Wednesday, 28 February 2024

حروف تہجی اور حروف مقطعات قابلِ احترام ہیں

حروف تہجی اور حروف مقطعات قابلِ احترام ہیں

محترم قارئینِ کرام : حروفِ تہجی  قابلِ احترام ہیں ، اس لیے ان حروف کو ایسی جگہ لکھنا جس سے اس کی بے ادبی کا اندیشہ ہو درست نہیں ہے ، یہاں تک کہ فقہاء کرام نے ذکر کیا ہے کہ اگر تیر کے نشانہ کی جگہ (ہدف) پر ابوجہل ، فرعون وغیرہ کا نام لکھا تو بھی اس پر تیر کا نشانہ لینا مکروہ ہے ، اس لیے ان حروف کی حرمت ہے ۔ لہٰذا پہننے کے کپڑوں پر اگر حروف تہجی پرنٹ ہوں تو  اس میں بعض صورتوں میں تو بے ادبی کا صدور اور بعض میں اس کا اندیشہ موجود ہے ، مثلاً قمیص وغیرہ پر اگر حروف پرنٹ ہوں تو اگرچہ ظاہر میں بے ادبی نہیں ہے ، لیکن اندیشہ ہے کہ دھلنے میں یا بعد میں پرانے ہونے کی صورت میں پھینکنے پر بے ادبی ہو گی ، اور اگر شلوار یا پائجامہ پر یہ حروف ہوں تو اس میں بے ادبی ہونا ظاہر ہے ، اس لیے ایسے کپڑوں کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے ۔ البتہ اگر کپڑے پر کتابت کا مقصد انہیں فریم وغیرہ کرا کر (جیسا کہ آیۃ الکرسی وغیرہ لکھی جاتی ہے) اونچی جگہ لگانا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ مسلمانوں کے جذبات ایمانی اتنے زیادہ کمزور ہو گئے کہ وہ اپنے وقار و شعار کو کھوتے ہوئے چلے جاتے ہیں ان کو اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ ہم کیا تھے اور کیا ہو گئے جب ان کی بے حسی اس درجہ بڑھ گئی اور حمیت اور غیرت ایمانی یہاں تک کم ہوگئی کہ دوسری قوموں میں جذب ہوتے جاتے ہیں پامردی اور استقلال کے ساتھ اسلامی روایات و احکام کی پابندی نہیں کرتے تو ان سے کیا امید ہو سکتی ہے کہ اسلامی احکام کا احترام کرائیں گے اور حقوق مسلمین کی پابندی کریں گے مسلم کے ہر فرد کو تعلیمات اسلام کا مجسمہ ہونا چاہیے اخلاق سلف صالحین کا نمونہ ہونا چاہیے اسلامی شعار کی حفاظت کرنی چاہیے تا کہ دوسری قوموں پر اس کا اثر پڑے ۔ (قانون شریعت صفحہ 470)

عربی حروف تہجی اور وہ بھی ایسے سٹائل اور خط میں جو قرآنی ہو اس کی قطعاً حمایت نہیں کی جا سکتی ، اور نہ اس کو جواز بنایا جاسکتا ہے ۔ اس عورت کو دیکھ کر احتجاج کرنے والے جاہل نہیں بلکہ اس بیہودہ گندے اور کمینے عمل کی حمایت کرنے والے پرلے درجے کے جاہل ، اجڈ اور دین بیزار ہیں ، جو اپنے آپ کو نام نہاد روشن خیالی کے پردے میں چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ کسی بھی زبان کے حروف تہجی کا بھی احترام ہوتا ہے اور ہم مسلمانوں کے ہاں عربی جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ہمارے قرآن اور ہمارے دین کی زبان ہے ہمارے لیے بہت محترم ہے ، ہم اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دے سکتے کہ کوئی شخص  ایسا لباس پہنے کہ اس لباس کی ایسی جگہوں پر قرآنی سٹائل میں حروف لکھے ہوں جہاں پیشاب اور گندگی بھی لگ سکتی ہے اور ان حروف کے اوپر پچھوڑا رکھ کر بیٹھنا بھی پڑتا ہے ۔ جن  لوگوں کے ہاں عربی حروف تہجی کا احترام نہیں وہ بے شک احترام  نہ کریں کوئی زبردستی نہیں لیکن اس کی آڑ میں سیکولرازم کے نظریات یعنی ”دنیوی معاملات کو کسی بھی آسمانی دین و مذہب سے دور رکھیں” کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی دین اسلام اور عربی زبان کی تضحیک کی اجازت دی جاسکتی ہے ۔

زبان انسانی مقاصد کے حصول باہم رابطے، جذبات کے اظہار اور علم کے حصول کا ذریعہ ہے ۔ یہاں تک کہ اللہ عزوجل سے ہمکلام ہونے کا ذریعہ بھی زبان ہی ہے۔ دنیا کی تمام حکومتوں ، اداروں اور تعلیمی اداروں کا سارا نظام زبان ہی کی مرہون منت ہے ۔ اللہ تعالیٰ بھی انسانوں کو کسی زبان میں ہی مخاطب کرتا ہے، انسانی تاریخ میں مختلف علاقوں اور مختلف ملکوں میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ان کی مختلف زبانوں سے مخاطب کیا اور ہدایات دیں ۔ لیکن سب سے آخر میں پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد پر آخری کتاب قرآن اور آخری دین ، دین اسلام کےلیے اللہ تعالیٰ نے عربی زبان کا انتخاب کیا ۔ چنانچہ اسلام کی پوری تاریخ میں مسلمانوں نے عربی زبان کو ایک خدائی نشانی سمجھتے ہوئے ہمیشہ اس کا احترام کیا۔دین اسلام نے عربی زبان کو بعض عبادات میں اتنا ضروری قرار دیا کہ عربی زبان کے بغیر وہ عبادت اللہ کے ہاں قابل قبول ہی نہیں قرار پاتی۔  اسی وجہ سے مسلمانوں کا عربی سے رشتہ ہمیشہ ادب و احترام والا رہا ہے ۔ جس طرح کسی بھی ملک ، حکومت اور سلطنت کی ایک قومی زبان ہوتی ہے اور اس سلطنت کے تمام امور اسی زبان میں سرانجام پاتے ہیں اور اس ملک میں اس زبان کو خصوصی احترام والا مقام ملتا ہے ، اسی طرح دونوں جہاں کے بادشاہ ، خالق و مالک اللہ رب العزت کی حکومت اور سلطنت کی زبان عربی ہی ہے ، جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اپنے ارشادات میں بیان کیا ہے ۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ہمارے علماء تصریح فرماتے ہیں کہ نفسِ حروف قابلِ ادب ہیں اگرچہ جدا جدا لکھے ہوں جیسے تختی یا وصلی پر، خواہ ان میں کوئی برا نام لکھا ہو جیسے فرعون ، ابوجہل وغیرہما تاہم حرفوں کی تعظیم کی جائے اگرچہ ان کافروں کا نام لائقِ اہانت و تذلیل ہے ۔ حروفِ تہجی خود کلام اللہ ہیں کہ ہُود علیہ الصَّلٰوۃ و السَّلام پر نازل ہوئے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 23 صفحہ 336 ، 337)

ادب احترام بہت بڑی چیز ہوتی ہے ، عربی زبان تو کیا اردو زبان کے حروف تہجی کا بھی احترام ضروری ہے چہ جائیکہ کوئی ان حروف کی بے ادبی کا کوئی سامان پیدا کرے ۔ چونکہ اچھرہ واقعہ میں پورے لباس (شلوار ، قمیص) پر کچھ جملے لکھے ہوئے تھے جو واضح طور پر بے ادبی کے زمرے میں آتا ہے بالکل غلط فعل تھا ۔ ہمارے لیے حجت سعودیہ کا کوئی برینڈ یا کمپنی نہیں بلکہ دین اسلام کی تعلیمات اور اکابرین اسلام کا عمل ہے ۔چنانچہ اس واقعہ کے رونما ہونے سے بہت پہلے ہی ہمارے علماء اور جامعات نے ایسے فتاویٰ صادر کر دیے تھے جن میں ایسے لباس کی کراہت اور ممانعت کو بیان کیا ہے ۔

ایسا لباس جس پر کچھ تحریر ہو خواہ وہ سادہ تحریر ہو یا شاعری وغیرہ ،اسے پہننا منع ہے کہ اس میں حروف تہجی (جن سے کلام بنتا ہے )کی بے ادبی کے کئی پہلو موجود ہیں۔اور حروف تہجی کا ادب کرنے کا کہا گیا ہے۔ دنیا میں جتنی بھی زبانیں ہیں وہ الھامی (اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتاری گئی)ہیں اور ان کا ادب ضروری ہے ۔ تفسیر کبیر میں امام فخرالدین الرازی فرماتے ہیں : الغات كلها توقيفية ۔
ترجمہ : (دنیا میں بولی جانے والی) تمام زبانیں الھامی ہیں ۔ (التفسیر الکبیر الجزالثانی سورہ البقرہ آیت نمبر 31 جلد 1 صفحہ 396 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ،چشتی)

واضح رہے  کہ عربی زبان کے حروف تہجی  قابلِ احترام ہیں اس لیے ان  حروف کو ایسی جگہ لکھنا جس سے ان کی بے ادبی کا اندیشہ ہو ،  کراہت سے خالی نہیں : ⏬

إذاكتب ‌اسم ‌فرعون ‌أو‌كتب أبوجهل على غرض يكره أن يرمواإليه؛لأن لتلك الحروف حرمة،كذافي السراجية ۔ (فتاویٰ الهندية جلد 5 صفحہ 374)

ويكره أن يجعل شيئافي كاغذة فيهااسم الله تعالى كانت الكتابة على ظاهرهاأوباطنها ۔ (فتاویٰ الهندية جلد 5 صفحہ 322)

قلت :‌ لكن ‌نقلوا ‌عندنا‌أن ‌للحروف ‌حرمة ولو مقطعة ۔ (ردالمحتارعلى الدرالمختار جلد 1 صفحہ 552)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی قادری علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں : کہ حروف کی تعظیم کا حکم ہے خصوصاً قرآن مجید تو واجب التعظیم ہے ہی اس میں کیا کلام ہو سکتا ہے یوں ہی اسماء طیبہ والی کاغذات کہ ان کی بھی تعظیم کی جائے یہ امر مستحسن ہے کوئی واجب یا فرض نہیں اور امید اجر ہے اور دیگر کاغذات بھی اٹھائے تو اچھا ہی ہے اگر نہ اٹھائے تو کوئی مواخذہ نہیں ۔ (فتاویٰ امجدیہ کتاب الحظر والاباحہ،چشتی)

لہٰذا اسی طرح دوپٹہ، قمیص، شرٹ وغیرہ لباس بنانے اور بیچنے سے اجتناب کرنا چاہیے ۔ یہ فتنوں کا دور ہے ، ہم مسلمان ہر آئے دن فیشن کے نام پر طرح طرح کے لباس پہنتے ہیں اگر اس کو منع نہ کیا گیا تو معلوم نہیں کہ کون کون سے فیشن کو فروغ ملے گا ۔ اس طرح کی امور کا سد باب ہونا لازم و ضروری ہے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے : إذا كتب اسمَ ’’فرعون‘‘ أو كتب ’’أبو جهل‘‘ على غرض، يكره أن يرموه إليه؛ لأن لتلك الحروف حرمةً، كذا في السراجية ۔  (فتاوی ہندیہ جلد ٥ صفحہ ٣٢٣ مطبوعہ کتبخانہ رشيديہ)

وفیه أیضاً : ولو كتب القرآن على الحيطان و الجدران، بعضهم قالوا: يرجى أن يجوز، و بعضهم كرهوا ذلك مخافة السقوط تحت أقدام الناس، كذا في فتاوي قاضيخان ۔ (فتاوی ہندیہ الباب الخامس في آداب المسجد، و ما كتب فيه شيئ من القرآن، أو كتب فيه اسم الله تعالى جلد ٥ صفحہ ٣٢٣ مطبوعہ کتبخانہ رشيديہ،چشتی)

محترم سید محمد شفیع قادری رضوی صاحب لکھتے ہیں : اہلِ عرب بھی اس بات کا واضح فہم و ادراک رکھتے ہیں کہ عربی حروف تہجی کے الفاظ اور عربی خطاطی میں کیا فرق ہوتا ہے ۔ عربی زبان فصیح و بلیغ زبان ہے جس میں بڑی وسعت اور گہرائی ہے لیکن یہاں مسلئہ حروف تہجی کی حرمت کا ہے نا کہ خطاطی شدہ لباس کا ۔ لیکن پاکستان میں لبرل ازم کے غلیظ کنوئیں کا پانی پئے ہوئے ناعاقبت اندیش دانشور اور سستے بازاروں کے تجزیہ نگاروں کے نزدیک لفظوں اور حروفوں کی کوئ اہمیت وقعت اور قدر نہیں ہے وہ ہر غلط فعل کے مرتکب لوگوں کی بےجا حمایت کر کے معاملے کو مزید شدت پسندی کی طرف دھکیل دیتے ہیں ۔ جیسا کہ گزشتہ شب لاہور اچھرہ کے ایک ریسٹورنٹ کا واقعہ ہے جس میں ایک پاکستانی خاتون نے عربی خطاطی میں لکھا حلوہ الفاظوں کا لباس پہنا ہوا تھا ۔ پاکستان ایک مادر پدر آزاد معاشرے کا حامل ملک ہرگز نہیں ہے کہ جہاں جس کا جو دل چاہے وہ کرتا رہے اور اسے کوئ روکنے ٹوکنے والا نہ ہو حتی کہ وہ شعائر اسلام کا بھی کھلم کھلا مذاق اڑائے ۔

کسی بھی خاتون یا مرد کو یہ حق ہرگز حاصل نہیں ہے کہ وہ دین اسلام یا شعائر اسلام سے منسلک کسی بھی لفظ یا اشعار کو اپنی سستی شہرت کا ذریعہ بنائے ۔ تمام مکتب کے فقہا کا متفقہ فیصلہ ہے کہ عربی حروف تہجی کا احترام ہر ایمان رکھنے والے عاقل و بالغ مسلمان پر فرض ہے اگر وہ جان بوجھ کر توہین کرتا ہے یا  مذاق اڑاتا ہے تو شخص سخت گناہ گار ہوگا اور اگر ریاست میں اسلامی قانون نافذ ہے تو سزا دی جائے گی ۔ کیونکہ اگر ہر شخص کو یہ کہہ کر چھوڑ دیا جائے کہ فیشن ہے یا خطاطی ہے تو غالب گمان ہے چلن معاشرے کو مذہبی تصادم اور کشیدگی کی دلدل میں دھکیل دے گا ۔ چنانچہ اگر دینی شعور و آگہی سے عاری لبرل ازم کے حامی آزاد خیال مرد و خواتین  عربی حروف تہجی کا احترام و تقدس نہیں کرتا ہے اور اسے صرف ایک بے معنی لفظ جان کر بار بار  تضحیکی راستہ اختیار کرتا ہے تو اس کے خلاف آئینی اور اسلامی قوانین کے مطابق تادیبی کارروائی عمل میں لائ جائے ۔ تاکہ انکی دیکھا دیکھی دوسرے ذہنی پستی کا شکار لوگ بھی کرنا نہ شروع کردیں ۔

خاتون کے لباس پر اعتراض کرنے والے ہجوم کو تو لنڈا بازار کے تجزیہ کار اور سستے بازاروں کے دانشور پاگل اور متشدد قرار دے رہے ہیں اور سماجی رابطے کی واٹس گروپ میں بڑھ چڑھ کر بحث و مباحثہ بھی کر رہے ہیں لیکن اتنی توفیق نہیں ہو رہی ہے کہ اس شر انگیز فعل پر عورت کے متنازع لباس پر اعتراض کریں یا کم از کم برا ہی سمجھ لیں یعنی ایسے گدھوں کے نزدیک عربی حروف تہجی کی توہین کچھ حیثیت نہیں رکھتی ہے ۔ ایسے دو نمبر گدھوں کو میری صلاح ہے کہ پھر اپنی بے غیرتی و کم ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھل کر شعائر اسلامی کے خلاف زبان درازی کریں تاکہ  آزاد خیالی اور روشن خیالی کا جو کیڑا اندر گھس گیا ہے اسے پوری شان و شوکت کے ساتھ نکال دیا جائے گا ۔ بالکل اسی طرح پنجاب بھر میں موجود ڈبہ پیرو نے مذہبی اقدار اور شعار کو بدنام کر کے رکھا ہوا ہے ۔ ایک تصویر میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک بے غیرت ڈبہ پیر برہنہ لیٹا ہوا ہے اور اس مردود کے جسم پر کلمہ و قل شریف لکھا ہوا چادر اوڑھا ہوا ہے ۔ ایسے شخص کو زندہ دفن کر دینا چاہیے ۔ تاکہ یہ مذہبی لبادہ اوڑھے ہوئے ڈبہ پیرو اور لبرل زادو کو عبرتناک سبق ملے ۔

سماجی رابطے کی ایک واٹس اپ گروپ میں ایک لنڈا بازار کے آزاد خیال صاحب سے اسی موضوع پر بحث و مباحثہ میری جاری تھی کہ اِسی دوران اُس نے عربی حروف تہجی کے بارے توہین آمیز جملہ بولنا اور لکھنا شروع کر دیا اور اس حد تک آگے بڑھ گیا کہ اُس نے یہاں تک کہہ کہ میں حروف تہجی کو اپنے پاؤ تلے روندتا ہوں میرے لئے الف ب پ کے حروف بے معنی ہیں میرے نزدیک کوئ تقدس نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو کفریہ جملہ بولنے و لکھنے سے بچائے ۔ بہرکیف وہ صاحب سٹی کورٹ میں ایڈوکیٹ ہے اللہ انہیں ہدایت دے آمین ۔ قارئین کرام عربی حروف تہجی ہی قرآن کریم کے حروف ہیں جنکی توہین جان بوجھ کر کی جائے یا شراتاً کی جائے قابلِ گرفت اور سخت متنازع عمل ہے ۔ یہ کام غیرت ایمانی رکھنے والا مسلمان نہ تو کبھی کر سکتا ہے اور نہ ہی کرنے کا سوچ سکتا ہے کہ وہ قرآنی حروف تہجی کو پاؤ تلے روندے یا اسکی تذلیل و تضحیک کرے یا اسکے بارے میں بولے کہ میرے نزدیک اسکی کوئ اہمیت و فضیلت نہیں ہے ۔ عموماً یہ عمل دین اسلام سے بیزار گمراہ اور ملحد افراد کرتے ہیں ۔ کیونکہ انکا اولین مقصد عام مسلمانوں کے قلب و اذہان پر مذہبی حملہ کرنا ہوتا ہے ۔

پاکستانی معاشرے میں آزاد خیالی اور لبرل ازم کا زہر بڑی شدت کے ساتھ پھیل رہا ہے ۔ جس کے زیر اثر تعلیم یافتہ طبقہ اور اچھے خاصے باشعور آگئے ہیں ۔ جو معاشرے کی اصلاحی تشکیل میں سب سے بڑی غیر فطری رکاوٹ ہے ۔ لوگوں کو دین اسلام سے دور کیا جا رہا ہے اور اسلامی تعلیمات پر بے جا اعتراض کرکے اسلامی عمارت کو منہدم کرنے کی غلیظ کوشش کی جا رہی ہے ۔ ایسے مادر پدر آزاد افراد معاشرے کےلیے ناسور اب خواہ انکا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبہ جات سے ہو ۔ اس خاتون کی عربی خطاطی شدہ لباس کی وجہ سے ایک نیا مذہبی  ہیجان ملک بھر میں عروج پر پہنچ چکا ہے ۔ اس سنگین معاملہ میں تمام فیشن ڈیزائنرز حلقوں کو چاہیے کہ وہ اس واقعہ کے بارے میں اپنا مثبت موقف عوام کے سامنے پیش کریں تاکہ دوریاں ختم ہوں اور کشیدگی کا خاتمہ ہو ۔

مغرب پرستی اور آزاد خیالی کا چورن بیچنے والا طبقہ پاکستان میں ہر اس شخص کی حمایت میں کھڑا ہو جاتا ہے جو  توہین رسالت کا مرتکب ہوا ہو یا توہین قرآن و حروف تہجی کی حرمت کا یا توہین اصحاب رسول رضی اللہ عنہم و اولیاء کاملین علیہم الرحمہ کا ۔ یہ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ اور استعماری قوتوں کا کھیل ہے جسے پاکستان میں کھیلا جا رہا ہے ۔ اور ہماری عوام و خواص دونوں ہی اسکا آسان ہدف بن رہی ہے ۔ اس حساس مسلئے کو دور اندیشی اور حکمت عملی سے دیکھنا ہوگا ورنہ پاکستان خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ جائے گا اور اس خانہ جنگی کے دو بڑے محرکات ہیں ایک مذہبی ایک لسانی ۔ جو بھی چال چل جائے ۔ ایسے حالات میں عوام و خواص دونوں کو ہی زمینی حقائق کے مطابق قدم اٹھانا پڑے گا ۔ آئیے پاکستان کو مسالک و قومیت کا گلدستہ بنائیں نہ کہ جنونی درندوں اور ملحد شیطانوں کی آماجگاہ ۔ جہاں مادر پدر آزاد خیالی کے خنزیر نما دانشور دینِ اسلام کے جسم کو نوچ رہے ہوں ۔ ان شاءاللہ عزوجل پاکستان کو ملحدانہ سوچ کی جنت کبھی نہیں بننے دیا جائے گا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...