حسنِ یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشتِ زناں
سر کٹاتے ہیں تیرے نام پہ مردانِ عرب
پہلی جہت : اعلیٰ حضرت جناب سیدنا یوسف علی نبینا علیہ صلوة و السلام کی خدمت میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے آپ کے حُسن کو پہلے مصرعے میں ذکر کرتے ہیں۔ اور دوسرے مصرعے میں جناب سیدنا و مولانا محمد مصفطیٰ صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کا مبارک تذکرہ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس میں تضاد کیا ہے تو اختصار سے عرض کیے دیتا ہوں کہ حُسن کی بنیادی طور پر دو اقسام ہیں: حُسنِ صبیح اور حُسنِ ملیح۔ حُسنِ صبیح یعنی میٹھا حُسن اور حُسنِ ملیح یعنی نمکین حُسن۔ تفصیل اور فضائل و کمالات اپنی جگہ پھر کسی مضمون میں ان شآء اللّه بیان کرنے کی سعادت حاصل کروں گا۔ یہاں محض اتنا جان لیجیئے کہ ہمارے آقا، دو جہانوں کے مولیٰ صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کا حُسن حُسنِ ملیح ہے یعنی نمکین حُسن اور سیدنا یوسف علیہ السلام کا حُسنِ مبارک، حُسنِ صبیح۔ اور حُسنِ ملیح کو حُسنِ صبیح پر فوقیت حاصل ہے ۔
یہ مضمون چونکہ ہے ہی اھلِ محبت کے لئے تو مثال یوں سمجھیئے کہ جب مصر میں قحط پڑا تو جناب سیدنا یوسف علیہ السلام نے اپنے مبارک چہرے سے نقاب اُلٹ دیا اور تین ماہ تک خلقت آپ کے حُسن کو دیکھ کر اپنی بھوک سے بے نیاز رہی ۔ اور جب حُسنِ مصطفیٰ صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ (حالانکہ اللّه تعالیٰ نے اپنی غیرت کے سبب اپنے محبوب صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم پر اس دنیا میں ستر پردے ڈال رکھے تھے) جلوہ افروز ہوا تو جس نے سب سے زیادہ دیکھا، یعنی سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللّه تعالیٰ عنہ، تو ان کی خواہش پوچھی گئی تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ چہرۂ "و الضحیٰ" ہو اور یہ آنکھیں ہوں اور درمیان میں کوئی پردہ حائل نہ ہو ۔ المختصر حُسنِ صبیح سے طبیعت سیر ہو جاتی ہے لیکن حُسنِ ملیح کی یہ شان ہے کہ جس نے جتنا دیکھا اس نے اسی قدر چاہ کی کہ وہ اور دیکھے، اور دیکھے اور دیکھے : عارف کھڑی شریف جناب رومیٔ کشمیر میاں محمد بخش صاحب رحمتہ اللّه تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ۔ ( دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی )
تِن مہینے خلقت رجی ویکھ یوسف کنعانی
تے جنہاں محمد عربی ڈٹھا وہ رجے دوئی جہانی
دوسری جہت : شاید صاحبِ نظر افراد نے غور کیا ہو کہ فاضل بریلوی پہلے مصرعے میں حُسنِ یوسف کا تذکرہ فرما رہے ہیں جبکہ دوسرے مصرعے میں محض "تیرے نام پہ" یعنی حُسنِ مصطفیٰ صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کا مکمل بیان نہیں کیا بلکہ حُسنِ یوسف کے مقابلے میں نامِ محمد صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کو ذکر کیا ۔
تیسری جہت : اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
"حسن یوسف پہ کٹیں انگشت" اور دوسری طرف "سر کٹاتے ہیں تیرے نام پہ"
کٹیں اور کٹاتے میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن یہاں بھی دو طرح سے تشریح ہو سکتی ہے۔ ایک تو یہ کہ جناب یوسف علیہ السلام کا حُسن دیکھ کر زنان مصر کا انگلیوں کو کاٹنا صرف ایک مرتبہ ہوا جبکہ سرکار علیہ الصلوة و السلام کا نام نامی ہی ایسی تاثر رکھتا ہے کہ دنیا سر ہتھیلی پہ لیئے پھرتی ہے۔ اور دوسری تشریح اس کی یہ بنتی ہے کہ "کٹیں" یعنی انہوں نے ارادتا نہیں کاٹیں بلکہ کٹ گئیں ۔ ۔ ۔ غیر ارادتا ۔ ۔ ۔ جبکہ سرکار نامدار مدینے کے تاجدار صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کا نام ہی ایسا با برکت ہے کہ دنیا سر کو کٹانا اپنی سعادت سمجھتی ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللّه تعالیٰ علیھم اجمعین سے لے کر غازمی ملک ممتاز حسین قادری رحمتہ اللّه تعالیٰ علیھ اور غازی تنویر قادری تک بچہ بچہ ناموس آقا پر دل و جان سے قربان ہے۔
چوتھی جہت : پھر اس شعر میں دو علاقوں کا تذکرہ آیا ہے۔ پہلے مصرعے میں مصر اور دوسرے میں عرب۔ مصر اپنی تہذیب و ثقافت اور تاریخی خدوخال کے اعتبار سے نازک اندام تصور کیئے جاتے ہیں جبکہ عرب اپنی روایات کے حوالے سے جنگجو اور لڑاکا۔
پانچویں جہت : زنان اور مردان یعنی عورتیں اور مرد ۔ ۔ ۔ عورتیں بھی مصر کی اور مرد ہیں تو عرب کے۔ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں کہ مصری نازک اندام تصور کیے جاتے ہیں اور عورت کا تو تعارف ہی "صنف نازک" کہہ کر کروایا جاتا ہے جبکہ مردانِ عرب (زمانہ جہالت میں) ایسے بہادر، لڑاکا اور جنگجو کے نسلوں تک لڑتے رہیں اور رحم و کرم کے جذبے سے نا آشنا ۔ لیکن کیا ہوا کہ نامِ محمد صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کی وہ چاشنی دل میں پائی کہ "لا اله الا اللّه محمد رسول اللّه" کے پرچار کے لئے سر کٹانے میں ایک دوسرے پر سبقت لئے جا رہے ہیں۔ جب نام کی یہ تاثیر اور یہ اگن ہے تو ذرا تصور کیجیئے اس مبارک سراپے صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کا عالم کیا ہوگا ۔ سبحان اللّه ۔
یہ اعلیٰ حضرت عظیم البرکت علیہ الرحمہ کی اس عظیم شعر کی مختصر سی تشریح ہے کہ جو مختلف مواقع پر مختلف علمائے کرام رحمتہ اللّه تعالیٰ علیھم سے سننی اور اسے آپ عاشقان رسول صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم تک پہنچانے کا شرف حاصل کیا۔ اس امید کے ساتھ کہ عشقِ رسول کی یہ شمع مزید فروزاں ہو ۔
جان ہے عشق مصطفیٰ روز فزوں کرے خدا
جس کو ہو درد کا مزہ نازِ دوا اُٹھائے کیوں ۔ ( دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی )
No comments:
Post a Comment