Wednesday, 21 February 2024

اسلام میں عورت کی حکمرانی کا شرعی حکم

اسلام میں عورت کی حکمرانی کا شرعی حکم
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ ۔ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُؕ ۔ وَ الّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَ اهْجُرُوْهُنَّ فِی الْمَضَاجِـعِ وَ اضْرِبُوْهُنَّۚ ۔ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْهِنَّ سَبِیْلًاؕ ۔ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیًّا كَبِیْرًا ۔ (سورہ النساء آیت نمبر 34)
ترجمہ : مرد افسر ہیں عورتوں پر اس لیے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس لیے کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کیے تو نیک بخت عورتیں ادب والیاں ہیں خاوند کے پیچھے حفاظت رکھتی ہیں جس طرح اللہ نے حفاظت کا حکم دیا اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں اندیشہ ہو تو انہیں سمجھاؤ اور ان سے الگ سوؤ اور انہیں مارو پھر اگر وہ تمہارے حکم میں آجائیں تو ان پر زیادتی کی کوئی راہ نہ چاہو بے شک اللہ بلند بڑا ہے ۔

علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : قوام کا معنی ہے کسی چیز کو قائم کرنے والا اور اس کی حفاظت کرنے والا ۔ (مفردات الفاظ القرآن صفحہ ٤١٦ مطبوعہ المکتبہ المرتضویہ ایران)

علامہ جمال الدین محمد بن مکرم بن منظور افریقی مصری متوفی ٧١١ ھ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : مرد عورت کا قوام ہے یعنی اس کی ضروریات پوری کرتا ہے اور اس کا خرچ برداشت کرتا ہے ۔ (لسان العرب جلد ١٢ صفحہ ٥٠٣ مطبوعہ نشرادب الحوذۃ ایران ‘ ١٤٠٥ ھ)(تاج العروس جلد ٩ صفحہ ٣٥)

علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : الرجال قوامون کا معنی یہ ہے کہ جس طرح حاکم رعایا پر اپنے احکام نافذ کرتا ہے اسی طرح مرد عورتوں پر احکام نافذ کرتے ہیں ‘ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت حاصل ہے کیونکہ نبوت ‘ رسالت حکومت ‘ امامت ‘ اذان اقامت اور تکبیرات تشریق وغیرہ مردوں کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ (تفسیر روح المعانی جلد ٥ صفحہ ٢٣ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت،چشتی)

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : عن أبي بكرة قال : لقد نفعني الله بكلمة سمعتها من رسول الله صلى الله عليه وآلہ وسلم أيام الجمل بعد ما كدت أن ألحق بأصحاب الجمل ، فأقاتل معهم قال : لما بلغ رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أهل فارس قد ملكوا عليهم بنت كسرى ، قال : لن يفلح قوم ولّوا أمرهم امرأة ۔
ترجمہ : حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایام جمل میں ہو سکتا تھا کہ میں اصحاب جمل کے ساتھ لاحق ہو جاتا اور ان کے ساتھ مل کر جنگ کرتا ، اس موقع پر مجھے اس حدیث نے فائدہ پہنچایا جس کو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا تھا جب اہلِ فارس نے کسریٰ کی بیٹی کو اپنا حاکم بنا لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ قوم ہرگز فلاح (اخروی) نہیں پا سکتی جس نے اپنے معاملات میں ایک عورت کو حاکم بنا لیا ۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث : ٤٤٢٥‘ ٧٠٩٩)(صحیح البخاری رقم الحديث : 4163 مطبوعہ دار طوق النجاة)(صحیح بخاری حدیث نمبر : 4425)(سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ٢٢٦٩،چشتی)(سنن نسائی ‘ رقم الحدیث : ٥٤٠٣)(صحیح ابن حبان ج ١٠ ص ٤٥١٦)(مسند احمد ج ٥ ص ٥١‘ ٤٧‘ ٤٣)(سنن کبری للبیہقی ج ١٠ ص ١١٨۔ ١١٧)(مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٥ ص ٢٦٦)(شرح السنۃ ‘ رقم الحدیث : ٢٤٨٦)(مسند الطیالسی ‘ رقم الحدیث : ٨٧٨)(المستدرک ج ٤ ص ٥٢٥۔ ٥٢٤‘ مجمع الزوائد ج ٥ ص ٢٠٩)

اس حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہو کہ : عورت سربراہ بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے اور نہ قاضی بن سکتی ہے ، کیونکہ ان دونوں کاموں کو سنبھالنےاور ان کا حق ادا کرنے کےلیے کھلے عام عوام میں نکلنا پڑتا ہے ، تاکہ مسلمانوں اور عوام کے معاملات نمٹائے جائیں ، جبکہ عورت کو پردے کا حکم ہے ، اس کےلیے اس طرح نکلنا جائز نہیں ہے ۔ فی شرح السنۃ ؛ لا تصلح المرأۃ أن تكون إماماً و لا قاضياً ؛ لأنھما محتاجان إلى الخروج للقيام بأمور المسلمين ، و المرأۃ عورۃ ، لا تصلح لذالک ، و لأن المرأة ناقصة ، و القضاء من كمال الولاية ، فلا يصلح لها إلا الكامل من الرجال ۔ (مرقاۃ المفاتیح جلد 7 صفحہ 265 مطبوعہ فیصل کتب خانہ)

عورت حکمرانی کی اہل نہیں ، اور عورت کی حکمرانی فتنوں کےلیے راستہ ہموار کرنا ہے : ⏬

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الأَشْقَرُ قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَهَاشِمُ بْنُ القَاسِمِ، قَالَا: حَدَّثَنَا صَالِحٌ المُرِّيُّ، عَنْ سَعِيدٍ الجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا كَانَ أُمَرَاؤُكُمْ خِيَارَكُمْ، وَأَغْنِيَاؤُكُمْ سُمَحَاءَكُمْ، وَأُمُورُكُمْ شُورَى بَيْنَكُمْ فَظَهْرُ الأَرْضِ خَيْرٌ لَكُمْ مِنْ بَطْنِهَا، وَإِذَا كَانَ أُمَرَاؤُكُمْ شِرَارَكُمْ وَأَغْنِيَاؤُكُمْ بُخَلَاءَكُمْ، وَأُمُورُكُمْ إِلَى نِسَائِكُمْ فَبَطْنُ الأَرْضِ خَيْرٌ لَكُمْ مِنْ ظَهْرِهَا ۔ (سنن ترمذی أبواب الفتن، رقم الحديث: ٢٢٦٦)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک تمہارے حکمران بہترین لوگوں میں سے ہوں گے اور تمہارے مال دار سخی اور بخشش کرنے والے ہوں گے اور تمہارے معاملات باہمی مشورہ سے طے پائیں گے تو تمہارے واسطے زمین کے اوپر رہنا قبر میں جانے سے بہتر ہو گا ، اور جب تمہارے حکمران تمہارے بد ترین لوگ ہوں اور مال دار بخیل ہوجائیں اور تمہاری سربراہی و حکمرانی عورتوں کے سپرد کر دی جائے تو تمہارے لیے زمین کے اوپر رہنے سے قبر میں چلے جانا بہتر ہوگا ۔

حدثنا عثمان بن الهيثم حدثنا عوف عن الحسن عن أبي بكرة قال: "لقد نفعني الله بكلمة سمعتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم أيام الجمل بعد ما كدت أن ألحق بأصحاب الجمل، فأقاتل معهم قال: لما بلغ رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أهل فارس قد ملكوا عليهم بنت كسرى، قال: «لن يفلح قوم ولّوا أمرهم امرأة ۔ (صحیح البخاری كتاب المغازي، باب كتاب النبي صلي الله عليه وسلم إلى كسرى و قيصر، رقم الحديث ٤١٦٣،چشتی)
ترجمہ : حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنگ جمل کے زمانے میں اللہ نے مجھے ایک فرمان کی وجہ سے نفع پہچایا جو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سنا تھا ۔۔۔ وہ یہ کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر ملی کہ اہلِ فارس نے کسری کی بیٹی کو سلطنت کی حکمرانی دے دی ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی جس نے حکمرانی کسی عورت کے سپرد کی ہو ۔

فتح الباری شرح صحیح البخاری میں ہے : قال الخطابي : في الحديث أن المرأة لا تلي الإمارة ولا القضاء ... والمنع من أن تلي الإمارة والقضاء قول الجمهور ۔
ترجمہ : امام خطابی نے فرمایا کہ امارت (حکمرانی) اور قضا کے منصب پر عورت فائز نہیں ہوسکتی، اور یہی جمہور کا قول ہے ۔

شرح السنۃ للبغوی میں ہے : قال الإمام: اتفقوا أن المرأة لا تصلح أن تكون إماماً و لا قاضياً؛ لأن الإمام يحتاج إلى الخروج لإقامة أمر الجهاد و القيام بأمر المسلمين، و القاضي يحتاج البررز لفصل الخصومات، و المرأة عورة لا تصلح للبروز، و تعجز لضعفها عند القيام بأكثر الأمور؛ و لأن المرأة ناقصة، و الإمامة و القضاء من كمال الولاية، فلا يصلح لها إلا الكامل من الرجال ۔  (شرح السنۃ للبغوی جلد ١ صفحہ ٧٧،چشتی)

البتہ وہ امور جن میں عورت کی گواہی شرعاً  قابلِ قبول ہوتی ہے ان امور کی انجام دہی کی ذمہ داری اور ایسے شعبہ کی ذمہ دار عورت کو بنایا جا سکتا ہے اور اس شعبہ کی ذمہ دار خاتون کی بات نہ صرف معتبر سمجھی جائے گی، بلکہ اس کی پاس داری دوسروں پر بھی لازم ہوگی ، بشرطیکہ نصوصِ شرعیہ کے خلاف کوئی فیصلہ یا حکم نامہ جاری نہ کرے ۔ فتح الباری شرح صحیح البخاری میں ہے : وعن أبي حنيفة تلي الحكم فيما تجوز فيه شهادة النساء ۔ (کتاب المغازی باب کتاب النبي صلي الله عليه وسلم إلى كسري و قيصر)
امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تمہارے حکام نیک ہوں ‘ تمہارے اغنیاء سخی ہوں ‘ اور تمہاری حکومت باہمی مشورہ سے ہو ‘ تو تمہارے لیے زمین کے اوپر کا حصہ اس کے نچلے حصہ سے بہتر ہے اور جب تمہارے حکام بدکار ہوں ‘ اور تمہارے اغنیاء بخیل ہوں ‘ اور تمہارے معاملات عورتوں کے سپرد ہوں تو تمہارے لیے زمین کا نچلا حصہ اس کے اوپر کے حصہ سے بہتر ہے ۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٢٧٣)

امام ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ حاکم نیشاپوری متوفی ٤٠٥ ھ علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ کو فتح کی خوش خبری سنائی اور یہ بھی بتایا کہ دشمن کی سربراہی ایک عورت کر رہی تھی ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب مرد عورتوں کی اطاعت کرنے لگیں تو وہ تباہ اور برباد ہوجائیں گے ۔ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے امام بخاری اور مسلم علیہما الرحمہ نے اس کو روایت نہیں کیا ۔ (حافظ ذہبی علیہ الرحمہ نے بھی اس حدیث کو صحیح الاسناد کہا ہے) ۔(المستدرک جلد ٤ صفحہ ٢٩١)

علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ عورت خلیفہ نہیں ہو سکتی ۔ (الجامع الاحکام القرآن جلد ١٣ صفحہ ١٨٣ مطبوعہ ایران)

امام حسین بن مسعود بغوی شافعی ٥١٦ ھ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : امت مسلمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ عورت حکومت یا انتظامیہ کی سربراہ یا قاضی نہیں بن سکتی ‘ کیونکہ سربراہِ مملکت کو جہاد قائم کرنے اور مسلمانوں کے معاملات نمٹانے کےلیے گھر سے باہر نکلنے کی ضرورت پڑتی ہے اور قاضی کو مقدمات کا فیصلہ کرنے کےلیے باہر جانے کی ضرورت ہوتی ہے اور عورت واجب الستر ہے اس کا گھر سے باہر نکلنا جائز نہیں ہے ۔ (شرح السنۃ جلد ١٠ صفحہ ٧٧ مطبوعہ بیروت ١٤٠٠ ھ،چشتی)

علامہ بدرالدین محمودبن احمد عینی حنفی متوفی ٨٥٥ ھ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : جمہور فقہاء اسلام علیہم الرحمہ نے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کی بناء پر عورت کے قاضی بنانے کو ممنوع قرار دیا ہے ‘ علامہ طبری علیہ الرحمہ نے جمہور کی مخالفت کی اور یہ کہا کہ جن معاملات میں عورت شہادت دے سکتی ہے وہ قضاء بھی کر سکتی ہے اور بعض مالکیہ نے عورت کی قضاء کو مطلقاً جائز کہا ہے ۔ (عمدۃ القاری جلد ٢٤ صفحہ ٢٠٤ مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ مصر ١٣٤٨ ھ)

علامہ احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : علامہ ابن التین علیہ الرحمہ نے کہا ہے کہ جمہور فقہاء اسلام علیہم الرحمہ نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ عورت کو منصب قضاء سونپنا جائز نہیں ہے اور علامہ طبری علیہ الرحمہ نے جمہور کی مخالفت کی اور یہ کہا کہ جن امور میں عورت گواہی دے سکتی ہے ان میں وہ قضاء بھی کر سکتی ہے اور بعض مالکیہ نے کہا ہے کہ عورت کی قضاء مطلقا جائز ہے ۔ (فتح الباری جلد ١٣ صفحہ ٥٦ مطبوعہ لاہور،چشتی)

ہر چند کہ علامہ عینی اور علامہ عسقلانی علیہما الرحمہ نے یہ لکھا ہے کہ علامہ طبری علیہ الرحمہ نے بعض امور میں اور بعض مالکیہ نے عورت کی قضاء کو مطلقاً جائز قرار دیا ہے لیکن اول تو یہ ثابت نہیں ‘ اور ثانیاً ظاہر ہے کہ قرآن مجید کی نصوص قطعیہ ‘ احادیث صحیحہ ‘ اسلام کے عمومی احکام اور جمہور فقہاء اسلام علیہم الرحمہ کی تصریحات کے سامنے ان اقوال کی کوئی وقعت نہیں ہے اور یہ بھی خیال رہے کہ علامہ طبری علیہ الرحمہ اور بعض مالکیہ نے عورت کی عمومی سربراہی کو جائز نہیں کہا بلکہ بعض امور میں عورت کی صرف قضاء کو جائز کہا ہے ۔

علامہ عینی اور علامہ عسقلانی علیہما الرحمہ نے بغیر کسی ثبوت کے علامہ طبری علیہ الرحمہ اور بعض مالکیہ کی طرف عورت کی قضاء کے جواز کی نسبت کردی ‘ حقیقت یہ ہے کہ علامہ طبری اور مالکی فقہاء دونوں اس تہمت سے بری ہیں ‘ علامہ ابوبکر ابن العربی مالکی علیہ الرحمہ اس مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں : حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث میں تصریح ہے کہ عورت خلیفہ نہیں ہو سکتی اور اس مسئلہ میں کسی کا اختلاف نہیں ہے البتہ علامہ محمد بن جریر طبری علیہ الرحمہ سے یہ منقول ہے کہ ان کے نزدیک عورت کا قاضی ہونا جائز ہے لیکن ان کی طرف اس قول کی نسبت صحیح نہیں ہے ۔ ان کی طرف اس قول کی نسبت ایسے ہی غلط ہے جیسا کہ امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کی طرف یہ غلط منسوب کر دیا گیا ہے کہ جن امور میں عورت گواہی دے سکتی ہے ان میں وہ فیصلہ بھی کرسکتی ہے ۔ نیز قاضی ‘ ابوبکر محمد بن عبداللہ بن العربی مالکی متوفی ٥٤٣ ھ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : عورت سربراہی کی اس لیے اہل نہیں ہے کہ حکومت اور سربراہی سے یہ غرض ہوتی ہے کہ سرحدوں کی حفاظت کی جائے قومی معاملات کو سلجھایا جائے ملت کی جائے اور مالی محاصل حاصل کرکے ان کی مستحقین میں تقسیم کیا جائے اور یہ تمام امور مرد انجام دے سکتا ہے عورت یہ کام انجام نہیں دے سکتی کیونکہ عورت کےلیے مردوں کی مجالس میں جانا اور ان سے اختلاط کرنا جائز نہیں ہے اس لیے کہ اگر وہ عورت جوان ہے تو اس کی طرف دیکھنا اور اس سے کلام کرنا حرام ہے اور اگر وہ سن رسیدہ عورت ہے تب بھی اس کا بھیڑ بھاڑ میں جانا مخدوش ہے ۔ (احکام القرآن جلد ٣ صفحہ ١٤٥٨ مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت،چشتی)

قرآن کریم میں ملکہ بلقیس رضی اللہ عنہا کے واقعے کا جس قدر ذکر ہے اس میں اس کی حکومت کے خاتمہ کا ذکر ہے ‘ اسلام قبول کرنے کے بعد پھر اس کی حکومت کے تسلسل کا ذکر نہیں ہے لہٰذا اس واقعہ میں عورت کی سربراہی کا ادنی جواز بھی موجود نہیں ہے اور اگر بالفرض بلقیس کے اسلام لانے کے بعد اس کی حکومت کو ثبوت ہو بھی تو وہ شریعت سابقہ ہے ہم پر حجت نہیں ہے ۔ بعض متجدد علماء جنگ جمل میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شرکت سے عورت کی سربراہی کے جواز پر استدلال کرتے ہیں لیکن یہ استدلال قطعاً باطل ہے اول تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا امارت اور خلافت کی مدعیہ نہیں تھیں ہاں وہ امت میں اصلاح کے قصد سے اپنے گھر سے باہر نکلیں لیکن یہ ان کی اجتہادی خطا تھی اور وہ اس پر تاحیات نادم رہیں ‘ امام محمد بن سعد متوفی ٢٣٠ ھ علیہ الرحمہ نے روایت کیا ہے کہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا (آیت) ” وقرن فی بیوتکن “ تم اپنے گھروں میں ٹھہری رہو “ کی تلاوت کرتیں تو اس قدر روتیں کہ آپ کا دوپٹہ آنسوؤں سے بھیگ جاتا ۔ (طبقات کبری جلد ٨ صفحہ ٨١ مطبوعہ دار صادر بیروت)

عورت ذات کو اللہ تعالیٰ نے ناقص العقل اور ناقص الدین بنایا ، انہیں امامتِ صغرٰی ، امامت کبرٰی ، اذان ، خطبہ ، اقامتِ جمعہ ، اقامتِ عیدین سے محروم رکھا، حدود و قصاص میں ان کی شہادت غیر معتبر قرار دی گئی ، مردوں کے مقابلہ میں تنہا عورت کی گواہی آدھی قرار دی گئی ، انہیں جنازہ میں جانے اور بغیر محرم کے سفر کرنے سے منع کیا گیا ، جہاد جیسا اہم ترین رکن ان کے ذمہ واجب نہیں کیا گیا ، وہ مردوں کی امامت نہیں کر سکتی ہیں ۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے عقل ، علم ، فہم ، تدبر ، حسنِ تدبیر ، قوت نظریہ ، قوت عملیہ ، قوت جسمانیہ ، شجاعت ، قوت ، محنت ، صبر و تحمل کے لحاظ سے مردوں کو عورتوں پر فضیلت دی ہے ، پھر مرد لوگ عورتوں پر بڑا مال خرچ کرے ہیں ، ان کا مہر دیتے ہیں، انہیں رہنے کےلیے مکان ، نان نفقہ دیتے ہیں ، اس لحاظ سے وہ عورتوں کے محسن ہیں اور محسِن ہی کو اپنے محسَن پر حکمرانی کا حق ہوتا ہے ، محسَن اپنے محسِن پر حکمرانی کا حق نہیں رکھتا ہے ۔ ان ہی اسباب و وجوہ کی بنا پر کسی اسلامی مملکت میں عورت کی حکمرانی و سربراہی موجبِ عدمِ فلاح اور علماء ، محدثین و فقہائے کرام کے نزدیک بالاتفاق ناجائز ہے ۔ اسلامی تاریخ کے ہر دور میں امتِ مسلمہ کا اس بات پر اتفاق رہا ہے کہ حکومت کی سربراہی کسی عورت کو نہیں سونپی جا سکتی ۔

بعض لوگ عورت کی سربراہی پر جواز کے لیے ملکۂ سبا یعنی بلقیس کی حکمرانی کا واقعہ پیش کرتے ہیں یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام کے خط لکھنے پر جب وہ مطیع اور فرمانبردار ہو کر آگئی اور اسلام قبول کر لیا تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کی بادشاہت کو برقرار رکھا جیسا کہ بعض کتابوں میں اس کا ذکر ملتا ہے، حالانکہ قرآن پاک کے الفاظ پر نظر ڈالنے سے معاملہ برعکس معلوم ہوتا ہے ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کی حکومت تسلیم نہیں کی بلکہ اس کے نام جو خط لکھا اس کے الفاظ یہ ہیں : انہ من سلیمان وانہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ان لا تعلوا علیّ واتونی مسلمین ۔ (سورہ نمل)

اس سے معلوم ہوا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کی حکومت کو نہ صرف یہ کہ تسلیم نہیں فرمایا بلکہ اسے اپنا ماتحت بن کر آنے کا حکم دیا ، نیز اس کا بھیجا ہوا تحفہ قبول نہیں فرمایا ، اس کا تختہ بھی اٹھوا کر منگوا لیا، اس کی ہیئت بھی بدل ڈالی اور بلقیس جب حضرت سلیمان علیہ السلام کے محل میں آئی تو اس نے کہا : پروردگار! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین کے آگے جھک گئی ۔‘ (نمل ۴۴)
قرآن پاک کے بیان سے دور تک بھی بلقیس کی سربراہی اور اس کی حکومت برقرار رکھنے کا شائبہ تک نظر نہیں آتا ، بلکہ قرآن کے پڑھنے سے یہی تاثر پیدا ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کے اسلام کے بعد اس کی حکومت کو جائز نہیں رکھا نہ اسے تسلیم فرمایا بلکہ اس کی سلطنت کا خاتمہ کر دیا ۔ 

بعض اسرائیلی روایات میں منقول ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس سے نکاح کر کے اسے یمن بھیج دیا تھا اور بعض روایات میں ہے کہ نکاح کرنے کے بعد شام بھیج دیا تھا ، بعض میں ہے کہ نکاح کے بعد بلقیس کو اپنے پاس رکھا ، بعض میں ہے کہ بلقیس کا نکاح ہمدان کے بادشاہ سے کر دیا۔ غرض اس سلسلہ میں تاریخی روایات بہت متضاد ملتی ہیں ۔ علامہ قرطبی علیہ الرحمہ نے ان تمام اسرائیلی روایات کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اس سلسلہ میں کوئی صحیح روایت موجود نہیں ہے ، نہ اس بارے میں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس سے نکاح کیا ، نہ اس بارے میں کہ کسی اور سے نکاح کرایا ۔ (تفسیر قرطبی جلد ۱۳ صفحہ ۲۱۰ ، ۲۰۱۱)

بہرحال بلقیس کی سربراہی اور حکومت کا پتہ جن روایات سے معلوم ہوتا ہے وہ تمام کی تمام غیر صحیح اور غیر مستند ہیں اور آپس میں متضاد ہیں ۔ اس طرح کی روایات سے عورت کی سربراہی پر استدلال کسی طرح درست نہ ہو گا ۔

بعض حضرات نے عورت کی سربراہی پر جنگِ جمل کے واقعہ سے استدلال کیا ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس جنگ میں قیادت کی تھی ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ تو حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کبھی قیادت کا دعوٰی کیا ، نہ ان کے ساتھیوں نے آپ کو جنگ میں قائد و سربراہ بنایا ، نہ ان کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کا مقصد نہ کوئی سیاست و حکومت تھی نہ ہی وہ جنگ کرنے کے ارادہ سے نکلی تھیں بلکہ روایات سے صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ وہ محض حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کے جائز مطالبے کی تقویت اور اس سلسلہ میں مسلمانوں کے درمیان مصالحت کرانے کے مقصد سے گئی تھیں ۔ علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں : جب حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا بصرہ جا رہی تھیں تو راستہ میں ایک جگہ قیام کیا، رات میں وہاں کتے بھونکنے لگے ۔ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے لوگوں سے پوچھا یہ کون سا مقام ہے ؟ لوگوں نے بتایا ’’حؤاب‘‘ نامی چشمہ ہے ۔ حوأب کا نام سنتے ہی حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا چونک اٹھیں ، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآل وسلم نے ایک مرتبہ ہم ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ تم میں سے ایک کا اس وقت کیا حال ہو گا جب اس پر حوأب کے کتے بھونکیں گے ؟ ۔ (مسند احمد صفحہ ۵۲ جلد ۱)
حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حوأب کا نام سن کر آگے جانے سے انکار کر دیا اور اپنے ساتھیوں سے اصرار کیا کہ مجھے مدینہ واپس لوٹا دو لیکن بعض حضرات نے آپ کو چلنے کےلیے اصرار کیا اور کہا کہ آپ کی وجہ سے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح ہو جائے گی ۔ بہرحال حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے دوبارہ سفر شروع کیا اور بصرہ پہنچیں اور جو مقدّر تھا وہ پیش آیا ۔ (البدایہ والنہایہ صفحہ ۱۳۱ جلد ۷)

باوجودیکہ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کا سفر مسلمانوں کے درمیان مصالحت کے خالص دینی مقصد کےلیے تھا مگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور دوسری امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کو حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کا خواتین کے اسلامی دائرے سے نکلنا پسند نہ آیا ۔ چنانچہ حضرت ام سلمہ نے جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کو خط لکھا اور اس میں انہیں گھر سے نکلنے پر تنبیہ فرمائی اور گھر رہنے کی نصیحت فرمائی ، اسی طرح کا نصیحت آمیز خط حضرت زید بن صوحان رضی اللہ عنہ نے بھی لکھا ۔ چنانچہ اس سفر کرنے پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بعد میں بڑی ندامت و شرمندگی رہی ۔ 

حافظ ابن عبد البر علیہ الرحمہ نے یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا آپ نے مجھے اس میں جانے سے کیوں نہیں روکا ؟ اگر آپ مجھے روک دیتے تو میں گھر سے باہر نہیں نکلتی ۔ بہرحال وہ نادم ہوئیں اور اپنے اس نکلنے پر توبہ بھی کی ۔ بعد میں ان کا یہ حال ہو گیا تھا کہ قرآن پاک کی تلاوت کے وقت جب آیت ’’وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ‘‘ پر پہنچتیں تو اس قدر روتیں کہ ان کی اوڑھنی آنسوؤں سے تر ہو جاتی ۔ ان حالات میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی سربراہی کے اوپر استدلال کرنا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے ، اس کا تو تصور بھی ان کے حاشیۂ خیال میں نہیں آیا تھا ۔ بہر حال کسی اسلامی ملک کی سربراہی کےلیے عورت کا تقرر کرنا ہرگز جائز نہیں ہے ، تمام ائمہ علیہم الرحمہ کا یہ متفقہ فیصلہ ہے اور یہ اجماعی مسئلہ بن چکا ہے ۔ کامل العقل اور اہلیت تامہ رکھنے والے مرد کے موجود ہوتے ہوئے عورت کو ملک کی وزارت یا صدر کےلیے منتخب کرنا اسلام اور مسلمانوں کےلیے نہ صرف ننگ و عار کا باعث ہے بلکہ تاریخِ اسلام میں ایک بدنما داغ ہے اور مملکت کے یقینی ناکام ہونے کی علامت ہے ۔ حدیث شریف میں ہے ’’اخروھن من حیث اخرھن اللہ‘‘ یعنی عورتوں کو پیچھے کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے رتبہ کو مردوں کے مقابلے میں (سلطنت ولایت وغیرہ میں) پیچھے رکھا ہے ۔ اللہ عزوجل ہم سب اہلِ اسلام کو احکامِ اسلام پر عمل کرنے توفیق توفیق عطا فرماۓ اور جملہ فتنوں سے اپنے حفظ و امان میں رکھے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...