Monday 26 February 2024

پانچ وقت کی نمازوں کی رکعات کی تعداد

0 comments
پانچ وقت کی نمازوں کی رکعات کی تعداد
محترم قارئینِ کرام : فرض نمازوں میں سنتِ مؤکدہ کی تعداد بارہ ہے جن میں نماز فجر کی دو، ظہر کی چھ ، مغرب کی دو اور عشاء کی دو رکعات شامل ہیں جبکہ سنتِ غیر مؤکدہ کی تعداد آٹھ ہے جن میں نماز عصر کی چار اور نماز عشاء کی چار سنتیں شامل ہیں ۔ فرائض کی مندرجہ بالا تعدادِ رکعات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے اب تک امت کے تواتر عملی سے ثابت ہے ۔ علاوہ ازیں کتب حدیث میں یہ تعداد مفصلاً مذکور ہے ۔

عَنْ اَبِیْ مَسْعُوْدِنِالْاَنْصَارِیِّ رضی اللہ عنہ قَالَ جَائَ جِبْرَائِیْلُ اِلَی النَّبیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ قُمْ فَصَلِّ وَذٰلِکَ دُلُوْکُ الشَّمْسِ حِیْنَ مَالَتْ فَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَصَلَّی الظُّھْرَ اَرْبَعاً ثُمَّ اَتَاہُ حِیْنَ کَانَ ظِلُّہٗ مِثْلَہٗ فَقَالَ قُمْ فَصَلِّ فَقَامَ فَصَلَّی الْعَصْرَ اَرْبَعاً ثُمَّ اَتَاہُ حِیْنَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَقَالَ لَہٗ قُمْ فَصَلِّ فَقَامَ فَصَلَّی الْمَغْرِبَ ثَلَاثاً ثُمَّ اَتَاہٗ حِیْنَ غَابَ الشَّفَقُ ۔ فَقَالَ لَہٗ قُمْ فَصَلِّ فَقَامَ فَصَلَّی الْعِشَائَ الاِرَۃَ اَرْبَعاً ثُمَّ اَتَاہُ حِیْنَ بَرَقَ الْفَجْرُ فَقَالَ لَہٗ قُمْ ! فَصَلِّ ! فَقَامَ فَصَلَّی الصُّبْحَ رَکْعَتَیْنِ ۔ (مسند اسحاق بن راھویہ بحوالہ نصب الرایۃ جلد 1 صفحہ 223 باب المواقیت)(المعجم الکبیر للطبرانی جلد 7 صفحہ 129,130 رقم 14143،چشتی)(السنن الکبریٰ للبیہقی جلد 1 صفحہ 361 باب عدد رکعات الصلوات الخمس)
ترجمہ : حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ کھڑے ہوں اور نماز پڑھیں ۔ یہ سورج کے ڈھلنے کا وقت تھا ، جبکہ سورج ڈھل گیا تھا ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور ظہر کی چاررکعات پڑھیں پھر ان کے پاس حضرت جبرئیل آئے ، جبکہ سایہ ایک مثل کے برابر ہو گیا تھا۔ تو انہوں نے کہا کہ کھڑے ہوں اور نماز ادا کریں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عصر کی چار رکعات پڑھیں ۔ پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام اس وقت آئے جب سورج غروب ہو گیا تھا ۔ توانہوں نے کہا کہ کھڑے ہوں اور نماز پڑھیں ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مغرب کی تین رکعات پڑھیں ۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام اس وقت آئے جب شفق غائب ہو گئی تھی اور کہا کہ نماز پڑھیں ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عشاء کی چار رکعات پڑھیں ۔ پھر جبرئیل علیہ السلام اس وقت آئے جب صبح طلوع ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ نماز ادا کریں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبح کی دو رکعت پڑھیں ۔

سنن مؤکدہ کی بارہ رکعتیں ہیں تفصیل درج ذیل ہے : ⏬

2 رکعات فجر سے پہلے ۔ 4 رکعات ظہر سے پہلے اور 2 رکعات ظہر کے بعد
2 رکعات مغرب کے بعد ۔ 2 رکعات عشاء کے بعد ۔

عَنْ اُمِّ حَبِیْبَۃَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مَنْ صَلّٰی فِیْ یَوْمٍ وَّلَیْلَۃٍ ثِنَتَیْ عَشَرَۃَ رَکْعَۃً بُنِیَ لَہٗ بَیْتٌ فِی الْجَنَّۃِ اَرْبَعًا قَبْلَالظُّھْرِ وَرَکْعَتَیْنِ بَعْدَھَا وَرَکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ وَرَکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْعِشَائِ وَرَکْعَتَیْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ صَلَاۃِ الْغَدَاۃِ ۔ (جامع الترمذی جلد 1 صفحہ 94 باب ماجاء فی من صلی فی یوم ولیلۃ ثنتی عشرۃ رکعۃ،چشتی)
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص دن رات میں بارہ رکعتیں پڑھے گا اس کےلیے جنت میں گھر بنا دیا جائے گا چار ظہر سے پہلے ، دو ظہر کے بعد، دو مغرب کے بعد ، دو عشاء کے بعد اور دو فجر سے پہلے ۔

فجر کی رکعات : 2 سنت (مؤکدہ) اور 2 فرض : ⏬

عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ لَمْ یَکُنِ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عَلٰی شَیْئٍ مِنَ النَّوَافِلِ اَشَدَّ تَعَاھُدًا مِنْہُ عَلٰی رَکْْعَتَیِ الْفَجْرِ ۔ (صحیح البخاری جلد 1 صفحہ 156 باب تعاھد رکعتی الفجر،چشتی)(صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 251 باب استحباب رکعتی الفجر والحث علیھاالخ)
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی نفل کی اتنی زیادہ پابندی نہیں فرماتے تھے جتنی فجر کی دو رکعتوں کی کرتے تھے ۔

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَاتَدَعُوْھُمَا وَاِنْ طَرَدَتْکُمُ الْخَیْلُ ۔ (سنن ابی داؤد جلد 1 صفحہ 186 باب فی تخفیفھما رکعتی الفجر)(شرح معانی الآثار جلد 1 صفحہ 209 باب القرأۃ فی رکعتی الفجر)
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ فجر کی دو رکعتوں کو نہ چھوڑو خواہ تمہیں گھوڑے روند ڈالیں ۔

نمازِ ظہر کی رکعات : 4 سنت (مؤ کدہ) 4 فرض 2 سنت (مؤکدہ) 2 نفل : ⏬

عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کَانَ لَایَدَعُ اَرْبَعًا قَبْلَ الظُّھْرِوَرَکْعَتَیْنِ قَبْلَ الْغَدَاۃِ ۔ (صحیح البخاری جلد 1 صفحہ 157 باب الرکعتین قبل الظھر)
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور فجر سے پہلے دو رکعتیں کبھی نہیں چھوڑتے تھے ۔

عَنْ اُمِّ حَبِیْبَۃَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مَنْ صَلّٰی قَبْلَ الظُّھْرِ اَرْبَعًا وَبَعْدَھَا اَرْبَعًاحَرَّمَہٗ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلَی النَّارِ ۔ (جامع الترمذی جلد 1 صفحہ 98 باب اٰخر من سنن الظھر)
ترجمہ : حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ظہر سے پہلے چار اور ظہر کے بعد چار رکعات پڑھیں تو اللہ تعالیٰ اس کو آگ پر حرام فرمادے گا ۔

حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ روایت میں دو رکعت سنت مؤکدہ کا ثبوت ملتا ہے اور اس روایت میں ظہر کے بعد چار رکعت کا تذکرہ ہے ۔ تو دو رکعت سنت مؤکدہ کے لاوہ یہ دو نفل ہیں ۔

نمازِ عصر کی رکعات : 4 سنت (غیر مؤکدہ) 4 فرض : ⏬

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ رَحِمَ اللّٰہُ امْرَأً صَلّٰی قَبْلَ الْعَصْرِاَرْبَعًا ۔ (جامع الترمذی جلد 1 صفحہ 98 باب ما جاء فی الاربع قبل العصر)
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو عصر سے پہلے چار رکعت پڑھتا ہے ۔

نمازِ مغرب کی رکعات : 3 رکعات فرض ۔ 2 سنت مؤکدہ ۔ 2 نفل : ⏬

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہما قَالَ مَنْ رَکَعَ بَعْدَ الْمَغْرِبِ اَرْبَعَ رَکْعَاتٍ کَانَ کَالْمُعَقِّبِ غَزْوَۃً بَعْدَغَزْوَۃٍ ۔ (مصنف عبدالرزاق جلد 2 صفحہ 415 باب الصلاۃ فیمابین المغرب والعشا رقم الحدیث 4740)
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جس نے مغرب کی نماز کے بعدچار رکعت پڑھیں تو وہ ایسا ہے جیسے ایک غزوے کے بعد دوسرا غزوہ کرنے والا ۔

عَنْ اَبِیْ مَعْمَرٍعَبْدِاللّٰہِ بْنِ سَنْجَرَۃَ رحمہ اللہ قَالَ کَانُوْا یَسْتَحِبُّوْنَ اَرْبَعَ رَکْعَاتٍ بَعْدَ الْمَغْرِبِ ۔ (مختصر قیام اللیل للمروزی صفحہ 85 باب یصلی بین المغرب والعشاء اربع رکعات)
ترجمہ : حضرت ابو معمر عبداللہ بن سنجرہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مغرب کے بعد چارکعت پڑھنے کو مستحب سمجھتے تھے ۔

نمازِ عشاء کی رکعات : ⏬

4 سنت غیر مؤکدہ ، 4 فرض ، 2 سنت مؤکدہ ، 2 نفل ، 3 وتر ، 2 نفل ۔

عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ رضی اللہ عنہما کَانُوْا یَسْتَحِبُّوْنَ اَرْبَعَ رَکْعَاتٍ قَبْلَ الْعِشَائِ الْاٰخِرَۃِ ۔ (مختصر قیام اللیل للمروزی ص85 یصلی بین المغرب والعشاء اربع رکعات)
ترجمہ : حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عشاء کی نماز سے پہلے چار رکعت پڑھنے کو مستحب سمجھتے تھے ۔

عَنْ زُرَارَۃَ بْنِ اَوْفٰی رضی اللہ عنہما اَنَّ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا سُئِلَتْ عَنْ صَلٰوۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فِیْ جَوْفِ اللَّیْلِ فَقَالَتْ کَانَ یُصَلِّیْ صَلٰوۃَ الْعِشَائِ فِیْ جَمَاعَۃٍ ثُمَّ یَرْجِعُ اِلٰی اَھْلِہٖ فَیَرْکَعُ اَرْبَعَ رَکْعَاتٍ ثُمَّ یَأوِیْ اِلٰی فِرَاشِہٖ ۔ (سنن ابی داؤد جلد 1 صفحہ 197 باب فی صلوۃ اللیل)
ترجمہ : حضرت زرارہ بن اوفی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی درمیانِ رات والی نماز کے متعلق پوچھا گیا ، تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھ کر گھر تشریف لاتے تو چار رکعتیں پڑھتے پھر اپنے بستر پر آرام فرماتے ۔

عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہااَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کَانَ یُؤْتِرُبِثَلَاثٍ یَقْرَئُ فِیْ اَوَّلِ رَکْعَۃٍ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی وَفِی الثَّانِیَۃِ قُلْ یَااَیُّھَاالْکَافِرُوْنَ وَفِی الثَّالِثَۃِ قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ وَالْمُعَوَّذَتَیْنِ ۔ (شرح معانی الآثار جلد 1 صفحہ 200 باب الوتر،چشتی)(صحیح ابن حبان صفحہ 718 ذکر الاباحۃ للمرء ان یضم قراءۃ المعوذتین الخ رقم الحدیث 2448)(مصنف عبد الرزاق جلد 2 صفحہ 404 باب ما یقرء فی الوتر الخ، رقم الحدیث 1257)
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وتر تین رکعت پڑھتے تھے پہلی رکعت میں’’سبح اسم ربک الاعلیٰ‘‘ پڑھتے ، دوسری رکعت میں’’قل یا ایھا الکافرون‘‘ اور تیسری رکعت میں’’ قل ھو اللہ احد‘‘ اور معوذتین پڑھتے تھے ۔

عَنْ اَبِیْ سَلْمَۃَ رضی اللہ عنہما قَالَ سَاَلْتُ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا عَنْ صَلٰوۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَتْ کَانَ یُصَلِّیْ ثَلَاثَ عَشَرَۃَ رَکْعَۃً یُصَلِّیْ ثَمَانَ رَکْعَاتٍ ثُمَّ یُوْتِرُ ثُمَّ یُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ وَھُوَ جَالِسٌ ۔ (صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 254 باب صلوۃ اللیل و عدد رکعات النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی اللیل صحیح البخاری جلد 1 صفحہ 155 باب المداومۃ علی رکعتی الفجر)
ترجمہ : حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے متعلق سوال کیا تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے ۔ پہلے آٹھ رکعت (تہجد) پڑھتے ، پھر وتر پڑھتے ، پھر دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے ۔

عَنْ اُمِّ سَلْمَۃَ رضی اللہ عنہا اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کَانَ یُصَلِّیْ بَعْدَ الْوِتْرِ رَکْعَتَیْنِ ۔ (جامع الترمذی جلد 1 صفحہ 108 باب ماجاء لا وتران فی لیلۃ،چشتی)(سنن ابن ماجۃ جلد 1 صفح 83 باب ما جاء فی الرکعتین بعد الوتر جالساً)
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے ۔

نمازِ عشاء کی رکعتوں کی کل تعداد سترہ (17) ہے جس کی ترتیب اس طرح ہے : چار (4) سنت غیرمؤکدہ ۔ چار (4) فرض ۔ دو (2) سنت مؤکدہ ۔ دو (2) نفل ۔ تین (3) وتر ( واجب) ۔ دو (2) نفل ۔

عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ رضی اللہ عنہما کَانُوْا یَسْتَحِبُّوْنَ اَرْبَعَ رَکْعَاتٍ قَبْلَ الْعِشَائِ الْاٰخِرَۃِ۔(مختصر قیام اللیل للمروزی ص85 یصلی بین المغرب والعشاء اربع رکعات)
ترجمہ : حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عشاء کی نماز سے پہلے چار رکعت پڑھنے کو مستحب سمجھتے تھے ۔

عَنْ زُرَارَۃَ بْنِ اَوْفٰی رضی اللہ عنہما اَنَّ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا سُئِلَتْ عَنْ صَلٰوۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فِیْ جَوْفِ اللَّیْلِ فَقَالَتْ کَانَ یُصَلِّیْ صَلٰوۃَ الْعِشَائِ فِیْ جَمَاعَۃٍ ثُمَّ یَرْجِعُ اِلٰی اَھْلِہٖ فَیَرْکَعُ اَرْبَعَ رَکْعَاتٍ ثُمَّ یَأوِیْ اِلٰی فِرَاشِہٖ۔(سنن ابی داؤد جلد 1 صفحہ 197 باب فی صلوۃ اللیل،چشتی)
ترجمہ : حضرت زرارہ بن اوفی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی درمیانِ رات والی نماز کے متعلق پوچھا گیا ، تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھ کر گھر تشریف لاتے تو چار رکعتیں پڑھتے پھر اپنے بستر پر آرام فرماتے ۔

عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہااَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کَانَ یُؤْتِرُبِثَلَاثٍ یَقْرَئُ فِیْ اَوَّلِ رَکْعَۃٍ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی وَفِی الثَّانِیَۃِ قُلْ یَااَیُّھَاالْکَافِرُوْنَ وَفِی الثَّالِثَۃِ قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ وَالْمُعَوَّذَتَیْنِ ۔ (شرح معانی الآثار جلد 1 صفحہ 200 باب الوتر،چشتی)(صحیح ابن حبان صفحہ 718 ذکر الاباحۃ للمرء ان یضم قراء ۃ المعوذتین الخ رقم الحدیث 2448)(مصنف عبد الرزاق جلد 2 صفحہ 404 باب ما یقرء فی الوتر الخ رقم الحدیث 1257)
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وتر تین رکعت پڑھتے تھے پہلی رکعت میں’’سبح اسم ربک الاعلیٰ‘‘ پڑھتے، دوسری رکعت میں’’قل یا ایھا الکافرون‘‘ اور تیسری رکعت میں’’ قل ھو اللہ احد‘‘ اور معوذتین پڑھتے تھے ۔

عَنْ اَبِیْ سَلْمَۃَ رضی اللہ عنہما قَالَ سَاَلْتُ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا عَنْ صَلٰوۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فَقَالَتْ کَانَ یُصَلِّیْ ثَلَاثَ عَشَرَۃَ رَکْعَۃً یُصَلِّیْ ثَمَانَ رَکْعَاتٍ ثُمَّ یُوْتِرُ ثُمَّ یُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ وَھُوَ جَالِسٌ ۔ (صحیح مسلم جلد 1 صفخحہ 254 باب صلوۃ اللیل و عدد رکعات النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی اللیل)(صحیح البخاری جلد 1 صفحہ 155 باب المداومۃ علی رکعتی الفجر،چشتی)
ترجمہ : حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے متعلق سوال کیا تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے ۔ پہلے آٹھ رکعت (تہجد) پڑھتے ، پھر وتر پڑھتے ، پھر دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے ۔

عَنْ اُمِّ سَلْمَۃَ رضی اللہ عنہا اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کَانَ یُصَلِّیْ بَعْدَ الْوِتْرِ رَکْعَتَیْنِ ۔ (جامع الترمذی جلد 1 صفحہ 108 باب ماجاء لا وتران فی لیلۃ،چشتی)(سنن ابن ماجۃ جلد 1 صفحہ 83 باب ما جاء فی الرکعتین بعد الوتر جالساً)
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے ۔

نمازِ عشاء کی مذکورہ رکعات پڑھنے کا صحابہ کرام ضی اللہ عنہم کے یہاں معمول تھا ، اور ظاہر سی بات ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا ہوگا ، چناں جہ ”قیام اللیل للامام المروزی“ میں حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے : عن سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کانوا یستحبون أربع رکعات قبل العشاء الآخرة ۔ (قیام اللیل لمحمد نصر المروزي جلد ۱ صفحہ ۸۸ مطبوعہ فیصل آباد پاکستان)

نیز ”الاختیار لتعللہ المختار“ جو فقہ حنفی کی معتبر کتاب ہے ، اس میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت نقل کی گئی ہے ، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ معمول بیان کیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عشاء سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے تھے اورعشاء کے بعد بھی چار رکعتیں پڑھتے تھے ، پھر آرام فرماتے ۔ عن عائشة أنہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان یصلي قبل العشاء أربعا ثم یصلي بعدہا أربعًا ثم یضطجع ۔ (۱/۶۶ الاختیار لتعلیل المختار، ط: بیروت،چشتی)

بخاری 1180،  مسلم 1699 اور بخاری 697 میں دو سنت موکدہ اور دو نفل یعنی چار رکعت عشاء کے بعد ادا کرنے کا ثبوت ملتا ہے ۔ 

حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے فرماتے ہیں : صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ العِشَاءَ ، ثُمَّ جَاءَ ، فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ نَامَ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عشاء کی نماز پڑھی پھر گھر آئے تو چار رکعتیں ادا کیں , پھر سو گئے ۔ (صحیح البخاری : 697،چشتی)

حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : مَنْ صَلَّى أَرْبَعًا بَعْدَ الْعِشَاءِ كُنَّ كَقَدْرِهِنَّ مِنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ ۔
ترجمہ : جس نے عشاء کے بعد چار رکعتیں ادا کیں , تو وہ لیلۃ القدر میں ان ہی جیسی رکعتوں کے برابر ہو جائیں گی ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ : 7273)

ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : أَرْبَعٌ بَعْدَ الْعِشَاءِ يَعْدِلْنَ بِمِثْلِهِنَّ مِنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ ۔
ترجمہ : عشاء کے بعد چار رکعتیں لیلۃ القدر میں ان ہی جیسی رکعتوں کے برابر ہیں ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ حدیث نمبر 7274،چشتی)

حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : مَنْ صَلَّى أَرْبَعًا بَعْدَ الْعِشَاءِ لَا يَفْصِلُ بَيْنَهُنَّ بِتَسْلِيمٍ، عَدَلْنَ بِمِثْلِهِنَّ مِنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ ۔
ترجمہ : جس نے عشاء کے بعد ایک سلام سے چار رکعتیں ادا کیں , تو وہ لیلۃ القدر میں ان ہی جیسی رکعتوں کے برابر ہو جائیں گی ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ حدیث نمبر 7275) 

غیر مقلد وہابی نام نہاد اہلحدیث حضرات کہتے ہیں عشاء کی پہلی چار سنت غیرمٶکدہ حدیث کی کس کتاب سے ثابت نہیں اور نہ ہی فقہ حنفی کےعلاوہ کسی اور فقہ میں یہ چار رکعت ہے ۔ سوچنے کی بات ہے نہ تو دنیا کی کسی حدیث سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پڑھی ہوں ۔ اور نہ ہی کسی صحابی سے ثابت ۔ تو یہ سنت کیسے بن گئیں دنیا کا کوئی حنفی عالم ان چار رکعت کو سنت ثابت نہیں کر سکتا ۔ غیر مقلد وہابی نام نہاد اہلحدیث حضرات کہتے ہیں کہ فقہ حنفی قرآن و حدیث سے نہیں بلکہ مرضی سے گھڑی گئی فقہ ہے جس میں نماز کی رکعتیں بھی گھر سے گھڑ لی جاتی ہیں ۔

جواب : پہلے فقہ حنفی سے اصل مسلہ سمجھیے : يُسْتَحَبُّ أَنْ يُصَلِّيَ قَبْلَ الْعِشَاءِ أَرْبَعًا وَقِيلَ رَكْعَتَيْنِ ۔ عشاء سے پہلے چار رکعت اور کہا گیا ہے کہ دو رکعت مستحب ہیں یعنی سنت غیر موکدہ ہیں ۔ (رد المحتار جلد 2 صفحہ 13)

وَالْأَرْبَعُ قَبْلَ الْعِشَاء وَقِيلَ أَرْبَعًا عِنْدَهُ وَرَكْعَتَيْنِ عِنْدَهُمَا كَمَا فِي النِّهَايَة ۔ عشاء سے پہلے چار رکعت مستحب ہیں سنت غیر موکدہ ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ امام اعظم کے نزدیک چار سنت غیر مؤکدہ ہیں اور صاحبین کے نزدیک دو رکعت سنت غیر موکدہ ہیں جیسے کہ نھایہ میں ہے ۔ (مجمع الأنهر جلد1 صفحہ 131 بحذف یسییر،چشتی)

غیر مقلد وہابی نام نہاد اہلحدیث حضرات جو کہتے ہیں کہ کسی اور فقہ میں نہیں ہیں تو یہ صاف جھوٹ ، عدمِ توجہ یا کم علمی ہے : قَالَ فِي الْمَجْمُوعِ وَرَكْعَتَانِ قَبْلَ الْعِشَاءِ) أَيْ فَأَكْثَرُ؛ إذْ عِبَارَتُهُ ۔
(فَرْعٌ) يُسْتَحَبُّ أَنْ يُصَلِّيَ قَبْلَ الْعِشَاءِ الْأَخِيرَةِ رَكْعَتَيْنِ فَصَاعِدًا انْتَهَتْ اهـ حَلَبِيٌّ..وَعِبَارَةُ الشَّوْبَرِيِّ قَالَ الشَّيْخُ وَفِي شَرْحِ الْمُهَذَّبِ يُسْتَحَبُّ أَنْ يُصَلِّيَ قَبْلَ الْعِشَاءِ الْأَخِيرَةِ رَكْعَتَيْنِ فَصَاعِدًا ثُمَّ اسْتَدَلَّ بِحَدِيثِ الصَّحِيحَيْنِ ۔
فقہ شافعی کی کتاب المجموع میں ہے کہ عشاء سے پہلے دو رکعت یا دو رکعت سے زیادہ سنت غیر موکدہ ہیں، المجموع کی عبارت یوں ہے کہ مستحب ہے یعنی سنت غیر موکدہ ہے کہ عشاء سے پہلے دو رکعتیں اور دو سے زیادہ رکعتیں پڑھے …الشوبری کی عبارت یوں ہے کہ شیخ نے فرمایا کہ (فقہ شافعی کی کتاب) شَرْحِ الْمُهَذَّبِ میں ہے کہ مستحب ہے سنت غیر موکدہ ہے کہ عشاء سے پہلے دو رکعت یا دو رکعت سے زیادہ پڑھے اس مسئلے پر صحیحین کی حدیث سے دلیل پکڑی (صحیحین کی حدیث نیچے آ رہی ہے)(حاشية الجمل على شرح المنهج فتوحات الوهاب بتوضيح شرح منهج الطلاب جلد 1 صفحہ 481،چشتی)

بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلاَةٌ ، بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلاَةٌ»، ثُمَّ قَالَ فِي الثَّالِثَةِ : لِمَنْ شَاء ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اذان و اقامت کے درمیان نماز پڑھنا ہے ۔۔۔ اذان و اقامت کے درمیان نماز پڑھنا ہے پھر تیسری مرتبہ فرمایا جو چاہے پڑھے ۔ (صحيح البخاري جلد 1 صفحہ 128 حدیث نمبر 627)

اس حدیث پاک سے واضح ہوتا ہے کہ ہر اذان اور اقامت کے درمیان سنت نماز ہے ۔۔۔ لہٰذا عشاء کی اذان کے بعد اور اقامت سے پہلے نماز پڑھنا بھی سنت سے ثابت ہوگیا اور اس بات میں کوئی تخصیص نہیں ہے کہ دو رکعت ہو یا چار رکعت یا اس سے زیادہ لھٰذا چار بھی ثابت ہوگئ ۔

فَلَمْ يَزَلْ يُصَلِّي حَتَّى صَلَّى الْعِشَاءَ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز (سنت غیرموکدہ) پڑھتے رہے عشاء کے فرض تک ۔ (أحمد بن حنبل ,مسند أحمد ط الرسالة ,38/430،چشتی) ۔ مسند احمد کےحاشیہ میں اس حدیث پاک کا حکم و تخریج یوں ہے کہ : إسناده صحيح . إسرائيل: هو ابن يونس السبيعي، والمنهال: هو ابن عمرو الأسدي مولاهم. وأخرجه ابن أبي شيبة 12/96، والنسائي في “الكبرى” (380) و (381) و (8365) ، وابن خزيمة (1194،چشتی) ، وابن حبان (6960) ، والحاكم 1/312-313، والبيهقي في “دلائل النبوة” 7/78 من طريق زيد بن الحباب، بهذا الإسناد. وبعضهم يرويه مطولاً بنحو الرواية السالفة برقم (23329)

اس حدیث مبارکہ سے بھی واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عشاء کی نماز سے پہلے بہت سارے سنت غیر موکدہ پڑھے ۔ لھٰذا عشاء سے پہلے دو رکعت سنتیں غیر موکدہ بھی ثابت ہو گئیں عشاء سے پہلے چار رکعت سنت غیر مؤکدہ بھی ثابت ہوگئیں اور عشاء سے پہلے چار سے زیادہ بھی سنت غیر موکدہ ثابت ہو گئیں ۔

فَفِي سنَن سعيد بن مَنْصُور من حَدِيث الْبَراء رَفعه من صَلَّى قبل الْعشَاء أَرْبعا كَانَ كَأَنَّمَا تهجد من ليلته ۔
سنَن سعيد بن مَنْصُور میں حدیث مبارکہ ہے کہ جس نے عشاء سے پہلے چار رکعت پڑھے گویا کہ اس نے اس رات کی تہجد نماز پڑھ لی ۔ (ابن حجر الدراية في تخريج أحاديث الهداية جلد 1 صفحہ 198)

ندب أربع قبل “العشاء” لما روي عن عائشة رضي الله عنها أنه عليه السلام كان يصلي قبل العشاء أربعا ۔
ترمہ : عشاء سے پہلے چار رکعت سنت غیر موکدہ ہیں کیونکہ حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عشاء سے پہلے چار رکعت پڑھتے تھے ۔ (مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح صفحہ 146)

نماز وتر جس کا ثبوت سنن ابو داٶد کی حدیث نمبر 1419 اور 1416میں موجود ہے ، اس لیے بخاری 541 کے مطابق وتر عشاء کی نماز کے ساتھ ، سونے سے پہلے ، سونے کے بعد ، فجر کی اذان سے پہلے ادا کرنے کا ثبوت ملتا ہے ۔ وتر کی نماز واجب ہے اگر نمازِ وتر چھوٹ جائے تو قضا کی جائے گی ۔

نمازِ وتر کی تین رکعات ہیں : ⏬

غیر مقلد وہابی حضرات اپنی ذمے لگائی گئی ڈیوٹی کے مطابق ہر اسلامی مسلے پر امتِ مسلمہ سے الگ تھلگ راستہ اختیار کرتے ہیں انہیں میں سے ایک نمازِ وتر بھی ہے جس کے متعلق یہ لوگ ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں کہتے ہیں کہ نمازِ وتر ایک رکعت ہے ۔ دلائل کی روشنی میں پڑھتے ہیں کہ نمازِ وتر کی کتنی رکعات ہیں ایک یا تین جب آپ مکمل دلائل پڑھ لیں تو سوچیے گا ضرور آخر غیر مقلد وہابی حضرات کا کیا بنے گا اور یہ کس کے مشن پر ہیں : ⏬

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وترکی تین رکعت ادا فرماتے تھے اور سلام آخر ہی میں پھیرتے تھے ۔ (سنن نسائی مترجم جلد اوّل کتاب قیام اللیل وتطوع النھار باب کیف الوتر بثلاث صفحہ نمبر 613 مطبوعہ ضیاء القرآن،چشتی)

جیسے اور نمازوں میں آخری رکعت میں سلام پھیرا جاتا ہے ویسے ہی وتر میں بھی آخری رکعت میں سلام پھیرا جائے دو رکعت پر نہیں ۔

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زائد نہیں پڑھتے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم چار رکعت (تہجد) ادا کرتے پھر آپ تین رکعت (وتر) ادا فرماتے ۔ (بخاری کتاب التہجد جلد اول حدیث 1077 صفحہ 472 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)(مسلم شریف جلد اول کتاب صلوٰۃ المسافرین و قصرہا حدیث 1620 صفحہ 573 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)

حضرت عبد ﷲ ابن عباس رضی ﷲ عنہما ایک طویل حدیث نقل فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ دو دو رکعت کرکے چھ رکعت (تہجد) پڑھی اور اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے تین رکعت وتر ادا کئے ۔ (مسلم شریف جلد اول کتاب صلوٰۃ المسافرین وقصرہا حدیث 1696 صفحہ 597 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)

حضرت ابی بن کعب رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نماز وتر کی پہلی رکعت میں سورۃ الاعلی ، دوسری رکعت میں سورۃ الکافرون اور تیسری رکعت میں سورۃ الاخلاص پڑھتے اور تینوں رکعتوں کے آخر میں سلام پھیرتے تھے ۔ (سنن نسائی، جلد اول کتاب قیام اللیل وتطوع النہار، حدیث 1702 صفحہ 540 مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور،چشتی)

حضرت علی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تین رکعت و تر پڑھتے تھے ۔ امام ترمذی علیہ الرحمہ نے کہا اہل علم صحابہ کرام و تابعین کرام رضی اللہ عنہم کا یہی مذہب ہے ۔ (جامع ترمذی جلد اول، ابواب الوتر حدیث 448، ص 283، مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور،چشتی)(زجاجۃ المصابیح باب الوتر جلد 2،ص 263)

حضرت انس رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ وتر تین رکعت ہے ۔ (طحاوی شریف)

سیدنا عبد ﷲ ابن عباس رضی ﷲ عنہما و ترکی تین رکعتوں میں تین سورتیں تلاوت فرماتے ۔ سبح اسم ربک الاعلیٰ اور قل یاایھا الکفرون اور قل ہو اﷲ احد ۔ (سنن نسائی ، جلد اول حدیث نمبر 1706، ص 541، مطبوعہ فرید بک لاہور پاکستان)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے دریافت کیا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم وتروں میں کیا پڑھتے تھے تو انہوں نے فرمایا ۔ پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلیٰ ، دوسری میں قل یاایھا الکفرون اور تیسری میں قل ہو ﷲ احد پڑھتے تھے ۔ (سنن ابن ماجہ، جلد اول، باب ماجاء فیما یقرا فی الوتر، حدیث نمبر 1224، ص 336، مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور،چشتی)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فرمایا : وِتْرُ اللَّيْلِ ثَلَاثٌ، کَوِتْرِ النَّهَارِ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ ۔
ترجمہ : دن کے وتروں یعنی نمازِ مغرب کی طرح رات کے وتروں کی بھی تین رکعات ہیں ۔ (سنن دار قطنی ، 2 : 27)

نام وَر تابعی اور حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت قاسم بن محمد حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنھما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فرمایا : صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَی مَثْنَی، فَإِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَنْصَرِفَ فَارْکَعْ رَکْعَةً تُوتِرُ لَکَ مَا صَلَّيْتَ ۔
ترجمہ : رات کی نماز کی دو دو رکعتیں ہیں۔ جب تم فارغ ہونا چاہو تو ایک رکعت اور پڑھ لو۔ یہ تمہاری پڑھی ہوئی نماز کو وتر بنا دے گی ۔ اِس کے بعد حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت قاسم بن محمد رضی اللہ عنہ اپنا قول یوں بیان کرتے ہیں : وَرَأَيْنَا أُنَاسًا مُنْذُ أَدْرَکْنَا يُوتِرُونَ بِثَلَاثٍ ۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا تو ہم نے لوگوں کو تین وتر پڑھتے ہوئے ہی دیکھا ہے ۔ (صحيح بخاری ، کتاب الوتر، باب ما جاء فی الوتر، 1 : 337، رقم : 948،چشتی)

مذکورہ احادیث سے احناف کے مذہب کی واضح تائید ہو رہی ہے کہ وتر کی تین رکعتیں ہیں کیونکہ مذکورہ تمام احادیث میں تین تین سورتیں پڑھنا وارد ہوا ہے ۔

غیر مقلدین کے دلائل : ⏬

پہلی حدیث : حضرت عبد ﷲ ابن عمر رضی ﷲ عنہما ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا رات کی نماز دو دو رکعت ہے ۔ پس جب تم لوٹنے کا ارادہ کرو تو ایک رکوع کرو۔ وتر کرو، جو تم پڑھ چکے (نسائی شریف)

دوسری حدیث : حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم رات میں گیارہ رکعت نماز پڑھتے تھے ۔ ان میں سے ایک کے ساتھ وتر کرے ۔ پھر اپنے سیدھے کروٹ لیٹ جاتے ۔ (نسائی شریف)

تیسری حدیث : حضرت نافع رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عبد ﷲ ابن عمر رضی ﷲ عنہما وتر میں ایک اور دو رکعت کے درمیان سلام پھیرتے تھے ۔ یہاں تک کہ اپنی بعض ضروریات کا حکم دیتے ۔

غیر مقلدین کے دلائل کا جواب

پہلی حدیث کا جواب : اس حدیث کا جواب خود اسی میں موجود ہے ۔ دو دو رکعت کرکے جب نماز پڑھیں گے اور ایک رکعت ملا کر وتر ادا کریں گے تو تعداد تین ہوگی ، کیونکہ یعنی جو تم پڑھ چکے ، اس کے ساتھ ایک ملالو ۔
اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ تُوْتِر کا مصدر الایتار ہے ۔ اور یہ بابِ افعال سے ہے ۔ بابِ افعال کی خاصیت تعدی ہونا ہے ۔ لہٰذا تعدی اسی وقت ہوگی جب دو کے ساتھ ایک رکعت ملالی جائے ۔

دوسری حدیث کا جواب : احناف کے دلائل میں تیسری حدیث ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا کی روایت گزر چکی ہے ۔ چار چار رکعت پڑھنے کے بعد تین رکعت ادا فرمائی ۔ اس لئے دوسری حدیث کی تفسیر خود راوی کی طرف سے موجود ہے کہ گیارہ رکعت میں سے آٹھ رکعت صلوٰۃ اللیل (تہجد) ہے اور تین رکعت وتر ہے ۔

تیسری حدیث کا جواب : حضرت عقبہ بن مسلم نے حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما سے وتر سے متعلق سوال کیا ۔ تو آپ نے فرمایا کہ کیا تم دن کے وتر کو جانتے ہو ۔ آپ نے فرمایا جی ہاں ! نماز مغرب یہ سن کر حضرت عبد ﷲ ابن عمر رضی ﷲ عنہما نے فرمایا کہ رات کے وتر بھی ایسے ہیں ۔ حضرت نافع علیہ الرحمہ کی روایت سے آپ کا فعل ثابت ہو رہا ہے اور حضرت عقبہ علیہ الرحمہ کی روایت سے آپ کا قول ثابت ہورہا ہے ۔ قاعدے کے مطابق حدیث قولی کو ترجیح ہوگی اور وتر کا طریقہ نماز مغرب کی طرح ایک سلام سے تین رکعت ہوگی ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دم کٹی (یعنی صرف ایک رکعت نماز) پڑھنے سے منع فر مایا : ⏬

حضرت سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دم بریدہ نماز پڑھنے سے منع فرمایا یعنی کوئی شخص ایک رکعت وتر پڑھے ۔ (اس حدیث کو علامہ ذیلعی نے نصب الرایہ جلد ۲ صفحہ ۱۲۰،چشتی)(حافظ ابن حجر نے درایہ جلد ۱ صفحہ ۱۱۴)(علامہ عینی نے عمدہ القاری جلد ۴ صفحہ ۴ پر بیان کیا ہے)

حضرت محمد بن کعب قرظی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دم کٹی (ایک رکعت) نماز پڑھنے سے منع فرمایا ۔ (نیل الاوطار مصنفہ قاضی محمد بن علی شوکانی)

بظاہر کچھ حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک رکعت کے ذریعے اپنی نمازوں کو طاق بنایا ، ایسی تمام روایات اس معنیٰ پر محمول ہے کہ وہ ایک رکعت دو رکعات سے ملی ہوئی تھی ۔ کیونکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف ایک رکعت نماز پڑھنے سے منع فرماتے تھے ۔ اور اسی پر تمام امت کا اجماع ہے کہ وتر کی نماز تین رکعات ہیں ۔ چنانچہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’اجمع المسلمون علے ان الوتر ثلاث لا یسلم الا فی آخر ھن‘‘ تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ وتر تین رکعات ہیں اور اس کی صرف آخری رکعت کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ جلد ۲ صفحہ ۲۹۴) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔