Sunday 6 August 2017

فضائل و مسائلِ حج و قربانی حصّہ دوم

0 comments
فضائل و مسائلِ حج و قربانی حصّہ دوم

سوال : حج فرض ہونے کی کتنی شرائط ہیں ؟
جواب : حج فرض ہونے کی آٹھ (8) شرطیں ہیں، جب تک سب نہ پائی جائیں حج فرض نہیں ہوگا.
(1) : اسلام : اگر کوئی شخص مسلمان ہونے سے پہلے استطاعت رکهتا تها مگر اب حالت اسلام میں (شرعی) فقیر ہوگیا تو حالت کفر کی استطاعت کیوجہ سے اسلام لانے کے بعد اس پر حج فرض نہیں ہوگا. اور اگر مسلمان صاحب استطاعت تها مگر حج نہ کیا اور اب فقیر ہوگیا تو اس پر اب بهی حج فرض ہے ۔
(2) : دارالحرب میں ہو تو یہ بهی ضروری ہے کہ جانتا ہو کہ اسلام کے فرائض میں حج ہے .
(3) : بلوغ یعنی بالغ ہونا . اگر نابالغ نے حج کیا یعنی اپنے آپ جبکہ سمجھ دار ہو یا اس کے ولی نے اس کی طرف سے احرام باندها ہو جب کہ ناسمجھ ہو، بہرحال وہ حج نفل ہوا، حجتہ الاسلام یعنی حج فرض کے قائم مقام نہیں ہوسکتا .
(4) عاقل ہونا : مجنون پر حج فرض نہیں . پہلے مجنون تها اور وقوف عرفہ سے پہلے جنون جاتا رہا اور نیا احرام باندھ کر حج کیا تو یہ حج حجتہ الاسلام ہوگیا ورنہ نہیں- بوہرا بهی مجنون کے حکم میں ہے .
(5) آزاد ہونا : باندی غلام پر حج فرض نہیں .
(6) تندرست ہونا کہ حج کو جا سکے، اعضا سلامت ہوں ، انکهیارا ہو ، اپاہج اور فالج والے پر اور جس کے پاؤں کٹے ہوں اور بوڑهے پر (اتنا بڑهاپا و ضعف ہو) کہ سواری پر خود نہ بیٹھ سکتا ہو (پر) حج فرض نہیں . یونہی اندهے پر بهی واجب نہیں اگرچہ ہاتھ پکڑ کر لے چلنے اسے ملے- ان سب پر یہ بهی واجب نہیں کہ کسی کو بهیج کر اپنی طرف سے حج کرا دیں یا وصیت کر جائیں اور اگر تکلیف اٹها کر حج کرلیا تو صحیح ہوگیا اور حجتہ الاسلام ادا ہوا یعنی اس کے بعد اگر اعضا درست ہوگئے تو اب دوبارہ حج فرض نہ ہوگا وہی پہلا حج کافی ہے . ( بہارشریعت حصہ 6 کتاب الحج)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
(7) : سفر خرچ کا مالک ہو اور سواری پر قادر ہو ۔ کسی نے حج کےلئے اس کو اتنا مال مباح کردیا کہ حج کرلے تو (اس وجہ سے) حج فرض نہ ہوا کہ اباحت سے ملک نہیں ہوتی (یعنی یہ اس مال کا مالک نہ ہوا) اور (حج) فرض ہونے کےلئے ملک درکار ہے . اگر عاریتاً سواری مل جائے گی جب بهی فرض نہیں ، کسی نے حج کےلئے مال ہبہ کیا تو قبول کرنا اس پر واجب نہیں - دینے والا اجنبی ہو یا ماں، باپ، اولاد وغیرہ ، مگر قبول کرلے گا تو حج واجب ہوجائے گا ، سفر خرچ اور سواری پر قادر ہونے کے یہ معنیٰ ہیں کہ یہ چیزیں اس کی حاجت سے فاضل ہوں یعنی ، مکان و لباس اور سواری کا جانور اور پیشہ کے اوزار اور خانہ داری کے سامان اور دین (یعنی قرض ) سے اتنا زائد ہو کہ سواری پر مکہ معظمہ جائے اور وہاں سے سواری پر واپس آئے اور جانے سے واپسی تک عیال کا نفقہ اور مکان کی مرمت کےلئے کافی مال چهوڑ جائے ، اور جانے آنے میں اپنے نفقہ اور گهر اہل و عیال کے نفقہ میں قدر متوسط کا اعتبار ہے نہ کمی ہو نہ اسراف . ( بہارشریعت حصہ 6 کتاب الحج)
حج پر جانے والے اپنے دوست احباب اور رشتہ داروں کےلئے تحائف لیکر آتے ہیں، ان تحائف پر ہونے والا خرچ ضروریات میں سے نہیں ۔ (ماخوذ از بہارشریعت حصہ 6 حج کا بیان)
جس کی بسر اوقات تجارت پر ہے اور مالی حیثیت اتنی ہوگئی کہ سفر حج کا خرچ اور واپسی تک بال بچوں کی خوراک نکال لے تو اتنا مال باقی بچ جائے جس سے اپنی تجارت بقدر اپنی گزر کے کر سکے ، تو حج فرض ہے ورنہ نہیں ۔ ( ماخوذ بہارشریعت)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
پیدل کی طاقت ہو تو پیدل حج کرنا افضل ہے ۔ حدیث میں ہے : جو پیدل حج کرے ، اس کےلئے ہر قدم پر سات (7) سو نیکیاں ہیں ۔ ( بہارشریعت حصہ 6 بحوالہ ردالمحتار ، کتاب الحج)
( شرعی) فقیر نے پیدل حج کیا پهر مالدار ہوگیا تو اس پر دوسرا حج فرض نہیں ۔ ( بہارشریعت حصہ 6 بحوالہ فتاویٰ عالمگیری کتاب المناسک)
رہنے کا مکان اور خدمت کا غلام اور پہننے کے کپڑے اور برتنے کے اسباب ہیں تو حج فرض نہیں، یعنی لازم نہیں کہ انہیں بیچ کر حج کرے اور اگر مکان ہے مگر اس میں رہتا نہیں غلام ہے مگر اس سے خدمت نہیں لیتا تو بیچ کر حج کرے اور اگر اس کے پاس نہ مکان ہے نہ غلام وغیرہ اور روپیہ ہے جس سے حج کر سکتا ہے مگر مکان وغیرہ خریدنے کا ارادہ ہے اور خریدنے کے بعد حج کے لائق (روپیہ) نہ بچے گا تو فرض ہے کہ حج کرے اور باتوں میں اٹهانا گناہ ہے یعنی اس وقت کہ اس شہر ( جہاں یہ رہتا ہے) والے حج کو جارہے ہوں اور ، اگر پہلے مکان وغیرہ خریدنے میں اٹها دیا ( یعنی روپیہ خرچ کردیا) تو حرج نہیں ۔ ( بہارشریعت حصہ 6 بحوالہ فتاویٰ عالمگیری )
جس مکان میں رہتا ہے اگر اسے بیچ کر اس سے کم حیثیت کا خرید لے تو اتنا روپیہ بچے گا کہ حج کرلے تو (مکان) بیچنا ضروری نہیں مگر ایسا کرے تو افضل ہے، لہٰذا مکان بیچ کر حج کرنا اور کرایہ کے مکان میں گزر کرنا تو بدرجہ اولی ضرور نہیں ۔ ( بہارشریعت حصہ 6 بحوالہ فتاویٰ عالمگیری )
جس کے پاس سال بهر کے خرچ کا غلہ ہو تو یہ لازم نہیں کہ (غلہ ، اناج) بیچ کر حج کو جائے اور اس (سال بهر کے غلے) سے زائد ہے تو اگر زائد کے بیچنے میں حج کا سامان ہوسکتا ہے تو (حج) فرض ہے ورنہ نہیں ۔ ( بہارشریعت حصہ 6 بحوالہ لباب المناسک )(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
دینی کتابیں اگر اہل علم کے پاس ہیں جو اس کے کام میں رہتی ہیں تو انہیں بیچ کر حج کرنا ضروری نہیں اور بے علم کے پاس ہوں اور اتنی ہیں کہ بیچے تو حج کر سکے گا تو اس پر حج فرض ہے ۔ یوہیں طب اور ریاضی وغیرہ کی کتابیں اگرچہ کام میں رہتی ہوں اگر اتنی ہوں کہ بیچ کر حج کر سکتا ہے تو حج فرض ہے ۔ ( بہارشریعت حصہ 6 بحوالہ فتاویٰ عالمگیری و ردالمحتار)
(8) : وقت : یعنی حج کے مہینوں میں تمام شرائط پائے جائیں اور اگر دور کا رہنے والا ہو تو جس وقت وہاں کے لوگ (حج کےلئے) جاتے ہوں اس وقت شرائط پائے جائیں اور اگر شرائط ایسے وقت پائے گئے کہ اب نہیں پہنچے گا تو (حج) فرض نہ ہوا ۔ ( بہارشریعت حصہ 6 حج کا بیان )
سوال : زید پرحج فرض ہوجائے مگر والدین اجازت نہ دیں یا والدین پر قرض ہو تو کیا ایسی صورت میں زید حج پر جا سکتا ہے ؟
جواب : بالکل جا سکتا ہے بلکہ ضرور جانا چاہئے ۔ سیدی اعلی حضرت امام اهلسنت قدس سرہ العزیز اسی طرح کے سوال کے جواب میں فرماتے ہیں : جبکہ زید اپنے ذاتی روپے سے (حج کی) استطاعت رکهتا ہے تو حج اس پر فرض ہے، اور حج فرض میں والدین کی اجازت درکار نہیں بلکہ والدین کو ممانعت کا اختیار نہیں، زید پر لازم ہے کہ حج کو چلا جائے اگرچہ والدین مانع ( منع کرتے ) ہوں ، اور والدین پر قرض ہونا اس شخص پر فرضیت میں خلل انداز نہیں ۔ ( فتاویٰ رضویہ جلد 10 صفحہ 658)
واضح رہے : کہ بعض لوگ یوں کہتے بهی سنائی دیتے ہیں کہ اگر لڑکیوں کی شادی نہیں کی تو باپ حج پر نہیں جاسکتا . اسی طرح یہ یہ اختراع بهی ہے کہ اگر والدین نے حج نہیں کیا تو بیٹا بهی حج نہیں کرسکتا . یہ سب جاہلانہ باتیں ہیں، شریعت مطہرہ میں اس کا کوئی ثبوت یا حکم نہیں .(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
محترم قارئین : آپ نے حج واجب ہونے کے شرائط کا مطالعہ کیا ۔ اب ان شرائط کا ذکر ہوگا وہ پائی جائیں تو خود حج کو جانا ضروری ہے اور سب (شرائط) نہ پائی جائیں تو خود جانا ضروری نہیں بلکہ دوسرے (کو بهیج کر) سے حج کرا سکتا ہے یا وصیت کرجائے مگر اس میں یہ بهی ضروری ہے کہ حج کرانے کے بعد آخر عمر تک خود قادر نہ ہو ورنہ خود بهی (حج) کرنا ضرور ہوگا ۔
وہ شرائط یہ ہیں
(1) : راستہ میں امن ہون* یعنی اگر غالب گمان سلامتی ہو تو جانا واجب اور غالب گمان یہ ہو کہ ڈاکے وغیرہ سے جان ضائع ہوجائے گی تو جانا ضرور نہیں،
( حج کےلئے) جانے کے زمانے میں امن ہونا شرط ہے پہلے کی بد امنی قابل لحاظ نہیں ۔ ( بہارشریعت حصہ 6 حج کا بیان بحوالہ ردالمحتار کتاب الحج )
(2) : عورت کو مکہ تک جانے میں تین دن یا زیادہ کا راستہ ہو تو اس کے ہمراہ شوہر یا محرم ہونا شرط ہے، خواہ وہ عورت جوان ہو یا بوڑهیا ۔
محرم سے مراد وہ مرد ہے جس سے ہمیشہ کےلئے اس کا نکاح حرام ہے ، خواہ نسب کی وجہ سے نکاح حرام ہو، جیسے باپ، بیٹا، بهائی وغیرہ یا دودھ کے رشتہ کی حرمت ہو ، جیسے رضاعی بهائی ، باپ ، بیٹا وغیرہ یا سسرالی رشتہ سے حرمت آئی ، جیسے خسر ، شوہر کا بیٹا وغیرہ ۔
شوہر یا محرم جس کے ساتھ سفر کر سکتی ہے اس کا عاقل بالغ غیر فاسق ہونا شرط ہے ۔ مجنون یا نابالغ یا فاسق کے ساتھ نہیں جاسکتی ...الخ
عورت بغیر محرم یا شوہر کے حج کو گئی تو گنہگار ہوئی، مگر حج کرے گی تو حج ہوجائے گا یعنی فرض ادا ہوجائے گا ۔
عورت کا نہ شوہر ہے ، نہ محرم تو (اس صورت میں) اس پر واجب نہیں کہ حج کے جانے کےلئے نکاح کرلے اور جب محرم ہے تو حج فرض کےلئے محرم کے ساتھ جائے اگرچہ شوہر اجازت نہ دیتا ہو . نفل اور منت کا حج ہو تو شوہر کو منع کرنے کا اختیار ہے ۔ ( بہارشریعت حصہ 6 حج کا بیان بحوالہ الجوهرتہ النیرہ کتاب الحج)
(3) : حج پر جانے کے زمانے میں عورت عدت میں نہ ہو، وہ عدت وفات کی ہو یا طلاق کی ، بائن کی ہو یا رجعی کی ۔
(4) : قید میں نہ ہو مگر جب کسی حق کی وجہ سے قید میں ہو اور اس کے ادا کرنے پر قادر ہو تو یہ عذر نہیں اور بادشاہ اگر حج کے جانے سے روکتا ہو تو یہ عذر ہے ۔ ( بہارشریعت حصہ 6 بحوالہ درمختار و ردالمحتار کتاب الحج )(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔