قادیانیت آئینِ پاکستان کی روشنی میں قاضی فاٸز عیسیٰ کو جواب
محترم قارئینِ کرام : کلمہ طیبہ کے نام پر بننے والی ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان اپنے وجود کے پہلے30 سال تک انتہائی گھمبیر مسائل کا شکار رہی جہاں ایک طرف بنگلہ دیش کی صورت میں ملک دولخت ہو گیا تو دوسری جانب قادیانی احمدی جماعت کی وجہ سے ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسے عظیم عقیدہ پر مسلمانانِ پاکستان کی ناختم ہونے والی بے چینی ۔ مملکت میں آئے روز فسادات ، قتل و غارت جیسے واقعات ہوئے ۔ حد تو یہ تھی کہ عقیدہ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرنے کی پاداش میں اسلامی ریاست پاکستان میں خود صحیح العقیدہ مسلمانوں کو ہی قید و بند کی صعوبیتں برداشت کرنا پڑیں ۔ یہاں تک کہ جید علماءِ کرام کو پھانسی کی سزائیں بھی سنائی گئیں ۔ بالآخر ماہ ستمبر 1974 میں پارلیمنٹ کی جانب سے آئین پاکستان میں متفقہ طور پر ترمیم کرکے اس مسئلے کو ابدی طورپر حل کردیا گیا ۔
عقیدہ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسلام کا متفقہ ، اساسی اور اہم ترین عقیدہ ہے ۔ دین اسلام کی پوری عمارت اس اعتقاد پر کھڑی ہے ۔ یہ ایک ایسا حساس عقیدہ ہے کہ اگر اس میں شکوک و شبہات کا ذرا سی بھی رخنہ پیدا ہو جائے تو ایک مسلمان نہ صرف اپنی متاعِ ایمان کھو بیٹھتا ہے بلکہ اپنی بدقسمتی سے وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت سے بھی یک قلم خارج ہو جاتا ہے ۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی قسم کا کوئی تشریعی ، غیر تشریعی ، ظلی ، بروزی یا نیا نبی نہیں آئے گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جو شخص بھی نبوت کا دعویٰ کرے ، وہ کافر ، مرتد ، زندیق اور واجب القتل ہے ۔ قرآن مجید کی ایک سو سے زائد آیات مبارکہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریباً دو سو دس احادیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں ۔ اس بات پر ایمان ’’عقیدۂ ختمِ نبوت‘‘ کہلاتا ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن و سنت کی موجودگی میں کسی نبی کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے ؟ یہ رشد و ہدایت کے دو سرچشمے ہیں جو قیامت تک عالم اسلام کو سیراب کرنے کےلیے کافی ہیں ۔ ان کے ہوتے ہوئے کسی مدعی نبوت کا آنا گمراہی ہے ۔
پاکستان میں عقیدہ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تحریک ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بہت کچھ لکھا گیابہت کچھ سنایا گیا ۔ فقیر نے بھی اپنی بسا کے مطابق اس پر لکھا الحَمْدُ ِلله ۔ فقیر چشتی اپنے اس مضمون میں ریاست پاکستان کے آئین و قانون کی روشنی میں ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر چند معروضات پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے ۔ پاکستان کے تمام مسلمانوں کےلیے آئین و قانون میں درج ان معلومات بارے آگاہی بہت ضروری ہے ۔ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل1 (1) کے مطابق : مملکت پاکستان اک جمہوریہ ہوگی جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگا ۔
آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 2 کے مطابق : اسلام پاکستان کا ریاستی مذہب ہوگا ۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 2 (a) کے مطابق : قراد داد مقاصد 1949 کو آئینِ پاکستان کا preamble یعنی تمہیدبنا دیا گیا ۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 260 (3) (a) کے مطابق مسلمان کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے : مسلما ن سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی وحدت و توحید قادر مطلق اللہ تبارک تعالیٰ اور خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط طور پر ایمان رکھتا ہواور ایک نبی یا مذہبی مصلح کے طور پر کسی ایسے شخص پر نہ ایمان رکھتا ہواور نہ اسے مانتا ہوجس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اس لفظ کے کسی بھی مفہوم یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا ہو یا جو دعویٰ کرے ۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 260 (3) (b) کے مطابق غیر مسلم کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے : غیر مسلم سے ایسا شخص مراد ہے جو مسلمان نہ اور اس میں عیسائی ، ہندو ، سکھ ، بدھ یا پارسی فرقے سے تعلق رکھنے والا شخص ، قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کا (جو خود کو ’احمدی‘ یا کسی اور نام سے موسوم کرتے ہیں) کوئی شخصی یا کوئی بہائی ، اور کسی درج فہرست ذاتوں سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص شامل ہے ۔ (چشتی)
آئینِ پاکستان میں ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمان کی واضح تعریف کے بعد کس بھی قسم کے غیر آئینی اقدام کی روک تھام کےلیے مجموعہ تعریزاتِ پاکستان یعنی پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 298 میں 1984 میں ایک آرڈیننس کے تحت ترمیم کی گئی ۔ پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 298 (B) (1) کے مطابق : قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کا کوئی بھی فرد (جو اپنے آپ کو 'احمدی' کہتے ہیں یا کسی دوسرے نام سے جو الفاظ کے ذریعے ، یا تو بولے یا لکھے ، یا ظاہری نمائندگی کے ذریعے درج ذیل افعال کرے : ⏬
(الف) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلیفہ یا صحابی کے علاوہ کسی بھی شخص کو ''امیر المومنین''، ''خلیفۃ المومنین''، خلیفۃ المسلمین''، ''صحابی'' یا ''رضی اللہ عنہ'' کے طور پر منسوب یا مخاطب کرے ۔
(ب) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی زوجہ محترمہ کے علاوہ کسی ذات کو ''ام المومنین'' کے طور پر منسوب یا یا مخاطب کرے ۔
(ج) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان ''اہل بیت'' کے کسی فرد کے علاوہ کسی بھی فرد کو ''اہل بیت'' کے طور پر منسوب یا مخاطب کرے ۔
(د) اپنی عبادت گاہ کو ''مسجد'' کے طور پر منسوب کرے یا موسوم کرے یا پکارے ۔
درج بالا جرائم کی صورت میں اس شخص کو قید کی سزا دی جائے گی جو کہ تین سال تک ہو سکتی ہے ، اور جرمانے کے قابل بھی ہو گا ۔ پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 298 (B) (2) کے مطابق : قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کا کوئی بھی فرد (جو اپنے آپ کو ''احمدی'' یا کسی اور نام سے پکارتا ہے) جو الفاظ کے ذریعے ، یا تو بولے یا لکھے ، یا ظاہری نمائندگی کے ذریعے ، اپنے مذہب میں عبادت کےلیے بلانے کے طریقے یا صورت کو اذان کے طور پر منسوب کرے یا اس طرح اذان دے جس طرح مسلمان دیتے ہیں ۔ اسے دونوں میں سے کسی ایک صورت میں قید کی سزا دی جائے گی جو کہ تین سال تک ہو سکتی ہے ، اور جرمانے کے قابل بھی ہو گا ۔ (چشتی)
مسلمانانِ عالم کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آخری نبی ہونے پر اجماع اور عقیدہ جہاد 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد اسلام دشمن طاقتوں بالخصوص انگریزوں کےلیے سوہان روح بنا ہوا تھا اور ہے ۔ ان کی شدید خواہش تھی اور ہے کہ کسی طرح کوئی ایسا اہتمام ہو جائے کہ مسلمانوں کے دل سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و عقیدت اور جہاد کی روح دونوں ختم ہو جائیں ، اب چونکہ ایک نبی کے حکم میں ترمیم و تنسیخ دوسرے نبی کے ذریعے ہی سے ہوتی ہے ، چنانچہ حکومتِ برطانیہ کی سرپرستی اور لالچ پر سیالکوٹ کی ضلع کچہری کے ایک منشی مرزا غلام احمد قادیانی مردود نے اپنے نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کیا ۔ وہ گورداسپور (بھارت) کی تحصیل بٹالہ کے ایک پسماندہ گاٶں قادیان کا رہنے والا تھا ۔ آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی نے پہلے خود کو عیسائیت اور ہندو مخالف مناظر کی حیثیت سے متعارف کروایا اور مسلمانوں کی جذباتی اور نفسیاتی ہمدردیاں حاصل کیں ۔ پھر مجدد ، محدث ، امتی نبی ، ظلی نبی ، بروزی نبی ، مثیل مسیح اور مسیح موعود کا دعویٰ کرتے ہوئے انجام کار باقاعدہ امرو نہی کے حامل ایک صاحب شریعت نبی ہونے کے اِدعا تک جا پہنچا ۔ یعنی باقاعدہ نبی و رسول ہونے کا دعویٰ کیا ، حتیٰ کہ اعلان کیا کہ وہ خود ’’محمد رسول اللہ‘‘ ہے (نعوذ باللہ) پھر اس کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے کہا کہ قادیان میں اللہ تعالیٰ نے مرزا قادیانی کی شکل میں دوبارہ ’’محمد رسول اللہ‘‘ کو بھیجا ۔ مزید کہا کہ مرزا قادیانی خود ’’محمد رسول اللہ‘‘ ہے نعوذ باللہ ، جو اشاعت اسلام کےلیے دوبارہ دنیا میں آیا ، اس لیے ہمیں کسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں ، کیونکہ اب کلمہ طیبہ میں ’’محمد رسول اللہ‘‘ سے مراد مرزا قادیانی ہے ۔ قادیانی آنجہانی مرزا قادیانی کو ’’محمد رسول اللہ‘‘ ، اس کی بیوی کو ’’ام المومنین‘‘ اس کی بیٹی کو ’’سیدۃ النسا‘‘ اس کے خاندان کو ’’اہل بیت‘‘ اس کے خاص مریدوں کو ’’صحابہ‘‘ اس کی نام نہاد وحی و الہامات کو ’’قرآن مجید‘‘ اس کی گفتگو کو ’’احادیث‘‘ اس کے شہر قادیان کو ’’مکہ‘‘ ، ربوہ کو ’’مدینہ‘‘ اور اس کے قبرستان کو ’’جنت البقیع‘‘ قرار دیتے ہیں ۔ بلاشبہ یہ سب باتیں ایک ادنیٰ سے ادنیٰ بلکہ فاسق و فاجر مسلمان کےلیے بھی ناقابل برداشت ہیں اور اس کرۂ ارض پر کوئی بے حمیت مسلمان بھی ایسا نہیں جو کسی سے ایسی گستاخانہ باتیں سننا گوارا کرے ۔ اسلام اور اس کی مقدس شخصیات کے خلاف قادیانیوں کی گستاخیوں اور ہرزہ سرائیوں کو اکٹھا کیا جائے تو کئی دفتر تیار ہو سکتے ہیں۔ قادیانیوں کی طرف سے شان رسالت میں کی جانے والی بعض گستاخیاں ایسی ہیں جنھیں پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتاہے۔
پنڈت جواہر لعل نہرو کے نام ایک خط میں علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے فرمایا تھا : قادیانی اسلام اور ملک دونوں کے غدار ہیں ۔ قادیانیوں کے کفریہ عقائد و عزائم کی بناء پر ملک کی منتخب جمہوری حکومت نے متفقہ طور پر 7 ستمبر 1974ء کو انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا اور آئین پاکستان کی شق 106(2) اور 260 (3) میں اس کا اندراج کر دیا ۔ جمہوری نظامِ حکومت میں کوئی بھی اہم فیصلہ ہمیشہ اکثریتی رائے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے لیکن یہ دنیا کی تاریخ کا واحد واقعہ ہے کہ حکومت نے فیصلہ کرنے سے پہلے قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا ناصر کو پارلیمنٹ کے سامنے اپنا نکتہ نظر پیش کرنے کےلیے بلایا ۔ اسمبلی میں اس کے بیان کے بعد حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار نے قادیانی عقائد کے حوالے سے اُس پر جرح کی ، جس کے جواب میں مرزا ناصر نے نہ صرف مذکورہ بالا تمام عقائد و نظریات کا برملا اعتراف کیا بلکہ باطل تاویلات کے ذریعے ان کا دفاع بھی کیا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ قادیانی پارلیمنٹ کے اس متفقہ فیصلے کو تسلیم کرنے سے یکسر انکاری ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا کی کوئی حکومت ، پارلیمنٹ یا کوئی اور ادارہ انہیں ان کے عقائد کی بناء پر غیر مسلم قرار نہیں دے سکتا ، بلکہ الٹا وہ مسلمانوں کو کافر اور خود کو مسلمان کہتے ہیں اور آئین میں دی گئی اپنی حیثیت تسلیم نہیں کرتے ۔ (چشتی)
قادیانی پوری دنیا میں شور مچاتے ہیں کہ پاکستان میں ہم پر ظلم ہو رہا ہے ۔ ہمارے حقوق غصب کیے جارہے ہیں ۔ ہمیں آزادی اظہار نہیں ہے ۔ وہ کبھی اقوام متحدہ سے اپیلیں کرتے ہیں ، کبھی یہودیوں اورعیسائیوں سے دباٶ ڈلواتے ہیں ۔ حالانکہ ہم بڑی سادہ سی جائز بات کہتے ہیں کہ تم مرزا قادیانی کو محمد رسول اللہ نہ کہو ۔ کلمہ طیبہ مسلمانوں کا ہے ، تم اس پر قبضہ نہ کرو یعنی شراب پر زم زم کا لیبل نہ لگاٶ لیکن قادیانی اس سے باز نہیں آتے بلکہ الٹا اسلام کے نام پر اپنے خود ساختہ عقائد و نظریات کی تبلیغ و تشہیر کرتے ہیں ۔
قادیانیوں کو شعائرِ اسلام کے استعمال اور اس کی توہین سے روکنے کےلیے 26 اپریل 1984ء کو حکومت پاکستان نے امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری کیا ، جس کی رو سے قادیانی خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے اور اپنے مذہب کےلیے اسلامی شعائر و اصطلاحات استعمال نہیں کر سکتے ۔ اس سلسلہ میں تعزیراتِ پاکستان میں ایک نئی فوجداری دفعہ 298/C کا اضافہ کیا گیا ۔ ملاحظہ فرمائیں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298/C : ’’ قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ (جو خود کو احمدی یا کسی دوسرے نام سے موسوم کرتے ہیں) کا کوئی شخص جو بلا واسطہ یا بالواسطہ خود کو مسلمان ظاہر کرے یا اپنے مذہب کو اسلام کے طور پر موسوم کرے یا منسوب کرے یا الفاظ کے ذریعے خواہ زبانی ہوں یا تحریری یا مرئی نقوش کے ذریعے اپنے مذہب کی تبلیغ یا تشہیر کرے یا دوسروں کو اپنا مذہب قبول کرنے کی دعوت دے یا کسی بھی طریقے سے مسلمانوں کے مذہبی احساسات کو مجروح کرے ، کو کسی ایک قسم کی سزائے قید اتنی مدت کےلیے دی جائے گی جو تین سال تک ہو سکتی ہے اور جرمانے کا بھی مستوجب ہو گا ۔
قادیانیوں نے اس پابندی کو وفاقی شرعی عدالت ، لاہور ہائی کورٹ، کوئٹہ ہائی کورٹ وغیرہ میں چیلنج کیا، جہاں انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ۔ بالآخر قادیانیوں نے پوری تیاری کے ساتھ سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل دائر کی کہ انہیں شعائرِ اسلامی استعمال کرنے کی اجازت دی جائے ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل بنچ جو جناب جسٹس عبدالقدیر چودھری صاحب ، جناب جسٹس شفیع الرحمن ، جناب جسٹس محمد افضل لون صاحب ، جناب جسٹس سلیم اختر صاحب ، جناب جسٹس ولی محمد خاں صاحب پر مشتمل تھا ، نے اس کیس کی مفصل سماعت کی ۔ دونوں اطراف سے دلائل و براہین دیے گئے ۔ اصل کتابوں سے متنازع ترین حوالہ جات پیش کیے گئے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے یہ جج صاحبان کسی دینی مدرسہ یا اسلامی دارالعلوم کے مفتی صاحبان نہیں تھے بلکہ انگریزی قانون پڑھے ہوئے تھے ۔ ان کا کام آئین و قانون کے تحت انصاف مہیا کرنا ہوتا ہے ۔ فاضل جج صاحبان نے جب قادیانی عقائد پر نظر دوڑائی تو وہ لرز کر رہ گئے ۔ فاضل جج صاحبان کا کہنا تھا کہ قادیانی اسلام کے نام پر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں جبکہ دھوکہ دینا کسی کا بنیادی حق نہیں ہے اور نہ ہی اس سے کسی کے حقوق سلب ہوتے ہیں ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل بنچ کے تاریخی فیصلہ ظہیرالدین بنام سرکار ، (1993 SCMR 1718) کی رو سے کوئی قادیانی خود کو مسلمان نہیں کہلوا سکتا اور نہ ہی اپنے مذہب کی تبلیغ کر سکتا ہے ۔ خلاف ورزی کی صورت میں وہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295-C اور 298-C کے تحت سزائے موت کا مستوجب ہے (جسٹس قاضی فاٸز عیسیٰ نے آٸین و قانونِ پاکستان سے غداری کی ہے اس لیے اب وہ چیف جسٹس کے منصب کے اہل نہیں رہے ان کے خلاف تعزیراتِ پاکستان کے تحت کارواٸی کی جاۓ) ۔ اس کے باوجود قادیانی آئین ، قانون اور اعلیٰ عدالتی فیصلوں کا مذاق اڑاتے ہوئے خود کو مسلمان کہلواتے ، اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے، گستاخانہ لٹریچر تقسیم کرتے، شعائر اسلامی کا تمسخر اڑاتے اور اسلامی مقدس شخصیات و مقامات کی توہین کرتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ قادیانیوں کی ان آئین شکن ، خلاف قانون اور انتہائی اشتعال انگیز سرگرمیوں پر قانون نافذ کرنے والے ادارے مجرمانہ غفلت اور خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں جس سے بعض اوقات لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے ۔ خود سپریم کورٹ کے فل بنچ نے اپنے نافذ العمل فیصلہ میں لکھا : ⏬
یہ بات قابل غور ہے کہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے قوانین ، ایسے الفاظ اور جملوں کے استعمال کا تحفظ کرتے ہیں ، جن کا مخصوص مفہوم و معنی ہو اور اگر وہ دوسروں کےلیے استعمال کیے جائیں تو لوگوں کو دھوکہ دینے اور گمراہ کرنے کا سبب بن سکتے ہیں ۔ جو لوگ دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں ، ان کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے ۔ پاکستان ایسی نظریاتی ریاست میں قادیانی جو کہ غیر مسلم ہیں ، اپنے عقیدہ کو اسلام کے طوپر پیش کر کے دھوکہ دینا چاہتے ہیں ۔ یہ بات خوش آئند اور لائق تحسین ہے کہ دنیا کے اس خطے میں عقیدہ آج بھی ہر مسلمان کےلیے سب سے قیمتی متاع ہے ، وہ ایسی حکومت کو ہرگز برداشت نہیں کرے گا جو اسے ایسی جعل سازیوں اور دسیسہ کاریوں سے اسے تحفظ فراہم کرنے کو تیار نہ ہو ۔ قادیانی اصرار کرتے ہیں کہ انہیں نہ صرف اپنے مذہب کو اسلام کے طور پر پیش کرنے کا لائسنس دیا جائے بلکہ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ اسلام کی انتہائی محترم و مقدس شخصیات کے ساتھ استعمال ہونے والے القابات اور خطابات وغیرہ کو ان گستاخ غیر مسلموں (مرزا قادیانی اور اس کے خلیفوں) کے ناموں کے ساتھ چسپاں کیا جائے ، جو مسلم شخصیات کی جوتی کے برابر بھی نہیں ۔ حقیقتاً مسلمان اس اقدام کو اپنی عظیم ہستیوں کی بے حرمتی اور توہین و تنقیص پر محمول کرتے ہیں ۔ پس قادیانیوں کی طرف سے ممنوعہ القابات اور شعائر اسلامی کے استعمال پر اصرار اس بارے میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہنے دیتا کہ وہ قصدا ایسا کرنا چاہتے ہیں جو نہ صرف ان مقدس ہستیوں کی بے حرمتی کرنے بلکہ دوسروں کو دھوکہ دینے کے مترادف بھی ہے ۔ اگر کوئی مذہبی گروہ (قادیانیت) دھوکہ دہی اور فریب کاری کو اپنا بنیادی حق سمجھ کر اس پر اصرار کرے اور اس سلسلے میں عدالتوں سے مدد کا طلبگار ہو تو اس کا خدا ہی حافظ ہے ۔ اگر قادیانی دوسروں کو دھوکہ دینے کا ارادہ نہیں رکھتے تو وہ اپنے مذہب کےلیے نئے القابات وغیرہ کیوں وضع نہیں کر لیتے ؟ کیا انہیں اس بات کا احساس نہیں کہ دوسرے مذاہب کے شعائر ، مخصوص نشانات ، علامات اور اعمال پر انحصار کرکے وہ خود اپنے مذہب کی ریا کاری کا پردہ چاک کریں گے ۔ اس صورت میں اس کے معانی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ ان کا نیا مذہب ، اپنی طاقت ، میرٹ اور صلاحیت کے بل پر ترقی نہیں کر سکتا یا فروغ نہیں پاسکتا بلکہ اسے جعل سازی و فریب پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے ؟ آخر کار دنیا میں اور بھی بہت سے مذاہب ہیں ، انہوں نے مسلمانوں یا دوسروں لوگوں کے القابات وغیرہ پر کبھی غاصبانہ قبضہ نہیں کیا، بلکہ وہ اپنے عقائد کی پیروی اور اس کی تبلیغ بڑے فخر سے کرتے ہیں ۔ ہر مسلمان کےلیے جس کا ایمان پختہ ہو ، لازم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اپنے بچوں ، خاندان ، والدین اور دنیا کی ہر محبوب ترین شے سے بڑھ کر پیار کرے ۔ (صحیح بخاری کتاب الایمان باب حب الرسول من الایمان) ۔ کیا ایسی صورت میں کوئی کسی مسلمان کو موردِ الزام ٹھہرا سکتا ہے ۔ اگر وہ ایسا دل آزار مواد جیسا کہ مرزا قادیانی مردود نے تخلیق کیا ہے سننے ، پڑھنے یا دیکھنے کے بعد اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے ؟ ہمیں اس پس منظر میں قادیانیوں کے صد سالہ جشن کی تقریبات کے موقع پر قادیانیوں کے علانیہ رویہ کا تصور کرنا چاہیے اور اس ردِ عمل کے بارے میں سوچنا چاہیے ، جس کا اظہار مسلمانوں کی طرف سے ہو سکتا تھا ۔ اس لیے اگر کسی قادیانی کو انتظامیہ کی طرف سے یا قانوناً شعائر اسلام کا علانیہ اظہار کرنے یا انہیں پڑھنے کی اجازت دے دی جائے تو یہ اقدام اس کی شکل میں ایک اور ’’رشدی‘‘ (یعنی رسوائے زمانہ گستاخ رسول ملعون سلمان رشدی جس نے شیطانی آیات نامی کتاب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں بے حد توہین کی) تخلیق کرنے کے مترادف ہو گا ۔ کیا اس صورت میں انتظامیہ اس کی جان ، مال اور آزادی کے تحفظ کی ضمانت دے سکتی ہے اور اگر دے سکتی ہے تو کس قیمت پر ؟ رد عمل یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی قادیانی سرعام کسی پلے کارڈ ، بیج یا پوسٹر پر کلمہ کی نمائش کرتا ہے یا دیوار یا نمائشی دروازوں یا جھنڈیوں پر لکھتا ہے یا دوسرے شعائر اسلامی کا استعمال کرتا یا انہیں پڑھتا ہے تو یہ علانیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام نامی کی بے حرمتی اور دوسرے انبیائے کرام علیہم السلام کے اسمائے گرامی کی توہین کے ساتھ ساتھ مرزا قادیانی مردود کا مرتبہ اونچا کرنے کے مترادف ہے جس سے مسلمانوں کا مشتعل ہونا اور طیش میں آنا ایک فطری بات ہے اور یہ چیز نقض امن عامہ کا موجب بن سکتی ہے ، جس کے نتیجہ میں جان و مال کا نقصان ہو سکتا ہے ۔ ہم یہ بھی نہیں سمجھتے کہ قادیانیوں کو اپنی شخصیات ، مقامات اور معمولات کے لیے نئے خطاب، القاب یا نام وضع کرنے میں کسی دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ آخر کار ہندوٶں ، عیسائیوں ، سکھوں اور دیگر برادریوں نے بھی تو اپنے بزرگوں کےلیے القاب و خطاب بنا رکھے ہیں ۔ (ظہیر الدین بنام سرکار1993 SCMR 1718) ۔ (چشتی)
آئین ، قانون اور عدالتی فیصلوں کے باوجود قادیانی تقریر و تحریر ، جلسہ و جلوس ، لٹریچر کی تقسیم اور اپنے اجتماعات منعقد کر کے اسلامی اصطلاحات کو استعمال کرتے اور شعائر اسلامی کی توہین کرتے رہتے ہیں ۔ اس سلسلہ میں انہیں انتظامیہ کی مکمل سرپرستی حاصل رہتی ہے ۔ بہت کم افسران ایسے ہیں جو تعزیرات پاکستان میں موجود قادیانیوں کی خلافِ اسلام سرگرمیوں پر پابندی کی دفعہ 298/C اور اس کی عدالتی تاریخ سے واقف ہوں ۔ یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے کہ پورے پاکستان میں شاید ایک بھی افسر ایسا نہیں جس نے قادیانیوں کی طرف سے توہین رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجتماعی اور مسلسل ارتکاب پر سپریم کورٹ کے اس مذکورہ تاریخی فیصلہ کے مطالعہ کی زحمت گوارہ کی ہو جو پاکستان میں امن و امان قائم کرنے میں ایک سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے ۔ یہ فیصلہ اس وقت قانون کی بھاری کتابوں میں تو موجود ہے مگر آج تک اس کے کسی ایک جز پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا ۔ اس سے بھر کر قانون کے ساتھ اور کیا شرمناک مذاق ہو سکتا ہے ؟ حکومت اگر پارلیمنٹ اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے تو وہ قادیانیوں کو آئین قانون اور عدالتی فیصلوں کا پابند کرے تاکہ ملک بھر میں کہیں بھی لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا نہ ہو ۔ پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 298 (C) کے مطابق : قادیانی گروہ یا لاہوری گروہ کا کوئی فرد (جو اپنے آپ کو 'احمدی' یا کسی اور نام سے پکارتا ہے) ، جو بالواسطہ یا بلاواسطہ خود کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ، یا اپنے عقیدے کو اسلام کہتا ہے ، یا اپنے عقیدے کی تبلیغ کرتا ہے یا اس کی تبلیغ کرتا ہے، یا دوسروں کو اپنے عقیدے کو قبول کرنے کی دعوت دیتا ہے، الفاظ کے ذریعے ، یا تو بولے یا تحریری، یا ظاہری نمائندگی کے ذریعے، یا کسی بھی طریقے سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی صورت میں کی قید کی سزا دی جائے گی جس کی مدت تین سال تک ہو سکتی ہے اور جرمانہ بھی ہو سکتا ہے ۔ اللہ کریم ہم سب کو پکا سچا مسلمان بنائے اور زندگی کے آخری سانس تک عقیدہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قائم دائم اور اس عقیدہ کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment