Thursday 31 August 2017

بھینس کی قربانی کا شرعی حکم

0 comments















بھینس کی قربانی کا شرعی حکم

قرآنِ کریم نے قربانی کے لیے بَھِیمَۃ الْـأَنْعَام کا انتخاب فرمایا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ِگرامی ہے :(وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فِيْۤ اَیَّامٍ مَّعْلُومٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَہُمْ مِّنْ بَہِیْمَۃِ الْـاَنْعَامِ فَکُلُوْا مِنْہَا وَاَطْعِمُوْا الْبَائِسَ الْفَقِیْرَ) (الحج 22:28)''اور وہ معلوم ایام میں بَھِیمَۃ الْـأَنْعَام پر اللہ کا نام ذکر (کر کے انہیں ذبح) کریں، پھر ان کا گوشت خود بھی کھائیں اور تنگ دستوں اور محتاجوں کو بھی کھلائیں۔

خود قرآنِ کریم نے الْـأَنْعَام کی توضیح کرتے ہوئے ضَاْن(بھیڑ)، مَعْز(بکری)، اِبِل(اونٹ) اور بَقَر(گائے)،چار جانوروں کا تذکرہ فرمایا۔اور ان کے مذکر و مؤنث کو ملا کر انہیں ثَمَانِیَۃ أَزْوَاج (جوڑوں کے لحاظ سے آٹھ)کہا۔(الأنعام 6:144-142)

جانوروں کی نسل کا اعتبار ہو گا،علاقائی ناموں کا نہیںانہی چار جانوروں کی قربانی پوری امت ِمسلمہ کے نزدیک اجماعی و اتفاقی طور پر مشروع ہے۔ان جانوروں کی خواہ کوئی بھی نسل ہو اور اسے لوگ خواہ کوئی بھی نام دیتے ہوں، اس کی قربانی جائز ہے۔مثلاً بھیڑ کی نسل میں سے دنبہ ہے۔اس کی شکل اور نام اگرچہ بھیڑسے کچھ مختلف بھی ہے،لیکن چونکہ وہ بھیڑ کی نسل اور قسم میں شامل ہے،لہٰذا اس کی قربانی مشروع ہے۔اسی طرح مختلف ملکوں اور علاقوں میں بھیڑ کی اور بھی بہت سی قسمیں اور نسلیں ہیںجو دوسرے علاقوں والوں کے لیے اجنبی ہیں اور وہ انہیں مختلف نام بھی دیتے ہیں۔اس کے باوجود ان سب کی قربانی بھیڑ کی نسل و قسم ہونے کی بنا پر جائز اور مشروع ہے۔اسی طرح اونٹوں وغیرہ کا معاملہ ہے۔قربانی کے جانوروں میں سے ایک ''بقر''(گائے)بھی ہے۔اس کی قربانی کے لیے کوئی نسل قرآن و سنت نے خاص نہیں فرمائی۔اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السّلام کی زبانی ان کی قوم کو ''بقر'' ذبح کرنے کا حکم دیا،لیکن قومِ موسیٰ نے اس کی ہیئت و کیفیت کے بارے میں سوال پر سوال شروع کر دیے جس کی بنا پر انہیں سختی کا سامنا کرنا پڑا۔سورہ بقرہ کی کئی آیات اس کی تفصیل بیان کرتی ہیں۔

انہی آیات کی تفسیر میں امام المفسرین،علامہ ابوجعفر، محمد بن جریر بن یزید بن غالب، طبری (310-224ھ)صحابہ و تابعین اور اہل علم کا قول نقل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں : إِنَّھُمْ کَانُوا فِي مَسْأَلَتِھِمْ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مُوسٰی ، ذٰلِکَ مُخْطِئِینَ، وَأَنَّھُمْ لَو کَانُوا اسْتَعْرَضُوا أَدْنٰی بَقَرَۃٍ مِّنَ الْبَقَرِ، إِذْ أُمِرُوا بِذَبْحِھَا، ۔۔۔۔۔، فَذَبَحُوھَا، کَانُوا لِلْوَاجِبِ عَلَیْھِمْ، مِنْ أَمْرِ اللّٰہِ فِي ذٰلِکَ، مُؤَدِّینَ، وَلِلْحَقِّ مُطِیعِینَ، إِذْ لَمْ یَکُنِ الْقَوْمُ حُصِرُوا عَلٰی نَوْعٍ مِّنَ الْبَقَرِ دُونَ نَوْعٍ، وَسِنٍّ دُونَ سِنٍّ، ۔۔۔۔۔، وَأَنَّ اللَّازِمَ کَانَ لَھُمْ، فِي الْحَالَۃِ الْـأُولٰی، اسْتِعْمَالُ ظَاھِرِ الْـأَمْرِ، وَذَبْحُ أَيِّ بَھِیمَۃٍ شَاءُ وا، مِمَّا وَقَعَ عَلَیْھَا اسْمُ بَقَرَۃٍ .''قومِ موسیٰ،گائے کے بارے میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے سوالات کرنے میں غلطی پر تھی۔جب انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیاتھا،اس وقت وہ گائے کی کوئی ادنیٰ قسم بھی ذبح کر دیتے تو حکم الٰہی کی تعمیل ہو جاتی اور ان کا فرض ادا ہو جاتا،کیونکہ ان کے لیے گائے کی کسی خاص قسم یا کسی خاص عمرکا تعین نہیں کیا گیا تھا۔۔۔ ان کے لیے ضروری تھا کہ پہلی ہی دفعہ ظاہری حکم پر عمل کرتے ہوئے کوئی بھی ایسا جانور ذبح کر دیتے ،جس پر 'بقر' کا لفظ بولا جاتا تھا۔''(جامع البیان عن تأویل آي القرآن [تفسیر الطبري] : 100/2)
معلوم ہوا کہ جب اللہ تعالیٰ گائے ذبح کرنے کا حکم فرمائے تو گائے کی کوئی بھی قسم یا نسل ذبح کرنے سے حکم الٰہی پر عمل ہو جاتا ہے اور یہ بات لغت ِعرب میں اور اہل علم کے ہاں طَے ہے کہ جس طرح بختی،اِبِل(اونٹ)کی ایک نسل ہے، اسی طرح بھینس، بقر (گائے)کی ایک نسل و قسم ہے ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

اس سلسلے میں ہم ہر دور کے چیدہ چیدہ علمائے لغت ِعرب کے اقوال پیش کرتے ہیں

1 لیث بن ابوسلیم تابعی(اختلط في آخر عمرہ)(م : 138/148ھ)کا قول ہے :اَلْجَامُوسُ وَالْبُخْتِيُّ مِنَ الْـأَزْوَاجِ الثَّمَانِیَۃِ .''بھینس(گائے کی ایک قسم) اور بختی(اونٹ کی ایک قسم)ان آٹھ جوڑوں میں سے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے۔(تفسیر ابن أبي حاتم : 1403/5، وسندہ، حسنٌ)2 لغت و ادب ِعربی کے امام،ابومنصور،محمدبن احمد،ازہری،ہروی(370-282ھ) فرماتے ہیں :وَأَجْنَاسُ الْبَقَرِ، مِنْھَا الْجَوَامِیسُ، وَاحِدُھَا جَامُوسٌ، وَھِيَ مِنْ أَنْبَلِھَا، وَأَکْرَمِھَا، وَأَکْثَرِھَا أَلْبَانًا، وَأَعْظَمِھَا أَجْسَامًا .''گائے کی نسلوں میں سے جوامیس(بھینسیں)ہیں۔اس کی واحد جاموس ہے۔یہ گائے کی بہترین اورعمدہ ترین قسم ہے۔یہ گائے کی سب اقسام میں سے زیادہ دودھ دینے والی اور جسمانی اعتبار سے بڑی ہوتی ہے۔''(الزاھر في غریب ألفاظ الشافعي، ص : 101)3 امامِ لغت ،علامہ، ابوالحسن،علی بن اسماعیل،المعروف بہ ابن سیدہ (458-398ھ) لکھتے ہیں :وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ .''بھینس،گائے کی ایک نسل ہے۔''(المحکم والمحیط الأعظم : 283/7)4 عربی زبان کے ادیب اور لغوی ،ابوالفتح،ناصربن عبد السید،معتزلی،مطرزی (610-538ھ) لکھتے ہیں :وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ .''بھینس،گائے ہی کی نسل سے ہے۔''(المغرب في ترتیب المعرب، ص : 89)5 مشہور فقیہ ومحدث ،علامہ عبد اللہ بن احمدبن محمد،المعروف بہ ابن قدامہ، مقدسی (620-541ھ)فرماتے ہیں :وَالْجَوَامِیسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ، وَالْبَخَاتِي نَوْعٌ مِّنَ الْإِبِلِ .''بھینسیں،گائے کی نوع(نسل)سے ہیںاور بختی،اونٹوں کی نوع(نسل)سے۔''(الکافي في فقہ الإمام أحمد : 390/1)6 ابن تیمیہ کے جد امجد،محدث و مفسر،ابوالبرکات،عبد السلام بن عبد اللہ،حرانی (652-590ھ) فرماتے ہیں:وَالْجَوَامِسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ .''بھینسیں،گائے کی ایک نوع (نسل) ہیں۔''(المحرّر في الفقہ علٰی مذہب الإمام احمد بن حنبل : 215/1)7 شارحِ صحیح مسلم،معروف لغوی،حافظ ابوزکریا،یحییٰ بن شرف،نووی (676-631ھ) ،ابواسحاق شیرازی(474-393ھ)کی کتاب التنبیہ في الفقہ الشافعي کی تشریح و تعلیق میں فرماتے ہیں :وَیُنْکَرُ عَلَی الْمُصَنِّفِ کَوْنُہ، قَالَ : وَالْجَوَامِسُ وَالْبَقَرُ، فَجَعَلَہُمَا نَوْعَیْنِ لِلبَقَرِ، وَکَیْفَ یَکُونُ الْبَقَرُ أَحَدَ نَوْعَيِ الْبَقَرِ ۔۔۔۔۔، قَالَ الْـأَزْھَرِيُّ : أَنْوَاعُ الْبَقَر، مِنْھَا الجَوَامِیسُ، وَھِيَ أَنْبَلُ الْبَقَرِ .''مصنف کا [وَالْجَوَامِیسُ وَالْبَقَرُ] کہنا قابل اعتراض ہے، انہوں نے گائے اور بھینس کو گائے کی نسلیں قرار دیا ہے۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ گائے ہی گائے کی دو نسلوں(بھینس اور گائے میں سے)ایک نسل ہو؟۔۔۔ازہری کہتے ہیں کہ بھینس،گائے کی ایک نوع ہے اور یہ گائے کی تمام نسلوں سے عمدہ ترین نسل ہے۔ ''(تحریر ألفاظ التنبیہ، : 106)8 لغت ِعرب میں امام وحجت کا درجہ رکھنے والے علامہ،ابوالفضل،محمدبن مکرم، انصاری،المعروف بہ ابن منظور افریقی( 711- 630ھ)فرماتے ہیں :وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ .''بھینس،گائے کی ایک نسل ہے۔''(لسان العرب : 43/6)9 معروف لغوی،علامہ ابوالعباس،احمدبن محمدبن علی،حموی(م:770ھ) لکھتے ہیں :وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ .''بھینس،گائے کی ایک نسل ہے۔''(المصباح المنیر في غریب الشرح الکبیر : 108/1)0 لغت ِعرب کی معروف و مشہور کتاب ''تاج العروس'' میں مرقوم ہے :اَلْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ .''بھینس ،گائے کی نسل سے ہے۔''(تاج العروس من جواھر القاموس لأبي الفیض الزبیدي : 513/15)! لغت ِعرب کی معروف کتاب ''المعجم الوسیط'' میں ہے :اَلْجَامُوسُ حَیَوَانٌ أَھْلِيٌّ، مِنْ جِنْسِ الْبَقَرِ .''بھینس،گائے کی نسل سے ایک گھریلوجانور ہے۔''(المعجم الوسیط : 134/1)نیز اسی کتاب میں لکھا ہے :اَلْبَقَرُ : جِنْسٌ مِّنْ فَصِیلَۃِ الْبَقَرِیَّاتِ، یَشْمَلُ الثَّوْرَ وَالْجَامُوسَ .''بَقَر،گائے کے خاندان سے ایک جنس ہے جو کہ بَیل(گائے) اور بھینس پر مشتمل ہے۔''(المعجم الوسیط : 65/1)

اس سے معلوم ہوا کہ چودھویں صدی کے بعض انتہائی قابل احترام اہل علم کا یہ کہنا کہ 'بھینس کاگائے کی نسل سے ہونا اہل علم سے واضح طور پر ثابت نہیں،بلکہ بھینس بعض احکام میں گائے کی طرح تھی اور اس کے لیے لفظکَالْبَقَرِ/بِمَنْزِلَۃِ الْبَقَرِ(گائے جیسی) مستعمل تھا۔اور کسی لغوی کو غلطی لگنے کی وجہ سے اس نے کَالْبَقَرِ/بِمَنْزِلَۃِ الْبَقَرِ(گائے جیسی)کے بجائے نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَر(گائے کی نسل) لکھ دیا۔ قطعاً درست نہیں، کیونکہ غلطی کسی ایک اہل علم یا لغوی کو لگنی تھی یا سارے اہل علم اور لغویوں کو؟بہت سے معروف لغویوں اور اہل علم نے اپنی مشہور زمانہ کتب میں بھینس کے گائے کی نسل ہونے کی تصریح کی اور ہمارے علم کے مطابق تیرہویں صدی ہجری تک کسی ایک بھی لغوی نے اس کی تردید یا انکار نہیں کیا۔اگر یہ بات غلط ہوتی تو ماہرین لغت ِعرب ضرور اس کی وضاحت کرتے۔کیا اہل لغت کا کوئی اعتبار ہے؟بعض لوگ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ کیا شریعت میں لغت ِعرب دلیل بن سکتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآنِ کریم اور سنت ِرسول کا سارا ذخیرہ عربی زبان میں ہے۔قرآن و سنت پر عمل تب ہی ہو گا،جب اس کا معنیٰ و مفہوم سمجھا جائے گا اور قرآن و سنت کا معنیٰ و مفہوم تب ہی سمجھا جا سکتا ہے،جب لغت ِعرب کو سمجھا جائے گا۔کوئی شخص اگر قرآن کی کسی آیت یا کسی حدیث کا ترجمہ کرتا ہے تو وہ لغت ِعرب کو پڑھ اور سمجھ کر ہی اپنی کاوش میں کامیاب ہو سکتا ہے اور اس کے ترجمے کو صحیح یا غلط ثابت کرنے کے لیے لغت ِعرب ہی راہنمائی کرے گی۔جو لوگ لغت ِعرب کا اعتبار نہیں کرتے،ان سے سوال ہے کہ وہ یہ بتائیں کہ ''بقر'' کا معنیٰ ''گائے''کیوں ہے؟بھینس کا نام ہی گائے ہےبعض لوگ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ گائے اور بھینس کے نام ہی میں فرق ہے۔اگر بھینس ،گائے کی نسل سے ہوتی تو اس کا نام گائے ہوتا،نہ کہ کچھ اور۔جب عرف میں اسے کوئی گائے کہتا اور سمجھتا ہی نہیں تو یہ گائے ہے ہی نہیں۔ان کے لیے عرض ہے کہ بھینس کے لیے عربی میں لفظ ِ''جاموس''استعمال ہوتا ہے جو کہ فارسی سے منتقل ہو کر عربی میں گیاہے۔فارسی میں یہ نام ''گاؤمیش''تھا۔عربی زبان کی اپنی خاص ہیئت کی بنا پر اس کا تلفظ تھوڑا سا بدل گیا اور یہ ''جاموس'' ہو گیا۔اس بات کی صراحت لغت ِعرب کی قریباً تمام امہات الکتب میں لفظ ''جاموس'' کے تحت موجود ہے۔اس فارسی نام میں واضح طور پر لفظ ''گاؤ''(گائے) موجود ہے۔اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بھینس اصل میں گائے ہی کی ایک نسل ہے۔چونکہ گائے کی یہ نسل(بھینس) عربی علاقوں میں موجود نہیں تھی،بلکہ عجمی علاقوں میں ہوتی تھی،عربوں کے ہاں معروف نہ تھی،اسی لیے اس کا نام فارسی سے عربی میں لانا پڑا۔اس کی وضاحت کے لیے ہم معروف عرب عالم ومفتی،شیخ محمدبن صالح عثیمین (1421-1347ھ) کا قول نقل کرتے ہیں۔ان سے بھینس کی قربانی کے بارے میں سوال ہوا اور پوچھا گیا کہ جب بھیڑ اور بکری دونوں کا ذکر قرآنِ کریم نے کیا ہے (حالانکہ یہ ایک ہی نسل [غنم] سے ہیں)تو بھینس اور گائے دونوں کا ذکر کیوں نہیں کیا(اگر یہ بھی ایک ہی نسل ہیں)؟تو انہوں نے فرمایا :اَلْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ، وَاللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ذَکَرَ، فِي الْقُرْآنِ، الْمَعْرُوفَ عِنْدَ الْعَرَبِ الَّذِینَ یُحَرِّمُونَ مَا یُرِیدُونَ، وَیُبِیحُونَ مَا یُرِیدُونَ، وَالْجَامُوسُ لَیْسَ مَعْرُوفًا عِنْدَ الْعَرَبِ .بھینس،گائے ہی کی نسل ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں صرف ان جانوروں کا ذکر کیا ہے،جو عربوں کے ہاں معروف تھے۔(دور جاہلیت میں)عرب اپنے پسندیدہ جانوروں کو حلال اور اپنے ناپسندیدہ جانوروں کو حرام قرار دیتے تھے۔بھینس تو عربوں کے ہاں معروف ہی نہ تھی(اور مقصد حلت و حرمت بتانا تھا،نہ کہ نسلیں)۔''(مجموع فتاوی ورسائل فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین : 34/25)

تنبیہ :بعض لوگوں کا یہ کہنا درست نہیں کہ چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھینس کی قربانی نہیں کی،لہٰذا اس کی قربانی سے احتراز بہتر ہے اور یہ احوط واولیٰ ہے۔ہمارا ان اہل علم سے مؤدبانہ سوال ہے کہ ان کی یہ احتیاط صرف گائے کی ایک نسل ''بھینس''ہی کے بارے میں کیوں ہے؟ان کو چاہیے کہ گائے کی جو جو نسلیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قربانی میں ذبح کیں،صرف انہی کی اجازت دیں۔کیا بھینس کے علاوہ موجودہ دور میں پائے جانے والی گائے کی تمام نسلیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قربانی میں ذبح کی تھیں؟ اس طرح تو دیسی،ولائتی،فارسی،افریقی، تمام قسم کی گائے کی قربانی سے احتراز کرنا ہو گا اور اسی طرح بھیڑ و بکری اور اونٹ کا بھی معاملہ ہو گا۔پھر ہر شخص قربانی کے لیے عربی گائے،عربی اونٹ،عربی بھیڑ اور عربی بکرا کہاں سے لائے گا؟اگر کوئی عربی نسل سے کوئی جانور تلاش بھی کر لے تو اسے تحقیق کرنا پڑے گی کہ یہ بعینہٖ اسی نسل سے ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے قربانی کی تھی یا بعد میں پیدا ہونے والی کوئی نسل ہے!!!پھر یہ احتیاط والی بات اس لیے بھی عجیب سی ہے کہ اگر بھینس،گائے نہیں تو اس کی قربانی سرے سے جائز ہی نہیںاور اگر یہ گائے ہے تو اس کی قربانی بالکل جائز ہے۔اس میں کوئی درمیانی راستہ تو ہے ہی نہیں۔الحاصل :بھینس،گائے کی ایک نسل ہے۔اس کی قربانی بالکل جائز ہے۔اس میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

عقیقہ کے شرعی مسائل و احکام

1 comments
عقیقہ کے شرعی مسائل و احکام

عقیقہ کے لغوی معنی کاٹنے کے ہیں۔شرعی اصطلاح میں نومولود بچہ یا بچی کی جانب سے اسکی پیدائش کے ساتویں دن جو خون بہایا جاتاہے۔ اُسے عقیقہ کہتے ہیں۔ عقیقہ کرنا سنت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین سے صحیح اور متواتر احادیث سے ثابت ہے۔

کیا بچہ اور بچی کے عقیقہ میں کوئی فرق ہے ؟

بچہ اور بچی دونوں کا عقیقہ کرنا سنت ہے، البتہ احادیث کی روشنی میں صرف ایک فرق ہے ، وہ یہ ہےکہ بچہ کے عقیقہ کے لئے دو اور بچی کے عقیقہ کے لئے ایک بکرا/بکری ضروری ہے۔ لیکن اگر کسی شخص کے پاس بچہ کے عقیقہ کے لئے دو بکرے ذبحہ کرنے کی استطاعت نہیں ہے تو وہ ایک بکرا سے بھی عقیقہ کر سکتا ہے ، جیساکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ابو داود میں موجود ہے۔

بچہ اور بچی کے عقیقہ میں فرق کیوں رکھا گیا ؟

اسلام نے عورتوں کو معاشرہ میں ایک ایسا اہم اور باوقار مقام دیاہے، جو کسی بھی سماوی یا خود ساختہ مذہب میں نہیں ملتا ، لیکن پھر بھی قرآن کی آیاتو احادیث شریفہ کی روشنی میں یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالی نے اس دنیا کے نظام کو چلانے کے لئے مردوں کو عورتوں پر کسی درجہ میں فوقیت دی ہے، جیساکہ دنیا کے وجود سے لیکر آج تک ہر قوم میں اور ہر جگہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ مثلا حمل و ولادت کی تمام تر تکلیفیں اور مصیبتیں صرف عورت ہی جھیلتی ہے۔ لہذا شریعت اسلامیہ نے بچہ کے عقیقہ کے لئے دو اور بچی کے عقیقہ کے لئے ایک خون بہانے کا جو حکم دیا ہے، اس کی حقیقت خالق کائنات ہی بہتر جانتا ہے

کیا بالغ مرد و عورت کا بھی عقیقہ کیا جا سکتا ہے ؟

جس شخص کا عقیقہ بچپن میں نہیں کیا گیا، جیساکہ عموما ہندوستان اور پاکستان میں عقیقہ چھوڑ کر چھٹی وغیرہ کرنے کا زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے، جو کہ غلط ہے۔ لیکن اب بڑی عمر میں اس کا شعور ہو رہا ہے، تو وہ یقینا اپنا عقیقہ کر سکتا ہے، کیونکہ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے اعلان نبوت  کے بعد اپنا عقیقہ کیا اخرجہ ابن حزم فی "الحلی" ، والطحاوی فی "المشکل"، نیز احادیث میں کسی بھی جگہ عقیقہ کرنے کے آخری وقت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ بڑی بچی کے سر کے بال منڈوانا جائز نہیں ہے۔ ایسی صورت میں بال نہ کٹوائیں، کیونکہ بال کٹوائے بغیر بھی عقیقہ کی سنت ادا ہو جائے گی۔

عقیقہ سے مراد بکری وغیرہ کو بچے کی پیدائش پر ذبح کرنا ہے، عقیقہ کرنا سنت ہے، کوئی کرے تو ثواب ہوگا نہ کرے تو گناہ نہیں ہے۔ حدیث مبارکہ میں آتا ہے :عن سلمان بن عامر الضبی قال سمعت رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم يقول مع الغلام عقيقة، فاهريقوا عنه دماً و اميطوا عنه الا ذی.(رواه البخاری)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
سلمان بن عامر الضبی فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ بچے کی ولادت پر عقیقہ ہے، پس تم تم اس کی طرف سے خون بہاؤ (یعنی بکری ذبح کرو) اور اس سے تکلیف کو دور کرو۔

ابو درداء کی روایت میں ہے :عن الغلام شامتين و عن الجارية شامة.(رواه ابو داؤد والنسائی)
بچے کی طرف سے دو بکریاں اور بچی کی طرف سے ایک بکری ذبح کرو۔

مستحب اور بہتر یہی ہے کہ ساتویں دن عقیقہ ہو جائے اگر کسی وجہ سے نہ کر سکیں، تو طریقہ یہ ہے کہ جس دن بچہ پیدا ہوا ہے اس کے ساتویں دن کا حساب کریں۔ مثلاً جمعہ کو پیدا ہوا تو عمر بھر میں جب بھی کرنا ہو تو جمعرات کو عقیقہ کریں، تو یہ ساتواں دن بن جاتا ہے۔ باقی جانور کے لیے وہی شرائط ہیں جو قربانی کے جانور کے لئے ہیں۔نوٹ : عقیقہ قربانی کے حصوں میں سے بھی ادا ہو جاتا ہے۔

عقیقہ ہر بچے کی طرف سے کرنا سنت ہے۔ بہتر یہ ہے کہ لڑکے کی طرف سے دو بکرے یا گائے میں دو حصے۔ لڑکی کی طرف سے ایک بکرا یا گائے میں ایک حصہ۔ اگر لڑکے لڑکی دونوں کی طرف سے ایک ایک بکرا، بھیڑ۔ دنبہ چھترا یا گائے کے سات حصوں میں فی کس ایک ایک حصہ بھی ڈال دیا جائے تو جائز ہے۔

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔من ولد له ولد فاحب ان ينسک عنه فلينسک عن الغلام شاتين و عن الجاريه شاه.
جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اور اس کی طرف سے ذبح کرنا چاہے تو لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کرے۔
ابوداؤد، السنن، 3 : 107، رقم : 2842، دارالفکر

بریدہ کہتے ہیں، زمانہ جاہلیت میں ہم میں سے کسی کے ہاں لڑکا پیدا ہوتا، تو بکری ذبح کر کے اس کے خون کو بچے کے سر پر مل لیتے۔

جب اسلام آیا تو فرمایا :کنا نذبح الشاه يوم السابع و نحلق راسه ونلطخه بزعفران.
ہم ساتویں دن بکری ذبح کرتے بچے کے بال اتارتے اور سر پر زعفران ملتے۔‘‘
(ابوداؤد، السنن، 3 : 107)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں۔مع الغلام عقيقه فاهريقوا عنه دما واميطوا عنه الاذی.(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
لڑکے کے ساتھ عقیقہ ہے۔ اس کی طرف سے خون بہاؤ اور تکلیف ہٹاؤ۔‘‘
ترمذی، السنن، 3 : 496، رقم 1191، داراحیاء التراث العربی، بیروت

عقیقہ اور صدقہ میں‌ فرق

حدیث پاک میں ہے : امام ابو داؤد، امام ترمذی اور امام نسائی رحمہ اللہ اُم کرز رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لڑکے کی طرف سے دو بکڑیاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکڑی ذبح کی جائے اور کوئی حرج نہیں کہ نَر ہو یا مادہ۔

ایک اور حدیث میں ہے : امام احمد، امام ابو داؤد، امام ترمذی اور امام نسائی حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا : لڑکا اپنے عقیقے میں گروی ہے ساتویں دن اسکی طرف سے جانور ذبح کیا جائے اور اس کا نام رکھا جائے اور سر کے بال کاٹے جائیں۔

ہمارے احناف کے نزدیک عقیقہ کرنا سنت ہے۔ ساتویں دن جب عقیقہ کیا جائے گا تو سنت ادا ہو جائے گی لیکن جانور میں وہی صفات ہونا ضروری ہے جو قربانی کے جانور کے لیے ہیں۔

باقی صدقہ عام ہے چاہے کوئی جانور ذبح کرے، رقم دے دیں یا کھانا کھلائیں وغیرہ وغیرہ۔ عقیقہ کا گوشت مالدار اور غریب دونوں کھا سکتے ہیں۔ عیدالاضحیٰ کے دن قربانی میں ساتواں حصہ عقیقہ کی نیت سے مقرر کرنا بھی درست ہے۔ (کتب فقہ)

قربانی کے بڑے جانور سے عقیقہ بھی کیا جا سکتا ہے

قربانی کے حصوں میں سے عقیقہ کے لیے بھی حصہ رکھا جا سکتا ہے۔

و کذالک ان اراده بعضهم العقيقه عن ولد ولدله من قبل.(فتاویٰ عالمگيريه، 5 : 304)
اسی طرح اگر قربانی کے حصوں میں بعض افراد عقیقہ کا ارادہ کر لیں تو جائز ہے۔

عقیقہ کے لئے مستحب وقت ساتواں دن ہے۔ لیکن عمر میں کسی وقت بھی کر سکتے ہیں۔

گوشت قربانی کا ہو یا عقیقے کا‘ دونوں‌ ہی صدقہ ہیں۔ اس لیے ان کا گوشت الگ الگ کر کے اور بتا کر دینا ضروری نہیں، اگر کوئی ایسا کرے تو اس میں کوئی حرج بھی نہیں۔ بہتر یہ ہے کہ قربانی کی طرح عقیقہ کے گوشت کے بھی تین حصے کیے جائیں۔ ایک حصہ غریبوں کو، ایک رشتہ داروں اور دوستوں کو دے دیا جائے اور ایک خود رکھ لیں۔ اگر کوئی پروگرام ہو تو سارے کا سارا بھی استعمال کر سکتے ہیں، لیکن غرباء، یتامیٰ‌ اور مساکین کا خیال کرتے ہوئے انہیں‌ بھی پروگرام میں شامل کریں تو یہ زیادہ بہتر ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

عقیقہ کے گوشت کے بھی تین حصے کیے جائیں

بہتر تو یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کی طرح عقیقہ کے گوشت کے بھی تین حصے کیے جائیں۔ ایک حصہ غریبوں کو، ایک رشتہ داروں اور دوستوں کو دے دیا جائے اور ایک خود رکھ لیں۔ اگر کوئی پروگرام ہو تو سارے کا سارا بھی استعمال کر سکتے ہیں، لیکن غریبوں کا خیال رکھتے ہوئے ان کو بھی پروگرام میں شامل کر لیا جائے تو بہترین عمل ہے۔ لہذا غریبوں کی مدد ضرور کی جائے اور ان کو تیسرا حصہ ضرور دیا جائے، بہترین عمل یہی ہے۔

بڑے جانور میں عقیقہ ایک نہیں سات بکریوں کے برابر ہوگا

فقہاء کرام فرماتے ہیں:وکذٰلک اِن أراد بعضهم العقيقه عن ولد ولدله من قبل.
اسی طرح اگر قربانی کے حصوں میں بعض افراد پہلے پیدا ہونیوالی اولاد کے عقیقہ کا ارادہ کر لیں تو جائز ہے۔
علاء الدين الکاساني، بدائع الصنائع، 5: 72، دار الکتاب العربي
الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، 5: 304، دار الفکر
ابن عابدين شامي، ردالمحتار، 6: 326، دار الفکر، بيروت

لہٰذا اگر ایک بڑے جانور میں کچھ لوگ قربانی کے حصے ڈالیں اور کچھ عقیقہ کے تو جائز ہے یعنی بڑے جانور میں عقیقہ ایک نہیں سات بکریوں کے برابر ہوگا۔

اہل حدیث مسلک کے عالم دین، فتاوی ستاریہ میں لکھتے ہیں:ایک گائے شرعاً سات بکریوں کے قائم مقام ہوتی ہے۔ لہٰذا ایک گائے تین لڑکوں اور ایک لڑکی یا صرف سات لڑکیوں کی طرف سے ہو سکتی ہے۔(فتاوی ستاريه، 3: 3)
گائے سات بکریوں کے قائم مقام ہے۔ سات لڑکیوں یا دو لڑکوں اور تین لڑکیوں کی طرف سے عقیقہ ہو سکتا ہے۔(فتاوی ستاريه، 4: 64)(بحواله فتاوی علماء اہل حديث، 13: 192، از علی محمد سعيدی، جامعه سعيديه، خانيوال ۔

لہٰذا بڑے جانور، گائے، بھینس یا اونٹ میں عقیقہ کے قربانی کی طرح سات حصے ہوں گے۔

عقیقہ کا طریقہ یہ ہے کہ بچہ کی طرف سے دو جانور اور بچی کی طرف سے ایک جانور ذبح کرے اور اس کا گوشت خود بھی استعمال کر سکتا ہے اور دوسروں میں بھی تقسیم کر سکتا ہے اور اس عقیقہ والے جانور میں ان تمام شرائط کا ہونا ضروری ہے جو قربانی کے جانور کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔(عالمگیری ص ۲۵۷، ج ۵)

ہم نے کوشش کی ہے عقیقہ سے متعلق تمام پہلوؤں پر لکھنے کی اللہ تعالیٰ سے دعا ہے قبول فرمائے اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Wednesday 30 August 2017

اللہ عز و جل کےلیئے خدا کے استعمال کا شرعی حکم

0 comments
اللہ عز و جل کےلیئے خدا کے استعمال کا شرعی حکم

اردو اور فارسی زبان میں لفظ *خدا* اللہ تعالی، معبود، مالک اور آقا کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ (دیکھئے : غیر مقلدین کی معتبر اردو لغت "محمدی اردو لغت" ص429)

بعض لوگ کہتے ہیں کہ : خُدا تو فارسی کا لفظ ہے اور فارسی تو جناب آتش پرستوں کی بھی زُبان ہے لہٰذا توبہ کرو ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تُمہارا خاتمہ بھی آتش پرستوں کیساتھ ہو! عوامُ الناس جب اِس طرح کی باتیں سُنتے ہیں تو سِہم سے جاتے ہیں اور کہتے ہونگے کہ بھئی اپنا ایمان تو خطرے میں تھا اللہ بھلا کرے صاحب کا جن کی بدولت آتش پرستوں کیساتھ خاتمہ ہونے سے بچ گئے ۔

بے شک اللہ کہنا لکھنا ہی سب سے افضل ہے کہ یہ اسم ذات ہے کوئی صفتی اسم اِلہی اسکا مُتبادل نہیں ہوسکتا کیونکہ ہر صفتی نام میں کسی ایک مخصوص صفت کا ذکر ہوتا ہے لیکن اسم اللہ تمام صِفات کا مظہر ہے یا یوں سمجھ لیجئے کہ ہر صفتی اسم اِک خوشنما پھول ہے تو اسم اللہ تمام پھولوں کا حسین گُلدستہ ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ اللہ کریم کو خُدا عزوجل کہنا منع ہے ۔

اللہ تعالیٰ کے لئے لفظ خدا کا استعمال جائز ہے ۔ اور صدیوں سے اکابر دین اس کو استعمال کرتے آئے ہیں۔ اور کبھی کسی نے اس پر نکیر نہیں کی۔ اب کچھ لوگ پیدا ہوئے ہیں جن کے ذہن پر عجمیت کا وہم سوار ہے۔ انہیں بالکل سیدھی سادی چیزوں میں عجمی سازش نظر آتی ہے، یہ ذہن غلام احمد پرویز اور اس کے ہمنواؤں نے پیدا کیا۔ اور بہت سے پڑھے لکھے شعوری وغیر شعوری طور پر اس کا شکار ہوگئے۔ اسی کا شاخسانہ یہ بحث ہے جو آپ نے لکھی ہے۔ عربی میں لفظ رب ،مالک اور صاحب کے معنیٰ میں ہے۔ اسی کا ترجمہ فارسی میں لفظ خدا کے ساتھ کیا گیا ہے۔ چنانچہ جس طرح لفظ رب کا اطلاق بغیر اضافت کے غیر اللہ پر نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح لفظ خدا جب بھی مطلق بولاجائے تو اس کا اطلاق صرف اللہ تعالیٰ پرہوتا ہے۔ کسی دوسرے کو خدا کہنا جائز نہیں۔ غیاث اللغات میں ہے: خدا بالضم بمعنی مالک و صاحب۔ چوں لفظ خدا مطلق باشدبر غیر ذاتِ باری تعالیٰ اطلاق نکند، مگر در صورتیکہ بچیزے مضاف شود، چوں کہ خدا، ودہ خدا۔ ٹھیک یہی مفہوم اور یہی استعمال عربی میں لفظ ربکا ہے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ اللہ تو حق تعالیٰ شانہ کا ذاتی نام ہے۔ جس کا نہ کوئی ترجمہ ہوسکتا ہے نہ کیا جاتاہے۔ دوسرے اسمائے الہٰیہ صفاتی نام ہیں جن کا ترجمہ دوسری زبانوں میں ہوسکتاہے۔ اور ہوتاہے۔ اب اگر اللہ تعالیٰ کے پاک ناموں میں سے کسی بابرکت نام کا ترجمہ غیر عربی میں کردیا جائے۔ اور اہل زبان اس کو استعمال کرنے لگیں تو اس کے جائز نہ ہونے اور اس کے استعمال کے ممنوع ہونے کی آخر کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اور جب لفظ خدا صاحب اور مالک کے معنی میں ہے۔ اور لفظ رب کے مفہوم کی ترجمانی کرتا ہے تو آپ ہی بتائیے کہ اس میں مجوسیت یا عجمیت کا کیا دخل ہوا۔ کیا انگریزی میں لفظ رب کا کوئی ترجمہ نہیں کیا جائیگا ؟ اور کیا اس ترجمہ کا استعمال یہودیت یا نصرانیت بن جائے گا ؟ افسوس ہے کہ لوگ اپنی ناقص معلومات کے بل بوتے پر خود رائی میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ انہیں اسلام کی پوری تاریخ سیاہ نظر آنے لگتی ہے۔ اور وہ چودہ صدیوں کے تمام اکابر کو گمراہ یا کم سے کم فریب خوردہ تصور کرنے لگتے ہیں۔ یہی خودرائی انہیں جہنم کے گڑھے میں دھکیل دیتی ہے۔

اللہ کریم کو خدا کہہ کر پکارنا بالکل جائز ہے اور سبھی علماءَ نے کہا کہ علماء اُمت کا اس پر اجماع بھی ہے لیکن بعض شر پسند عناصر مسلمانوں میں منافرت پھیلانے کیلئے ایسا پروپیگنڈہ کرتے ہیں جو قابل مذمت ہے۔

علامہ غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیہ تبیان القران جلد 3 صفحہ 361 پر بحث کرتے ہوئے رقمطراز ہیں جسکا خلاصہ پیش خدمت ہے کہ ایسے نام سے اللہ کو پکارنا جو اُس کی شان کے زیبا نہ ہو منع ہے جیسے اللہ کے ساتھ میاں کا اضافہ کے یہ لفظ ں انسانوں کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے یا اللہ کیساتھ سائیں کا اضافہ کہ سائیں فقیر کو بھی کہتے ہیں اس لئے اس کا اطلاق ممنوع ہے جبکہ ایسے الفاظ سے اللہ کو پُکارنا جو اُس کی شان کے مطابق ہیں جیسے فارسی میں خدا اور ترکی میں تنکری کہ ان کے معنیٰ میں ابہام نہیں جائز ہیں ۔

بعض لوگ پیش  کرتے ہیں : مفہوم “ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ اُنہی میں سے ہوگا قیامت میں اُس کے ساتھ حشر ہوگا ۔ (سنن ابو داود)

سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا(علیہ الرحمہ) فتاویٰ رضویہ جلد۸ صفحہ 622 پر ارشاد فرماتے ہیں بحرالرائق ودرمختار و ردالمحتار وغیرہا ملاحظہ ہوں کہ'' بد مذہبوں سے مشابہت اُسی اَمر میں ممنوع ہے جو فی نفسہ شرعاً مذموم یا اس قوم کا شعار خاص یا خود فاعل کو ان سے مشابہت پیدا کرنا مقصود ہو ورنہ زنہار وجہ ممانعت نہیں ۔

سیدی اعلیٰ حضرت نے تشبیہ پر سیر حاصل گفتگو فرمائی ہے جسے آپ جلد نمبر اکیس تا چوبیس میں دیکھ سکتے ہیں جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ جس فعل کو کفار مذہب کا حصہ سمجھ کر رسماً ادا کرتے ہوں مثلا سینے پر زنار باندھنا یا صلیب لٹکانا یا بغل وغیرہ کے بال بڑھانا، مونچھوں کا بہت زیادہ بڑھانا جِس سے کسی بد مذہب کی مُشابِہت پیدا ہو یہ مشابہت ممنوع اور حرام ہے یا یہ کہ کُفار سے مُحبت کی بنا پر اُنکی نقالی کرے۔ نا کہ کسی زبان کے استعمال سے مشابہت لازم آئے گی۔

لیکن محترم قارئین اِن لوگوں نے ایک ایسے مسئلے کو اپنی جانب سے متنازع بنا دیا جو کہ مسئلہ تھا ہی نہیں اور جس پر تمام مسلمانوں کا اجماع بھی ہے۔

اعتراض نمبر 1 :  اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ جب ایسے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی جائے تو یہ کہتے ہیں کہ جب اللہ کو خُدا کہہ سکتے ہیں تو رام اور وشنو کہہ کر کیوں نہیں پُکارتے ؟

جواب : رام کے ایک معنی ، نہایت فرماں بردار ، بھی ہیں اور وشنو کے معنی ہِندوؤں کے ہاں چار ہاتھوں والا رب ، بھی ہیں اور یقیناً یہ دونوں معنی مسلمانوں کے عقائد کے خلاف ہیں ۔

اب دیکھتے ہیں کہ خدا کے لغوی معنی کیا ہیں تو خدا کے لغوی معنٰی وہی ہیں جو اللہ کی شان کے مطابق ہیں یعنی مالک، آقا، باکمال، معبود، اور ربّ ۔

اعتراض نمبر 2 :  عرب شریف میں نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور مُبارک سے لیکر آج تک اللہ عزوجل کو خُدا نہیں کہا جاتا ۔

جواب : عربی اسقدر وسیع زُبان ہے کہ عربی کے چھ لاکھ الفاظ وہ ہیں جو آج متروک ہوچُکے ہیں صرف اِسی بات سے اِس زُبان کی وُسعت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے لہٰذا یہ کہنا کہ عرب شریف میں فارسی نہیں بولی جاتی تو بھائی اُنہیں کیا ضرورت ہے کہ ایسی وسیع زُبان کے ہوتے ہوئے جہاں صرف ایک جانور کے عربی میں بیس تیس تک نام ہوتے ہیں وہ فارسی کا استعمال کریں جبکہ اردو عربی کے مُقابلے میں ایک محدود الفاظ رکھنے والی زُبان ہے اور لفظ خُدا کو فارسی سے شعری ضرورت کے پیش نظر لیا گیا ہے ناکہ مجوسیوں کی اتباع کی خاطر لہذا دانشمندی کا تقاضہ ہے اپنی ضرورتوں کو سمجھا جائے ۔

اعتراض نمبر 3 :  فارسی کا استعمال آتش پرست کرتے رہے ہیں لہٰذا فارسی سے گُریز از بس ضروری ہے ؟

جواب : نبی آخرُالزماں خَتَمُ المرسلین (صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم) کی بِعثت سے قبل مشرکین عرب عربی زُبان کا استعمال کیا کرتے تھے تو کیا ہمارے کریم آقا علیہ السلام نے اس زُبان سے بیزاری کا اظہار کیا؟ جواب ہوگا قطعی نہیں کیا اللہ کریم نے ناپسند فرمایا؟ بالکل نہیں بلکہ اللہ کریم کا کلام اِسی زُبان میں نازل ہوا۔ معلوم ہُوا کہ کہ زُبان تو صرف رابطہ کا ذریعہ ہے ناکہ مذہب کی پہچان!اور آپکو وہ کروڑوں مسلمان کیوں نظر نہیں آتے جو فارسی زُبان استعمال کرتے ہیں ۔

اعتراض نمبر 4 : اصل میں لفظ خُدا فارسی زبان کا لفظ ہے آتش پرستوں کے دو ۲ الٰہ تھے اُن میں ایک کا نام خُدائے یزدان اور دوسرے کا نام خُدائے اہرمن تھا اردو میں معنی ہوگا کہ اچھائی کا خُدا اور بُرائی کا خُدا ۔

جواب : یہی عقیدہ تو مشرکین عرب کا بھی تھا اور وہ بھی اپنے بیشُمار معبودوں کو اِلٰہ کہتے تھے جسکا ذکر جا بَجا قران مجید فُرقان حمید میں موجود ہے حوالے کیلئے دو آیات سورہ الحجر اور سورہ النحل سے پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں۔

الَّذِیۡنَ یَجْعَلُوۡنَ مَعَ اللہِ اِلٰھًا اٰخَرَ ۚ فَسَوْفَ یَعْلَمُوۡنَ ﴿۹۶﴾
جو اللہ کے ساتھ دوسرا معبود ٹھہراتے ہیں تو اب جان جائیں گے (سورۃ الحجر آیت96)

وَقَالَ اللہُ لَا تَتَّخِذُوۡۤا اِلٰـہَیۡنِ اثْنَیۡنِ ۚ اِنَّمَا ہُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ فَاِیَّایَ فَارْہَبُوۡنِ ﴿۵۱﴾
اور اللہ نے فرمایا دو خدا نہ ٹھہراؤ وہ تو ایک ہی معبود ہے تو مجھی سے ڈرو (سورہ النحل آئت51)

اب دیکھئے کہ مشرکین عرب بھی اپنے بیشمار خداؤں کو اِلٰہ کہتے تھے تو اللہ کریم نے لفظِ اِلٰہ کہنے پر پابندی نہیں لگائی بلکہ اپنے محبوب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے یہ تعلیم دی کہ اِلٰہ صرف ایک ہے اور وہ اللہ کریم کی یکتا اور بےمثال ذات ہے اسی طرح ہم یہ تو کہیں گے کہ آتش پرستوں کے دو خُدا کا عقیدہ باطل ہے لیکن خُدا کہنے پر پابندی نہیں لگا سکتے کہ اس کے معنی وہی ہیں جو اِلٰہ کے معنیٰ ہیں

اعتراض نمبر 5 : کیا خُدا کہنے کی کوئی دلیل قرآن سے ثابت ہے ؟

جواب : جی ہاں سورہ الاِسراء آیت نمبر 110 میں اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے
قُلِ ادْعُوا اللہَ اَوِادْعُوا الرَّحْمٰنَ ؕ اَیًّا مَّا تَدْعُوۡا فَلَہُ الۡاَسْمَآءُ الْحُسۡنٰی
تم فرماؤ اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر جو کہہ کر پکارو سب اسی کے اچھے نام ہیں ۔

اللہ کریم نے اِس آیت میں اُنہیں مخاطب کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا ہے جو اللہ کریم کے ناموں میں جھگڑتے ہیں کہ سب اچھے نام اللہ کے ہیں ۔ بس ہمیں بچنا ہے تو ایسے ناموں سے جو مالک حقیقی کے شایانِ شان نہ ہوں اب آئیے اس آیت مبارکہ کا پس منظر بھی دیکھتے ہیں ۔

شانِ نُزول : حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا ایک شب سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طویل سجدہ کیا اور اپنے سجدہ میں یااللہ یا رحمٰن فرماتے رہے ابو جہل نے سنا تو کہنے لگا کہ (حضرت) محمّد مصطفٰی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں تو کئی معبودوں کے پوجنے سے منع کرتے ہیں اور اپنے آپ دو کو پکارتے ہیں اللہ کو اور رحمٰن کو (معاذ اللہ) اس کے جواب میں یہ آیت نازِل ہوئی اور بتایا گیا اللہ اور رحمٰن دو نام ایک ہی معبودِ برحق کے ہیں خواہ کسی نام سے پکارو ۔

یہاں ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ اللہ کریم کے اچھے ناموں پر تنقید کرنا ابوجہل کا طریقہ ہے ناکہ صالحین کا ۔

اعتراض نمبر 6 :  یہ جو علمائے کرام اللہ عزوجل کو خُدا کہنے کی اجازت دیتے ہیں یہ اِنکی اپنی ذاتی رائے ہوتی ہے یہ اِذن قرآن و سُنت سے نہیں دیتے؟

جواب : یہ عُلماءِ حق پر سراسر بُہتان ہے کیونکہ کوئی بھی عالم مفتی یا مُحدث قرآن اور سُنت کے منافی فتوٰی صادر نہیں کرتا بلکہ اِنکا ہر فتویٰ قرآن اور سُنت کی ہی روشنی میں ہوتا ہے اسی لئے اِنہیں وارثینِ انبیئا کا لقب مِلا ہے۔ اب یا تو اِن لوگوں کو فارسی زبان سے بغض تھا اُردو سے کینہ تھا یا علماء برصغیر سے بیزاری جو بنا سمجھے کروڑوں مسلمانوں کو بمعہ علماء کرام آتش پرستوں سے مُشابہت کی نوید سُنا کر معاذ اللہ ثمَ معاذ اللہ جہنم کی نوید سُنا ڈالتے ہیں ۔

محترم قارئین کرام ایک حدیث کا مفہوم ہے : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہُ سے مروی ہے کہ رسولِ اقدس علیہ الصلواۃ والسلام کا فرمانِ عبرت نشان ہے فرمایا کہ جس نے بغیر علم کے کوئی فتویٰ دیا تو اُس کا گُناہ فتوٰی دینے والے پر ہوگا اور جس نے جان بوجھ کر اپنے بھائی کو غلط مشورہ دیا تو اُس نے اُس کے ساتھ خیانت کی ۔(سنن ابو داود کتاب العلم باب التوقی فی الفتیا، جلد نمبر 3 صفحہ 449)

لیکن یہاں حال یہ ہے کہ ایک حدیث سُنی کتاب دیکھنے کی نوبت نہیں آتی جو یاد رہا صرف اُسی کو اپنی جانب سے قولِ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بتا کر بیان کر دیا جاتا ہے یا کسی کے نظریہ سے مُتاثر ہو کر کروڑوں مسلمانوں کو کفر کے فتویٰ سے نواز دیا جاتا ہے اور اس طرح مسلمانوں میں انتشار کی کیفیت پیدا کردی جاتی ہے جو قابل مذمت عمل ہے اللہ کریم ہم سب کے ایمان کی حفاظت فرمائے۔ اور ایسے نیم عالم خطرہ ایمان سے بھی محفوظ رکھے میں نے تمام حقائق آپ کے سامنے رکھ دئیے ہیں اور تمام علماء کی رائے بھی اب یہ آپکا فرض ہے کہ ہر ایسے شخص سے ہوشیار رہیں جو مسلمانوں میں تفرقہ بازی کا باعث ہو ۔

اللہ کےلیئے خدا کا استعمال غیر مقلدین کی طرف سے ثبوت

فرقہ اہلحدیث کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری صاحب ایک جگہ اپنا عقیدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:میں *خدا* کی صفت قرب و معیت کو اور اللہ تعالٰی کا آسمانوں اور زمینوں میں ہونا بلا تاویل یقین کرتا ہوں۔(مظالم روپڑی: ص11)

یہی شیخ الاسلام علامہ ثناءاللہ امرتسری قاضی شوکانی صاحب کی ایک عبارت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:میں کہتا ہوں کہ یہ عبارت قاضی شوکانی کی عبارت سے بھی واضح تر ہے مطلب اس کا وہی ہے کہ *خدا تعالٰی* جیسا کہ عرش پر ہے ویسا ہی زمین پر ہے رہا یہ امر کہ کیسے ہے سو یہ سوال کیفیت سے ہے جو حوالہ *بخدا* ہے“۔
(مظالم روپڑی ص 13)

ﻓﺮﻗﮧ ﺍﮨﻞ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﮯ ﺷﯿﺦ ﺍﻟﮑﻞ فی الکل ﻣﯿﺎﮞ سید ﻧﺬﯾﺮ ﺣﺴﯿﻦ ﺻﺎﺣﺐ ﺩﮨﻠﻮﯼ ایک سائل کے جواب میں لکھتے ﮨﯿﮟ:اگر شخص مذکور کا یہ مطلب ہے کہ نفع و ضرر حقیقت میں *خدا* ہی کی جانب سےہوتا ہے، *خدا* کے سوا کسی اور میں یہ طاقت نہیں ہے، کہ کسی کو بغیر *اذن خدا* کے نفع و ضرر پہنچا دے تو یہ عقیدہ بے شک اہل سنت و جماعت کا ہے، اور ایسا ہی عقیدہ ہر مسلمان کو رکھنا چاہیے ۔ (فتاوی نذیریہ: ج1، ص19)

اور یہی ﺷﯿﺦ ﺍﻟﮑﻞ فی الکل ﻣﯿﺎﮞ ﻧﺬﯾﺮ ﺣﺴﯿﻦ ﺻﺎﺣﺐ ﺩﮨﻠﻮﯼ اپنی ایک دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:(میں نے ، راقم) نام اس رسالہ کا "معیار الحق" رکھا *خداوند کریم* اپنے فضل و کرم سے افراط و تفریط اور تعصب مذہب سے محفوظ رکھ کر توفیق جواب دہی باصواب کی عطا فرمادے ۔ (معیارالحق، ص 27، 28)

فرقہ اہلحدیث کے نامور محقق و محدث زبیر علی زئی نے لفظ خدا استعمال کرنے کو نہ صرف جائز لکھا ہے بلکہ آپ فرماتے ہیں کہ: "بعض لوگوں کا لفظ *خدا* کی مخالفت کرنا اجماع کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔" دیکھئے:
(شرح حديث جبريل فی تعليم الدين : ص 145)

اور اس فرقہ اہلحدیث کی معتبر اردو لغت "محمدی اردو لغت" جس میں لفظ "خدا" کا معنی لفظ "اللہ" سے اور لفظ "اللہ" کی جگہ لفظ "خدا" کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے ثبوت کیلئے دیکھئے: صفحہ 58/ اور 429/ وغیرہ ۔

ثناءاللہ امرتسری صاحب نے لفظ *خدا* کا استعمال بہت زیادہ کیا ہے۔ تفصیل کیلئے دیکھئے: تفسیر ثنائی، مظالم روپڑی اور فتاوی ثنائیہ وغیرہ

اسی طرح ﺷﯿﺦ ﺍﻟﮑﻞ فی الکل ﻣﯿﺎﮞ ﻧﺬﯾﺮ ﺣﺴﯿﻦ ﺻﺎﺣﺐ ﺩﮨﻠﻮﯼ نے بھی لفظ *خدا* کا استعمال بکثرت کیا ہے۔ تفصیل کیلئے دیکھئے: فتاوی نذیریہ۔

اللہ تعالیٰ اندھے تعصب سے بچائے اور احکام شرع پر ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Monday 28 August 2017

قربانی کی کھال کے مصارف

0 comments
قربانی کی کھال کے مصارف

قربانی کی کھال اگر کوئی شخص اپنے ذاتی مصرف میں لانا چاہے تو لا سکتا ہے، مثلاً جائے نماز بنا لے۔ تمام فقہاء کرام کے نزدیک ایسا جائز ہے۔ لیکن اگر فروخت کریں تو اس کی قیمت مناسب مصرف میں استعمال کی جائے اور ہرگز اپنے پاس نہ رکھی جائے۔

یہ کھالیں کسی بھی فلاحی و دینی کام میں استعمال کی جا سکتی ہیں۔ غربا و مساکین کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والے بااعتماد فلاحی ادارے کو دی جا سکتی ہیں۔ غریب و مستحق طلبا کی تعلیم پر خرچ کی جا سکتی ہیں۔ بیمار لوگوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے کے لیے خرچ کی جا سکتی ہیں۔

مولائے کاینا حضرت سیدنا علی بن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَمَرَهُ أَنْ يَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ، وَأَنْ يَقْسِمَ بُدْنَهُ كُلَّهَا لُحُومَهَا وَجُلُودَهَا وَجِلَالَهَا، وَلَا يُعْطِيَ فِي جِزَارَتِهَا شَيْئًا، قَالَ: نَحْنُ نُعْطِيهِ مِنْ عِنْدِنَا ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اونٹوں پر مقرر فرمایا اور حکم دیا کہ اونٹ سارے کا سارا تقسیم کردوں، گوشت، کھال اور جھول سب، اور اس میں سے کچھ بھی قصائی کو (بطور اجرت ) نہ دوں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم قصائی کو پھر اپنی طرف سے اجرت دیتے تھے)۔
(أخرجه البخاري كتاب الحج باب يتصدق بجلود الهدي، ومسلم كتاب المناسك باب من جلّل البدنة، وأحمد (1/79)، والدارمي(2/74)، من حديث علي رضي الله عنه، وانظر الإرواء(1161)

سنت یہ ہے کہ قربانی کی کھالوں کو صدقہ کردیا جائے

الترغیب والترہیب میں حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَنْ بَاعَ جِلْدَ أُضْحِيَّتِهِ فَلَا أُضْحِيَّةَ لَهُ ۔ (صحیح ترغیب 1088)
ترجمہ : جس نے اپنی قربانی کی کھال فروخت کی اس کی قربانی نہیں ۔

اسے حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا صحیح الاسناد ہے۔ اور الحافظ کہتے ہیں اس کی اسناد میں عبداللہ بن عیاش القبانی المصری ہے جو کہ مختلف فیہ ہے۔ اس کے علاوہ بھی احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قربانی کی کھالیں بیچنے سے منع فرمایاہے ۔ ’’فَلَا أُضْحِيَّةَ لَهُ‘‘ کے حاشیہ میں اس کا معنی لکھا ہے کہ اسےاس کا ثواب نہيں ملے گا۔ (الکامل ص 156 ج 2 ط دار احیاء التراث العربی، بیروت)۔

قربانی کے جانور کی کھال کے مصارف کا مختصر بیان

ذاتی استعمال میں لانا: قربانی کی کھال کو جائے نماز ،مشکیزہ ،یا موزے وغیرہ بناکر اپنے ذاتی استعمال میں لانا بھی جائز ہے ۔

مگر کھال کو بیچ کر رقم ذاتی استعمال میں لانا جائز نہیں ہے اب اس رقم کو صدقہ کرنا ضروری ہے ۔

قربانی کی کھال امام و خطیب کو دینا:قربانی کے جانور کی کھال امام و خطیب کو بطور ہدیہ دینا جائز ہے جبکہ معاوضہ کے طور پر دینا جائز نہیں ہے ۔

مالدار امام کا اپنے لئے کھال مانگنا: اگر امام مالدار ہو تو اس کا قربانی کی کھال اپنے لےے مانگنا بہت برا ہے اور منصبِ امامت کی تذلیل ہے ۔

قربانی کی کھال کو فروخت کرنا: اگر کوئی شخص قربانی کی کھال کو اپنے مصرف میں لانے کےلئے فروخت کرتا ہے تو اس کی قیمت صدقہ کرنا لازمی ہے ورنہ قربانی نہیں ہو گی اور اگر کھال کو اس لئے فروخت کرتا ہے کہ اس کی قیمت کسی مدرسہ میں دے گا تو پھر کوئی حرج نہیں ۔لیکن جہاد کے نام پر فساد پھیلانے والی تنظیموں کو کھال نہیں دینی چاہئے ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

قربانی کی کھال کا مصرف کیا کیا ہو سکتا ہے :قربانی کی کھال ہر اُس کام میں صرف کی جا سکتی ہے جو باعث ثواب ہے ۔البتہ فنکاروں کو دینا مناسب نہیں۔

قربانی کی کھال کا بہترین مصرف: قربانی کی کھال کا بہترین مصرف دینی مدارس اہلسنت و جماعت ہیں ۔مدارس میں کھال صدقہ جاریہ بن جاتی ہے ۔

قربانی کا چمڑا قصاب کو دینا: قربانی کا چمڑا گوشت یا اس میں سے کوئی چیز قصاب یا ذبح کرنے والے کو اُجرت میں دینا جائز نہیں ہے ۔

قربانی کی کھال مالدار بیوہ کو دینا: بعض لوگ قربانی کی کھال کی قیمت بیوہ عورتوں کو دیتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ ان کے پاس سونا چاندی یا نقد بقدر نصاب موجود ہے کہ نہیں ہاں اگر بیوہ عورت غریب ہے تو اسے قربانی کی کھال دینا صحیح ورنہ نہیں۔

قربانی کے جانور کی چربی ،سری پائے اور اون وغیرہ کا حکم: قربانی کرنے کے بعد جانور کی چربی ،سری پائے ،اون ،بال اور دودھ وغیرہ کو ایسی چیز کے عوض فروخت نہیں کرنا چاہےے جس سے بعینہ فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا جیسے روپے پیسے اور کھانے پینے کی چیزیں ۔اسی طرح ان چیزوں کو فروخت کر دیا تو ان کی قیمت صدقہ کرنا ضروری ہے ۔(ماخوذ : فتاویٰ رضویہ ، فتاویٰ عالمگیری ، بہار شریعت)

واضح رہےکہ قربانی کی کھال کواپنےاستعمال میں لاکرجائےنماز،مشکیزہ وغیرہ بنانابھی درست ہےاورکسی مستحق کودینابھی درست ہے (اورمستحق ہروہ شخص ہےجوساڑھےباؤن تولہ چاندی ،یااسکےبرابرسونا،روپیہ یاضرورت سےزائد سامان کامالک نہ ہو) اسی طرح قربانی کی کھال کسی غنی کوبطورہدیہ بھی دی جاسکتی ہے،اوراگرقربانی کی کھال کوفروخت کیاجائےتوان روپیوں کااپنےاستعمال میں لانادرست نہیں بلکہ صدقہ کرناواجب ہے۔(فتح القدير للمحقق ابن الهمام الحنفي – (22 / 119)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

چنانچہ فتاوٰی شامی (6/328)میں ہے : (فَإِنْ) (بِيعَ اللَّحْمُ أَوْ الْجِلْدُ بِهِ) أَيْ بِمُسْتَهْلَكٍ (أَوْ بِدَرَاهِمَ) (تَصَدَّقَ بِثَمَنِهِ)
وَلَوْ بَاعَ الْجِلْدَ وَاللَّحْمَ بِالدَّرَاهِمِ أَوْ بِمَا لَا يُنْتَفَعُ بِهِ إلَّا بِاسْتِهْلَاكِهِ تَصَدَّقَ بِثَمَنِهِ
الهداية في شرح بداية المبتدي – (4 / 360)

فلو باع الجلد أو اللحم بالدراهم أو بما لا ينتفع به إلا بعد استهلاكه تصدق بثمنه، لأن القربة انتقلت إلى بدله، وقوله عليه الصلاة والسلام: “من باع جلد أضحيته فلا أضحية له” يفيد كراهة البيع.(البناية شرح الهداية – (12 / 55)
(واللحم بمنزلة الجلد في الصحيح) ش: يعني إذا باعه بالدراهم يتصدق به، وإن باعه بشيء آخر ينتفع به، كما في الجلد، ولو اشترى ما لا ينتفع به إلا بعد استهلاكه لا يجوز، احترز بقوله في الصحيح، عما روي في ” الأجناس ” قال: وإنما في اللحم أن يأكل ويطعم وليس له غيره فيه، وفي الجلد له أن يشتري الغربال والمنخل ويتخذ منه مسكا ۔

قربانی کی کھال فروخت کرنے کے بعد ان کی قیمت غرباء مساکین پر صدقہ کرنا واجب ہے، جو لوگ زبردستی قربانی کی کھال لے جاتے ہیں ان کا زبردستی بغیر مالکان کی خوش دلی کے لے جانا گناہ ہے، ان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ایسا کریں، بلکہ مالکان کو راضی کرکے لے جائیں اور فروخت کرکے جن مصارف میں خرچ کریں گے ان کی وضاحت کرکے مالکان کو مطمئن کردیں۔ بہرصورت آپ لوگوں کی قربانی صحیح اور درست ہوگئی، کھال کی قیمتوں کے غلط استعمال کرنے کے ذمہ دار لے جانے والے ہوں گے، قربانی کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔مسجد کے اخراجات، امام کی تنخواہ وغیرہ میں خرچ کرنا ناجائز ہے، مدرسہ کے طلبہ اگر غریب مستحق زکاة ہیں تو انھیں دی جاسکتی ہے، لیکن اگر مالدار ہیں تو چرم قربانی کی قیمت مالدار طلبہ کو نہیں دی جاسکتی۔

أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَخْبَرَهُ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ أَنْ يَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ، وَأَنْ يَقْسِمَ بُدْنَهُ كُلَّهَا، لُحُومَهَا وَجُلُودَهَا وَجِلاَلَهَا، وَلاَ يُعْطِيَ فِي جِزَارَتِهَا شَيْئًا ۔
مولائے کاینات حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ کو بتایا کہ نبی کریم ﷺ نے ان کو حکم دیا کہ وہ آپ ﷺ کے قربانی کے اونٹوں پر (بطور نگران) کھڑے ہوں اور ان کو حکم دیا کہ اس کا گوشت اور کھالیں اور جُل مساکین میں صدقہ کردیں اور اس (گوشت، کھالوں اور جُل) میں سے کچھ بھی اس کی اجرت کے طور پر نہ دوں۔(صحيح البخاري، كتاب الحج، باب يتصدق بجلود الهدي، (1717))
اس حدیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کھالیں صدقہ ہیں اور صدقہ کے مصارف اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمائے ہیں: ‹اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَابْنِ السَّبِيْلِ فَرِيْضَۃً مِّنَ اللہِ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ صدقات یقیناً صرف اور صرف فقراء ، مساکین (صدقہ کے) عاملین اور تالیف قلب اور گردنوں کو آزاد کروانے اور غارمین (جن کو چٹی پڑ جائے) اور فی سبیل اللہ (جہاد) اور مسافروں کےلیے ہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فریضہ ہے اور اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا، حکمت والا ہے۔ [التوبۃ: 60] اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے صدقات کے آٹھ مصارف بیان کیے ہیں لہٰذا قربانی کی کھالیں بھی ان آٹھ مصارف پر خرچ کی جائیں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Sunday 27 August 2017

احکام و مسائل نماز مدلّل حصّہ اوّل

0 comments
احکام و مسائل نماز مدلّل حصّہ اوّل

قبلہ رُخ ہوکر تکبیرِ تحریمہ کہنا

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ، اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، وَرَفَعَ يَدَيْهِ، وَقَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ۔(ابن ماجہ:803)
ترجمہ: حضرت ابو حمید﷛ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺجب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو قبلہ رُخ ہوکر ہاتھوں کو اٹھاتے اور”اَللّٰہ أکبر“کہتے تھے۔

ہاتھ کہاں تک اُٹھائے جائیں

عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْن وَائِلٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ ﷺ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى تَكَادَ إِبْهَامَاهُ تُحَاذِي شَحْمَةَ أُذُنَيْهِ۔(نسائی:882)
ترجمہ : حضرت عبد الجبار بن وائل ﷛ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم ﷺکو دیکھا کہ جب آپ نماز شروع فرماتے تو اپنے ہاتھ کانوں تک اتنا اٹھاتے تھے کہ آپ کے دونوں انگوٹھے آپ کے دونوں کانوں کی لَو کے برابر ہو جاتے ۔

ہاتھ کیسے اُٹھائے جائیں

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا اسْتَفْتَحَ أَحَدُكُمُ الصَّلَاةَ فَلْيَرْفَعْ يَدَيْهِ، وَلْيَسْتَقْبِلْ بِبَاطِنِهِمَا الْقِبْلَةَ، فَإِنَّ اللَّهَ أَمَامَهُ ۔(طبرانی اوسط:7801)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ترجمہ : حضرت ابن عمر ﷠سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی تکبیر کہے تو اُسے چاہیے کہ اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھائے اور اُن کا اندرونی حصہ (یعنی ہتھیلیوں کا رُخ )قبلہ کی طرف کرے ۔

ہاتھ کیسے باندھے جائیں

عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، قَالَ فِيهِ: ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى ظَهْرِ كَفِّهِ الْيُسْرَى وَالرُّسْغِ وَالسَّاعِدِ ۔(ابوداؤد:727)
ترجمہ : حضرت وائل بن حجر﷛ فرماتے ہیں:پھر آپ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی پشت ، گٹے اور کلائی پر رکھا ۔

ہاتھ کہاں باندھے جائیں

عَنْ عَلقَمَةَ بنِ وِائِل بنِ حُجْرٍ،عَنْ اَبِيْهِ رَضِیَ الله عَنْهُ قَالَ: رَأيتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ وَضَعَ يَمِيْنَهُ عَلَی شِمَالِهِ فِی الصَّلَاةِ تَحْتَ السُّرَّةِ۔(مصنف ابن ابی شیبۃ،باب وضع الیمین علی الشمال:3/320،321،رقم:3959)
ترجمہ :حضرت وائل بن حجر ﷛فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺکو دیکھا کہ آپ ﷺنے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھے ہوئے تھے ۔
عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ:إِنَّ مِنْ سُنَّةِ الصَّلَاةِ وَضَعُ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ تَحْتَ السُّرَّةِ۔(سنن کبریٰ بیہقی:2342)(و کذا فی ابی داؤد:756)
ترجمہ: حضرت علی کرّم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:نماز میں سنت یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھا جائے ۔

ثناء پڑھنا

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ قَالَ:«سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ تَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ»۔(نسائی:899)

ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری ﷛ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ جب نماز شروع کرتے تو یہ دعاء پڑھتے :«سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ تَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ

تعوّذ

اللہ تبارک و تعالیٰ کا اِرشاد ہے:﴿فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ﴾۔(النحل:98) ترجمہ: جب تم قرآ ن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو۔(آسان ترجمہ قرآن)
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ قَبْلَ الْقِرَاءَةِ:«أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ»۔(مصنف عبد الرزاق:2589)
ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری ﷛ فرماتے ہیں:نبی کریم ﷺ تلاوت سے پہلے ’’أَعُوذُ بِا اللہِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ‘‘ پڑھا کرتے تھے ۔

تسمیہ

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْتَتِحُ صَلَاتَهُ بِ {بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ}۔ (ترمذی:245)
ترجمہ: حضرت ابن عباس ﷠سے روایت ہےکہ نبی کریمﷺ اپنی نماز کا افتتاح’’بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ‘‘سے کیا کرتے تھے۔

ثناء ، تعوذ ، تسمیہ اور آمین کا آہستہ کہنا

خَمْسٌ يُخْفِيَنَّ:سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ،وَالتَّعَوُّذُ، وَبِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، وَآمِينَ، وَاللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ۔ (مصنف عبد الرزاق:2597)

ترجمہ : مشہور تابعی حضرت ابراہیم نخعی ﷫فرماتے ہیں :پانچ چیزیں آہستہ آواز میں کہیں گے: ثناء ، تعوذ ، تسمیہ ،آمین اور تحمید ۔
عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ:قَالَ عُمَرُ:أَربَعٌ يُخْفَيْنَ عَنِ الْإِمَامِ:التَّعَوُّذُ،وَبِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحيْمِ، وَ آميْن، وَاَللّٰهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ۔ (کنز العمال:22893)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ترجمہ:حضرت ابراہیم نخعی﷫حضرت عمر﷛کا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں کہ چار چیزیں امام آہستہ کہے گا :تعوّذ، تسمیہ ،آمین اور اللّٰہم ربنا لک الحمد۔

فاتحہ اور سورت کا ملانا

عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَصَاعِدًا»،قَالَ سُفْيَانُ: لِمَنْ يُصَلِّي وَحْدَهُ۔ (ابوداؤد:822)
ترجمہ: حضرت عبادہ بن صامت ﷛نبی کریم ﷺکا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں :اُس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو فاتحہ اور اُس سے زائد نہ پڑھے ۔ حدیث کے راوی حضرت سفیان فرماتے ہیں کہ یہ حکم اُس شخص کے لئے ہے جواکیلے نماز پڑھ رہا ہو۔

قرأت کے وقت مقتدیوں کاخاموش رہنا

اِرشاد باری ہے:﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾ ترجمہ: اور جب قرآن پڑھا جائے تو اُس کو کان لگا کر سنو اور خاموش رہوتاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔ ( الأعراف:204،آسان ترجمہ قرآن )

إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَنَا فَبَيَّنَ لَنَا سُنَّتَنَا وَعَلَّمَنَا صَلَاتَنَا. فَقَالَ:إِذَا صَلَّيْتُمْ فَأَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ ثُمَّ لْيَؤُمَّكُمْ أَحَدُكُمْ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذْ قَالَ{غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَاالضَّالِّينَ}،فَقُولُوا:آمِينَ،يُجِبْكُمُ اللهُ………وَفِي حَدِيثِ جَرِيرٍ،عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ قَتَادَةَ مِنَ الزِّيَادَةِ«وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا»“۔
ترجمہ:حضرت ابوموسی اشعری﷜فرماتے ہیں کہ آپﷺنے ہم سے خطاب کرتے ہوئے ہمارے لئے سنّت کے اُمور کو واضح فرمایا اور ہمیں ہماری نماز (باجماعت) کا طریقہ بتلایا اور یہ فرمایا کہ : جب تم نماز پڑھنے لگو تو اپنی صفوں کو درست کرلو،پھر تم میں سے کوئی شخص تمہاری اِمامت کرے ، اور جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾ کہے تو تم ”آمِينَ“ کہو، اللہ تعالیٰ تمہاری دعاء قبول فرمائیں گے۔حضرت سلیمان التیمی ﷫ حضرت قتادہ سے (مذکورہ حدیث میں)یہ زیادتی نقل کرتے ہیں کہ :جب اِمام قراءت کرے تو تم خاموش رہو۔ (مسلم:404)
وضاحت:مذکورہ حدیث میں جماعت کے ساتھ ہونے والی نماز میں اِمام اور مقتدی کی ذمّہ داریوں کو واضح کیا گیا ہے ، یعنی: جب اِمام ”اللہ أکبر“ کہے تو تم بھی ”اللہ أکبر“کہو، جب وہ قراءت کرے تو تم خاموش رہو اور جب وہ فاتحہ ختم کرے تو تم ”آمین “کہو۔اگر سورۃ الفاتحہ کا پڑھنا مقتدی کیلئے لازم ہوتا تو جیسے تکبیر میں کہا گیا ہے کہ اِمام کے تکبیر کہنے پر تم بھی تکبیر کہو اِسی طرح قراءت کے موقع پر بھی یہ کہا جاتا کہ جب اِمام قراءت کرے تو تم بھی قراءت کرو ، لیکن اِس کے بالکل برعکس یہ کہا گیا ہے کہ:”وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا“یعنی جب اِمام قراءت کرے تو تم خاموش رہو۔

نوٹ:واضح رہے کہ حضرت سلیمان التیمی﷫ بخاری اورمسلم کےمشہور راوی ہیں اور بالاتفاق ثقہ اور مُتقن ہیں لہٰذا مذکورہ بالا حدیث میں ان کی ذکر کردہ یہ زیادتی بالکل مقبول ہے ، یہی وجہ ہےاِمام مُسلم ﷫ نے اپنی صحیح میں یہ زیادتی ذکر کرکے اُسے صحیح قرار دیا ہے۔علاوہ ازین یہ زیادتی نقل کرنے میں حضرت سلیمان التیمی﷫ متفرّد بھی نہیں کہ ان پر تفرّد کا اِلزام لگایا جاسکے،بلکہ اور بھی کئی راویوں نے دوسری روایات میں اِسی زیادتی کو نقل کیا ہے،چنانچہ حضرت ابوعُبیدہ﷫کی روایت کیلئے دیکھئے(مستخرج ابی عَوانہ:1698) حضرت عمر ابن عامر﷫اور حضرت سعید بن ابی عَروبہ﷫ کی روایت دیکھئے(دار قطنی:1249)

عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ:«مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ القُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الإِمَامِ»۔«هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ»“۔ (ترمذی:313)
ترجمہ:حضرت ابونُعیم وہب بن کیسان﷫ فرماتے ہیں کہ اُنہوں نے حضرت جابر بن عبد اللہ﷜سے سنا ،وہ یہ فرمارہے تھے: جس نے نماز پڑھی اور اُس میں سورۃ الفاتحہ نہیں پڑھی تو گویا اُس نے نماز ہی نہیں پڑھی، ہاں ! مگر یہ کہ وہ اِمام کے پیچھے ہو(تو نماز ہوجائے گی )۔یہ حدیث ”حسن صحیح“ہے۔

وضاحت:حدیثِ مذکور جس کو اِمام ترمذی﷫نے صحیح بھی قرار دیا ہے اس میں بڑی وضاحت اور صراحت کے ساتھ اِس حقیقت کو ذکر کیا گیا ہے کہ نماز سورۃ الفاتحہ کے بغیر نہیں ہوتی لیکن اگر کوئی شخص اِمام کے پیچھے جماعت میں شریک ہو تو اُس کی نماز ہوجائے گی ،اِس لئے کہ حدیث کے مطابق اِمام کی قراءت کرنے سے مقتدی کی بھی قراءت ہوجاتی ہے،لہٰذا سورۃ الفاتحہ نہ پڑھنے کے باوجود بھی حکمی طور پر اُس کا پڑھنا معتبر ہوجاتا ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا۔ (ابن ماجہ:846)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ ﷛سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا:امام کو اس لئے مقرر کیا گیا ہے تاکہ اُ س کی اقتداء کی جائے ، پس جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ تلاوت کرے تو تم خاموش رہو۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:«مَنْ صَلَّى خَلْفَ الْإِمَامِ فَإِنَّ قِرَاءَةَ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ»۔ (دار قطنی:1502)
ترجمہ: حضرت ابن عمر ﷠نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا :جو امام کے پیچھے نماز پڑھے تو پس امام کی قرأت ہی اُس کی قرأت ہے ۔

عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنهُمَا كَانَ إِذَا سُئِلَ: هَلْ يَقْرَأُ أَحَدٌ خَلْفَ الإِمَامِ؟ يقول: إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ خَلْفَ الإِمَامِ فَحَسْبُهُ قِرَاءَةُ الإِمَامِ، وَإِذَا صَلَّى وَحْدَهُ فَلْيَقْرَأْ، قَالَ: وَكَانَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ لاَ يَقْرَأُ خَلْفَ الإِمَامِ۔ (مؤطاء مالک:251)
ترجمہ: حضرت ابن عمر ﷠سے جب امام کے پیچھے قرأت کرنے کے بارے میں پوچھا جاتا تو فرماتے :جب تم میں سے کوئی شخص امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اُس کے لئے امام کی قرأت ہی کافی ہے ، اور جب اکیلے نماز پڑھے تو اُسے قرأ ت کرنی چاہیے۔حضرت نافع﷫فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ ابن عمر ﷠اِمام کے پیچھے قرأت نہیں کیا کرتے تھے۔

عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ:صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ أَقْبَلَ بِوَجْهِهِ فَقَالَ:«أَتَقْرَءُونَ وَالْإِمَامُ يَقْرَأُ» فَسَكَتُوا فَسَأَلَهُمْ ثَلَاثًا فَقَالُوا إِنَّا لَنَفْعَلَ، قَالَ:فَلَا تَفْعَلُوا۔(طحاوی:1302)
ترجمہ : ایک دفعہ نبی کریمﷺنے نماز پڑھائی پھراپنے رخِ انور سے صحابہ کرام ﷢ کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا امام کے پڑھتے ہوئے تم لوگ بھی قراءت کرتے ہو؟لوگ خاموش رہے،آپﷺنے تین دفعہ یہی سوال کیا تو صحابہ کرام ﷡نے کہا :جی ہاں! ہم یہ کرتے ہیں ،آپﷺنے اِرشاد فرمایا: ایسا مت کیا کرو۔
عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: عَلَّمَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَلْيَؤُمَّكُمْ أَحَدُكُمْ، وَإِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا۔ (مسند احمد:19723)
ترجمہ: حضرت ابو موسیٰ اشعری﷛فرماتے ہیں کہ ہمیں نبی کریمﷺنے نماز سکھائی اور فرمایا: جب تم نماز کیلئے کھڑے ہو تو تم میں سے کسی ایک کو تمہاری امامت کرنی چاہیئے اور جب امام تلاوت کرے تو تم خاموش رہو۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ قَالَ:أمَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْعَصْرِقَالَ: فَقَرَأَ رَجُلٌ خَلْفَهُ فَغَمَزَهُ الَّذِي يَلِيهِ، فَلَمَّا أَنْ صَلَّى قَالَ: لِمَ غَمَزْتَنِي؟قَالَ:كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُدّامَك، فَكَرِهْتُ أَنْ تَقْرَأَ خَلْفَهُ، فَسَمِعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال: من كان لَهُ إِمَامٌ فَإِنَّ قِرَاءَتَهُ لَهُ قِرَاءَةٌ۔ (مؤطاء امام محمد:98)
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن شداد ﷛ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے عصر کی نماز میں اِمامت کی،ایک شخص نے آپ ﷺ کے پیچھےقراءت کی،اُس کےساتھ میں کھڑے شخص نے اُس کو(قراءت سے منع کرنے کیلئے) چٹکی نوچی،جب نماز ہوگئی تو اُس شخص نے (چٹکی نوچنے والے سے)کہا: تم نے مجھے چٹکی کیوں نوچی تھی؟ تو اُ س نے جواب دیا : نبی کریم ﷺ تمہارے آگے قراءت کررہے تھےاِس لئے میں نے یہ ناپسند کیا کہ تم حضور ﷺ کے پیچھے قراءت کرو،نبی کریم ﷺ نے یہ گفتگو سنی تو فرمایا:جس شخص کا امام ہو تو اُس امام کی قراءت ہی مقتدی کی قراءت ہے۔(جاری ہے)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)