شفاعت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم (حصّہ دوم)
حضرت مازن رضی اللہ عنہٗ بن العضوب جب مسلمان ہو کر آئے تو انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے شفاعت طلب کی اور یہ اشعار پڑھے۔
تشع لی یا خیر وطئ العصا
فیغفر لی ربی فارجع بالفتح
ترجمہ: تاکہ آپ میرے لیے شفاعت کریں‘ اے بہترین ذات جو کنکریوں پر چلنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔ سو میرا رب مجھے معاف کر دے تاکہ میں کامیاب لوٹ جاؤں۔ (دلائل النبوۃ لابی نعیم)
جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان 70 ہزار لوگوں کا ذکر فرمایا جو حساب کے بغیر جنت میں داخل ہوں گے تو حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہٗ نے عرض کیا’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آپ اللہ پاک سے میرے لیے دعا فرمائیں کہ اللہ پاک مجھے بھی ان میں شامل فرما لے‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فوراً بغیر توقف کے فرمایا ’’انت منھم‘‘ کہ تم انہی لوگوں میں سے ہو۔ (جامع ترمذی)
ان تمام روایات سے بڑھ کر وہ احادیث مبارکہ ہیں جن میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود اس بات کا اعلان کیا ہے کہ وہ قیامت کے روز نہ صرف اپنی تمام اُمت کے گنہگاروں کی شفاعت کروائیں گے بلکہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی بھی شفاعت کرائیں گے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں؛
قیامت کے دن تمام نبیوں کا امام میں ہوں گا۔ انہیں خطبہ دوں گا‘ ان کی شفاعت میں کروں گا اور فخر نہیں کرتا۔ (جامع ترمذی‘ سنن ابن ماجہ)
سب سے پہلے جنت کی شفاعت میں کروں گا‘ کسی نبی کی اس قدر تصدیق نہیں کی گئی جس قدر میری کی گئی ہے۔ (صحیح مسلم)
روزِ حشر جب تمام لوگ نااُمید ہوجائیں گے تو ان کو بشارت کی نوید میں سناؤں گا۔ (جامع ترمذی)
حضرت جابر رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’بے شک میری شفاعت میری اُمت کے کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لیے ہے۔ (ابن ماجہ)
حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہٗ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:’’ مجھے اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا کہ میری آدھی اُمت کو جنت میں داخل کر دے یا میں شفاعت کروں۔ میں نے شفاعت کو اختیار کر لیا اور یہ شفاعت ہر اس مسلمان کے لیے ہے جو شرک پر نہیں مرے گا۔‘‘ (جامع ترمذی۔ سنن ابن ماجہ۔ مسند احمد بن حنبل۔ حاکم۔ طبرانی۔ البیہقی)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آدھی اُمت کو جنت میں داخل کروانے کی بجائے شفاعت کو اس لیے قبول فرمایا کیونکہ انہیں اس بات کا سو فیصد یقین تھا کہ اللہ ان کی شفاعت کو ضرور قبول فرمائے گا اور اس طرح آدھی کی بجائے پوری اُمت جنت میں داخل ہو جائے گی۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’(قیامت کے دن) تمام انبیاء علیہم السلام کے لیے سونے کے منبر بچھائے جائیں گے۔ وہ ان پر بیٹھیں گے اور میرا منبر خالی رہے گا۔ میں اس پر نہ بیٹھوں گا بلکہ اپنے ربّ کریم کے حضور کھڑا رہوں گا اس ڈر سے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھے جنت میں بھیج دیا جائے اور میری اُمت میرے بعد کہیں بے یارومددگار رہ جائے۔ اس لیے عرض کروں گا اے میرے رب! ’’میری اُمت‘ میری اُمت‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آپ کی کیا مرضی ہے۔ آپ کی اُمت کے ساتھ کیا سلوک کروں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں’’میں عرض کروں گا اے میرے ربّ ان کا حساب جلد فرما دے۔‘‘ بس ان کو بلایا جائے گا اور ان کا حساب ہوگا۔ کچھ ان میں سے اللہ کی رحمت سے جنت میں داخل ہوں گے اور کچھ میری شفاعت سے‘ میں شفاعت کرتا رہوں گا۔ یہاں تک کہ میں ان کی رہائی کا پروانہ بھی حاصل کرلوں گا جنہیں دوزخ میں بھیجا جاچکا ہوگا۔ یہاں تک کہ مالک داروغہ جہنم عرض کرے گا۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آپ نے اپنی اُمت میں سے کوئی بھی جہنم کی آگ میں نہیں چھوڑا کہ جس پر اللہ رب العزت ناراض ہو۔ (حاکم)
ایک اور مقام پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’قیامت کے روز تین گروہ شفاعت کریں گے‘ انبیاء علیہم السلام پھر علماء (حق) پھر شہداء‘‘ (ابن ماجہ)۔ اور ہمارے آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مقام تمام انبیاء علماء اور شہداء سے بڑھ کر ہے۔ چنانچہ سب سے زیادہ ان کی شفاعت اللہ کے ہاں مقبول و منظور ہوگی۔
تمام انبیاء علیہم السلام نے اپنی اپنی اُمت کے حق میں اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعا کی جن کی گواہی خود قرآن پاک دیتا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے دعا فرمائی۔
ترجمہ: اے میرے پروردگار مجھ کو بخش دے اور میرے والدین کو اور ان کو جو میرے گھر میں ایمان کی حالت میں داخل ہوئے اور تمام ایماندار مردوں اور عورتوں کو۔‘‘ (سورہ نوح: 28)
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا فرمائی ’’اے ہمارے ربّ مجھے بخش دے اور میرے والدین کو اور دیگر سب مومنوں کو بھی‘ جس دن حساب قائم ہوگا۔‘‘ (سورۃ ابراہیم: 41)
حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا ’’میں عنقریب تمہارے لیے اپنے رب سے بخشش طلب کروں گا بے شک وہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘ (یوسف: 98)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ’’اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے (ہی) بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے۔‘‘ (المائدہ: 118)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
قرآن کریم میں انبیاء کرام علیہم السلام کی ان تمام دعاؤں کا تذکرہ کرکے‘ جن میں انہوں نے اپنی اپنی اُمت کے ایمان والوں کے لیے بخشش طلب کر کے ان کی شفاعت کی ہے‘ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کا اپنی اُمت کے حق میں شفاعت طلب کرنا بالکل جائز اور حق قرار دیا ہے۔ اگر دیگر انبیاء کا اپنی اُمت کے لیے بخشش طلب کرنا جائز اور حق ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے کیوں نہیں اور کیا اگر وہ اپنی اُمت کے لیے بخشش طلب کریں گے تو اللہ، جس نے انہیں ہر حال میں راضی کرنے کا وعدہ کیا ہے، ان کی دعا قبول نہ فرمائے گا؟
آیات اور احادیث کی رو سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حقِ شفاعت ثابت ہونے کے باوجود اُمت کا ایک گروہ اس بات سے بالکل انکاری ہے کہ اللہ تعالیٰ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شفاعت سے گنہگارانِ اُمت کو بخش دے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حقِ شفاعت بس اتنا ہی ہے کہ روزِ حشر جب سورج سوا نیزے پر ہوگا اور تمام اُمتی اس شدید گرمی میں حساب کے انتظار میں بیٹھے ہوں گے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ سے سفارش کریں گے کہ اے اللہ حساب جلد شروع کردے۔ ان کے کہنے پر اللہ حساب شروع کر دے گا اور بس شفاعت سے اس کے سوا کچھ اور مراد نہیں۔ واللہ !ایسے لوگوں کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ کیا اللہ کے ہاں اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا مقام اتنا ہی ہے؟ اسی محبوب کے کہنے پر اللہ تعالیٰ نے شب معراج فرض نمازوں کی تعداد 50 سے کم کر کے پانچ کردی۔ روزے بھی کم کر کے صرف 30 کر دیئے۔ اسی محبوب کی خوشی کی خاطر قبلہ کا رخ بیت المقدس سے تبدیل کر کے کعبہ کی طرف کر دیا۔ اس محبوب کے چاہنے والوں کی خاطر اپنے اصولِ قدرت بدل دیئے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہٗ کے فجر کی اذان نہ دینے پر سورج ہی طلوع نہ ہوا‘ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی نمازِ عصر قضا ہو جانے پر سورج کو الٹا پھر جانے کا حکم دیا‘ اس محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عظمت روزِ قیامت بس اتنی ہی ہوگی ،مقامِ محمود بس اتنا ہی ہوگا؟
اس گروہ کا کہنا ہے کہ ہر انسان روزِ قیامت صرف اور صرف اپنے اعمال کی بنیاد پر بخشا جائے گا۔ بے شک اعمال بہت اہم ہیں لیکن اگر اعمال ہی ہر چیز سے اہم ہیں تو اللہ کی رحمت اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رحمت اللعالمینی اور ان کے اُمتی ہونے کی فضیلت کیا ہوئی۔اس بات کی دلیل کے طور پر وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وہ حدیث مبارکہ پیش کرتے ہیں جس میں انہوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ اگر ان کے اعمال نیک نہ ہوئے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شفاعت بھی انہیں کوئی نفع نہ دے پائے گی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ نصیحت یقیناًاُمت کو نیک اعمال کی ترغیب دینے کے لیے تھی تاکہ اُمت صرف شفاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر تکیہ کرکے نہ بیٹھ جائے اور نیک اعمال کی بالکل کوشش نہ کرے۔ اُمتیوں کو اچھے اعمال اپنانے کی تلقین کرنا ہی تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مقصدِ رسالت ہے۔ اچھے اعمال کے بغیر اللہ کی رضا کیسے حاصل کی جاسکتی ہے۔ البتہ ان اعمال کی ادائیگی میں جو خلوص و تقویٰ کی کمی رہ جائے، اس کی تکمیل رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شفاعت کے ذریعے ہوگی تاکہ یہ بارگاہِ الٰہی میں مکمل طور پر مقبول ہو جائیں۔ ایک عام بشر‘ جو شر اور خیر کا مرقع ہے‘ کے تمام عمر کے نیک اعمال تو صرف اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا شکرانہ ادا کرنے کے لیے بھی کافی نہیں ہیں‘ ان کے ذریعے اپنے تمام گناہ بخشوا لینا اور تمام فرائض میں کی گئی کوتاہیوں کا ازالہ کرنا تب تک ممکن نہیں جب تک ان میں اللہ کی رحمت شامل نہ ہو جائے اور اللہ‘ جو قیامت کے روزِ حساب منصف ہوگا‘ بڑا انصاف پسند ہے۔ میزان میں ایک طرف نیکیاں اور ایک طرف گناہ اور کوتاہیاں ہوں گی۔ جس متکبر انسان کو یہ غرور ہے کہ اس کی نیکیاں اس کے گناہوں سے بڑھ کر ہوں گی‘ اس کی تمام نیکیاں بھی اس کے غرور کی نذر ہو جائیں گی۔ چنانچہ بخشش صرف عملوں پر ممکن ہی نہیں ۔اس کے لیے اللہ کے رحم اور کرم کی ازحد ضرورت ہے اور انصاف کرنے والے اللہ کو جب گناہوں کا پلڑا نیکیوں سے بھاری دکھائی دے گا تو اسے رحم اور کرم پر آمادہ کرنے والی ذات صرف اور صرف ہمارے آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہے کہ ہم گنہگاروں کو تو اس روز زبان کھولنے کی بھی جرأت نہ ہو سکے گی جب ہم شرمندہ و پشیمان عظیم قدرت والے اللہ تبارک و تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوں گے۔ یہی ہے ہم گنہگارانِ اُمت کا عقیدۂ شفاعت۔ اس عقیدے کی نفی میں اپنے عملوں پر متکبر گروہ ان آیاتِ قرآنی کو پیش کرتا ہے:
ترجمہ: اور اس دن سے ڈرو جب کوئی جان کسی دوسری جان کی جگہ کوئی بدلہ نہ دے سکے گی اور نہ اس کی طرف سے کوئی معاوضہ قبول کیا جائے گا اور نہ اس کو (اذنِ الٰہی کے بغیر )کوئی سفارش ہی فائدہ پہنچا سکے گی اور نہ انہیں کوئی مدد دی جائے گی۔ (البقرہ: 123)
ترجمہ: اب کسی سفارش کرنے والے کی کوئی سفارش ان کے کام نہ آئے گی۔ (سورہ مدثر: 48)
ترجمہ: اور جن لوگوں کو یہ اللہ کے سوا (اپنا رب سمجھ کر) پکارتے ہیں تو وہ سفارش کا بھی اختیار نہیں رکھتے۔ (زخرف: 86) (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment