فضائل و مسائلِ حج و قربانی حصّہ ششم
گائے (بهینس) اور اونٹ میں سات افراد شریک ہوسکتے ہیں، تمام شرکاء صحیح العقیدہ ہوں، اور سب کی نیت "تقرب" یعنی اللہ تعالی کا حق ادا کرنا مقصود ہو، گائے کے شرکاء میں اگر ایک شخص کی نیت فقط گوشت حاصل کرنا ہو تو کسی کی بهی قربانی نہیں ہوگی ۔ ( بہارشریعت حصہ 15 بحوالہ درمختار و رد المحتار کتاب الاضحیہ)
اگر کوئی شخص سات حصوں میں سے کچھ حصے عقیقے کےلئے مقرر کرلے تو جائز ہے کہ عقیقہ بهی تقرب کی ایک صورت ہے ۔ (ردالمحتار، کتاب الاضحیہ جلد 9 فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 595؛ بہارشریعت حصہ 15)
عام طور پر دیکهنے میں آتا ہے کہ تمام گهر والوں کی طرف سے ایک بکرا قربان کردیا جاتا ہے، جبکہ صاحب نصاب ہونے کے سبب اس گهر کے کئی افراد پر قربانی واجب ہوتی ہے؛ اس صورت میں ایک بکرا بهیڑ وغیرہ سب کو کفایت نہیں کریگا، جو جو صاحب نصاب ہیں خواہ مرد ہو یا عورت سب کی طرف سے الگ الگ قربانی کیجائی ۔ (تفصیل کےلئے دیکهئے فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 369)*
میت کی طرف سے ایصال ثواب کی نیت سےقربانی کرنا جائز ہے، اس میں چند باتیں ملحوظ خاطر رہیں ۔
(1) اگر میت کی طرف سے قربانی کرنے والا خود صاحب نصاب ہے اور ایک ہی جانور کی استطاعت رکهتا ہے، تو اسے قربانی اپنی طرف سے کرنی چاہئے، کہ اس پر واجب ہے میت پر واجب نہیں، اور واجب کا ترک گناہ ہے ۔
(2) میت کی طرف سے قربانی کی تو اس کا گوشت خود بهی کها سکتا ہے رشتہ داروں کو اور غربا میں تقسیم کرسکتا ہے ۔
(3) اگر مرنے والے کی وصیت و حکم پر قربانی کی تو اس صورت میں تمام گوشت صدقہ کردے خود نہیں کها سکتا ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 456 ؛ بہارشریعت حصہ 15)
اجتماعی قربانی میں تمام شرکا کے درمیان گوشت وزن کرکے تقسیم کیا جائے، اندازے سے تقسیم کرنا جائز نہیں،اور ایک دوسرے کو کم یا زیادہ معاف کردینا بهی کافی نہیں، ہاں ایک ہی فیملی کے افراد کہ ایک ہی گهر میں رہتے اور مل جل کر کهاتے ہیں تو وزن کرنے کی حاجت نہیں ۔ (تفصیل کےلئے دیکهئے بہارشریعت حصہ 15)
بے احتیاطی سے بچنے کےلئے اسطرح حیلہ کیا جاسکتا ہے کہ شرکائے قربانی سارا گوشت ایسے بالغ مسلمان کو جو اس قربانی میں شریک نہ ہو ہبہ کردیں، یہ شخص سب میں اندازے سے گوشت تقسیم کرسکتا ہے ۔ (تفصیل، بہارشریعت حصہ 15 و ردالمحتار کتاب الاضحیہ جلد 9)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
قربانی کا گوشت خود بهی کها سکتا ہے، اور غنی و فقیر کو بهی کهلا سکتا ہے، گوشت کے تین حصے کرلینا مستحب ہے، ایک حصہ غرباء کےلئے ایک رشتہ دار وں اور دوست احباب کےلئے، اور ایک حصہ اپنے گهر والوں کےلئے، کل صدقہ کرنا بهی جائز اور کل (گوشت) گهر ہی رکهه لے یہ بهی جائز ہے، اگر کنبہ بڑا ہو اور صاحب وسعت نہیں ہے تو بہتر یہ ہے کہ سارا گوشت اپنے بال بچوں ہی کےلئے رکهه چهوڑے ۔ (بہارشریعت حصہ 15 بحوالہ فتاوی ہندیہ کتاب الاضحیہ باب خامس)
حلال جانور کے سب اجزا حلال ہیں مگر بعض کہ حرام یا ممنوع یا مکروہ ہیں، ان کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے، رگوں کا خون؛ پتا؛ پهکنا؛ علامات نر و مادہ؛ بیضے؛ غدود؛ حرام مغز؛ گردن کے دو پٹهے کہ شانوں تک کهنچے ہوتے ہیں؛ جگر کا خون؛ تلی کا خون؛ گوشت کا خون کہ ذبح کے گوشت میں سے نکلتا ہے؛ دل کا خون؛ پت یعنی وہ زرد پانی کہ پتے میں ہوتا ہے؛ ناک کی رطوبت کہ بهیڑ میں اکثر ہوتی ہے؛ پاخانہ کا مقام؛ اوجهڑی؛ آنتیں؛ نطفہ؛ وہ نطفہ کہ خون ہوگیا؛ وہ کہ گوشت کا لوتهڑا ہوگیا؛ وہ کہ پورا جانور بن گیا اور مردہ نکلا؛ یا بے ذبح مرگیا ۔ ( فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 240)
بہتر یہ ہے کہ قربانی (ذبح) اپنے ہاتھ سے کرے اگر اچهی طرح ذبح کرنا جانتا ہو، اگر خود ذبح کرنا نہیں جانتا تو کسی صحیح العقیدہ مسلمان سے ذبح کرائے؛ اور وقت قربانی وہاں موجود ہو ، دوسرے سے ذبح کروایا اور خود اپنا ہاتھ بهی چهری پر رکھ دیا، کہ دونوں (قصاب اور مالک قربانی) نے ملکر ذبح کیا تو دونوں پر بسم اللہ کہنا واجب ہے، ایک نے بهی جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ کا نام ترک کیا یا یہ خیال کرکے چهوڑ دیا کہ دوسرے نے کہہ لیا ہے مجهے کہنے کی ضرورت نہیں دونوں صورتوں میں جانور حلال نہ ہوا ۔ (بہارشریعت حصہ 15 بحوالہ درمختار کتاب الاضحیہ)
عورت، سمجھ دار نابالغ، گونگا؛ ان سب کا ذبیحہ حلال ہے اگر اچهی طرح ذبح کرنا جانتے ہوں ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 242)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
جانور کو بهوکا پیاسا ذبح نہ کریں؛اور ایک جانور کے سامنے دوسرے کو ذبح نہ کیا جائے، چهری پہلے سے تیز کرلی جائے ایسا نہ ہو کہ اسے زمین پر گرا کر اسکے سامنے تیز کی جائے؛ گائے وغیرہ کو گرانے سے پہلے ہی قبلہ رخ کا تعین کرلیا جائے، جس جگہ جانور کو لٹانا یا گرانا ہے اسے صاف کرلیا جائے کہ وہاں کنکر روڑے وغیرہ نہ ہوں، الغرض جانور کو ہر طرح کی اذیت و تکلیف سے بچایا جائے؛
سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا، جب تم ذبح کرو تو احسن طریقہ سے ذبح کرو، تم میں سے کسی شخص کو چاہئیے کہ وہ چهری تیز کرے اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے ۔ (صحیح مسلم کتاب الصید والذبائح)
اور مسند امام احمد میں ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوئے، یارسول اللہ صل اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم مجهے بکری ذبح کرنے پر رحم آتا ہے ، فرمایا اگر اس پر رحم کرو گے اللہ تعالیٰ بهی تم پر رحم فرمائے گا؛ ذبح کرنے میں چار رگیں کٹ جائیں یا کم سے کم تین رگیں کٹ جائیں، اس سے زیادہ نہ کاٹیں کہ چهری گردن کے مہرہ تک پہنچ جائے کہ یہ بے وجہ کی تکلیف ہے، جب تک جانور مکمل طور پر ٹهنڈا نہ ہوجائے نہ اس کے پاؤں کاٹیں نہ کهال اتاریں ؛ بعض قصاب اور گهروں میں جانے آڈر بهگتانے اور مال کمانے کی غرض سے عجلت میں ہوتے ہیں، اور گائے کو ذبح کرتے ہی گردن سے چهری گهونپ کر دل کی رگیں کاٹتے ہیں، یا بکرے کی گردن بعد ذبح چٹخا دیتے ہیں؛ اس ظلم سے انہیں روکا جائے ۔ ( مذکورہ مسائل کی تفصیل جاننے کےلئے فتاویٰ رضویہ جلد20 اور بہار شریعت حصہ 15 کا مطالعہ فرمائیں)
قربانی کی کهال ہر اس کام میں صرف کرسکتے ہیں جو قربت و کار خیر و باعث ثواب ہو؛مساجد و مدارس اهلسنت کو دے سکتے ہیں، کهال بیچ کر اس رقم سے کتب دینیہ خرید کر مدارس وغیرہ کے طلبہ کو دے سکتے ہیں اگرچہ وہ طلبہ غنی ہوں کہ کتاب باقی رہ کر کام آتی ہے، حاجت مند بیواؤں، یتیموں؛ مسکینوں کو کهال یا اس سے حاصل شدہ رقم دے سکتے ہیں؛ قربانی کرنے والا کهال کو باقی رکهتے ہوئے اپنے کام میں لا سکتا ہے مثلاً اسکی جا نماز، چهلنی (آٹا چهاننے کا آلہ) تهیلی؛ مشکیزہ؛ دسترخوان؛ ڈول؛ یا کتابوں کی جلد بندی میں لگا سکتا ہے؛اگر کسی نے کهال اپنے خرچ میں لانے کےلئے بیچی تو حاصل شدہ دام خبیث ہیں لہذا یہ رقم مسجد یا مسجد کے کسی کام میں نہ لگائی جائے بلکہ فقیر مسلمان پر صدقہ کردی جائے ۔ ( مذکورہ مسائل فتاویٰ رضویہ کی جلد 20 سے اخذ کئے گئے ہیں)
سیدی اعلی حضرت رحمتہ اللہ علیہ سے سوال پوچها گیا کہ زید پردیس میں ہے اس کی جانب سے اس کا کوئی عزیز قربانی کردے تو فرض زید پر سے اتر جائے گا؟
آپ نے جواب عطا فرمایا کہ : قربانی و صدقہ فطر عبادت ہے اور عبادت میں نیت شرط ہے تو بلا اجازت ناممکن ہے؛ ہاں اجازت کےلئے صراحتاً ہونا ضروری نہیں دلالت کافی ہے؛ مثلاً زید اس کے عیال میں ہے، اس کا کهانا پہننا سب اس کےپاس ہوتا یا یہ (زید کیطرف سے قربانی کرنے والا) اس کا وکیل مطلق ہے، اس کا کار و بار یہ کیا کرتا ہے، ان صورتوں میں ادا ہوجائیگی ۔ ( فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 453) ۔ نوٹ : بیرون ملک رہنے والے لوگ اپنے کسی عزیز یا دوست کو اپنی طرف سے قربانی کرنے کی اجازت دیں یا کہہ دیں تو انکی طرف سے قربانی ہوجائے گی ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
گائے (بهینس) اور اونٹ میں سات افراد شریک ہوسکتے ہیں، تمام شرکاء صحیح العقیدہ ہوں، اور سب کی نیت "تقرب" یعنی اللہ تعالی کا حق ادا کرنا مقصود ہو، گائے کے شرکاء میں اگر ایک شخص کی نیت فقط گوشت حاصل کرنا ہو تو کسی کی بهی قربانی نہیں ہوگی ۔ ( بہارشریعت حصہ 15 بحوالہ درمختار و رد المحتار کتاب الاضحیہ)
اگر کوئی شخص سات حصوں میں سے کچھ حصے عقیقے کےلئے مقرر کرلے تو جائز ہے کہ عقیقہ بهی تقرب کی ایک صورت ہے ۔ (ردالمحتار، کتاب الاضحیہ جلد 9 فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 595؛ بہارشریعت حصہ 15)
عام طور پر دیکهنے میں آتا ہے کہ تمام گهر والوں کی طرف سے ایک بکرا قربان کردیا جاتا ہے، جبکہ صاحب نصاب ہونے کے سبب اس گهر کے کئی افراد پر قربانی واجب ہوتی ہے؛ اس صورت میں ایک بکرا بهیڑ وغیرہ سب کو کفایت نہیں کریگا، جو جو صاحب نصاب ہیں خواہ مرد ہو یا عورت سب کی طرف سے الگ الگ قربانی کیجائی ۔ (تفصیل کےلئے دیکهئے فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 369)*
میت کی طرف سے ایصال ثواب کی نیت سےقربانی کرنا جائز ہے، اس میں چند باتیں ملحوظ خاطر رہیں ۔
(1) اگر میت کی طرف سے قربانی کرنے والا خود صاحب نصاب ہے اور ایک ہی جانور کی استطاعت رکهتا ہے، تو اسے قربانی اپنی طرف سے کرنی چاہئے، کہ اس پر واجب ہے میت پر واجب نہیں، اور واجب کا ترک گناہ ہے ۔
(2) میت کی طرف سے قربانی کی تو اس کا گوشت خود بهی کها سکتا ہے رشتہ داروں کو اور غربا میں تقسیم کرسکتا ہے ۔
(3) اگر مرنے والے کی وصیت و حکم پر قربانی کی تو اس صورت میں تمام گوشت صدقہ کردے خود نہیں کها سکتا ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 456 ؛ بہارشریعت حصہ 15)
اجتماعی قربانی میں تمام شرکا کے درمیان گوشت وزن کرکے تقسیم کیا جائے، اندازے سے تقسیم کرنا جائز نہیں،اور ایک دوسرے کو کم یا زیادہ معاف کردینا بهی کافی نہیں، ہاں ایک ہی فیملی کے افراد کہ ایک ہی گهر میں رہتے اور مل جل کر کهاتے ہیں تو وزن کرنے کی حاجت نہیں ۔ (تفصیل کےلئے دیکهئے بہارشریعت حصہ 15)
بے احتیاطی سے بچنے کےلئے اسطرح حیلہ کیا جاسکتا ہے کہ شرکائے قربانی سارا گوشت ایسے بالغ مسلمان کو جو اس قربانی میں شریک نہ ہو ہبہ کردیں، یہ شخص سب میں اندازے سے گوشت تقسیم کرسکتا ہے ۔ (تفصیل، بہارشریعت حصہ 15 و ردالمحتار کتاب الاضحیہ جلد 9)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
قربانی کا گوشت خود بهی کها سکتا ہے، اور غنی و فقیر کو بهی کهلا سکتا ہے، گوشت کے تین حصے کرلینا مستحب ہے، ایک حصہ غرباء کےلئے ایک رشتہ دار وں اور دوست احباب کےلئے، اور ایک حصہ اپنے گهر والوں کےلئے، کل صدقہ کرنا بهی جائز اور کل (گوشت) گهر ہی رکهه لے یہ بهی جائز ہے، اگر کنبہ بڑا ہو اور صاحب وسعت نہیں ہے تو بہتر یہ ہے کہ سارا گوشت اپنے بال بچوں ہی کےلئے رکهه چهوڑے ۔ (بہارشریعت حصہ 15 بحوالہ فتاوی ہندیہ کتاب الاضحیہ باب خامس)
حلال جانور کے سب اجزا حلال ہیں مگر بعض کہ حرام یا ممنوع یا مکروہ ہیں، ان کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے، رگوں کا خون؛ پتا؛ پهکنا؛ علامات نر و مادہ؛ بیضے؛ غدود؛ حرام مغز؛ گردن کے دو پٹهے کہ شانوں تک کهنچے ہوتے ہیں؛ جگر کا خون؛ تلی کا خون؛ گوشت کا خون کہ ذبح کے گوشت میں سے نکلتا ہے؛ دل کا خون؛ پت یعنی وہ زرد پانی کہ پتے میں ہوتا ہے؛ ناک کی رطوبت کہ بهیڑ میں اکثر ہوتی ہے؛ پاخانہ کا مقام؛ اوجهڑی؛ آنتیں؛ نطفہ؛ وہ نطفہ کہ خون ہوگیا؛ وہ کہ گوشت کا لوتهڑا ہوگیا؛ وہ کہ پورا جانور بن گیا اور مردہ نکلا؛ یا بے ذبح مرگیا ۔ ( فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 240)
بہتر یہ ہے کہ قربانی (ذبح) اپنے ہاتھ سے کرے اگر اچهی طرح ذبح کرنا جانتا ہو، اگر خود ذبح کرنا نہیں جانتا تو کسی صحیح العقیدہ مسلمان سے ذبح کرائے؛ اور وقت قربانی وہاں موجود ہو ، دوسرے سے ذبح کروایا اور خود اپنا ہاتھ بهی چهری پر رکھ دیا، کہ دونوں (قصاب اور مالک قربانی) نے ملکر ذبح کیا تو دونوں پر بسم اللہ کہنا واجب ہے، ایک نے بهی جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ کا نام ترک کیا یا یہ خیال کرکے چهوڑ دیا کہ دوسرے نے کہہ لیا ہے مجهے کہنے کی ضرورت نہیں دونوں صورتوں میں جانور حلال نہ ہوا ۔ (بہارشریعت حصہ 15 بحوالہ درمختار کتاب الاضحیہ)
عورت، سمجھ دار نابالغ، گونگا؛ ان سب کا ذبیحہ حلال ہے اگر اچهی طرح ذبح کرنا جانتے ہوں ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 242)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
جانور کو بهوکا پیاسا ذبح نہ کریں؛اور ایک جانور کے سامنے دوسرے کو ذبح نہ کیا جائے، چهری پہلے سے تیز کرلی جائے ایسا نہ ہو کہ اسے زمین پر گرا کر اسکے سامنے تیز کی جائے؛ گائے وغیرہ کو گرانے سے پہلے ہی قبلہ رخ کا تعین کرلیا جائے، جس جگہ جانور کو لٹانا یا گرانا ہے اسے صاف کرلیا جائے کہ وہاں کنکر روڑے وغیرہ نہ ہوں، الغرض جانور کو ہر طرح کی اذیت و تکلیف سے بچایا جائے؛
سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا، جب تم ذبح کرو تو احسن طریقہ سے ذبح کرو، تم میں سے کسی شخص کو چاہئیے کہ وہ چهری تیز کرے اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے ۔ (صحیح مسلم کتاب الصید والذبائح)
اور مسند امام احمد میں ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوئے، یارسول اللہ صل اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم مجهے بکری ذبح کرنے پر رحم آتا ہے ، فرمایا اگر اس پر رحم کرو گے اللہ تعالیٰ بهی تم پر رحم فرمائے گا؛ ذبح کرنے میں چار رگیں کٹ جائیں یا کم سے کم تین رگیں کٹ جائیں، اس سے زیادہ نہ کاٹیں کہ چهری گردن کے مہرہ تک پہنچ جائے کہ یہ بے وجہ کی تکلیف ہے، جب تک جانور مکمل طور پر ٹهنڈا نہ ہوجائے نہ اس کے پاؤں کاٹیں نہ کهال اتاریں ؛ بعض قصاب اور گهروں میں جانے آڈر بهگتانے اور مال کمانے کی غرض سے عجلت میں ہوتے ہیں، اور گائے کو ذبح کرتے ہی گردن سے چهری گهونپ کر دل کی رگیں کاٹتے ہیں، یا بکرے کی گردن بعد ذبح چٹخا دیتے ہیں؛ اس ظلم سے انہیں روکا جائے ۔ ( مذکورہ مسائل کی تفصیل جاننے کےلئے فتاویٰ رضویہ جلد20 اور بہار شریعت حصہ 15 کا مطالعہ فرمائیں)
قربانی کی کهال ہر اس کام میں صرف کرسکتے ہیں جو قربت و کار خیر و باعث ثواب ہو؛مساجد و مدارس اهلسنت کو دے سکتے ہیں، کهال بیچ کر اس رقم سے کتب دینیہ خرید کر مدارس وغیرہ کے طلبہ کو دے سکتے ہیں اگرچہ وہ طلبہ غنی ہوں کہ کتاب باقی رہ کر کام آتی ہے، حاجت مند بیواؤں، یتیموں؛ مسکینوں کو کهال یا اس سے حاصل شدہ رقم دے سکتے ہیں؛ قربانی کرنے والا کهال کو باقی رکهتے ہوئے اپنے کام میں لا سکتا ہے مثلاً اسکی جا نماز، چهلنی (آٹا چهاننے کا آلہ) تهیلی؛ مشکیزہ؛ دسترخوان؛ ڈول؛ یا کتابوں کی جلد بندی میں لگا سکتا ہے؛اگر کسی نے کهال اپنے خرچ میں لانے کےلئے بیچی تو حاصل شدہ دام خبیث ہیں لہذا یہ رقم مسجد یا مسجد کے کسی کام میں نہ لگائی جائے بلکہ فقیر مسلمان پر صدقہ کردی جائے ۔ ( مذکورہ مسائل فتاویٰ رضویہ کی جلد 20 سے اخذ کئے گئے ہیں)
سیدی اعلی حضرت رحمتہ اللہ علیہ سے سوال پوچها گیا کہ زید پردیس میں ہے اس کی جانب سے اس کا کوئی عزیز قربانی کردے تو فرض زید پر سے اتر جائے گا؟
آپ نے جواب عطا فرمایا کہ : قربانی و صدقہ فطر عبادت ہے اور عبادت میں نیت شرط ہے تو بلا اجازت ناممکن ہے؛ ہاں اجازت کےلئے صراحتاً ہونا ضروری نہیں دلالت کافی ہے؛ مثلاً زید اس کے عیال میں ہے، اس کا کهانا پہننا سب اس کےپاس ہوتا یا یہ (زید کیطرف سے قربانی کرنے والا) اس کا وکیل مطلق ہے، اس کا کار و بار یہ کیا کرتا ہے، ان صورتوں میں ادا ہوجائیگی ۔ ( فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 453) ۔ نوٹ : بیرون ملک رہنے والے لوگ اپنے کسی عزیز یا دوست کو اپنی طرف سے قربانی کرنے کی اجازت دیں یا کہہ دیں تو انکی طرف سے قربانی ہوجائے گی ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment