بغیر اذن ولی غیر کفو سے نکاح اور مسلہ کفو حصّہ دوم
کفو کی لغوی تعریف : علامہ ابن منظور الافریقی لکھتے ہیں : الکفء النظير والمساوي ومنه الکفاة في النکاح وهو ان يکون الزواج مساويا للمراة في حسبها ودينها ونسبها و بيتها غير ذالک.ترجمہ : کفو کا مطلب نظیر اور برابری ہے۔ اسی سے نکاح میں کفاء ت سے مراد ہے۔ وہ یہ ہے کہ خاوند کا حسب، دین، نسب اور گھر وغیرہ میں عورت کے برابر ہونا۔( لسان العرب، 1: 139، دار صادرِ، بيروت)
سید محمد مرتضیٰ زبیدی لکھتے ہیں کہ کفو کا معنی ہے : مثلہ ہر چیز کی مثال کو کفو کہتے ہیں ۔ (تاج العروس، 1: 108، دار احياء التراث العربي)
کفو کا اصطلاحی معنیٰ : کفو کا معنی ہے صفات مخصوصہ ممتازہ میں مساوی اور نظیر ہونا، نکاح میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ لڑکا، لڑکی کے معیار سے کم اور نیچا تو نہیں ہے کیونکہ جو لڑکی صفات مخصوصہ ممتاز کے اعتبار سے اعلیٰ ہو وہ اس لڑکے کا فراش بننے کو ناپسند کرے گی۔ جو اس سے صفات میں ادنیٰ ہو تو لڑکی کے وارث بھی اس بات کو اپنے لئے باعث عار سمجھتے ہیں ۔
کفو میں عموماً چھ چیزوں کا لحاظ رکھا جاتا ہے
(1) اسلام ۔ (2) حریت یعنی آزاد ہو غلام نہ ہو ۔ (3) نسب ۔ (4) مال و دولت ۔ (5) تقویٰ اور دینداری ۔ (6) صنعت و حرفت یعنی پیشہ ۔ (در المختار، 2: 437)
مسئلہ کفو : کفو کی حقیقت اتنی ہے کہ لڑکے لڑکی میں ہر ممکن حد تک مناسبت کا لحاظ کیا جائے۔ بے جوڑ اور غیر مناسب رشتوں سے بچا جائے تاکہ دونوں میں ہم آہنگی مطابقت و موافقت ہو۔ الفت ہو، کالے، گورے، سید غیر سید۔ ذات پات کا نظام اسلام میں نہیں ہے۔ جیسا کہ حدیث پاک میں ہے : عن انس بن مالک قال قال رسول صلی الله عليه وسلم: الناس کاسنان المشط .
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمام لوگ کنگھی کے دندانوں کی طرح برابر ہیں۔(الشهاب، المسند، 1: 145، رقم: 195، مؤسسة الرسالة، بيروت)
حجۃ الوادع کے موقع پر آقائے کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا : يٰا ايُّها النّاس ان ربّکم واحد و ان اباکم واحد الا لا فضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لاحمر علی اسود ولا لاسود علی احمر إلا بالتّقوی ألا هل بلغت ؟ قالوا بلی يا رسول اﷲ قال فليبلغ الشهد الغائب.
ترجمہ : لوگو! سن لو، تمہارا خدا ایک ہے کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر، کسی سرخ کو کالے اور کسی کالے کو سرخ پر تقوی کے سوا کوئی فضیلت نہیں۔بے شک تم میں اللہ کے نزدیک معزز وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔سنو! کیا میں نے تمہیں بات پہنچا دی؟ لوگوں نے عرض کی یا رسول اللہ! ہاں! فرمایا تو جو آدمی یہاں موجود ہے وہ ان لوگوں تک یہ بات پہنچا دے جو موجود نہیں ۔(شعب الايمان، 4: 289، الرقم: 5137، دار الکتب العلمية بيروت)
علامہ سرخسی ایک طویل بحث کے بعد لکھتے ہیں : وتاويل الحديث الاخر الندب اِلی التواضع وترک طلب الکفة لا الالزام وبه نقول ان عندالرضا يجوز العقد.
ترجمہ : دوسری صورت کا جواب یہ ہے کہ تواضع اور انکسار کرنا اور کفو کی طلب کو ترک کرنا مستحب ہے اور کفو کا اعتبار کرنا لازم نہیں ہے اور ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ رضا کے وقت (غیرکفو) میں نکاح کرنا جائز ہے۔ (المبسوط، 5: 25، دار المعرفة بيروت)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اس عبارت سے یہ واضح ہو گیا کہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک کفو کو طلب کرنا لازم نہیں ہے بلکہ مستحب یہ ہے کہ تواضع اور انکسار کو اختیار کر کے غیر کفو میں نکاح کیا جائے۔
قرآن مجید سے غیر کفو میں نکاح کا ثبوت
بعض لوگوں نے یہ کہا کہ غیر کفو میں نکاح کرنا حرام ہے اور یہ نکاح زنا کے مترادف ہے۔ خواہ ان کے ورثاء و اولیاء کی اجازت ہی سے کیوں نہ ہو۔ لیکن ان بزرگوں نے قرآن مجید کے حکم پر غور نہیں فرمایا کہ قرآن مجید نے ان تمام عورتوں کا ذکر فرمایا جو نسب، رضاعت، صہر، جمع فی النکاح اور منکوح غیر ہونے کے اعتبار سے حرام ہیں اس کے بعد فرمایا : وَاُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآئَذٰلِکُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ مُّحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَط ۔
ترجمہ : اور ان کے سوا (سب عورتیں) تمہارے لیے حلال کر دی گئی ہیں تاکہ تم اپنے اموال کے ذریعے طلبِ نکاح کرو پاکدامن رہتے ہوئے نہ کہ شہوت رانی کرتے ہوئے ۔
( سورۃ النساء، 4: 24)
اس آیت کریمہ میں اﷲ تعالیٰ نے کلمہ ’’ما‘‘ عموم کا استعمال فرما کر بتادیا کہ مذکورہ حرام کردہ عورتوں کے علاوہ سب حلال ہیں اس میں کفو اور غیر کفو کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔
فَانْکِحُوْا مَاطَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ ۔ ترجمہ : ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لیے پسندیدہ اور حلال ہوں ۔ (سورۃ النساء، 4: 3)
مندرجہ بالا آیت میں بھی لفظ ’’ما‘‘ جو کہ عموم کے لئے ہے یعنی محرمات کے علاوہ جو عورتیں تمہیں پسند آئیں خواہ وہ کفو سے ہو یا غیر کفو سے ہوں باہمی رضامندی سے نکاح کر لو۔
يٰـاَيُّها النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰـکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰـکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَـآئِلَ لِتَعَارَفُوْاط اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اﷲِ اَتْقٰـکُمْ ط ۔
ترجمہ : اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو ۔
( سورۃ الحجرات؛ 49: 13)
محدثین و مفسرین نے اس آیت مبارکہ کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے : امر رسول اﷲ صلی الله عليه وسلم بني بياضة ان يزوجوا ابا هند امراة منهم فقالوا يارسول اﷲ ا نزوج بناتنا موالينا؟ فانزل اﷲ عزوجل (اِنَّا خَلَقْنٰـکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی...)
ترجمہ : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو بیاضہ کو حکم دیا کہ وہ ابو الہند کے ساتھ اپنی ایک عورت کی شادی کر دیں۔ انہوں نے کہا:کیا ہم اپنی بیٹیوں کا نکاح غلاموں سے کردیں ؟ اس موقعہ پر یہ ایک آیت نازل ہوئی اِنَّا خَلَقْنٰـکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی ۔
(ابو دؤد، المراسيل، 1:195، رقم: 230، مؤسسة الرسالة، بيروت)(بيهقي، السنن، 7: 136، رقم: 13558، مکتبة دار الباز مکة المکرمة)(قرطبي، الجامع لاحکام القرآن، 16: 341، دار الشعب القهرة)(آلوسي، روح المعاني، 26: 163، دار احياء التراث العربي)(سيوطي، الدر المنثور، 7: 578، دار الفکر بيروت)(شوکاني، فتح القدير، 5: 69، دار الفکر بيروت)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ابو الہند حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فصد لگانے والا غلام تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آزاد عورت کا نکاح ایک غلام سے کر کے نسب و حسب اور صنعت و حرفت کے سارے بت توڑ دیئے۔
وَلاَ تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی يُؤمِنَّ ط وَلَاَمَةٌ مُّؤمِنَةٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِکَةٍ وَّلَوْ اَعْجَبَتْکُمْج ۔
( سورۃ البقره، 2: 221)
ترجمہ : اور تم مشرک عورتوں کے ساتھ نکاح مت کرو جب تک وہ مسلمان نہ ہو جائیں، اور بے شک مسلمان لونڈی (آزاد) مشرک عورت سے بہتر ہے خواہ وہ تمہیں بھلی ہی لگے اور (مسلمان عورتوں کا) مشرک مردوں سے بھی نکاح نہ کرو جب تک وہ مسلمان نہ ہو جائیں ۔
اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے صراحتاً بتا دیا کہ مسلمان آزاد لڑکیوں کا نکاح غلام مسلمانوں سے کرنا جائز ہے۔ حالانکہ غلام آزاد کا کفو نہیں ہوتا۔
مندرجہ بالا آیات مقدسہ سے غیر کفو میں نکاح کے جواز کا بیان ہے۔
احادیث سے غیر کفو میں نکاح کا ثبوت
احادیث مبارکہ میں غیر کفو میں نکاح سے متعلق بے شمار ثبوت ہیں۔
دیندار عورت سے شادی کرو : عَنْ ابِي هرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صلی الله عليه وسلم قَالَ تُنْکَحُ الْمَرْاةُ لِارْبَعٍ لِمَالِها وَلِحَسَبِها وَجَمَالِها وَلِدِينِها فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاکَ.
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت سے چار چیزوں کے باعث نکاح کیا جاتا ہے اس کے مال، اس کے حسب و نسب، اس کے حسن و جمال اور اس کے دین کی وجہ سے تیرے ہاتھ گرد آلودہ ہوں، تو دیندار کو حاصل کر۔
(بخاري، الصحيح، 5: 1958، رقم: 4802، دار ابن کثير اليمامة بيروت)(مسلم، الصحيح، 2: 1086، رقم: 1466، دار احياء التراث العربي)(ابن حبان، الصحيح، 9: 344، رقم: 4036، مؤسسة الرسالة، بيروت)(ابي عوانة، المسند، 3: 11، رقم: 4010، دار المعرفة بيروت)(دار قطني، السنن، 3: 302، رقم: 212، دار المعرفة بيروت(
عَنْ ابِي امَامَةعَنِ النَّبِيِّ انَّه کَانَ يَقُولُ مَا اسْتَفَادَ الْمُؤمِنُ بَعْدَ تَقْوَی اﷲِ خَيْرًا لَه مِنْ زَوْجَةٍ صَالِحَةٍ إِنْ امَرَها اطَاعَتْه وَإِنْ نَظَرَ إِلَيْها سَرَّتْه وَإِنْ اقْسَمَ عَلَيْها ابَرَّتْه وَإِنْ غَابَ عَنْها نَصَحَتْه فِي نَفْسِها وَمَالِه.
ترجمہ : ابوامامہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن اللہ کے تقویٰ کے بعد جو اپنے لیے بہتر تلاش کرے وہ نیک بیوی ہے کہ اگر اسے حکم دے تو اطاعت کرے، اس کی جانب دیکھے تو خوش ہو، اگر وہ کسی بات کے کرنے پر قسم کھا لے تو اسے پوری کر دے۔ اگر شوہر کہیں چلا جائے تو اس کی غیر موجودگی میں اپنی جان و مال کی نگہبانی کرے ۔(ابن ماجة، السنن، 1: 596، رقم: 1857، دار الفکر بيروت)(طبراني، المعجم الکبير، 8: 222، رقم: 7881، مکتبة الزهراء لموصل)
امام عبدالرزاق روایت کرتے ہیں : عن یحيی بن ابي کثير قال قال رسول اﷲ صلی الله عليه وسلم اذا جاء کم من ترضون امانته وخلقه فانکحوه کائنا من کان فان لا تفعلوا تکن فتنه فی الارض و فساد کبير، اوقال: عريض.
ترجمہ : یحییٰ بن ابی کثیر روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہارے پاس ایسے شخص کے نکاح کا پیغام آئے جس کی دینداری اور اخلاق تمہیں پسند ہوں تو اس سے نکاح کردو خواہ وہ کوئی بھی شخص ہو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین میں بہت زیادہ فساد اور فتنہ پھیلے گا ۔(عبد الرزاق، المصنف، 6: 152، رقم: 10325، المکتب الاسلامي بيروت)
عَنْ ابِي هرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُول الله صلی الله عليه وسلم إِذَا خَطَبَ إِلَيْکُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَه وَخُلُقَه فَزَوِّجُوه إِلَّا تَفْعَلُوا تَکُنْ فِتْنَةٌ فِي الْارْضِ وَفَسَادٌ عَرِيضٌ.
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تمہیں ایسا شخص نکاح کا پیغام دے جس کا دین و اخلاق تمہیں پسند ہو تو اس سے نکاح کر دو، اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین میں بہت بڑا فتنہ بپا ہو گا۔
(ترمذي، السنن، 3: 394، رقم:1084، دار احياء التراث العربي، بيروت)(ابن ماجه، السنن، 1: 326، رقم: 1967، دار الفکر بيروت)(حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 2: 179، رقم: 2695، دار الکتب العلمية بيروت)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
امام ابوداؤد روایت کرتے ہیں : عن الحکم بن عينه ان النبی صلی الله عليه وسلم ارسل بلالا الی اهل بيت من الانصار يخطب اليهم فقالاو عبد حبشی قال بلال لو لا ان النبی صلی الله عليه وسلم امرنی ان اتيکم لما اتيتکم فقالوا النبی صلی الله عليه وسلم امرک قال نعم قالوا قد ملکت فجاء النبی صلی الله عليه وسلم فاخبره فادخلت علی النبی صلی الله عليه وسلم قطعة من ذب فاعطه ايها فقال سق هذا الی امراتک و اقل لاصحابه اجمعوا الی اخيکم في وليمه ۔
ترجمہ : حکم بن غینہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو ایک انصاری کے گھر بھیجا تاکہ وہ اپنے رشتہ کا پیغام دیں۔ اس انصاری کے گھر والوں نے کہا کہ حبشی غلام حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہاکہ اگر حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تمہارے پاس آنے کے لئے نہ کہا ہوتا تو میں میں کبھی نہ آتا۔ انہوں نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں حکم دیا ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ہاں۔ انہوں نے کہا تم اس رشتہ کے مالک ہو۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جاکر حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سونے کا ٹکڑا آیا۔ آپ نے وہ حضرت بلال کو عطا کیا کہ یہ اپنی بیوی کے پاس لے جانا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے دوستوں سے فرمایا تم اپنے بھائی کے ولیمے کی تیاری کرو ۔
مندرجہ بالا حدیث حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آزاد عورت کا نکاح ایک حبشی غلام کے ساتھ کر کے ہر قسم کے تفاوت کو ختم کر دیا اور بتا دیا کہ اصل چیز مسلمان ہونا باقی چیزیں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔
قدیم زمانہ سے آج تک قومی عصبیت ہر قوم میں پائی جاتی ہے
قومی عصبیت : اپنی قوم کی تعلیم و ترقی، عزت و عظمت اور خوشحالی و آسودگی کی تدابیر کی جائیں، مگر اس کی بنیاد محنت و جہد پر ہو کسی دوسرے کے وسائل پر قبضہ یا کسی دوسرے کی آزادی سلب کرنے یا اس کے سماجی و معاشی استحصال پر نہ ہو۔ پہلی صورت مفید اور بہتر ہے جبکہ دوسری صورت ظالمانہ و مفسدانہ ہے۔ اسلام میں شادی کے سلسلہ میں کفو کا لحاظ اسی لئے کیا گیا ہے کہ اخلاق کے ساتھ ساتھ قومی و قبائلی تعلقات کا لحاظ بھی کرلیا جائے تو رشتہ زوجیت و نکاح میں مزید پختگی پیدا ہونے کے امکانات پیدا ہوجائیں گے اور بس۔ یہ تمام تدابیر دراصل ایک ہی مسئلہ کے محکم و پائیدار کرنے کیلئے کی جاتی ہیں کہ رشتہ مضبوط بنیادوں پر استوار ہو۔ میاں بیوی کے درمیان مثالی ہم آہنگی ہو، پیار ہو، ہمدردی ہو، میل ملاپ ہو، اور ان دو کی باہمی محبت کے ذریعے ان کے والدین اور پوری برادری و خاندان تک یہ خوشگوار تعلقات پھیلتے پھولتے چلے جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وسلم لَمْ نَرَ لِلْمُتَحَابَّيْنِ مِثْلَ النِّکَاحِ ۔
ترجمہ : ابن عباس رضی اﷲ عنہما کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:دو محبت کرنے والوں میں، نکاح کی طرح (پائیدار) تمہیں کوئی اور تعلق نہیں ملے گا ۔(ابن ماجه، السنن، 1: 593، رقم: 1847، دار الفکر بيروت)
عَنْ عَائِشَةَ انَّ رَسُوْلَ اﷲ صلی الله عليه وسلم قَالَ اِن اعْظَمُ النّکاح بَرَکَةً يْسَرُهُ مَئُونَةً.
ترجمہ : ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک بڑی برکت والا وہ نکاح ہے، جس میں آسان تر محنت کرنا پڑے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اذا تزوج العبد فقد استکمل نصف الايمان فليتق اﷲ فی النصف الباقی
ترجمہ : جب آدمی شادی کرتا ہے تو آدھا ایمان مکمل کرلیتا ہے، اب جو باقی آدھا رہ گیا ہے اس کے بارے میں اللہ سے ڈرے ۔
شادی دیکھ کر کرو : ایک انصاری نے عرض کی، میں فلاں انصاری بی بی سے شادی کرنا چاہتا ہوں آقا علیہ السلام نے فرمایا : فانطر اليها فان فی اعين الانصار شيئا ۔
ترجمہ : اسے دیکھ لو! بعض، انصار کی آنکھوں میں عیب ہوتا ہے‘‘۔
یہ بھی فرمایا : عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وسلم: إِذَا خَطَبَ احَدُکُمْ الْمَرْاةَ فَإِنْ اسْتَطَاعَ انْ يَنْظُرَ إِلَی مَا يَدْعُوه إِلَی نِکَاحِها فَلْيَفْعَلْ. قَالَ فَخَطَبْتُ جَارِيَةً فَکُنْتُ اتَخَبَّا لَها حَتَّی رَيْتُ مِنْها مَا دَعَانِي إِلَی نِکَاحِها فَتَزَوَّجْتُها.
ترجمہ : حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کسی عورت کو پیغام نکاح دے اگر اس کی ان خوبیوں کو دیکھ سکتا ہو جو اسے نکاح پر مائل کریں، تو ضرور ایسا کرے۔ حضرت جابر کا بیان ہے کہ میں نے ایک لڑکی کو پیغام دیا اور چھپ کر اسے دیکھ لیا یہاں تک کہ میں نے اس کی وہ خوبی بھی دیکھی جس نے مجھے نکاح کی جانب راغب کیا لہٰذا میں نے اس کے ساتھ نکاح کر لیا ۔
(احمد بن حنبل،، المسند، 3: 334، رقم: 14626، مؤسسة قرطبة مصر)(ابودؤد،،السنن، 2: 228، رقم:2082، دار الفکر)(حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 2: 179، رقم: 2696، دار الکتب العلمية بيروت)(بيهقی، السنن الکبری، 7: 84، رقم: 13269، مکتب دار الباز مکة المکرمة)
عَنْ انَسِ بْنِ مَالِکٍ انَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ ارَادَ انْ يَتَزَوَّجَ امْرَاةً فَقَالَ لَه النَّبِيُّ ﷺ اذْهبْ فَانْظُرْ إِلَيْها فَإِنَّه احْرَی انْ يُؤدَمَ بَيْنَکُمَا فَفَعَلَ فَتَزَوَّجَها فَذَکَرَ مِنْ مُوَافَقَتِها ۔
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مغیرہ بن شعبہ نے ایک عورت سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جاؤ اسے دیکھ لو کیونکہ اس سے شاید اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں محبت پیدا کر دے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا، پھر اس سے نکاح کر لیا۔ بعد میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نے اپنی بیوی کی موافقت اور عمدہ تعلق کا ذکر کیا۔
(احمد بن حنبل، المسند، 4: 249، رقم: 18179)(نسائی، السنن الکبری، 3: 272، رقم: 1865، دار الکتب العلمية بيروت)(ابن ماجه، السنن، 1: 599، رقم: 1869، دار الفکر بيروت)(دارمی، السنن، 2: 180، رقم: 2172، دار الکتاب العربی بيروت)(ابو يعلی، المسند، 6: 158، رقم: 3438، دار المامون للتراث دمشق)(حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 2: 179، رقم: 2679)(ابن حبان، الصحيح، 9: 351، رقم: 4043، مؤسسة الرسالة بيروت)(عبد الرزاق، المصنف، 6: 156، رقم: 10335، المکتب الاسلامی بيروت)(ابن ابی شيبة، المصنف، 4: 21، رقم: 17388، مکتبة الرشد الرياض)(عبد بن حميد، المسند، 1: 375، رقم: 1254، مکتبة مؤسسة القهرة)(ابی عوانة، المسند، 13: 18، 4039، دار المعرفة بيروت)(طبرانی، المعجم الکبير، 20: 433، رقم: 1052، مکتبة الزهراء الموصل)(دار قطنی، السنن، 3: 253، رقم: 32، دار المعرفة بيروت)(ابن جارود، المنتقی، 1: 170، رقم: 675، مؤسسة الکتاب الثقافية بيروت)(بيهقی، السنن الکبری، 7: 84، رقم: 13266)(مقدسی، الاحاديث المختارة، 5: 169، رقم: 1788، مکتة النهضة الحديثة مکة المکرمة)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اسلام نے قوم و قبیلہ کی جاہلانہ حیثیت کو ختم کیا ہے۔ جس کی رو سے بعض قومیں اعلیٰ اور بعض ادنیٰ سمجھی جاتی تھیں اور اب جاہلیت جدیدہ میں بھی سمجھی جاتی ہیں۔ قرآن کریم نے واضح کیا کہ قوم قبیلہ۔ ذات برادری، محض جان پہچان کا ذریعہ ہیں ان کی بناء پر نہ کوئی اعلیٰ ہوتا ہے نہ ادنیٰ۔ فرمان باری تعالیٰ ہے :
يٰايُها النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰـکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰـکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَـآئِلَ لِتَعَارَفُوْاط اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اﷲِ اَتْقٰـکُمْط ۔
ترجمہ : اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو۔
( سورۃ الحجرات؛ 49: 13)
اسلام کی نظر میں عزت و ذلت بڑا اور چھوٹا ہونے کا دار و مدار ایمان و کردار پر ہے حسب و نسب پر نہیں۔ دین کی نظر میں گھٹیا و کمین وہ شخص نہیں جو ایمان و عمل میں پختہ ہے با کردار ہے۔ صاحب علم و تقویٰ ہے، بہت اعلیٰ ہے۔ بزرگ تر ہے اور اگر ہاشمی، قریشی، مکی مدنی ہے۔ ایمان و عمل صالح سے محروم ہے۔ جتنا چاہے بڑا بنتا پھرے، اللہ کے نزدیک پرکاہ کے برابر عتبہ، شیبہ ولید، ہاشمی و قریشی ہو کر بھی ذلیل تر حقیر تر۔ کمین تر ہیں فریق اول کے رنگ، نسل، زبان ان کی عزت و عظمت کے آڑے آئے اور فریق ثانی کی خاندانی سرافت و نجابت ان کو عزت سے ہمکنار نہ کرسکی اور وہ نیکی سے محروم ہوکر ’’شر الدواب‘‘ ہی رہے۔ (بدترین چوپائے) ۔
خوب سمجھ لیں کہ ذات، قوم، قبیلہ صرف تعارف یعنی باہمی جان پہچان کا ذریعہ ہے۔ کسی ذات سے ہو جانا نہ تو عزت و عظمت کی سند ہے۔ نہ کسی دوسرے قبیلہ میں جنم لینا ذلت و حقارت کی علامت۔(بقیہ حصّہ سوم میں)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment