سیدہ کا غیر سید سے نکاح ، اس مسلہ پر کچھ احباب کے سوالات اور ان کا جوابات
دو دن پہلے کچھ احباب کے بار بار سوال کرنے پر ہم نے تمام مکاتب فکر بشمول اہلسنت و جماعت حنفی علماء کے فتاویٰ جات کی روشنی میں بحوالہ مضمون پوسٹ کیا اس پر کچھ احباب نے سوال بھیجے ہیں ، کچھ کمنٹس میں اور کچھ ان بکس میں ان کا مختصر بحوالہ جواب حاضر ہے اور جنہوں نے بغیر مسلے کو سمجھے گالم گلوچ کی ان کےلیئے صرف دعا ہے کہ اللہ ایسے لوگوں کو ہدایت عطاء فرمائے آمین ۔
سیدہ کا غیر سیدہ سے نکاح اعلیٰحضرت اما احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں
مسئلہ ٤٣٦: از شہر کہنہ ٤ رمضان مبارك ١٣١٣ھ ماقولہم رحمہم الله تعالٰی اس مسئلہ میں کہ پٹھان کے لڑکے کا سید کی لڑکی سے نکاح جائز ہے یا نہیں؟ بینوا تو جروا
مسئلہ ٤٣٦: از شہر کہنہ ٤ رمضان مبارك ١٣١٣ھ ماقولہم رحمہم الله تعالٰی اس مسئلہ میں کہ پٹھان کے لڑکے کا سید کی لڑکی سے نکاح جائز ہے یا نہیں؟ بینوا تو جروا
الجواب : سائل مظہر کہ لڑکی جوان ہے اور اس کا باپ زندہ،دونوں کو معلوم ہے کہ یہ پٹھان ہے اور دونوں اس عقد پر راضی ہیں،باپ خود اس کے سامان میں ہے،جب صورت یہ ہے تو اس نکاح کے جواز میں اصلا شبہہ نہیں کما نص علیہ فی رد المحتار وغیرہ من الاسفار(جیساکہ ردالمحتار وغیرہ کتب میں اس پر نص ہے۔ت)والله تعالٰی اعلم۔(فتاویٰ رضویہ جدید جلد نمبر 11 )
سوال نمبر 1 : سیدہ کانکاح غیرسید کے ساتھ منعقد،نافذ، باطل، موقوف کیا ہو گا۔
سوال نمبر 2 : سیدہ صغیرہ ہو باپ یادادا غیرسید سے نکاح کردیں۔
سوال نمبر 3 سیدہ عاقلہ بالغہ کے اذن سے باپ دادا غیرسید سے نکاح کردیں۔
سوال نمبر 4 : سیدہ عاقلہ بالغہ اپنی مرضی سے غیرسید سے نکاح کرلے باپ دادا راضی نہ ہوں۔
سوال نمبر 5 سیدہ اپنی مرضی سے غیرسید سے نکاح کرے باپ دادا بقید حیات نہ ہوں۔
سوال نمبر 6 : سیدہ صغیرہ کا ولی اقرب صالح متقی یادنیاوی عزو شرف کا حامل ہواور وہ سیدہ صغیرہ کا نکاح غیر سید سے کر دے۔
سوال نمبر 7 : سیدہ صغیرہ کا ولی اقرب فسق وفجور وغیرہ غیر شرعی افعال میں مبتلاہواور وہ سیدہ صغیرہ کا نکاح غیر سید سے کر دے۔
سوال نمبر 8 : سادات گرامی پر نسبا عرب کا اطلاق ہو یا عجم کا۔ سوال(۹)صحیح النسب سید کا عالم غیر سید کفو ہے یا نہیں۔
سوال نمبر 9 : کسی خاص صورت میں سید کو حاصل شرف ِ نسب ختم ہو سکتا ہے یا نہیں؟
سوال نمبر 10 : حسب ونسب کی قرابت میں کیا فرق ہے؟
سوال نمبر 11 : بعض علماء نے علم کو سادات کو حاصل شرافت نسبی سے مماثل قرار دیا ہے یا زائد؟
سوال نمبر 12 : کیا علم ایک صفت اور عرض نہیں جو کسی طرح منفک بھی ہو سکتی ہے جیسے جنون وغیرہ جبکہ شرافت نسبی ایک دائمی اور مستقل چیز ہے جو کسی بھی حالت میں منفک یا ختم نہیں ہو سکتی تو دونوں کو برابر اور مماثل کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟
سوال نمبر 13 : برصغیرمیں میں سادات کرام کو مقام حاصل ہے عرف عا م میں علماء اور صلحاء کو وہ مقام حاصل نہیں تو اب فی زماننا کہہ دینا کوئی دلیل ہے جبکہ ہمیشہ ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں جیسے کچھ علماء یکتا ہونگے ضرورکچھ بعض ایسے لوگ بھی علم سے وابستہ ہو نگے جنکے متعلق علماء نے تصریح کی ہے کہ با وجود علم کے ایسے لوگ سادات سے شرف نسبی میں مماثل نہیں ہوسکتے۔
سوال نمبر 14 : کیا اجل سا دات میں علما ء آئمہ سے کسی نے بھی اپنی صاحبزادی کو غیرکفو میں دیا ہو۔کوئی مثال موجودہو تو حوالہ تحریر فرمائیں۔
ان سوالات کے جوابات
سوال نمبر 1 ، 2 ، 3 کا جواب : قریش کا ہر قبیلہ خواہ علوی ہو یا عباسی یا جعفری یا صدیقی یا فاروقی یا عثمانی یا اموی سیدہ کا کفو ہے۔سیدہ بالغہ اپنی مرضی سے ان قبائل میں نکاح کر سکتی ہے۔ اگرچہ ولی اقرب راضی نہ ہو ۔ در مختار میں ہے (فقریش) بعضھم (اکفاء)بعض ردالمحتار میں ہے:أشار بہ إلی أنہ لا تفاضل فیما بینہم من الہاشمی والنوفلی والتیمی والعدوی وغیرہم، ولہذا زوج علی وہو ہاشمی أم کلثوم بنت فاطمۃ لعمر وہو عدوی.قہستانی.فلو تزوجت ہاشمیۃ قرشیا غیر ہاشمی لم یرد عقدہا ۔ ( در مختارج۲ ص ۸۳۴)
درمختار میں ہے (فنفذ نکاح حرۃ مکلفۃ بلا) رضا (ولی) وفی التنویر ولہ اذا کا ن عصبۃ الاعتراض فی غیر الکفء (درمختارج۲ص۸۰۴)
رہیں دوسری قومیں جیسے انصاری مغل پٹھان وغیرھم کہ یہ سیدہ کے کفو نہیں لہذا ان قوموں سے سیدہ عاقلہ بالغہ باذن ولی اقرب نکاح کریگی تو نکاح منعقد نافذ ہوجائیگا۔یونہی سیدہ صغیرہ کا نکاح غیر سید سے منعقد نافذہے جبکہ باپ یا دادا کرے۔
والدلیل علی الاوّل ما فی الدر المختار فلا تحل مطلقۃ ثلاثا نکحت غیر کفء بلا رضا ولی۔وردالمحتاروانماتحل فی الصورۃ الرابعۃ وھی رضا الولی بغیر الکفء مع علمہ بانہ کذلک ۔ ( در مختارج۲ ص۹۰۴)
وعلی الثانی عبارۃ التنویر (وإن کان المزوج غیرہما) أی غیر الاب وأبیہ (لا یصح) النکاح (من غیر کف ء أو بغبن فاحش) وفی العقود الدریۃ سئل فی ھاشمی زوج صغیرتہ لغیر ہاشمی عالما بذالک راضیا بہ فھل یصح النکاح۔الجواب نعم والحالۃ ھذہ ۔ ( در مختارج۱ ص۱۲)
سوال نمبر 4 کا جواب : در مختار میں ہے (ویفتی)فی غیر الکفؤ (بعدم جوازہ اصلا)وھو المختارللفتوی(لفساد الزمان) ( در مختارج۲ ص۹۰۴)
سوال نمبر 5 کا جواب : باپ دادا سے نیچے اگر اولیاء رکھتی ہے تو نکاح باطل ہیاور اگر اولیاء نہیں رکھتی تو نکاح صحیح ہے۔ در مختار میں ہے: (ویفتی)فی غیر الکفؤ (بعدم جوازہ اصلا) ردالمحتارمیں ہے اما اذا لم یکن فھو صحیح نافذ مطلقا اتفاقا۔ در مختار میں ہے:وإن لم یکن لہا ولی فہو) أی العقد (صحیح) نافذ (مطلقا) اتفاقا وفی الشامیۃ ای سوا نکحت کفؤا او غیرہ ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
سوال نمبر 6 ، 7 کا جواب : اگر ولی اقرب باپ یا داد اہے تو نکاح غیر کفو میں صحیح ہے۔ورنہ باطل محض ۔ در مختارمیں ہے(وان کان المزوج غیرھما)ای غیرالاب والجد ولو الام او القاضی او وکیل الاب لکن فی النھر بحثا لو عین لوکیلہ القدر صح(لا یصح)النکاح(من غیر کفء اوبغبن فاحش اصلا)( در مختارج۲ص۹۱۴)
ردالمحتار میں ہے : تقدم ان غیرالاب والجد لو زوج الصغیر او الصغیرۃ غیر کفؤ لا یصح ۔ (ردالمحتارج۲ص۶۳۴)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے : والفسق لا تمنع الولایۃ ۔(فتاویٰ عالمگیری ج۱ص۴۸۲۔)
سوال نمبر 8 کا جواب : عرب کا کہ اولاد اسماعیل علیہ لسلام ہیں اوراولاد اسماعیل عرب ہیں ۔ ردالمحتار میں ہے : العرب صنفان عرب عاربۃ وھم اولاد قحطان ومتعربۃ وھم اولاد اسمٰعیل ۔(فتاویٰ عالمگیری ج۱ص ۸۳۴)
سوال نمبر 9 کا جواب : عالم اگر نیچی قوم کا نہیں نہ اس کا پیشہ ذلیل ہے تو یہ سیدہ کا کفو ہے اور اگ ایسا نہیں تو سیدہ کا کفو جب ہوگا کہ وہ عالم اپنی قومی ذلت کیساتھ معروف نہ ہو اورذلیل پیشہ کودت سے چھوڑ چکا ہو کہ لوگ اس کے پیشے کو بھول چکے ہوں اس کی وقعت قلوب میں اور اس کی عظمت نگاہوں میں چھا چکی ہو۔
فتاویٰ شامی میں ہے : وفی جامع قاضیخان قالواالحسیب یکون کفؤ للنسیب فالعالم العجمی یکون کفوا للجاہل العربی والعلویۃ لان شرف العلم فوق شرف النسب وارتضاہ فی الفتح وجزم بہ البزازی اسی میں ہے وذکر الخیر الرملی عن مجمع الفتاوی العالم یکون کفوا للعلویۃ ۔ (فتاویٰ شامی ج۲ص۴۴۴)
قال سیدی الامام احمدرضا الفاضل البریلوی قدس سرہ فی کفاۃ الرضویہ ثم اقول یجب التقیید ایضا بمااذا لم یکن من المتناھین فی الدناءۃ المعروفین بھا،کالحائک و الدباغ والخصاف والحلاق ونظرائھم، فان المدار علی وجودالعار فی عرف الامصار کما صرح بہ العلماء الکبار۔ قال المححق علی الاطلاق فی فتح القدیر الموجب ھواستنقاص اھل العرف فید ورمعہ ۔ (فتح القدیر فصل فی الکفاء ۃ نوریہ رضویہ سکھر )
وفی ردالمحتار قد علمت ان الموجب ھو استنقاص اھل العرف فید ور معہ فعلی ھذا من کان امیرا او تابعالہ وکان ذا مال ومروء ۃ وحشمۃ بین الناس لاشک ان المرأۃ لاتتعیر بہ فی العرف کتعیرھا بدباغ وحائک ونحوھما وان کان الامیر اوتابعہ اٰکلا اموال الناس لان المدار ھنا علی النقص والرفعۃ فی الدنیا ؎ اھ مختصرا(؎ ردالمحتار باب الکفاء ۃ داراحیاء التراث العربی بیروت) ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ولا شک ان العلویۃ فی بلادنا لاتتعیر بالافاغنۃ والمغول المحلین بحلیۃ العلم والفضل فانھم فی انفسھم یعدون ھنا من الشرفاء الانجاب فاذا انضاف الی ذلک فضل العلم جبر نقص نسبھم بالنسبۃ الی العلوی بخلاف الحاکۃ والحلاقین وامثالھم فان التعیربھم لایزل بعلمھم اللھم الااذا تقادم العھد وتناساہ الناس وظھرلہ الوقع فی القلوب والعظم فی العیون بحیث لم یبق العار لبنات الکبار وذٰلک قلیل جدا فی ھذہ الامصار بل لایکاد یوجد عند الاعتبار ومن عرف المدار عرف ان الحکم علیہ یدار فافھم، واللہ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔ ثم اقول (میں پھر کہتاہوں کہ) وہ عالم اس قیدسے بھی مقید ہونا ضروری ہے کہ وہ انتہائی حقیر او رمشہور کمترنہ ہو، جیساکہ
ثم اقول (میں پھر کہتاہوں کہ) وہ عالم اس قیدسے بھی مقید ہونا ضروری ہے کہ وہ انتہائی حقیر او رمشہور کمترنہ ہو، جیساکہ جولاہا، نائی، موچی، چمڑا رنگنے والا اور ان کی مثل نہ ہو کیونکہ دارومدار اس بات پر ہے کہ علاقے کے عرف میں وہ حقیر شمار نہ ہو، جیساکہ اکابر علماء نے تصریح فرمائی ہے۔ محقق علی الاطلاق نے فتح القدیر میں فرمایا کہ اہل عرف کا ناقص سمجھنا سبب ہے لہذا حکم کا دارو مدار اس پر ہی ہوگا الخ، ردالمحتارمیں ہے: آپ نے معلوم کرلیا کہ سبب وہ اہل عرف کا حقیر جانناہے تو اسی بات پر مدار ہوگااس لئے اگرکوئی امیر حاکم یا اس کا نائب اور مالدار اور سنجیدہ ہو اور لوگوں میں رعب والا ہو تو کوئی شک نہیں ایسے شخص سے عورت عار محسوس نہیں کرتی جیساکہ وہ دباغ اور جولاہے وغیرہ سے عار محسوس کرتی ہے اگرچہ حاکم اور اس کانائب ظلم کے طورپر لوگوں کے مال کھاتے ہوں _____ کیونکہ یہاں مدار دنیاوی حقارت و رفعت ہے اھ مختصرا، اس میں شک نہیں کہ علویہ لڑکی ہمارے علاقے میں افغان اور مغل جو کہ علم کے زیور سے آراستہ ہیں اور اہل فضل ہیں جو اپنے کو منتخب لوگوں اور شرفاء میں شمار کرتے ہیں ان سے عار محسوس نہیں کرتی، تو جب یہ لوگ علم وفضل کی طرف منسوب ہوں تو مزید شرافت کی بناء پرنسبی طورپر اگر علوی سے کم ہیں تو علم وفضل کی وجہ سے وہ کمی ختم ہوجاتی ہے، اس کے برخلاف جولاہے، دھوبی اور نائی موچی وغیرہ کی عارعلم کی وجہ سے ختم نہیں ہوتی، ہاں جب یہ لوگ قدیم سے یہ کام چھوڑ چکے ہوں اور لوگ معزز انداز میں ان سے مانوس ہوچکے ہوں اور لوگوں کے دلوں میں ان کا وقار اور عام نگاہوں میں ان کی وقعت قائم ہوچکی ہو کہ اب بڑے لوگوں کی لڑکیوں کے لئے عار نہیں رہے تو اور بات ہے، لیکن ایسے علاقے ہیں بہت کم ہیں جن کا اعتبار نہیں کیا جاسکتا، تاہم حقارت کا مدار عرف پر ہے، جب مدار یہ ہے کہ تو حکم اس پر ہوگا، سمجھو ____ واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔ (ت) انتھی کلام الامام واللہ تعالی اعلم بالصواب
(فتاوی رضویہ ج۱۱ ص ۴۱۲ کتاب النکاح)
سوال نمبر 10 کا جواب : ہاں ضرور جب کہ وہ مرتد ہو جائے کہ کفر وارتداد سے نسبی شرافت درکنار نسبی رشتہ ہی منقطع ہو جاتا ہے۔ قال اللہ تعالی انہ لیس من اھلک(سورہ ھود:۶۴) وقال سیدی الفاضل البریلوی فی رسالتہ المبارکۃ جزاء اللہ عدوہ نعم الکفر وان فرخ وقوعہ لاحد من اہل البیت والعیاذ باللہ ھو الذی یقطع النسبۃ بین من وقع منہ وبین شرفہ صلی اللہ تعالی وسلم ۔ (جزاء اللہ عدوہ نعم الکفر ص۲۲۱)
سوال نمبر 11 ، 12 کا جواب : شرافت علمی اور حسبی کو علماء نے شرافت نسبی سے فوق قرار دیا ہے یعنی عالم غیرسید بلکہ غیر قرشی، سیدجاہل سے اشرف وافضل اسی پر قرآن مجید واحادیث طیبہ دال ہیں ۔ قال اللہ تعالی یرفع اللہ الذین امنو منکم والذین اوتو العلم درجات ۔ (سورہ المجادلہ:۱۱)
وقال عز وجل ہل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون ۔ (سورہ الزمر:۹)
وقال عز شانہ انّ اکرمکم عند اللہ اتقاکم ۔ (سورہ الحجرات:۳۱)
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم : فضل العالم علی العابد کفضلی علی أدناکم ۔
(المعجم الکبیر:۱۱۹۷)
وقال علیہ الصلوۃ والسلام : الْعُلَمَاء ُ وَرَثَۃُ الأَنْبِیَاء ِ ۔ (شعب الایمان:۹۹۶۱)
وقال علیہ السلام : من ابطاء بہ عملہ لم یسرع بہ نسبہ ۔ (مستدرک علی الصحیحین:۹۹۲۔المعجم الاوسط:۰۸۷۳)
اگر شرف نسب حسب علم سے بڑھ کر ہوتا تو حسنین کریمین صلوات اللہ علی جدھما وعلیھما خلفاء اربعہ سے افضل ہوتے یونہی بعد کے سادات کرام صحابہ کرام سے افضل ہوتے۔علماء فرماتے ہیں کہ سید جاہل عالم عجمی آگے نہ چلے کہ عالم اس سے اشرف ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
فتاوی خیریہ میں ہے : اذا کتب العلم طافحۃ بتقدم العالم علی القرشی ولم یفرق سبحانہ وتعالی بین القرشی وغیرہ فی قولہ تعالی ہل یستوی یعلمون والذین لا یعلمون وقد صرحوا بان حق العالم علی الجاہل کحق الاستاذ علی التلمیذ ۔ (فتاوی خیریہ ج۲ص۲۶۳)
اسی میں ہے قال الزندوسی حق العالم علی الجاہل وحق الاستاذ علی التلمیذ واحد علی السواء وھو ان لا یفتح الکلام قبلہ ولا یجلس مکانہ وان غابلایرد علیہ کلامہ لا یتقدم علیہ فی مشیہ۔(فتاوی خیریہ ج۲ص۲۶۳)
در مختار میں ہے : لان شرف العلم فوق شرف النسب والمال، کما جزم بہ البزازی وارتضاہ الکمال وغیرہ، والوجہ فیہ ظاہر ولذا قیل: إن عائشۃ أفضل من فاطمۃ رضی اللہ عنہما.(در مختارص۴۴۴)
ردالمحتارمیں ہے : وذکر الخیر الرملی عن مجمع الفتاوی: العالم یکون کفؤا للعلویۃ لان شرف الحسب أقوی من شرف النسب، وعن ہذا قیل: إن عائشۃ أفضل من فاطمۃ، لان لعائشۃ شرف العلم، کذا فی المحیط. وذکر أیضا أنہ جزم بہ فی المحیط والبزازیۃ والفیض وجامع الفتاوی وصاحب الدرر،(ردالمحتارج۲ص۴۴۴)۔
سوال نمبر 13 کا جواب : شرافت وفضیلت وعدم شرافت وفضیلت کا مدار وصف کے ممکن الانفکاک ومستحیل الانفکاک ہونے پر نہیں ورنہ کئی قباحتیں لازم آئیں گی مثلا یہ کہ شرف نسب ایمان سے بڑھ جاے کہ بقول سائل کہ نسب دائم البقاء ومستحیل الانفکاک ہے اور ایمان ممکن الانفکاک ہے کیونکہ ایمان تصدیق مخصوص کا نام ہے اور تصدیق علم ہے اور سائل کو مسلم ہے کہ علم ممکن الانب نجات کیلئے کافیفکاک ہے تو نسب ایمان سے افضل ہوگیا حالانکہ یہ باطل محض ہے۔ اور نہ جہان میں اس کا کوئی قائل کہ محض ایمان بلا عمل وفضلِ نسب نجات کیلئے کافی اور محض نسب بلاایمان قطعا ناکافی۔یونہی لازم آئیگا کہ سیادت صحابیت سے اشرف ہوجائے کہ اول مستحیل الانفکاک وثانی ممکن الانفکاک ہے بصورت ارتداد تو ہر سید ہر صحابی سے افضل واشرف ہو جائے گا۔ اگر سائل کی بات تسلیم بھی کر لی جائے جب بھی مدعی ثابت نہیں ہو سکتا کہ عرض کیاجا چکا ہے کہ شرف نسب بھی ممکن الانفکاک ہے اور علم بھی ممکن الانفکاک تو شرفِ نسب شرفِ علم سے فوق کیسے ہوا ۔
سوال نمبر 14 کا جواب : اولا عدمِ ذکر،ذکرِعدم کی دلیل نہیں ہوسکتا ہے کہ کئی واقعات پیش آئے ہوں۔ثانیا اگر بالفرض کسی سید عالم نے ایسا نہ کیا ہوتویہ سند ِعدمِ جواز نہیں کہ عدمِ فعل عدمِ جواز کی دلیل نہیں ہوتا خصوصاجب خود انہوں نے جواز کی تصریحات فرمادی ہوں جن میں سے بعض اوپر مذکور ہو چکی ہیں۔ ثالثا سائل نے سوال نمبر ۴۱ تک سیدہ وغیر سیدہ کے بارے استفسار کیا کہ سیدہ کاغیرسید سے نکاح صحیح ہے یا نہیں اور جواب نمبر 1 میں گزرا کہ حضرت سیدنا مولی علی رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدہ ام کلثوم بنت فاطمۃ الزہرا بنت النبی سلام اللہ علیہ وعلیھم کا نکاح حضرت سیدنا عمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہ سے کیا تھا تو یہ نکاح سیدہ کا غیر سید سے ہوا گوکفومیں ہوا۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment