Sunday 13 August 2017

بغیر اذن ولی غیر کفو سے نکاح اور مسلہ کفو حصّہ اوّل

0 comments
بغیر اذن ولی غیر کفو سے نکاح اور مسلہ کفو حصّہ اوّل

مذہب اسلا م نے نکاح کے اندر چھ چیزوں میں کفاء ت کا اعتبار فرمایا ہے۔ (١)نسب (٢)اسلام ٣)حرفہ (٤)حریت (٥) دیانت (٦)مال اس کی اصل شارع امت حضور اقدس سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علےہ وسلم کا یہ ارشاد پاک ہے جسے امام ترمذی نے حضرت مولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا کہ نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:یا علی ثلاثۃ لا تؤخروہا الصلاۃاذا اتت والجنازۃ اذا حضرت والایم اذا وجدت کفوا''۔ (ترمذی شریف باب ما جاء فی تعجیل الجنازۃ ص١٢٧)۔
اے علی !تین چیزوں میں تاخیر نہ کرو (١)نماز کا جب وقت آجائے (٢)جنازہ جب موجود ہو (٣)بے شوہر والی کا جب کفو ملے۔

اس کے علاوہ حدیث کی مستند کتابوں میں متعدد روایتیں موجود ہوں جنہیں تلقی امت بالقبول حاصل ہے ان روشن حدیثوں سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ اسلام نے جن چھ چیزوں میں نکاح کے اندر کفاء ت کا اعتبار فرمایاہے وہ حد درجہ اہم ہیں کفاء ت کا معنی کیا ہے اس سلسلے میں حضرت ملک العلما علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :۔
''شرعاً وہ کفو ہے کہ نسب یا مذہب ،یا پیشے یا چال چلن کسی بات میں ایسا کم نہ ہو کہ اس سے نکاح ہونا اولیا کے لئے عرفاً باعث ننگ و عار ہو''۔ (فتاویٰ ملک العلما،ص٢٠٦)۔

فقیہ اعظم حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :۔ ''کفو کا یہ معنی ہے کہ مرد عورت سے نسب وغیرہ میں اتنا کم نہ ہو کہ اس سے نکاح عورت کے اولیا کے لئے باعث ننگ و عار ہو''۔ (بہار شریعت ٧/٤٥ کفو کا بیان )۔

مجدد اعظم سید نا اعلےٰحضرت امام احمد رضا قدس سرہ فرماتے ہیں :۔ ''نسب ،مذہب ،چال چلن،پیشے کسی بات میں مرد ایسا کم نہ ہو کہ اس سے اس عورت کا نکاح عورت کے اولیا کے لئے باعث ننگ و عار ہو 'ـ' (فتاویٰ رضویہ ١٠/ ٢٧٨)۔

در مختار میں ہے :۔ ''الکفاء ۃ من کا فأہ اذا ساواہ ،والمراد ہہنامساواۃ مخصوصۃ او کون المرأ ۃ ادنیٰ ''۔ (در مختار کتاب النکاح باب الکفاء ۃ ٤/٢٠٧)۔

ردا لمحتار میں ہے :۔ ''قال القہستانی الکفاء ۃ لغۃً المساواۃ و شرعاً مساواۃ الرجل للمرأۃ فی الامور الاٰ تیۃ '' (کتاب النکاح با ب الکفاء ۃ ٤/٢٠٧)۔

کفاء ت صرف مرد کی جانب سے معتبر ہے ۔ بہارِ شریعت میں ہے :۔ ''کفاء ت صرف مرد کی جانب سے معتبر ہے عورت اگر چہ کم درجہ کی ہو اس کا اعتبار نہیں ''

اسی میں ہے :۔ ''باپ دادا کے سوا کسی اور ولی نے نابالغ لڑکے کا نکاح غیر کفو سے کر دیا تو نکاح صحیح نہیں اور بالغ اپنا خود نکاح کرنا چاہے تو غیر کفو عورت سے کرسکتا ہے کہ عورت کی جانب سے اس صورت میں کفاء ت معتبر نہیں اور نا با لغ میں دونوں طرف سے کفاء ت کا اعتبار ہے ''۔ ۔(بہار شریعت ٧/٤٥،کفو کا بیان )۔

تنویر الابصار اور در مختار میں ہے :۔ ''(الکفاء ۃ معتبرۃ)فی ابتداء النکاح للزومہ او لصحتہ (من جانبہ)ای الرجل، لان الشریفۃ تا بی ان تکون فراشاً للدنی۔ولذا (لا)تعتبر(من جانبہا )لان الزوج مستفرش فلا تغبطہ دناء ۃ الفراش ،وہٰذا عند الکل کما فی الخبازیۃ لکن فی الظہیریۃ وغیرہا :ہٰذا عندہ وعندہما تعتبر فی جانبہا ایضاً ''۔ (تنویر الابصار و در مختار ٤/٢٠٦،٢٠٧کتاب النکاح/باب الکفاء ۃ)۔

رد المحتار میں ہے :۔ ''(لکن فی الظہیریۃ الخ)لا وجہ للا ستدراک بعد ذکر الصحیح ،فانہ حیث ذکر القولین کان حق الترکیب تقدیم الضعیف والاستدراک علیہ با لصحیح ،کما فعل فی البحر وذکر ان ما فی الظہیریۃ غریب وردہ ایضاً فی البدائع کما بسطہ فی النہر ''۔ (رد المحتار کتاب النکاح /باب الکفاء ۃ ٤/٢٠٧)۔

نیز اسی میں ہے :۔ ''(من جانبہ)ای یعتبر ان یکون الرجل مکافأ لہا فی الاوصاف الاٰتیۃ بان لا یکون دونہا فیہا ،ولا تعتبر من جانبہابان تکون مکافئۃ لہ فیہا بل یجوزان تکون دونہ فیہا''۔ (رد المحتار ،کتاب النکاح،باب الکفاء ۃ٤/٢٠٧)۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

مزید علامہ شامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:۔ ''تنبیہ:تقدم ان غیر الاب والجد لو زوج الصغیر والصغیرۃ غیر کفوءٍ لا یصح، ومقتضاہ ان الکفاء ۃ للزوج معتبرۃ ایضاً،وقدمنا ان ہٰذا فی الزوج الصغیر لان ذ لک ضرر علیہ ،فھا ھنا محمول علی الکبیر ،ویشیر الیہ ما قدمناہ اٰ نفاً عن الفتح من ان معنی اعتبار الکفاءۃ اعتبارہا فی اللزوم علی الاولےائ۔ الخ فان حاصلہ :ان المرأۃ اذا زوجت نفسہا من کفوءٍ لزم علی الاولےائ،وان زوجت من غیر کفوءٍ لایلزم اولا یصح، بخلاف جانب الرجل فانہ اذا تزوج بنفسہٖ مکافئۃ لہ او لا فانہ صحیح لازم ۔وقال القہستانی:الکفاء ۃ لغۃً:المساواۃ وشرعاً:مساواۃ الرجل للمرأۃ فی الامور الاٰتیۃ ،وفیھا اشعار بان نکاح الشریف الوضعیۃ لازم فلا اعتراض للولی ،بخلاف العکس اھـ فقد افاد ان لزومہ فی جانب الزوج اذا زوج نفسہ کبیراً،لا اذا زوجہ الولی صغیراً، کما ان الکلام فی الزوجۃ اذا زوجت نفسہا کبیرۃ فتثبت اعتبار الکفاء ۃ من الجانبین فی الصغیرین عند عدم الاب والجد کما حررناہ فےما تقدم ۔واللہ تعالیٰ اعلم'' (رد المحتار ٤/٢١٧،کتاب النکاح ،باب الکفاء ۃ)۔

اس سے صاف ظاہر ہے کہ عورت بالغہ ہو یا نابالغہ اس کے ولی کی صریح رضا کے بغیر غیر کفو سے نکاح صحیح نہیں، اسی طرح نا بالغ شوہر غیر کفو سے نکاح نہیں کر سکتا ،ہاں بالغ تو کر سکتا ہے صرف اس صورت میں مرد کی جانب سے کفاء ۃ کا اعتبار نہیں ۔

نیز صاحب در مختار کی عبارت''للزومہ او لصحتہ''سے اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ ابتدائے نکاح میں کفاء ت اس لئے معتبر ہے تاکہ ولی پر یہ نکاح لازم ہو جائے اسے حق فسخ و اعتراض نہ رہے کہ ابتدائے نکاح میں کفاء ت کا اعتبار نہ ہونے کی صورت میں ولی کو اعتراض اور فسخ کا حق رہتا ہے نکاح لازم نہیں ہوتا ہے یہ حکم بر بنائے ظاہر الروایہ ہے جس پر بہت سے مشائخ نے افتا فرمایا ۔

لیکن حضرت حسن کی مختار للفتویٰ اقرب الی الاحتیاط روایت پر فساد زمانہ کے سبب ابتدائے نکاح میں کفاء ت کا اعتبار صحت نکاح کے لئے ہے ،لزوم نکاح کے لئے نہیں اس لئے کہ حضرت حسن کی روایت پر سرے سے یہ نکاح صحیح ہی نہ ہوابلکہ باطل و نا درست ہوا ۔

ردالمحتار میں ہے :۔ ''(للزومہ او لصحتہ )الاول بنائً علی ظاہر الروایۃ والثانی علی روایۃ الحسن،وقدمنا اول الباب السابق اختلاف الافتاء فیھما وأن روایۃ الحسن احوط '' (ردالمحتار ،کتاب النکاح باب الکفاء ۃ ٤/٢٠٦،٢٠٧)۔

ایک دوسرے مقام پر تنویر الابصار و در مختار کی عبارت ''(و)بنائً(علی الاول )وہو ظاہر الروایۃ'' کے تحت ہے : ''وبہ (بظاہر الرواےۃ ) افتی کثیر من المشائخ فقد اختلف الافتاء بحر لکن علمت ان الثانی اقرب الی الاحتیاط ''۔ (رد المحتار کتاب النکاح /باب الولی ٤/١٥٧،١٥٨)۔

فقیہ النفس امام قاضی خان فرماتے ہیں :۔ ''فی ظاہر الروایۃ عن ابی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالیٰ لا تعتبر الحرفۃویکون البیطار کفأً للعطار وفی قول محمد وابی یوسف رحمہما اللہ تعالیٰ واحدی الروایتین عن ابی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالیٰ صاحب الحرفۃ الاٰتیۃ کالبیطار والحجام والحائک والکناس والدباغ لایکون کفأً للعطار والبزار والصراف وھو الصحیح لان الناس یستنکفون عنہم ،وقیل ہٰذا اختلاف عصر وزمان ،فی زمن ابی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالیٰ کانوا لا یعدون الدناء ۃ فی الحرفۃ منقصۃ ویعدون ذلک فی زمانہما ''۔ (فتاویٰ خانیہ ٣٥٠،٣٥١فصل فی الکفاء ۃ )۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے :۔ ''المرأۃ زوجت نفسہا من غیر کفوءٍ صح النکاح فی ظاہر الروایۃ عن ابی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالیٰ وہو قول ابی یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ اٰخر وھو قول محمد رحمہ اللہ تعالیٰ اٰخر ایضاًوروی الحسن عن ابی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالیٰ ان النکاح لا ینعقد وبہ اخذ کثیر من مشائخنا رحمہم اللہ تعالیٰ کذا فی المحیط والمختار فی زماننا للفتویٰ روایۃ الحسن وقال شمس الائمۃ السرخسی روایۃ الحسن اقرب الی الاحتیاط کذا فی فتاویٰ قاضی خان فی فصل شرائط النکاح''۔ (عالمگیری الباب الخامس فی الاکفاء ١/٢٩٢ زکریا)۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

تبیین الحقائق میں ہے :۔ ''من نکحت غیر کفءٍ فرق الولی لما ذکرنا والنکاح ینعقد صحیحاً فی ظاہر الروایۃ '' علامہ شلبی علیہ الرحمہ حاشیہ شلبی میں فرماتے ہیں: ''اما علی الروایۃ المختارۃ للفتوی لا یصح العقد اصلا اذا زوجت نفسہا منہ''۔

درمختار میں ہے:۔ ''ویفتی فی غیر الکفوء بعدم جوازہ اصلا وھو المختار للفتوی لفساد الزمان''۔ (درمختار کتاب النکاح باب الولی ٤/١٤٦،١٥٧)۔

عقود الدریۃ میں ہے:۔ ''سئل فی امرأۃ یرید التزوج بلارضاء ولیھا وھو غیر کف ءٍ کیف الحکم فی ذلک؟ الجواب: اذا نکحتہ بلا رضاء ولیھا فرق القاضی بینھما بطلب الولی وہذا ظاہر الروایۃ عن ائمتنا ولکن المروی عن الحسن عن ابی حنیفۃ رحمہ الللہ تعالی بطلان النکاح من غیر کف ء وبہ اخذ کثیر من مشائخنا قال شمس الائمۃ الحلوائی وہذا اقرب الی الاحتیاط والاحوط سد باب التزوج من غیر کف ء قال الامام: الفتوی علی قول الحسن فی زماننا قال فی البحر المفتی بہ روایۃ الحسن عن الامام من عدم الانعقاد اصلا اذا کان لہا ولی ولم یرض بہ قبل فلایفید الرضا بعدہ اہـ مختصرا '' اس سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ اگرچہ بر بنائے ظاہر الروایۃ یہ نکاح صحیح ہے اور اس پر بہت سے مشائخ نے افتا فرمایا لیکن فساد زمانہ کے پیش نظر احوط مختا ر للفتویٰ حضرت حسن کی روایت ہے کہ یہ نکاح صحیح نہیں بلکہ باطل ہے صحت نکاح کے لئے کفاء ت کا اعتبار ضروری ہے اس لئے کسی عورت نے اپنے ولی کی صریح رضا کے بغیر غیر کفو سے نکاح کر لیا تو صحیح نہیں عورت کا ولی قبل عقداس پر راضی نہ تھا تو بعد عقد اس کی رضا مفید نہیں ہاں اگر عورت کا کوئی ولی نہیں تو بالاتفاق مطلقاً غیر کفو سے یہ عقد صحیح ہے ۔

رد المحتار میں ہے:۔ ''وہٰذا اذا کان لہا ولی لم یرض بہ قبل العقد فلا یفید الرضا بعدہ بحر واما اذا لم یکن لہا ولی فہو صحیح نافذمطلقاً اتفاقاً کما یأتی لان وجہ عدم الصحۃعلی ہذہ الروایۃ دفع الضرر عن الاولیاء اما ھی فقد رضیت باسقاط حقہا.فتح وقول البحر:''لم یرض بہ'' یشتمل ما اذا لم یعلم اصلا فلا یلزم التصریح بعدم الرضا بل السکوت منہ لا یکون رضا کما ذکرنا فلا بد حینئذ لصحۃ العقد من رضاء صریحا ،وعلیہ فلو سکت قبلہ ثم رضی بعدہ لا یفید فلیتأمل'' (ردالمحتار کتاب النکاح/باب الولی ٤/١٥٧)۔

تنویر الابصار و در مختار میں دلالۃ رضا کے متعلق ہے ۔ ''(وقبضہ)أی ولی لہ حق الاعتراض (المہر ونحوہ)مما یدل علی الرضا(رضا)دلالۃ ان کان عدم الکفاء ۃ ثابتا عند القاضی قبل مخاصمۃ والا لم یکن رضا کما (لا)یکون (سکوتہ)رضا ما لم تلد'' (در مختار ٤/١٥٩)۔

شامی میں ہے :۔ ''(ان کان الخ)کذا ذکرہ فی الذخیرۃ،وأقرہ فی البحر والنہروالشرنبلالیۃوشرح المقدسی وظاہرہ ان ہذا شرط فی الرضا دلالۃ فقط ،وان مجرد العلم بعدم الکفاء ۃ لا یکفی ہنا بخلاف الرضا الصریح حیث یکفی فیہ العلم فقط لکن ہذا مخالف لاطلاق المتون ،ولم یذکرہ فی الفتح ولا فی کافی الحاکم الذی جمع کتب ظاہر الروایۃ،وایضا فوجہہ غیر ظاہر ،الا ان یکون الفرق انحطاط رتبۃ الدلالۃ عن الصریح فلیتأمل ۔ وصورۃ المسألۃ:ان تکون ہذہ المرأۃتزوجت غیر کف ء فخاصم الولی وأثبت عند القاضی عدم الکفاء ۃ فقبض الولی المہر قبل التفریق او فرق القاضی بینھما ثم تزوجت ثانیاً بلا اذن الولی فقبض المہر '' (ردالمحتار کتاب النکاح باب الولی ٤/١٥٩ )۔

اس سے یہ روشن ہے کہ غیر کفو سے صحت نکاح کے لئے ولی کی صراحۃ رضا در کار ہے ولی کا محض سکوت رضا نہیں اس لئے کسی عورت نے ولی کی صراحۃ رضا کے بغیر غیر کفو سے نکاح کیا تو مفتیٰ بہ یہ ہے کہ یہ نکاح صحیح نہیں اگر چہ بر بنائے ظاہر الروایۃ صحیح ہے۔ علامہ شامی رحمہ اللہ تعالیٰ نے صاحب تنویر الابصار کی عبارت ''الکفاء ۃ معتبرۃ''کے تحت فرمایا : ''قالوا معناہ معتبرۃ فی اللزوم علی الاولیاء، حتی عند عدمھا جاز للولی الفسخ اھـ فتح وہذا بناء علی ظاہر الروایۃ من ان العقد صحیح وللولی الاعتراض، اما علی روایۃ الحسن المختارۃ للفتویٰ من انہ لا یصح فالمعنی معتبرۃ فی الصحۃ بہ '' (رد الحتار کتاب النکاح /باب الکفاء ۃ ٤/٢٠٦)۔

نیز دلالۃ رضا مطلقا معتبر نہیں بلکہ شرط سے مقید ہے جس کے متعلق علامہ شامی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ صاحب در مختار کی عبارت سے یہ ظا ہر ہے کہ صرف دلالۃ رضا میں یہ شرط ہے اور عدم کفاء ت کا محض علم نا کافی ہے بر خلاف صریح رضا کے کہ یہاں محض علم کافی ہے لیکن یہ متون کے اطلاق کے خلاف ہے جو نہ تو فتح القدیر اور نہ ہی کتب ظاہر الروایۃ کی جامع حاکم کی کافی میں مذکور ہے اور اس کی کوئی ظاہری وجہ بھی نہیں ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ یہ فرق اس لئے ہو کہ دلالت رضا کا درجہ صریح رضا کے درجہ سے کم ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

بہر حال ظاہر الروایۃ کا حکم واضح ہے اور حضرت حسن کی مختار للفتویٰ احوط روایت کا حکم یہ ہے کہ غیر کفو سے نکاح صحیح نہیں بلکہ باطل ہے مگر امام ابن ہمام صاحب فتح القدیر رحمہ اللہ تعالیٰ نے تفصیلی گفتگو کے بعد ارقام فرمایا کہ عیب و ننگ و عار کا مدار عرف پر ہے ارباب عرف جسے باعث ننگ و عار سمجھتے ہیں اسے باعث ننگ و عار قرار دیا جائے گا ورنہ نہیں اسی بنا پر آپ نے فرمایا کہ اسکندریہ میں حائک (جامہ باف)عطار کا کفو ہے اس لئے کہ اسکندریہ میں اسے باعث ننگ و عار نہیں سمجھا جاتا بلکہ وہاں کے عرف میں اسے اچھا جانا جاتاہے ۔

آپ رقمطراز ہیں:- ''والحق اعتبار ذلک سواء کان ہو المبنی اولا ،فان الموجب ھو استنقاص اہل العرف فیدور معہ وعلی ہٰذا ینبغی ان یکون الحائک کفأ للعطار بالاسکندریۃ لما ہناک من حسن اعتبارہا وعدم عدہا نقصا البتۃ اللہم الا ان یقترن بہ خسا سۃ غیرہا '' (فتح القدیر کتاب النکاح ٣/٣٩١برکات رضا پور بندر گجرات )۔

فقیہ اعظم حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:۔ ''ناجا ئز محکموں کی نوکری کرنے والے یا وہ نوکریاں جن میں ظالموں کا اتباع کرنا ہوتا ہے یہ سب پیشوں سے رذیل پیشہ ہے ۔اور علمائے متقد مین نے اس بارہ میں یہی فتویٰ دیا کہ اگر چہ یہ کتنے ہی مالدار ہوں تاجر وغیرہ کے کفو نہیں مگر چونکہ کفاء ت کا مدار عرف دنیوی پر ہے اور اس زمانہ میں تقویٰ دیانت پر عزت کا مدار نہیں بلکہ اب تو دنیوی وجاہت دیکھی جاتی ہے اور یہ لوگ چونکہ عرف میں وجاہت والے کہے جاتے ہیں لہٰذا علمائے متأخرین نے ان کے کفو ہونے کا فتویٰ دیا جب کہ ان کی نوکریاں عرف میں ذلیل نہ ہوں ''۔ (بہار شریعت٧/٤٦،٤٧کفو کا بیان)۔

تقریر رافعی میں ہے :۔ ''والظاہر ان المدار علی استنقاص اہل العرف ممن یعتد بہم من اصحاب الرای السدید الموافق لما جاء بہ الشرع والا لزم ہدم کثیر من مسائل الکفاء ۃ المذکورۃ فی کتب الفقہ ولزم عدم اعتبار الدیانۃ والسبب بل یلزم ان المعتبرۃ کثرۃ المال والجاہ تأمل''۔ (تقریر رافعی باب الکفاء ۃ ص ١٩٠)۔

سید نا امام احمد رضا قدس سرہ فرماتے ہیں :۔ ''ثانیا اس کی ماں زنان باز تھی اور ان بلاد کا عرف عام ہے کہ ایسے شخص سے نکاح کر دینا اولیائے زن کے لئے موجب عار ہوتا ہے اور یہی مبنائے عدم کفاء ت ہے ۔فی فتح القدیر :الموجب ھو استنقاص اہل العرف فیدور معہ لہذا اس میں سب شرائط کا لحاظ واجب ہوگا جو غیر کفو سے نکاح کرنے میں ہے ''۔ (فتاویٰ رضویہ ٥/٤٤٣باب الکفاء ۃ )۔

ہمارے مشائخ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے سد فتنہ کے لئے حسن کی روایت کو فتویٰ کے لئے اگر چہ مختار اور اقرب الی الاحتیاط قرار دیا اور یہ فرمایا کہ غیر کفو سے نکاح صحیح نہیں اگر چہ بر بنائے ظاہر الروایہ صحیح ہے مگر آج حالات کافی بدل چکے ہیں غیر کفو میں نکاح کا رواج عام ہو رہا ہے اگر چہ اس حقیقت سے بھی چشم پوشی نہیں کی جاسکتی کہ معزز اور شریف خاندان کا ایک طبقہ اسے باعث ننگ وعار سمجھتا ہے ،اس کے علاوہ لڑکوں اور لڑکیوں کی مخلوط درسگاہوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات بے اذن ولی نکاح کرلےتے ہیں اور اکثر اس میں کفاء ت عرفی کو بھی ملحوظ نہیں رکھتے اور حکومتوں کی قانونی آزادی کے سبب حکم مفتیٰ بہ پر عمل بھی متعذر ہوجاتا ہے اور نکاح کو غیر صحیح قرار دےنے کی شکل میں لڑکی کا نکاح بھی سخت مشکل ہوجاتا ہے اور گناہوں کے خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں۔

موجودہ حالات کے پیش نظر اس مسئلہ کفو پر متانت و سنجید گی سے غور و خوض کر نے اور اس کا روشن حل تلاش کرنے کے لئے آپ حضرات مفتیان کرام کی خدمات عالیہ میں درج ذیل سوالات حاضر خدمت ہیں امید کہ جواب با لصواب سے شاد کام فرمائیں گے اور امت مسلمہ کی بہتر راہ نمائی فرمائیں گے۔ جزاکم اللہ تعالیٰ خیر الجزائ۔

۱۔ شریعت مطہرہ میں کفاء ت کی اصل کیا ہے اور کس درجہ میں ہے ؟کیا آیت کریمہ :''ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم ''اور حدیث پاک ''لا فضل للعربی ولا للعجمی انما الفضل بالتقویٰ ''نکاح میں اعتبار کفاء ت کے معارض ہے ؟

۲۔ صنعت و حرفت وغیرہ میں کفاء ت کا اعتبار کیا عرف و عادت پر ہے اور آج عرف بدل چکا ہے جو ظاہر الروایۃ پر افتا اور غیر کفو میں صحت نکاح کا متقاضی ہے ؟اور کیا اس سے نکاح کے مقاصد و مصالح حاصل ہوں گے ؟

نکاح میں کفائت و عدم کفائت کا اعتبار عرف پر مبنی ہے اس لئے جن شہروں میں جس جس حرفت و صنعت کی دناء ت کا عرف نہیں رہا وہاں نکاح صحیح ہے اور جن علاقوں میں دنائت کا عرف باقی ہے وہاں متأخرین مشائخ فتویٰ کے متفقہ فتویٰ پر عمل کیا جائے کہ نکاح اصلاً نہیں نہ ہوا۔ ''ردالمحتار'' میں ہے وفی الفتح ان الموجب ھوا ستنقاص اھل العرف فیدور معہ۔ ''فتح القدیر'' میں ہے ان الموجب ھو استنقاص اھل العرف فید ورمعہ وعلی ھذا ینبغی ان یکون الحائک کفوا للعطار بالاسکندریۃ لما ھناک من حسن اعتبارھا و عدم عدھا نقصاً البتۃ''(فتح القدیر جلد ٣ صفحہ ٣٩١،کتاب النکاح) واللہ تعالیٰ اعلم۔

۲۔ روایت مفتیٰ بہا پر اگر غیر کفو سے عورت نے نکاح کیا پھر بچہ بھی پیدا ہو گیا تو اگرچہ یہ نکاح باطل ہے یعنی من وجہ باطل کہ اس نکاح کے فسخ کی حاجت نہیں اور من وجہ فاسد کہ بعد

وطی مہر مثل جو زائد از مسمی نہ ہو اور عدت واجب ہے اس لئے بچہ ثابت النسب ہوگا۔''فتاویٰ رضویہ'' میں ہے کہ روایت مفتی بہا پر ولی والی عورت کے لئے کفائت شرط صحت نکاح ہے یا ولی اقرب پیش از عقد عدم کفائت پر دانستہ اپنی رضا ظاہر کردے ۔ (صفحہ ٤٥١ جلد ٥)۔

اور''درمختار '' میں ہے (یجب مھر المثل فی نکاح فاسد)وھوالذی فقد شرطا من شرائط الصحۃ کشھود (بالوطی) فی القبل لا بغیرہ'' (درمختار برہامش ردالمحتار جلد ٢ صفحہ ٣٨٠ باب المہر مطلب فی النکاح الفاسد)۔

رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چار صاحبزادیاں ہیں اور چاروں ہی ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مبارک بطن سے پیدا ہوئیں۔ یہ چاروں سیدزادیاں‌ ہیں۔ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان میں سے دو کا نکاح یکے بعد دیگرے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کیا، جن میں سیدہ رقیہ اور سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہما شامل ہیں۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی تیسری صاحبزادی سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح ابوالعاص سے کیا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور ابوالعاص دونوں اموی تھے۔ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی صاحبزادیوں کا نکاح اموی مردوں کے ساتھ کرنے کے بعد کبھی نہیں فرمایا کہ آج کے بعد کسی ہاشمی لڑکی کا غیرہاشمی لڑکے کے ساتھ نکاح جائز نہیں۔ آپ صلیٰ‌ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ترجیح اور برتری کی بنیاد نسلی امتیازات اور خاندانی حسب و نسب، جاہ وجلال، مال و زر اور ذات و براردری رکھنے کی بجائے تقویٰ، پرہیزگاری، خوف خدا جیسی صفات عالیہ پر موقوف کی ہے۔

اگر مانعین کے پاس ممانعت کی قرآن و حدیث پر مبنی دلیل موجود ہے تو پیش کردیں۔ اگر مانعین کے دلائل ہماری دلیل سے زیادہ قوی ہوئے تو ہم اپنے مؤقف سے رجوع کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کریں گے۔(سیدہ کا غیر سیّد سے نکاح مضمون میں ہم دلائل پیش کر چکے ہیں )

معاذاللہ ہمارا دعویٰ اور عقیدہ یہ نہیں ہے کہ کوئی شخص رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم یا آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد علیہم السلام کی برابری کرسکتا ہے۔ اگر ایک پڑھی لکھی سید زادی کا نکاح اس کی پسند کے پڑھے لکھے غیرسید کے ساتھ کر دیا جائے تو غیرسید، سید نہیں بن جائے گا بلکہ یہ شرعی احکام کے عین مطابق عمل ہوگا۔ اس کی بجائے ایک پڑھی لکھی سیدہ کا نکاح زبردستی ایک ان پڑھ، بےروزگار اور جرائم پیشہ کے ساتھ صرف اس لیے کر دیا جائے کہ ہماری انا غیرسید کے ساتھ نکاح کی اجازت نہیں دیتی، شرعاً یہ نکاح جرم ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔