم دیا گیا ہے کہ سجدہ کرتے وقت اپنے بازو اور پیٹ رانوں پر رکھے اور مرد کی طرح کھلا نہ رکھے تاکہ اس کا پچھلا حصہ بلند نہ ہو۔‘‘

عن علی قال إذا سجدت المرأة فلتحتفر ولتلصق فخذ يها ببطنها.(عبدالرزاق، المصنفً، 3 : 138، الرقم : 5072)
’’حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے جب عورت سجدہ کرے تو سمٹ جائے اور اپنے ران اپنے پیٹ سے ملائے۔‘‘

جلوس المراءۃ (عورت کا بیٹھنا)
عن نافع قال کانت صفية بنت أبی عبيد إذا جلست فی مثنی أوأربع تربعت.(عبدالرزاق، المصنفً، 3 : 138، الرقم : 5074،چشتی)
صفیہ بنت ابوعبید جب دو یا چار رکعت والی نماز میںبیٹھتیں مربع ہو کر بیٹھیتں۔

عن قتاده قال جلوس المرأة بين السجدتين متورکة علی شقها الأيسر وجلوسها تشهد متربعة.(عبدالرزاق، المصنف، 3 : 139، الرقم : 5075)
’’عورت دو سجدوں کے درمیان بائیں طرف سرینوں کے بل بیٹھے اور تشہد کے لئے مربع صورت میں۔‘‘

معلوم ہوا عورت اور مرد مسلمان کی نماز کی ادائیگی میں کھڑا ہونے ، رکوع و سجود اور بیٹھنے میں شرعاً فرق ہے ۔ ہر چند کہ ایسا کرنا فرض و واجب میں شامل نہیں ۔ تاہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور صحابہ کرام و تابعین رضی اللہ عنہم ، محدثین ، فقہائے امت سے جب معتبر کتابوں کے حوالہ سے یہ فرق ثابت ہے اور امام بخاری و مسلم اور دیگر محدثین کے استاذ امام الحدثین حضرت امام عبد الرزاق اور دوسرے اکابر محدثین و فقہائے امت علیہم الرحمہ کی تصریحات ، روایات تحقیقات سے بھی یہ فرق ثابت ہو رہا ہے ۔ عقل و نقل کی رو سے یہ فرق ثابت ہے تو اس پر عمل کرتے رہیں ۔ یہی راہ مستقیم و ہدایت حق ہے ۔ شریعت کا منشاء یہی ہے اور یہ عورت کے وقار ، عزت ، احترام اور سترکا تقاضا بھی ہے ۔ یہی اسلامی طریقہ ہے ، مرد اور عورت کی نماز میں یہ فرق نہایت مناسب اور معنوی ہے ۔ اسلام نے عورت اور مرد کی خصوصیات کا ہر جگہ خیال و لحاظ رکھا ہے ۔ ان کی خلاف ورزی اور وہ بھی بلا دلیل شرعی مسلمان کا کام نہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صراط مستقیم دکھائے ، سمجھائے اور اس پر چلائے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)