Thursday 1 February 2024

کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ کا معنیٰ و مفہوم

0 comments
کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ کا معنیٰ و مفہوم
محترم قارئینِ کرام : اسلام کا دار و مدار کلمہ طیب پر ایمان پر ہے ۔ یہ درحقیقت ربّ عالم کے سامنے اس کی عبودیت و غلامی کا اقرار نامہ ہے جس کے ذریعہ ایک مسلمان غیر مسلم سے ممتاز ہو جاتا ہے ، کلمہ طیبہ کو افضل الذکر بھی کہا جاتا ہے ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بروایت ترمذی اور ابنِ ماجہ ایک ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یوں بیان کیا ہے : قَالَ رَسُوْلَ اللّٰہِ اَفْضَلَ الذِّکْرِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : سب سے افضل ذکر لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ہے ۔

کلمہ طیب یہ دونوں جہانوں میں سے سب سے بڑی دولت و نعمت ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ۔ یہ پاکیزہ کلمہ دینِ اسلام کا محور ہے، اس کا نام کلمہ طیب بھی اسی لیے ہے کہ یہ نام سب کچھ پاک کر دیتا ہے ۔ اس کے نور سے تمام کفر و شرک کے پردے ہٹ گئے اور دورِ جہالت کی تاریکی سے عالمِ انسانیت کو نجات مل گئی ۔ ان پردوں کے اُٹھ جانے سے ہی بندہ اپنی تخلیق کے مقصد سے آگاہ ہوتا گیا اور اپنے ربّ کو جانتا اور پہچانتا گیا ۔ ایک مسلمان کےلیے ایمان کے حصول کی بنیاد کلمہ طیبہ ۔ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ ۔ ہے کیونکہ اسی کلمہ کی برکت و فضیلت سے اس کے آلودہ نفس کا تزکیہ ہوتا ہے ، نفس کے حجاب زائل ہوتے ہیں اور انوارِ الٰہی سے اس کا قلب منور ہو جاتا ہے ۔ عرفانِ ذات کا حصول بھی کلمہ طیب کی حقیقت تک پہنچنے یعنی تصدیقِ قلب سے ممکن ہے ۔

لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ
ترجمہ : نہیں ہے کوئی معبود اللہ کے سوا حضرت محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔

لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ : توحید : یہ کلمہ طیبہ توحید پر مشتمل ہے ۔ توحید کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کو معبود برحق ، وحدہٗ لاشریک لہٗ ماننا اور یہی دین کی بنیاد ہے ۔
الوہیت : استحقاقِ عباد۱ت یا وجوب کو الوہیت کہتے ہیں۔جو ذات مستحق واجب الوجود کےلیے مستحق عبادت ہونا ضروری ہے ۔
مشرکین کی سفاہت ہے کہ وہ اپنے بتوں اور معبودوں کو ممکن الوجود مان کر معبود اور مستحق عبادت سمجھتے ہیں ۔ (چشتی)

عبادت : غایت تعظیم اور انتہاء تذلل کو عبادت کہتے ہیں جس کی اصل یہ ہے کہ عبادت کرنے والا جس کی عبادت کرتا ہے اس کے لیے ذاتی اور مستقل صفت مانتا ہے جس میں کسی کی قدرت و مشیت کو کسی قسم کا کوئی دخل نہ ہو ۔

اصل عبادت اسی اعتقاد کو کہتے ہیں ۔ اس اعتقاد کے ساتھ کسی کی اطاعت و محبت یا اس کےلیے کوئی عمل کرنا اس کی عبادت ہے ۔ بغیر عمل کے کسی کےلیے صرف اعتقاد کا ہونا بھی اس کی عبادت قرار پائے گا ۔

استعانت : الوہیت اور عبادت کے معنی واضح ہونے کے بعد استعانت کے معنی خود بخود سمجھ میں آجاتے ہیں اور وہ یہ کہ کسی کے لیے عون کی ایسی صفت مستقلہ مان کر جو مقہوریت اور مغلوبیت سے بالا تر ہو اس سے طلب عون کو استعانت (حقیقیہ) کہا جاتا ہے ایسی استعانت صرف معبود حقیقی کی شان کے لائق ہے، لہٰذا مستعان وہی ہوسکتا ہے اس کے غیر سے استعانت دراصل اس کی الوہیت و معبودیت کے اعتقاد کے منافی ہے ۔

فائدہ : چوں کہ الوہیت اور معبودیت استقلال ذاتی کے بغیرمتصور نہیں ، اس لیے کسی کو مجازی معبود و الٰہ نہیں کہہ سکتے بخلاف استعانت ، محبت اور اطاعت وغیرہ کے کہ یہاں مستعان مجازی اور محبوب مجازی کہہ سکتے ہیں ۔ کیوں کہ مظاہر کائنات میں خالق حقیقی نے یہ اوصاف پیدا کیے ہیں او رجو چیز پیدا کی ہوئی ہو اس میں استقلال ذاتی ممکن نہیں جس طرح استقلال ذاتی میں حدوث و مکان کا شائبہ نہیں پایا جاتا ۔ لہٰذا الٰہ اور معبود کو مجازی کہنا بالکل ایسا ہوگا جیسے واجب الوجود کو حادث کہہ دیا جائے ۔ (چشتی)

مختصر یہ کہ الوہیت کے مفہوم کا خلاصہ، غلبہ اور استقلال ذاتی ہے جو ذات اس سے متصف ہوگی اس کے لیے استحقاق عبادت و استعانت اور وجوب وجود بداہۃ ضروری ہوگا اور یہ ملازمت و ضرورت کا سلسلہ ایسا ہے کہ معبود برحق کے تمام اوصاف واقعیہ کو اعتقاد کے سامنے لے آتا ہے اور ایک مومن و مصدق اس کی روشنی میں معبودِ حقیقی کے تمام اوصاف کو بلاتامل تسلیم کرلیتا ہے ۔

مثلاً استحقاق عبادت کےلیے ضروری ہے کہ معبود سب سے بڑا اور عظمت والا ہو نیزاس کے لیے واجب الوجود ہونا بھی ضروری ہو کیوں کہ امکان کی صورت میں احتیاج لازم آئے گی اور محتاج غایت تعظیم کا مستحق نہیں ہوسکتا ، اسی طرح واجب الوجود ہونے کے لیے صانع عالم ہونا لازم ہے کیوں کہ سلسلہ ممکنات کا غیر متناہی ہونا محال ہے ، لامحالہ کسی واجب پر ختم ہوگا وہی صانع قرار پائے گا ۔ پھر صانع کا تعدد امکان تمانع کو مستلزم ہے اور امکان تمانع اجتماع نقیضین کو مستلزم ہے اور ظاہر ہے کہ اجتماع نقیضین ممکن نہیں بلکہ محال ہے اور مستلزم محال یقینا محال ہوتا ہے ۔ اس لیے امکان تمانع باطل قرار پائے گا اور تعدد صانع ممتنع ہوگا۔معلوم ہوا کہ صانع کا ایک ہونا ضروری ہے ۔ جب صانع کا وجود ضروری ہو تو اس کےلیے حیات علم و قدرت،سمع و بصر، کلام ارادہ اور حکمت و مشیت تمام اوصاف کا ہونا بھی ضروری ہے ورنہ صانع نہیں ہوسکتا ۔ اسی طرح صانع کے لیے کائنات کا رب ہونا اور ربوبیت کےلیے رحمان و رحیم ہونا سب کچھ ضروریات و لوازمات سے ہے کہ لزوم و ضرورت کا یہ سلسلہ ایسا ہے کہ ایک صفت کے ساتھ دوسری اور دوسری کے ساتھ تیسری اور اسی طرح ہر صفت ملزومہ کے ساتھ صفت لازمہ ثابت ہوتی چلی جائے گی ۔ (چشتی)

شرک : توحید کی نقیض شرک ہے ، چونکہ توحید امر واجب لذاتہٖ کا اعتقاد ہے اور واجب لذاتہٖ کا نقیض ممتنع لذاتہٖ ہے ۔ لہٰذا جب تک کسی امر ممتنع لذاتہٖ کا اعتقاد نہ ہو اس وقت تک شرک مستحق نہ ہوگا ۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا مستقلاً بالذات قادر مطلق ہونا واجب لذاتہٖ ہے اور اس کا اعتقاد توحید ہے اور اللہ تعالیٰ کے غیر کا مستقلاً بالذات قادر مطلق ہونا ممتنع لذاتہٖ ہے تو جو شخص غیر خدا کے حق میں ایسا اعتقاد رکھے وہ شرک ہے اور اس کا یہ اعتقاد شرک قطعی ہے ۔خواہ وہ ایسی قدرت بعطاء خداوندی ہی کیوں نہ مانتا ہو ۔کیوں کہ صفت مستقلہ اوصاف الوہیت سے ہے اور وصف الوہیت کی عطاء ممتنعات ذاتیہ سے ہے ۔لہٰذا اعطائے الوہیت کا معتقد بھی امر ممتنع لذاتہٖ کا اعتقاد رکھنے کی وجہ سے مشرک قرار پائے گا لیکن اگر کسی غیر خدا کے حق میں کوئی شخص یہ اعتقاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے تمام ممکنات پر غیر مستقل قدرت عطا کردی ہے تو یہ اعتقاد شرک نہ ہوگا کیوں کہ غیر مستقل قدرت عطا کرنا تحت قدرت ہے اور جو چیزتحت قدرت ہو ممکن بالذات ہے اور کسی ممکن بالذات کا ممتنع لذاتہٖ ہونا محال ہے اور جب تک کسی امر ممتنع لذاتہٖ کا اعتقاد نہ ہو مشرک نہیں ہو سکتا ۔ لہٰذا تمام ممکنات پر اللہ تعالیٰ کا اپنے کسی محبوب کو غیر مستقل قدرت عطا کرنے کا اعتقاد ہر گز شرک نہ ہوگا ۔
قدرت کی طرح علم ، سمع ، بصر کو بھی سمجھ لیجیے ۔ اگر کوئی شخص یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی محبوب کو تمام مخلوقات کا غیر مستقل یعنی ممکن اورحادث علم عطا کردیا ہے یا دور و نزدیک کی ہر شے اور ہر آواز کے سننے دیکھنے کی غیر مستقل صفت کا عطا کرنا تحت قدرت ہونے کی وجہ سے ممکن ہے اور امر ممکن کا اعتقاد شرک نہیں ہو سکتا ۔ لہٰذا استقلال ذاتی ہی کا عقیدہ شرک ہوگا ۔ کیوں کہ استقلال و الوہیت کی عطا ممتنع لذاتہٖ ہے اور اسی کا اعتقاد شرک ہے ۔ (چشتی)

خلاصہ کلام یہ کہ توحید و الوہیت اور عبادت و شرک کے ان مفاہیم کو ذہن نشین کرلینے کے بعد یہ حقیقت بے غبار ہو کر سامنے آجاتی ہے کہ الٰہ برحق صرف وہی ذات واجب الوجود ہے جو ہر صفت کمال سےمتصف اور ہر عیب و نقص سے پاک ہو اور اسی ذات مقدسہ کا نام اللہ ہے اس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں ۔ یہ معنی ہیں لَآاِلٰہَ اِلَّا اللہُ کے اور اصل دین بھی یہی ہے ۔

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ : محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اللہ (تعالیٰ) کے رسول ہیں ۔
محمد : لفظ محمد کا مادہ حمد ہے اور التحمید مصدر سے اسم مفعول کا صیغہ ہے جس میں مبالغہ کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے آخری رسول خاتم النبیین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نام مبارک اور اسمائے مبارکہ میں سے اسم ذات ہے اس کے معنی ہیں بہت زیادہ بار بار حمد کیا ہوا ، بے شمار تعریف کیا ہوا ، مطلقاً سراہا ہوا ۔ (چشتی)

مواہب اللدنیہ میں امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک حدیث کا مضمون ارقام فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آسمانوں میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مشہور نام مبارک احمد ہے اور زمین میں محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ۔

احمد : لفظ "احمد" کا مادہ بھی حمد ہے ۔ احمد مصدر سے اسم تفضیل کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں بہت زیادہ حمد کرنے والا ۔ حمد کرنے والا ضرور قابل تعریف ہوتا ہے اور جو قابل تعریف ہو وہ یقیناً مستحق حمد کی تعریف کرتا ہے ۔ لہٰذا حمد ہونے کےلیے محمد ہونا ضروری ہے اور محمد ہونے کے لیے احمد ہونا لازمی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض علماء نے "احمد و محمد" دونوں کو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اسماۓ ذاتیہ سے شمار کیا ہے اور بعض نے دونوں کو ہم معنی بھی قرار دیا ہے ۔ (چشتی)

بشارت عیسیٰ علیہ السلام اور ایک شبہ کا ازالہ

قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ایک بشارت ان الفاظ میں مذکور ہے : وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْم بَعْدِی اسْمُہٗ اَحْمَدُ ۔
ترجمہ : میں بشارت دیتا ہوا آیا ہوں اس رسول کی جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہے ۔

اس مقام پر ایک شبہ وارِد ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ قرآن مجید میں چار جگہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نامِ مبارک محمد آیا ہے (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ۔اسی طرح اذان، نماز ، کلمہ اور درود سب میں حضور علیہ الصلوٰة والسلام کا نام مبارک محمد ہی وارد ہے تو ایسی صورت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اسمہٗ احمد کی بجائے اسمہٗ محمد کیوں نہیں فرمایا ۔ لفظ "احمد" کے ساتھ بشارت میں یہ خدشہ لاحق ہو سکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے احمد کے آنے کی بشارت دی ہے اور حضور "محمد" ہیں ۔ لہٰذا ممکن ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیشین گوئی کا مصداق کوئی اور ہو جس کا نام "احمد" ہو ۔
اس کے متعدد جواب ہو سکتے ہیں لیکن سرِدست ہم صرف ایک جواب پر اکتفا کرتے ہیں ۔ وہ یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمانی الاصل ہیں اور وہ اس طرح کہ ان کی تخلیق نفخ جبرئیل علیہ السلام سے ہوئی یعنی اس کے بغیر کہ نفخ جبرائیل علیہ السلام کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کےلیے مادہ تسلیم کیا جائے بلکہ محض سبب اولین ہونے کی حیثیت سے اور اس اعتبار سے کہ جبرائیل علیہ السلام کا نفخ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ حضرت مریم علیہ السلام کے حاملہ ہونے کا ذریعہ بنا ۔ لہٰذا عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی اصل نفخ جبرائیل علیہ السلام قرار پایا اور نفخ جبرائیل ذاتِ جبرائیل علیہ السلام سے متعلق ہے اور ذاتِ جبرائیل علیہ السلام آسمانی ہے ۔ اس لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمانی الاصل قرار پائے ۔ (چشتی)
اور ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نام مبارک احمد آسمانی ہے،لہٰذا عیسیٰ علیہ السلام نے اسی نام پاک کے ساتھ بشارت دی تاکہ اس بشارت سے خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمانی الاصل ہونے پر روشنی پڑ جائے کیوں کہ بہترین کلام وہی ہوتا ہے جس سے متکلم کی حیثیت نمایاں ہوجائے تو گویا حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے لفظ "احمد" کے ساتھ بشارت دے کر بتادیا کہ میں آسمانی الاصل ہوں ۔ اسی لیے آسمانی بولی بول رہا ہوں ۔ جو جہاں کا ہوتا ہے وہیں کی بولی بولتا ہے ۔

اب لفظ "محمد" کی طرف آئیے اور کلمہ طیبہ میں اس کے وارد ہونے پر غور كیجیے ۔ کلمہ طیبہ دراصل دین متین کی بنیاد ہے ۔ اسے پیشِ نظر رکھنے سے معلوم ہوگا کہ یہاں لفظ "محمد" (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی حیثیت کس قدر عظیم و جلیل ہے ۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ یہ کلمہ طیبہ کا جزو اول جو توحید اور اللہ تعالیٰ کی الوہیت و معبودیت کے مضمون پر مشتمل ہے ۔ بمنزلہ دعویٰ کے ہے جسے تسلیم کرنے کے لیے ہر انسان دلیل کا محتاج تھا اور وہ دلیل کلمہ طیبہ کا جزوِ ثانی "مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ" ہے ۔ (چشتی)
اوپر عرض کیا جا چکا ہے کہ "محمد" (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے معنی ہیں بہت زیادہ تعریف کیا ہوا اور تعریف ہمیشہ خوبی اور حسن و جمال کی ہوتی ہے۔ عیب کی تعریف نہیں ہوتی بلکہ اس کی مذمت کی جاتی ہے ۔ معلوم ہوا کہ جس ذات پاک کو "محمد" کہا گیا ہے وہ عیب و نقص اور برائی و ذم سے پاک ہے اور مجسمہ حسن و جمال ہے اور یہ اس لیے کہ وہ دلیل ہے دعویٔ توحید کی ، توحید کا دعویٰ بالکل بے عیب ہے اس لیے اس کی دلیل بھی بے عیب ہونی چاہیے ۔ اسی بے عیب دلیل کا نام "محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم" ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے ابتدائے آفرینش سے جتنے انبیاء و رسل علیہم السّلام مبعوث فرمائے ہیں ان سب نے اپنی قوموں اور مخاطبوں کو توحید کی دعوت دی اور شرک سے روکا ۔ وہ لوگوں کو اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کی طرف بلاتے تھے اور اللہ کے علاوہ پوجی جانے والی چیزوں اور ہستیوں کا برملا انکار کرتے تھے ۔

کلمۂ طیبہ ’’ لاإلٰہ إلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ‘‘ کی حقیقت یہی ہے ۔ سچے دل سے اس کلمے کو پڑھ کر کوئی بھی انسان اللہ کے دین میں داخل ہو جاتا ہے ۔

’’لاإلٰہ إلا اللہ‘‘ کلمۂ توحید ہے ۔ دینِ اسلام میں اس کلمے کا مقام بے حد بلند اور عظیم ہے ۔ اس کا زبانی اقرار اور تکلم ہر مسلمان کا پہلا فرض ہے ۔ اس لیے جو شخص بھی اسلام قبول کرنا چاہتا ہے اسے اس کلمے کی صداقت وحقانیت تسلیم کرنا ہوگی اور زبان سے اسے بولنا ہوگا ۔

کلمۂ طیبہ اور علامہ محمد اقبال علیہ الرحمہ

خودی کا سر نہاں ، لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فساں ، لا الہ الا اللہ
مطلب : انسان کی "خودی" ، یعنی مضبوط شخصیت ، کا راز ان الفاظ میں چھپا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ۔ خودی تو ایک کھنڈی تلوار ہے جس کی دھار کو لا الہ الا اللہ "اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے" کا نعرہ تیز کرتا ہے ۔

یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں ، گماں لا الہ الا اللہ
مطلب : اس زمانے کو ایک ابراہیم جیسے مرد مومن کی تلاش ہے جو انسانی دماغ کے بنائے ہوئے تمام بتوں کو توڑ ڈالے ۔ "اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے" کا نعرہ ان تمام بتوں کا خاتمہ کر ڈالنے کی طاقت رکھتا ہے ۔

کیا ہے تو نے متاعِ غرور کا سودا
فریبِ سود زیاں ، لا الہ الا اللہ

مطلب : تو نے دنیاوی مال و دولت کےلیے سودا کیا ہے ۔ یہ ایک ایسا قدم ہے جو غرور سے بھرا ہے ۔ لا الہ الا اللہ کے نعرے کے علاوہ سب کچھ دھوکہ ہے ۔

یہ مال و دولت دنیا ، یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم گماں ، لا الہ الا اللہ

مطلب : دنیاوی مال و دولت اور دنیاوی دوستیاں اور رشتے ، سب ایک خواب ہیں ، ایک طرح کے وہم و گماں کے بت ہیں ، نعرہ "لا الہ الا اللہ" کے علاوہ سب کچھ کھوکھلا لگتا ہے ۔

خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زنّاری
نہ ہے زماں نہ مکاں ، لا الہ الا اللہ

مطلب : انسانی دماغ نے زماں و مکاں کا پاک دھاگہ کافرانہ انداز سے اوڑھا ہوا ہے ، وقت، زمانہ اور جگہ اور اشیاء ، سب دھوکہ ہیں ۔ اصل ہے تو نعرہء "لا الہ الا اللہ" ۔

یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں ، لا الہ الا اللہ

مطلب : یہ سریلا نغمہ ، یعنی "لا الہ الا اللہ" کسی خاص زمانے یا موسم کےلیے ہی نہیں ہے چاہے کوئی بھی زمانہ ہو نعرہ "لا الہ الا اللہ" تا قیامت گونجے گا ۔

اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم ازاں ، لا الہ الا اللہ

مطلب : کئی کافرانہ خیالات ابھی تک ہماری زندگی میں کا فرما ہیں ۔ مگر مجھے اللہ کا حکم ہے کہ میں ہمت و مردانگی سے "لا الہ الا اللہ" اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے کا نعرہ بلند کروں ۔

جو شخص بھی یہ کلمہ پورے ایقان واذعان کے ساتھ اور باری تعالیٰ کی رضاجوئی کی نیت سے زبانی کہے تو یہ کلمہ آخرت میں جہنم کی آگ سے اس کے بچاٶ کا سبب بنے گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : اللہ تعالیٰ نے نارِ جہنم پر ہر ایسے شخص کو حرام کیا ہے جو رضائے الٰہی کی خاطر ’’لاإلٰہ إلا اللہ‘‘ کہے ۔ (فإن اللّٰہ حرّم علی النار من قال لا إلٰہ إلا اللّٰہ یبتغی بذالک وجہ اللّٰہ) ۔ (صحیح بخاری :۴۱۵)

جو شخص بھی اس کلمے پر پختہ ایمان رکھتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوجائے وہ انشاء اللہ جنت میں ضرور داخل ہوگا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : جو یہ جانتے ہوئے مرے کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ہے ، وہ جنت میں جائے گا ۔ من مات وہو یعلم أن لاإلٰہ إلا اللّٰہ دخل الجنۃ ۔ (مسند احمد : ۴۶۴،چشتی)

اسی لیے علمائے دین فرماتے ہیں کہ اس کلمے کی معرفت وادراک سب سے بڑھ کر ضروری اور لازمی امرہے ۔

کلمہ طیبہ

لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ۔
ترجمہ :  اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔

کلمہ شہادت

اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ ۔
ترجمہ : میں سچے دل سے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ رب العزت کے بغیر کوئی معبود برحق نہیں اور میں سچے دل سے گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے عبدِ مقدس اور رسول ہیں ۔

سوال : ’’اَشْہَدُ‘‘ کا لفظ ضروری ہے کہ نہیں ؟ اگر ضروری ہے تو کلمہ طیبہ میں کیوں نہیں اور اگر ضروری نہیں تو کلمہ شہادت کا کیوں ہے ؟
جواب : شہادت میں شاہد (گواہ) اور شہادت (گواہی) اور مشہود لہ (جس کےلیے گواہی دی گئی) کا ہونا ضروری ہے کیونکہ شہادت ان کے بغیر متصور نہیں ۔ شاہد اور شہید گواہی دینے والے کو کہتے ہیں اور جس امر کی گواہی دی گئی، اسے شہادت کہتے ہیں ۔ ’’لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ‘‘ میں مشہود لہ کا بیان ہے اور ’’اَشْہَدُ‘‘ میں شاہد اور شہادت کا بیان ہے ۔ مشہود لہ پہلے ہو گا اور شہادت بعد کو ہو گی ۔ جیسے میں کسی کے حق میں جا کر گواہی دوں تو میں گواہ ٹھہروں گا اور میرے بیانات ، شہادت اور جس کے حق میں گواہی دی گئی ، وہ مشہود لہ ہو گا ۔ وہ پہلے ہو گا تو میں اس کے لئے گواہی دوں گا ۔ اگر وہ پہلے نہ ہو گا تو گواہی کس کی دوں گا ۔ مشہود لہ ملزوم ہے اور شہادت اسے لازم ہے اور جملہ ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ میں مشہود لہ کا بیان ہے اور ’’اَشْہَدُ‘‘ میں شاہد اور شہادت کا۔ ’’الشـہادۃ والشہود‘‘ دونوں مصدر ہیں بمعنی ’’الحضور مع المشاہدۃ اما بالبصرا و بالبصیرۃ‘‘ شہود فقط حضور کو نہیں کہتے بلکہ شہود وہ ہے جہاں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیساتھ مشاہدہ بھی ہو۔ مثلاً ایک آدمی نیند میں تھا اس کو اٹھا کے یہاں لے آئے اور اسے نیند کی حالت میں واپس بھی لے گئے تو اس کو شہود نہیں کہیں گے۔ کیونکہ یہاں مشاہدہ نہیں ہے ۔ (چشتی)

سوال : آپ کہیں گے کہ یہ معنی ’’اَشْہَدُ‘‘ میں متحقق نہیں۔ کیونکہ باری تعالیٰ کا بصر اور بصیرت سے مشاہدہ نہیں کیا جاتا ۔
جواب : یہاں ملزوم بول کر لازم مراد لیا گیا ہے یعنی مشاہدہ بالبصر کو یقینی علم لازم ہے۔ جیسے میں نے یہاں آ کر تمہیں مشاہدہ کیا۔ تو تمہارا علم مجھے یقینی ہو گیا تو معنی یہ ہو گا کہ میں علم یقینی سے کہتا ہوں کہ ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ مگر فقط علم یقینی کافی نہیں۔ جب تک اس علم یقینی کو ’’اَشْہَدُ‘‘ سے تعبیر نہ کیا جائے۔ کیونکہ علم یقینی کبھی مجاز میں مستعمل ہوتا ہے مگر ’’اَشْہَدُ‘‘ مجاز کے شبہ سے پاک ہے۔ لفظ ’’محمد‘‘ پر بحث کے لئے جی چاہتا ہے مگر اس کے لئے کافی وقت چاہیے۔ اب سرِ دست عبد کے معنی میں کچھ بحث کرنا چاہتا ہوں ۔

عبد کی قسمیں

عبد تین قسم پر ہے (۱) عبد مملوک (۲) عبد آبق (۳) عبد ماذون

(۱) عبدِ مملوک : عبد مملوک جسے عبد رقیق کہتے ہیں یعنی جس کو مولا کی طرف سے کوئی اختیار نہ ہو اور وہ ہر جہت میں مولا کے ملک میں ہو ۔
(۲) عبدِ آبق : عبد آبق وہ ہے جو باغی ہو کر مولا سے بھاگ گیا ہو، اگرچہ وہ اپنے گمان میں بھی بھاگا ہوا ہو ۔
(۳) عبدِ ماذون : وہ ہے کہ جس کی استعداد کو دیکھ کر مولا ہر جائز اور ممکن امر میں اختیار دے دے۔ اب اس عبد ماذون کا قول و فعل، مولا کا قول و فعل ٹھہرتا ہے۔ ہم عوام عبد مملوک ہیں اور کفار عبد آبق۔ جب عبد آبق کی نسبت اللہ کی طرف ہو تو اپنے خیال میں آبق ہو گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ملک اور قبضہ سے نکلنے کا تصور بھی نہیں ہے۔ بلکہ وہ اپنے گمان میں بھاگے ہوئے ہیں اور نبی پاک صاحب لولاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عبد ماذون ہیں کیونکہ آپ کا ہر قول و فعل ’’من حیث النـبوۃ‘‘ اللہ تعالیٰ کا قول و فعل ٹھہرے گا۔ چنانچہ ’’وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی اور اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ اور وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی‘‘ پر اعتراض حقیقتاً خدا تعالیٰ پر اعتراض ہو گا۔ ہمارے اس بیان کی طرف ’’اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ‘‘ کا اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو اذن دے، وہ اللہ کی بارگاہ میں عرض کر سکتے ہیں ۔ (چشتی)

شبہ : آپ کہیں گے کہ یہ تو شفاعت کا بیان ہے ۔
شبہ کا ازالہ : تو میں جواباً عرض کروں گا کہ آیت ’’اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ‘‘ کو ذرا غور سے پڑھیں کہ کوثر سے کیا مراد ہے۔ تفسیر ابن جریر میں ہے کہ امام مجاہد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، ’’اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ۔ الخیر الکثیر الخیر کلہ، خیر الدنیا والاخرۃ‘‘ اور کسی نے کہا کہ کوثر سے مراد تو حوضِ کوثر ہے۔ تو آپ نے جواب دیا، ’’ہو ایضا من الخیر الکثیر‘‘ وہ بھی تو خیر کثیر میں شامل ہے اور یہ حضرت مجاہد رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے خاص شاگردوں میں سے ہیں بلکہ ان کا قول اگر آپ کے اور شاگردوں کے مقابل آئے تو محدثین ان کے قول کو ترجیح دیتے ہیں ۔

شبہ : آپ کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قُلْ لَّا اَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا ۔ (پ: ۹، س: الاعراف، آیت: ۱۸۸)
ترجمہ : ’’آپ فرما دیجئے، میں خود اپنے نفع اور نقصان کا بھی مالک نہیں ہوں ۔‘‘
شبہ کا ازالہ : ذرا اس آیت مبارکہ کو آگے بھی پڑھیں کیونکہ تمام قرآن پر ہمارا ایمان ہے۔ فقط آدھی آیت پر ایمان معتبر نہیں، اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ’’اِلَّا مَا شَائَ اللّٰہ‘‘ الا سے قبل جس کی نفی ہوتی ہے۔ اسی کا ’’الا‘‘ کے بعد اثبات بھی ہوتا ہے۔ جیسے کلمہ طیبہ ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ میں ہے۔ تو اب آیت کا معنی یہ ہو گا کہ میرا نفع و نقصان کا مالک ہونا، اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اذن سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اذن کے بغیر میں مالک نہیں ہوں۔

شبہ : آپ کہیں گے کہ قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : قُلْ لَّا اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَائِنُ اللّٰہِ وَلَا اَعْلَمُ الْغَیْبَ ۔ (س انعام آیت ۵۰)
شبہ کا ازالہ : آپ نے کبھی یہ بھی سوچا کہ ’’لَکُمْ‘‘ کا مخاطب کون ہیں؟ ’’لَکُمْ‘‘ کے مخاطب کفار اور منافقین ہیں، مومنین نہیں ہیں۔ یعنی اے محبوب! آپ کفار سے کہہ دیں کہ میرے پاس خزائن نہیں ہیں کیونکہ کفار اس بات کے اہل نہیں ہیں کہ انہیں اسرار کی بات بتائی جائے۔ اگر یہ تخاطب مومنین کےلیے ہوتا تو آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کے برعکس کیونکر فرمایا، صحیح بخاری میں ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، ’’اعطیت مفاتیح خزائن الارض‘‘ کیا آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو قرآن کے خلاف فرمایا؟ جب کفار سامنے آئے ’’لَا اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَائِنُ اللّٰہِ‘‘ اور جب مومن سامنے آئے تو فرمایا، ’’اعطیت مفاتیح خزائن الارض‘‘ معلوم ہوا، اس آیت کے مخاطب کفار اور منافقین ہیں اور جملہ ’’وَلَا اَعْلَمُ الْغَیْبَ‘‘ کا عطف عِنْدِیْ خَزَائِنُ اللّٰہِ پر ہے اور ’’لَکُمْ‘‘ ساتھ لگے گا۔ تو معنیٰ یہ ہو گا کہ ’’اے کفار! میں تجھے نہیں کہتا کہ غیب جانتا ہوں‘‘ اور مومنین کو فرمایا، صحیح بخاری میں ہے یعنی میں تمام چیزیں اسی مقام پر ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہوں، کوئی چیز مخفی نہیں رہی۔ اور ’’لا‘‘ زائد ہے۔ تاکید کے لئے لایا گیا ہے۔ کیونکہ جب پہلے ’’لَا اَقُوْلُ‘‘ لایا گیا تو اب ’’اَعْلَمُ الْغَیْبَ‘‘ کہنا چاہئے تھا۔ عبارت یوں ہوتی ’’لَا اَقُوْلُ لَکُمْ اَعْلَمُ الْغَیْبَ‘‘ اب عبارت ہے کہ ’’لَا اَقُوْلُ لَکُمْ لَا اَعْلَمُ الْغَیْبَ‘‘ تو یہ معنی نہیں بنتا۔ اس لئے ابن جریر نے کہا کہ یہ لفظ ’’لا‘‘ تاکید کے لئے زائد ہے اور ’’وَلَا اَقُوْلُ لَکُمْ اِنِّیْ مَلَکٌ‘‘ کا عطف اسی جملہ پر ہے اور اس کا معنی ابن جریر نے یوں کیا کہ میں، تجھے یہ نہیں کہتا کہ میں فقط ’’ملک‘‘ ہوں بلکہ ’’ملک‘‘ سے کئی درجہ آگے چلا گیا ہوں، جیسے معراج کی رات والی سیر اس امر پر شاہد ہے۔

شبہ : ’’اعطیت مفاتیح خزائن الارض‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ آقا علیہ الصلوٰۃ السلام فقط زمین کے خزائن کی چابیاں دئیے گئے ہیں۔ آسمان کے خزائن کے مالک نہیں ہیں۔
شبہ کا ازالہ : مسند امام احمد میں آیا ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب معراج پر تشریف لے جا رہے تھے تو حضرت جبریل علیہ السلام حاضر بارگاہ ہوئے اور سبز کپڑا میں موتیوں کی لڑی پیش کی اور عرض کیا کہ زمین کے خزائن کی چابیاں تو آپ زمین پر دئیے گئے اور آسمان کے خزآئن کی چابیاں یہ لے لو۔ پتہ چلا کہ تمام خزائن کی چابیاں آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دیے گئے ہیں۔

عبد کا مفہوم : عبد کا معنی ہے پامال ہونا، اس لیے عربی میں اس راستہ کو، کہ جس پر لوگ چلیں اور وہ پامال ہو چکا ہو، معبد کہتے ہیں۔ معبد کو عبد اس لئے بھی کہتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو نہ پائے بلکہ اپنے آپ کو معدوم پائے اور یہ کمال عبدیت ہے جو خواص کو حاصل ہے۔ خاص کر نبی پاک صاحب لولاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو، جو عبد خاص ہیں، وہ کسی نبی کو بھی حاصل نہیں ۔ آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب اللہ کی بارگاہ میں جائیں تو عبدیت و فنائیت ہے کہ اس سے فیض لینا ہوتا ہے اور جب کائنات کو فیض دیں تو یہ رسالت ہے۔ لینا پہلے ہوتا ہے اور دینا بعد کو۔ اسی لئے کلمہ شہادت میں عبدیت کا بیان پہلے اور رسالت کا بعد میں ۔ آج لوگوں نے عبدیت کے مقام کو نہیں سمجھا۔ الٹا لفظ عبد کو دیکھ کر دھوکہ میں آ گئے اور اپنی مثل سمجھنے لگ گئے حالانکہ عبدیت ایک کرامت ہے۔ جب بندہ کو کمال عبدیت حاصل ہوتی ہے تو پھر بولنا اس کا، اس کا بولنا نہیں ہوتا اور سننا اس کا، اس کا سننا نہیں ہوتا۔ دیکھنا اس کا، اس کا دیکھنا نہیں ہوتا۔ بس وہ ذاتِ حق میں فنا ہوتا ہے اور اسی ہی کے حسن کے جلوے اس سے ظاہر ہو رہے ہوتے ہیں۔

باذن اللّٰہ اور من دون اللّٰہ کی وضاحت

یہاں ایک بات ضروری ہے، وہ یہ کہ جہاں ’’اذن‘‘ ہو، وہاں ’’من دون اللّٰہ‘‘ کا تصور بھی نہیں ہو سکتا۔ ’’من دون اللّٰہ‘‘ تو کوئی پتا بھی نہیں ہلا سکتا۔ کوئی مکھی کا پر بھی نہیں بنا سکتا۔ مچھر کا پر بھی نہیں ہلا سکتا اور ’’باذن اللّٰہ‘‘ ہو تو مردے بھی زندہ ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ قرآن نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں واضح طور پر فرمایا، ’’وَاُبْرِیُٔ الْاَکْمَہَ وَ الْاَبْرَصَ وَاُحْیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللّٰہِ‘‘ ہم ’’من دون اللّٰہ‘‘ کو مانتے ہیں، تم ’’باذن اللّٰہ‘‘ کو تو مانو، قرآن نے ’’من دون اللّٰہ‘‘ کی نفی کی اور ’’باذن اللّٰہ‘‘ کا اثبات فرمایا، ہمارا دونوں قسموں کی آیات پر ایمان ہے۔ کیونکہ ہم جمیع آیاتِ قرآنی کو مانتے ہیں۔ فقط ’’من دون اللّٰہ‘‘ والی آیات پڑھ کر ’’باذن اللّٰہ‘‘ کی نفی کر دینا، عظیم جہالت اور وادیٔ ضلالت میں جانا ہے۔ اللہ جل مجدہٗ کے اذن سے اللہ والے سب کچھ کر سکتے ہیں مگر حقیقت میں ان کا کرنا، ان کا کرنا نہیں، خود ذاتِ حق کا فعل ہے جیسے ملائکہ کا فعل ، اللہ جل مجدہٗ کا فعل قرار پاتا ہے ، اسی طرح انبیاء علیہم السلام کے افعال بھی اللہ رب العزت کے افعال قرار پاتے ہیں۔

شبہ : جب ہر چیز آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دامن میں ہے اور وہ آقا کے ملک میں ہے تو وہ خدا کے ملک سے نکل گئی۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کسی چیز کا مالک نہ رہا ۔
شبہ کا ازالہ : پہلے بتاؤ کہ جو چیزیں تمہارے قبضہ و ملک میں ہیں ، کیا یہ خدا کے ملک سے نکل گئی ہیں یا نہیں ؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں ’’لِلّٰہِ مَافِی السَّمٰوٰۃِ وَالْاَرْضِ‘‘ تو حیرت ہے کہ تمہارے ملک میں آ کر اللہ تعالیٰ کے ملک سے یہ چیزیں نہیں نکلیں تو نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ملک میں آ کر ، خدا کے ملک سے کیوں کر نکل جائیں گی ؟ ۔ (مقالاتِ کاظمی جلد اوّل) ۔ اللہ عزوجل ہمیں ہر قسم کے فتنوں سے بچاۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔