Thursday 15 February 2024

سیرت و تعلیماتِ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ

0 comments

سیرت و تعلیماتِ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ

محترم قارئینِ کرام : حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے میدان کربلا میں جس طرح اس اذان اور لعابِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نوش کرنے اور نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہونے کی لاج رکھی اور اس موقع پر راہ عزیمت اختیار کرتے ہوئے جس جرأت و ہمت کا مظاہرہ کیا ، جس انداز میں اسلامی نظام خلافت کے احیاء کی خاطر قربانی دینے اور جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی مثال قائم کی اور شدید مصائب برداشت کیے ، اس کی نظیر انسانی تاریخ میں نظر نہیں آتی ۔ میدان کربلا میں آپ کی ، آپ کے اہل خانہ کی اور آپ کے جملہ اعوان و انصار کی اسی غیر معمولی ثابت قدمی ، جوان مردی ، وفا شعاری ، شدائد و مصائب اور انتہائی مظلومیت کی شہادت نے مورخین ، تذکرہ نگاروں اور سوانح نگاروں کی زیادہ تر توجہ کو آپ کی مظلومانہ شہادت اور کربلا میں پیش آنے والے افسوس ناک بلکہ الم ناک واقعات اور مصائب کی طرف مبذول کیے رکھا ۔ اسی پسِ منظر میں زبانِ نبوت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بیان ہونے والی آپ رضی اللہ عنہ کی فضیلت و منقبت ، شفقت و محبت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وہبی کمالات پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی گئی مگر آپ رضی اللہ عنہ کی زندگی کے اخلاقی امور ، معاشرتی پہلو اور دیگر معاملات کو بہت کم اجاگر کیا گیا بلکہ اس سے غفلت برتی گئی اور برتی جا رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کبار مؤرخین مثلاً صاحب اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ ، صاحب الاستعیاب فی معرفۃ الاصحاب ، صاحب الاصابہ فی تمییز الصحابہ اور ابن کثیر وغیرہ کے ہاں بھی حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی زندگی کے علمی ، اخلاقی و معاشرتی پہلو پر بہت کم مواد ملتا ہے اور آپ رضی اللہ عنہ کی زندگی کا یہ گوشہ تشنہ سا لگتا ہے ۔ مشہور مورخ شاہ معین الدین احمد ندوی نے اس کمی کا شکوہ یوں کیا ہے : تمام ارباب سیر آپ رضی اللہ عنہ کے کمالاتِ علمی کے معترف ہیں ۔ علامہ ابن عبدالبر ، امام نووی ، علامہ ابن اثیر اور دیگر ارباب سیّر اس بات پر متفق ہیں کہ امام حسین رضی اللہ عنہ بڑے فاضل تھے لیکن افسوس اس اجمالی سند کے علاوہ واقعات کی صورت میں ان کمالات کو کسی سیرت نگار نے قلم بند نہیں کیا ۔ (سیرالصحابہ معارف اعظم گڑھ طبع دوم 1951ء جلد 6 صفحہ 243)

بالکل یہی حال ان کی اخلاقی عظمت و پاکیزگی اور حسنِ اخلاق کا ہے ۔ سیرت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا یہ پہلو جس تفصیل و تشریح کا متقاضی تھا وہ عام تذکروں میں نہیں پائی جاتی جبکہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شہادت کے وقت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی عمر تقریباً چھپن سال کی ہوچکی تھی۔ چھپن سال کا یہ عرصہ آپ نے خیرالقرون میں اسلامی بلکہ انسانی تاریخ کے سب سے بہترین معاشرے میں گزارا۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ کی ابتدائی تعلیم و تربیت بھی صاحبِ خلق عظیم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود فرمائی ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے جس عظیم ماں کی گود میں پرورش پائی اس کی پاک دامنی اور طہارت پر قرآن و حدیث گواہ ہیں ، نانا جان علیہ التحیۃ والسلام کے وصال کے بعد امام حسین رضی اللہ عنہ کی تعلیم و تربیت اس باپ نے فرمائی جو علم و عمل کا مجمع البحرین تھے اور جس کے علمی و عملی کمالات اور فضائل و محاسن پر قرآن و حدیث کے علاوہ تاریخِ اسلام کی گواہی ثبت ہے ۔ حضرت امام حسین بن حضرت مولا علی رضی اللہ عنہما کی تعلیم و تربیت کے درج بالا خدائی انتظامات اور خود قرآن و سنت پر عبور حاصل ہونے کے بعد کیسے ممکن تھا کہ آپ ایک عظیم اور اسلامی تعلیمات کے مطابق معاشرتی اخلاق و آداب کی حامل شخصیت کا درجہ نہ پاتے ۔ چنانچہ آپ کی اخلاقی و علمی عظمت و رفعت کے حوالے سے بعض ایمان افروز چیزیں ، شروح حدیث ، تذکرہ ، تاریخ اور سوانح وغیرہ کی کتابوں میں جستہ جستہ مل جاتی ہیں ۔ اس لیے آئندہ سطور میں فقیر چشتی آپ کے عمومی فضائل و مناقب ، ذوق عبادت ، علمی فضائل و کمال ، سوانح حیات ، الم ناک شہادت اور واقعات کربلا (جن پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور لکھا جارہا ہے) کی بجائے آپ رضی اللہ عنہ کی اخلاقی و علمی عظمت کی چند ایمان افروز جھلکیاں پیش کرنے کی کوشش کرے گا ان شاء اللہ :

حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی عملی اور معاشرتی زندگی میں جن مکارمِ اخلاق یا جس بلند اخلاقی اور حسنِ اخلاق کا مظاہرہ کیا اس میں جہاں ان کی خاندانی شرافت و نجابت ، حسب و نسب ، پاکیزہ گھریلو ماحول ، خانوادہ نبوت کی تعلیم و تربیت ، صحبتِ صحابہ رضی اللہ عنہم اور مدینہ منورہ کے عمومی پاکیزہ ماحول کا عمل دخل تھا وہاں ان کی اخلاقی پاکیزگی میں خصوصی دعاءِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی کار فرما تھی :عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلْمَۃَ رَبِیْبِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ ہَذِہِ الْآیَۃُ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم {إِنَّمَا یُرِیْدُ اللهُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا} ۔ (الأحزاب، 33:33) فِي بَیْتِ أُمِّ سَلَمَۃَ فَدَعَا فَاطِمَةَ، وَحَسَنًا، وَحُسَیْنًا، فَجَلَّلَهُمْ بِکِسَاءٍ، وَعَلِيٌّ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَجَلَّلَهُ بِکِسَاءٍ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ، هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَیْتِي، فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَہِّرْهُمْ تَطْهِیْرًا ۔
ترجمہ : حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پروردہ حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب اُم المؤمنین اُم سلمہ رضی الله عنہا کے گھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر یہ آیت ’’اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے ۔ نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ اور حسنین کریمین سلام الله علیہم کو بلایا اور انہیں ایک کملی میں ڈھانپ لیا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیچھے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں بھی کملی میں ڈھانپ لیا ، پھر فرمایا : اے الله ! یہ میرے اہل بیت ہیں ، پس ان سے ہر قسم کی آلودگی دور فرما اور انہیں خوب پاک و صاف کر دے ۔ (أخرجہ الترمذی فی السنن، کتاب: تفسیر القرآن عن رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم، باب:ومن سورة الأحزاب،5/351، الرقم: 3205،چشتی)

مذکورہ بالا روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اہلِ بیت اطہار رضی اللہ عنہم سے جس ’’الرجس‘‘ (پلیدی) دور کیے جانے کی بطور خاص دعا فرمائی تو اس لفظ کے معنیٰ پر ایک نظر ڈال لینا بے جانہ ہو گا تاکہ اس کی وسعت کا کچھ اندازہ ہو جائے ۔ الفاظ قرآن مجید کے لغوی معانی کےلیے مستند ترین ماخذ ’’المفردات فی غریب القرآن‘‘ میں علامہ راغب اصفہانی علیہ الرحمہ نے اس کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے : الرجس الشئی القذر ۔۔۔ والرجس یکون علی اربعة اوجه اما من حیث الطبع واما من جهة العقل واما من جهة الشرع واما من کل ذالک کالمیتة ۔
ترجمہ : رجس گندی ، پلید ، میلی اور قابل نفرت چیز کو کہتے ہیں ۔۔۔ اب کسی چیز کا گندہ یا پلید ہونا چار وجہ سے ہو سکتا ہے یا تو طبعی اعتبار سے وہ چیز گندی ہو گی یا عقل کی جہت سے یا شرعی اعتبار سے یا اس کا گندا ہونا ان ساری وجوہ کی بنیاد پر ہو گا جیسے مردار کا گند اور قابل نفرت ہونا ۔ (المفردات فی غریب القرآن صفحہ 187)

جبکہ مشہور شارح حدیث علامہ نووی علیہ الرحمہ نے لفظ ’’الرجس‘‘ کا معنی یہ بتایا ہے کہ : الرجس قیل ھو الشک وقیل العذاب وقیل الاثم قال الازهری الرجس اسم لکل مستقذر من عمل ۔
ترجمہ : رجس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ شک ہے اس کا معنی عذاب اور گناہ بھی کیا گیا ہے اور علامہ ازہری کہتے ہیں کہ رجس کا اطلاق ہر گندے اور ناپاک عمل پر ہوتا ہے ۔ (شرح صحیح مسلم مع الصحیح کتاب و باب مذکور جلد 2 صفحہ 283)

امام ملا علی قاری علیہ الرحمہ  نے ’’الرجس‘‘ کا معنی الاثم وکل ما مستقذر مرواہ بتایا ہے ۔ (مرقاة المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح، باب مناقب اهل بیت النبی صلی الله علیه وآله وسلم جلد 11 صفحہ 370)
یعنی ہر ظاہری و باطنی گناہ اور ہر وہ عمل جو انسانی مروت کے خلاف ہو ۔

اس دعائے نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فیض تھا کہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اخلاقی و علمی عظمت کے اعتبار سے اسی بلند درجہ پر فائز تھے جو آپ کے شایان شان تھا ۔ چنانچہ نامور تذکرہ نگار ابن الاثیر علیہ الرحمہ نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے عمومی اخلاق و عادات اور خصائل کی طرف اجمالی طور پر یوں اشارہ کیا ہے : وکان الحسین رضی الله عنه فاضلا کثیر الصوم والصلوة والحج والصدقة و افعال الخیر جمیعا ۔
ترجمہ : حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ بڑی فضیلت کے مالک ، کثرت سے روزہ ، نماز ، حج ادا کرنے والے ، صدقہ دینے والے اور تمام افعالِ خیر سر انجام دینے والے تھے ۔ (اسدالغابہ جلد 2 صفحہ 23،چشتی)

حسنینِ کریمین رضی اللہ عنہما کاعلم و فضل

حضرت امام حَسن اور امام حُسین رضی اللہ عنہما نے چونکہ مَدِیْنَۃُ الْعِلْم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور بابِ مَدِیْنَۃُ الْعِلْم امیرُالمؤمنین حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی زیرِ نگرانی پَرْوَرِش پائی ، تو اِن دونو ں مُعَظَّم ہستیوں کے  فیضانِ تَرْبِیَت کی برکت سے دونوں شہزادے بھی عِلم و فَضْل میں مُمتاز و نُمایاں مَقام رکھتے ہیں ۔ آئیے دونوں کے عِلمی مقام و مرتبے کے بارے میں پڑھتے ہیں ۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ عُمر بھر احادیثِ مُبارکہ سیکھنے اور اِن کی اِشاعت و تَرْوِیْج میں کُوشاں رہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے براہِ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے احادیث سنیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عِلاوہ اپنے والد حضرتِ علی ، بھائی امامِ حُسین اور دیگر اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم سے احادیث روایت کیں ۔ اور آپ رضی اللہ عنہ اپنی اور اپنے بھائی کی اَوْلاد کو حُصُولِ تَعلیم کے بارے میں بڑی تاکید کرتے ، ایک بار  اِرشاد فرمایا : علم حاصل کرو ! آج تو تم قوم میں سب سے چھوٹے ہو ۔ لیکن کل تم اِن کے بڑے بنو گے ۔ اور تم میں سے جس میں یاد رکھنے کی طاقت نہ ہو تو اُسے چاہیے کہ وہ لکھ لیا کرے ۔ (تاریخ دمشق جلد ۱۳ صفحہ ۲۵۹،چشتی)

آپ رضی اللہ عنہ کے عِلْم و فَضْل کا اندازہ آپ رضی اللہ عنہ کے اِن جوابات سے لگایا جا سکتا ہےجو آپ رضی اللہ عنہ سے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے پوچھے ۔ آئیے اِن حَضْرات کی عِلْم و حِکمت سے بھر پور گفتگو سے  چند پھول پیشِ خدمت ہیں : ⬇

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے اِسْتِفْسَار فرمایا : میرے بیٹے بتاؤ ! راست رَوِی (یعنی سچائی ودِیانَتْداری) کیا ہے ؟

عرض کی : راست رَوِی بھلائی کے ذریعے بُرائی کو دُور کرنے کا نام ہے ۔

پھر اِسْتِفْسَارفرمایا : عزّت و بلندیِٔ مرتبہ کس چیز میں ہے ؟

عرض کی : رِشتہ داروں اور قبیلہ والوں کے ساتھ بھلائی و تَعَاوُن کرنے میں ۔

اِسْتِفْسَار کیا : شَفْقَت و مہربانی کس میں ہے ؟

عرض کی : قَنَاعت اِخْتِیار کرنے اور کسی کو حقیر وذلیل نہ جاننے میں ۔

اِسْتِفْسَار کیا : مَلامت کیا ہے ؟

عرض کی : خود کو محفوظ رکھنا اور دوسرے کو ذلیل و رُسوا کرنا ۔

اِسْتِفْسَار فرمایا : سَخَاوت کیا ہے ؟

عرض کی : تنگدستی اور خوش حالی میں خرچ کرنا ۔

اِسْتِفْسَار فرمایا : بُزْدِلِی کیا ہے ؟

عرض کی : دوست پر جُرأت مندی کا مُظَاہَرہ کرنا اور دشمن سے بھاگنا ۔

اِسْتِفْسَار فرمایا : حِلم (بُردباری) کیا ہے ؟

عرض کی : غُصّہ پی جانا اور نَفس کو قابو میں رکھنا ۔

اِسْتِفْسَار فرمایا : فَقْر کیا ہے ؟

عرض کیا : نفس کا ہر چیز کے مُعاملے میں حَرِیص ہونا ۔

اِسْتِفْسَار فرمایا : ذِلَّت کس چیز میں ہے ؟

عرض کی : سچائی کا سامنا کرتے وقت گھبرا جانے میں ۔

اِسْتِفْسَار فرمایا : بُزُرگی کیا ہے ؟

عرض کی : نقصان کرنے والے کو کچھ عَطا کرنا اور قُصُور وار کو مُعاف کر دینا ۔

اِسْتِفْسَار فرمایا : محرومی کیا ہے ؟

عرض کی : حصّہ ملنے پر انکار کر دینا ۔ (المعجم الکبیر حدیث نمبر ۲۶۸۸ جلد ۳ صفحہ ۶۸،چشتی)

حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا علم

اوپر ہم نےحضرت سیدنا امام حَسن رضی اللہ عنہ کے فرامینِ  مبارکہ سے علم و حِکمت کے  بہت سے پھول چننے کی سعادت حاصل کی ، آپ  رضی اللہ عنہ کے چھوٹے بھائی حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ بھی میدانِ علم میں یگانۂ روزگار (بے مثل) تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے بھی مَدِیْنَۃُ الْعِلْم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور بابِ مَدِیْنَۃُ الْعِلْم امیرُالمؤمنین حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سےعلمِ دین کا بیش بہا خزانہ پایا ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی علم سے بھر پور گُفتگو ایسی دلکش ہوا کرتی تھی کہ لوگوں کی یہ خواہش ہوتی آپ رضی اللہ عنہ خاموش نہ بیٹھیں بلکہ عِلم و حِکمت کے مہکتے پھول لُٹاتے ہی رہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے جدِکریم ، مومنوں کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اور اپنے والدِ محترم ، والدۂِ مُحترمہ اور امیرُالمؤمنین حضرت سیدنا عمرِ فاروق رضی اللہ عنہم سے احادیث سنیں اور رِوَایت کیں ۔ اور آپ رضی اللہ عنہ سے رِوَایت کرنے میں آپ رضی اللہ عنہ کے بھائی اما م حسن ، آپ کے شہزادے امام زینُ العابدین ، آپ کی صاحِبْزادیاں ، پوتے امام باقر رضی اللہ عنہم سمیت دیگر عُلماء و مُحَدِّثِیْن علیہم الرحمہ شامل ہیں ۔ (الاصابہ جلد ۲ صفحہ ۶۸،چشتی)

آپ رضی اللہ عنہ کا مُستقل علمی حلقہ مسجدِ نَبوی میں لگا ہوتا جس میں آپ رضی اللہ عنہ لوگوں کو فِقْہِی مسائل سے آگاہ فرماتے تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کے اس عِلمی حلقے کی شُہرت اتنی تھی کہ ایک بار حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ سے کسی نے امام حُسین رضی اللہ عنہ کے مُتعلِّق پوچھا ، تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مسجدِ نَبَوِی شریف میں چلے جاؤ اور جس حلقے میں لوگ یوں مُؤدَّب بیٹھے ہوں گویا اُن کے سروں پر پرندے ہوں تو جان لینا کہ یہی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی مَجْلس ہے ۔ (تاریخ دمشق جلد ۱۴ صفحہ ۱۸۱)

بڑے بھائی کا ادب و احترام

اسلامی اخلاق و آداب کی رو سے چھوٹے بھائیوں پر اپنے بڑے بھائی کا ادب و احترام اسی طرح لازم ہے جس طرح والد محترم کا احترام لازم ہوتا ہے ۔ چھوٹے بھائیوں کے سامنے بڑے بھائی کا مرتبہ و مقام شرعی نقطہ نظر سے والد کے برابر ہے چنانچہ اس چیز کی وضاحت اور تعلیم امت کی خاطر معلم اخلاق اور صاحب خلق عظیم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت سعید بن العاص سے مروی ایک حدیث میں فرمایا : حق کبیر الاخوة علی صغیرهم حق الوالد علی ولده ۔
ترجمہ : تمام بھائیوں میں بڑے بھائی کا حق چھوٹے بھائیوں پر اُس حق کے برابر ہے جو والد کو اپنی اولاد پر حاصل ہے ۔ (مشکوۃ المصابیح کتاب الآداب باب البر والصلة صفحہ 421،چشتی)

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے نانا جان صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس فرمان پر عمل کرتے ہوئے کس طرح اپنے بڑے بھائی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کا دل کی گہرائیوں سے احترام کیا ، اس کا نمونہ ملاحظہ ہو : ⬇

بڑا بھائی چھوٹے بھائی کے سامنے بنفسِ نفیس موجود ہو تو حیاء کا تقاضا ہوتا ہے کہ چھوٹا بڑے کا احترام کرے جبکہ سامنے موجود نہ ہونے کی صورت میں عموماً اس چیز کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا مگر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے بڑے بھائی جان حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے ادب و احترام کو غائبانہ طور پر بھی ملحوظ رکھا ۔ چنانچہ مشہور مورخ ابن قتیبہ نے یہ ایمان افروز اور سبق آموز واقعہ لکھا ہے کہ ایک آدمی نے حضرت امام حسن بن حضرت مولا علی رضی اللہ عنہما کے پاس آکر سوال کیا (بھیک مانگی) تو حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا : دیکھو بھیک مانگنا جائز نہیں سوائے بہت زیادہ مقروض یا محتاج بنادینے والے فقر یا بہت زیادہ تاوان کی شکل میں ، تو اس آدمی نے عرض کیا : میں اسی قسم کا ایک مسئلہ درپیش ہونے کی صورت میں آپ کے پاس آیا ہوں ۔ اس پر آپ نے اسے سو دینار دینے کا حکم فرمایا ۔ پھر وہ آدمی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور آپ سے بھی سوال کیا ۔ آپ نے بھی بھیک کے معاملے میں اس سے وہی بات فرمائی جو حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمائی تھی ۔ اس نے وہی جواب دیا جو وہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو دے چکا تھا تو آپ نے پوچھا : انہوں نے تجھے کتنی رقم دی ؟ اس نے بتایا سو دینار ۔ اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے ایک دینار کم کرتے ہوئے (ننانوے) دینار اسے دے دیے اور اس بات کو پسند نہ فرمایا کہ بڑے بھائی کے ساتھ اس معاملے میں برابری کریں ۔ پھر اس آدمی نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آکر سوال کیا ۔ انہوں نے بغیر کچھ پوچھے اسے سات دینار دے دیے ۔ اس پر اُس نے کہا : میں حضرت امام حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کے پاس گیا تھا اور ان سے پیش آنے والا سارا مذکورہ واقعہ بیان کیا تو حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا : ویحک وانی تجعلنی مثلھما انهما غراء العلم غرا المال ۔
ترجمہ : تیرے اوپر تعجب ہے تو مجھے اُن کی مثل کیسے بنا رہا ہے ۔ بے شک وہ دونوں بھائی علم اور مال کا دریا ہیں ۔ (ابن منظور مختصر تاریخ دمشق لابن عساکر جلد 7 صفحہ 126،چشتی)

کسی بھلائی کے عمل اور کارِ خیر میں باہمی مسابقت اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنا شریعت میں ایک پسندیدہ اور مطلوب امر ہے مگر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے بڑے بھائی امام حسن رضی اللہ عنہ کے احترام میں یہ بات بھی پسند نہ تھی ۔ چنانچہ مشور صحابی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ : لا یحل المسلم ان یهجر اخاه فوق ثلث لیال والسابق السابق الی الجنة ۔
ترجمہ : کسی مسلمان کےلیے جائز نہیں کہ تین راتوں سے زیادہ اپنے بھائی سے ملاقات اور بات چیت چھوڑے رکھے اور اس معاملے (گفتگو اور ملاقات) میں پہل کرنے والا جنت میں پہلے جانے والا ہو گا) ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے یہ بات پہنچی کہ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما دونوں بھائیوں کے درمیان باہمی کوئی جھگڑا اور بات چیت بند ہے تو میں نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے کہا : لوگ آپ دونوں بھائیوں کو اپنا مقتدا سمجھتے ہیں اور تم آپس میں قطعی تعلقی کر کے بیٹھے ہو لہٰذا آپ اٹھیے اور اپنے بھائی کے پاس جاکر ان سے بات چیت کیجیے کیونکہ آپ ان سے عمر میں چھوٹے ہیں ۔ اس پر انہوں نے فرمایا کہ اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ حدیث نہ سنی ہوتی کہ السابق السابق الی الجنۃ (بول چال میں سبقت کرنے والا جنت میں بھی سبقت لینے والا ہوگا) تو میں ضرور ان کی خدمت میں حاضر ہوتا مگر میں یہ بات پسند نہیں کرتا کہ میں ان سے پہلے جنت میں داخل ہوں ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے یہ مخلصانہ جذبات سن کر میں حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور انہیں مذکورہ بات چیت سے آگاہ کیا تو انہوں نے فرمایا : صدق اخی (میرے بھائی نے سچ کہا) اس کے بعد کھڑے ہو گئے اور اپنے بھائی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس آکر ان سے گفتگو کی اور یوں دونوں بھائیوں کے درمیان صلح ہو گئی ۔ (ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی باب ذکر ماجاء مختصاً بالحسن علیہ السلام)

کسی بھی قسم کی مذہبی ، نسلی ، علاقائی اور لسانی تمیز و تفریق کے بغیر تمام خلقِ خدا اور انسانیت کی خدمت ، ان کی حاجات و ضروریات کو پورا کرنے اور ان کے کام آنے کا اسلام کی اخلاقی تعلیمات کی رو سے کیا مرتبہ ہے ؟ اسلام نے اس سلسلے میں اپنے ماننے والوں کو کتنی تاکید کی ہے ؟ پھر اس حوالے سے خود پیغمبرِ اسلام کی رحمۃ للعالمین اور روف رحیم ذات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سمیت دیگر اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کا طرزِ عمل کیا تھا  ؟ (جن کی تفصیل ایک الگ مستقل مضمون کی متقاضی ہے) یہ سب چیزیں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے تھیں ۔ علاوہ ازیں فیاضی و سخاوت اور ایثار جیسی خوبیاں آپ کو ورثے میں ملی تھیں ۔ اس لیے کمال فیاضی اور ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے خلقِ خدا کی حاجات کو پورا کرنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا عام معمول تھا ۔

حافظ ابن عساکر نے ابو ہشام القناد البصری کی زبانی یہ چشم دید گواہی نقل کی ہے کہ میں (ابو ہشام) حضرت حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کے پاس بصرہ سے سامان (متاع) فروخت کےلیے لایا کرتا تھا ۔ آپ اس میں جھگڑ کر مجھ سے قیمت کم کراتے پھر میرے وہاں سے اٹھنے سے پہلے پہلے اس سامان کا زیادہ تر حصہ لوگوں کو عنایت فرمایا کرتے ۔ میں نے عرض کیا اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیٹے ! میں آپ کے پاس بصرہ سے سامان لاتا ہوں آپ باقاعدہ اصرار کر کے اور جھگڑا کر کے اس میں قیمت کم کراتے ہیں اور پھر میرے اٹھنے سے پہلے پہلے اس کا زیادہ تر حصہ لوگوں میں تقسیم بھی کر دیتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟ آپ نے فرمایا : میرے والد گرامی نے مجھے یہ مرفوع حدیث سنائی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : المخبون لا محمود ولا ماجور ۔
ترجمہ : جو آدمی سودے یا لین دین میں دھوکا کھا جائے وہ قابلِ ستائش ہے نہ قابل اجر ۔ (ابن منظور مختصر تاریخ دمشق لابن عساکر جلد 7 صفحہ 115،چشتی)

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے اس انتہائی عمدہ وصف اور انتہائی خوبی کی چند ایمان افروز اور سبق آموز جھلکیاں ملاحظہ ہوں : ⬇

ایک مرتبہ ایک سائل مدینہ منورہ کی گلیوں میں گھومتے ہوئے آپ کے دروازے پر پہنچا ۔ دستک دی اور اپنی حاجت کا درج ذیل اشعار کی صورت میں یوں اظہار کیا : ⬇

لم یخب الیوم من رجاک ومن
حرک من خلف بابک الحلقه

وانت جود وانت معدنة
ابوک ما کان قاتل الفسقه

ترجمہ : آج آدمی نامراد واپس نہیں جائے گا جو آپ کے پاس امید لے کر آیا ہے اور جس نے آپ کے دروازے کا حلقہ کھٹکھٹایا ہے آپ سراپا بخشش اور جود و کرم کی کان ہیں ۔ آپ کا باپ وہ عظیم شخص تھا جس نے فاسقوں سے جنگ فرمائی تھی ۔

حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اس وقت نماز میں مصروف تھے دروازے کی دستک اور سائل کی حاجت انہوں نے نماز میں سن لی ۔ نماز میں تخفیف کی اور باہر تشریف لائے ۔ دیکھا کہ سائل کے چہرہ پر واقعی فقر و فاقہ کے آثار ہیں ۔ آپ نے واپس آکر اپنے غلام کو بلایا اور فرمایا کہ ہمارے نفقہ میں سے تمہارے پاس کچھ ہے ؟ اس نے کہا کہ دو سو درہم ہیں ۔ جن کے متعلق آپ کی ہدایت ہے کہ انہیں آپ کے اہلِ خانہ پر خرچ کر دوں ۔ آپ نے فرمایا : وہ سب درہم لاؤ کیونکہ ان سے زیادہ حق دار آدمی آگیا ہے ۔ پھر ان دراہم کو پکڑ کر باہر نکلے اور انہیں اس اعرابی (سائل) کو دیتے ہوئے فی البدیہہ یہ اشعار کہے : ⬇

خذھا فانی الیک معتذر
واعلم بانی علیک ذوشفقہ

لو کان فی سیرنا عصاتمہ اذا
کانت سمانا علیک مند فقہ

لکن ریب المنون ذونکد
والکف منا قلیلۃ النفقہ

(ابن منظور مختصر تاریخ دمشق لابن عساکر)

خلقِ خدا کی حاجت براری سے متعلق حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا ایک اور ایمان افروز اور انتہائی ایثار و ہمدردی پر مبنی واقعہ نامور صوفی حضور داتا گنج بخش علی ہجویری علیہ الرحمہ نے کشف المحجوب میں یوں نقل کیا ہے کہ ایک دن ایک آدمی آپ کے پاس آیا اور عرض کیا : اے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرزند ! میں ایک درویش اور بال بچے دار آدمی ہوں ۔ اس لیے آج رات آپ سے کھانے اور مدد کا طلب گار ہوں ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا : تم بیٹھ جاؤ ، ہمارا وظیفہ (شام سے) آرہا ہے ۔ چنانچہ کچھ دیر کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی جانب سے پانچ تھیلیاں آپ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ گئیں ۔ ہر تھیلی میں ایک ہزار دینار (سونے کی اشرفی) موجود تھا ۔ لانے والے اہلکاروں نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے کہا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آپ سے معذرت کر رہے تھے اور فرماتے تھے کہ ان دیناروں کو خرچ فرمائیے بعد میں مزید بھیج دیے جائیں گے ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے مذکورہ درویش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اہلِ خانہ سے فرمایا کہ یہ تمام تھیلیاں اسے دے دی جائیں پھر اس درویش سے معذرت بھی چاہی کہ میں نے تجھے اتنی دیر تک بٹھائے رکھا ۔ اگر مجھے اندازہ ہوتا کہ یہ رقم اتنی تھوڑی ہو گی تو تجھے انتظار نہ کراتے ۔ اس لیے ہمیں معذور سمجھو کہ ہم اہلِ آزمائش میں سے ہیں اور دنیا کی ہر راحت سے باز آگئے ہیں اور اپنی دنیا کی تمام مرادیں ہم نے گم کردی ہیں اور اپنی زندگی دوسروں کی ضروریات پوری کرنے کےلیے وقف کردی ہیں ۔

حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیش نظر سواری پر مالک کے آگے بیٹھنے سے گریز : حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی خاندانی عظمت و شرافت اور ذاتی فضائل و مناقب کے پیشِ نظر حضرت ابوبکر و عمر اور حضرت عثمان غنی جیسے کبار صحابہ رضی اللہ عنہم ان کی تعظیم و تکریم فرماتے اور ان کا حد درجہ احترام فرماتے تھے ۔ (البدایه والنهایه)

مگر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا اپنا طرز عمل اور سوچ یہ تھی کہ اس تعظیم میں کہیں اسلامی اخلاق و آداب کے خلاف کوئی کام واقع نہ ہو جائے ۔ اس عظیم سوچ اور بلند اخلاقی پر مبنی ایک سبق آموز واقعہ ملاحظہ ہو جیسے مشہور محدث علامہ نور الدین ہیثمی علیہ الرحمہ نے امام محمد باقر بن علی بن حسین رضی اللہ عنہم کی زبانی یوں نقل کیا ہے کہ : ایک مرتبہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ سے باہر مقام حرہ کے قریب واقع اپنی زمین کی طرف جانے کےلیے نکلے تو راستے میں مشہور صحابی حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے انہیں پالیا وہ اپنی سواری (خچر) پر سوار تھے ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو پیدل چلتے دیکھ کر سواری سے اتر پڑے اور سواری کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قریب کرتے ہوئے عرض کیا : اے عبداللہ ! آپ اس پر سوار ہو جائیے ۔ مگر آپ نے سواری پر بیٹھنے کو ناپسند فرمایا ۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کے اصرار کے باوجود جب آپ سوار نہ ہوئے تو انہوں نے قسم اٹھا لی کہ آپ کو ہر قیمت پر سوار ہونا ہو گا ۔ اب سوار ہونے کے بغیر کوئی چارہ کار نہ تھا ، تاہم فرمایا : تم نے قسم اٹھا کر مجھے تکلیف میں ڈال دیا ۔ اب یوں کیجیے کہ آپ سواری کے آگے بیٹھیں میں آپ کے پیچھے بیٹھوں گا ۔ کیونکہ میں نے اپنی جان (سیدہ فاطمۃ الزہرا بنت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و رضی اللہ عنہا) کو یہ حدیث نقل کرتے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : الرجل احق بصدرد ابته وصدر فراشه والصلوة فی منزله الا ما یجمع الناس علیه ۔
ترجمہ : آدمی اپنے چوپائے (سواری) کے اگلے حصے پر بیٹھنے کا زیادہ حق دار ہوتا ہے ۔ اسی طرح بستر کے اگلے حصے پر بیٹھنے کا زیادہ حق دار صاحبِ فراش ہے جبکہ گھر میں باجماعت نماز پڑھنے کی صورت میں صاحب خانہ امامت کرانے کا زیادہ حق دار ہے ۔
اس پر حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صاحبزادی نے بالکل سچ فرمایا ہے میں نے اپنے باپ بشیر کو بھی اسی طرح کہتے سنا ہے جیسا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ الا من اذن مگر وہ آدمی جس کو مالک اجازت دے ۔ یہ سن کر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سواری پر سوار ہو گئے ۔ (مجمع الزوائد و منبع الفوائد کتاب الادب باب صاحب الدابۃ احق بصدرہا)

درج بالا قسم کی اخلاقی عظمت کا ایک اور ایمان افروز واقعہ علامہ محب الدین الطبری نے یوں نقل کیا ہے : حضرت امام علی بن موسیٰ سے مروی ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ایک دفعہ قضائے حاجت کےلیے باہر نکلے ، غلام ساتھ تھا ۔ راستے میں گرا ہوا کھانے کا ایک لقمہ پایا تو اسے اٹھا کر غلام کو پکڑایا اور فرمایا : واپسی پر مجھے یاد دلانا ۔ مگر غلام نے وہ لقمہ کھا لیا ۔ قضائے حاجت سے فارغ ہو کر آئے تو غلام سے اس لقمہ کے بارے میں پوچھا ۔ اس نے عرض کیا : میرے مولا ! میں نے وہ لقمہ کھا لیا ہے ۔ فرمایا جا تو اللہ کی رضا کےلیے آزاد ہے ۔ پھر فرمایا : سمعت جدی رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم یقول من وجد لقمة ملقاة فمسح او غسل ثم اکلها اعتقه الله من النار ۔
ترجمہ : میں نے اپنے جدِ امجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ بات فرماتے سنا ہے کہ جس آدمی نے کوئی گرا پڑا لقمہ پایا پھر اسے صاف کر کے یا دھوکر کھا لیا تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی آگ سے آزاد فرمادے گا ۔
تو اس فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مطابق جس آدمی کو اللہ تعالیٰ جہنم کی آگ سے آزاد فرمادے تو میں کیونکر اسے غلام بنا سکتا ہوں ۔ (ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی اذکار تتضمن فضائل واخبار اتختص بالحسین علیہ السلام)

اسلامی اخلاق و آداب اور اوصاف میں تواضع و انکساری کو جو اہمیت حاصل ہے نیز اسلامی تعلیمات میں اس کی جتنی تاکید آئی اور اس سلسلے میں خود پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو مثالی نمونہ چھوڑا ہے ، یہ سب چیزیں سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے مخفی نہیں تھیں ، اس لیے خاندانی معاشرتی ، سماجی اور مذہبی و روحانی اعتبار سے انتہائی بلند مرتبہ و مقام حاصل ہونے کے باوجود آپ رضی اللہ عنہ کے اندر کمال درجے کی تواضع و انکساری پائی جاتی تھی ۔ چنانچہ نامور مورخ و محدث حافظ ابن عساکر علیہ الرحمہ نے اس کی ایک سبق آموز مثال یوں درج کی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا گزر چند مساکین کے پاس سے ہوا جو (مسجدِ نبوی کے ساتھ) صفہ میں کھانا کھا رہے تھے ۔ انہوں نے آپ کو دیکھ کر عرض کیا آئیے کھانا تناول فرمائیے ۔ آپ بیٹھ گئے اور فرمایا : ان الله لایحب المتکبرین ۔ ’’بے شک اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا‘‘ ۔ ان مساکین کے ساتھ کھانا تناول فرمایا ، پھر ان سے فرمایا : میں نے تمہاری دعوت قبول کی ، اب تم لوگ میری دعوت قبول کرو ۔ سب نے کہا : نعم : ہاں ٹھیک ہے ۔ چنانچہ آپ انہیں اپنے دولت کدہ پر لے گئے اور اپنی اہلیہ محترمہ حضرت رباب رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ جو کچھ کھانے کو تمہارے پاس موجود ہے وہ لے آؤ ۔ (ابن منظور مختصر تاریخ دمشق لابن عساکر جلد 7 صفحہ 129،چشتی)

انسانی فطرت ہے کہ انسان مشکل اور آزمائش کے وقت میں زیادہ سے زیادہ لوگوں سے مدد اور تعاون کا خواہاں ہوتا ہے ۔ مگر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے ایسے موقعہ پر بھی کسی کو آزمائش اور مشکل میں ڈالنا پسند نہیں فرمایا ، اس بلند سوچ کی ایک جھلک ذیل میں ملاحظہ ہو : حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے عاشوراء کی رات اپنے تمام اصحاب کو جمع کیا پھر (اس مشکل ترین اور آزمائش کی گھڑی میں بھی) اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا : میں یہی محسوس کر رہا ہوں کہ یہ لوگ (یزیدی فوج) بہر صورت کل تمہارے ساتھ جنگ کریں گے ۔ اس صورتِ حال میں تم سب کو (بخوشی) اجازت دیتا ہوں ۔ تم سب میری طرف سے آزاد ہو اور اب رات کے اندھیرے نے تمہیں ڈھانپ لیا ہے ۔ پس جس آدمی کے پاس ہمت ہو وہ میرے اہل بیت رضی اللہ عنہم میں سے کسی آدمی کو ساتھ ملا لے اور تم سب رات کے اندھیرے میں یہاں سے نکل جاؤ ۔ ان لوگوں (یزیدی فوج) کو تو صرف میری تلاش ہے ، کل جب یہ مجھے دیکھیں گے تو تمہاری تلاش بھول جائیں گے اس مخلصانہ پیش کش پر آپ کے اہل بیت رضی اللہ عنہم نے کہا : لا ابقانا الله بعدک والله لانفار قک وقال اصحابه کذالک ۔ ’’اللہ تعالیٰ آپ کے بعد ہمیں زندہ نہ رکھے ۔ قسم بخدا ہم آپ کو اکیلا چھوڑ کر نہیں جائیں گے اور آپ کے دوسرے ساتھیوں نے بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیا ۔ (سیراعلام النببلاء جلد 3 صفحہ 301)

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ عصمت وطہارت ، اخلاق فاضلہ ، اور اوصاف حمیدہ کے مجسمہ تھے ، آپ کی عبادت و ریاضت ، زہد و ورع ، اور خشیت و للہیت ، کا ، دوست و دشمن سب قائل تھے ۔ عبادت گزاری کی یہ حالت تھی کہ : آپ شب زندہ دار تھے ۔ ایامِ ممنوعہ کے علاوہ ہمشہ روزہ سے ہوتے تھے ، قرآن مجید کی کثرت سے تلاوت فرماتے تھے ۔ روایتوں میں آتا ہے کہ : آپ نے کئی حج پیدل فرمائے ۔ صاحب اسد الغابہ لکھتے ہیں : کان الحسین رضی اللہ عنہ کثرالصوم والصلاۃ والحج والصدقۃ و افعال الخیر جمیعا ۔ (اسدالغابہ جلد ٢ صفحہ ٢٧)

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ابتدائی عمر ہی سے اصلاح و تعلیم کی طرف رجحان رکھتے تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کا علمی مقام و مرتبہ بہت بلند تھا ، اور کیوں نہ ہوں جس نے باب علم کی آغوش میں آنکھیں کھولی ہوں ۔ اس کےعلم و کمال کا کیا پوچھنا ۔ باب العلم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بہت سے علوم و فنون آپ رضی اللہ عنہ نے براہِ راست سیکھے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ چوں کہ قضا و افتا میں بڑی شان اور مقام و مرجعیت رکھتے تھے ، اس لیے امام حسین رضی اللہ عنہ کو بہت سے مورثی علم سے وافر حصہ عطا کیا گیا تھا ۔ (اسدالغابہ جلد ٢ صفحہ ٢٧)

حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے احیاء العلوم میں حضراتِ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی سخاوت کا ایک عجیب واقعہ ذکر کیا ہے : ابوالحسن مدائنی کہتے ہیں کہ حضرت امام حسن ، امام حسین  اور حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم حج کےلیے تشریف لے جارہے تھے ، راستے میں اُن کے سامان کے اُونٹ ان سے جدا ہو گئے ، یہ بھوکے پیاسے چل رہے تھے ایک خیمہ پر اُن کا گزر ہوا ۔ اس میں ایک بوڑھی عورت تھی ۔ ان حضرات نے اس سے پوچھا کہ ہمارے پینے کو کوئی چیز (پانی یا دُودھ لسی وغیرہ) تمہارے پاس موجود ہے ؟ اس نے کہا ، ہے ۔ یہ لوگ اپنی اونٹنیوں پر سے اُترے ۔ اس بڑھیا کے پا س ایک بہت معمولی سی بکری تھی اس کی طرف اشارہ کر کے اُس نے کہا کہ اس کا دودھ نکال لو اور اس کو تھوڑا تھوڑا پی لو ۔ ان حضرات نے اس کا دودھ نکالا اور پی لیا ۔ پھر اُنہوں نے پوچھا کہ کوئی کھانے کی چیز بھی ہے ؟ اُس بڑھیا نے کہا کہ یہی بکری ہے ۔اس کو تم میں سے کوئی ذبح کرلے تو میں پکا دوں گی ۔ اُنہوں نے اس کو ذبح کیا اس نے پکایا ۔ یہ حضرات کھا پی کرجب شام کو چلنے لگے تو انہوں نے اس بڑھیا سے کہا کہ ہم ہاشمی لوگ ہیں اس وقت حج کے ارادہ سے جا رہے ہیں ۔ اگر ہم زندہ سلامت واپس مدینہ پہنچ جائیں تو تو ہمارے پاس آنا ، تیرے اس احسان کا بدلہ دیں گے ۔ یہ حضرات تو فرما کر چلے گئے شام کو جب اس کا خاوند (کہیں جنگل وغیرہ سے) آیا تو اس بڑھیا نے ہاشمی لوگوں کو قصہ سُنایا ، وہ بہت خفا ہوا کہ تو نے اجنبی لوگوں کے واسطے بکری ذبح کر ڈالی ۔ معلوم نہیں کون تھے کون نہیں تھے ۔ پھر کہتی ہے کہ ہاشمی تھے ۔ غرض وہ خفا ہوکر چُپ ہو گیا ، کچھ زمانہ کے بعد ان دونوں میاں بیوی کو غربت نے جب بہت ستایا تو یہ محنت مزدوری کی نیت سے مدینہ منورہ گئے ۔ دن بھر مینگنیاں چُگا کرتے او ر ان کو بیچ کر گزر کیا کرتے ۔ ایک دن وہ بڑھیا مینگنیاں چُن رہی تھی ۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اپنے دوازے کے آگے تشریف رکھتے تھے جب یہ وہاں سے گزری تو اس کو دیکھ کر حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے اس کو پہچان لیا اور اپنے غلام کو بھیج کر اس کو اپنے پاس بلوایا اور فرمایا کہ اللہ کی بندی تو مجھے بھی پہچانتی ہے ؟ اس نے کہا میں نے تو نہیں پہچانا ، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تیرا وہی مہمان ہوں دودھ اور بکری والا ۔ بڑھیا نے پھر بھی نہ پہچانا اور کہا کیا خدا کی قسم تم وہی ہو ، حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں وہی ہوں اور یہ فرما کر آپ نے اپنے غلاموں کو حکم دیا کہ اس کےلیے ایک ہزار بکریاں خریدی جائیں ۔ چنانچہ فوراً خریدی گئیں اور ان بکریوں کے علاوہ ایک ہزار دینار (اشرفیاں) نقد بھی عطا فرمائے اور اپنے غلام کے ساتھ اس بڑھیا کو چھوٹے بھائی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا کہ بھائی نے کیا بدلہ عطا فرمایا ؟ اس نے کہا ایک ہزار بکریاں اور ایک ہزار دینار ۔ یہ سُن کر اتنی ہی مقدار دونوں چیزوں کی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے عطا فرمائی ۔ اس کے بعد اس کو حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کے پاس بھیج دیا اُنہوں نے فرمایا کہ ان دونوں حضرات رضی اللہ عنہما نے کیا کیا مرحمت فرمایا اور جب معلوم ہوا کہ یہ مقدار ہے تو اُنہوں نے دوہزار بکریاں اور دو ہزار دینار عطا فرمائے اور یہ فرمایا کہ اگر تو پہلے مجھ سے پہلے مل لیتی تو میں اس سے بہت زیادہ دیتا ۔ یہ بڑھیا چار ہزار بکریاں اور چار ہزار دینار (اشرفیاں ) لے کر خاوند کے پاس پہنچی کہ یہ اُس ضعیف اور کمزور بکری کا بدلہ ہے ۔  (احیاء العلوم جلد ٣ صفحہ ٢٤٩،چشتی)

علامہ کردری رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقدس نواسوں (حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما) نے ایک مرتبہ دریائے فرات کے کنارے ایک بوڑھے دیہاتی کو دیکھا کہ اس نے بڑی جلدی جلدی وضو کیا اور اسی طرح جلدی جلدی نماز پڑھی ، اور جلد بازی میں وضو او رنماز کے مسنون طریقوں میں اس سے کوتاہی ہو گئی ۔ حضرت امام حسن  و حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما نے اسے سمجھانا چاہا ۔ اُنہیں یہ اندیشہ ہواکہ یہ بوڑھا آدمی ہے اپنی غلطی سُن کو کہیں مشتعل نہ ہو جائے ، چنانچہ ددنوں حضرات رضی اللہ عنہما اُس بوڑھے کے قریب آئے اور کہا : ہم دونوں جوان ہیں اور آپ تجربہ کار آدمی ہیں آپ وضو اور نماز کا طریقہ ہم سے بہتر جانتے ہوں گے ، ہم چاہتے ہیں کہ آپ کو  وضو کر کے اور نماز پڑھ کے دکھائیں ۔ اگر ہمارے طریقہ میں کوئی غلطی یا کوتاہی ہو تو آپ ہماری رہنمائی فرمائیں اس کے بعد دونوں نے سنت کے مطابق وضو کر کے نماز پڑھی ، بڑے میا ں نے دیکھا تو اپنی کوتاہی سے توبہ کی اور آئندہ یہ طریقہ چھوڑ دیا ۔ (مناقب الامام الاعظم للعلامة الکردری)

ایک مرتبہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے  اپنے پاس ایک شخص کی آواز سنی کہ وہ اللہ عزوجل سے دس ہزار  دِرہم  کا سوال کر رہا ہے ۔ تو آپ رضی اللہ عنہ یہ سُنتے ہی گھر تشریف لے گئے اور  دس ہزار درہم اس کے پاس  بھجوادیے ۔ (تاریخ دمشق  جلد ۱۳ صفحہ ۲۴۵)

ایک شخص آپ رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور تنگدستی کی شکایت کی تو آپ رضی اللہ عنہ نے اسے ایک لاکھ درہم عنایت فرما دیے ۔ (تاریخ دمشق جلد ۱۳صفحہ ۲۴۵)

ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک شخص نے اپنی تنگدستی ، ناداری ، فقر و فاقہ کا حال بیان کیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے عامل کو بلایا اور فرمایا  پچاس ہزار اشرفیاں ان کو دے دیجیے ۔ (طبقاتِ کبریٰ)

حضرت امام محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ اس کے بعد یہ بھی بیان فرماتےہیں کہ اس شخص سے پچاس ہزار اشرفیاں اٹھائی نہ گئیں تو اس نے مزدور بلایا ۔ وہ شخص جب دو مزدور لایا تو امام حسن رضی اللہ عنہ نے دونوں مزدوروں کی اجرت بھی دے دی ۔ غلاموں نے عرض کی کہ حضور اب تو ہمارے پاس ایک اشرفی بھی نہیں بچی ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ عزوجل کے ہاں اجر بھی ملے گا اور زیادہ ملے گا ۔ (احیاء العلوم جلد ۳ صفحہ ۳۰۶،چشتی)

حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور و معروف کتاب ’’کشف المحجوب‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ ایک روز حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ سے ایک آدمی نے سوال کیا ، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بیٹھ جاؤ ! ہمارا وظیفہ آنے والا ہے ، جیسے ہی وظیفہ پہنچے گا آپ کو دے دیا جائے گا ۔ ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک ایک ہزار دینار کی پانچ تھیلیاں پہنچ گئیں ۔ تھیلیاں پہنچانے والوں نے عرض کیا کہ حضرت امیرِ مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے مَعْذرت کی ہے کہ یہ تھوڑی سی رَقْم ہے ، اسے قبول فرمالیں ، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے ساری رقم اس غریب آدمی کے حوالے کر دی اور اس سے مَعْذرت چاہی ۔ (کشف المحجوب  صفحہ ۷۷،چشتی)

حضرت عمرو رضی اللہ عنہ اپنے والد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی اہلیہ رضی اللہ عنہا یہ پیغام لے کر گئیں کہ '' ہم نے آپ کےلیے لذیذ کھانا اور خوشبو تیار کی ہے ، آپ رضی اللہ عنہ اپنے ہم پلّہ دیکھیں اور انہیں ساتھ لے کر ہمارے پاس تشریف لائیں ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ مسجد میں گئے اور وہاں جو مساکین و سائلین تھے انہیں لے کر گھر تشریف لے گئے ۔ ہمسایہ خواتین بھی آپ کی اہلیہ رضی اللہ عنہا کے پاس آگئیں اور اُن  سے کہنے لگیں ، اللہ کی قسم تمہارے گھر تو مَساکین جمع ہو گئے ۔ پھر حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ اپنی اہلیہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا میں تمہیں اپنے اس حق کی قسم دیتا ہوں جو میرا تجھ پر ہے کہ تم کھانا اور خُوشبو بچا کر نہیں رکھو گی ۔ پھر اُنہوں نے ایسے ہی کیا ۔ آپ نے مساکین کو کھانا کھلایا انہیں کپڑے پہنائے اور خوشبو لگائی ۔ (حسن اخلاق صفحہ 62)

آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اِنَّ خَیۡرَالۡمَالِ مَا وَقیٰ الۡعَرۡضَ ، بہترین مال وہی ہے کہ جو کسی کی عزت و آبرو کو  محفوظ کرنے کا وسیلہ بن جاۓ ۔ (تاریخِ دمشق جلد ۱۴ صفحہ ۱۸۱)

حضرت امامِ حُسین رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ تشریف لے جا رہے تھے کہ راستے میں چند غریب لوگ کھانا کھا رہے تھےاُنہوں نے جب آپ کو دیکھا تو دوڑتے ہوۓ آپ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوۓ اور عرض کیا کہ حُضُور آئیے اور ہمارے ساتھ کھانا تناول فرمائیے ۔ آپ رضی اللہ عنہ اُسی وقت اُن  غُرَباء کے حَلۡقہ میں جا بیٹھے اور اُن کے ساتھ کھانا تَناوُل فرمایا ۔اور فرمایا کہ مجھے کھانے کی حاجت تونہیں تھی لیکن تمہاری خوشی کی خاطر چند لقُمۡے کھا لیتا ہوں ۔ (تاریخ دمشق جلد ۱۴ صفحہ ۱۸۱،چشتی)

ایک مرتبہ حضرت امام حَسَن رضی اللہ عنہ کا کچھ ایسے مَسَاکین پر سے گُزر ہوا جو راستے میں بیٹھے لوگوں سے سُوال کر رہے تھے اور زمین پر بِکھرے ہوئے روٹی کے بچے کھچے  ٹُکڑے کھارہے تھے ، آپ نے اُنہیں سَلام کیا ، اُنہوں نے سلام کا جواب دینے کے بعد عرض کی : اے نواسۂ رسول! تشریف لائیے اور ہمارے ساتھ کھانا تَناوُل فرمائیے ! جب اُنہوں نےکھانے کی دعوت دی تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ عزوجل بَڑَائی چاہنے والوں کو پسند نہیں فرماتا ۔ پھرآپ سُواری سے نیچے تشریف لائے اوراُن کے ساتھ کھانا تَنَاوُل فرمایا ۔ جاتے ہوئے اُنہیں سلام کیا اور فرمایا : میں نے تمہاری دَعوت قَبُول کی ، تم بھی میری دعوت قَبُول کرو ۔ اُنہوں نے عرض کی : حُضُور ! جیسے آپ فرمائیں ، آپ رضی اللہ عنہ نے اُن سے ایک مُعَیَّن وقت طَے کر لیا ، جب وہ آپ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو آپ نے اُنہیں عُمدہ کھانا کھلایا اور خود بھی اُن کے ساتھ کھانا تنَاَوُل فرمایا ۔ (احیاء العلوم جلد ۲ صفحہ ۲۳۲،چشتی)

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے والد ماجد حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : علم کا طلب کرنا ہر مسلمان (مرد و عورت) پر فرض ہے ۔ (معجم صغیر طبرانی جلد 1 صفحہ 58 حدیث نمبر 61)

علم بلا شبہ اللہ کا نور ہے اور اس نور سے پرودگار عالم اسی کو نوازتا ہے جسے اپنا محبوب و مقرب بناتا ہے ، ورنہ علم ہر کسی کا مقسوم کہاں! علم دراصل اعزاز بشریت ، شرف انسانیت اور افتخار آدم و بنی آدم ہے ۔ وہ علم ہی تھا جس کی وجہ سے حضرت آدم کو جملہ ملائکہ پر فضیلت و برتری بخشی گئی ، اور وہ علم ہی ہے جس کی وجہ سے علمائے ربانیین ، انبیاۓ کرام علیہم السلام کے وارثین قرار دیے گئے ۔ مختصر یہ کہ اسلام میں علم و حکمت کو غیر معمولی اہمیت دی گئی ہے اور قرآن و حدیث میں جا بجا اس کی عظمت و فضیلت کے قصیدے پڑھے گئے ۔ علم کی فضیلت کے باب میں اس سے بڑی شہادت اور کیا ہو سکتی ہے کہ جب آخری آسمانی کتاب قرآن کریم کی آیتوں کے نزول کا وقت آیا تو دیکھیے کہ وحی الٰہی کا آغاز علم و تعلیم کی قدر و منزلت اجاگر کرتے ہوئے ہو رہا ہے ۔ سورہ اقرأ کی ان پانچ ابتدائی آیات میں صبح قیامت تک پیدا ہونے والے علوم و معارف کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔ مگر شرط یہ رکھی گئی ہے کہ اس کا آغاز اللہ کے نام سے ہونا چاہیے اور اس کی بنیاد اسم ربک کی اینٹوں پر قائم ہونی چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں روح علم سمجھنے اور اس کے فروغ میں کوشاں رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے والد حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : تین خصلتیں جس کے اندر نہ ہوں اس کا اللہ و رسول سے کوئی تعلق نہیں ۔ پوچھا گیا وہ کیا ہیں ؟ تو فرمایا : (1) ایسا حلم و بردباری جس سے جاہل کی جہالت کا جواب دیا جا سکے ۔ (2) ایسا حسن اخلاق جس کے باعث وہ لوگوں میں (عزت و آبرو کے ساتھ) جی سکے ۔ (3) ایسا زہد و ورع جو اسے اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے روک سکے ۔ (معجم اوسط طبرانی جلد 5 صفحہ 120 حدیث نمبر 4848،چشتی)

امت مسلمہ کی مجموعی صورت حال پر نظر کرنے کے بعد یہ ناخوشگوار تاثر ملتا ہے کہ گویا ہمارے نزدیک کتاب و سنت کی تعلیمات و ہدایات صرف پڑھنے اور سننے کےلیے ہیں ، برتنے اور اپنانے کےلیے نہیں ، حالانکہ اللہ عزوجل و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان رکھنے والے ایک سچے مسلمان کی شان یہ ہونی چاہیے کہ وہ خود بھی سچا ہو اور اس کے جملہ معاملات بھی درست ہوں ، نیز وہ اخلاقِ فاضلہ اور اوصافِ حمیدہ کا مالک ہو ۔ دنیا کا تو کیا ہے ، بس ایک پرایا گھر سمجھ کر ہمیں اس میں آبرو مندانہ طریقے پر آخرت کےلیے بھرپور تیاری کر لینی چاہیے ۔

کسی کو نصیحت کرنا یا اسے اچھی بات بتانا گویا کہ اس پر احسان کرنا ہے ، قراٰنِ حکیم میں کئی جگہ نصیحت کی گئی ہے جس سے نصیحت کی اہمیت و افادیت معلوم ہوتی ہے ، نصیحت کی ضرورت و اہمیت کے پیشِ نظر ہمارے بزرگانِ دین رحمۃ اللہ علیہم نے بھی لوگوں کو بہترین نصیحتیں فرمائی ہیں ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ بھی لوگوں میں وعظ و نصیحت فرمایا کرتے تھے ۔ حضرت امامِ حسین رضی اللہ عنہ نے میدانِ کربلا میں اور اپنی مبارک حیات کے دیگر مواقع پر جو خُطبات اور نصیحت آموز اَشعار ارشاد فرمائے ان میں سے چند منتخب نصیحتیں ملاحظہ کیجیے : ⬇

(1) اے لوگو! اچھے اَخلاق میں رغبت کرو ، نیک اعمال میں جلدی کرو ، جس نے کسی پر احسان کیا ہواور وہ اس کا شکر ادا نہ کرے تو احسان کرنے والے کو اللہ پاک عوض عطافرماتا ہے ۔ یقین کرو نیک کام میں تعریف ہوتی ہے اور ثواب ملتا ہے ، اگر تم نیکی کو کسی مرد کی صورت میں دیکھ سکتے تو اسے بہت حسین و جمیل دیکھتے جو دیکھنے والے کو بَھلا لگتا اور اگر تم مَلامت اور بَدی کو دیکھ سکتے تو بدترین منظر دیکھتے جس سے دل نفرت کرتے اور نظریں نیچی  ہو جاتی ہیں ۔ اے لوگو ! جو سخاوت کرتا ہے وہ سردار ہوتا ہے اور جو بُخل کرتا ہے وہ ذلیل و رُسوا ہوتا ہے ۔ زیادہ سخی وہ شخص ہے جو اس شخص پر سخاوت کرے جسے اس کی اُمید نہ ہو ۔ زیادہ پاک دامن اور بہادُر وہ شخص ہے جو بدلہ لینے پر قادر ہونے کے باوجود مُعاف کر دے ، زیادہ صِلۂ رحمی کرنے والا شخص وہ ہے جو قَطْعِ تعلق کرنے والے رشتے داروں سے تعلق جوڑے ۔ جو شخص اپنے بھائی پر احسان کر کے اللہ کی رضا چاہے اللہ پاک مشکل وقت میں اس کا بدلہ دیتا ہے اور اس سے سخت مصیبت ٹال دیتا ہے ۔ جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی سے دنیوی مصیبت دور کی اللہ پاک اس سے اُخرَوی مصیبت دور کرتا ہے اور جو کسی پر احسان کرے اللہ کریم اس پر احسان فرماتا ہے اور احسان کرنے والے اللہ کے پیارے ہیں ۔

(2) اگرچہ دنیا اچھی اور نفیس سمجھی جاتی ہے مگر اللہ کا ثواب بہت زیادہ اور نفیس ہے ۔

(3) رزق تقدیر میں تقسیم ہوچکے ہیں لیکن کَسْب میں انسان کا حرص نہ کرنا اچھا ہے ۔

(4) مال دنیا میں چھوڑ کر ہی جانا ہے تو پھر انسان مال میں بُخل کیوں کرتا ہے ؟

(5) جب اذیت دینے کےلیے کوئی شخص کسی سے مدد چاہے تو اس کی مدد کرنے والے اور ذلیل و رُسوا لوگ سب برابر ہیں ۔ (نورالابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار صفحہ 152 ، 153،چشتی)

حضرت ابو سعد میثمی بیان کرتے ہیں کہ میں نے سبطِ پیمبر امام حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شہرت کا لباس پہنتا ہے اللہ اسے آگ کا لباس پہنائے گا ۔ (الذریۃ الطاہرۃ دولابی صفحہ 199 حدیث نمبر 164)

دنیاوی اعتبار سے مشہور و معروف ہونا تو ظاہر ہے کہ آفتوں اور فتنوں میں مبتلا ہو جانے اور ایمانی امن و سلامتی کی راہ سے دور جا پڑنے کا سبب ہے ہی ، لیکن اگر کوئی شخص اپنی زندگی کے اعتبار سے مشہور و معروف ہوتا ہے تو وہ بھی خطرے سے خالی نہیں ؛ کیونکہ اس صورت میں اس کے ریاکار ہونے کا گمان کیا جا سکتا ہے ، اور ہو سکتا ہے کہ وہ اس شہرت کی وجہ سے اپنی قیادت و پیشوائی کی طلب و جاہ میں مبتلا ہو جائے اور یہ تمنا کرنے کہ لوگ اس کو اپنا مقتدا اور اپنی عقیدت و احترام کا مرکز بنا لیں اور اس طرح وہ شیطان کے بہکانے اور نفس امارہ کے اکسانے کی وجہ سے ان نفسانی خواہشات کی اتباع میں مبتلا ہو سکتا ہے جو ایسے موقعوں کی تاک میں رہتی ہیں ۔ چنانچہ ایسے بندگانِ خدا کم ہی ہوتے ہیں جنہیں عوامی شہرت و ناموری حاصل ہوئی اور وہ اس کے نتیجہ میں پیدا ہو جانے والی برائیوں سے محفوظ و مامون رہے ۔ ہاں وہ خصوصی بندے جنہیں اللہ تعالیٰ اپنا مقرب و محبوب بنا لیتا ہے اور وہ صدیقیت کے مرتبے پر فائز ہوتے ہیں وہ تمام عالم کی شہرت و ناموری رکھنے کے باوجود اس کی برائیوں سے محفوظ رہتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اس بلند ترین مرتبہ پر فائز ہی اس وقت ہوتے ہیں جب کہ ان کے ظاہر و باطن سے تمام برائیاں مٹ چکی ہوتی ہیں اور ان کا نفس پوری طرح پاکیزہ و شفاف ہو جاتا ہے ۔

ایک حدیث پاک میں یہ بھی آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : انسان کی برائی کے لئے اتنا کافی ہے کہ دین یا دنیا کے اعتبار سے اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ کیاجائے ۔ الا یہ کہ کسی کو اللہ تعالیٰ ہی محفوظ رکھے ۔

اس حدیث کے آخری جملے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شہرت و ناموری کا نقصان دہ اور باعث برائی ہونا اس شخص کے حق میں ہے جس کے ظاہر و باطن پر جاہ و اقتدار اور شہرت و ناموری کی طلب و خواہش کا سکہ بیٹھ چکا ہو ، جب کہ اہل اللہ اس سے مستثنیٰ ہیں ؛ کیونکہ عوامی مقبولیت و شہرت اور جاہ و اقتدار بذات خود کوئی بری چیز نہیں ہیں بلکہ اللہ کی نعمت ہیں جو وہ اپنے پاک نفس بندوں کو عطا فرماتا ہے جو ان چیزوں کے اہل و مستحق ہوتے ہیں اور جن کے حق میں وہ چیزیں فتنہ و برائی کا باعث بننے کی بجائے بلندی درجات کا باعث بنتی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے بندگانِ خاص کی نسبت فرمایا : واجعلنا للمتقین اماما ۔

منقول ہے کہ حضرت امام حسن بصری رضی اللہ عنہ کی بے پناہ عوامی شہرت و مقبولیت دیکھ کر ایک شخص نے ان سے کہا کہ : آپ تو لوگوں میں اس قدر مشہور و نمایاں ہو گئے ہیں جب کہ فرمانِ رسالت مآب ہیں کہ "انسان کی برائی کےلیے ۔ حضرت امام حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشاد گرامی کا تعلق اس شخص سے ہے جو دین کے اعتبار سے بدعتی اور دنیا کے اعتبار سے فاسق ہو یعنی جو شخص دنیا میں مالداری و ثروت رکھتا ہے اور اس مالداری و ثروت کی وجہ سے مشہور و معروف ہو ، لیکن فسق و فجور میں مبتلا نہ ہو اور دین کے اعتبار سے کتاب و سنت کی اتباع و پیروی کرتا ہو تو وہ شخص اس حکم میں داخل نہیں ہے ۔

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے گویا پوری دنیا کی شجاعت کو اپنے اندرسمیٹ رکھا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ اس معمولی اور انگشت شمار دوست و احباب کے ساتھ یزید کے لاکھوں کی تعداد میں لشکر کے مقابلہ میں صف آرا ہو گئے اور جنگ کے یقینی ہونے کے بعد ذرہ برابر خوف و ہراس آپ رضی اللہ عنہ کے چہرے پر ظاہر نہیں ہوا ۔ اس کے باوجود کہ اپنی اور اپنے اصحاب کی شہادت پر یقین کامل رکھتے تھے پورے انتظام کے ساتھ اپنی مختصر سی فوج کو تیار کیا اور پورے اقتدار اور دلیری کے ساتھ جنگ کو قبول کر لیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی آنکھوں کے سامنے آپ کے اعزاء و اقرباء اور اصحاب و انصار رضی اللہ عنہم خون میں غلتیدہ ہو گئے لیکن ہرگز آپ رضی اللہ عنہ ۔ دشمن کے سامنے سرِ تسلیم نہیں کیا ۔ اور جب اپنی جنگ کی باری آئی ، تو شیر دلاور کی طرح دشمن پر ایسا حملہ کیا کہ ان کی صفوں کو چیرتے ہوئے لاشوں پر لاشے بچھا دیے ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ حق کے سلسلہ میں استقامت و پائیداری حامل تھے ، آپ رضی اللہ عنہ نے حق کی خاطر اس مشکل راستہ کو طے کیا ، باطل کے قلعوں کو مسمار اور ظلم و جور کو نیست و نابود کر دیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے تمام مفاہیم میں حق کی بنیاد رکھی ، تیر برستے ہوئے میدان کو سر کیا ، تاکہ اسلامی وطن میں حق کا بول بالا ہو ، سخت دلی کے موج مارنے والے سمندر سے امت کو نجات دی جائے جس کے اطراف میں باطل قواعد و ضوابط معین کیے گئے تھے ، ظلم کا صفایا ہو ، سرکشی کے آشیانہ کی فضا میں باطل کے اڈّے ، ظلم کے ٹھکانے اور سرکشی کے آشیانے وجود میں آ گئے تھے ، امام رضی اللہ عنہ نے ان سب سے روگردانی کی ہے ۔ اللہ عزوجل ہمیں اُن کے نقشِ قدم پر چلنے اور اہلبیتِ اطہار ، ازواجِ مطہرات اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت و ادب کی توفیق عطا فرماۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔