Monday, 14 August 2017

بغیر اذن ولی غیر کفو سے نکاح اور مسلہ کفو حصّہ سوم

بغیر اذن ولی غیر کفو سے نکاح اور مسلہ کفو حصّہ سوم

قرآن و حدیث اور لغت عرب میں لفظ سید، ایک اعزازی لفظ ہے جو مسلم ہو یا غیرمسلم، سردار کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ہماری عام بول چال میں جناب، Sir، ہندی میں شری، وغیرہ۔

چنانچہ قرآن کریم حدیث پاک اور لغت عرب، قدیم و جدید میں، یہ لفظ جس طرح اللہ کے نیک بندوں کیلئے استعمال ہوتا ہے اور ہوا ہے۔ اسی طرح غیر مسلم زعماء کیلئے بھی استعمال ہوا اور ہوتا ہے۔ ظاہر ہے لفظ سرداری جس طرح مال و دولت و عہدہ دنیا کی خبر دیتا ہے اسی طرح روحانی، ایمانی و اخروی سرداری پر بھی دلالت کرتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ قیامت کے دن مجرم و منکر عوام، اللہ تعالیٰ کے حضور بطور شکوہ معذرت کہیں گے : وَقَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَآءَ نَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِيْلَا رَبَّنَآ اٰتِهمْ ضِعْفَيْنَ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهمْ لَعْنًا کَبِيْرًا ۔
ترجمہ : اور وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! بے شک ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کا کہا مانا تھا تو انہوں نے ہمیں (سیدھی) راہ سے بہکا دیا۔ اے ہمارے رب! انہیں دوگنا عذاب دے اور اُن پر بہت بڑی لعنت کر۔ (الاحزاب، 33: 6867)

نکاح میں کفو کی حیثیت : اسلام نے نکاح کا مقصد محبت و الفت بتایا ہے ۔ لہٰذا نکاح کرتے وقت چند امور کو پیش نظر رکھنے کی ہدایت فرمائی۔ جس سے میاں بیوی میں جہاں تک ممکن ہو محبت، یگانگت اور ہمدردی پیدا کر دی جائے تو جو رشتہ ازدواج کی پائیداری کا سبب ہو۔ میاں بیوی میں اتحاد و اتفاق ہو۔ اور وہ پرسکون زندگی بسر کر سکیں۔یہ بنیادی بات ہے اسلام نے یہ حق ہر مرد اور عورت کو دیا ہے لہٰذا کسی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی پر اپنی مرضی مسلط کرے یہاں تک کہ باپ، دادا کو بھی جبر کا اختیار نہیں ۔ ولا يجوز للولي اِجبار البکر البالغة علی النکاح .
ترجمہ : کنواری (خواہ بیوہ یا مطلقہ) بالغ لڑکی کا زبردستی نکاح کرنے کا، اس کے ولی کو (بھی) اختیار نہیں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

ينعقد نکاح الحرة العاقلة البالغة برضائها واِن لم يعقد عليها ولی ۔
ترجمہ : ہر آزاد، عقل مند بالغ لڑکی ولی کی اجازت کے بغیر بھی نکاح کرے تو نکاح ہو جاتا ہے۔

وجه الجواز انها تصرفت في خالص حقها وهي من اهله لکونها عاقلة مميزة ولهذا کان لها التصرف في المال ولها اختيار الازواج… ثم في ظهر الرواية لا فرق بين الکفء و غير الکفء ولکن للولي الاعتراض في غير الکفئ.
ترجمہ : جائز ہونے کی وجہ یہ ہے کہ عورت نے (اپنی پسند کا نکاح کر کے) خالص اپنے حق میں تصرف کیا ہے اور وہ اختیار ہے کیونکہ عقل مند اور برے بھلے میں تمیز کر سکتی ہے، اسی وجہ سے وہ اپنے مال میں تصرف کا حق رکھتی ہے۔ اور اسے شادی کرنے کا اختیار ہے۔۔۔ پھر ظاہر روایت میں یہ ہے کہ نکاح کے جواز میں کوئی فرق نہیں کفو میں ہویا غیر کفو میں ہو یا غیر کفو میں، ہاں غیر کفو میں کرے تو ولی کو اعتراض کا حق پہنچتا ہے ۔(الهداية، 1: 196، المکتبة الاِسلامية)

تنقیح مسئلہ : عام علماء نے فرمایا لزوم نکاح کے لیئے کفۃ، شرط ہے کہ اس کے بغیر نکاح لازم نہیں ہوتا امام کرخی رحمہ اﷲ امام مالک، سفیان ثوری رحمہ اﷲ اور حسن بصری رحمہ اﷲ نے فرمایا کفاء لزوم نکاح کے لئے شرط نہیں۔ ان حضرات کی دلیل یہ ہے ۔ عَنْ ابِي هرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وسلم إِذَا خَطَبَ إِلَيْکُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَه وَخُلُقَه فَزَوِّجُوه إِلَّا تَفْعَلُوا تَکُنْ فِتْنَةٌ فِي الْارْضِ وَفَسَادٌ عَرِيضٌ.
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تمہیں ایسا شخص نکاح کا پیغام دے جس کا دین و اخلاق تمہیں پسند ہو تو اس سے نکاح کر دو، اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین میں بہت بڑا فتنہ بپا ہو گا۔(ترمذي، السنن، 3: 394، رقم: 1084، دار احياء التراث العربي، بيروت)(ابن ماجه، السنن، 1: 632، رقم: 1967، دار الفکر بيروت)0حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 2: 179، رقم: 2695، دار الکتب العلمية بيروت)

اسی طرح ایک دن حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انصار کے بعض قبائل سے رشتہ مانگا تو انہوں نے انکار کر دیا، اس پر حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال سے فرمایا، ان سے کہو کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ مجھے رشتہ دو۔

اسی طرح رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ليس لعربی علی عجمی فضل الا بالتقوی.ترجمہ:تقوی کے سوا کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں۔

نیز کفو کا اعتبار ضروری ہوتا تو خون میں ہوتا ادنیٰ مقتول کے قصاص میں اعلیٰ ذات کا قاتل، قتل نہ کیا جاتا تو جب خون میں کفو کا اعتبار نہیں تو نکاح میں کیوں؟ احناف اور دیگر جن ائمہ نے کفو کا اعتبار کیا ہے انہوں نے بھی کبھی کہیں یہ نہیں فرمایا کہ غیر کفو میں نکاح نہیں ہوتا، بلکہ یہ فرمایا کہ بالغ لڑکی غیر کفو میں نکاح کرلے اور باپ یا دادے سے اجازت نہ لے تو ان حضرات کا حق ہے اور وہ قاضی کے پاس تنسیخ نکاح کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ اگر نکاح ہی نہ ہوتا تو اعتراض کس کا؟ اور تنسیخ کس کی؟۔(بدائع الصنائع، 2: 317)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

باپ یا دادے کی اجازت سے تو غیر کفو میں نکاح ناجائز ہونے کا کسی نے قول ہی نہیں کیا۔ سب کے نزدیک جائز ہے۔ جیسا کہ ہدایہ کے حوالے سے گذرا۔

وہ اسلام جس نے قبائل و اقوام کو ذریعہ فضیلت کا تعارف بتایا۔ اس کانام لے کے اتنی غلط بات کرنی، اور اس پر اصرار کرنا، اور مساوات اسلامی کے اصول بتانے پر کوئی ناراض ہو تو اس کی مرضی اﷲ و رسول کو ناراض کرکے، ہم کسی کو راضی نہیں کر سکتے۔

قرآن مجید کی روشنی میں : جن عورتوں سے شرعاً نکاح حرام ہے ان کو قرآن و حدیث میں تفصیل سے ذکر کر دیا گیا ہے: ارشاد ہوا : حُرِّمَتْ عَلَيْکُمْ اُمَّهتُکُمْ وَبَنٰـتُکُمْ وَاَخَوٰتُکُمْ وَعَمّٰتُکُمْ وَخٰلٰـتُکُمْ وَبَنٰتُ الْاَخِ وَبَنٰتُ الْاُخْتِ وَاُمَّهتُکُمُ الّٰتِيْ اَرْضَعْنَکُمْ وَاَخَوٰتُکُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَاُمَّهتُ نِسَآئِکُمْ وَرَبَآئِبُکُمُ الّٰتِيْ فِيْ حُجُوْرِکُمْ مِّنْ نِّسَآئِکُمُ الّٰتِيْ دَخَلْتُمْ بِهنّ َز فَاِنْ لَّمْ تَکُوْنُوْا دخَلْتُمْ بِهنَّ فَـلَا جُنَاحَ عَلَيْکُمْ ز وَحَـلَآئِلُ اَبْـنَـآئِکُمُ الَّذِيْنَ مِنْ اَصْلَابِکُمْ لا وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَيْنَ الْاُخْتَيْنِ اِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ ط اِنَّ اﷲَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا وَّالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآئِ اِلَّا مَا مَلَکَتْ يْمَانُکُمْ ج کِتٰبَ اﷲِ عَلَيْکُمْ ج وَاُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآئَ ذٰلِکُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ مُّحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ ط فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهنَّ فَـٰاتُوْهنَّ اُجُوْرَهنَّ فَرِيْضَةط وَلَا جُنَاحَ عَلَيْکُمْ فِيْمَا تَرَاضَيْتُمْ بِهٖ مِنْ مبَعْدِ الْفَرِيْضَةط اِنَّ اﷲَ کَانَ عَلِيْمًا حَکِيْمًا.
ترجمہ : تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری (وہ) مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری رضاعت میں شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں (سب) حرام کر دی گئی ہیں اور (اسی طرح) تمہاری گود میں پرورش پانے والی وہ لڑکیاں جو تمہاری ان عورتوں (کے بطن) سے ہیں جن سے تم صحبت کر چکے ہو (بھی حرام ہیں) پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو تم پر (ان کی لڑکیوں سے نکاح کرنے میں) کوئی حرج نہیں اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں (بھی تم پر حرام ہیں) جو تمہاری پشت سے ہیں اور یہ (بھی حرام ہے) کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ (نکاح میں) جمع کرو سوائے اس کے کہ جو دورِ جہالت میں گزر چکا۔ بے شک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ اور شوہر والی عورتیں (بھی تم پرحرام ہیں) سوائے ان (جنگی قیدی عورتوں) کے جو تمہاری مِلک میں آجائیں، (ان احکامِ حرمت کو) اللہ نے تم پر فرض کر دیا ہے، اور ان کے سوا (سب عورتیں) تمہارے لیے حلال کر دی گئی ہیں تاکہ تم اپنے اموال کے ذریعے طلبِ نکاح کرو پاکدامن رہتے ہوئے نہ کہ شہوت رانی کرتے ہوئے، پھر ان میں سے جن سے تم نے اس (مال) کے عوض فائدہ اٹھایا ہے انہیں ان کا مقرر شدہ مَہر ادا کر دو، اور تم پر اس مال کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جس پر تم مَہر مقرر کرنے کے بعد باہم رضا مند ہو جاؤ، بے شک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے ۔
(سورۃ النساء، 4: 23، 24)

یہ ہے فہرست ان عورتوں کی جن سے نکاح حرام ہے یہ قرآن کریم کی سورہ نساء کی آیت نمبر23 اور نمبر 24 کا ابتدائی حصہ ہے۔اس فہرست کو بار بار پڑھیں اور دیکھیں کہیں ایک برادری کو دوسری برادری پر حرام ہونا ثابت ہے؟ نہ قرآن میں نہ حدیث میں نہ فقہ میں کہیں بھی منع نہیں ہے۔

یہ بھی یاد رکھیں کہ ہاشمی، قریشی، علوی اموی، پٹھان وغیرہ قومیں ہیں اور قوم و قبیلہ اﷲتعالیٰ نے محض تعارف یعنی باہمی جان پہچان کے لئے بنائے ہیں۔ عزت و عظمت کا دارومدار تقوی پر ہے۔ عقیدہ و عمل پر ہے۔ قوم و قبیلہ پر نہیں۔ قریش ہاشمی مکی عربی ابو جہل و ابو لہب اور ان جیسوں سے ہزار ہا درجہ افضل ہیں حبشہ کے بلال، روم کے صہیب ایران کے سلمان اور کروڑوں ہندی، سندھی، سوڈانی، صومالوی، افغانی وغیرہ وغیرہ۔

خلاصہ کلام : قرآن و حدیث میں سید کو غیر سید کے ساتھ نکاح منع نہیں کیا گیا۔ جو ایسا کوئی دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہے۔ اس سے قرآن و حدیث کی صریح نص کا مطالبہ کرو! جیسا ہم نے نصوص نقل کیں۔ ان نصوص کے مقابلہ میں کسی کی ذاتی رائے قابل قبول نہیں ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

سید کا معنی و مفہوم

اسلام نے قوم و قبیلہ کی جاہلانہ حیثیت کو ختم کیا ہے۔ جس کی روح سے بعض قومیں اعلی اور بعض ادنی سمجھی جاتی ہیں۔ اور اب جاہلیت جدیدہ میں بھی سمجھی جاتی ہیں۔ قرآن نے واضح کیا کہ قوم قبیلہ، ذات برادری، محض جان پہچان کا ذریعہ ہیں۔فرمان باری تعالی ہے : يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ۔
ترجمہ : اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے ۔

اسلام کی نظر میں عزت و ذلت، بڑا اور چھوٹا ہونے کا مدار ایمان و کردار پر ہے۔ حسب و نسب پر نہیں۔

دین کی نظر میں گھٹیا کمیں وہ شخص نہیں جو ایمان و عمل میں پختہ ہے، باکردار ہو، صاحب علم و تقوی ہے، بہت اعلی ہے، بزرگ تر ہے۔اور اگر ہاشمی، قریشی، مکی، مدنی ہے، ایمان عمل و صالح سے محروم ہے۔ جتنا چاہے بڑا بنتا پھرے اللہ کے نزدیک پرکاہ کے برابر عتبہ، شیبہ، ولید، ہاشمی و قریشی ہو کر بھی ذلیل تر حقیر تر، کمین تر ہیں۔ فریق اول کے رنگ، نسل، زبان ان کی عزت وعظمت کے آڑے آئے۔ اور فریق ثانی کی خاندانی شرافت و نجابت ان کو عزت سے ہمکنار نہ کر سکی۔ اور وہ نیکی سے محروم ہو کر "شر الدواب" ہی رہے۔ (بد ترین چوپائے)

نمبر (1) خوب سمجھ لیں کہ ذات، قوم، قبیلہ صرف تعارف یعنی باہمی جان پہچان کا ذریعہ ہے۔ کسی ذات سے ہو جانا نہ تو عزت و عظمت کی سند ہے نہ کسی دوسرے قبیلہ میں جنم لینا ذلت و حقارت کی علامت۔

نمبر (2) قرآن و حدیث اور لغت عرب میں سید، ایک اعزازی لفظ ہے۔ جو مسلم ہو یا غیر مسلم، سردار کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ہماری عام بول چال میں جناب، Sir، ہندی میں شری وغیرہ۔ چنانچہ قرآن کریم حدیث پاک اور لغت عرب، قدیم و جدید میں، یہ لفظ جس طرح اللہ کے نیک بندوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور ہوا ہے۔ اسی طرح غیر مسلم زعماء کے لیے بھی استعمال ہوا اور ہوتا ہے۔ ظاہر ہے لفظ سرداری جس طرح مال و دولت و عہدہ دنیا کی خبر دیتا ہے اسی طرح روحانی، ایمانی و اخروی سرداری پر بھی دلالت کرتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ قیامت کے دن مجرم و منکر عوام، اللہ تعالی کے حضور بطور شکوہ و معذرت کہیں گے ۔ وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَاoرَبَّنَا آتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيرًا ۔
ترجمہ : اور وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! بیشک ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کا کہا مانا تھا تو انہوں نے ہمیں (سیدھی) راہ سے بہکا دیاo اے ہمارے رب! انہیں دوگنا عذاب دے اور اُن پر بہت بڑی لعنت کر ۔

سید کا معنی : السيد الذی فاق غيره بالعقل و المال و لدفع و لنفع، المعطی له فی حقوقه، المعين بنفسه، السيادة الشرف، السيد الرئيس....الذی لا يغلبه غضبه.....العابد..... الورع الحليم... سمی سيد لانة يسود سواد الناس... السيد الکريم... السيد الملک.... السيد السخی ساده. ترجمہ : سید وہ جو دوسروں پر عقل و مال کے حساب سے، تکلیف دور کرنے اور فائدہ پہنچانے کے لحاظ سے فائق ہو، دوسروں کو حقوق دینے والا ہو۔ اپنی ذات سے مدد کرے سیادت کا معنی ہے بزرگی، سید، رئیس۔۔۔ سید وہ جس پر غصہ غالب نہ ہو۔ عبادت گزار، پرہیزگار، برداشت کرنے والا۔ اس کو سید اس لیے کہا جاتا ہے کہ لوگوں کی جماعت میں فائق ہوتا ہے۔ سید کریم، سید بادشاہ، سید سخی، اس کی جمع سادۃ ہے۔
(سيد مرتضی حسين زبيدی مصری، تاج العروس، شرح القاموس، 2 : 384)

السيد الرب، المالک، الفاضل، الکريم، الحليم محتمل اذی قومه، الزوج، الرئيس، المقدم
ترجمہ : سید کا مطلب ہے پالنے والا، مالک، صاحب شرف، صاحب فضیلت، کریم، بردبار قوم کی تکلیف برداشت کرنے والا، خاوند، رئیس سب سے آگے رہنے والا۔
(علامه ابن منظور، لسان العرب، 6 : 422، طبع بيروت)

السيد المتولی للسوادای الجامعة الکثيره..... قيل لکل من کان فاضلا فی نفسه سيد..... سمی الزوج سيد لسياسة زوجته وقوله ربنا نا اطعنا سادتنا، ای ولاتنا و سائسينا
(ابو القاسم حسين بن محمد المعروف بالراغب الاصفهانی، مفردات، ص 247 طبع جديد)

قرآن سنت یا لغت عرب میں سید قوم کہیں بھی ثابت نہیں۔ بلکہ محض تعظیم و تکریم کے طور پر لفظ استعمال ہوتا ہے۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...