اللہ عز و جل کےلیئے خدا کے استعمال کا شرعی حکم
اردو اور فارسی زبان میں لفظ *خدا* اللہ تعالی، معبود، مالک اور آقا کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ (دیکھئے : غیر مقلدین کی معتبر اردو لغت "محمدی اردو لغت" ص429)
بعض لوگ کہتے ہیں کہ : خُدا تو فارسی کا لفظ ہے اور فارسی تو جناب آتش پرستوں کی بھی زُبان ہے لہٰذا توبہ کرو ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تُمہارا خاتمہ بھی آتش پرستوں کیساتھ ہو! عوامُ الناس جب اِس طرح کی باتیں سُنتے ہیں تو سِہم سے جاتے ہیں اور کہتے ہونگے کہ بھئی اپنا ایمان تو خطرے میں تھا اللہ بھلا کرے صاحب کا جن کی بدولت آتش پرستوں کیساتھ خاتمہ ہونے سے بچ گئے ۔
بے شک اللہ کہنا لکھنا ہی سب سے افضل ہے کہ یہ اسم ذات ہے کوئی صفتی اسم اِلہی اسکا مُتبادل نہیں ہوسکتا کیونکہ ہر صفتی نام میں کسی ایک مخصوص صفت کا ذکر ہوتا ہے لیکن اسم اللہ تمام صِفات کا مظہر ہے یا یوں سمجھ لیجئے کہ ہر صفتی اسم اِک خوشنما پھول ہے تو اسم اللہ تمام پھولوں کا حسین گُلدستہ ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ اللہ کریم کو خُدا عزوجل کہنا منع ہے ۔
اللہ تعالیٰ کے لئے لفظ خدا کا استعمال جائز ہے ۔ اور صدیوں سے اکابر دین اس کو استعمال کرتے آئے ہیں۔ اور کبھی کسی نے اس پر نکیر نہیں کی۔ اب کچھ لوگ پیدا ہوئے ہیں جن کے ذہن پر عجمیت کا وہم سوار ہے۔ انہیں بالکل سیدھی سادی چیزوں میں عجمی سازش نظر آتی ہے، یہ ذہن غلام احمد پرویز اور اس کے ہمنواؤں نے پیدا کیا۔ اور بہت سے پڑھے لکھے شعوری وغیر شعوری طور پر اس کا شکار ہوگئے۔ اسی کا شاخسانہ یہ بحث ہے جو آپ نے لکھی ہے۔ عربی میں لفظ رب ،مالک اور صاحب کے معنیٰ میں ہے۔ اسی کا ترجمہ فارسی میں لفظ خدا کے ساتھ کیا گیا ہے۔ چنانچہ جس طرح لفظ رب کا اطلاق بغیر اضافت کے غیر اللہ پر نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح لفظ خدا جب بھی مطلق بولاجائے تو اس کا اطلاق صرف اللہ تعالیٰ پرہوتا ہے۔ کسی دوسرے کو خدا کہنا جائز نہیں۔ غیاث اللغات میں ہے: خدا بالضم بمعنی مالک و صاحب۔ چوں لفظ خدا مطلق باشدبر غیر ذاتِ باری تعالیٰ اطلاق نکند، مگر در صورتیکہ بچیزے مضاف شود، چوں کہ خدا، ودہ خدا۔ ٹھیک یہی مفہوم اور یہی استعمال عربی میں لفظ ربکا ہے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ اللہ تو حق تعالیٰ شانہ کا ذاتی نام ہے۔ جس کا نہ کوئی ترجمہ ہوسکتا ہے نہ کیا جاتاہے۔ دوسرے اسمائے الہٰیہ صفاتی نام ہیں جن کا ترجمہ دوسری زبانوں میں ہوسکتاہے۔ اور ہوتاہے۔ اب اگر اللہ تعالیٰ کے پاک ناموں میں سے کسی بابرکت نام کا ترجمہ غیر عربی میں کردیا جائے۔ اور اہل زبان اس کو استعمال کرنے لگیں تو اس کے جائز نہ ہونے اور اس کے استعمال کے ممنوع ہونے کی آخر کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اور جب لفظ خدا صاحب اور مالک کے معنی میں ہے۔ اور لفظ رب کے مفہوم کی ترجمانی کرتا ہے تو آپ ہی بتائیے کہ اس میں مجوسیت یا عجمیت کا کیا دخل ہوا۔ کیا انگریزی میں لفظ رب کا کوئی ترجمہ نہیں کیا جائیگا ؟ اور کیا اس ترجمہ کا استعمال یہودیت یا نصرانیت بن جائے گا ؟ افسوس ہے کہ لوگ اپنی ناقص معلومات کے بل بوتے پر خود رائی میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ انہیں اسلام کی پوری تاریخ سیاہ نظر آنے لگتی ہے۔ اور وہ چودہ صدیوں کے تمام اکابر کو گمراہ یا کم سے کم فریب خوردہ تصور کرنے لگتے ہیں۔ یہی خودرائی انہیں جہنم کے گڑھے میں دھکیل دیتی ہے۔
اللہ کریم کو خدا کہہ کر پکارنا بالکل جائز ہے اور سبھی علماءَ نے کہا کہ علماء اُمت کا اس پر اجماع بھی ہے لیکن بعض شر پسند عناصر مسلمانوں میں منافرت پھیلانے کیلئے ایسا پروپیگنڈہ کرتے ہیں جو قابل مذمت ہے۔
علامہ غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیہ تبیان القران جلد 3 صفحہ 361 پر بحث کرتے ہوئے رقمطراز ہیں جسکا خلاصہ پیش خدمت ہے کہ ایسے نام سے اللہ کو پکارنا جو اُس کی شان کے زیبا نہ ہو منع ہے جیسے اللہ کے ساتھ میاں کا اضافہ کے یہ لفظ ں انسانوں کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے یا اللہ کیساتھ سائیں کا اضافہ کہ سائیں فقیر کو بھی کہتے ہیں اس لئے اس کا اطلاق ممنوع ہے جبکہ ایسے الفاظ سے اللہ کو پُکارنا جو اُس کی شان کے مطابق ہیں جیسے فارسی میں خدا اور ترکی میں تنکری کہ ان کے معنیٰ میں ابہام نہیں جائز ہیں ۔
بعض لوگ پیش کرتے ہیں : مفہوم “ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ اُنہی میں سے ہوگا قیامت میں اُس کے ساتھ حشر ہوگا ۔ (سنن ابو داود)
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا(علیہ الرحمہ) فتاویٰ رضویہ جلد۸ صفحہ 622 پر ارشاد فرماتے ہیں بحرالرائق ودرمختار و ردالمحتار وغیرہا ملاحظہ ہوں کہ'' بد مذہبوں سے مشابہت اُسی اَمر میں ممنوع ہے جو فی نفسہ شرعاً مذموم یا اس قوم کا شعار خاص یا خود فاعل کو ان سے مشابہت پیدا کرنا مقصود ہو ورنہ زنہار وجہ ممانعت نہیں ۔
سیدی اعلیٰ حضرت نے تشبیہ پر سیر حاصل گفتگو فرمائی ہے جسے آپ جلد نمبر اکیس تا چوبیس میں دیکھ سکتے ہیں جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ جس فعل کو کفار مذہب کا حصہ سمجھ کر رسماً ادا کرتے ہوں مثلا سینے پر زنار باندھنا یا صلیب لٹکانا یا بغل وغیرہ کے بال بڑھانا، مونچھوں کا بہت زیادہ بڑھانا جِس سے کسی بد مذہب کی مُشابِہت پیدا ہو یہ مشابہت ممنوع اور حرام ہے یا یہ کہ کُفار سے مُحبت کی بنا پر اُنکی نقالی کرے۔ نا کہ کسی زبان کے استعمال سے مشابہت لازم آئے گی۔
لیکن محترم قارئین اِن لوگوں نے ایک ایسے مسئلے کو اپنی جانب سے متنازع بنا دیا جو کہ مسئلہ تھا ہی نہیں اور جس پر تمام مسلمانوں کا اجماع بھی ہے۔
اعتراض نمبر 1 : اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ جب ایسے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی جائے تو یہ کہتے ہیں کہ جب اللہ کو خُدا کہہ سکتے ہیں تو رام اور وشنو کہہ کر کیوں نہیں پُکارتے ؟
جواب : رام کے ایک معنی ، نہایت فرماں بردار ، بھی ہیں اور وشنو کے معنی ہِندوؤں کے ہاں چار ہاتھوں والا رب ، بھی ہیں اور یقیناً یہ دونوں معنی مسلمانوں کے عقائد کے خلاف ہیں ۔
اب دیکھتے ہیں کہ خدا کے لغوی معنی کیا ہیں تو خدا کے لغوی معنٰی وہی ہیں جو اللہ کی شان کے مطابق ہیں یعنی مالک، آقا، باکمال، معبود، اور ربّ ۔
اعتراض نمبر 2 : عرب شریف میں نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور مُبارک سے لیکر آج تک اللہ عزوجل کو خُدا نہیں کہا جاتا ۔
جواب : عربی اسقدر وسیع زُبان ہے کہ عربی کے چھ لاکھ الفاظ وہ ہیں جو آج متروک ہوچُکے ہیں صرف اِسی بات سے اِس زُبان کی وُسعت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے لہٰذا یہ کہنا کہ عرب شریف میں فارسی نہیں بولی جاتی تو بھائی اُنہیں کیا ضرورت ہے کہ ایسی وسیع زُبان کے ہوتے ہوئے جہاں صرف ایک جانور کے عربی میں بیس تیس تک نام ہوتے ہیں وہ فارسی کا استعمال کریں جبکہ اردو عربی کے مُقابلے میں ایک محدود الفاظ رکھنے والی زُبان ہے اور لفظ خُدا کو فارسی سے شعری ضرورت کے پیش نظر لیا گیا ہے ناکہ مجوسیوں کی اتباع کی خاطر لہذا دانشمندی کا تقاضہ ہے اپنی ضرورتوں کو سمجھا جائے ۔
اعتراض نمبر 3 : فارسی کا استعمال آتش پرست کرتے رہے ہیں لہٰذا فارسی سے گُریز از بس ضروری ہے ؟
جواب : نبی آخرُالزماں خَتَمُ المرسلین (صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم) کی بِعثت سے قبل مشرکین عرب عربی زُبان کا استعمال کیا کرتے تھے تو کیا ہمارے کریم آقا علیہ السلام نے اس زُبان سے بیزاری کا اظہار کیا؟ جواب ہوگا قطعی نہیں کیا اللہ کریم نے ناپسند فرمایا؟ بالکل نہیں بلکہ اللہ کریم کا کلام اِسی زُبان میں نازل ہوا۔ معلوم ہُوا کہ کہ زُبان تو صرف رابطہ کا ذریعہ ہے ناکہ مذہب کی پہچان!اور آپکو وہ کروڑوں مسلمان کیوں نظر نہیں آتے جو فارسی زُبان استعمال کرتے ہیں ۔
اعتراض نمبر 4 : اصل میں لفظ خُدا فارسی زبان کا لفظ ہے آتش پرستوں کے دو ۲ الٰہ تھے اُن میں ایک کا نام خُدائے یزدان اور دوسرے کا نام خُدائے اہرمن تھا اردو میں معنی ہوگا کہ اچھائی کا خُدا اور بُرائی کا خُدا ۔
جواب : یہی عقیدہ تو مشرکین عرب کا بھی تھا اور وہ بھی اپنے بیشُمار معبودوں کو اِلٰہ کہتے تھے جسکا ذکر جا بَجا قران مجید فُرقان حمید میں موجود ہے حوالے کیلئے دو آیات سورہ الحجر اور سورہ النحل سے پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں۔
الَّذِیۡنَ یَجْعَلُوۡنَ مَعَ اللہِ اِلٰھًا اٰخَرَ ۚ فَسَوْفَ یَعْلَمُوۡنَ ﴿۹۶﴾
جو اللہ کے ساتھ دوسرا معبود ٹھہراتے ہیں تو اب جان جائیں گے (سورۃ الحجر آیت96)
وَقَالَ اللہُ لَا تَتَّخِذُوۡۤا اِلٰـہَیۡنِ اثْنَیۡنِ ۚ اِنَّمَا ہُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ فَاِیَّایَ فَارْہَبُوۡنِ ﴿۵۱﴾
اور اللہ نے فرمایا دو خدا نہ ٹھہراؤ وہ تو ایک ہی معبود ہے تو مجھی سے ڈرو (سورہ النحل آئت51)
اب دیکھئے کہ مشرکین عرب بھی اپنے بیشمار خداؤں کو اِلٰہ کہتے تھے تو اللہ کریم نے لفظِ اِلٰہ کہنے پر پابندی نہیں لگائی بلکہ اپنے محبوب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے یہ تعلیم دی کہ اِلٰہ صرف ایک ہے اور وہ اللہ کریم کی یکتا اور بےمثال ذات ہے اسی طرح ہم یہ تو کہیں گے کہ آتش پرستوں کے دو خُدا کا عقیدہ باطل ہے لیکن خُدا کہنے پر پابندی نہیں لگا سکتے کہ اس کے معنی وہی ہیں جو اِلٰہ کے معنیٰ ہیں
اعتراض نمبر 5 : کیا خُدا کہنے کی کوئی دلیل قرآن سے ثابت ہے ؟
جواب : جی ہاں سورہ الاِسراء آیت نمبر 110 میں اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے
قُلِ ادْعُوا اللہَ اَوِادْعُوا الرَّحْمٰنَ ؕ اَیًّا مَّا تَدْعُوۡا فَلَہُ الۡاَسْمَآءُ الْحُسۡنٰی
تم فرماؤ اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر جو کہہ کر پکارو سب اسی کے اچھے نام ہیں ۔
اللہ کریم نے اِس آیت میں اُنہیں مخاطب کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا ہے جو اللہ کریم کے ناموں میں جھگڑتے ہیں کہ سب اچھے نام اللہ کے ہیں ۔ بس ہمیں بچنا ہے تو ایسے ناموں سے جو مالک حقیقی کے شایانِ شان نہ ہوں اب آئیے اس آیت مبارکہ کا پس منظر بھی دیکھتے ہیں ۔
شانِ نُزول : حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا ایک شب سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طویل سجدہ کیا اور اپنے سجدہ میں یااللہ یا رحمٰن فرماتے رہے ابو جہل نے سنا تو کہنے لگا کہ (حضرت) محمّد مصطفٰی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں تو کئی معبودوں کے پوجنے سے منع کرتے ہیں اور اپنے آپ دو کو پکارتے ہیں اللہ کو اور رحمٰن کو (معاذ اللہ) اس کے جواب میں یہ آیت نازِل ہوئی اور بتایا گیا اللہ اور رحمٰن دو نام ایک ہی معبودِ برحق کے ہیں خواہ کسی نام سے پکارو ۔
یہاں ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ اللہ کریم کے اچھے ناموں پر تنقید کرنا ابوجہل کا طریقہ ہے ناکہ صالحین کا ۔
اعتراض نمبر 6 : یہ جو علمائے کرام اللہ عزوجل کو خُدا کہنے کی اجازت دیتے ہیں یہ اِنکی اپنی ذاتی رائے ہوتی ہے یہ اِذن قرآن و سُنت سے نہیں دیتے؟
جواب : یہ عُلماءِ حق پر سراسر بُہتان ہے کیونکہ کوئی بھی عالم مفتی یا مُحدث قرآن اور سُنت کے منافی فتوٰی صادر نہیں کرتا بلکہ اِنکا ہر فتویٰ قرآن اور سُنت کی ہی روشنی میں ہوتا ہے اسی لئے اِنہیں وارثینِ انبیئا کا لقب مِلا ہے۔ اب یا تو اِن لوگوں کو فارسی زبان سے بغض تھا اُردو سے کینہ تھا یا علماء برصغیر سے بیزاری جو بنا سمجھے کروڑوں مسلمانوں کو بمعہ علماء کرام آتش پرستوں سے مُشابہت کی نوید سُنا کر معاذ اللہ ثمَ معاذ اللہ جہنم کی نوید سُنا ڈالتے ہیں ۔
محترم قارئین کرام ایک حدیث کا مفہوم ہے : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہُ سے مروی ہے کہ رسولِ اقدس علیہ الصلواۃ والسلام کا فرمانِ عبرت نشان ہے فرمایا کہ جس نے بغیر علم کے کوئی فتویٰ دیا تو اُس کا گُناہ فتوٰی دینے والے پر ہوگا اور جس نے جان بوجھ کر اپنے بھائی کو غلط مشورہ دیا تو اُس نے اُس کے ساتھ خیانت کی ۔(سنن ابو داود کتاب العلم باب التوقی فی الفتیا، جلد نمبر 3 صفحہ 449)
لیکن یہاں حال یہ ہے کہ ایک حدیث سُنی کتاب دیکھنے کی نوبت نہیں آتی جو یاد رہا صرف اُسی کو اپنی جانب سے قولِ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بتا کر بیان کر دیا جاتا ہے یا کسی کے نظریہ سے مُتاثر ہو کر کروڑوں مسلمانوں کو کفر کے فتویٰ سے نواز دیا جاتا ہے اور اس طرح مسلمانوں میں انتشار کی کیفیت پیدا کردی جاتی ہے جو قابل مذمت عمل ہے اللہ کریم ہم سب کے ایمان کی حفاظت فرمائے۔ اور ایسے نیم عالم خطرہ ایمان سے بھی محفوظ رکھے میں نے تمام حقائق آپ کے سامنے رکھ دئیے ہیں اور تمام علماء کی رائے بھی اب یہ آپکا فرض ہے کہ ہر ایسے شخص سے ہوشیار رہیں جو مسلمانوں میں تفرقہ بازی کا باعث ہو ۔
اللہ کےلیئے خدا کا استعمال غیر مقلدین کی طرف سے ثبوت
فرقہ اہلحدیث کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری صاحب ایک جگہ اپنا عقیدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:میں *خدا* کی صفت قرب و معیت کو اور اللہ تعالٰی کا آسمانوں اور زمینوں میں ہونا بلا تاویل یقین کرتا ہوں۔(مظالم روپڑی: ص11)
یہی شیخ الاسلام علامہ ثناءاللہ امرتسری قاضی شوکانی صاحب کی ایک عبارت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:میں کہتا ہوں کہ یہ عبارت قاضی شوکانی کی عبارت سے بھی واضح تر ہے مطلب اس کا وہی ہے کہ *خدا تعالٰی* جیسا کہ عرش پر ہے ویسا ہی زمین پر ہے رہا یہ امر کہ کیسے ہے سو یہ سوال کیفیت سے ہے جو حوالہ *بخدا* ہے“۔
(مظالم روپڑی ص 13)
ﻓﺮﻗﮧ ﺍﮨﻞ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﮯ ﺷﯿﺦ ﺍﻟﮑﻞ فی الکل ﻣﯿﺎﮞ سید ﻧﺬﯾﺮ ﺣﺴﯿﻦ ﺻﺎﺣﺐ ﺩﮨﻠﻮﯼ ایک سائل کے جواب میں لکھتے ﮨﯿﮟ:اگر شخص مذکور کا یہ مطلب ہے کہ نفع و ضرر حقیقت میں *خدا* ہی کی جانب سےہوتا ہے، *خدا* کے سوا کسی اور میں یہ طاقت نہیں ہے، کہ کسی کو بغیر *اذن خدا* کے نفع و ضرر پہنچا دے تو یہ عقیدہ بے شک اہل سنت و جماعت کا ہے، اور ایسا ہی عقیدہ ہر مسلمان کو رکھنا چاہیے ۔ (فتاوی نذیریہ: ج1، ص19)
اور یہی ﺷﯿﺦ ﺍﻟﮑﻞ فی الکل ﻣﯿﺎﮞ ﻧﺬﯾﺮ ﺣﺴﯿﻦ ﺻﺎﺣﺐ ﺩﮨﻠﻮﯼ اپنی ایک دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:(میں نے ، راقم) نام اس رسالہ کا "معیار الحق" رکھا *خداوند کریم* اپنے فضل و کرم سے افراط و تفریط اور تعصب مذہب سے محفوظ رکھ کر توفیق جواب دہی باصواب کی عطا فرمادے ۔ (معیارالحق، ص 27، 28)
فرقہ اہلحدیث کے نامور محقق و محدث زبیر علی زئی نے لفظ خدا استعمال کرنے کو نہ صرف جائز لکھا ہے بلکہ آپ فرماتے ہیں کہ: "بعض لوگوں کا لفظ *خدا* کی مخالفت کرنا اجماع کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔" دیکھئے:
(شرح حديث جبريل فی تعليم الدين : ص 145)
اور اس فرقہ اہلحدیث کی معتبر اردو لغت "محمدی اردو لغت" جس میں لفظ "خدا" کا معنی لفظ "اللہ" سے اور لفظ "اللہ" کی جگہ لفظ "خدا" کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے ثبوت کیلئے دیکھئے: صفحہ 58/ اور 429/ وغیرہ ۔
ثناءاللہ امرتسری صاحب نے لفظ *خدا* کا استعمال بہت زیادہ کیا ہے۔ تفصیل کیلئے دیکھئے: تفسیر ثنائی، مظالم روپڑی اور فتاوی ثنائیہ وغیرہ
اسی طرح ﺷﯿﺦ ﺍﻟﮑﻞ فی الکل ﻣﯿﺎﮞ ﻧﺬﯾﺮ ﺣﺴﯿﻦ ﺻﺎﺣﺐ ﺩﮨﻠﻮﯼ نے بھی لفظ *خدا* کا استعمال بکثرت کیا ہے۔ تفصیل کیلئے دیکھئے: فتاوی نذیریہ۔
اللہ تعالیٰ اندھے تعصب سے بچائے اور احکام شرع پر ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اردو اور فارسی زبان میں لفظ *خدا* اللہ تعالی، معبود، مالک اور آقا کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ (دیکھئے : غیر مقلدین کی معتبر اردو لغت "محمدی اردو لغت" ص429)
بعض لوگ کہتے ہیں کہ : خُدا تو فارسی کا لفظ ہے اور فارسی تو جناب آتش پرستوں کی بھی زُبان ہے لہٰذا توبہ کرو ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تُمہارا خاتمہ بھی آتش پرستوں کیساتھ ہو! عوامُ الناس جب اِس طرح کی باتیں سُنتے ہیں تو سِہم سے جاتے ہیں اور کہتے ہونگے کہ بھئی اپنا ایمان تو خطرے میں تھا اللہ بھلا کرے صاحب کا جن کی بدولت آتش پرستوں کیساتھ خاتمہ ہونے سے بچ گئے ۔
بے شک اللہ کہنا لکھنا ہی سب سے افضل ہے کہ یہ اسم ذات ہے کوئی صفتی اسم اِلہی اسکا مُتبادل نہیں ہوسکتا کیونکہ ہر صفتی نام میں کسی ایک مخصوص صفت کا ذکر ہوتا ہے لیکن اسم اللہ تمام صِفات کا مظہر ہے یا یوں سمجھ لیجئے کہ ہر صفتی اسم اِک خوشنما پھول ہے تو اسم اللہ تمام پھولوں کا حسین گُلدستہ ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ اللہ کریم کو خُدا عزوجل کہنا منع ہے ۔
اللہ تعالیٰ کے لئے لفظ خدا کا استعمال جائز ہے ۔ اور صدیوں سے اکابر دین اس کو استعمال کرتے آئے ہیں۔ اور کبھی کسی نے اس پر نکیر نہیں کی۔ اب کچھ لوگ پیدا ہوئے ہیں جن کے ذہن پر عجمیت کا وہم سوار ہے۔ انہیں بالکل سیدھی سادی چیزوں میں عجمی سازش نظر آتی ہے، یہ ذہن غلام احمد پرویز اور اس کے ہمنواؤں نے پیدا کیا۔ اور بہت سے پڑھے لکھے شعوری وغیر شعوری طور پر اس کا شکار ہوگئے۔ اسی کا شاخسانہ یہ بحث ہے جو آپ نے لکھی ہے۔ عربی میں لفظ رب ،مالک اور صاحب کے معنیٰ میں ہے۔ اسی کا ترجمہ فارسی میں لفظ خدا کے ساتھ کیا گیا ہے۔ چنانچہ جس طرح لفظ رب کا اطلاق بغیر اضافت کے غیر اللہ پر نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح لفظ خدا جب بھی مطلق بولاجائے تو اس کا اطلاق صرف اللہ تعالیٰ پرہوتا ہے۔ کسی دوسرے کو خدا کہنا جائز نہیں۔ غیاث اللغات میں ہے: خدا بالضم بمعنی مالک و صاحب۔ چوں لفظ خدا مطلق باشدبر غیر ذاتِ باری تعالیٰ اطلاق نکند، مگر در صورتیکہ بچیزے مضاف شود، چوں کہ خدا، ودہ خدا۔ ٹھیک یہی مفہوم اور یہی استعمال عربی میں لفظ ربکا ہے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ اللہ تو حق تعالیٰ شانہ کا ذاتی نام ہے۔ جس کا نہ کوئی ترجمہ ہوسکتا ہے نہ کیا جاتاہے۔ دوسرے اسمائے الہٰیہ صفاتی نام ہیں جن کا ترجمہ دوسری زبانوں میں ہوسکتاہے۔ اور ہوتاہے۔ اب اگر اللہ تعالیٰ کے پاک ناموں میں سے کسی بابرکت نام کا ترجمہ غیر عربی میں کردیا جائے۔ اور اہل زبان اس کو استعمال کرنے لگیں تو اس کے جائز نہ ہونے اور اس کے استعمال کے ممنوع ہونے کی آخر کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اور جب لفظ خدا صاحب اور مالک کے معنی میں ہے۔ اور لفظ رب کے مفہوم کی ترجمانی کرتا ہے تو آپ ہی بتائیے کہ اس میں مجوسیت یا عجمیت کا کیا دخل ہوا۔ کیا انگریزی میں لفظ رب کا کوئی ترجمہ نہیں کیا جائیگا ؟ اور کیا اس ترجمہ کا استعمال یہودیت یا نصرانیت بن جائے گا ؟ افسوس ہے کہ لوگ اپنی ناقص معلومات کے بل بوتے پر خود رائی میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ انہیں اسلام کی پوری تاریخ سیاہ نظر آنے لگتی ہے۔ اور وہ چودہ صدیوں کے تمام اکابر کو گمراہ یا کم سے کم فریب خوردہ تصور کرنے لگتے ہیں۔ یہی خودرائی انہیں جہنم کے گڑھے میں دھکیل دیتی ہے۔
اللہ کریم کو خدا کہہ کر پکارنا بالکل جائز ہے اور سبھی علماءَ نے کہا کہ علماء اُمت کا اس پر اجماع بھی ہے لیکن بعض شر پسند عناصر مسلمانوں میں منافرت پھیلانے کیلئے ایسا پروپیگنڈہ کرتے ہیں جو قابل مذمت ہے۔
علامہ غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیہ تبیان القران جلد 3 صفحہ 361 پر بحث کرتے ہوئے رقمطراز ہیں جسکا خلاصہ پیش خدمت ہے کہ ایسے نام سے اللہ کو پکارنا جو اُس کی شان کے زیبا نہ ہو منع ہے جیسے اللہ کے ساتھ میاں کا اضافہ کے یہ لفظ ں انسانوں کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے یا اللہ کیساتھ سائیں کا اضافہ کہ سائیں فقیر کو بھی کہتے ہیں اس لئے اس کا اطلاق ممنوع ہے جبکہ ایسے الفاظ سے اللہ کو پُکارنا جو اُس کی شان کے مطابق ہیں جیسے فارسی میں خدا اور ترکی میں تنکری کہ ان کے معنیٰ میں ابہام نہیں جائز ہیں ۔
بعض لوگ پیش کرتے ہیں : مفہوم “ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ اُنہی میں سے ہوگا قیامت میں اُس کے ساتھ حشر ہوگا ۔ (سنن ابو داود)
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا(علیہ الرحمہ) فتاویٰ رضویہ جلد۸ صفحہ 622 پر ارشاد فرماتے ہیں بحرالرائق ودرمختار و ردالمحتار وغیرہا ملاحظہ ہوں کہ'' بد مذہبوں سے مشابہت اُسی اَمر میں ممنوع ہے جو فی نفسہ شرعاً مذموم یا اس قوم کا شعار خاص یا خود فاعل کو ان سے مشابہت پیدا کرنا مقصود ہو ورنہ زنہار وجہ ممانعت نہیں ۔
سیدی اعلیٰ حضرت نے تشبیہ پر سیر حاصل گفتگو فرمائی ہے جسے آپ جلد نمبر اکیس تا چوبیس میں دیکھ سکتے ہیں جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ جس فعل کو کفار مذہب کا حصہ سمجھ کر رسماً ادا کرتے ہوں مثلا سینے پر زنار باندھنا یا صلیب لٹکانا یا بغل وغیرہ کے بال بڑھانا، مونچھوں کا بہت زیادہ بڑھانا جِس سے کسی بد مذہب کی مُشابِہت پیدا ہو یہ مشابہت ممنوع اور حرام ہے یا یہ کہ کُفار سے مُحبت کی بنا پر اُنکی نقالی کرے۔ نا کہ کسی زبان کے استعمال سے مشابہت لازم آئے گی۔
لیکن محترم قارئین اِن لوگوں نے ایک ایسے مسئلے کو اپنی جانب سے متنازع بنا دیا جو کہ مسئلہ تھا ہی نہیں اور جس پر تمام مسلمانوں کا اجماع بھی ہے۔
اعتراض نمبر 1 : اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ جب ایسے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی جائے تو یہ کہتے ہیں کہ جب اللہ کو خُدا کہہ سکتے ہیں تو رام اور وشنو کہہ کر کیوں نہیں پُکارتے ؟
جواب : رام کے ایک معنی ، نہایت فرماں بردار ، بھی ہیں اور وشنو کے معنی ہِندوؤں کے ہاں چار ہاتھوں والا رب ، بھی ہیں اور یقیناً یہ دونوں معنی مسلمانوں کے عقائد کے خلاف ہیں ۔
اب دیکھتے ہیں کہ خدا کے لغوی معنی کیا ہیں تو خدا کے لغوی معنٰی وہی ہیں جو اللہ کی شان کے مطابق ہیں یعنی مالک، آقا، باکمال، معبود، اور ربّ ۔
اعتراض نمبر 2 : عرب شریف میں نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور مُبارک سے لیکر آج تک اللہ عزوجل کو خُدا نہیں کہا جاتا ۔
جواب : عربی اسقدر وسیع زُبان ہے کہ عربی کے چھ لاکھ الفاظ وہ ہیں جو آج متروک ہوچُکے ہیں صرف اِسی بات سے اِس زُبان کی وُسعت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے لہٰذا یہ کہنا کہ عرب شریف میں فارسی نہیں بولی جاتی تو بھائی اُنہیں کیا ضرورت ہے کہ ایسی وسیع زُبان کے ہوتے ہوئے جہاں صرف ایک جانور کے عربی میں بیس تیس تک نام ہوتے ہیں وہ فارسی کا استعمال کریں جبکہ اردو عربی کے مُقابلے میں ایک محدود الفاظ رکھنے والی زُبان ہے اور لفظ خُدا کو فارسی سے شعری ضرورت کے پیش نظر لیا گیا ہے ناکہ مجوسیوں کی اتباع کی خاطر لہذا دانشمندی کا تقاضہ ہے اپنی ضرورتوں کو سمجھا جائے ۔
اعتراض نمبر 3 : فارسی کا استعمال آتش پرست کرتے رہے ہیں لہٰذا فارسی سے گُریز از بس ضروری ہے ؟
جواب : نبی آخرُالزماں خَتَمُ المرسلین (صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم) کی بِعثت سے قبل مشرکین عرب عربی زُبان کا استعمال کیا کرتے تھے تو کیا ہمارے کریم آقا علیہ السلام نے اس زُبان سے بیزاری کا اظہار کیا؟ جواب ہوگا قطعی نہیں کیا اللہ کریم نے ناپسند فرمایا؟ بالکل نہیں بلکہ اللہ کریم کا کلام اِسی زُبان میں نازل ہوا۔ معلوم ہُوا کہ کہ زُبان تو صرف رابطہ کا ذریعہ ہے ناکہ مذہب کی پہچان!اور آپکو وہ کروڑوں مسلمان کیوں نظر نہیں آتے جو فارسی زُبان استعمال کرتے ہیں ۔
اعتراض نمبر 4 : اصل میں لفظ خُدا فارسی زبان کا لفظ ہے آتش پرستوں کے دو ۲ الٰہ تھے اُن میں ایک کا نام خُدائے یزدان اور دوسرے کا نام خُدائے اہرمن تھا اردو میں معنی ہوگا کہ اچھائی کا خُدا اور بُرائی کا خُدا ۔
جواب : یہی عقیدہ تو مشرکین عرب کا بھی تھا اور وہ بھی اپنے بیشُمار معبودوں کو اِلٰہ کہتے تھے جسکا ذکر جا بَجا قران مجید فُرقان حمید میں موجود ہے حوالے کیلئے دو آیات سورہ الحجر اور سورہ النحل سے پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں۔
الَّذِیۡنَ یَجْعَلُوۡنَ مَعَ اللہِ اِلٰھًا اٰخَرَ ۚ فَسَوْفَ یَعْلَمُوۡنَ ﴿۹۶﴾
جو اللہ کے ساتھ دوسرا معبود ٹھہراتے ہیں تو اب جان جائیں گے (سورۃ الحجر آیت96)
وَقَالَ اللہُ لَا تَتَّخِذُوۡۤا اِلٰـہَیۡنِ اثْنَیۡنِ ۚ اِنَّمَا ہُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ فَاِیَّایَ فَارْہَبُوۡنِ ﴿۵۱﴾
اور اللہ نے فرمایا دو خدا نہ ٹھہراؤ وہ تو ایک ہی معبود ہے تو مجھی سے ڈرو (سورہ النحل آئت51)
اب دیکھئے کہ مشرکین عرب بھی اپنے بیشمار خداؤں کو اِلٰہ کہتے تھے تو اللہ کریم نے لفظِ اِلٰہ کہنے پر پابندی نہیں لگائی بلکہ اپنے محبوب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے یہ تعلیم دی کہ اِلٰہ صرف ایک ہے اور وہ اللہ کریم کی یکتا اور بےمثال ذات ہے اسی طرح ہم یہ تو کہیں گے کہ آتش پرستوں کے دو خُدا کا عقیدہ باطل ہے لیکن خُدا کہنے پر پابندی نہیں لگا سکتے کہ اس کے معنی وہی ہیں جو اِلٰہ کے معنیٰ ہیں
اعتراض نمبر 5 : کیا خُدا کہنے کی کوئی دلیل قرآن سے ثابت ہے ؟
جواب : جی ہاں سورہ الاِسراء آیت نمبر 110 میں اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے
قُلِ ادْعُوا اللہَ اَوِادْعُوا الرَّحْمٰنَ ؕ اَیًّا مَّا تَدْعُوۡا فَلَہُ الۡاَسْمَآءُ الْحُسۡنٰی
تم فرماؤ اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر جو کہہ کر پکارو سب اسی کے اچھے نام ہیں ۔
اللہ کریم نے اِس آیت میں اُنہیں مخاطب کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا ہے جو اللہ کریم کے ناموں میں جھگڑتے ہیں کہ سب اچھے نام اللہ کے ہیں ۔ بس ہمیں بچنا ہے تو ایسے ناموں سے جو مالک حقیقی کے شایانِ شان نہ ہوں اب آئیے اس آیت مبارکہ کا پس منظر بھی دیکھتے ہیں ۔
شانِ نُزول : حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا ایک شب سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طویل سجدہ کیا اور اپنے سجدہ میں یااللہ یا رحمٰن فرماتے رہے ابو جہل نے سنا تو کہنے لگا کہ (حضرت) محمّد مصطفٰی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں تو کئی معبودوں کے پوجنے سے منع کرتے ہیں اور اپنے آپ دو کو پکارتے ہیں اللہ کو اور رحمٰن کو (معاذ اللہ) اس کے جواب میں یہ آیت نازِل ہوئی اور بتایا گیا اللہ اور رحمٰن دو نام ایک ہی معبودِ برحق کے ہیں خواہ کسی نام سے پکارو ۔
یہاں ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ اللہ کریم کے اچھے ناموں پر تنقید کرنا ابوجہل کا طریقہ ہے ناکہ صالحین کا ۔
اعتراض نمبر 6 : یہ جو علمائے کرام اللہ عزوجل کو خُدا کہنے کی اجازت دیتے ہیں یہ اِنکی اپنی ذاتی رائے ہوتی ہے یہ اِذن قرآن و سُنت سے نہیں دیتے؟
جواب : یہ عُلماءِ حق پر سراسر بُہتان ہے کیونکہ کوئی بھی عالم مفتی یا مُحدث قرآن اور سُنت کے منافی فتوٰی صادر نہیں کرتا بلکہ اِنکا ہر فتویٰ قرآن اور سُنت کی ہی روشنی میں ہوتا ہے اسی لئے اِنہیں وارثینِ انبیئا کا لقب مِلا ہے۔ اب یا تو اِن لوگوں کو فارسی زبان سے بغض تھا اُردو سے کینہ تھا یا علماء برصغیر سے بیزاری جو بنا سمجھے کروڑوں مسلمانوں کو بمعہ علماء کرام آتش پرستوں سے مُشابہت کی نوید سُنا کر معاذ اللہ ثمَ معاذ اللہ جہنم کی نوید سُنا ڈالتے ہیں ۔
محترم قارئین کرام ایک حدیث کا مفہوم ہے : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہُ سے مروی ہے کہ رسولِ اقدس علیہ الصلواۃ والسلام کا فرمانِ عبرت نشان ہے فرمایا کہ جس نے بغیر علم کے کوئی فتویٰ دیا تو اُس کا گُناہ فتوٰی دینے والے پر ہوگا اور جس نے جان بوجھ کر اپنے بھائی کو غلط مشورہ دیا تو اُس نے اُس کے ساتھ خیانت کی ۔(سنن ابو داود کتاب العلم باب التوقی فی الفتیا، جلد نمبر 3 صفحہ 449)
لیکن یہاں حال یہ ہے کہ ایک حدیث سُنی کتاب دیکھنے کی نوبت نہیں آتی جو یاد رہا صرف اُسی کو اپنی جانب سے قولِ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بتا کر بیان کر دیا جاتا ہے یا کسی کے نظریہ سے مُتاثر ہو کر کروڑوں مسلمانوں کو کفر کے فتویٰ سے نواز دیا جاتا ہے اور اس طرح مسلمانوں میں انتشار کی کیفیت پیدا کردی جاتی ہے جو قابل مذمت عمل ہے اللہ کریم ہم سب کے ایمان کی حفاظت فرمائے۔ اور ایسے نیم عالم خطرہ ایمان سے بھی محفوظ رکھے میں نے تمام حقائق آپ کے سامنے رکھ دئیے ہیں اور تمام علماء کی رائے بھی اب یہ آپکا فرض ہے کہ ہر ایسے شخص سے ہوشیار رہیں جو مسلمانوں میں تفرقہ بازی کا باعث ہو ۔
اللہ کےلیئے خدا کا استعمال غیر مقلدین کی طرف سے ثبوت
فرقہ اہلحدیث کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری صاحب ایک جگہ اپنا عقیدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:میں *خدا* کی صفت قرب و معیت کو اور اللہ تعالٰی کا آسمانوں اور زمینوں میں ہونا بلا تاویل یقین کرتا ہوں۔(مظالم روپڑی: ص11)
یہی شیخ الاسلام علامہ ثناءاللہ امرتسری قاضی شوکانی صاحب کی ایک عبارت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:میں کہتا ہوں کہ یہ عبارت قاضی شوکانی کی عبارت سے بھی واضح تر ہے مطلب اس کا وہی ہے کہ *خدا تعالٰی* جیسا کہ عرش پر ہے ویسا ہی زمین پر ہے رہا یہ امر کہ کیسے ہے سو یہ سوال کیفیت سے ہے جو حوالہ *بخدا* ہے“۔
(مظالم روپڑی ص 13)
ﻓﺮﻗﮧ ﺍﮨﻞ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﮯ ﺷﯿﺦ ﺍﻟﮑﻞ فی الکل ﻣﯿﺎﮞ سید ﻧﺬﯾﺮ ﺣﺴﯿﻦ ﺻﺎﺣﺐ ﺩﮨﻠﻮﯼ ایک سائل کے جواب میں لکھتے ﮨﯿﮟ:اگر شخص مذکور کا یہ مطلب ہے کہ نفع و ضرر حقیقت میں *خدا* ہی کی جانب سےہوتا ہے، *خدا* کے سوا کسی اور میں یہ طاقت نہیں ہے، کہ کسی کو بغیر *اذن خدا* کے نفع و ضرر پہنچا دے تو یہ عقیدہ بے شک اہل سنت و جماعت کا ہے، اور ایسا ہی عقیدہ ہر مسلمان کو رکھنا چاہیے ۔ (فتاوی نذیریہ: ج1، ص19)
اور یہی ﺷﯿﺦ ﺍﻟﮑﻞ فی الکل ﻣﯿﺎﮞ ﻧﺬﯾﺮ ﺣﺴﯿﻦ ﺻﺎﺣﺐ ﺩﮨﻠﻮﯼ اپنی ایک دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:(میں نے ، راقم) نام اس رسالہ کا "معیار الحق" رکھا *خداوند کریم* اپنے فضل و کرم سے افراط و تفریط اور تعصب مذہب سے محفوظ رکھ کر توفیق جواب دہی باصواب کی عطا فرمادے ۔ (معیارالحق، ص 27، 28)
فرقہ اہلحدیث کے نامور محقق و محدث زبیر علی زئی نے لفظ خدا استعمال کرنے کو نہ صرف جائز لکھا ہے بلکہ آپ فرماتے ہیں کہ: "بعض لوگوں کا لفظ *خدا* کی مخالفت کرنا اجماع کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔" دیکھئے:
(شرح حديث جبريل فی تعليم الدين : ص 145)
اور اس فرقہ اہلحدیث کی معتبر اردو لغت "محمدی اردو لغت" جس میں لفظ "خدا" کا معنی لفظ "اللہ" سے اور لفظ "اللہ" کی جگہ لفظ "خدا" کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے ثبوت کیلئے دیکھئے: صفحہ 58/ اور 429/ وغیرہ ۔
ثناءاللہ امرتسری صاحب نے لفظ *خدا* کا استعمال بہت زیادہ کیا ہے۔ تفصیل کیلئے دیکھئے: تفسیر ثنائی، مظالم روپڑی اور فتاوی ثنائیہ وغیرہ
اسی طرح ﺷﯿﺦ ﺍﻟﮑﻞ فی الکل ﻣﯿﺎﮞ ﻧﺬﯾﺮ ﺣﺴﯿﻦ ﺻﺎﺣﺐ ﺩﮨﻠﻮﯼ نے بھی لفظ *خدا* کا استعمال بکثرت کیا ہے۔ تفصیل کیلئے دیکھئے: فتاوی نذیریہ۔
اللہ تعالیٰ اندھے تعصب سے بچائے اور احکام شرع پر ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment