Friday, 9 February 2024

شَعبانُ المعظم کی فضیلت و اہمیت ، نوافل اور عبادات شب برات

شَعبانُ المعظم کی فضیلت و اہمیت ، نوافل اور عبادات شب برات
محترم قارئینِ کرام : اسلامی سال کا آٹھواں مہینہ شعبان المعظم ہے ۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ شعبان تشعب سے ماخوذ ہے اور تشعب کے معنیٰ تفرق کے ہیں ۔ چونکہ اس ماہ میں بھی خیر کثیر متفرق ہوتی ہے ۔ نیز بندوں کو رزق اس مہینہ میں متفرق اور تقسیم ہوتے ہیں ۔ اللہ رب العزت کی رحمت و بخشش کے دروازے یوں تو ہر وقت ہر کسی کےلیے کھلے رہتے ہیں ۔ لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَحْمَةِ اللّٰه (اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو) کی فضاٶں میں رحمت الٰہی کا دریا ہمہ وقت موجزن رہتا ہے ۔ اس کی رحمت کا سائبان ہر وقت اپنے بندوں پر سایہ فگن رہتا ہے اور مخلوق کو اپنے سایہ عاطفت میں لیے رکھنا اسی ہستی کی شانِ کریمانہ ہے ۔ اس غفّار، رحمن و رحیم پروردگار نے اپنی اس ناتواں مخلوق پر مزید کرم فرمانے اور اپنے گناہ گار بندوں کی لغزشوں اور خطائوں کی بخشش و مغفرت اور مقربین بارگاہ کو اپنے انعامات سے مزید نوازنے کے لیے بعض نسبتوں کی وجہ سے کچھ ساعتوں کو خصوصی برکت و فضیلت عطا فرمائی جن میں اس کی رحمت و مغفرت اور عطاٶں کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے اور جنہیں وہ خاص قبولیت کے شرف سے نوازتا ہے ۔ ان خاص لمحوں ، خاص ایام اور خاص مہینوں میں جن کو یہ فضیلت حاصل ہے ربّ کائنات کی رحمت کی برسات معمول سے بڑھ جاتی ہے ۔ ان خصوصی ساعتوں میں ماہِ شعبان کو خاص اہمیت و فضیلت حاصل ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے سال کے مہینوں میں سے چار مہینے رجب ، شعبان ، رمضان اور محرم برگزیدہ فرمائے ۔ ان میں سے شعبان کو چن لیا اور اسے رحمتِ عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مہینہ قرار دیا ۔ لہٰذا شعبان وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں تمام بھلائیوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ۔ آسمان سے برکتیں اُتاری جاتی ہیں ، گناہ گار بخشش پاتے ہیں اور برائیاں مٹادی جاتی ہیں ۔ اسی لیے شعبان کو ’اَلْمُکَفِّر‘ یعنی گناہوں کی بخشش کا ذریعہ بننے والا مہینہ کہا جاتا ہے ۔

حدیث شریف میں ہے کہ شعبان کو اس لیے شعبان کہا جاتا ہے کہ اس میں روزہ دار کےلیے خیر کثیر تقسیم ہوتی ہے ، یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوتا ہے ۔ (ماثبت من السنۃ صفحہ 141)(فضائل الایام والشہور صفحہ 404، مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ)

شعبان المعظّم میں مندرجہ ذیل مشہور واقعات ہوئے

(1) اس مہینہ کی پانچ تاریخ کو سیدنا حضرت امام حسین رضی ﷲ عنہ کی ولادت مبارک ہوئی ۔

(2) اسی مہینہ کی پندرہویں تاریخ کو شب برأت یعنی لیلۂ مبارک ہے جس میں اُمّت مسلمہ کے بہت افراد کی مغفرت ہوتی ہے ۔

(3) اسی مبارک مہینہ میں مسجد ضرار کو نذرِآتش کیاگیا ۔

(4) اسی مبارک مہینہ میں جھوٹامدعی نبوت مسیلمہ کذاب واصلِ جہنم ہوا ۔

(5) اسی مبارک مہینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا ۔

(6) اسی مبارک مہینہ میں قرآنِ مجید کے نزول کا فیصلہ ہوا ۔

(7) اسی ماہ کی سولہویں تاریخ کو تحویل قبلہ کا حکم ہوا ۔ ابتداء اسلام میں کچھ عرصہ بیت المقدس قبلہ رہا اور پھر ﷲ تعالیٰ نے سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی مرضی کے مطابق کعبۂ معظمہ کو مسلمانوں کا قبلہ بنادیا ۔ اس وقت سے ہمیشہ تک مسلمان کعبۃ ﷲ کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرتے تھے ۔ (عجائب المخلوقات صفحہ نمبر 47،چشتی)(فضائل الایام والشہور ، صفحہ نمبر 405، مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد، پنجاب)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان المبارک ﷲ تعالیٰ کا مہینہ ہے ۔ (الجامع الصغیر حدیث 4889 صفحہ 301)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : شعبان کو شعبان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس ماہ میں احترام رمضان کی وجہ سے بہت سی نیکیاں پھیلتی ہیں اور رمضان کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس ماہ میں بہت سے گناہ جلا دیے جاتے ہیں ۔

’غنیۃ الطالبین‘ میں ہے : لفظ شعبان پانچ حرفوں کا مجموعہ ہے : {ش، ع، ب، الف اور ن} ’شین‘ شرف سے، ’عین‘ علو، عظمت (بلندی) سے، ’باء‘ بِر (نیکی اور تقویٰ) سے، ’الف‘ اُلفت (اور محبت) سے اور ’نون‘ نور سے ماخوذ ہے ۔ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندے کو یہ چار چیزیں عطا ہوتی ہیں ۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں نیکیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور برکات کا نزول ہوتا ہے ، گناہ گار چھوڑ دیے جاتے ہیں اور برائیاں مٹا دی جاتی ہیں اور مخلوق میں سب سے افضل اور بہترین ہستی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ بے کس پناہ میں کثرت سے ہدیہ درود و سلام بھیجا جاتا ہے ۔

آیت درود و سلام کا شانِ نزول
امام قسطلانی نے ’المواہب اللدنیہ‘ میں ایک لطیف بات کہی ہے فرماتے ہیں : إِنَّ شَهْرَ شَعْبَان شَهْرُ الصَّلَاةِ عَلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم، لِاَنَّ آيَةَ الصَّلَاةِ يَعْنِي: اِنَّ اﷲَ وَمَلٰئِکَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ۔ (الأحزاب، 33/ 56) نَزَلَتْ فِيْهِ ۔
ترجمہ : بے شک شعبان نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر درود و سلام بھیجنے کا مہینہ بھی ہے ، اس لیے کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں درود و سلام کی آیت نازل ہوئی ۔ (قسطلانی المواهب اللدنية 2/ 650،چشتی)

یہ آیت ماہِ شعبان میں نازل ہوئی تو شعبان کا تعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے درود و سلام کے ساتھ بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی بخشش و مغفرت اور توبہ کے ساتھ بھی ہے لہٰذا اس ماہ اور شب برات کی عبادت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ سے بھی قربت نصیب ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بھی قرب نصیب ہوتا ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے شعبان کو اپنا مہینہ قرار دیا اور اس ماہ کی حرمت و تعظیم کو اپنی حرمت و تعظیم قرار دیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس ماہ میں کثرت سے روزے رکھتے اور دیگر اَعمال صالحہ بجالاتے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : شَهْرُ رَمَضَانَ شَهْرُ اﷲِ، وَشَهْرُ شَعْبَانَ شَهْرِي، شَعْبَانُ الْمُطَهِّرُ وَرَمَضَانُ الْمُکَفِّرُ ۔
ترجمہ : ماہِ رمضان اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے ، اور ماہِ شعبان میرا مہینہ ہے، شعبان (گناہوں سے) پاک کرنے والا ہے اور رمضان (گناہوں کو) ختم کر دینے والا مہینہ ہے ۔ (کنزالعمال، 8/ 217، رقم: 23685،چشتی)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ماہِ رجب کی آمد پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یوں فرمایا کرتے : اَللّٰهُمَّ، بَارِکْ لَنَا فِي رَجَبٍ، وَشَعْبَانَ، وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ ۔
ترجمہ : اے اللہ ! ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکتیں نازل فرما اور رمضان ہمیں نصیب فرما ۔ (المعجم الاوسط، رقم 3939)

اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ماہِ شعبان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کثرت سے روزے رکھتے ۔ کَانَ اَحَبُّ الشُّهُورِ إِلٰی رَسُوْلِ ﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم اَنْ يَصُوْمَهُ شَعْبَانَ، ثُمَّ يَصِلُهُ بِرَمَضَانَ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو تمام مہینوں میں سے شعبان کے روزے رکھنا زیادہ محبوب تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم شعبان (کے روزوں) کو رمضان المبارک کے ساتھ ملا دیا کرتے تھے ۔ (احمد بن حنبل، المسند، 6/ 188، رقم: 25589،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے افضل روزوں کے بارے میں پوچھا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : صَوْمُ شَعْبَانَ تَعْظِيْمًا لِرَمَضَانَ ۔
ترجمہ : شعبان کے روزے رمضان کی تعظیم و قدر کیلیے ہیں ۔(بيهقی، السنن الکبری، 4/ 305، رقم: 8300)

ماہِ شعبان کی اہمیت و فضیلت کا اس امر سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس مہینے میں بندوں کے اَعمال ﷲ تعالیٰ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں ۔

حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت اقدس میں عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں آپ کو سب مہینوں سے زیادہ شعبان المعظم کے مہینے میں روزے رکھتے دیکھتا ہوں ۔ (اس کی کیا وجہ ہے ؟) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ذٰلِکَ شَهْرٌ، يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ، بَيْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ، وَهُوَ شَهْرٌ تُرْفَعُ فِيْهِ الْأَعْمَالُ إِلٰی رَبِّ الْعَالَمِيْنَ فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ ۔
ترجمہ : یہ وہ مہینہ ہے جس سے لوگ غافل اور سست ہیں ۔ رجب اور رمضان المبارک کے درمیان یہ وہ مہینہ ہے جس میں اَعمال رب العالمین کے حضور لے جائے جاتے ہیں ۔ لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال اس حال میں اُٹھائے جائیں کہ میں روزہ سے ہوں ۔ (نسائی، السنن، کتاب الصيام، 4/ 201، رقم: 2357،چشتی)

اس حدیث مبارکہ میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس ماہ کی فضیلت کا ایک راز یہ بتا دیا کہ شعبان میں ہمارے اَعمال ﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں ۔ جو شخص اس مہینے میں جتنے زیادہ اعمال صالحہ بجا لاتا ہے، زیادہ عبادات کرتا ہے ، روزے رکھتا ہے ، صدقات و خیرات کرتا ہے ۔ اسے اتنی ہی ﷲ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت نصیب ہوتی ہے اور اسی قدر بارگاہِ الٰہی سے قرب اور مقبولیت نصیب ہوتی ہے ۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شعبان کا چاند دیکھنے کے بعد قرآن کریم کی تلاوت میں لگ جاتے ، اپنے مالوں کی زکوۃ نکالتے تاکہ کمزور اور مسکین لوگ رمضان المبارک میں روزہ رکھنے پر قادر ہوسکیں ، حکمران قیدیوں کو بلاکر اگر حد کے نفاذ کا مسئلہ ہوتا تو حد نافذ کر دیتے ورنہ اُن کو آزاد کر دیتے ، تاجر حضرات اپنے حساب و کتاب اور لین کی ادائیگی سے فارغ ہونے کی کوشش میں لگ جاتے تاکہ ہلالِ رمضان دیکھ کر اپنے آپ کو عبادت کےلیے وقف کرسکیں ۔ (غنیۃ الطالبین :1/341)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اِس مہینے کو اپنا مہینہ قرار دیا ہے ، چنانچہ فرمایا : شعبان میرا مہینہ اور رمضان اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے ۔ شَعْبَانُ شَهْرِيْ وَرَمَضَانُ شَهْرُ اللهِ ۔ (کنز العمّال :35172،چشتی)

اِس کے بابرکت ہونے کےلیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وہ دعاء ہی کافی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے اس میں برکت کی دعاء مانگی ہے ، چنانچہ حدیث میں ہے : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رجب کا مہینہ داخل ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ دعاء پڑھا کرتے تھے : اَللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبَ، وَشَعْبَانَ، وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ ۔
ترجمہ : اے اللہ ! رجب اور شعبان کے مہینے میں ہمیں برکت عطا فرمااور اور ہمیں (بخیر و عافیت) رمضان المبارک تک پہنچا دیجئے ۔(شعب الایمان :3534)
شعبان گناہوں سے پاک ہونے کا مہینہ ہے : اِرشادِ نبوی ہے : رمضان کا مہینہ اللہ تعالیٰ کا اور شعبان کا مہینہ میرا مہینہ ہے ، شعبان کا مہینہ پاک کرنے والا اور رمضان کا مہینہ گناہوں کو مٹانے والا ہے ۔ شَهْرُ رَمَضَانَ شَهْرُ اللهِ، وَشَهْرُ شَعْبَانَ شَهْرِيْ ، وَشَعْبَانُ الْمُطَهِّر ، وَ رَمَضَانُ الْمُكَفِّرُ ۔ (أخرجہ ابن عساکر فی التاریخ:72/155)

شعبان کے مہینے میں روزہ دار کے لیے خیرِ کثیرہے : حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : شعبان کو ”شعبان“ اِس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں روزہ رکھنے والےکے لئے بہت سی خیریں اور بھلائیاں (شاخوں کی طرح) پھوٹتی ہیں ، یہاں تک کہ وہ جنت میں جاپہنچتا ہے ۔ إِنَّمَا سُمِّيَ شَعْبَانُ لِأَنَّه يَتَشَعَّبُ فِيْهِ خَيْرٌ كَثِيرٌ لِلصَّائِمِ فِيْهِ حَتَّى يَدْخُلَ الْجَنَّةَ ۔( کنز العمّال :35173،چشتی)

شعبان کے مہینے میں اعمال کی پیشی : اِس مہینے میں اعمال کی پیشی ہوتی ہے ، چنانچہ حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اِرشاد فرماتے ہیں: رجب اور رمضان کے درمیان جو شعبان کا مہینہ ہے ، (عام طور پر) لوگ اُس سے غفلت کا شکار ہ ہوتے ہیں ، حالآنکہ اس مہینے میں بندوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں ۔ شَعْبَانُ بَيْنَ رَجَبٍ وَشَهْرِ رَمَضَانَ، يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ، يُرْفَعُ فِيهِ أَعْمَالُ الْعِبَاد ۔ (شعب الایمان :3540)

ماہِ شعبان کے اعمال اس مہینے سے متعلق دو طرح کے کام ہیں :

(1) قابلِ عمل یعنی کرنے کے کام ۔

(2) قابلِ ترک یعنی چھوڑنے کے کام ۔

قابلِ عمل کام : یعنی وہ کام جن کو اختیار کرنے کی تعلیم دی گئی ہے اور وہ سنت سے ثابت ہیں ۔ ایسے کام درج ذیل ہیں : ⬇

شعبان کے مہینے کا چاند دیکھنے کا اہتمام : اِسلامی مہینوں کی حفاظت اور اُن کی صحیح تاریخوں کا یاد رکھنا فرض کفایہ ہے ، کیونکہ اُن پر بہت سے شرعی احکام موقوف ہیں ، چنانچہ حج کا صحیح تاریخوں میں اداء کرنا ، رمضان المبارک کے روزوں اور زکوۃ کی ادائیگی اور اس کے علاوہ کئی شرعی امور قمری تاریخوں پر موقوف ہیں ، لہٰذا مسلمانوں کو قمری مہینوں کو یاد رکھنا چاہیئے اور چاند دیکھنے کا اہتمام کرنا چاہیئے ، اور شعبان کے بعد چونکہ رمضان المبارک کا عظیم مہینہ آرہا ہوتا ہے اِس لئے ہلالِ شعبان کو اور بھی زیادہ اہتمام اور شوق سے دیکھنے کا اہتمام کرنا چاہیے ، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی شعبان کا چاند بڑے اہتمام سے دیکھا کرتے تھے، چنانچہ روایت میں آتا ہے،حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہلالِ شعبان کی جتنی حفاظت کرتے تھے اتنی کسی اور مہینے کی نہ کرتے تھے۔كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَحَفَّظُ مِنْ هِلَالِ شَعْبَانَ مَا لَا يَتَحَفَّظُ مِنْ غَيْرِهِ۔(دار قطنی:2149)

 شعبان کے مہینے میں برکت کی دعاء : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رجب کا مہینہ داخل ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ دعاء پڑھا کرتے تھے : ”اَللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبَ، وَشَعْبَانَ، وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ“ اے اللہ ! رجب اور شعبان کے مہینے میں ہمیں برکت عطا فرمااور اور ہمیں (بخیر و عافیت) رمضان المبارک تک پہنچادیجئے ۔ (شعب الایمان :3534،چشتی)

شعبان کے مہینے میں روزوں کی کثرت : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو روزہ رکھنے کے لئے تمام مہینوں میں شعبان کا مہینہ سب سے زیادہ محبوب تھا، آپ یہ چاہتے تھے کہ روزہ رکھتے رکھتے اُسے رمضان کے ساتھ ملادیں۔عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَيْسٍ، سَمِعَ عَائِشَةَ تَقُولُ:كَانَ أَحَبَّ الشُّهُورِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَصُومَهُ: شَعْبَانُ، ثُمَّ يَصِلُهُ بِرَمَضَانَ۔(سنن ابوداؤد:2431)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے نہیں دیکھا ۔ مَا رَأَيْتُهُ فِي شَهْرٍ أَكْثَرَ مِنْهُ صِيَامًا فِي شَعْبَانَ۔(مسلم:1156)۔(بخاری :1969)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سوائے چند قلیل ایام کے شعبان کے اکثر دنوں میں روزے رکھتے تھے ۔ كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ إِلَّا قَلِيلًا۔(مسلم:1156،چشتی)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سال کے کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ روزے نہیں رکھتے تھے۔لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الشَّهْرِ مِنَ السَّنَةِ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ۔(مسلم:1156)

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ رمضان المبارک کے بعد کون سا روزہ افضل ہے ؟ آپ نے اِرشاد فرمایا : وہ روزہ جو رمضان کی تعظیم میں شعبان کے مہینے میں رکھا جائے۔عَنْ أَنَسٍ قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الصَّوْمِ أَفْضَلُ بَعْدَ رَمَضَانَ ؟ فَقَالَ: «شَعْبَانُ لِتَعْظِيمِ رَمَضَانَ»۔(ترمذی:663)
ایک حدیث میں رمضان کے بعد محرم کے روزے کو سب سے افضل کہا گیا ہے ۔ (ترمذی:438)
دونوں میں کوئی تعارض نہیں ، اِس لیے کہ رمضان کے بعد مرتبہ کے اعتبار سے مطلقاً دیکھا جائے تو حدیث کے مطابق محرّم ہی کا روزہ افضل ہے ، لیکن جب اِستقبالِ رمضان کی تعظیم کا اعتبار کیا جائے تو شعبان سے افضل کوئی روزہ نہیں ۔ اور رمضان کی تعظیم کا مطلب یہ ہے کہ رمضان کے آنے سے قبل ہی روزہ رکھ کر نفس کو بھوک و پیاس برداشت کرنے کا عادی بنایا جائے تاکہ اچانک سے ماہِ رمضان شروع ہوجانے سے طبیعت پر بوجھ نہ ہو اور کوئی بات خلافِ ادب سرزد نہ ہو ۔

شعبان کے مہینے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بکثرت روزے رکھنے کی وجہ : اِس کی وجہ یہ تھی ، جیسا کہ ایک حدیث میں ذکر کیا گیا ہے کہ اِس مہینے میں اللہ تعالیٰ کے حضور اعمال کی پیشی ہوتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ چاہتے تھے کہ روزے کی حالت میں اعمال کی پیشی ہو۔حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سےروایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سوال کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شعبان کے مہینے میں مَیں آپ کو اتنے روزے رکھتے ہوئے دیکھتا ہوں جتنا کہ کسی اور مہینے میں نہیں دیکھتا ، اِس کی کیا وجہ ہے؟آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : رجب اور رمضان کے درمیان جو شعبان کا مہینہ ہے ،(عام طور پر) لوگ اُس سے غفلت کا شکار ہوتے ہیں ، حالآنکہ اس مہینے میں بندوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کےحضور پیش کیے جاتے ہیں ، تو مَیں یہ چاہتا ہوں کہ میرے اعمال اِس حالت میں اُٹھائے جائیں کہ میں روزے سے ہوں۔عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنِّي أَرَاكَ تَصُومُ فِي شَهْرٍ مَا لَا أَرَاكَ تَصُومُ فِي شَهْرٍ مثل مَا تَصُومُ فِيهِ، قَالَ:أَيُّ شَهْرٍ؟، قُلْتُ: شَعْبَانُ، قَالَ:شَعْبَانُ بَيْنَ رَجَبٍ وَشُهِرِ رَمَضَانَ، يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ، يَرْفَعُ فِيهِ أَعْمَالَ الْعِبَادِ، فَأُحِبُّ أَنْ لَا يُرْفَعَ عَمَلِي إِلَّا وَأَنَا صَائِمٌ ۔ (شعب الایمان :3540،چشتی)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پہلے خطبہ دیتے اور فرماتے : تمہارے پاس رمضان کا مہینہ آرہا ہے پس تم اُس کے لئے تیاری کرواور اُس میں اپنی نیتوں کو درست کرلو ۔كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ قَبْلَ رَمَضَانَ خَطَبَ النَّاسَ ثُمَّ قَالَ: أَتَاكُمْ شَهْرُ رَمَضَانَ فَشَمِّرُوْا لَهُ وَأَحْسِنُوْا نِيَّاتِكُمْ فِيْهِ۔(کنز العمال عن الدّیلمی: 24269)
ہر چیز کی تیاری اُس کے آنے سے پہلے ہوتی ہے ، مثلاً مہمان کی آمد ہو تو اُس کے آنے بعد نہیں ، آنے سے پہلے تیاری ہوتی ہے ، اِسی طرح رمضان بھی مؤمن کے لئے ایک بہت ہی اہم اور معزز مہمان ہے ، اُس کی قدر دانی کے لئے بھی پہلے سے ذہنی اور عملی طور پر تیار ہونا چاہیے ۔
رمضان المبارک کی تیاری میں دوچیزیں ہیں : (1) دنیاوی اعتبار سے ۔ (2) دینی اعتبار سے ۔
دنیاوی اعتبار سے : اِس طرح کہ دنیاوی مشاغل و مصروفیات سے اپنے آپ کو جس قدر بھی فارغ کرسکتے ہوں کرلیں ، تاکہ رمضان المبارک کا مہینہ مکمل یکسوئی کے ساتھ عبادت اور رجوع الی اللہ میں گزارا جاسکے۔اِس کےلیے چند اہم تجاویز ذکر کی جارہی ہیں ، اِن کی مدد سے ان شاء اللہ اپنے آپ کو رمضان کے لئے فارغ کیا جا سکتا ہے : عید کی تمام شاپنگ شعبان المعظم میں ہی کرکے فارغ ہوجائیں ، کیونکہ رمضان المبارک کی بابرکت ساعتوں کو شاپنگ مال اور مارکیٹس کے نذر کرنا ، بالخصوص جبکہ اُس کی وجہ سے روزہ ،نمازیں اور تراویح کی نماز متاثر ہوتی ہو یہ رمضان جیسے عظیم اور بابرکت کی بڑی ناقدری ہے ، جس میں عوام و خواص بہت سے لوگ مبتلاء نظر آتے ہیں ۔
راشن اور گھر کا دیگر سودا سلف جو روز مرّہ کے معمولات میں خریدا جاتا ہے ، وہ رمضان المبارک ہی میں جہاں تک ممکن ہو ایک ساتھ ہی خرید کر فارغ ہوجائیں تاکہ رمضان المبارک میں یکسوئی حاصل ہوسکے ۔
جو کام رمضان المبارک میں موقوف کیے جاسکتے ہوں اُنہیں موقوف کردیجئے ۔ہم اگر اپنے کاموں کا جائزہ لیں تو بہت سے ایسے کام نظر آئیں گے جنہیں اگر ایک مہینے تک ہم نہ کریں تو کوئی حرج لازم نہیں آئے گا ، مثلاً اخبار بینی ، دوستوں کے ساتھ گپ شپ ، ٹی وی دیکھنے اور انٹر نیٹ استعمال کرنے کی مصروفیت ، سیل فونز پر کی جانے والی بہت سی فضول اور لا یعنی مشغولیت، آؤٹنگ کے نام پر کی جانے والی پکنک اورتفریحات ، ویک اینڈ منانے کےلیے فوڈز پوائنٹ پر جانا ، یہ اور اِس جیسے اور بھی بہت سے ایسے کام ہیں جن میں بہت سے فضول اور لغو ہیں اور بہت سے گناہ کے زمرے میں آتے ہیں ، ان سب سے بچنا ضروری ہے اور رمضان المبارک میں ایسے کاموں سے اجتناب کرنااور بھی ضروری ہے ۔
سال بھر میں دفتر اور ملازمت سے ملنے والی ایسی چھٹیاں جن کو آپ کسی بھی استعمال کرسکتے ہوں اُن کو اِستعمال کرنے کے لئے رمضان المبارک کے مہینے سے بہتر کوئی وقت نہیں ، ایسی چھٹیوں کو رمضان میں استعمال کیجئے تاکہ خوب یکسوئی اور دلجمعی کے ساتھ صرف ایک کام یعنی عبادت اور رجوع الی اللہ کیا جا سکے ۔
دینی اعتبار سے : رمضان کی تیاری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ شعبان المعظم کے مہینے میں ہی اپنے دن اور رات کے معمولات کو کچھ اِس طرح ترتیب دیجئے کہ فرائض و واجبات کے ساتھ ساتھ نفلی عبادات کا بھی خوب اہتمام ہونا شروع ہوجائے،پانچوں فرض نمازوں کو جماعت کے ساتھ مسجد میں اداء کیجیے ، قرآن کریم کی روزانہ تلاوت کریں ، نفلی نمازیں : اِشراق ، چاشت ، اوّابین اور تہجد وغیرہ کا اہتمام شروع کردیں اور خوب دعائیں مانگنے کی کوشش کریں ۔
یاد رکھیے ! دینی اور دنیاوی اعتبار سے رمضان کی تیاری کا مطلب شعبان میں ہی تیاری کرنا ہے کیو نکہ ہلالِ رمضان کے نکلنے کے بعد تیاری کرتے کرتے کافی وقت لگ جاتا ہے ، اور پھر اُن معمولات کی عادت بنتے بنتے بھی دیر لگتی ہےاور اِسی میں رمضان المبارک کا ایک بڑا حصہ ضائع ہو جاتا ہے ، اِس لیے جو بھی تیاری کرنی ہے وہ آمدِ رمضان سے قبل ہی کرکے فارغ ہوجائیں ۔

ماہ شعبان کی پندرہویں رات کو شب برأت کہا جاتا ہے ۔ شب کے معنی ’’رات‘‘ اور برأت کے معنی نجات کے ہیں ۔ یعنی اس رات کو ’’نجات کی رات‘‘ کہا جاتا ہے چونکہ اس رات کو مسلمان عبادت و ریاضت میں گزار کر جہنم سے نجات حاصل کرتے ہیں ۔ اس لیے اس رات کو شب برأت کہا جاتا ہے ۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : قسم ہے اس روشن کتاب کی بے شک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا ہے ، بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں ، اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام ۔ (سورۃ الدخان 2/4)

سال کے بارہ مہینوں میں سے رمضان تو ایسا مہینہ تھا جس کے روزے فرض تھے، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پورا کا پورا مہینہ روزے رکھتے لیکن بقیہ گیارہ مہینوں میں سب سے زیادہ روزوں کا اہتمام آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شعبان میں فرماتے تھے ۔ آخر کار کوئی سبب اور وجہ تو ہوگی اور کوئی تو خیر اور برکت کا پہلو ایسا ہوگا جو ماہِ شعبان کو ایسی فضیلت و بزرگی عطا کی گئی ۔

اس مہینے کی فضیلت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسی ماہِ مبارک میں وہ مبارک رات بھی آتی ہے جسے ’’شب برات‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتاہے۔ امام بیہقی ’شعب الایمان‘ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : أَتَانِي جِبْرِيْلُ فَقَالَ: هٰذِهِ اللَّيْلَةُ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ وَ ِﷲِ فِيْهَا عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ بِعَدَدِ شُعُوْرِ غَنَمِ کَلْبٍ ۔
ترجمہ : جبریل  علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھے کہا : (یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم!) یہ رات، پندرھویں شعبان کی رات ہے اور اس رات اللہ تعالیٰ قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کو جہنم کی آگ سے آزاد فرماتا ہے ۔ (بيهقی، شعب الايمان، رقم : 3837،چشتی)

اللہ رب العزت نے بعض دنوں کو بعض پرفضیلت دی ہے، یوم جمعہ کو ہفتہ کے تمام ایام پر، ماہ رمضان کو تمام مہینوںپر، قبولیت کی ساعت کو تمام ساعتوں پر، لیلۃ القدر کو تمام راتوں پر اور شب برات کو دیگر راتوں پر۔ اَحادیث مبارکہ سے اس بابرکت رات کی فضیلت و خصوصیت ثابت ہے جس سے مسلمانوں کے اندر اتباع و اطاعت اور کثرت عبادت کا ذوق و شوق پیدا کرنے کی ترغیب ملتی ہے ۔

اس فضیلت و بزرگی والی رات کے کئی نام ہیں : ⬇

لیلۃ المبارکۃ : برکتوں والی رات ۔

لیلۃ البراء ۃ : دوزخ سے آزادی ملنے کی رات ۔

لیلۃ الصَّک : دستاویز والی رات ۔

لیلۃ الرحمۃ : رحمت خاصہ کے نزول کی رات ۔ (زمخشری، الکشاف، 4/ 272)

عرفِ عام میں اسے شبِ برات یعنی دوزخ سے نجات اور آزادی کی رات بھی کہتے ہیں۔ لفظ ’’شبِ برات‘‘ اَحادیث مبارکہ کے الفاظ عتقاء من النار کا بامحاورہ اُردو ترجمہ ہے ۔ اس رات کو یہ نام خود رسول ﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمایا کیوں کہ اس رات رحمتِ خداوندی کے طفیل لاتعداد انسان دوزخ سے نجات پاتے ہیں ۔

ابن جریر طبری (م 310ھ) ’جامع البیان‘ میں اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : اللہ تعالیٰ کے فرمان : فِيْهَا يُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِيْمٍ ۔ ’’اس شب میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کردیا جاتا ہے ۔‘‘ (سورہ الدخان) کی تفسیر میں حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : قَالَ : فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ يُبْرَمُ فِيْهِ أَمْرُ السَّنَةِ وَتُنْسَخُ الأَحْيَاءُ مِنَ الأَمْوَاتِ وَيُکْتَبُ الْحَاجُّ فَـلَا يُزَادُ فِيْهِمْ أَحَدٌ وَلاَ يُنْقَصُ مِنْهُمْ أَحَدٌ ۔ فرمایا : یہ شعبان کی پندرہویں رات ہے ، اس میں ایک سال کا حال لکھ دیا جاتا ہے۔ اور زندوں کا نام مردوں میں بدل دیا جاتا ہے اور حج کرنے والوں کا نام لکھ دیا جاتا ہے پھر (سال بھر) اس میں کمی ہوتی ہے نہ کوئی اضافہ ہوتا ہے ۔ (ابن جرير طبری، جامع البيان، 25/ 109،چشتی)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ایک آدمی لوگوں کے درمیان چل رہا ہوتا ہے، حالانکہ وہ مردوں میں درج کیا ہوا ہوتا ہے، پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی : اِنَّـآ اَنْزَلْنٰـهُ فِيْ لَيْلَةٍ مُّبٰـرَکَةٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِيْنَ o فِيْهَا يُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِيْم o ۔
ترجمہ : بے شک ہم نے اسے ایک با برکت رات میں اتارا ہے بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں۔اس (رات) میں ہر حکمت والے کام کا (جدا جدا) فیصلہ کر دیا جاتاہے ۔ (سورہ الدخان: 3، 4)
پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : اس رات میں ایک سال سے دوسرے سال تک دنیا کے معاملات کی تقسیم کی جاتی ہے ۔ (طبری، جامع البيان، 25/ 109)

اللہ تعالیٰ کا دنیا پر نزولِ اجلال
شب برات رحمتِ خداوندی کے طفیل لا تعداد انسان دوزخ سے نجات پاتے ہیں ۔ اس رات کو اللہ تعالیٰ غروبِ آفتاب کے وقت سے ہی (اپنی شان کے لائق) آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے ۔

اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں : ایک رات میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (خواب گاہ میں) نہ پایا تو میں (آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں) نکلی ۔ میں نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنت البقیع میں مسلمان مردوں ، عورتوں اور شہداء کےلیے استغفار کرتے پایا ۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تجھے خوف ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تیرے ساتھ نا انصافی کریں گے ؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے سوچا شاید آپ کسی دوسری زوجہ کے ہاں تشریف لے گئے ہیں ۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إِنَّ ﷲَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَی السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَغْفِرُ لِأَکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ کَلْبٍ ۔
ترجمہ : اللہ تعالیٰ پندرہویں شعبان کی رات کو (اپنی شان کے لائق) آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے ۔ (احمد بن حنبل، المسند، 6/ 238، رقم: 26060،چشتی)

دوسری روایت میں ہے کہ : بے شک اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات اپنے بندوں پہ نگاہِ التفات فرماتا ہے تو بخشش طلب کرنے والوں کو بخش دیتا ہے اور رحم طلب کرنے والوں پر رحم فرماتا ہے، اور بغض و کینہ رکھنے والوں کو ویسا ہی رہنے دیتا ہے (ان کی حالت کو نہیں بدلتا) ۔

اس مبارک مہینہ میں پائی جانے والی اس بابرکت رات کی فضیلت اس حدیث مبارکہ سے بھی معلوم ہوتی ہے ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : هَلْ تَدْرِيْنَ مَا فِي هٰذِهِ اللَّيْلَةِ ؟ قَالَتْ: مَا فِيْهَا يَا رَسُوْلَ ﷲِ ؟ فَقَالَ: فِيْهَا أَنْ يُکْتَبَ کُلُّ مَوْلُوْدٍ مِنْ مَوْلُوْدِ بَنِي آدَمَ فِي هٰذِهِ السَّنَةِ، وَفِيْهَا أَنْ يُکْتَبَ کُلُّ هَالِکٍ مِنْ بَنِي آدَمَ فِي هٰذِهِ السَّنَةِ، وَفِيْهَا تُرْفَعُ أَعْمَالُهُمْ، وَفِيْهَا تَنْزِلُ أَرْزَاقُهُمْ ۔
ترجمہ : اے عائشہ ! تمھیں معلوم ہے کہ شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے ؟ تو انہوں نے عرض کیا: (یارسول اللہ!) اس رات میں کیا ہوتا ہے ؟ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس رات سال میں جتنے بھی لوگ پیدا ہونے والے ہیں سب کے نام لکھ دیے جاتے ہیں اور جتنے لوگ فوت ہونے والے ہیں ان سب کے نام بھی لکھ دیے جاتے ہیں اور اس رات میں لوگوں کے (سارے سال کے) اَعمال اٹھالیے جاتے ہیں اور اسی رات میں لوگوں کی روزی مقرر کی جاتی ہے ۔ (بيهقی الدعوات الکبير 2/ 145)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی بیان فرماتی ہیں : يَفْتَحُ ﷲُ الْخَيْرَ فِي أَرْبَعِ لَيَالٍ : لَيْلَة الْأَضْحٰی، وَالْفِطْرِ، وَلَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، يُنْسَخُ فِيْهَا الْآجَالُ وَالأَرْزَاقُ وَيُکْتَبُ فِيْهَا الْحَاجُّ وَفِي لَيْلَةِ عَرَفَةَ إِلَی الْأَذَانِ ۔
ترجمہ : ﷲ تعالیٰ چار راتوں میں (خصوصی طور پر) بھلائیوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔ 1۔ عید الاضحیٰ کی رات، 2۔ عید الفطر کی رات، 3۔ شعبان کی پندرہویں رات کہ اس رات میں مرنے والوں کے نام اور لوگوں کا رزق اور (اس سال) حج کرنے والوں کے نام لکھے جاتے ہیں۔ 4۔ عرَفہ (نو ذو الحجہ) کی رات اذانِ فجر تک ۔ (سيوطی، الدرالمنثور، 7/ 402،چشتی)

اَحادیث مبارکہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض گناہ ایسے بھی ہیں کہ جن سے توبہ نہ کرنے والوں کی اس رات بھی بخشش و مغفرت نہیں ہوتی، حالانکہ اس رات اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دریا اپنے پورے جوبن پر ہوتا ہے اور اس کی جود و عطا بہت عام ہوتی ہے اور غروب آفتاب سے لے کر طلوع فجر تک اس کی رحمت کی برسات ہوتی رہتی ہے ۔ احادیث مبارکہ میں اس رات بھی درج ذیل طبقات کو مغفرت سے محروم قرار دیا گیا : ⬇

شرک کرنے والا

بغض و کینہ اور حسد رکھنے والا

ناحق قتل کرنے والا

شراب نوشی کرنے والا

والدین کا نافرمان

عادی زانی

قطع رحمی والا

توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے !
مذکورہ اَعمالِ سیئہ کے ارتکاب کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ بندہ اِن ہی ظلمات میں بڑھتا رہے اور اپنے رب سے مایوس ہو جائے بلکہ وہ سچے دل سے ﷲ تعالیٰ کی بارگاہِ بے کس پناہ میں حاضر ہو اور توبہ کا خواست گار ہو۔ تو اس کی رحمت اور مغفرت کے دروازے ہر دَم کھلے ہیں : ثُمَّ اِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِيْنَ عَمِلُوا السُّوْءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابُوْا مِنْم بَعْدِ ذٰلِکَ وَاَصْلَحُوْا لا اِنَّ رَبَّکَ مِنْم بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ۔
ترجمہ : پھر بے شک آپ کا رب ان لوگوں کےلیے جنہوں نے نادانی سے غلطیاں کیں پھر اس کے بعد تائب ہوگئے اور (اپنی) حالت درست کر لی تو بے شک آپ کا رب اس کے بعد بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے ۔ (سورہ النحل، 16: 19)
نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو یہاں تک سچے دل سے توبہ کرنے والے بندے کو امید دلائی کہ فرمایا : التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ ۔
ترجمہ : (سچے دل سے) گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں ۔ (ابن ماجه، السنن، کتاب الزهد، رقم: 4250،چشتی)

لہٰذا شبِ برات میں گناہ گاروں اور سیاہ کاروں کو بھی رَب کی رحمت، کرم اور بخشش کے خزانوں سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں بشرطیکہ وہ عجز و نیاز سے اپنے خالق و مالک اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی کرتے ہوئے رب کی بارگاہ میں سچے دل سے تائب ہوں تو وہ بھی ان خزانوں سے اپنی جھولیاں بھر سکتے ہیں ۔

حضرت مولا علی  رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إِذَا کَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَقُوْمُوْا لَيْلَهَا وَصُوْمُوْا نَهَارَهَا، فَإِنَّ ﷲَ يَنْزِلُ فِيهَا لِغُرُوْبِ الشَّمْسِ إِلٰی سَمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَقُوْلُ: أَلَا مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِي فَأَغْفِرَ لَه،  أَلَا مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَه ، أَلَا مُبْتَلًی فَأُعَافِيَه ، أَلَا کَذَا أَلَا کَذَا حَتّٰی يَطْلُعَ الْفَجْرُ ۔
ترجمہ : جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو اس رات کو قیام کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو، کیونکہ اللہ تعالیٰ اس رات سورج غروب ہوتے ہی (اپنی شان کے لائق) آسمان دنیا کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور فرماتا ہے: کیا کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا نہیں کہ میں اس کی مغفرت کروں؟ کیا کوئی مجھ سے رزق طلب کرنے والا نہیں کہ میں اسے رزق دوں ؟ کیا کوئی مبتلائے مصیبت نہیں کہ میں اُسے عافیت عطا کر دوں ؟ کیا کوئی ایسا نہیں ؟ کوئی ایسا نہیں ؟ (اسی طرح ارشاد ہوتا رہتا ہے) یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے ۔ (بيهقی شعب الايمان، رقم: 3822)

برات کے معنی ہیں : نجات ، شبِ برات کا معنی ہے : ’’گناہوں سے نجات کی رات‘‘ اور گناہوں سے نجات توبہ سے ہوتی ہے ۔ سو اس رات میں اللہ تعالیٰ، سے بہت زیادہ توبہ اور استغفار کرنا چاہیے ۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ اس رات میں اپنے گناہوں پر بھی توبہ کریں اور اپنے والدین اساتذہ و رشتہ داروں کے لیے بھی اِستغفار کریں۔
شعبان کی پندرہویں شب کے بارے میں وارد ہونے والی اَحادیث مبارکہ کے مطالعہ سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ اس مقدس رات قبرستان جانا، کثرت سے اِستغفار کرنا، شب بیداری اور کثرت سے نوافل ادا کرنا اور اس دن روزہ رکھنا رسول ﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولاتِ مبارکہ میں سے تھا ۔

جب انسان گناہوں میں مبتلا ہوتا ہے تو برے اعمال کے باعث اس کے دل کے اندر نیک اعمال و عبادات سے عدم دل چسپی جنم لیتی ہے ۔ اگر بندہ اپنی اصلاح نہ کرے تو عبادات سے یہ محرومی بڑھتے بڑھتے توفیق کے سلب کیے جانے پر منتج ہوتی ہے۔ اس مقام پر اس کا قلب گناہوں کے اصرار کے باعث حلاوت ایمان سے محروم ہو کر تاریک و سیاہ ہو جاتا ہے جو دائمی بدبختی کی علامت ہے ۔

اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق سے بے پناہ محبت ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ اس کے بندے نار جہنم کا ایندھن بنیں۔ چنانچہ ذاتِ حق تعالیٰ نے انہیں اس انجام بد سے بچانے کےلیے اپنی مغفرت و بخشش کو عام کرتے ہوئے دروازہ توبہ کھولنے کا اعلان کیا کہ جو کوئی توبہ کی راہ کو اختیار کرے گا تو وہ اسے ایسے معاف کرے گا گویا اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیںبلکہ اس کو درجہ محبوبیت میں رکھے گا ۔

حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَنْ لَزِمَ الْاِسْتِغْفَارَ جَعَلَ ﷲُ لَہٗ مِنْ ضِيْقٍ مَخْرَجًا وَمِنْ کُلِّ ھَمٍّ فَرَجًا، وَرَزَقَہٗ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۔
ترجمہ : جو شخص پابندی کے ساتھ استغفار کرتا ہے ، ﷲ تعالیٰ اس کےلیے ہر غم سے نجات اور ہر مشکل سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے اور اسے وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اس کے وہم و خیال میں بھی نہ ہو ۔ (ابودائود، السنن، کتاب الصلاۃ، باب فی الاستغفار، 2/85، رقم 1518،چشتی)

نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَا اَصْبَحْتُ غَدَاةً قَطُّ إِلَّا اسْتَغْفَرْتُ ﷲَ فِيْهَا مِائَةَ مَرَّةٍ ۔
ترجمہ : کوئی صبح طلوع نہیں ہوتی مگر میں اس میں سو مرتبہ اِستغفار کرتا ہوں ۔(ابن ابی شيبة المصنف 7/ 172، رقم: 35075)

جب نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر قسم کے گناہوں سے معصوم ہونے کے باوجود اپنے ربّ کے حضور اس قدر عجز و نیاز اور گریہ و زاری فرمائیں، تو ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے۔ اور جب رحمت الٰہی کا سمندر طغیانی پہ ہو تو ہمیں بھی خلوص دل سے توبہ و استغفار کرنا چاہیے کیوں کہ اس وقت رحمت الٰہی پکار پکار کر کہہ رہی ہوتی ہے : کوئی ہے بخشش مانگنے والا کہ اسے بخش دوں، کوئی ہے رزق کا طلب گار کہ میں اس کا دامن مراد بھردوں ۔

امام ابن ماجہ ’’السنن‘‘ میں حدیث بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہترین دعا کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اَللّٰهُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنَّا يَا غَفُوْرُ ۔ ’’اے اللہ! بے شک تو معاف فرمانے والا ہے اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے ۔ پس اے بخشنے والے! ہمیں بھی بخش دے ۔‘‘

یہ کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ شبِ برات کی اس قدر فضیلت و اہمیت اور برکت وسعادت کے باوجود ہم یہ مقدس رات بھی توہمات اور فضول ہندوانہ رسومات کی نذر کر دیتے ہیں اور اس رات میں بھی افراط و تفریط کا شکار ہو کر اسے کھیل کود اور آتش بازی میں گزار دیتے ہیں۔ من حیث القوم آج ہم جس ذلت و رسوائی، بے حسی، بدامنی، خوف و دہشت گردی اور بے برکتی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اس سے چھٹکارے اور نجات کی فقط ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ کہ ساری قوم اجتماعی طور پر ﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں مغفرت طلب کرے اور اس رات کو شبِ توبہ اور شبِ دعا کے طور پر منائے ۔

آئیے اس غفار ، رحمن اور رحیم ربّ کی بارگاہ میں ندامت کے آنسو بہائیں اور خلوصِ دل سے توبہ کریں، حسب توفیق تلاوت کلام پاک کریں ، رسول ﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں ہدیہ درود و سلام پیش کریں، نوافل ادا کریں خصوصاً صلاۃ التوبہ پڑھیں، اِستغفار اور دیگر مسنون اَذکار کے ساتھ دلوں کی زمین میں بوئی جانے والی فصل تیار کریں اور پھر اسے آنسوئوں کی نہروں سے سیراب کریں تاکہ رمضان المبارک میں معرفت و محبت الٰہی کی کھیتی اچھی طرح نشوونما پاکر تیار ہو سکے ۔

قیام اللیل اور روزوں کی کثرت ہی ہمارے دل کی زمین پر اُگی خود رَو جھاڑیوں کو جو پورا سال دنیاوی معاملات میں غرق رہنے کی وجہ سے حسد، بغض، لالچ، نفرت، تکبر، خودغرضی، ناشکری اور بے صبری کی شکل میں موجود رہتی ہیں ۔ اُکھاڑ سکے گی اور ہمارے دل کے اندر ماہ رمضان کی برکتوں اور سعادتوں کو سمیٹنے کےلیے قبولیت اور انجذاب کا مادہ پیدا ہو گا ۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کیا تم جانتی ہو کہ شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے ؟ میں نے عرض کی یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ فرمایئے ۔ ارشاد ہوا آئندہ سال میں جتنے بھی پیدا ہونے والے ہوتے ہیں ۔ وہ سب اس شب میں لکھ دیئے جاتے ہیں اور جتنے لوگ آئندہ سال مرنے والے ہوتے ہیں ، وہ بھی اس رات میں لکھ دیے جاتے ہیں اور رات میں لوگوں کے (سال بھر کے) اعمال اٹھا لیے جاتے ہیں اور اس میں لوگوں کا مقررہ رزق اتارا جاتا ہے ۔ (مشکوٰۃ شریف، جلد اول صفحہ 277،چشتی)

اِس شب میں اللہ تعالیٰ بے شمار لوگوں کی مغفرت کردیتے ہیں ، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ اِرشاد نقل فرماتی ہیں کہ بے شک اللہ شعبان کے پندہویں شب میں آسمانِ دنیا پر (اپنی شان کے مطابق) نزول فرماتے ہیں اورقبیلہ ”کلب“ کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ لوگوں کی مغفرت فرمادیتے ہیں۔إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَغْفِرُ لِأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ كَلْبٍ۔(ترمذی:739)
قبیلہ” بنو کلب “ عرب ایک قبیلہ جو بکریاں کثرت سے رکھنے میں مشہور تھا، اور بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ مغفرت کرنے کے دو مطلب ذکر کیے گئے ہیں :
(پہلا مطلب یہ ہے کہ اِس سے گناہ گار مراد ہیں ، یعنی اِس قدر کثیر گناہ گاروں کی مغفرت کی جاتی ہے کہ جن کی تعداد اُن بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔اور اِس کا حاصل یہ ہے کہ بے شمار لوگوں کی مغفرت ہوتی ہے ۔
دوسرا مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اِس سے گناہ گار نہیں بلکہ گناہ مراد ہیں، یعنی اگر کسی کے گناہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ ہوںتو اللہ تعالٰ اپنے فضل سے معاف فرمادیتے ہیں ۔

یہ رات دعاؤں کی قبولیت والی رات ہے ، اس میں اللہ تعالیٰ سے مانگنے والا محروم نہیں ہوتا ، بلکہ خود اللہ تعالیٰ کی جانب سے صدا لگائی جاتی ہے کہ کوئی مجھ سے مانگے میں اُس کی مانگ پوری کروں ، جیسا کہ حدیث میں آتاہے، حضرت علی کرّم اللہ وجہہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں : جب شعبان کی پندرہویں شب ہو تو اُس کی رات میں قیام (عبادت)کرواور اُس کے دن میں روزہ رکھو، بے شک اللہ تعالیٰ اِس رات میں غروبِ شمس سے ہی آسمانِ دنیا میں (اپنی شان کے مطابق)نزول فرماتے ہیں اور کہتے ہیں : کیا کوئی مجھ سے مغفرت چاہنے والا نہیں کہ میں اُس کی مغفرت کروں ؟ کیا کوئی رزق طلب کرنے والا نہیں کہ میں اُسے رزق عطاء کروں ؟ کیا کوئی مصیبت و پریشانی میں مبتلاء شخص نہیں کہ میں اُسے عافیت عطاء کروں؟کیا فلاں اور فلاں شخص نہیں ……الخ یہاں تک کہ (اِسی طرح صدا لگتے لگتے)صبح صادق طلوع ہوجاتی ہے۔إِذَا كَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَقُومُوا لَيْلَهَا وَصُومُوا نَهَارَهَا، فَإِنَّ اللَّهَ يَنْزِلُ فِيهَا لِغُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَقُولُ: أَلَا مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِي فَأَغْفِرَ لَهُ أَلَا مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَهُ أَلَا مُبْتَلًى فَأُعَافِيَهُ أَلَا كَذَا أَلَا كَذَا، حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ۔(ابن ماجہ : 1388)
اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ عطاء اور بخشش کی صدا روزانہ رات کو لگتی ہے اوربعض روایات میں رات کے ایک تہائی حصے کے گزرجانے کے بعد صبح تک لگتی ہے اور بعض روایات میں رات کے آخری پہر یعنی آخری تہائی حصہ میں لگائی جاتی ہے جیسا کہ ترمذی شریف:446) کی روایت میں اِس کا ذکر ہے ،لیکن اِس شبِ براءت کی عظمت کا کیا کہنا !! کہ اِس رات میں شروع ہی سے یعنی آفتاب کے غروب ہونے سے لے کر صبح صادق تک یہ صدا لگائی جاتی ہے ، لہٰذا اِن قبولیت کی گھڑیوں میں غفلت اختیار کرنا بڑی نادانی اور حماقت کی بات ہے ، اِس لئے اِس رات میں فضولیات اور لایعنی کاموں میں لگنے یا خواب غفلت میں سوئے پڑے رہنےسے بچنا چاہیئے اور اللہ تعالیٰ کی جانب رجوع کرتے ہوئے شوق و ذوق کا اِظہار کرنا چاہیئے ۔
واضح رہے کہ دعاؤں کی قبولیت والی اِس رات میں دعاؤں کی قبولیت کو حاصل کرنے کےلیے ضروری ہے کہ دعاء کی قبولیت کی شرائط کا اچھی طرح لحاظ رکھیں ورنہ دعاء قبول نہیں ہوگی ۔

دعاء کی قبولیت کی چندبنیادیں شرطیں ہیں ، دعاء مانگتے ہوئے ان کا لحاظ رکھنا ضروری ہے : ⬇

پہلی شرط : حرام سے اجتناب :
حدیث کے مطابق جس کا کھانا پینااور لِباس وغیرہ حرام کا ہو اُس کی دعاء قبول نہیں ہوتی ، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ایک شخص کا تذکرہ کیا جوطویل سفر کرتاہے اور اُس کی وجہ سے وہ پراگندہ اور غبار آلود ہوجاتا ہے اور اِس پراگندگی کی حالت میں اپنے ہاتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے پھیلاکر کہتا ہے : اے میرے پر وردگار ! اےمیرے پروردگار! حالآنکہ اُس کا کھانا ، اُس کا پینا ، اُس کا لِباس سب حرام ہو اور اُس کی پرورش حرام مال سے کی گئی ہو تو اُس کی دعاء کیسے قبول کی جاسکتی ہے ۔ وَذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ يَمُدُّ يَدَهُ إِلَى السَّمَاءِ يَا رَبِّ، يَا رَبِّ وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ، وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ، وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ، وَغُذِّيَ بِالحَرَامِ، فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ۔(ترمذی:2989،چشتی)

دوسری شرط : توجہ سے دعاء کرنا : یعنی دل کی توجہ سے اللہ تعالیٰ سے دعاء کرنا ، ایسا نہ ہو کہ غفلت میں صرف رٹے رٹائے دعائیہ کلمات زبان سے اداء کیے جائیں اور دل حاضر نہ ہو ، کیونکہ حدیث کے مطابق ایسی غفلت کے ساتھ مانگی جانے والی دعاء قابلِ قبول نہیں ہوتی ۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ سے قبولیت کے یقین کے ساتھ دعاء مانگا کرواور جان لو!کہ اللہ تعالیٰ غفلت اور لاپرواہی میں پڑے ہوئے دل کے ساتھ دعاء قبول نہیں فرماتے۔ادْعُوا اللَّهَ وَأَنْتُمْ مُوقِنُونَ بِالإِجَابَةِ، وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَجِيبُ دُعَاءً مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاهٍ ۔(ترمذی:3479)

تیسری شرط : ایک دوسرے کو امر بالمعروف اور نہی عن المُنکَر کرتے رہنا : نیکی کا حکم دینا اور گناہوں سے روکنا اِسلام کے اہم فرائض اور ذمّہ داریوں میں سے ہے ، جب لوگ اِس میں غفلت بَرتنے لگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا عذاب مختلف شکلوں میں نازل ہوتا ہے جس کی لپیٹ میں صرف بُرے لوگ ہی نہیں بلکہ اُن کو نہ روکنے والے بھی آجاتے ہیں ، چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اِرشاد فرماتے ہیں : ﴿وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾(الأنفال:25) اور ڈرو اُس وَبال سے جو تم میں سے صرف اُن لوگوں پر نہیں پڑے گا جنہوں نے ظلم کیا ہوگا اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ کاعذاب بڑا سخت ہے۔
اور جب اِس امر بالمعروف اور نہی عن المُنکَر کو ترک کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ عذاب آتا ہے تو دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں ، حضرت حُذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں : قسم اُس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم لوگ ضرور نیکی کا حکم دیتے اور بُرائیوں سے منع کرتے رہو ، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی جانب سے ایک ایسا عذاب بھیجیں گے کہ تم اُس سے دعاء کروگے لیکن تمہاری دعاء قبول نہیں کیا جائے گی ۔ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَأْمُرُنَّ بِالمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ المُنْكَرِ أَوْ لَيُوشِكَنَّ اللَّهُ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عِقَابًا مِنْهُ ثُمَّ تَدْعُونَهُ فَلَا يُسْتَجَابُ لَكُمْ۔(ترمذی:2169) ۔ اِس سے معلوم ہوا کہ لوگ جب امر بالمعروف اور نہی عن المُنکر کو ترک کردیتے ہیں تو دعائیں قبول ہونا بند ہوجاتی ہیں ۔

اِس رات کی ایک بہت بڑی فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑی کثرت سے جہنم سے لوگوں کو آزاد کرتے ہیں ، چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ شعبان کی پندرہویں شب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا : یہ شعبان کی پندرہویں شب ہےاور اِس رات میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے قبیلہ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد کے برابر جہنّم سے لوگوں کو آزاد کیا جاتا ہے ۔هَذِهِ اللَّيْلَةُ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ وَلِلَّهِ فِيهَا عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ بِعَدَدِ شُعُورِ غَنَمِ كَلْبٍ۔(شعب الایمان :3556)

اِس رات کی ایک اہم فضیلت یہ ہے کہ اِس میں سال بھر کے فیصلے کیے جاتے ہیں کہ کِس نے پیدا ہونا اور کِس نے مَرنا ہے ،کِس کو کتنا رزق دیا جائے گا اور کِس کے ساتھ کیا کچھ پیش آئے گا ، سب کچھ لکھ دیا جاتا ہے ، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : اے عائشہ ! کیا تم جانتی ہو کہ اِس پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا ہوتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اِرشاد فرمایا : بنی آدام میں سے ہر وہ شخص جو اِس سال پیدا ہونے والا ہوتا ہے اس رات میں لکھ دیا جاتا ہے ، اور بنی آدم میں سے ہر وہ شخص جو اِس سال مَرنے والا ہوتا ہے اس رات میں لکھ دیا جاتا ہے ، اور اس رات میں بندوں کے اعمال اُٹھالیے جاتے ہیں اور اِسی رات میں بندوں کے رزق اُترتے ہیں ۔فِيهَا أَنْ يُكْتَبَ كلُّ مَوْلُودٍ مِنْ بَنِي آدَمَ فِي هَذِهِ السَّنَةِ وَفِيهَا أَنْ يُكْتَبَ كُلُّ هَالِكٍ مِنْ بَنِي آدَمَ فِي هَذِهِ السَّنَةِ وَفِيهَا تُرْفَعُ أَعْمَالُهُمْ وَفِيهَا تَنْزِلُ أَرْزَاقُهُمْ۔(مشکوۃ المصابیح:1305)
ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ اِرشاد منقول ہے :ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک عمریں لکھی جاتی ہیں ، یہاں تک کہ کوئی شخص نکاح کرتا ہے اور اُس کی اولاد بھی ہوتی ہے لیکن(اُسےمعلوم تک نہیں ہوتا کہ ) اُس کا نام مُردوں میں نکل چکا ہوتا ہے۔تُقْطَعُ الْآجَالُ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى شَعْبَانَ،حَتَّى إِنَّ الرَّجُلَ لَيَنْكِحُ، وَيُولَدُ لَهُ وَقَدْ خَرَجَ اسْمُهُ فِي الْمَوْتَى ۔ (فضائل رمضان لابن ابی الدنیا:30،چشتی)۔(شعب الایمان :3558)
لہٰذا فیصلے کی اِس رات میں غفلت میں پڑے رہنا کوئی دانشمندی نہیں ، عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا جائے اور اپنے لیے ، اپنے گھروالوں کےلیے بلکہ ساری اُمّت کےلیے اچھے فیصلوں کی خوب دعائیں کی جائیں ۔

شبِ برات قرآن و حدیث کی روشنی میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : حٰمٓۚۛ (1) وَ الْكِتٰبِ الْمُبِیْنِۙۛ (2) اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِیْنَ (3) فِیْهَا یُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِیْمٍۙ (4) اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَاؕ-اِنَّا كُنَّا مُرْسِلِیْنَۚ (5)

ترجمہ : قسم اس روشن کتاب کی ۔ بیشک ہم نے اُسے برکت والی رات میں اُتارا بیشک ہم ڈر سنانے والے ہیں اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام۔ہمارے پاس کے حکم سے بیشک ہم بھیجنے والے ہیں ۔ (سورہ دخان آیت 1 تا 5)


برکت والی رات کے بارے میں ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد شبِ براء ت ہے ۔


قرآن کریم میں شب براء ت کا ذکر : اس رات کے بے شمار فضائل ہیں ، یہ رات برکتوں والی رات ہے ، رحمتوں والی رات ہے اور نعمتوں والی رات ہے ، سورۂ دخان کی ابتدائی آیات میں اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے : حٰمٓ ۔ وَالْکِتَابِ الْمُبِینِ ۔ إِنَّا أَنْزَلْنٰہُ فِی لَیْلَۃٍ مُبَارَکَۃٍ إِنَّا کُنَّا مُنْذِرِینَ ۔ فِیہَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِیم ۔ ترجمہ : حٰمٓ قسم ہے واضح کتاب کی ! بے شک ہم نے اس (قرآن) کو ایک برکت والی رات میں نازل کیا ، ہم ہی ڈرانے والے ہیں ، اس (رات) میں ہرحکمت والے کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔


ان آیات مبارکہ میں مذکور مبارک رات سے کونسی رات مراد ہے، اس سلسلہ میں علماء امت کی ایک جماعت کے مطابق اس سے مراد پندرہ شعبان کی شب ’’شب براء ت‘‘ہے۔ جیساکہ علامہ شیخ احمد بن محمد صاوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 1247؁ھ) نے ’مبارک رات‘’ سے شعبان کی پندرھویں رات ‘مراد ہونے سے متعلق لکھاہے : ھو قول عکرمۃ و طائفۃ ووجہ بامور منھا ان لیلۃ النصف من شعبان لھا اربعۃ اسماء : اللیلۃ المبارکۃ و لیلۃ البراء ۃ و لیلۃ الرحمۃ ولیلۃ الصک ۔

ترجمہ : حضرت عکرمہ اور مفسرین کی ایک جماعت کا بیان ہے کہ’’ برکت والی رات ‘‘ سے مراد شعبان کی پندرھویں شب ہے ‘ اور یہ توجیہ چند امور کی وجہ سے قابل قبول ہے ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ پندرھویں شعبان کے چار نام ہیں : (1) مبارک رات (2) براء ت والی رات (3) رحمت والی رات (4) انعام والی رات ۔ (حاشیۃ الصاوی علی الجلالین جلد 4 صفحہ 57 ، چشتی)(التفسیر الکبیرللرازی:سورۃ الدخان آیت نمبر 1)


اس مبارک رات سے متعلق قرآن شریف میں آیا ہے کہ : فِیہَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِیمٍ۔

ترجمہ : اس میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ (سورۂ دخان :4)


اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ برکت والی رات فیصلوں کی رات ہے، اسی طرح پندرہ شعبان کی شب سے متعلق بھی احادیث شریفہ میں یہی تفصیل وارد ہے کہ اس میں سال بھر ہونے والے مختلف امور اور معاملات کے فیصلے کئے جاتے ہیں، اس جہت سے پندرہ شعبان سے متعلق احادیث شریفہ ’’لیلۃ مبارکۃ‘‘ (برکت والی رات) کی تفصیل اور تفسیر قرار پاتی ہیں، جیسا کہ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت نقل فرماتے ہیں : وروی عن ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھما تقتضی الاقضیۃ کلھا لیلۃ النصف من شعبان ۔

ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :جملہ معاملات کے فیصلہ جات شعبان کی پندرھویں شب میں ہوتے ہیں ۔ (روح المعانی ج14، ص174)


برکت والی رات میں نزول قرآن کا صحیح مفہوم : اس مبارک رات سے متعلق یہ تفصیل بیان کی گئی کہ رب العالمین نے اس رات قرآن مجید کو نازل فرمایاہے اور شب قدرسے متعلق بھی قرآن کریم میں یہی تفصیل بیان کی گئی کہ وہ نزول قرآن کی رات ہے ، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے: کیسے ممکن ہوسکتاہے کہ کلام الہی شب براء ت میں بھی نازل ہو اور شب قدر میں بھی ؟

شب براء ت کا نام اللہ تعالی نے مبارک رات رکھا ہے اور اس رات قرآن اتارا ، ایساہی شب قدر کے لئے فرمایاکہ ہم نے قرآن اُتاراہے ۔

واقعہ یہ ہے کہ شب براء ت میں قرآن اتارنے کی تجویز ہوئی اور شب قدر میں آسمان اول پر اُتارا،پھر تیئیس 23 سال تک تھوڑا تھوڑا کرکے دنیا میں اترتارہا ۔ (فضائل رمضان، ص:23،چشتی)


اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ چار راتوں میں بھلائیوں کے دروازے کھول دیتا ہے : (1)بقر عید کی رات (2) عیدالفطر کی رات (3) شعبان کی پندرہویں رات کہ اس رات میں مرنے والوں کے نام اور لوگوں کا رزق اور (اِس سال)حج کرنے والوں کے نام لکھے جاتے ہیں (4)عرفہ کی رات اذانِ (فجر) تک ۔ ‘‘ (تفسیر در منثور، الدخان، الآیۃ: ، ۷/۴۰۲)


اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میرے پاس جبریل آئے اور کہا یہ شعبان کی پندرہویں رات ہے اس میں اللہ تعالیٰ جہنم سے اتنے لوگوں کو آزاد فرماتا ہے جتنے بنی کلب کی بکریوں کے بال ہیں مگرکافراور عداوت والے اور رشتہ کاٹنے والے اور(تکبر کی وجہ سے) کپڑا لٹکانے والے اور والدین کی نافرمانی کرنے والے اور شراب کے عادی کی طرف نظر ِرحمت نہیں فرماتا ۔ (شعب الایمان ، الباب الثالث و العشرون من شعب الایمان ۔۔۔ الخ ، ما جاء فی لیلۃ النصف من شعبان ، ۳ / ۳۸۳ ، الحدیث: ۳۸۳۷،چشتی)


فِیْهَا یُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِیْمٍۙ (4) اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَاؕ-اِنَّا كُنَّا مُرْسِلِیْنَۚ (5)

ترجمہ : اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام۔ہمارے پاس کے حکم سے بیشک ہم بھیجنے والے ہیں ۔


فِیْهَا یُفْرَقُ : اس رات میں بانٹ دیا جاتا ہے ۔ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اس برکت والی رات میں سال بھر میں ہونے والاہر حکمت والا کام جیسے رزق ، زندگی،موت اور دیگر احکام ان فرشتوں کے درمیان بانٹ دئیے جاتے ہیں جو انہیں سرا نجام دیتے ہیں اور یہ تقسیم ہمارے حکم سے ہوتی ہے ۔ بیشک ہم ہی سَیِّدُ المرسلین ، محمد مصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان سے پہلے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھیجنے والے ہیں ۔ (تفسیر جلالین، الدخان، تحت الآیۃ: ۴-۵، ص۴۱۰، روح البیان، الدخان الآیۃ: ۴-۵، ۸/۴۰۴،چشتی)


یاد رہے کہ کئی احادیث میں بیان ہوا ہے کہ15شعبان کی رات لوگوں کے اُمور کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے ، جیسا کہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے ارشاد فرمایا : ’’ کیا تم جانتی ہو اس رات یعنی پندرہویں شعبان میں کیا ہے؟میں نے عرض کی : یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اس میں کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا ’’ اس رات میں اس سال پیدا ہونے والے تمام بچے لکھ دیئے جاتے ہیں اور اس سال مرنے والے سارے انسان لکھ دیئے جاتے ہیں اور اس رات میں ان کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور ان کے رزق اتارے جاتے ہیں ۔‘‘ (مشکوۃ المصابیح، کتاب الصلاۃ، باب قیام شہر رمضان ، الفصل الثالث، ۱/۲۵۴، الحدیث: ۱۳۰۵)


ان احادیث اور ا س آیت میں مطابقت یہ ہے کہ فیصلہ 15 شعبان کی رات ہوتا ہے اور شبِ قدر میں وہ فیصلہ ان فرشتوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے جنہوں نے اس فیصلے کے مطابق عمل کرنا ہوتا ہے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’لوگوں کے اُمور کا فیصلہ نصف شعبان کی رات کر دیا جاتا ہے اور شبِ قدر میں یہ فیصلہ ان فرشتوں کے سپرد کر دیا جاتا ہے جو ان اُمور کو سرانجام دیں گے ۔‘‘ (بغوی، الدخان، تحت الآیۃ: ۴، ۴/۱۳۳)


شب براء ت ، موت و حیات اورتقسیم رزق کا فیصلہ : ہرشخص جانتاہے کہ ازل سے جو ہوا اورابد تک جو کچھ ہونے والا ہے سب کچھ لوح محفوظ میںتحریر شدہ ہے۔ البتہ سال بھر واقع ہونے والے امور سے متعلق تمام احکام کو شب براء ت میں منظوری دی جاتی ہے اور فرشتے لوح محفوظ سے ان فیصلوں کو دفتروںمیں نقل کرتے ہیں ‘اور شب قدر میں ان فائلوں کو متعلقہ فرشتوں کے حوالہ کردیاجاتاہے ، ان فائلوں میں لکھا ہوا ہوتا ہے کہ اس سال کتنے لوگ پیدا ہوں گے، اور کتنے دنیا سے رخصت ہوجائیںگے اور کس کو کتنا رزق ملے گا۔ جیسا کہ شعب الایمان‘ الدعوات الکبیرللبیہقی‘ مشکوٰۃ المصابیح اور زجاجۃ المصابیح میں حدیث شریف ہے : عن عائشۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال ھل تدرین مافی ھذہ اللیلۃ یعنی لیلۃ النصف من شعبان قالت مافیھا یا رسول اللہ فقال فیھا ان یکتب کل مولود بنی آدم فی ھذہ السنۃ وفیھا ان یکتب کل ھالک من بنی آدم فی ھذہ السنۃ وفیھا ترفع اعمالھم وفیھا تنزل ارزاقھم فقالت یا رسول اللہ مامن احد یدخل الجنۃ الا برحمۃ اللہ تعالیٰ ؟ فقال مامن احد یدخل الجنۃ الا برحمۃاللہ تعالیٰ ثلاثاً قلت ولا انت یا رسول اللہ فوضع یدہ علی ھامتہ ولا أنا الا ان یتغمدنی اللہ منہ برحمتہ یقولھا ثلاث مرات۔

ترجمہ : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتی ہو اس رات یعنی پندرھویں شعبان میں کیا ہوتاہے! آپ نے عرض کیا: اس میں کیاہوتاہے؟یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! توحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: اس سال پیداہونے والے تمام آدمیوں کے نام اس رات فہرست میں لکھ دئے جاتے ہیں،اور اس سال فوت ہونے والے تمام انسانوں کے نام بھی فہرست میں درج کردئیے جاتے ہیںاور اس میں لوگوں کے اعمال( رب کے حضور) پیش کئے جاتے ہیں اور ان کے رزق اتارے جانے کا فیصلہ کردیاجاتا ہے۔آپ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کوئی بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر جنت میں نہیں جاسکے گا؟حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر جنت میں چلاجائے، آپ نے یہ تین مرتبہ فرمایا:کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا :آپ بھی نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک اپنے سر انور پر رکھ کرتین مرتبہ فرمایا نہیں، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی آغوشِ رحمت میں لئے ہوئے ہے۔اسے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم تین مرتبہ دہراتے رہے ۔ (زجاجۃ المصابیح، ج1، ص367۔ مشکوۃ المصابیح، ج1، ص114۔ الدعوات الکبیر للبیہقی،فضائل الاوقات للبیہقی ، باب فضل لیلۃ النصف من شعبان،حدیث نمبر 28۔شعب الایمان للبیہقی ، باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان ،حدیث نمبر: 3675 ۔ العلل المتناھیۃ لابن الجوزی،حدیث فی فضل لیلۃ النصف شعبان ، حدیث نمبر 918 ۔التبصرۃ لابن الجوزی، المجلس الخامس فی ذکر لیلۃ النصف من شعبان ،چشتی)


شب براء ت میں قیام اور دن میں روزہ کا اہتمام : شب براء ت ذکر وشغل اور نمازو تلاوت وغیرہ میں مشغول رہنا اور ساری رات قیام کرنا اور دن میں روزہ رکھنا احادیث شریفہ سے ثابت ہے چنانچہ سنن ابن ماجہ شریف‘ شعب الایمان ‘ کنزالعمال اور’ تفسیر در منثور‘ میں ہے : عَنْ عَلِیِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا کَانَتْ لَیْلَۃُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُومُوا لَیْلَہَا وَصُومُوا یَوْمَہَا. فَإِنَّ اللَّہَ یَنْزِلُ فِیہَا لِغُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَی سَمَائِ الدُّنْیَا فَیَقُولُ أَلاَ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِی فَأَغْفِرَ لَہُ أَلاَ مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَہُ أَلاَ مُبْتَلًی فَأُعَافِیَہُ أَلاَ کَذَا أَلاَ کَذَا حَتَّی یَطْلُعَ الْفَجْرُ۔

ترجمہ : حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا:سیدنا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب شعبان کی پندرھویں شب ہو تو اس رات قیام کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو! کیونکہ اللہ تعالیٰ اس رات سورج ڈوبتے ہی آسمان دنیا کی طرف نزول اجلال فرماتاہے اورارشاد فرماتاہے :کیا کوئی مغفرت کا طلبگار ہے کہ میں اس کو بخش دوں! کیا کوئی رزق چاہنے والا ہے کہ میں اس کو رزق عطا کروں! کیا کوئی مصیبت کا مارا ہوا ہے کہ میں اس کو عافیت دوں! کیا کوئی ایساہے! کیاکوئی ایسا ہے! یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے ۔ (سنن ابن ماجہ ‘حدیث نمبر: 1451 ۔ شعب الایمان للبیہقی حدیث نمبر: 3664۔ کنزالعمال حدیث نمبر: 35177۔التفسیر الدرالمنثور ،سورۃ الدخان،آیت ۔4،چشتی)


اس روایت سے شب براء ت میں قیام کرنا اور دن میں روزہ کاسنت ہونا مذکور ہے اس سے واضح طور پر معلوم ہورہاہے کہ یہ رات غفلتوں میں رہنے کی رات نہیں‘ بلکہ شب بیداری اورسحرخیزی کی رات ہے ، بارگاہ الہی سے رحمتیں لوٹنے کی رات ہے ، زندگی میں برکت حاصل کرنے اور پریشانیوں سے چھٹکارہ پانے کی رات ہے ۔


فضیلت شب براء ت کی احادیث ثقہ راویوں سے منقول : علامہ ہیثمی نے اپنی کتاب مجمع الزوائد میں شب براء ت کی فضیلت میں وارد احادیث شریفہ نقل کرتے ہوئے امام طبرانی کی معجم کبیرومعجم اوسط سے اس باب میں دو(2)روایتیں نقل کیں اور ان کے راویوں کو قابل اعتبار قراردیتے ہوئے رقم فرمایاہے: ورجالھما ثقات ۔ترجمہ : اور ان دونوں احادیث شریفہ کے راوی معتبر وثقہ ہیں ۔ (مجمع الزوائد ، کتاب الادب ، باب ماجاء فی الھجران ) ۔ شب براء ت کی فضیلت سے متعلق تقریباً سولہ (16) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے روایتیں منقول ہیں ۔


شب براء ت رحمت کے تین سو دروازے کھول دئے جاتے ہیں : شب براء ت جبریل امین سدرہ کے مکین حاضر دربار رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ہوکر اس رات عبادت کرنے والوں کے حق میں خوش قسمتی و فیروز بختی کی بشارت سناتے ہیں : قال ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال جاء نی جبریل علیہ السلام لیلۃ النصف من شعبان وقال یا محمد ارفع رأسک الی السماء قال قلت ماھذہ اللیلۃ قال ھذہ اللیلۃ یفتح اللہ سبحانہ فیھا ثلاث مائۃ باب من ابواب الرحمۃ یغفر لکل من لایشرک بہ شےئا الا ان یکون ساحرا اوکاھنا او مدمن خمر او مصرا علی الربا والزنا فان ھؤلاء لایغفرلھم حتی یتوبوا فلما کان ربع اللیل نزل جبریل علیہ السلام وقال یا محمد ارفع رأسک فرفع راسہ فاذا ابواب الجنۃ مفتوحۃ وعلی الباب الاول ملک ینادی طوبی لمن رکع فی ھذہ اللیلۃ وعلی الباب الثانی ملک ینادی طوبی لمن سجد فی ھذہ اللیلۃ وعلی الباب الثالث ملک ینادی طوبی لمن دعا فی ھذہ اللیلۃ وعلی الباب الرابع ملک ینادی طوبی للذاکرین فی ھذہ اللیلۃ وعلی الباب الخامس ملک ینادی طوبی لمن بکی من خشیۃ اللہ فی ھذہ اللیلۃ وعلی الباب السادس ملک ینادی طوبی للمسلمین فی ھذہ اللیلۃ وعلی الباب السابع ملک ینادی ھل من سائل فیعطی سؤلہ وعلی الباب الثامن ملک ینادی ھل من مستغفر فیغفرلہ فقلت یاجبریل الی متی تکون ھذہ الابواب مفتوحۃ قال الی طلوع الفجر من اول اللیل ثم قال یا محمد ان للہ تعالیٰ فیھا عتقاء من النار بعدد شعرغنم کلب ۔

ترجمہ : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیںکہ آپ نے ارشاد فرمایا :شعبان کی پندرھویں رات میرے پاس جبرئیل علیہ السلام نے حاضر ہوکر عرض کیا : اے پیکر حمدوثنا! اپنا سرانور آسمان کی جانب اٹھائیے ،میں نے کہا :واہ‘اس رات کے کیا کہنے! ،جبرئیل نے عرض کیا اس رات اللہ تعالیٰ رحمت کے تین سو دروازے کھولتا ہے اور ہر اس شخص کی بخشش فرمادیتا ہے جس نے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو، سوائے یہ کہ وہ جادوگر ہو یا کاہن ہو یا شراب کا عادی ہو یا ہمیشہ کا سود خوار اور بدکار ہو کیونکہ ان لوگوں کو نہیں بخشا جائے گا یہاں تک کہ و ہ توبہ کرلیں ، پھر جب چوتھائی رات ہوئی تو جبرئیل نے حاضر خدمت ہوکر عرض کیا:اے پیکر حمد وثنا و لائق ہر ستائش و خوبی ! اپنا سرا نور اٹھائیے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سرانور اٹھایا تو جنت کے دروازے کھلے ہیں، پہلے دروازہ پر ایک فرشتہ اعلان کررہا ہے: اس شخص کے لئے خوشخبری ہے جس نے اس رات رکوع کیا، دوسرے دروازہ پر ایک فرشتہ آواز دے رہا ہے: اس شخص کیلئے خوشخبری ہے جس نے اس رات سجدہ کیا ، تیسرے دروازہ پر ایک فرشتہ ندادے رہا ہے: بشارت ہے اس شخص کیلئے جس نے اس رات دعاکی ، چوتھے دروازہ پر ایک فرشتہ اعلان کررہا ہے :اس رات ذکر کرنے والوں کیلئے مژدہ ہے ، پانچویںدروازہ پر ایک فرشتہ آوازدے رہا ہے: خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جو اس رات اللہ تعالیٰ کے خوف سے روئے ، چھٹے دروازہ پرایک فرشتہ منادی ہے: اس رات اطاعت کرنے والوں کیلئے بشارت ہے ، ساتویں دروازہ پر ایک فرشتہ آوازدے رہا ہے: کیا کوئی مانگنے والاہے کہ اس کی مانگ پوری کی جائے! اورآٹھویں دروازہ پر ایک فرشتہ اعلان کررہا ہے: کیا کوئی بخشش کا طلبگارہے کہ اسے بخش دیا جائے! میں نے کہا: اے جبرئیل!یہ دروازے کب تک کھلے رہتے ہیں، جبرئیل نے عرض کیا: رات کے ابتدائی حصہ سے فجر طلوع ہونے تک پھر عرض کیا : اے پیکر حمدوثنا ولائق ہر ستائش وخوبی ! یقینااس رات اللہ تعالی قبیلۂ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں کی مقدار بندوں کو دوزخ سے آزاد فرماتاہے ۔ (الغنیۃ لطالبی طریق الحق ،ج:1 ،ص:191،چشتی)


وہ لوگ جن کی شب براء ت بخشش نہ ہوگی : مقام غورہے کہ سارے لوگ اللہ رب العزت کی رحمتوں کو حاصل کررہے ہونگے ، اس کی نعمتوں سے اپنی جھولیوں کو بھر رہے ہوں گے اور اس بخشش والی رات سعادتوں سے اپنے مقدر چمکارہے ہونگے ، ایسی انعام والی رات مغفرت نہ پانا یقینا محرومی کی بات ہے اوراپنے حال پر افسوس وندامت کرنے کی بات ہے کہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس رات کی فضیلت سے آگاہ فرمایا، اس رات بٹنے والی رحمتوں ‘برکتوں اور چھٹکارے کا تذکرہ بھی فرمادیا، بات یہیں ختم نہ ہوئی ‘بلکہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم گنہگاروں کی بندہ پروری فرماتے ہوئے ؛اس رات محروم رہنے والوں کی تفصیل بھی بتلادی ، چنانچہ اس طرح کرم کا معاملہ فرمایاکہ اگر کوئی شرک وبدعقیدگی ‘قتل وغارت گری اور کینہ پروری میں مبتلا ہوتو شرک وبدعقیدگی کو بالکلیہ طورپرچھوڑے اوردیگر گناہوں پرصدق دل سے توبہ کرلے تواسے سایۂ رحمت میں جگہ دیدی جائیگی ، اگر کوئی ڈاکہ زنی وبدکاری اور سود خوری وشراب نوشی میں ملوث ہوتو ان برائیوں سے باز آجائے اور انہیں آئندہ نہ کرنے کا عہد کرے، متعلقہ افراد کے حقوق ادا کرے اور ان کے املاک واپس کردے تو اس کی کوتاہیوں کو درگزر کردیا جائے گااور اس کے گناہوں کو بھی بخش دیا جائے گا ۔

اسی طرح اگر کوئی جادو کررہا ہے ‘رشتہ داری کاٹ رہاہے اور والدین کی نافرمانی کررہاہے تو اپنے حال زار پر افسوس کرے ،رب العزت کے دربار میں ندامت کے آنسو بہائے اوراپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرے اور اہل حقوق کے حقوق ادا کرے تو اللہ تبارک وتعالی اسے بھی محروم نہیں فرمائے گااور اس رات کی برکتوں سے ضرور مالا مال فرمائے گا ۔

اگر سرورکونین صلی اللہ علیہ وسلم ان گناہوں کی تفصیل نہ بتلاتے ہوتے تو یہ تمام لوگ محروم رہ جاتے ، آپ نے اپنی شان رحمۃ للعالمینی کا صدقہ عطا فرمایا اور اپنے وسعت علم اور نگاہ نبوت کے مشاہدہ کے ذریعہ اُن تمام تر تفصیلات سے ہمیں باخبر فرمایا۔ چنانچہ شعب الایمان میں حدیث پاک ہے ،ام المو منین سید تنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے،وہ شب براء ت کے بارے میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بیان فرماتی ہیں : اتانی جبریل علیہ السلام فقال ھذہ اللیلۃ لیلۃ النصف من شعبان و للہ فیھا عتقاء من النار بعدد شعور غنم کلب لا ینظر اللہ فیھا الی مشرک ولا الی مشاحن ولا الی قاطع رحم ولا الی مسبل ولا الی عاق لوالدیہ ولا الی مدمن خمر۔

ترجمہ : حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شب براءت جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اورعرض کیا: یہ رات شعبان کی پندرھویں رات ہے، اس رات اللہ تعالیٰ قبیلۂ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی مقدار میں دوزخ سے گنہگاروں کو آ زاد فرماتا ہے ، اور اس رات چند لوگوں کی طرف نظررحمت نہیں فر ماتا،(وہ یہ ہیں:) مشرک ، بدعقیدہ اورکینہ پرور، رشتہ داری کاٹنے والا،ٹخنوں کے نیچے لباس رکھنے والا،والدین کا نا فرمان، شراب کاعادی ۔ (شعب الایمان للبیھقی،اکنت تخافین ان یحیف اللہ ، حدیث: 3678) ۔ اس حدیث شریف کے علاوہ شب براءت میں رب العالمین کی رحمتوں سے محروم رہنے والے افراد سے متعلق احادیث مبارکہ میں تفصیلات ملتی ہیں ، جن کی تعداد تقریباً چودہ (14) ہے، وہ یہ ہیں : (1) مشرک ۔ (2) بدعقیدہ ۔ (3) کینہ پرور ۔ (4) قاتل ۔ (5) زانی وزانیہ ۔ (6) ماں باپ کا نافرمان ۔ (7)رشتہ داری کاٹنے والا ۔ (8) سود خور ۔ (9) شراب کا عادی ۔ (10) جادوگر ۔ (11) کاہن ۔ (12) ڈاکہ زنی کرنے والا ۔ (13) ناجائز طور پر محصول وصول کرنے والا ۔ (14) ازراہ تکبر ٹخنوں کے نیچے لباس رکھنے والا ۔ جب تک یہ لوگ توبہ نہ کریں ‘حق داروں کا حق ادا نہ کریں؛ان کی توبہ درجۂ قبولیت کو نہیں پہنچتی ۔


شب براء ت زیارت قبور کا اہتمام : احادیث شریفہ میں مزارات کی زیارت سے متعلق عام اجازت کے علاوہ بطورخاص شب براء ت میں زیارت کرنے کا ثبوت ملتا ہے، چنانچہ جامع ترمذی شریف ،سنن ابن ماجہ شریف ،مسند احمد ،الترغیب والترھیب ،الغنیۃ لطالبی طریق الحق میں حدیث پاک ہے : عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ فَقَدْتُ رَسُولَ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَیْلَۃً فَخَرَجْتُ فَإِذَا ہُوَ بِالْبَقِیعِ فَقَالَ أَکُنْتِ تَخَافِینَ أَنْ یَحِیفَ اللَّہُ عَلَیْکِ وَرَسُولُہ‘ قُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنِّی ظَنَنْتُ أَنَّکَ أَتَیْتَ بَعْضَ نِسَائِکَ ۔فَقَالَ إِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ یَنْزِلُ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَی السَّمَاءِ الدُّنْیَا فَیَغْفِرُ لأَکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ کَلْبٍ ۔

ترجمہ : ام المؤمنین سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا میں نے ایک رات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پایا ،میں نکلی اور دیکھاکہ آپ بقیع میں تشریف فرما ہیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں اندیشہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول تم پر زیادتی کریں گے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے خیال کیا کہ آپ کسی اور زوجۂ مطہرہ کے پاس تشریف لے گئے ہوںگے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ شب براء ت کو آسمان دنیا پر نزول اجلال فرماتا ہے اور بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے ۔ (جامع ترمذی شریف ابواب الصوم ،باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان ج1 ص156، حدیث نمبر:744۔ سنن ابن ماجہ شریف،ابواب اقامۃ الصلوۃ و السنۃ فیہا ، باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان حدیث نمبر: 1379،ج1 ص99۔ مسند احمد حدیث نمبر24825۔ مسند الانصار ، حدیث نمبر: 2482۔ مصنف ابن ابی شیبہ، ج7ص139۔ شعب الایمان للبیہقی ، حدیث نمبر: 3666،چشتی،کنزالعمال ، تابع لکتاب الفضائل ، حدیث نمبر: 35184۔ تفسیر الدرالمنثور :سورۃ الدخان۔1۔ الترغیب والترھیب ج2 ص119۔ الغنیۃ لطالبی طریق الحق ج1ص191)


خوشبوئے جانفزا وجود گرامی کا پتہ دیتی ہے : حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات کے ساتھ رہنے کے لئے باری مقرر فرمایا کرتے تھے جس وقت سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے دولت کدہ میں تشریف فرما تھے اس وقت رات کا کچھ حصہ گزار نے کے بعد ام المومنین کے پاس سے بقیع شریف زیارت کے لئے تشریف لے گئے۔ ام المومنین رضی اللہ عنہا نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے حجرہ شریفہ میں نہ پایا تو ابتدائًً خیال گذرا کہ شاید دیگر ازواج مطہرات میں سے کسی زوجہ مبارکہ کے پاس تشریف لے گئے ہوں۔ پھر جب آپ نے حبیب پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مراقبہ کیا تو خوشبوئے جاں فزا نے دامن دل کھینچ کر بقیع شریف تک پہنچادیا۔ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو سے گلیاں، فضائیں معطر رہتیں اور عاشقوں کو پتہ دیتیں کہ محبوب کی سواری یہاں سے گذری ہے اور عاشقان گم گشتۂ ہوش و خرد،َنفَسِ رحمانی کی ہدایت پر حالت مراقبہ میں راہ طے کرتے ہوئے حبیب پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشاہدہ سے بہرہ مندہوجاتے ہیں۔ چنانچہ ام المومنین نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بقیع شریف میں بحالت سجدہ دعا گو ہیں ۔


جیسا کہ حضرت ملا علی قاری مرقاۃ ،شرح مشکوۃ میں فرماتے ہیں : وفی روایۃ اخری۔ ۔ ۔ فاذاھو ساجد بالبقیع فأطال السجود حتی ظننت انہ قبض فلما سلم التفت الی ۔ اور دوسری روایت میں ہے:ام المومنین رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بقیع شریف میں سجدہ ریز ہیں، اتنا طویل سجدہ فرمایا کہ میں سمجھی کہ آپ حضوریٔ حق سے واپس نہ ہونگے ‘ وصال فرماگئے ہوں۔پھرجب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو میری طرف توجہ رحمت فرمائی ۔ (مرقاۃ المفاتیح ‘جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 171،چشتی)

اس مبارک رات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بقیع شریف قدم رنجہ فرمانے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس رات بھی زیارت قبورمسنون ومستحب ہے۔


کیا ہر سال شب براء ت کے موقع پر زیارت قبور سنت ہے ؟ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ شب براء ت میں زیارت قبور کے لئے تشریف لے گئے تھے ،اسی لئے زندگی میں صرف ایک بار زیارت کرلی جائے تو کوئی حرج نہیں، ہر سال شب براء ت کے موقع پر زیارت قبور کا اہتمام بدعت ہے‘‘ان کا یہ قول بغیر دلیل کے دعویٰ اوراستدلال کرنا ہے، جوازروئے شرع قابل قبول نہیں ہوسکتا،کیونکہ احادیث شریفہ کے ذخیرہ میں کہیں یہ صراحت نہیں آئی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار یا ہر سال زیارت نہیں فرمائی بلکہ اس کے برعکس یہ شہادت موجود ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عام دنوں میں بھی زیارت قبور کا التزام واہتمام فرمایا کرتے ،اور یہ بات حقیقت سے نہایت بعید ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک بار شب براء ت میں زیارت قبور کے لئے تشریف لے گئے ہوں کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب بھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی باری ہوتی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس رات بقیع شریف تشریف لے جاتے۔ جیساکہ صحیح مسلم شریف کتاب الجنائز،ج1ص313 میں حدیث مبارک ہے : عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّہَا قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اللَّہ صلی اللہ علیہ وسلم کُلَّمَا کَانَ لَیْلَتُہَا مِنْ رَسُولِ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَخْرُجُ مِنْ آخِرِ اللَّیْلِ إِلَی الْبَقِیعِ فَیَقُولُ السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِینَ وَأَتَاکُمْ مَا تُوعَدُونَ غَدًا مُؤَجَّلُونَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّہُ بِکُمْ لاَحِقُونَ اللَّہُمَّ اغْفِرْ لأَہْلِ بَقِیعِ الْغَرْقَدِ ۔

ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں: جب بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی باری ہوتی تو آپ رات کے آخری حصہ میں بقیع مبارک تشریف لے جاتے اور فرماتے’’ تم پر سلامتی ہو اے ایمان والو!تمہارے پاس پہنچا ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا، روزمحشر ملنے والی نعمتیں تمہارے لئے تیار رکھی ہوئی ہیںاور یقیناً ہم تم سے ملنے والے ہیں۔ اے اللہ! اہل بقیع کی بخشش فرمادے ۔ (صحیح مسلم ، کتاب الجنائز،ج۱ص313کتاب الجنائز، حدیث نمبر2299!سنن النسائی، کتاب الجنائز، باب الامر بالاستغفار للمؤمنین، حدیث نمبر2012!مسندالامام احمد، مسند الانصار، حدیث نمبر:24297!صحیح ابن حبان ،فصل فی زیارۃالقبور، ج7 ، ص444، حدیث نمبر:3172۔زجاجۃ المصابیح،باب زیارۃ القبور، جلد 1 صفحہ 487،چشتی)

اگر کسی کو یہی اصرار ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک بار زیارت فرمائی ہے تب بھی نفس زیارت تو ثابت ہوئی، اگر کوئی امتی ایک بار یا ہر سال اہتمام کرے تو بہر طور وہ اللہ تعالی کے پاس محبوب و پسندیدہ ہی ہوگا ،کتب اسلامیہ کا مطالعہ کرنے والوں پر یہ بات پوشیدہ نہیں کہ جو عمل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ یا چند مرتبہ فرمایا ہو اس پر امت کی پابندی و مواظبت سے وہ سنت بدعت نہیں ہوتی بلکہ بقدر پابندی عمل کرنے والا اجروثواب کا مستحق ہوتاہے۔

جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں حدیث پاک میں ہے : وان احب الاعمال الی اللہ ادومھا وان قل ۔ بے شک اللہ تعالیٰ کے پاس محبوب ترین عمل وہ ہے جس پر مواظبت و پابندی کی جائے، اگرچہ وہ تھوڑاہو ۔ (صحیح بخاری،کتاب الرقاق، باب القصد والمداومۃ علی العمل،حدیث نمبر:6464!صحیح مسلم،،کتاب صلوۃ المسافرین وقصرھا ،حدیث نمبر783 !سنن نسائی،ابواب القبلۃ،باب المصلی یکون بینہ وبین الامام سترۃ،حدیث نمبر:754 )

اور صحیح مسلم شریف کی روایت میں ہے : وَکَانَ آلُ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا عَمِلُوا عَمَلاً أَثْبَتُوہُ . حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کرام جب بھی کوئی عمل کرتے تو اس پر مواظبت کرتے۔(صحیح مسلم کتاب صلوۃ المسافرین و قصرھا حدیث نمبر 1863،چشتی)


شب براء ت میں آتش بازی کی قباحت : آتش بازی میں بلا کسی فائدہ کے مال ضائع ہو تا ہے ، یہ فضول خرچی اور اسراف ہے ،اللہ تعالی کا ارشاد ہے : وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیرًا . إِنَّ الْمُبَذِّرِینَ کَانُوا إِخْوَانَ الشَّیَاطِینْ ۔ اور فضول خرچی بالکل مت کرو ، بیشک فضول خرچی کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں ۔ (سورۃ بنی اسرائیل،آیت:26/27) ۔ آتش بازی میں کسی عضوکے ہلاک ہونے کااندیشہ رہتا ہے جبکہ شریعت مطہرہ میں اپنے آپ کو ہلاکت میںڈالنے سے منع کیاگیا ہے، ارشاد باری تعالی ہے : وَلَا تُلْقُوا بِأَیْدِیکُمْ إِلَی التَّہْلُکَۃِ ۔ تم اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ (سورۃ البقرۃ،آ یت:195)


مسلمان کی یہ شان نہیں کہ وہ اپنے وقت عزیز کو لایعنی اور بے فائدہ امور میں صرف کرے، جیسا کہ جامع ترمذی شریف جلد 2 صفحہ 58 میں حدیث پاک ہے : من حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ ۔ ترجمہ : انسان کے مسلمان ہونے کی خوبی یہ ہیکہ وہ بے فائدہ چیز چھوڑدے ۔ اسی لئے فقہاء کرام نے یہ صراحت کی ہے : (و)کرہ (کل لھو)لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام کل لھو المسلم حرام الا ثلاثۃ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مسلمان کیلئے ہر غافل کرنے والے کھیل مکروہ ہیں بجزتین کے ۔ ۔ ۔ ۔ (الدرالمختار، ج:5ص279)

ان مفاسد و خرابیوں کی وجہ سے آتش بازی شریعت اسلامیہ میں فی نفسہ درست نہیں بالخصوص اس مبارک و باعظمت رات میں اللہ تعالی کی رضاجوئی اور توبہ و استغفارکرنے کے بجائے آتش بازی میں مشغول رہنا رحمت الٰہی سے روگردانی اختیار کرنے اور نعمت خداوندی کی ناقدری کرنے کے برابر ہے ۔

حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے : ومن البدع الشنیعۃ ما تعارف الناس فی اکثر بلا دالھند من.......و اجتما عھم اللھوواللعب بالنار واحتراق الکبریت ۔ ان بری بدعتوں میں جو ہندوستان کے باشندوں میں رواج پکڑی ہے آتشبازی، پٹاخے چھوڑنا اور گندہک جلانا ہے ۔ (ما ثبت بالسنۃ،ص:87)

مسلمان اس متبرک اور رحمت والی رات میں آتش بازی جیسے لا یعنی اوربے فائدہ امور سے احتراز کریں اور اللہ تعالی کی رحمتوں سے اپنے دامن مراد کو بھرلیں۔


شب براء ت بطور خاص غیر شرعی امور سے باز رہیں : اسلام ‘امن و سلامتی عطا کرنے والا تہذیب وشائستگی کی تعلیم دینے والامقدس دین ہے، جس کے احکام وقوانین اقوام عالم کے ہر فرد و ہر قبیلہ، ہر رنگ و نسل، ہر زماں و مکاں کیلئے امن و شانتی ‘راحت و اطمینان فراہم کرتے ہیں، جس کا پیغامِ امن اپنے ماننے والوں تک ہی محدود نہیں بلکہ تمام عالم انسانیت کےلیے ہے ۔

زمین پر کسی بھی قسم کا فتنہ وفساد، نقصان و خسران،قتل و غارتگری اس دین متین میںبالکل ناجائز و ممنوع ہے، ارشاد باری تعالی ہے : وَلَا تُفْسِدُوا فِی الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِہَا ۔ ترجمہ:تم زمین میں اصلاح کے بعد فساد مت کرو!۔(سورۃالاعراف،آیت:65)


مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ اپنے طرز عمل اور گفتار سے کسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور سارے لوگ اس سے محفوظ و مامون رہیں، مشکوۃ ، ج1’ص15‘ میںجامع ترمذی اور سنن نسائی کے حوالہ سے منقول ہے : عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ والمؤمن من امنہ الناس علی دمائھم واموالھم۔

ترجمہ : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں، اور مؤمن وہ ہے جس سے سارے لوگ اپنی جان ومال سے متعلق بے خوف رہیں ۔


اسلامی قانون میں اس بات کی صراحت ہے کہ غیر مسلم سے بھی تکلیف کودور کرنا اور اس کی ایذاء رسانی سے احتراز کرنا ضروری ہے،در مختار میں ہے : ویجب کف الاذی عنہ وتحریم غیبتہ کالمسلم ۔ غیر مسلم کی تکلیف دور کرنا لازم اور اس کی غیبت کرنا حرام ہے جس طرح کسی مسلمان کو تکلیف دینا اور اس کی غیبت کرنا حرام ہے ۔ ( درمختار ’ج3ص272،چشتی)


رات دیر گئے نوجوانوں کا گروہوں کی شکل میں ٹوویلر اور فور ویلر پر سوار ہو کر راہرووں کو ایذاء پہنچانا،سواریوں، دفاتر ‘دکانوں اور لوگوں کی دیگر املاک پر سنگباری کرنا اور راستے مسدود کر کے سواریوں پر مختلف کرتب دکھانا،آتش بازی کے ذریعہ پرُامن فضامیں خوف و دہشت کا ماحول پیدا کرنا‘اسلامی احکام و قوانین کے بھی متضاد اور مخالف ہے اور بتقاضۂ انسانیت بھی قابل مذمت ہے۔ خاص طور پر مقدس راتوں میں اس طرح کا عمل سخت ترین گناہ ہے۔ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے راستے کے حقوق و آداب بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: جب تم کوبیٹھنا ہی ہوتو راستے کا حق دیا کرو! صحابہ کرام نے عرض کیا: راستہ کا حق کیا ہے؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! تو آپ نے ارشاد فرمایا:نظر نیچی رکھنا، تکلیف دہ چیز کو دور کرنا، سلام کا جواب دینا، نیکی کا حکم کرنااور برائی سے روکنا ۔ (صحیح البخاری کتاب المظالم،باب افنیۃ الدور والجلوس فیھا،حدیث نمبر2465-صحیح مسلم،کتاب اللباس والزینۃ،باب النھی عن الجلوس فی الطرقات حدیث نمبر 5685۔زجاجۃ المصابیح ج4ص 7،چشتی)

لہٰذاان مقدس راتوں میں ہر طرح کے غیر شرعی امور سے اجتناب کریں، عبادت و اطاعت کے ذریعہ رحمت و سعادت حاصل کرنے کی سعی کریں ۔

شب معراج‘ شب براء ت اور دیگر مقدس راتوںاور ایام میں زندگی کواللہ تعالی اوراس کے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و اطاعت اور ان کی رضا و خوشنودی میں گزاریں ۔


چودہ 14 رکعات نمازکی خصوصی فضیلت : شب براء ت میں کس طرح عبادت کی جائے اس سے متعلق امام بیہقی نے شعب الایمان میں حدیث پاک نقل کی ہے : عن ابراہیم ، قال ، قال علی ، رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیلۃ النصف من شعبان قام فصلی أربع عشرۃ رکعۃ ۔ثم جلس بعد الفراغ، فقرأبأم القرآن أربع عشرۃ مرۃ ، وقل ہو اللہ أحد أربع عشرۃ مرۃ وقل أعوذبرب الفلق أربع عشرۃ مرۃ وقل أعوذبرب الناس أربع عشرۃ مرۃ ،وآیۃ الکرسی مرۃ و’’لقد جاء کم رسول من انفسکم ، الآیۃ ‘‘، فلمافرغ من صلاتہ سألتہ عما رایت من صنیعہ قال : (من صنع مثل الذی رایت کان لہ کعشرین حجۃ مبرورۃ ،وصیام عشرین سنۃ مقبولۃ ، فان اصبح فی ذلک الیوم صائماکان لہ کصیام سنتین سنۃ ماضیۃ ، وسنۃ مستقبلۃ ۔

ترجمہ : حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان کی پندرھویں رات قیام فرما دیکھا او رآپ نے چودہ 14 رکعت نماز ادا فرمائی ۔ پھر بعد فراغت نماز آپ تشریف فرما ہوئے اور چودہ مرتبہ سورۃ الفاتحہ ، چودہ مرتبہ سورۃ الاخلاص ، چودہ مرتبہ سورۃ الفلق ،چودہ مرتبہ سورۃ الناس اور ایک مرتبہ آیۃ الکرسی او ر(سورہ توبہ کی آیت128) لقد جاء کم رسول من انفسکم تلاوت فرمائی۔جب حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا سے فارغ ہوئے تو میں نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے اس مبارک عمل سے متعلق دریافت کیا جس کو میںنے دیکھا تھا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو کوئی شخص اس طرح عمل کرے گا جس طرح تم نے دیکھا ہے تو اس شخص کیلئے بیس 20 مقبول حج اوربیس 20 سال کے مقبول روزوں کا ثواب ہے۔اگر وہ اس دن (پندرھویں تاریخ کو)روزہ رکھے گا تو اس کیلئے دو سال ،ایک گزشتہ اور ایک آئندہ سال کے روزوں کا ثواب لکھا جائے گا ۔ ( شعب الایمان للبیھقی ،کتاب الصوم حدیث نمبر:3683، الدرالمنثور سورۃ الدخان۔جامع الاحادیث ، مسند العشرۃ،حدیث نمبر:33372،چشتی)


گوکہ اس حدیث کی سند میں کلام ہے تاہم فضیلت عمل کے باب میں ضعیف اور متکلم فیہ روایت کو بھی قبولیت حاصل ہے‘ جس طرح ماہ رمضان کی فضیلت کے بارے میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے ایک طویل روایت مروی ہے ،جس کو امام بیہقی نے شعب الایمان(حدیث نمبر:3455) میں نقل کیا ہے، اُس حدیث کو دیگر مکاتب فکر کے علماء بھی بیان کرتے ہیں ‘حالانکہ اس کی سند میں بھی کلام ہے ، علامہ بدرالدین عینی ودیگر شارحین حدیث نے تو فضائل رمضان سے متعلق حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی روایت کو ’’منکر‘‘ کہا ہے ۔ جیسا کہ صحیح بخاری شریف کی عظیم شرح’’عمدۃ القاری ‘‘میں علامہ عینی لکھتے ہیں : ولا یصح إسنادہ وفی سندہ إیاس قال شیخنا الظاہر أنہ ابن أبی إیاس قال صاحب (المیزان) إیاس بن أبی إیاس عن سعید بن المسیب لا یعرف والخبر منکر . اس حدیث کی سند صحیح نہیں ہے اور اس سند میں’’ایاس‘‘ ہیں،ہمارے شیخ نے کہا:ظاہر بات ہے کہ اس سند میں’’ابن ابی ایاس‘‘ ہیں، صاحب المیزان نے کہاکہ’’ ایاس ابن ابی ایاس‘‘کا حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت کرنا معروف نہیں!لہذا یہ روایت منکر ہے ۔ (عمدۃ القاری ، باب ھل یقال رمضان او شھر رمضان ومن رای کلہ واسعا،حدیث نمبر:9981،چشتی)

فضائل رمضان والی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی روایت منکر ہونے کے باوجوددیگر مکاتب فکرکے علماء بھی عملی طور پر اُسے قبول کرتے ہیں اور اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں تو پھر شب براء ت میں چودہ رکعت نماز والی اس روایت کو قبول کرنے میں کیا امر مانع ہے ‘ اگر عمل نہ بھی کریں تو کم ازکم اتنا تو کریں کہ جو عمل کر رہے ہیں ان پر ردوانکار نہ کریں ۔


شب براء ت کی مسنون دعائیں : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: شب براء ت میں نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا : اَعُوْذُ بِعَفْوِکَ مِنْ عِقَابِکَ وَاَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَ اَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ جَلَّ وَجْھُکَ لا اُحْصِیْ ثَنَائً عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَا اَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ ۔

ترجمہ : ائے اللہ! میں تیری سزا سے تیرے عفو کی پناہ چاہتا ہوں‘ تیرے غضب سے تیری رضا کی پناہ میں آتاہوں اورتجھ سے تیری ہی پناہ میں آتاہوں‘ تیری ذات بزرگی والی ہے اے اللہ! میں تیری مکمل تعریف کا احاطہ نہیں کرسکتا‘ تو ویسا ہی ہے جس طرح تو نے خود اپنی کی تعریف وثناء کی ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : یا عائشۃ تعلمتھن فقلت نعم فقال تعلمیھن و علمیھن ۔اے عائشہ !کیا تم نے ان (کلمات) کو یاد کر لیا ہے؟ (حضرت عائشہ فرماتی ہیں:) میں نے عرض کیا: ہاں! تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اسے یاد رکھو اور دوسروں کو سکھاؤ ۔ (شعب الایمان للبیھقی‘ حدیث نمبر:3678،چشتی)


رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جہاں محبوبیت کے اعلی مقام پر متمکن ہیں وہیں بارگاہ ایزدی میں عبدیت ونیازمندی کے بھی اعلی مدارج پر فائز ہیں‘ چنانچہ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو بارگاہ الہی میں نیازمندیوں کا نذرانہ پیش کرنے کی تعلیم دی اوریہ کلمات ادا کئے ‘جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پندرھویں شعبان کی رات یہ دعا فرمائی : سَجَدَ لَکَ خَیَالِیْ وَ سَوَادِیْ وَ آمَنَ بِکَ فُؤادِیْ فَھٰذِہِ یَدِیْ وَمَا جَنَیْتُ بِھَا عَلٰی نَفْسِیْ، یَا عَظِیْمُ یُرْجٰی لِکُلِّ عَظِیْم، اِغْفِرِ الذَّنْبَ العَظِیْمَ، سَجَدَ وَجْھِیْ لِلَّذِیْ خَلَقَہُ وَ شَقَّ سَمْعَہُ وَ بَصَرَہُ ۔

ترجمہ : تجھ کو میرے باطن و ظاہر نے سجدہ کیا اور میرا دل تجھ پر ایمان رکھتا ہے تو یہ میرا ہاتھ ہے اور جو کچھ میں نے اس سے اعمال کئے ہیں‘ اے بزرگ و برتر جس کی ہر بڑے مقصد کےلیے امید کی جاتی ہے (میری امت کے) بڑے گناہ کو معاف فرمادے‘ میرے چہرہ نے اس ذات کو سجدہ کیا جس نے اس کو پیدا کیااور اس میں کان اور آنکھ بنائے ۔ (شعب الایمان للبیھقی‘ حدیث نمبر :3680)

شب برأت کی اہمیت و فضیلت احادیث کی روشنی میں : ماہ شعبان کی پندرہویں رات کوشب برأت کہاجاتا ہے شب کے معنی ہیں رات اوربرأت کے معنی بری ہونے اورقطع تعلق کرنے کے ہیں ۔ چونکہ اس رات مسلمان توبہ کرکے گناہوں سے قطع تعلق کرتے ہیں اوراللہ تعالیٰ کی رحمت سے بے شمار مسلمان جہنم سے نجات پاتے ہیں اس لیے اس رات کوشب برأت کہتے ہیں‘ اس رات کو لیلتہ المبارکہ یعنی برکتوں والی رات لیلتہ الصک یعنی تقسیم امور کی رات اور لیلتہ الرحمة رحمت نازل ہونے کی رات بھی کہاجاتا ہے ۔

جلیل القدر تابعی حضرت عطاء بن یساررضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : لیلتہ القدر کے بعد شعبان کی پندرہویں شب سے افضل کوئی رات نہیں ۔ (لطائف المعارف صفحہ 145)

جس طرح مسلمانوں کےلیے زمین میں دوعیدیں ہیں اسی طرح فرشتوں کے لئے آسمان میں دوعیدیں ہیں ایک شب برأت اوردوسری شب قدر جس طرح مومنوں کی عیدیں عیدالفطر اورعیدالاضحی ہیں فرشتوں کی عیدیں رات کواس لئے ہیں کہ وہ رات کوسوتے نہیں جب کہ آدمی سوتے ہیں اس لئے ان کی عیدیں دن کو ہیں ۔ (غنیتہ الطالبین صفحہ 449)

تقسیم امور کی رات

ارشادباری تعالیٰ ہوا’’قسم ہے اس روشن کتاب کی بے شک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتاراہے‘ بے شک ہم ڈرسنانے والے ہیں اس میں بانٹ دیاجاتا ہے ہرحکمت والا کام ۔ (سورہ الدخان: 2-4)

’’اس رات سے مرادشب قدر ہے یا شب برأت‘‘ ۔ (خزائن العرفان)

ان آیات کی تفسیر میں حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بعض دیگر مفسرین نے بیان کیا ہے کہ ’’لیلة مبارکہ‘‘ سے پندرہ شعبان کی رات مراد ہے۔اس رات میں زندہ رہنے والے ‘فوت ہونے والے اور حج کرنے والے سب کے ناموں کی فہرست تیار کی جاتی ہے اور جس کی تعمیل میں ذرا بھی کمی بیشی نہیں ہوتی۔ اس روایت کوابن جریر‘ابن منذر اورابن ابی حاتم نے بھی لکھا ہے‘اگرچہ اس کی ابتداء پندرہویں شعبان کی شب سے ہوتی ہے ۔ (ماثبت من السنہ صفحہ نمبر 194،چشتی)

علامہ قرطبی مالکی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں ایک قول یہ ہے کہ ان امور کے لوح محفوظ سے نقل کرنے کاآغاز شب برأت سے ہوتا ہے اوراختتام لیلتہ القدر میں ہوتاہے ۔ (الجامع لاحکام القرآن جلد 16 صفحہ 128)

یہاں ایک شبہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ امور تو پہلے ہی سے لوح محفوظ میں تحریر ہیں پھر ان شب میں ان کے لکھے جانے کا کیامطلب ہے ؟
جواب یہ ہے کہ یہ امور بلاشبہ لوح محفوظ میں تحریر ہیں لیکن اس شب میں مذکورہ امور کی فہرست لوح محفوظ سے نقل کر کے ان فرشتوں کے سپرد کی جاتی ہے جن کے ذمہ یہ امور ہیں ۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتی ہوکہ شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے ؟ میں نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ فرمائیے ۔ ارشادہوا آئندہ سال میں جتنے بھی پیدا ہونے والے ہوتے ہیں وہ سب اس شب میں لکھ دیئے جاتے ہیں اورجتنے لوگ آئندہ سال مرنے والے ہوتے ہیں وہ بھی اس رات میں لکھ دیے جاتے ہیں اوراس رات میں لوگوں کے(سال بھرکے)اعمال اٹھائے جاتے ہیں اوراس میں لوگوں کامقررہ رزق اتاراجاتاہے ۔ (مشکوۃ جلد 1 صفحہ 277)

حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں’’شعبان کی پندرہویں رات میں اللہ تعالیٰ ملک الموت کوایک فہرست دے کر حکم فرماتا ہے کہ جن جن لوگوں کے نام اس میں لکھے ہیں ان کی روحوں کو آئندہ سال مقررہ وقتوں پر قبض کرنا ‘ تواس شب میں لوگوں کے حالات یہ ہوتے ہیں کہ کوئی باغوں میں درخت لگانے کی فکر میں ہوتا ہے کوئی شادی کی تیاریوں میں مصروف ہوتا ہے‘ کوئی کوٹھی بنگلہ بنوا رہا ہوتا ہے حالانکہ ان کے نام مردوں کی فہرست میں لکھے جاچکے ہوتے ہیں ۔ (مصنف عبدالرزاق‘جلد 4 صفحہ 317،چشتی)(ماثبت من السنہ صفحہ193)

حضرت عثمان بن محمد رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک لوگوں کی زندگی منقطع کرنے کا وقت اس رات میں لکھا جاتا ہے یہاں تک کہ انسان شادی بیاہ کرتا ہے اور اس کے بچے پیدا ہوتے ہیں حالانکہ اس کانام مردوں کی فہرست میں لکھا جا چکا ہوتا ہے۔(الجامع لاحکام القرآن جلد 16 صفحہ 126،چشتی)(شعب الایمان بیہقی جلد 3 صفحہ 386)

چونکہ یہ رات گزشتہ سال کے تمام اعمال بارگاہ الہٰی میں پیش ہونے اور آئندہ سال ملنے واالی زندگی اور رزق وغیرہ کے حساب کتاب کی رات ہے اس لیے اس رات میںعبادت الہٰی میں مشغول رہنا رب کریم کی رحمتوں کے مستحق ہونے کاباعث ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہی تعلیم ہے ۔

شب برأت کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس شب میں اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے بے شمار لوگوں کی بخشش فرمادیتا ہے اسی حوالے سے چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں۔ : ⬇

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کواپنے پاس نہ پایا تو میں آپ کی تلاش میں نکلی میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جنت البقیع میں تشریف فرما ہیں آپ نے فرمایا کیا تمہیں یہ خوف ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کارسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمہارے ساتھ زیادتی کریں گے میں نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید آپ کسی دوسری اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب آسمان دنیا پر (اپنی شان کے مطابق) جلوہ گرہوتا ہے اور قبیلہ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے ۔ (ترمذی جلد 1 صفحہ 156،چشتی)(سنن ابن ماجہ صفحہ 100)(مسند احمد جلد 6 صفحہ 238)(مشکوۃ جلد 1 صفحہ 277)(مصنف ابن ابی شیبہ جلد 1 صفحہ 237)(شعب الایمان للبیہقی جلد 3 صفحہ 379)
شارحین فرماتے ہیں کہ یہ حدیث پاک اتنی زیادہ اسناد سے مروی ہے کہ درجہ صحت کوپہنچ گئی ۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ’’شعبان کی پندرہویں شب میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر (اپنی شان کے مطابق) جلوہ گر ہوتا ہے اور اس شب میں ہرکسی کی مغفرت فرما دیتا ہے سوائے مشرک اور بغض رکھنے والے کے ۔ (شعب الایمان للبیہقی جلد 3 صفحہ 380،چشتی)

حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب میں اپنے رحم وکرم سے تمام مخلوق کو بخش دیتا ہے سوائے مشرک اور کینہ رکھنے والے کے ۔
سنن ابن ماجہ صفحہ 101)(شعب الایمان جلد 3 صفحہ 382)(مشکوۃ جلد 1 صفحہ 277)
حضرت ابوہریرہ ‘حضرت معاذ بن جبل‘ حضرت ابوثعلبة اور حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہم سے بھی ایسا ہی مضمون مروی ہے ۔ (مجمع الزوائد جلد 8 صفحہ 65)

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا’’شعبان کی پندرہویں رات میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے دو اشخاص کے سوا سب مسلمانوں کی مغفرت فرمادیتا ہے ایک کینہ پرور اوردوسرا کسی کوناحق قتل کرنے والا ۔ (مسند احمد جلد 2 صفحہ 176)(مشکوۃ جلد1صفحہ278)

امام بیہقی نے شعب الایمان جلد نمبر3صفحہ 384 میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک طویل روایت بیان کی ہے جس میں مغفرت سے محروم رہنے والوں میں ان لوگوں کابھی ذکر ہے: رشتے ناتے توڑنے والا ، بطور تکبر ازار ٹخنوں سے نیچے رکھنے والا ‘ ماں باپ کانافرمان ‘ شراب نوشی کرنے والے ۔

غنیتہ الطالبین صفحہ 449 پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی طویل حدیث میںان لوگوں کابھی ذکر ہے جادوگر‘کاہن ‘سودخور اوربدلہ کار‘یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے اپنے گناہوں سے توبہ کئے بغیر ان کی مغفرت نہیں ہوتی‘ پس ایسے لوگوں کوچاہئے کہ اپنے اپنے گناہوں سے جلد ازجلد سچی توبہ کرلیں تاکہ یہ بھی شب برأت کی رحمتوں اوربخشش ومغفرت کے حق دارہوجائیں ۔

ارشادباری تعالیٰ ہوا : اے ایمان والو ! اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جو آگے کو نصیحت ہوجائے ۔ (التحریم 8)

یعنی توبہ ایسی ہونی چاہئے جس کااثر توبہ کرنے والے کے اعمال میں ظاہر ہو اوراس کی زندگی گناہوں سے پاک اورعبادتوں سے معمور ہو جائے ‘ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کی۔یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم توبتہ النصوح کسے کہتے ہیں ارشاد ہوا بندہ اپنے گناہ پر سخت نادم اور شرمسار ہو ‘ پھر بارگاہ الہٰی میں گڑ گڑا کر مغفرت مانگے اور گناہوں سے بچنے کا پختہ عزم کرے تو جس طرح دودھ دوبارہ تھنوں میں داخل نہیں ہوسکتا اسی طرح اس بندے سے یہ گناہ کبھی سرزدنہ ہوگا ۔

رحمت کی رات

شب برأت فرشتوں کو بعض امور دیے جانے اورمسلمانوں کی مغفرت کی رات ہے اس کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ یہ رب کریم کی رحمتوں کے نزول کی اور دعاٶں کے قبول ہونے کی رات ہے ۔

حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کاارشاد ہے‘جب شعبان کی پندرہویں شب آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوتا ہے۔ہے کوئی مغفرت کاطالب کہ اس کے گناہ بخش دوں‘ ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا کہ اسے عطا کروں۔اس وقت اللہ تعالیٰ سے جو مانگا جائے وہ ملتاہے۔وہ سب کی دعا قبول فرماتا ہے۔سوائے بدکارعورت اورمشرک کے ۔ (شعب الایمان للبیہقی‘ جلد 3صفحہ383)

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غیب بتانے والے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا جب شعبان کی پندرہویں شب ہو تو رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو کیونکہ غروب آفتاب کے وقت سے ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت آسمان دنیا پر نازل ہو جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ‘ہے کوئی مغفرت کاطلب کرنے والاکہ میں اسے بخش دوں‘ ہے کوئی رزاق مانگنے والاکہ میں اس کو رزق دوں ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں‘یہ اعلان طلوع فجر تک ہوتارہتاہے ۔ (سنن ابن ماجہ صفحہ 100،چشتی)(شعب الایمان للبیہقی جلد 3 صفحہ 378)(مشکوۃ جلد 1صفحہ 278)

یہ ندا ہر رات میں ہوتی ہے لیکن رات کے آخری حصے میں جیسا کہ اس سے پہلے حدیث پاک تحریرکی گئی شب برأت کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں یہ ندا غروب آفتاب ہی سے شروع ہو جاتی ہے گویا صالحین اور شب بیدار مومنوں کےلیے تو ہر رات شب برأت ہے مگریہ رات خطا کاروں کےلیے رحمت و عطا اور بخشش و مغفرت کی رات ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ اس رات میں اپنے گناہوں پر ندامت کے آنسو بہائیں اور رب کریم سے دنیا و آخرت کی بھلائی مانگیں‘ اس شب رحمت خداوند ہر پیاسے کو سیراب کر دینا چاہتی ہے اور ہر منگتے کی جھولی گوہر مراد سے بھر دینے پر مائل ہوتی ہے‘ بقول اقبال‘ رحمت الہٰی یہ ندا کرتی ہے ۔
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسی راہرو منزل ہی نہیں

شب برأت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود بھی شب بیداری کی اور دوسروں کوبھی شب بیداری کی تلقین فرمائی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان عالیشان اوپر مذکور ہوا کہ جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو شب بیداری کرو اور دن کو روزہ رکھو ‘ اس فرمان جلیل کی تعمیل میں اکابر علماءِ اہلسنّت اور عوام اہلسنّت کا ہمیشہ یہ معمول رہا ہے کہ اس رات میں شب بیداری کااہتمام کرتے چلے آئے ہیں ۔

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’تابعین میں سے جلیل القدر حضرات مثلاً حضرت خالدبن معدان‘حضرت مکحول‘حضرت لقمان بن عامر اورحضرت اسحٰق بن راہویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم مسجد میں جمع ہوکر شعبان کی پندرہویں شب میں شب بیداری کرتے تھے اوررات بھر مسجد میں عبادات میں مصروف رہتے تھے ۔ (ماثبت من السنہ صفحہ 202،چشتی)(لطائف المعارف صفحہ 144)

علامہ ابن الحاج مالکی رحمة اللہ علیہ شب برأت کے متعلق رقمطراز ہیں’’ اور کوئی شک نہیں کہ یہ رات بڑی بابرکت اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی عظمت والی ہے‘ ہمارے اسلاف رضی اللہ تعالیٰ عنہم اس کی بہت تعظیم کرتے اوراس کے آنے سے قبل اس کےلیے تیاری کرتے تھے ۔ پھرجب یہ رات آتی تو وہ خوش و جذبہ سے اس کا استقبال کرتے اور مستعدی کے ساتھ اس رات میں عبادت کیا کرتے تھے کیونکہ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ہمارے اسلاف شعائر اللہ کا بہت احترام کیا کرتے تھے ۔ (المدخل جلد 1 صفحہ 392)

مذکورہ بالاحوالوں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اس مقدس رات میں مسجد میں جمع ہو کر عبادات میں مشغول رہنا اور اس رات شب بیداری کا اہتمام کرنا تابعین کرام رضی اللہ عنہم کا طریقہ رہا ہے ‘ شیخ عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ فرماتے ہیں اب جوشخص شعبان کی پندرہویں رات میں شب بیداری کرے تویہ فعل احادیث کی مطابقت میں بالکل مستحب ہے ‘ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کایہ عمل بھی احادیث سے ثابت ہے کہ شب برأت میں آپ مسلمانوں کی دعائے مغفرت کےلیے قبرستان تشریف لے گئے تھے ۔ (ماثبت من السنہ صفحہ205)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے زیارت قبورکی ایک بڑی حکمت یہ بیان فرمائی ہے کہ اس سے موت یاد آتی ہے اور آخرت کی فکر پیدا ہوتی ہے ۔ شب برأت میں زیارت قبور کا واضح مقصد یہی ہے کہ اس مبارک شب میں ہم اپنی موت کویاد رکھیں تاکہ گناہوں سے سچی توبہ کرنے میں آسانی ہو ‘ یہی شب بیداری کا اصل مقصد ہے ۔

اس سلسلے میں حضرت حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایمان افروز واقعہ بھی ملاحظہ فرمائیں منقول ہے کہ جب آپ شب برأت میں گھر سے باہر تشریف لائے تو آپ کاچہرہ یوں دکھائی دیتا تھا جس طرح کسی کو قبر میں دفن کرنے کے بعد باہر نکالا گیا ہو ۔ آپ سے اس کا سبب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا خدا کی قسم میری مثال ایسی ہے جیسے کسی کی کشتی سمندر میں ٹوٹ چکی ہو اور وہ ڈوب رہا ہو اور بچنے کی کوئی امید نہ ہو ‘ پوچھا گیا آپ کی ایسی حالت کیوں ہے ؟ فرمایا میرے گناہ یقینی ہیں‘ لیکن اپنی نیکیوں کے متعلق میں نہیں جانتا کہ وہ مجھ سے قبول کی جائیں گی یا پھر رد کر دی جائیں گی ۔ (غنیتہ الطالبین صفحہ 250،چشتی)

اللہ اکبر نیک و متقی لوگوں کایہ حال ہے جو ہر رات شب بیداری کرتے ہیں اور تمام دن اطاعت الہٰی میں گزارتے ہیں جب کہ اس کے بر عکس بعض لوگ ایسے کم نصیب ہیں جو اس مقدس رات میں فکر آخرت اور عبادت و دعا میں مشغول ہونے کی بجائے مزید لہو و لعب میں مبتلا ہو جاتی ہیں آتش بازی پٹاخے اور دیگر ناجائز امور میں مبتلا ہو کر وہ اس مبارک رات کا تقدس پامال کرتے ہیں‘ حالانکہ آتش بازی اور پٹاخے نہ صرف ان لوگوں اور ان کے بچوں کی جان کیلئے خطرہ ہیں بلکہ اردگرد کے لوگوں کی جان کےلیے بھی خطرے کا باعث بنتے ہیں ‘ ایسے لوگ ’’ مال برباد اور گناہ لازم ‘‘ کا مصداق ہیں ۔

ہمیں چاہیے کہ ایسے گناہ کے کاموں سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں اور بچوں کو سمجھائیں کہ ایسے لغو کاموں سے اللہ تعالیٰ اور ا س کے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ناراض ہوتے ہیں‘ مجدد برحق اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں ‘ آتشبازی جس طرح شادیوں اور شب برأت میں رائج ہے ‘ بے شک حرام اور پورا جرم ہے کہ اس میں مال کا ضیاع ہے ‘ قرآن مجید میں ایسے لوگوں کو شیطان کے بھائی فرمایا گیا ‘ ارشا ہوا ’’ اور فضول نہ اڑابے شک (مال) اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں ‘‘ ۔ (سورہ بنی اسرائیل)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ’’ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ماہ رمضان کے علاوہ ماہ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے نہیں دیکھا ۔ (بخاری مسلم ‘ مشکوۃ جلد 1 صفحہ 441،چشتی)
ایک اور روایت میں فرمایا ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چند دن چھوڑ کر پورے ماہ شعبان کے روزے رکھتے تھے ‘‘ ۔ (بخاری مسلم ‘ مشکوۃ جلد 1 صفحہ 441)
آپ ہی سے مروی ہے کہ سرکاردعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے ۔ (ماثبت من السنہ صفحہ188)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ’’ جن لوگوں کی روحیں قبض کرنی ہوتی ہیں ان کے ناموں کی فہرست ماہ شعبان میں ملک الموت کودی جاتی ہے اس لیے مجھے یہ بات پسند ہے کہ میرا نام اس وقت فہرست میں لکھا جائے جب کہ میں روزے کی حالت میں ہوں ‘‘ یہ حدیث پہلے مذکور ہوچکی ہے کہ مرنے والوں کے ناموں کی فہرست پندرہویں شعبان کی رات کو تیار کی جاتی ہے ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ رات کے وقت روزہ نہیں ہوتا اس کے باوجود روزہ دار لکھے جانے کا مطلب یہ ہے کہ بوقت کتابت (شب) اللہ تعالیٰ روزہ کی برکت کو جاری رکھتا ہے ۔ (ماثبت من السنہ صفحہ192)

شبِ برات کی اہمیت و فضیلت اور احادیث کو ضعیف کہنے والوں کو جواب : شب برات کے متعلق دس (10) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے احادیث مروی ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس رات کی فضیلت بیان فرمائی ہیں ۔ اللہ رب العزت نے بعض دنوں کو عام دنوں پرفضیلت دی ہے ، یومِ جمعہ کو ہفتہ کے تمام ایام پر ، ماہ رمضان کو تمام مہینوں پر ، قبولیت کی ساعت کو تمام ساعتوں پر ، لیلۃ القدر کو تمام راتوں پر ۔

احادیثِ مبارکہ سے اس بابرکت رات کی جو فضیلت و خصوصیت ثابت ہے اس سے مسلمانوں کے اندر اس رات اتباع و اطاعت اور کثرتِ عبادت کا ذوق و شوق پیدا کرنے کی ترغیب ملتی ہے ۔

احادیث مبارکہ میں ’’لیلۃ النصف من شعبان‘‘ یعنی شعبان کی 15ویں رات کو شب برات قرار دیا گیا ہے ، اس رات کو براۃ سے اس وجہ سے تعبیر کیا جاتا ہے کہ اس رات عبادت کرنے سے اللہ تعالیٰ انسان کو اپنی رحمت سے دوزخ کے عذاب سے چھٹکارا اور نجات عطا کردیتا ہے ۔

جیسا کہ شروع میں عرض کیا گیا ہے کہ دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اس کی فضیلت میں روایت موجود ہیں لہٰذا اس رات کی فضیلت و اہمیت کو رد نہیں کیا جاسکتا ان میں سے چند احادیث مندرجہ ذیل ہیں :

شب برات میں تمام لوگوں کی بخشش مگر کچھ لوگوں کی مغفرت نہیں ہوتی

پندرہ شعبان کی رات یعنی شبِ برات کو اللہ تعالیٰ تمام لوگوں کی بخشش فرما دیتا ہے سوائے مشرک اور کینہ رکھنے والے کے ۔ (سِلسِلہ الاحادیث صحیحہ صفحہ نمبر 135 محدث الوہابیہ شیخ ناصر البانی لکھتے ہیں یہ حدیث صحیح ہے)

مکمل حدیث پاک یہ ہے : عَنْ اَبِیْ مُوسیٰ الاشْعَرِیِّ عَنْ رسولِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: اِنَّ اللّٰہَ لَیَطَّلِعُ فی لَیْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَیَغْفِرُ لِجَمِیْعِ خَلْقِہ اِلاَّ لِمُشْرِکٍ او مُشَاحِنٍ ۔ (سنن ابن ماجہ ص۹۹)(شعب الایمان للبیہقی ۳/۳۸۲)
ترجمہ : حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ نظر فرماتا ہے نصف شعبان کی رات میں ، پس اپنی تمام مخلوق کی مغفرت فرمادیتا ہے سوائے مشرک اور کینہ رکھنے والے کے ۔

”مشاحن“ کی ایک تفسیر اس شخص سے بھی کی گئی ہے جو مسلمانوں کی جماعت سے الگ راہ اپنائے ۔ (مسند اسحاق بن راہویہ ۳/۹۸۱، حاشیہ ابن ماجہ ص۹۹) حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی روایت میں ”زانیہ“ بھی آیا ہے اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک روایت میں ”رشتہ داری توڑنے والا، ٹخنوں سے نیچے ازار لٹکانے والا ، ماں باپ کا نافرمان اور شراب کا عادی“ بھی آیا ہے اور بعض روایات میں عشّار، ساحر، کاہن، عرّاف اور طبلہ بجانے والا بھی آیا ہے ۔ گویا احادیث شریفہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ عام مغفرت کی اس مبارک رات میں چودہ (14) قسم کے آدمیوں کی مغفرت نہیں ہوتی ؛ لہٰذا ان لوگوں کو اپنے احوال کی اصلاح کرنی چاہیے : (1) مشرک، کسی بھی قسم کے شرک میں مبتلا ہو (2) بغیر کسی شرعی وجہ کے کسی سے کینہ اور دشمنی رکھنے والا (3) اہل حق کی جماعت سے الگ رہنے والا (4) زانی وزانیہ (5) رشتے داری توڑنے والا (6) ٹخنوں سے نیچے اپنا کپڑا لٹکانے والا (7) ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا (8) شراب یا کسی دوسری چیز کے ذریعے نشہ کرنے والا (9) اپنا یا کسی دوسرے کا قاتل (10) جبراً ٹیکس وصول کرنے والا (11) جادوگر (12) ہاتھوں کے نشانات وغیرہ دیکھ کر غیب کی خبریں بتانے والا (13) ستاروں کو دیکھ کر یا فال کے ذریعے خبر دینے والا (14) طبلہ اور باجا بجانے والا ۔ (شعب الایمان ۳/۳۸۲، ۳۸۳)(الترغیب والترہیب ۲/۷۳،چشتی)(مظاہر حق جدیث ۲/۲۲۱، ۲۲۲)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اپنے پاس نہ پایا تو میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تلاش میں میں نکلی میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جنت البقیع میں تشریف فرما ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کیا تمھیں یہ خوف ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تمھارے ساتھ زیادتی کریں گے میں عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید آپ کسی دوسری اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں آقا مولیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب آسمان دنیا پر (اپنی شان کے مطابق) جلوہ گر ہوتا اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بال سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے ۔ (ترمذی جلد صفحہ 156)(ابن ماجہ صفحہ 100،چشتی)(مسند احمد جلد 6 صفحہ 238)(مشکو جلد صفحہ 277)(مصنف ابن ابی شیبہ جلد 1 صفحہ 237)(شعب الایمان للبقیہی جلد 3 صفحہ 379)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ماہ رمضان کے علاوہ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روز رکھتے نہیں دیکھا ۔ (بخاری مسلم مشکوۃ جلد 1 صفحہ 441) ۔ ایک اور روایت میں فرمایا ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم چند دن چھوڑ کر پورے ماہ شعبان کے روزے رکھتے تھے ۔
آپ ہی مروی ہے کہ سرکار عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری اُمت کا مہینہ ہے ۔ (ماثبت من السنہ ، صفحہ 188)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا’’ کیا تم جانتی ہو کہ شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے ؟‘‘ میں نےعرض کی کی یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ فرمایئے ۔ ارشاد ہوا کہ ’’آئندہ سال میں جتنے بھی پیدا ہونے والے ہوتے ہیں وہ سب اس شب میں لکھ دیئے جاتے ہیں اور جتنے لوگ آئندہ سال مرنے والے ہوتے ہیں وہ بھی اس رات میں لکھ دیئے جاتے ہیں اور اس رات میں لوگوں کے (سال بھر کے) اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور اس میں لوگوں کو مقررہ رزق اتاراجاتا ہے ۔ (مشکوۃ جلد 1 صفحہ 277

ایک روایت کے مطابق حضرت مولا علی کرم ﷲ وجہہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا، ’’جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو تم اس کی رات کو قیام کیا کرو اور اس کے دن روزہ رکھا کرو، بے شک ﷲ تعالیٰ اس رات اپنے حسبِ حال غروب آفتاب کے وقت آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے ۔ (ابن ماجه، السنن، 1: 444، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء فی ليلة النصف من شعبان، رقم: 1388،چشتی)

محترم قارئینِ کرام : اس شب میں نفلی عبادت جس قدر ہوسکے وہ اس رات میں انجام دی جائے، نفل نمازیں پڑھیں قرآن کریم تلاوت کریں ، تسبیح کریں دعائیں کریں یہ ساری عبادتیں اس رات میں کی جاسکتی ہیں ۔

جب کہ اس کے برعکس بعض لوگ ایسے کم نصیب ہیں جو اسی مقدس رات میں فکر آخرت اور عبادت ودعا میں مشغول ہونے کے بجائے مزید لہو ولعب میں مبتلا ہوجاتے ہیں آتش بازی اور پٹاخے اور دیگر نا جائز امور میں مبتلا ہوکر وہ اس مبارک رات کا تقدس پامال کرتے ہیں ، حالانکہ آتش بازی اور پٹاخے نہ صرف ان لوگوں اور ان کے بچوں کی جان کا خطرہ ہیں بلکہ اردگرد کے لوگوں کی جان کی بازی کیلئے بھی خطرے کا باعث بنتا ہے ، ایسے لوگ ’‘مال برباد گناہ لازم ‘ کا مصداق ہیں ۔ ہمیں چاہیئے کہ ایسے گناہ سے خود بھی بچیں اور دوسروں کا بھی بچائیں ، حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ، آتشبازی بے شک حرام ہے اس میں مال کا ضیاع ہے ۔ قرآن مجید میں ایسے لوگوں کو شیطان کے بھائی فرمایا گیا ہے ارشاد ہوا ’’اور فضول نہ اڑا بے شک مال اڑانے والے شیطان کے بھائی ہیں’’ (بنی اسرائیل) (فتاویٰ رضویہ) ۔ ان احادیث سے جس طرح اس مبارک رات کے بیش بہا فضائل و برکات معلوم ہوئے اسی طرح یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں کےلیے اس رات کی بے پناہ فضیلت ہے ، اس رات مسلمانوں کو چاہیئے اپنے گناہوں سے توبہ استغفار کے لئے اللہ عزّ و جل کے حضور سر بسجود ہوں اور دعائیں کریں ۔

شب برات کی احادیث کو ضعیف کہنے والوں کو جواب

محترم قارئینِ کرام : ایک غلط فہمی یہ بھی عام ہے کہ لوگ ضعیف حدیث کو من گھڑت کے معنی میں لیتے ہیں اور اسکو حقیر سمجھتے ہیں۔ یہ جملے بھی کانوں میں پڑتے رہتے ہیں کہ بھائی فلاں مسئلہ میں تمام احادیث ضعیف ہیں ا س لیے چھوڑو اس پر عمل کرنا، افسوس ہوتا ہے لوگ بغیر علم کے احادیث پر تبصرہ ایسے کرجاتے ہیں جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں کسی راہ چلتے کی بات ہے یا اخبار میں چھپی کسی کی بات ہے ۔

ضروری وضاحت ضعیف نا کہ من گھڑت

پہلی بات یہ کہ ضعیف حدیث بھی حدیث رسول ہی ہوتی ہے یہ لازمی من گھڑت نہیں ہوتی بلکہ راوی میں کچھ کمیوں ، کمزوریوں کی وجہ سے اسکو ضعیف کہا جاتا ہے ، یہ بحرحال ممکن ہوتا ہے کہ اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف درست ہو اس لیے اسکو بالکل چھوڑا نہیں جاتا بلکہ فضائل کے باب میں اس کو استعمال کیا جاتا ہے ۔ علماء نے اس لفظ 'ضعیف' کی مختلف تعریفیں بیان کی گئی ہیں مثلا یہ وہ حدیث کہلاتی ہے جومنکر اور باطل نہ ہو اور اس کےراوی متہم بالکذب نہ ہو، اس حدیث کے خلاف کوئی صحیح حدیث نہ ہو ۔ ایسی حدیث جس میں حدیث صحیح وحسن کی شرائط نہ پائی جائیں، اس میں ایسے اسباب ہوں جو کسی حدیث کوضعیف قرار دینے کے لیے کافی ہوتے ہیں، اس کے راوی غیرعادل یامتہم بالکذب، یامستورالحال ہوں ، یہ متعدد طرق سے مروی بھی نہ ہو ۔ (اعلاء السنن ، احکام القرآن للجصاص)

کیا اس حدیث کا ضعف ختم ہوسکتا ہے ؟

اگرحدیث ضعیف کئی سندوں سے مروی ہو اور ضعف کی بنیاد راوی کا فسق یا کذب نہ ہو تواس کی وجہ سے وہ ضعف سے نکل جاتی ہے اور اسے قوی ومعتبر اور لائق عمل قرار دیا جاتا ہے، محدثین کی اصطلاح میں اس کو "حسن لغیرہ" کہتے ہیں، حافظ بن حجر رحمہ اللہ کی تفصیل کے مطابق یہ حدیث مقبول ومعتبر کی چار اقسام میں سے ایک ہیں۔بعض حضرات کا کہنا ہے کہ حسن لغیرہ بھی اصل میں ضعیف ہی ہے؛ مگرکسی قوت پہنچانے والے امر کی وجہ سے اس میں حسن پیدا ہو جاتاہے ۔ (فتح المغیث:۳۵/۳۶)
اسی طرح اگر حدیث نص قرآنی ہویاقولِ صحابی ہو یاشریعت کےکسی قاعدہ وضابطہ کے مطابق ہو تو اسکا ضعف نکل جاتا ہے ۔ (نزھۃ النظر صفحہ نمبر ۲۹،چشتی)

ضعیف حدیث کی اقسام

ضعیف روایات کی بہت سی اقسام ہیں اور ہر ایک کے ضعف میں راویوں کی کمزوری کی شدت یا کمی کے لحاظ سے فرق ہوتا ہے ۔ مشہور قسمیں ضعیف، متوسط ضعیف، شدید ضعیف اور موضوع ہیں۔ موضوع یعنی گھڑی ہوئی حدیث۔ یہ ضعیف حدیث کا کم ترین درجہ ہے ۔

ضعیف حدیث پر عمل

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے حدیثِ ضعیف پر عمل کرنے کی تین شرطیں بیان کی ہیں ۔ ایک یہ کہ حدیث شدید ضعیف نہ ہو مطلب اسکا راوی جھوٹا اور دروغ گوئی میں مشہور نہ ہو اور نہ فحش غلطیوں کا مرتکب ہو۔ دوسری اس پر عمل کرنا اسلام کے ثابت اور مقرر ومعروف قواعد کے خلاف نہ ہو ۔ تیسری یہ کہ عمل کرتے ہوئے اسے صحیح حدیث کی طرح قبول نہ کیا جائے بلکہ اس بناء پر عمل کیا جائے کہ ممکن ہے کہ حقیقت میں اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف درست ہو ۔ (اعلاء السنن:۱/۵۸)

جمہور فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ عقائد کے ثبوت کے لیے مشہور یامتواتر حدیث ضروری ہے ، حدیث ضعیف اور خبرواحد اثبات عقائد کےلیے کافی نہیں ہے ، ضعیف حدیث اور فضائل کے متعلق لکھتے ہوئے علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نے متعدد مذاہب کو نقل کیا ہے، جن میں سے ایک امام مسلم اور دیگرمحدثین علیہم الرّحمہ اور ابنِ حزم کا ہے کہ ضعیف حدیث کسی بھی باب میں حجت نہیں بن سکتی ، چاہے وہ فضائل کا باب ہی کیوں نہ ہو ۔ (نووی علی مسلم :۱/۶۰،چشتی)

دوسرا مذہب جس کو علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نے جمہور کا مذہب کہہ کر بیان کیاہے اور حافظ ابنِ حجر مکی اور ملا علی قاری نے بھی جسے جمہور کا اجماعی مسلک قرار دیا ہے کہ فضائل کے باب میں حدیث ضعیف پر عمل کرنا جائز ہے ۔ (الفتاویٰ الحدیثیہ :۱۱۰)

آئمہ حدیث میں عبداللہ بن مبارک ، عبدالرحمن بن مہدی ، امام احمد وغیرہ سے بھی یہی نقل کیا گیا ہے ۔ (اصول امام احمد بن حنبل:۲۷۴)

شیخ تقی الدین تحریر فرماتے ہیں کہ یہ گنجائش اس لیے ہے کہ اگرایسی حدیث نفس الامر اور واقع میں صحیح ہے تواس پر عمل کرنا اس کا حق تھا اور اگرواقع میں صحیح نہ تھی توبھی فضائل کے باب میں اس پر عمل کرنے کی وجہ سے دین میں کوئی فساد لازم نہیں آئےگا، اس لیے کہ یہ صورت تحلیل وتحریم اور کسی کے حق سے متعلق نہیں ہے اور پھریہ جواز مطلق نہیں ہے؛ بلکہ ماقبل میں ذکرکردہ شرائط کے ساتھ ہے ۔ (شرح الکوکب المنیر:۲/۵۷۱)

ضعیف احادیث اور اقوال صحابہ

امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ و امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ضعیف حدیث کے بالمقابل فتاویٰ اور اقوالِ صحابہ کو ترجیح دیتے تھے کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین درس رسالت کے چراغ ہیں ، ان کا ہرقول وعمل سنت کے مطابق ہوا کرتا تھا ، ان کے کلام سے کلام رسالت کی بومہکتی ہے اور انھوں نے دین کوپہلو رسالت میں رہ کر جتنا سمجھا اور سیکھا ہے دوسرا ان کی خاک تک بھی نہیں پہنچ سکتا، ان کے اقوال وافعال میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے اورحدیث ضعیف کی صحت وعدم صحت مشتبہ ہے ؛ لہٰذا صحابہ کرام کے فتاویٰ واقوال کو ضعیف حدیث پر ترجیح دی گئی ۔

شب برات کے متعلق ضعیف احادیث

مشہور دیوبندی عالم جناب مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے شب برات کی احادیث کے متعلق لکھا کہ : " شب ِ برات کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس کی کوئی فضیلت حدیث سے ثابت نہیں ، حقیقت یہ ہے کہ دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے احادیث مروی ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس رات کی فضیلت بیان فرمائی ، ان میں سے بعض احادیث سند کے اعتبار سے بیشک کچھ کمزور ہیں اور ان احادیث کے کمزور ہونے کی وجہ سے بعض علماء نے یہ کہہ دیا کہ اس رات کی فضیلت بے اصل ہے ، لیکن حضرات محدثین اور فقہاء کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کی تایید بہت سی احادیث سے ہو جائے تو اس کی کمزوری دور ہوجاتی ہے ، اور جیساکہ میں نے عرض کیا کہ دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس کی فضیلت میں روایات موجود ہیں لہٰذا جس رات کی فضیلت میں دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے روایات مروی ہوں اس کو بے بنیاد اور بے اصل کہنا بہت غلط ہے ۔ امت مسلمہ کے جو خیرالقرون ہیں یعنی صحابہ کرام کا دور ، تابعین کا دور ، تبع تابعین رضی اللہ عنہم کا دور ، اس میں بھی اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے ، لوگ اس رات میں عبادت کا خصوصی اہتمام کرتے رہے ہیں ، لہٰذا اس کو بدعت کہنا، یا بے بنیاد اور بے اصل کہنا درست نہیں ، صحیح بات یہی ہے کہ یہ فضیلت والی رات ہے ، اس رات میں عبادت کرنا باعثِ اجر و ثواب ہے اور اس کی خصوصی اہمیت ہے ۔ اس پیرہ گراف سے تین باتیں واضح ہورہی ہیں ۔
1 : شب برات کے متعلق احادیث ضعیف لیکن کئی سندوں سے مروی ہیں ایسی حدیث کے متعلق اوپر بیان کیا جاچکا ۔
2 : یہ احادیث نا عقائد کے باب میں استعمال ہورہی ہیں اور نا شریعت کے کسی حکم کے خلاف ہیں ۔
3 : اس رات کی فضیلت کے متعلق نہ صرف اقوال صحابہ بلکہ اعمال صحابہ بھی موجود ہیں ۔ ایسی احادیث کا انکار کرنا یا ان سے ثابت فضیلت کا انکار کرنا دونوں باتیں زیادتی ہی ہے ۔ (رسالہ شبِ براء ت کی حقیقت از مفتی محمد تقی عثمانی دیوبندی)


فضائل شب برات اور احادیث شب برات پر اعتراض کا تحقیقی جواب : شب برات کو احادیث مبارکہ میں ’’لیلۃ النصف من شعبان‘‘ یعنی شعبان کی 15 ویں رات کو شب برات قرار دیا گیا ہے ۔ اس رات کو براۃ سے اس وجہ سے تعبیر کیا جاتا ہے کہ اس رات عبادت کرنے سے اللہ تعالیٰ انسان کو اپنی رحمت سے دوزخ کے عذاب سے چھٹکارا اور نجات عطا کر دیتا ہے ۔

نزاعی مسئلہ میں قرآن و سنت کی طرف رجوع کا حکم

شریعتِ اسلامیہ کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ دین کے جس معاملے میں بھی تنازع ہو جائے تو اُسے کتاب اللہ عز و جلّ اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لوٹایا جائیں پھر اگر دونوں کا یا کسی ایک کا اس مسئلہ کے جواز میں حکم ثابت ہو جائے تو شرعی طور پر اس کی اتباع کرنا واجب ہے اور مخالف ہونے کی صورت میں چھوڑنا ضروری ہے ۔

(1) اللہ رب العزت نے قرآن میں متعدد مقامات پر اس کو صراحت سے بیان فرمایا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً ۔ (القرآن، النساء، 4 : 59)
ترجمہ : اے ایمان والو ! ﷲ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ امر کی، پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے(حتمی فیصلہ کےلیے) ﷲ اور رسول کی طرف لوٹا دو اگر تم ﷲ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، (تو) یہی (تمہارے حق میں) بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے ۔

(2) اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا : فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا ۔ (القرآن، النساء، 4 : 65)
ترجمہ : پس (اے حبیب ﷺ) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنا لیں پھر اس فیصلہ سے جو آپ صادر فرما دیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور (آپ کے حکم کو) بخوشی پوری فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں ۔

(3) اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کو ایک مقام پر یوں بیان فرمایا : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَلاَ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ.(القرآن، الانفال، 8 : 20)
ترجمہ : اے ایمان والو! تم ﷲ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اس سے رو گردانی مت کرو حالانکہ تم سن رہے ہو ۔

(4) ایک جگہ اطاعت خدا اور رسول کو یوں بیان کیا گیا ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ ۔ (القرآن، محمد، 47 : 33)
ترجمہ : اے ایمان والو ! ﷲ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال (اپنی نادانی یا نافرمانی) سے ضائع نہ کرو ۔

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت پر بکثرت آیات ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ نزاعی اور اختلافی مسائل صرف انہی دو بارگاہوں سے حل ہو سکتے ہیں اور بندوں کی دنیاوی اور اخروی بھلائی صرف انہی سے وابستہ ہیں ۔ لہٰذا شب برات کی شرعی حیثیت جاننے کےلیے ہم انہی کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس حوالے سے مروی احادیث مبارکہ کی حجیت اور ثقاہت کا جائزہ لیتے ہیں ۔

شب برات کی فضیلت اور اس میں اہتمامِ عبادت پر احادیثِ مبارکہ کا تحقیقی مطالعہ

امت مسلمہ کے جمیع مکاتبِ فکر کے فقہاء و علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو مسئلہ بھی قرآن و سنت دونوں یا صرف قرآن یا سنت سے ثابت ہو جائے اس پر عمل واجب ہوتا ہے۔ وہ احادیث جو اس رات کی فضیلت کو اجاگر کرتی ہیں بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں ان میں حضرات سیدنا ابو بکر صدیق، سیدنا مولیٰ علی المرتضیٰ، ام المؤمنین عائشہ صدیقہ، عبد اللہ بن عمرو بن العاص، معاذ بن جبل، ابوہریرہ، ابو ثعلبہ الخشنی، عوف بن مالک، ابو موسیٰ اشعری اور عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہم کے نام شامل ہیں۔ سلف صالحین اور اکابر علماء کے احوال سے پتہ چلتا ہے کہ اس رات کو عبادت کرنا ان کے معمولات میں سے تھا۔ لیکن بعض لوگ اس رات عبادت، ذکر اور وعظ و نصیحت پر مشتمل محافل منعقد کرنے کو بدعت ضلالۃ کہنے سے بھی نہیں ہچکچاتے جو سراسر احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ ذیل میں شب برات کی فضیلت اور اس میں اہتمام عبادت کا احادیث مبارکہ کی روشنی میں جائزہ لیا جاتا ہے، اس کے ساتھ اِن احادیث مبارکہ کی اسانید کا مطالعہ کرتے ہوئے ان کی ثقاہت بھی واضح کی جائے گی اِن شاء اللہ ۔

(1) سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حدثنا عمرو بن مالک ، قال : حدثنا عبد ﷲ بن وهب ، قال : حدثنا عمرو بن الحارث، قال : حدثني عبد الملک بن عبد الملک، عن مصعب بن أبی ذئب، عن القاسم بن محمد، عن أبيه أو عمه، عن أبی بکر رضی الله عنه قال: قال رسول ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَا کَانَ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ يَنْزِلُ ﷲُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی إِلَی سَمَاءِ الدُّنْيَا فَيَغْفِرُ لِعِبَادِهِ إِلَّا مَا کَانَ مِنْ مُشْرِکٍ أَوْ مُشَاحِنٍ لِأَخِيْهِ ۔
ترجمہ : جب ماہِ شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے تو ﷲ تبارک وتعالی آسمانِ دنیا پر (اپنے حسب حال) نزول فرماتا ہے پس وہ مشرک اور اپنے بھائی سے عداوت رکھنے والے کے سوا اپنے سارے بندوں کی بخشش فرما دیتا ہے ۔
بزار اپنی المسند، 1: 206، رقم: 80 میں اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ہم اس حدیث کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی صرف اسی طریق سے جانتے ہیں اور یہ حدیث حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے علاوہ دیگر صحابہ سے بھی مروی ہے۔ سب سے اعلیٰ اسناد سے حضرت ابو بکر روایت کرتے ہیں اگرچہ اس اِسناد میں کچھ ہو، پس ابوبکر کی جلالت نے اسے حسین بنا دیا ہے ۔ اگرچہ عبد الملک بن عبدالملک معروف راوی نہیں ہے ، مزید فرماتے ہیں : وقد روی هذا الحديث أهل العلم ونقلوه و احتملوه فذکرنا لذالک ۔
ترجمہ : ہلِ علم نے اس حدیث کو روایت کیا ہے، نقل کیا ہے اور اس پر اعتماد کیا ہے لہٰذا ہم نے اس کو ذکر کیا ۔

امام ابوبکر احمد بن عمرو المعروف بزار کی تاریخِ وفات 292ھ ہے ۔ ان کے اس قول سے معلوم ہوا کہ شعبان کی پندرہویں شب کی فضیلت و خصوصیت تسلیم کرنا اور اس کو بیان کرنا اہل علم کا ابتدائی اَدوار سے طریقہ رہا ہے ۔ لہٰذا موجودہ دور میں کوئی شخص بھی اگر شبِ برات کی غیر معمولی فضیلت کا انکار کرتا ہے تو درحقیقت وہ احادیث مبارکہ اور سلف صالحین کے عمل سے ناواقفیت کی بناء پر ایسا کر رہا ہوتا ہے ۔

ہیثمی نے مجمع الزوائد، 8 : 65 میں کہا ہے کہ عبدالملک بن عبدالملک کو ابن ابی حاتم نے اپنی کتاب الجرح والتعدیل میں ذکر کیا ہے اور اس کو ضعیف نہیں کہا (جو اس کے حجت ہونے پر دلالت کرتا ہے) جبکہ اس کے باقی رواۃ ثقہ ہیں ۔

(2) سیدنا علی بن ابی طالب ص سے مروی حدیث ۔ حضرت علی کرم ﷲ وجہہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إِذَا کَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَقُومُوا لَيْلَهَا وَصُومُوا نَهَارَهَا فَإِنَّ ﷲَ يَنْزِلُ فِيهَا لِغُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَی سَمَاءِ الدُّنْيَا فَيَقُولُ: أَلَا مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِي فَأَغْفِرَ لَهُ؟ أَلَا مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَهُ؟ أَلَا مُبْتَلًی فَأُعَافِيَهُ؟ أَلَا کَذَا؟ أَلَا کَذَا؟ حَتَّی يَطْلُعَ الْفَجْرُ ۔
ترجمہ : جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو تم اس کی رات کو قیام کیا کرو اور اس کے دن روزہ رکھا کرو، بے شک ﷲ تعالیٰ اس رات اپنے حسبِ حال غروب آفتاب کے وقت آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے تو وہ کہتا ہے: کیا کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا نہیں ہے کہ میں اسے بخش دوں؟ کوئی رزق طلب کرنے والا نہیں ہے کہ میں اسے رزق دوں؟ کوئی بیماری میں مبتلا تو نہیں ہے کہ میں اسے عافیت دوں؟ کیا کوئی ایسا نہیں؟ کیا کوئی ویسا نہیں؟ یہاں تک کہ طلوعِ فجر ہو جاتی ہے ۔ (ابن ماجه السنن ، 1: 444، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء فی ليلة النصف من شعبان، رقم: 1388،چشتی) ۔ اس حدیث میں ’’ابن ابی سبرۃ‘‘ کے علاوہ تمام رواۃ ثقہ ہیں ۔

(3) ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے مروی حدیث ۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (بستر مبارک پر) نہ پایا پس میں آپ کی تلاش میں باہر نکلی تو دیکھا کہ آپ آسمان کی طرف اپنا سر اٹھائے ہوئے جنت البقیع میں تشریف فرما ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تجھے ڈر ہوا کہ اللہ اور اس کا رسول تجھ پر ظلم کرے گا؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے گمان ہوا کہ آپ کسی دوسری زوجہ کے ہاں تشریف لے گئے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إِنَّ ﷲَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَی السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَيَغْفِرُ لِأَکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعَرِ غَنَمِ کَلْبٍ ۔
ترجمہ : یقینا اللہ تبارک و تعالیٰ (اپنی شان کے لائق) شعبان کی پندرہویں رات آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے، پس وہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے ۔ (احمد بن حنبل، المسند، 6 : 238)

حجاج بن اَرطاۃ کو محدّثین نے مدلس کہا ہے لیکن اس سے حدیث لینا جائز قرار دیا ہے۔(معرفة الثقات، 1 : 284، چشتی)

سیوطی نے اس کو بعض رواۃ سے احادیث لینے کی بناء پر حافظ شمار کیا ہے۔(طبقات الحفاظ، 1: 88)

یحییٰ بن ابی کثیر کوعجلی اور ابنِ حبان نے ثقہ اور ایوب نے زہری کے بعد اہل مدینہ میں سے حدیث کو سب سے زیادہ جاننے والا یحییٰ کو قرار دیا ہے۔ عروہ بن زبیر سے اس کی سماعت پر اختلاف کیا گیا ہے ۔ یحییٰ بن معین نے اس کی سماعت کو عروہ سے ثابت کیا ہے۔(جامع التحصيل، 1: 299)

اہلِ اصول اور فقہاء کرام نے ایک متفقہ قاعدہ بیان کیا ہے کہ : المثبت مقدم علی النافی.’’مثبت، منفی پر مقدم ہوتا ہے ۔ (ابن دقيق العيد، شرح عمدة الأحکام، 1: 230،چشتی)(عسقلانی، فتح الباری، 1: 27)

لہٰذا ابنِ معین کے قول پر عمل کرتے ہوئے یحییٰ کی سماعت کو عروہ سے درست کہا جائے گا ۔

اس حدیثِ پاک کی روشنی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل مبارک سے شبِ برات میں عبادت کرنا اور قبرستان جانا ثابت ہوا ۔

(4) حضرت عبد ﷲ بن عمرو رضی ﷲ عنہما سے مروی حدیث ۔ حَدَّثَنَا حَسَنٌ حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ حَدَّثَنَا حُيَيُّ بْنُ عَبْدِ ﷲِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضی الله عنه أَنَّ رَسُولَ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: يَطَّلِعُ ﷲُ عَزَّوَجَلَّ إِلَی خَلْقِهِ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَيَغْفِرُ لِعِبَادِهِ إِلَّا لِاثْنَيْنِ: مُشَاحِنٍ وَقَاتِلِ نَفْسٍ ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمرو رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ماہِ شعبان کی نصف شب (یعنی پندرہویں رات) کو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی طرف متوجہ ہوتا ہے، پس وہ اپنے بندوں کو معاف کر دیتا ہے سوائے دو لوگوں کے : سخت کینہ رکھنے والا اور قاتل ۔ (احمد بن حنبل، المسند، 2 : 176، رقم : 63533) ۔ امام منذری نے الترغیب والترھیب، 3 : 308 میں کہا ہے کہ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے لَیِّن (قلیل ضعف) سے روایت کیا ہے ۔

امام ہیثمی نے مجمع الزوائد، 8 : 65 میں کہا ہے کہ اس روایت میں ابن لہیعۃ ہے جو کہ لین الحدیث ہے ۔

عبداللہ بن لہیعۃ بن عقبہ المصری کو سیوطی نے طبقات الحفاظ، 1 : 107 میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ امام احمد وغیرہ نے اسے ثقہ اور یحییٰ بن سعید القطان وغیرہ نے ضعیف کہا ہے ۔

محدّثینِ کرام اس حدیث کے بقیہ رواۃ کے بارے میں فرماتے ہیں : ⬇

(1) حسن بن موسی تابعی ہے۔ یحییٰ بن معین، علی بن مدینی اور ابنِ حبان نے انہیں ثقہ شمار کیا ہے۔(عسقلانی تهذيب التهذيب، 2 : 279)

(2) حیی بن عبد اللہ ثقہ ہے۔(ابن حبان، الثقات، 6: 236)

(3) ابو عبدالرحمن عبداللہ بن یزید الحبلی شامی تابعی ثقہ ہے۔(عجلی، معرفة الثقات، 2: 66)

(5) حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ۔ أخبرنا محمد بن المعافی العابد بصيدا وابن قتيبة وغيره قالوا: حدثنا هشام بن خالد الأزرق قال حدثنا أبو خليد عتبة بن حماد عن الأوزاعی وابن ثوبان عن أبيه عن مکحول عن مالک بن يخامر عن معاذ بن جبل عن النبي صلی الله عليه وآله وسلم قال: يَطَّلِعُ ﷲُ إِلٰی خَلْقِهِ فِی لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَيَغْفِرُ لِجَمِيْعِ خَلْقِهِ إلَّا لِمُشْرِکٍ أَوْ مُشَاحِنٍ ۔
ترجمہ : حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ماہِ شعبان کی نصف شب (پندرہویں رات) کو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی طرف متوجہ ہوتا ہے، پس وہ مشرک اور بغض رکھنے والے کے سوا اپنی تمام مخلوق کو بخش دیتا ہے ۔ (ابن حبان، الصحيح، 12: 481، رقم: 5665)(طبرانی، المعجم ا لأوسط، 7: 36، رقم: 6776)(طبرانی، المعجم الکبير، 20: 108 رقم: 215) ۔ امام ہیثمی نے مجمع الزوائد، 8: 65 میں کہا ہے کہ اس روایت کو طبرانی نے المعجم الکبیر اور الاوسط میں روایت کیا ہے اور اِن کے رجال ثقہ ہیں ۔

(1)مالک بن یخامر السکسکی تابعی ثقہ ہے ، انہوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف، معاذ بن جبل اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہم سے روایت کیا ہے اور ان سے مکحول شامی نے روایت کیا ہے ۔(مزی، تهذيب الکمال، 27: 167)

(2) ابو عبداللہ مکحول شامی ثقہ ہے۔(عسقلانی، تقريب التهذيب، 1: 545) ۔ اس حدیث مبارکہ کی ثقاہت سے پہلی حدیث بھی قوی ہو گئی ہے اور اس کا ضعف ختم ہو گیا ہے ۔

(6) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ۔ ان ہی الفاظ سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إِذَا کَانَ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، يَغْفِرُ ﷲُ لعباده إلَّا لِمُشْرِکٍ أَوْ مُشَاحِنٍ ۔
ترجمہ : جب ماہِ شعبان کی نصف شب (پندرہویں رات) ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ شرک کرنے والے اوربغض رکھنے والے کے سوا اپنے تمام بندوں کی بخشش فرما دیتا ہے ۔
بزار، المسند، 2: 435۔ 36 4، امام ہیثمی نے مجمع الزوائد، 8: 65 میں کہا ہے کہ اسے بزار نے روایت کیا ہے اور اس میں ایک راوی ہشام بن عبدالرحمن کو میں نہیں جانتا، اس کے باقی رُواۃ ثقہ ہیں ۔

(7) حضرت ابو ثعلبہ الخشنی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ۔ حدثنا أحمد بن نضر العسکری ثنا محمد بن آدم المصيصی ثنا المحاربي عن الأحوص بن حکيم عن حبيب بن صهيب عن مکحول عن أبي ثعلبة أن النبي صلی الله عليه وآله وسلم قال: يَطْلُعُ ﷲُ عَلٰی عِبَادِهِ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَيَغْفِرُ لِلْمُؤْمِنِيْنَ وَيُمْهِلُ الْکَافِرِيْنَ، وَيَدَعُ أهْلَ الْحِقْدِ بِحِقْدِهِمْ حَتَّی يَدَعُوْهُ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’اللہ رب العزت شعبان کی پندرہویں رات کو اپنے بندوں پر مطلع ہوتا ہے، پس وہ مومنوں کی مغفرت فرماتا ہے اور کافروں کو مہلت دیتا ہے اور وہ اہل حسد کو ان کے حسد میں چھوڑ دیتا ہے یہاں تک کہ وہ اسے ترک کر دیں ۔ (طبرانی، المعجم الکبير، 22: 223، رقم: 590)(ابن ابی عاصم، السنة، 1: 223، رقم: 511) ۔ ہیثمی نے مجمع الزوائد، 8: 65 میں اس کے ایک راوی احوص بن حکیم کو ضعیف کہا ہے ۔ شیخ محمد ناصر الدین البانی (غیر مقلدین کے امام) نے اپنی کتاب ’’ظلال الجنۃ فی تخریج السنۃ لابن ابی عاصم، 1: 223 ‘‘ میں اس حدیث کے بارے میں کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے ، اور احوص بن حکیم جو کہ ضعیف الحفظ ہے کہ سوا تمام رواۃ ثقہ ہیں جیسا کہ ’’التقریب‘‘ میں ہے۔ پس اس کی مثل سے استشہاد کیا جائے گا کیونکہ وہ اپنے بعد وغیرہا کے طریق کے سبب قوی ہو جاتا ہے ۔

دار قطنی نے احوص بن حکیم کے بارے میں کہا ہے کہ ’’اس پر اس صورت میں اعتبار کیا جائے گا جب کوئی ثقہ راوی اس سے روایت کرے۔‘‘ اور ابن عدی نے کہا ہے کہ’’اس سے بہت سی روایات مروی ہیں اور وہ ان رواۃ میں سے ہیں جن کی احادیث لکھی جاتی ہیں اور ثقہ رواۃ کی ایک جماعت نے اس سے حدیث لی ہے اور اس میں کوئی منکر چیز نہیں ہے جس کا وہ رد کرتے مگر یہ کہ وہ ایسی اسانید بیان کریں جن کی اتباع نہیں کی جا سکتی۔(مزی، تهذيب الکمال، 2: 293. 294، چشتی)

(8) حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ۔ حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : يَطْلُعُ ﷲُ عَلَی خَلْقِهِ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَيَغْفِرُ لَهُمْ کُلَّهُمْ إِلَّا لِمُشْرِکٍ أوْ مُشَاحِنٍ ۔
ترجمہ : ماہِ شعبان کی نصف شب (یعنی پندرہویں رات) کو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی طرف توجہ فرماتا ہے، پس وہ شرک کرنے والے اور کینہ رکھنے والے کے سوا ہر ایک کی مغفرت فرما دیتا ہے ۔

(1) بزار، المسند، 7: 186، رقم: 2754، ہیثمی نے مجمع الزوائد، 8: 65 میں کہا ہے کہ اسے بزار نے روایت کیا ہے اور اس میں عبدالرحمن بن زیاد بن انعم ہے، احمد بن صالح نے اسے ثقہ اور جمہور ائمہ نے ضعیف کہا ہے اور ابن لہیعۃ کمزور راوی ہے باقی اس کے رجال ثقہ ہیں ۔

(2) ابنِ شاہین نے تاریخ اسماء الثقات، 1: 147 میں عبدالرحمن بن زیاد بن انعم کا ذکر کیا ہے اور یحییٰ بن معین نے کہا ہے کہ اس سے روایت لینے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ اس میں ضعف ہے ۔

(9) حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إِنَّ ﷲَ لَيَطَّلِعُ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَيَغْفِرُ لِجَمِيعِ خَلْقِهِ إِلَّا لِمُشْرِکٍ أوْ مُشَاحِنٍ ۔
ترجمہ : بے شک اللہ رب العزت ماہ شعبان کی نصف شب (پندرہویں رات) کو (اپنی مخلوق کی طرف) متوجہ ہوتا ہے، سو وہ مشرک اور کینہ پرور کے سوا اپنی تمام مخلوق کو معاف کر دیتا ہے ۔(ابن ماجه، کتاب اقامة الصلاة والسنة فيها، باب ماجاء فی ليلة النصف من شعبان، 1 : 445، رقم : 1390، چشتی)

(1) امام ابنِ ماجہ کی بیان کردہ یہ روایت مرفوع منقطع ہے کیونکہ اس میں ضحاک بن عبدالرحمن بلا واسطہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے حدیث نہیں لیتے۔ لیکن یہی حدیث ابن ماجہ نے اور ہبۃ ﷲ بن حسن لالکائی نے شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ، 3 : 447، رقم : 763 میں ذکر کی ہے جس کے مطابق: ابنِ لہیعۃ نے زبیر بن مسلم، انہوں نے ضحاک، انہوں نے اپنے والد عبدالرحمن بن عزرب اور انہوں نے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کی ہے ۔

(2) مزی نے تہذیب الکمال، 9 : 308، رقم : 1964 میں یہی حدیث ایک بہت اعلیٰ سند سعید بن عفیر سے ابنِ لہیعۃ انہوں نے زبیر بن سلیم کے واسطہ سے بیان کی ہے۔ لہٰذا اس حدیث کے صحیح مرفوع متصل ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ۔

(10) حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ۔ حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إِذَا کَانَ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَإِذَا مُنَادٍ : هَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَأغْفِرَ لَهُ؟ هَلْ مِنْ سَائِلٍ فَأعْطِيَهُ ؟ فَـلَا يَسْألُ أحَدٌ إَلَّا أعْطِيَ إِلَّا زَانِيَةٌ بِفَرْجِهَا أوْ مُشْرِکٌ ۔
ترجمہ : جب شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے تو منادی ندا دیتا ہے : کیا کوئی مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں اسے بخش دوں؟ کیا کوئی سوال کرنے والا ہے کہ میں اسے عطا کروں؟ پس زانیہ اور مشرک کے سوا ہر سوال کرنے والے کو عطا کر دیا جاتا ہے ۔ (بيهقی، شعب ا لإيمان، 3: 383، رقم: 3836، چشتی)

اس بحث کو درج ذیل نکات میں سمیٹا جا سکتا ہے

(1) تمام احادیثِ مبارکہ سے شبِ برات کی فضیلت اور خصوصیت اجاگر ہوتی ہے اور اس شک و شبہ کا قلع قمع ہوتا ہے کہ اس باب میں تمام احادیث ضعیف ہیں۔ ہر حدیث کے ضعیف راوی پر سیر حاصل گفتگو سے یہ نتیجہ اخذ ہوا ہے کہ تمام احادیث ایک دوسرے سے تقویت پا کر حسن کے درجے پر فائز ہیں ۔

(2) سب سے اہم بات یہ ہے کہ شب برات پر احادیث کو روایت کرنے والے صحابہ کرام ث کی سطح تک تعداد حد تواتر تک پہنچتی ہے لہٰذا اتنے صحابہ کا کسی مسئلہ پر احادیث روایت کرنا ان کی حجیت اور قطعیت کو ثابت کرتا ہے ۔

(3) اگر بعض احادیث ضعیف بھی ہوں تو محدّثین کرام نے خود اس بات کی تصریح کی ہے کہ ضعیف احادیث متعدد طرق سے تقویت پا کر حسن کے درجے پر فائز ہوتی ہیں ۔

(4) تیسرا اہم قاعدہ محدّثین نے اپنی کتابوں میں یہ درج کیا کہ فضائل میں بالاتفاق ضعیف روایات بھی قابل قبول ہو جاتی ہیں، جبکہ شب برات پر احادیثِ حسنہ مروی ہیں ۔

شب برات میں اہتمام عبادت پر سلف صالحین کی آراء اور معمول

1 حضرت علی، حضرت عائشہ صدیقہ اور عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہم سے مروی مذکورہ بالا احادیثِ مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور امر سے اس کی حجیت ثابت ہے ۔

(2) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہِ شعبان میں رمضان کے علاوہ باقی تمام مہینوں سے بڑھ کر عبادت کرتے تھے، لہذا شبِ برات کو اس سے کس طرح خارج کیا جا سکتا ہے ؟ بلکہ یہ رات دوسری راتوں کی نسبت عبادت کی زیادہ مستحق ہے ۔

(3) حضرت عبدﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما فرماتے ہیں : خمس ليال لا ترد فيهن الدعاء: ليلة الجمعة، و أول ليلة من رجب، و ليلة النصف من شعبان، و ليلتی العيدين ۔
ترجمہ : پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعا رد نہیں کی جاتیں: جمعہ کی رات، رجب کی پہلی رات، شعبان کی پندرھویں رات، دونوں عیدوں کی راتیں ۔ (عبد الرزاق، المصنف، 4: 317، رقم: 7927)

(4) غیر مقلدین کے پسندیدہ امام علامہ ابنِ تیمیہ نے اس رات میں عبادت اور قیام پر لکھا ہے : سئل ابن تيمية عن صلاة نصف شعبان؟ فأجاب : إذا صلی الانسان ليلة النصف وحده أو فی جماعة خاصة کما کان يفعل طوائف من السلف فهو أحسن ۔
ترجمہ : ابنِ تیمیہ سے نصف شعبان میں نفلی نماز ادا کرنے کے بارے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا: جب کوئی بھی انسان نصف شعبان کی رات کو اکیلا یا جماعت کے ساتھ نماز پڑھے جیسا کہ سلف میں سے بہت سارے گروہ اس کا اہتمام کرتے تھے تو یہ بہت خوب ہے ۔ (مجموع فتاوی ابن تيميه، 23: 131،چشتی)

(5) حافظ ابنِ رجب حنبلی لکھتے ہیں : شعبان کی 15ویں شب کو اہلِ شام کے تابعین خالد بن معدان، لقمان بن عامر اور ان کے علاوہ دیگر اِس رات کی تعظیم کرتے اور اس میں بے حد عبادت کرتے۔ وہ اِس رات مسجد میں قیام کرتے۔ اس پر امام اسحاق بن راہویہ نے ان کی موافقت کی ہے اور کہا ہے کہ اس رات کو مساجد میں قیام کرنا بدعت نہیں ہے ۔ (لطائف المعارف: 263 ، چشتی)

شب برات پر اتنی کثیر تعداد میں مروی احادیث صرف اس لیئے نہیں ہیں کہ کوئی بھی بندہ مؤمن فقط ان کا مطالعہ کر کے انہیں قصے ، کہانیاں سمجھتے ہوئے صرفِ نظر کر دے ، بلکہ ان احادیث کے بیان کا مقصود یہ ہے کہ انسان اپنے مولا خالقِ کائنات کے ساتھ اپنے تعلق کو استوار کرے جو کہ اس رات اور اس جیسی دیگر روحانی راتوں میں عبادت سے باسہولت میسر ہو سکتا ہے ۔ اِن با برکت راتوں میں رحمتِ الٰہی اپنے پورے جوبن پر ہوتی ہے اور اپنے گناہگار بندوں کی بخشش و مغفرت کے لیئے بے قرار ہوتی ہے لہٰذا اس رات میں قیام کرنا ، کثرت سے تلاوتِ قرآن ، ذکر ، عبادت اور دعا کرنا مستحب ہے اور یہ اعمال احادیثِ مبارکہ اور سلف صالحین کے عمل سے ثابت ہیں ۔ اس لیے جو شخص بھی اب اس شب کو یا اس میں عبادت کو بدعتِ ضلالۃ کہتا ہے وہ درحقیقت احادیثِ صحیحہ اور اعمالِ سلف صالحین کا منکر ہے اور فقط ہوائے نفس کی اتباع اور اطاعت میں مشغول ہے ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں حق کی راہ پر گامزن ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔


ماہِ شَعبانُ المعظم میں پیش آنے والے اہم واقعات


محترم قارئینِ کرام : ماہِ شَعبانُ المعظم اسلامی سال کا آٹھواں مہینہ ہے یہ اُن بارہ مہینوں میں سے ایک ہے ، جن کا تذکرہ قرآن میں مذکورہے ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ان عدۃ الشھور عند اللہ اثنا عشر شھرا فی کتب اللہ یوم خلق السموات والأرض ؛ یقیناً شمار مہینوں کا (جو کہ) کتاب الٰہی میں اللہ کے نزدیک (معتبر ہیں) بارہ مہینہ (قمری) ہیں ، جس روز اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین پیدا کئے تھے (اسی روز سے) ۔ (سورہ التوبہ)


’’شعبان‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے ، جس کے معنی ہیں پھیلانا اور شاخ در شاخ کرنا (القاموس الوحید) اہلِ علم نے وجہ تسمیہ یہ بیان کی ہے کہ اس مہینہ میں اللہ کی طرف سے نفل روزے رکھنے اور نیک عمل کر نے والے کو شاخ در شاخ برابر بڑھتی رہنے والی نیکی میسر ہوتی ہے ، بعض حضرات یہ بیان کر تے ہیں کہ اُس کے معنی ظاہر ہونے کے ہیں ، اور یہ مہینہ یا اس مہینہ کا چاند رمضان کے بابرکت مہینہ سے پہلے ظاہر ہوتا ہے ۔ جس کی وجہ سے رمضان کے بابرکت مہینہ کی آمدکا احساس ہوتا ہے ۔ (عمدۃ القاری شرح بخاری)


شعبان کے ساتھ معظم لگا کر شعبان المعظم بولاجاتا ہے ، معظم کے معنی عظمت والی چیز کے ہیں اور حدیث کی روشنی میں یہ مہینہ عظمتوں والا ہے ۔ ۔ اس ماہِ مبارک میں جن صحابۂ کرام ، اَولیائے عُظَّام اور عُلَمائے اسلام کا یومِ وِصال یا عُرس اور دیگر اہم واقعات جو رونما ہوئے اُن کا مختصر تذکرہ پیشِ خدمت ہے :


ماہ شعبان ۲ھ میں رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے ، اس سے پہلے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلَّم عاشورا یعنی دس محرم اور ہر مہینے میں تین روزے رکھا کر تے تھے ۔ (عہد نبوت کے ماہ وسال)


ماہ شعبان ۴ھ میں غزوۂ بدر صفری پیش آیا ۔ (البدایۃ والنہایۃ)


نواسہ رسول سید الشہداء سیدنا و مولانا امام حسین رضی اللہ عنہ ولادت مبارک


امام حافظ ابو نعیم اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ولد لخمس لیال خلون من شعبان سنۃ اربع من الہجرۃ ۔ (معرفۃ الصحابۃلابی نعیم الاصبھانی باب الحاء من اسمہ حسن)

آپ رضی اللہ عنہ کی ولادت با سعادت ہجرت کے چوتھے سال ، 5 شعبان کو مدینہ منورہ) میں ہوئی ۔ (سیراعلام النبلاء ، الذھبی ، باب: الحُسَيْنُ الشَّهِيْدُ أَبُو عَبْدِ اللهِ بنُ عَلِيِّ بنِ أَبِي طَالِبٍ بنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ (رضی اللہ عنہ)

ترجمہ : حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت کے پچاس دن بعد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ شکم مادر مہربان میں جلوہ گرہوئے آپ کی ولادت باسعادت روز سہ شنبہ 5 شعبان المعظم 4 ہجری مدینہ طیبہ میں ہوئی ۔


علاّمہ مومن شبلنجی حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت 5 شعبان المعظم 4 ہجری مدینہ طیبہ میں ہوئی ۔ آپ حضرت سیّدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت کے پچاس دن بعد شکم مادر مہربان میں جلوہ گرہوئے یہی نقل صحیح اور درست ہے ۔ (نور الابصار مترجم اردو جلد دوم صفحہ نمبر 3 مطبوعہ فیصل آباد،چشتی)۔(معجم الصحابہ للبغوی  ج۲ ص۱۴)


ماہ ِ شعبان ۵ ھ میں غزوۂ بنی مصطلق پیش آیا ۔ (عہد نبوت کے ماہ وسال)


ماہ شعبان ۱۱ھ میں جنت کی عورتوں کی سر دار اور حضور صلَّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلَّم کی لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا وصال ہوا ۔ (الاصابہ)


ماہ شعبان ۱۰۵ھ میں خلیفہ یزید بن عبد الملک کی وفات ہوئی ۔ (تقویم تاریخی)


ماہ شعبان ۱۶۱ھ میں حضرت امام سفیان ثوری رحمۃُ اللہِ علیہ کی وفات ہوئی ۔


ماہ شعبان ۳۸۷ ھ میں فاتح ہندسلطان محمود غزنوی رحمۃُ اللہِ علیہ کے والد اور مسلمانوں کے عظیم بادشاہ سبگتگین رحمۃُ اللہِ علیہ کی وفات ہوئی ۔ (سیر اعلام النبلاء)


ماہ شعبان ۷۷۳ ھ میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت ہوئی ۔ (ظفر المحصلین،چشتی)


۱۸۱۷ھ میں مشہور ومعروف بزرگ اور عالم دین ’’ملا عبدالرحمٰن جامی رحمۃُ اللہِ علیہ‘‘ کی ولادت ہوئی ۔


حضرت عبدُاللہ بن مربع انصاری حارثی رضی اللہُ عنہ غزوۂ احد سمیت تمام غزوات میں شریک ہوئے ، آپ سے کئی احادیث مروی ہیں ، آپ نے اپنے بھائی حضرت عبدالرّحمٰن انصاری کے ہمراہ شعبان13ھ کو جنگ جسر ابی عبید میں شہادت پائی ۔ حضرت زید اور حضرت مُرارہ رضی اللہُ عنہما آپ کے بھائی اور صحابیِ رسول ہیں ۔ (اسد الغابۃ ، 3 / 391 ، تاریخ طبری ، 3 / 152)


حضرت سیّدُنا اُسید بن حُضیر انصاری رضی اللہُ عنہ جلیلُ القدر صحابی ، مدنی ، قبیلۂ بنی عبدُالاشہل کے چشم و چراغ ، ذہین و فطین ، صاحبُ الرائے ، خوش الحان قاریِ قراٰن ، بہترین کاتب (لکھنے کی صلاحیت رکھنے والے) اور جرأت مند مجاہد تھے ، اعلانِ نبوت کے بارھویں سال اسلام لائے ، تمام غزوات میں شریک ہوئے ۔ شعبان 20ھ کو وصال فرمایا۔ جنّتُ البقیع میں دفن کئے گئے ۔ (معجم کبیر ، 1 / 203تا208 ، سیراعلام النبلا ، 3 / 212 ، 213،چشتی)


حضرت سیّدُنا عثمان بن مظعونرضی اللہ عنہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےرضاعی بھائی،قدیمُ الاسلام،حبشہ و مدینہ دونوں جانب ہجرت کرنے والے، سادہ و نیک طبیعت کے مالک، کثرت سے عبادت کرنے اورروزے رکھنے والے، اصحابِ صُفَّہ اور بَدری صَحابہ میں سےتھے ۔ شعبانُ المعظّم3ھ میں فوت ہوئے اور مُہاجرین میں سب سے پہلے جنّتُ البقیع میں دفن کئے گئے۔ (حلیۃ الاولیاء،ج 1،ص147تا151، جامع الاصول ج13،ص313،314،چشتی)


جلیلُ القدر صحابی حضرت سیّدُنا مُغیرہ بن شُعْبہ ثقفیرضی اللہ عنہ کی ولادت طائف میں ہوئی اور شعبانُ المعظّم50ھ میں کُوفہ میں وفات پائی،آپ پانچویں (5) سنِ ہجری میں اسلام قبول کرنے والے، عاشقِ رسول، مجاہدِاسلام، کئی احادیث کے راوی، سحرُالبیان خطیب، صاحبِ رائے، بہترین منتظم، متعدد شہروں کے گورنر اور ذہانت میں ضربُ المثل تھے۔(اعلام للزرکلی،ج7،ص277، تاریخ ابن عساکر،ج 60،ص13تا62)


حضرت سیِّدُنا سَلِیط بن قیس خَزْرَجی انصاری رضی اللہ عنہ بنوعدی بن نَجار کے چشم و چراغ ، بَدْرْ سمیت تمام غَزوات اور جنگوں میں شرکت کرنے والے ، نِڈر اور شجاعت کے پیکر تھے ، آپ سے ایک حدیث بھی مروی ہے ، آپ نے جنگ جِسرابوعبید (جسے جنگ قُسُّ النَّاطِف اور جنگِ مروَحَہ بھی کہتے ہیں ، یہ مقام کُوفہ کے قریب دریائے فرات کے پاس ہے) میں شعبان 13ھ میں شہادت پائی ۔ (الاصابۃ ، 3 / 136 ، تاریخ طبری ، 3 / 146تا155 ، معجم البلدان ، 7 / 50،چشتی)


حضرت سیّدُنا ابوعبيد بن مسعود ثَقفی رضی اللہ عنہ اَجَلّہ صحابہ میں سے ہیں ، امیرُالمؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابتدائے خلافت میں جب جنگِ عراق کے لئے مسلمانوں کو اُبھارا تو یہ فوراً تیار ہوگئے ، بہادری اورشجاعت کی وجہ سے انہیں امیر ِلشکر بنایا گیا ، اس لشکر نے جنگِ نمارق اور جنگ کَسْکر میں فتح حاصل کی اور جنگِ جِسْرابوعبید میں شعبان 13ھ میں شہید ہوئے ۔ (تاریخ طبری ، 3 / 146تا155 ، اسدالغابہ ، 6 / 217 ، الکامل فی التاریخ ، 2 / 282)


اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدتنا حَفصہ بنت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہما کی ولادت اعلانِ نبوت سے 5سال قبل مکّہ شریف میں ہوئی اور وصال شعبان 45ھ میں مدینۂ منوّرہ میں فرمایا، تدفین جنّتُ البقیع میں ہوئی۔ آپ کثرت سے روزے رکھنے والی، بہت عبادت کرنے والی، علمِ حدیث و فقہ سے شغف رکھنے والی، بلند ہمت اور حق گوخاتون تھیں ۔ آپ سے مروی احادیث کی تعداد 60ہے ۔ (طبقات ابن سعد جلد 8 صفحہ 65 تا 69)


حضرت سیّدتنا اُمِّ ایمن برکۃ بنت ثعلبہ حبشیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا، نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رضاعی والدہ، آپ علیہ السَّلام سے بہت محبت کرنے اور خدمت کی سعادت پانے والی، حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زوجہ اور حضرت اُسامہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی والدۂ محترمہ اور قدیم الاسلام تھیں، حبشہو مدینہ دونوں جانب ہجرت فرمائی، وصال شعبان یا رمضان 10ھ یا محرم 23ھ کو ہوا ۔ (زرقانی علی المواھب جلد 1 صفحہ 308،چشتی)


سلطانُ الاولیاء حضرت شیخ برہانُ الدّین رازِ الہٰی قادری شطاری رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت موضع راجھی (بود وڈ خان دیس)میں 998ھ کو ہوئی اور وفات 15شعبان 1083ھ کو برہان پور (مدھیہ پردیش) ہند میں ہوئی ، یہیں عالیشان مزار موجود ہے۔ آپ عالمِ باعمل ، عربی ادب پر دسترس رکھنے والے اور فنِ شاعری کی واقفیت رکھنے والے تھے ، بادشاہ اورنگ زیب عالمگیرسمیت کثیر خلقت نے آپ سے فیض پایا ۔ (برہان پور کے سندھی اولیاء ، ص263 ، 266 ، 328،چشتی)


قطب الآفاق حضرت سید شاہ اسحاق قادری رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت خوشاب (پنجاب ، پاکستان) میں ہوئی اور11شعبان 1086ھ کو جُنّیر (حیدرآباد ، دکن) ہند میں وفات پائی ، آپ خاندانِ غوثیہ رزاقیہ کے شیخِ طریقت اور کئی اولیائے ہند کے جدِّ اعلیٰ ہیں ۔ (تذکرۃ الانساب ، ص109)


حضرت سیّدنا امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی ولادت 70ھ یا 80ھ کو کوفہ(عراق) میں ہوئی اور وصال بغداد میں 2شعبان 150ھ کو ہوا۔ مزار مبارک بغداد (عراق) میں مرجعِ خلائق ہے ۔ آپ تابعی بزرگ، مجتہد، محدث، عالَمِ اسلام کی مؤثر شخصیت، فقہِ حنفی کے بانی اور کروڑوں حنفیوں کے امام ہیں ۔ (نزہۃ القاری مقدمہ جلد 1 ص164،110، خیرات الحسان، ص31، 92) (4)


شیخ الاسلام حضرت سیّدنا امام لیث بن سعد مصری علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 94ھ قَرْقَشَنْدَہ (القلَج صوبہ قلیوبیہ) مصر میں ہوئی۔ آپ محدثِ زمانہ اور مفتی اہلِ مصر تھے۔ 15شعبان 175ھ کو مصر میں وصال فرمایا، مزار مبارک قَرافہ صُغریٰ (شارع امام لیث، قاہرہ) مصر میں ہے۔ (حدائق الحنفیہ، ص140، تاریخ ابن عساکر،ج50،ص349،347)


امام الحنفیہ، حضرت سیّدنا ابوالحسن عبیداللہ کَرْخی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 260ھ میں کرخ جدان (عراق) میں ہوئی اور وصال 15شعبان 340ھ کو فرمایا، تدفین بغداد (عراق) میں ہوئی ۔ آپ مجتہد فی المسائل، مفتیِ عراق، شیخ الحنفیہ اور زُہد و تقویٰ کے پیکر تھے۔ ”اُصولِ کرخی“ قواعدِ فقہ میں آپ کی یادگارِ زمانہ کتاب ہے۔(تاریخ الاسلام للذہبی،ج25،ص48، اصول الکرخی، ص366،چشتی)


ابن الکتاب حضرت علّامہ جمالُ الدّین محمد بن مکرم ابن منظور افریقی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت630ھ کو مصر میں ہوئی اور وفات شعبان 711ھ کو قاہرہ (مصر) میں ہوئی ۔ آپ عظیم ادیب، مؤرخ، استاذُالعلماء اور قاضی طرابلس تھے ۔ کئی جلدوں پر مشتمل عربی لغت ”لِسَانُ الْعَرَب“ آپ کی عالمگیر شہرت کا باعث ہے ۔ (لسان العرب،ج1،ص5، الدرر الکامنہ جلد 4 صفحہ نمبر 262،265،چشتی)


استاذِ صاحبِ درِّمختار حضرت سیّدنا محمد محاسنی آفندی دمشقی حنفی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 1012ھ دمشق شام میں ہوئی اور وصال شعبان 1072ھ کو فرمایا، بابِ فرادیس شام میں دفن کیا گیا ۔ آپ ممتاز عالمِ دین، مدرسِ جامعِ اُمَوِی، خطیبِ جامعِ دمشق تھے، مسلم شریف پر تعلیقات یادگار ہیں ۔ (خلاصۃ الاثر، 411،408، حدائق الحنفیہ، ص438)


قطبِ شام حضرت امام عبدالغنی نابُلُسی حنفی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 1050ھ دِمَشْق شام میں ہوئی ۔ آپ عالمِ کبیر، شاعر و ادیب، استاذُ العلماء، عارف بِاللہ اور 250 سے زائد کتب و رسائل کے مصنف ہیں ۔ 24شعبان 1143ھ کو وصال فرمایا، مزار مبارَک صالحیّہ دمشق شام میں ہے ۔ (اصلاحِ اعمال مترجم جلد 1 صفحہ 56تا70)


محدثِ اعظم پاکستان حضرت علّامہ مولانا محمد سردار احمد قادری چشتی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 1323ھ میں ضلع گورداسپور (موضع دیال گڑھ مشرقی پنجاب) ہند میں ہوئی اور یکم شعبان 1382ھ کو وصال فرمایا،آپ کا مزار مبارک سردار آباد (فیصل آباد پنجاب) پاکستان میں ہے۔آپ استاذالعلماء، محدثِ جلیل، شیخِ طریقت، بانیِ سنّی رضوی جامع مسجد و جامعہ رضویہ مظہرِ اسلام سردارآباد اور اکابرینِ اہلِ سنّت میں سے تھے۔(حیاتِ محدثِ اعظم، ص334،27)


شرفِ ملت حضرت علّامہ محمد عبد الحکیم شرف قادری علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 1363ھ مزار پور (ضلع ہوشیار پور پنچاب) ہند میں ہوئی ۔ آپ استاذالعلماء، شیخ الحدیث و التفسیر، مصنف و مترجم کتب، پیرِ طریقت اور اکابرینِ اہلِ سنّت سے تھے ۔ 18شعبان 1428ھ کو وصال فرمایا ، مزار مبارک جوڈیشنل کالونی لالہ زار فیز-2 لاہور پاکستان میں ہے ۔ (شرفِ ملت نمبر لاہور، ص 126)


شیخ المشائخ حضرت حافظ ابوعبدالرحمٰن محمدسُلَمِی محدث نیشاپوری علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت325ھ نیشاپور (صوبہ خراسان) ایران میں ہوئی۔آپ عالم دین ، حافظ الحدیث، مفسرقراٰن ، استاذالعلماء، کئی کتب کے مصنف اور ولیٔ کامل تھے ۔ طَبَقاتُ الصُّوْفِیۃآپ کی تصنیف ہے ۔ وصال 3شعبان 412ھ کو ہوا اور تدفین نیشاپور میں ہوئی ۔ (المنتظم جلد 15 صفحہ 151، 150، طبقات الصوفیۃ، مقدمۃ المحقق، ص15)


حضرت لعل شہباز قلندر حافظ سیّد محمد عثمان مَرْوَنْدی سہروردی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 573ھ مَرْوَنْد (ضلع ہرات) افغانستان یا مَرنْد آذربائیجان میں ہوئی اور 21 شعبان 673 ھ کو وصال فرمایا، مزارمبارک سہون شریف (ضلع جامشورو باب الاسلام سندھ) پاکستان میں زیارت گاہِ خاص وعام ہے۔ آپ علم و فضل، زُہد و تقویٰ میں کامِل اور روحانیت کے تاجدار ہیں ۔ (تذکرہ اولیائے پاکستان،ج1،ص144تا 159)


حضرت سید ابوالحسن موسیٰ پاک شہید ملتانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کی ولادت 952ھ میں اوچ شریف (ضلع بہاولپورجنوبی پنجاب) پاکستان میں ہوئی اور 23 شعبان1001ھ کو وصال فرمایا ، آپ کا مزار مدینۃ الاولیاء ملتان میں ہے۔آپ خاندانِ غوثُ الْاعظم کے چشم و چراغ، سلسلہ قادریہ کے نامورشیخ طریقت اور مشہور محدث شیخ عبدالحق دہلوی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کے مُرشِد ہیں ۔ (تذکرہ اولیائے پاکستان جلد 2 صفحہ 403-406)


حضرتِ ایشاں ، پیر سیّد خاوند محمود بخاری نقشبندی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 971ھ بخارا (ازبکستان) میں ہوئی اور 12شعبان 1052ھ کو وصال فرمایا ۔ آپ حافظ القراٰن، عالمِ دین، مصنف اور نقشبندی سلسلے کے بزرگ تھے ۔ آپ کا عالیشان مزار محلہ بیگم پورہ (نزد انجینئرنگ یونیورسٹی باغبانپورہ) لاہور میں واقع ہے ۔ (تذکرہ خانوادہ حضرت ایشاں، ص54تا109،چشتی)


قاضی کشمیر حضرت خواجہ فتح اللہ صدیقی شطاری علیہ رحمۃ اللہ البارِی کی ولادت غالباً ضلع روہتک (ریاست ہریانہ ) ہند میں ہوئی ۔ آپ عالم دین،شیخ طریقت، قاضی القضاہ کشمیر اور مصنّف کتب ہیں۔ 8شعبان 1088ھ کو وصال فرمایا ، مزار مبارک گُلہار شریف (مضافاتِ کوٹلی) کشمیر میں ہے ۔ (قاضی فتح اللہ شطاری، ص59تا207)


فخرِدین و ملّت حضرت سیّد میراں حسین زنجانی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت347 ھ کو زنجان شہر(صوبہ زنجان)اِیران میں ہوئی اور19شعبانُ المعظم 431ھ کو وصال فرمایا ، آپ ولیِ کامل ، سلسلہ جنیدیہ کے شیخ اوراکابراولیائے کرام سے ہیں ۔ مزارمبارک چاہ میراں مرکزُالاولیاء لاہور میں ہے ۔ (تذکرہ اولیائے پاکستان،ج1،ص43، 60)


فاتحِ بلگرام حضرت سیّد محمدصاحبُ الدعوۃ الصغریٰ چشتی بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 564ھ ہند میں ہوئی۔آپ ولیِ کامل، مجاہدِاسلام، خلیفۂ قطبُ الدّین بختیار کاکی، ساداتِ بلگرام، مارہرہ اورمسولی شریف کے جدِّاعلیٰ ہیں ۔ 14شعبانُ المعظّم645ھ کو وصال فرمایا، مزار مبارک جانبِ شمال محلہ میدان پور بلگرام (ضلع ہردوئی،یوپی) ہند میں ہے۔(تذکرہ نوری، ص37)


حضرت خواجہ حافظ شمسُ الدّین محمد شیرازیرحمۃ اللہ علیہ کی ولادت تقریباً720ھ میں شیراز (صوبہ فارس) ایران میں ہوئی اوریہیں8شعبانُ المعظم792ھ کو وصال فرمایا۔آپ فارسی زبان کے بےمثل صوفی شاعر، فخرُالعلماء اور ناظمُ الاولیاء ہیں۔آپ کا شعری مجموعہ”دیوانِ حافظ“اہلِ علم میں معروف ہے ۔ (اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ ، ج7، ص797،794،نفحات الانس مترجم، ص635،وفیات الاخیار، ص48)


حضرت سیّد عبدُاللہ شاہ اصحابی بغدادی قادری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت غالباً بغداد میں ہوئی ۔ آپ خاندانِ غوثِ اعظم کے فرزند، شیخِ طریقت اور ولیِ کامل ہیں ۔1093ھ کو وصال فرمایا، مزار ٹھٹھہ شہر کے قریب مکلی قبرستان (سندھ) میں مَرجَعِ خلائق ہے ۔ ان کا عرس ہرسال13تا15شعبان ہوتاہے ۔ ( تذکرہ اولیائے پاکستان،ج 1،ص469)


حضرت میاں پیرا شاہ غازی قلندرقادری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت1076ھ کو موضع چک بہرام ضلع گجرات (پنجاب) میں ہوئی اور14شعبانُ المعظم1163ھ کو کھڑی شریف (ضلع میرپور) کشمیرمیں وصال فرمایا،آپ صاحبِ مجاہدہ و کرامات اور کثرت سے تلاوتِ قراٰن کرنے والے بزرگ تھے ۔ (تذکرہ اولیائے جہلم، ص159،162،چشتی)


قطبِ زمان حضرت حاجی محمد عثمان خان دامانی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت قصبہ لوئی،تحصیل کلاچی،ضلع ڈیرہ اسماعیل خان(صوبہ خیبر پختونخواہ KPK)میں ہوئی اور وصال22شعبانُ المعظم1314ھ کو خانقاہِ احمدسعیدیہ موسیٰ زئی شریف ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں ہوا۔آپ جامعِ کمالات ظاہری و باطنی،متبعِ سنّت اورعاجزی وانکساری کے پیکر تھے ۔ (فیوضات حسنیہ، ص 395)


امامُ الاَئِمّہ حضرت سیّدُنا زُفر تمیمی بصریرحمۃ اللہ علیہ کی ولادت110ھ کو کوفہ عراق میں ہوئی اورشعبانُ المعظّم158ھ کو وصال فرمایا، تدفین بصرہ (عراق) میں ہوئی۔آپ حافظُ القراٰن،محدّثِ زمانہ،مجتہد فی المذہب،قاضیِ بصرہ اور امامِ اعظم کےجلیلُ القدر شاگردتھے ۔ (وفیات الاعیان،ج 1،ص342، اخبار ابی حنیفۃ، ص74، 109تا113)


امیرُالمؤمنین فی الحدیث حضرت سیّدُنا سفیان ثوریرحمۃ اللہ علیہ کی ولادت98ھ میں کوفہ (عراق) میں ہوئی اورشعبانُ المعظم161ھ میں وصال فرمایا۔مزاربنی کُلیب قبرستان بصرہ میں ہے۔آپ عظیم فقیہ، محدث، زاہد، ولیِ کامل اوراستاذِ محدثین و فقہا تھے ۔ (سیراعلام النبلاء،ج 7،ص229،279، طبقات ابن سعد،ج6،ص350،چشتی)


شمسُ الائمّہ حضرت سیّدُنا عبدالعزیز حلوانی بخاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت چوتھی صدی ہجری میں بخارا (ازبکستان) میں ہوئی اورشعبانُ المعظم448ھ کو شہرکش میں وصال فرمایا، تدفین قبرستان کلاباذبخارا (ازبکستان) میں ہوئی۔آپ بہت بڑے عالم،حافظُ الحدیث،مجتہد فی المسائل، استاذُالفقہاء اور فقہ حنفی کی بنیادی کتاب ”المبسوط“ کے شارح ہیں ۔ (اعلام للزركلی،ج 4،ص13، حدائق الحنفیہ، ص221،فقہ اسلامی،ص47)


تلمیذِ علّامہ سُیوطی مخدومُ الکبیر زینُ الدّین بن علی ملیباری شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت873ھ میں کوچین(Cochin) ملیبار کیرالہ ہند میں ہوئی اور 17شعبانُ المعظم928ھ کو پونانی(Ponnani) میں وصال فرمایا اور وہیں دفن ہوئے۔آپ حافظِ قراٰن،محقّق، شافعی عالِم، شاعرِ اسلام، سلسلہ چشتیہ کے پیرِ طریقت، زہد و تقویٰ سے متّصف،مبلّغِ اسلام، چوبیس (24) سے زائد کتب کے مصنّف اور صاحبِ فتح المعین شیخ زینُ الدّین احمد مخدومُ الصغیرکےجدِّامجد ہیں ۔ (تراجم علماء الشافعیۃ فی الدیار الہندیۃ، صفحہ 69تا77،چشتی)


صاحبِ مَوْلُود بَرزَنجِی ، حضرت سیّد جعفر بن حسن برزنجی مدنی شافعیرحمۃ اللہ علیہ کی ولادت1128ھ مدینۂ منوّرہ میں ہوئی۔آپ مفتیِ شافعیہ مدینۂ منوّرہ و امام و خطیبِ مسجدِ نبوی، استاذُالعلماءاور سلسلہ خلوتیہ کے شیخِ طریقت تھے۔3شعبانُ المعظم1177ھ کو وصال فرمایا اور تدفین جنّتُ البقیع میں ہوئی۔آپ کی12تصانیف میں سے”مولود برزنجی“(عَقدُ الجَوھَر فِی مَولِدِ النَّبِیِّ الاَزھَر)مشہورہے ۔ (سلک الدرر، جز2،ج 1،ص11، مولود برزنجی، ص12،13)


امامِ شریعت و طریقت حضرت امام سیّد محمد مُرتضیٰ حسینی بلگرامی زبیدی مصری قادری حنفیرحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1145ھ بلگرام (ضلع ہردوئی، یوپی) ہند میں ہوئی اور17شعبانُ المعظم1205ھ قاہرہ مصرمیں وصال فرمایا، مزار مبارک مشہدِ سیّدہ رقیہ میں ہے۔آپ حافظُ الحدیث،صوفی ِ کامل،جامعُ العلوم،فقیہ حنفی،کثیرُالتصانیف اورتیرھویں صدی کے مُجدّد تھے۔ آپ کی سو (100) کے قریب تصانیف میں سے تاجُ العُروس (40جلدیں) اور اتحافُ السادۃ المتقین (احیاء العلوم کی شرح) کو بینَ الاقوامی شہرت حاصل ہوئی ۔ (حلیۃ البشر،جز3،ج 1،ص1492، حدائق الحنفیۃ، ص477،چشتی)


عالمِ باعمل حضرت مولانا تاجُ الدّین قادری رحمۃ اللہ علیہ پھالیہ ضلع منڈی بہاؤالدّین (پنجاب،پاکستان) کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے ۔ مرکزُالاولیاء لاہورمیں علمِ دین حاصل کیا اور یہیں کئی مساجد میں درس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھا ۔ آپ جیِّدعالمِ دین اورشیخِ طریقت تھے ۔ آپ کا وصال 25 شعبانُ المعظم 1327ھ کو ہوا اوراپنی تعمیر کردہ مسجد تاجُ الدّین (محلہ چوبچہ مغل پورہ لاہور) سے مُتّصل دفن کئے گئے ۔ (تذکرہ اکابراہلِ سنّت پاکستان صفحہ 111)


اسی مبارک مہینہ میں مسجدضرار کونذرِآتش کیا گیا ۔


اسی مبارک مہینہ میں جھوٹا مدعی نبوت مسیلمہ کذاب واصلِ جہنم ہوا ۔


اسی مبارک مہینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا ۔


شعبان المعظم کوفضیلت واہمیت اسی شب کی وجہ سے حاصل ہے برء ات کے معنیٰ چھٹکارا نجات حاصل کرنے کے ہیں اگریوں بھی کہاجائے تو بہتر ہوگاکہ یہ شب شبِ نجات ہے جس میں ہم جیسے گناہگاروں کو بھی بری کیا جاتا ہے اور بخشش و عام معافی کا اعلان بھی کیا جاتا ہے اسی وجہ سے علماء نے اسے اور کئی نام بھی دیے ہیں مثلاً ۔ لیلۃ الکفر (گناہوں سے رہائی پانے والی رات) لیلۃ المغفرت (بخشش والی رات) لیلۃ الشفاعت ۔ (کتب فضائل لایّام و شہور ، عجائب المخلوقات)

اسی مبارک مہینہ میں تحویلِ کعبہ کاحکم نازل ہوا ۔


اسی مبارک مہینہ میں قرآنِ مجید کے نزول کافیصلہ ہوا ۔


اس مبارک مہینہ کی 15.14 کی درمیانی شب شبِ برات کہلاتی ہے ۔


قُدوۃُ المشائخ حضرت ابو سلیمان عبدالرحمٰن دارانی  رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 140ھ میں دَارَیّا (ریف ، دمشق) شام میں ہوئی اور یہیں 27 شعبان 215ھ کو وصال فرمایا ، مزار مبارک مشہور ہے۔ آپ محدِّثِ جلیل ، زاہدِ زمانہ ، عابدِ شام ، امامُ الصّوفیہ اور محبوبُ الاولیاءتھے ۔ (سیر اعلام النبلاء ، 8 / 472 ،  474 ،  وفیات الاعیان ، 3 / 109 ، وفیات الاخیار ، صفحہ 14 ، مرآۃ الاسرار  صفحہ 313،چشتی)


شیخ سیلان حضرت شیخ صلاحُ الدّین غازی چشتی رحمۃ اللہ علیہ ولیِ کامل ، خلیفۂ خواجہ نظامُ الدین اولیا اور جذبۂ تبلیغِ اسلام سے سَرشار تھے ۔ پونے (مہاراشٹر) ہند میں رہائش اختیار فرمائی اور یہیں شعبان 759ھ میں وصال فرمایا ، روضۂ مبارکہ معروف ہے ۔ (تذکرۃ الانساب ، ص66 ، 67)

غوثِ اعظم کے شہزادۂ اصغر حضرت سیّد ابوزکریا یحییٰ گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 550ھ میں بغداد شریف میں ہوئی اور شعبان 600ھ میں بغداد شریف میں وصال فرمایا ، مزار مبارک حَلبہ میں ہے ۔ آپ گیارہ سال تک حضور غوثِ پاک اور پھر دیگر عُلَما  و فُقَہا سے مستفیض ہوئے ، تکمیلِ علم و معرفت کے بعد مصر تشریف لے گئے ، زندگی کا ایک حصہ وہاں گزارا۔ کثیر لوگوں نے آپ سے استفادہ کیا ، زندگی کے آخری ایّام میں بغداد شریف آگئے ۔ آپ بہت بڑے  فقیہ اور محدث تھے ۔ (اتحاف الاکابر ، ص375)


جَدِّ امجد آلِ سقاف ، مقدمِ ثانی حضرت امام سید عبد الرحمٰن سقاف شافعی رحمۃ اللہ علیہ   کی ولادت 739ھ میں تِریَم (حضر موت) یمن میں ہوئی اور یہیں 23 شعبان819ھ کو وصال فرمایا ، مزار زنبل قبرستان میں ہے ۔ آپ حافظِ قراٰن ، عالمِ دین ، استاذُالعلماء ، بانیِ مسجدِ سقاف ، مشہور شیخِ طریقت ، صاحبِ کرامات اور مَرْجَعِ عوام و خاص تھے ۔ (الامام الشیخ عبد الرحمٰن السقاف ، صفحہ 14تا45،چشتی)


صاحبِ طبقاتِ صوفیہ حضرت امام ابو عبد الرحمٰن محمد بن حسین سُلمی شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 325ھ میں ایک نَجیبُ الطَّرَفَین (نیک خاندان) میں ایران کے شہر نیشاپور میں ہوئی اور یہیں 3 شعبان412ھ کو وصال فرمایا ۔ آپ حافظُ الحدیث ، محدثِ وقت ، صُوفیِ کبیر ، علوم ِ شریعت و طریقت کے جامع اور کثیرُالتَّصانیف ہیں ۔ (طبقات الصوفیہ ، ص14 ، 15)

امام سیّد احمد بن زین حبشی حضرمی شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1069 ھ میں غُرْفَہ (حضرموت) یمن میں ہوئی اور وصال حَوطہ احمد بن زین (حضرموت) یمن میں 19 شعبان 1144ھ کو فرمایا ، مزار یہیں مرجع عوام و خواص ہے ۔ آپ امامِ وقت ، فقیہِ شافعی ، مشہور شیخِ طریقت ، دو درجن کے قریب مساجد و مدارس کے بانی ، 18 کتب کے مصنف اور کئی جیّد عُلَما کے استاذ و شیخ ہیں ۔ آپ کی کتاب “ اَلرِّسَالَۃُ الْجَامِعَۃُ وَ التَّذْكِرَۃُ النَّافِعَةُ “ مشہور ہے ۔ (تبصرة الولی بطریق السادة آل ابی علوی ، صفحہ 7تا23)  


خورشیدِمَکلی ، حضرت نقشبندی حضرت مخدوم ابوالقاسم نورُ الحق ٹھٹھوی رحمۃ اللہ علیہ عالمِ دین ، مرید و خلیفہ خواجہ سیفُ الدین سَرہَندی اور مُسْتَجابُ الدّعوات تھے ، آپ کا وصال 7شعبان 1138ھ کو ہوا ، مزار مبارک مَکلی قبرستان میں ہے ۔ (تذکرۂ اولیاء سندھ ، صفحہ 79)


صاحبِ اسدالغابہ حضرت علّامہ عزُّالدّین علی بن محمد ابنِ اَثِیرجزری رحمۃ اللہ علیہ   کی ولادت 555ھ میں جزیرہ ابنِ عمر (صوبہ شیرناک) تُرکی میں ہوئی اور وصال شعبان 630ھ کو مَوصِل (عراق) میں فرمایا ، تدفین محلہ باب سِنجار میں ہوئی ، آپ حافظ ِقراٰن ، علومِ جدیدہ وقدیمہ میں ماہر ، عظیم محدث ، ماہرِاَنساب اور بہترین تاریخ دان تھے ، آپ کی تصانیف میں سے “ اُسْدُالْغَابَۃ “ اور “ اَلْکَامِلْ فِی التَّارِیْخ “ کو عالمی شہرت ملی ۔ (اسد الغابہ ، 1 / 11 ، 12)(الفوائدالبھیہ صفحہ 19)


فقیہِ ملّت حضرت علامہ مفتی امام الدین رتوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت رتہ شریف (تحصیل کلرکہار ، ضلع چکوال) پنجاب میں ہوئی اور یہیں 29 شعبان 1337ھ کو وصال فرمایا ، جامع مسجدرتہ شریف کے پہلو میں مزارشریف زیارت گاہِ خلائق ہے ۔ آپ جیّدعالمِ دین ، مفتیِ علاقہ ، علومِ معقول ومنقول کے جامع ، استاذُ العلماء ، شیخِ طریقت اور بانیِ آستانہ عالیہ قادریہ نقشبندیہ رتہ شریف ہیں ۔ (تذکرہ علمائے اہل سنت ضلع چکوال صفحہ 59،چشتی)


حُجّۃُ العرب علامہ جمالُ الدین  ابن مالک محمدبن عبداللہ طائی جَیَّانی شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 600ھ میں جَیّان (اندلوسیا) اسپین میں ہوئی اور وصال دمشق میں 12 شعبان 672ھ کو ہوا ، آپ علومِ اسلامیہ بالخصوص نحومیں امام ، عابد و زاہد ، خوفِ خدا و عشقِ رسول کے پیکر اور رقیقُ القلب (نرم دل)  تھے ، زندگی بھر علمِ عربی کے ادب ، شعراورنظم کی تعلیم و تدریس اور تصنیف میں مصروف رہے ، 16کتب میں سے “  اَلْفِیہ ابن مالک “ کو عالمگیر شہرت حاصل ہوئی ۔ (شذرات الذھب ، 5 / 483 ، طبقات شافعیۃ الکبریٰ،8 / 67 ، الفیۃ ابن مالک صفحہ 3 ، 6)


امامُ العلوم حضرت شیخ عمر بن عبد الوھاب عرضی قادری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 950ھ میں حَلب شام میں ہوئی اور یہیں 15 شعبان 1024ھ کو وصال فرمایا ، آپ علوم وفنون کے جامع ، فقیہِ شوافع ، محدثِ کبیر ، واعظِ دلپذیر ، مصنفِ کتبِ کثیرہ اور استاذُالعلماء تھے ۔ تین جلدوں پر مشتمل شِفَا شریف کی شرح بنام “ فَتْحُ الْغَفَّار بِمَا اكْرَمَ اللهُ بَهٖ نَبِيَّهُ الْمُخْتَار “  آپ کی ہی تصنیف ہے ۔ (خلاصۃ الاثر ، 3 / 215تا218) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...