جنگ آزادی کے نام نہاد ہیرو سر سیّد احمد خان کے عقائد و نظریات
سکولز، کالجز، یونیورسٹیز، کوچنگ سینٹرز نیز عوام و خواص کے ذہن میں جنگ آزادی کے اعتبار سے ایک نام نمایاں طور پر سامنے لایا جاتا ہے اور وہ ’’سرسید احمد خان‘‘ کا ہے مگر تصویر کا ایک رخ ہی فقط لوگوں کے سامنے رکھا جاتا ہے اور اس کے عقائد فاسدہ جو اسلام کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہیں وہ لوگوں کو نہیں بتائے جاتے۔ آیئے اس کے عقائد کو جانیئے۔ ہم نے بلا تبصرہ ان کی اصل کتابوں سے نقل کردیئے ہیں ۔ کتابیں مارکیٹ میں عام ہیں جس کا جی چاہے خریدے اور اصل کتاب سے مذکورہ حوالہ جات کو ملائے۔
اللہ عز و جل کے بارے میں عقائد
اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں فرماتا ہے کہ اس کا پسندیدہ دین اسلام ہے مگر احمد خاں اس پر راضی نہیں وہ کہتا ہے ،جو ہمارے خدا کا مذہب ہے، وہی ہمارا مذہب ہے، خدا نہ ہندو ہے نہ عرفی مسلمان، نہ مقلدنہ لا مذہب نہ یہودی نہ عیسائی وہ تو پکا چھٹا ہوا نیچری ہے۔ (مقالات سرسید، حصہ15 ص 147، ناشر مجلس ترقی ادب)
نیچر خدا کا فعل ہے اور مذہب اس کا قول ہے اور سچے خدا کا قول اور فعل کبھی مخالف نہیں ہو سکتا ۔ اسی لیے ضرور ہے کہ مذہب اور نیچر متحد ہو۔ (خود نوشت، ضیاء الدین لاہوری، ص 56)
نبوت کے بارے میں عقائد
علمِ عقائد کی تقریباً ساری کتابوں میں نبی کی یہ تعریف لکھی گئی ہے ’’نبی وہ مرد ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مبعوث کیا احکام کی تبلیغ کے لیے اور یہی معنی عوام میں مشہور و معروف اور یہی حق ہے مگر سر سید کہتا ہے کہ ’’نبوت ایک فطری چیز ہے …ہزاروں قسم کے ملکات انسانی ہیں، بعض دفعہ کوئی خاص ملکہ کسی خاص انسان میں ازروئے خلقت و فطرت ایسا قوی ہوتا ہے کہ وہ اس کا امام یا پیغمبر کہلاتا ہے، لوہار بھی اپنے فن کا امام یا پیغمبر ہو سکتا ہے، شاعر بھی اپنے فن کا امام یا پیغمبر ہو سکتا ہے، ایک طبیب بھی اپنے فن کا امام یا پیغمبر ہو سکتا ہے‘‘ (تفسیر القرآن، احمد خان، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور ا/23-24)
جتنے پیغمبر گزرے سب نیچری تھے ۔ (مقالات سرسید، حصہ 15، ص 147، ناشر: مجلس ترقی ادب)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شان میں گستاخی
حج جو اس بڈھے (ابراہیم علیہ السلام) خدا پرست کی عبادت کی یادگاری میں قائم ہوا تھا تو اس عبادت کو اسی طرح اور اسی لباس میں ادا کرنا قرار پایا تھا۔ جس طرح اور جس لباس میں اس نے کی تھی، محمدﷺ نے شروع سویلزیشن (تہذیب) کے زمانے میں بھی اس وحشیانہ صورت اور وحشیانہ لباس کو ہمارے بڈھے دادا کی عبادت کی یادگار میں قائم رکھا (تفسیر القرآن: سرسید احمد خان، جلد 1ص 206، رفاہ عام سٹیم پریس، لاہور)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شان میں گستاخی
پس اگر موسیٰ کو کوئی ٹرگنا میٹری کا قاعدہ نہ آتا ہو اوراس نے اس کے بیان میں غلطی کی ہو تو اس کی نبوت و صاحب وحی والہام ہونے میں نقصان نہیں آتا کیونکہ وہ ٹرگنامیٹری یا اسٹرانومی کا ماسٹر نہیں تھا۔ وہ ان امور میں تو ایسا ناواقف تھا کہ ریڈسی (Red Sea) کے کنارہ سے کنعان تک کا جغرافیہ بھی نہیں جانتا تھا اور یہی اس کا فخر اور یہی دلیل اس کے نبی اولوالعزم ہونے کی تھی‘‘ (مقالات سرسید، جلد 13ص 396)
حضرت عیسٰی علیہ السلام کی شان میں گستاخی
آج تک ملت اسلامیہ اس بات پر متفق ہیں کہ عیسٰی علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے مگر سرسید کہتا ہے : میرے نزدیک قرآن مجید سے ان کا بے باپ ہونا ثابت نہیں ہے‘‘ (مکتوبات سرسید، حصہ 2ص 116)
اور وہ (حضرت مریم رضی اﷲ عنہا) حسب قانون فطرت انسانی اپنے شوہر یوسف سے حاملہ ہوئیں‘‘ (تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، جلد 2ص 30، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور)
حضور علیہ السلام کی شان میں گستاخی
ایک یتیم بن ماں باپ کے بچے کا حال سنو جس نے نہ اپنی ماں کے کنار عافطت کا لطف اٹھایا، نہ اپنے باپ کی محبت کا مزہ چکھا، ایک ریگستان کے ملک میں پیدا ہوا اور اپنے گرد بجز اونٹ چرانے والوں کے غول کے کچھ نہ دیکھا،اور بجز لات ومنت و عزیٰ کو پکارنے کی آواز کے کچھ نہ سنا مگر خود کبھی نہ بھٹکا‘‘ (تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، جلد 1ص 19، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور)
خضر علیہ السلام کے بارے میں عقیدہ
اور کچھ شبہ نہیں رہتا کہ یہ پرانے قصوں میں کا ایک فرضی نام ہے اور اس کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اصلی واقعات کے ساتھ شامل کردیاہے‘‘ (تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، رفاہ عام سٹیم، پریس لاہور)
معجزات کے بارے میں عقائد
معراج: حالت خواب میں ہوئی : معراج کی نسبت جس چیز پر مسلمانوں کو ایمان لانا فرض ہے، وہ اس قدر ہے کہ پیغمبر خدا نے اپنا مکہ سے بیت المقدس پہنچنا ایک خواب میں دیکھا اوراسی خواب میں انہوں نے درحقیقت اپنے پروردگار کی بڑی بڑی نشانیاں مشاہدہ کیں… مگر اس بات پر یقین رکھنا چاہئے کہ آنحضرت ﷺ نے جو کچھ خواب میں دیکھا یا وحی ہوئی یا انکشاف ہوا وہ بالکل سچ اور برحق ہے‘‘ (خطبات سرسید ص 427، ناشر مجلس ترقی ادب)
چاند کے دو ٹکڑے ہونے کاانکار
شق القمر کا ہونا محض غلط ہے اور بانی اسلام نے کہیں اس کا دعویٰ نہیں کیا‘‘ (تصانیف احمدیہ، حصہ اول، جلد 1ص 21)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے معجزات کا انکار
ہمارے علمائے مفسرین نے قرآن مجید کی آیتوں کی یہی تفسیر کی کہ حضرت ابراہیم آگ میں ڈالے گئے تھے اور وہ وہاں سے صحیح سلامت نکلے، حالانکہ قرآن مجید کی کسی آیت میں اس بات کی نص نہیں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ میں ڈالے گئے تھے ‘‘ (تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، حصہ 8، ص 206-208، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور)
انہوں (حضرت ابراہیم علیہ السلام) نے رویا میں خدا سے کہا کہ مجھ کو دکھایا بتا کہ تو کس طرح مردے کو زندہ کرے گا پھر خواب میں خدا کے بتلانے سے انہوں نے چار پرند جانور لئے اور ان کا قیمہ کرکے ملادیا اور پہاڑوں پر رکھ دیا اور پھر بلایا تو وہ سب جانور الگ الگ زندہ ہوکر چلے آئے‘‘ (تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا انکار
انہوں (حضرت موسیٰ علیہ السلام) نے اس خیال سے کہ وہ لکڑی سانپ ہے اپنی اٹھی پھینکی اور وہ ان کو سانپ یا اژدھا دکھائی دی یہ خود ان کا تصرف تھا اپنے خیال میں تھا وہ لکڑی، لکڑی ہی تھی اس میں فی الواقع کچھ تبدیلی نہیں ہوئی تھی‘‘ (تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، جلد 13،ص 171، رفاہ عام سٹیم، پریس لاہور)
حضرت عیسٰی علیہ السلام کے معجزات کا انکار
قرآن کریم کی صراحت کے مطابق آج تک ملت اسلامیہ اس بات پر متفق ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام سے ٭ مردوں کو زندہ کرنا ٭ مادر زاد اندھوں کو بینا کردینا ٭ مٹی کی مورت میں پھونک کر اسے زندہ پرندہ بنادینا ثابت ہے۔
مگر سرسید ان تمام کا انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ : حضرت عیسٰی علیہ السلام بچپنے میں لڑکوں کے ساتھ کھیلنے میں مٹی کے جانور بنالیتے تھے اور جیسے کبھی کبھی اب بھی ایسے مواقعوں پر بچے کھیلنے میں کہتے ہیں کہ خدا ان میں جان ڈال دے گا، وہ بھی کہتے ہوں گے…‘‘ (تفسیر قرآن، سرسید احمد خان، جلد 2، ص 154، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
قرآن نے اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی امر وقوعی (واقعی امر) نہ تھا بلکہ صرف حضرت مسیح کا خیال زمانہ طفولیت (بچپنا) میں بچوں کے ساتھ کھیلنے میں تھا‘‘ (تفسیر قرآن سرسید احمد خان، جلد 2ص 159، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور)
یونہی اس سرسید نے اس بات کا بھی انکار کیا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام اندھوں اور کوڑھیوں کو بھلا چنگا کردیتے تھے اور اس بات کو بھی نہیں مانا کہ وہ مردوں کو زندہ کردیتے تھے (دیکھئے تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، جلد 2ص 159، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور)
قرآن کے بارے میں عقائد
قرآن مجید کی فصاحت بے مثل کو معجزہ سمجھنا ایک غلط فہمی ہے ۔ (تصانیف احمدیہ حصہ 1جلد 1ص 21)
ہم نے تمام قرآن میں کوئی ایسا حکم نہیں پایا اور اس لئے ہم کہتے ہیں کہ قرآن میں ناسخ و منسوخ نہیں ہے‘‘ (تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، جلد 1،ص 143، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور)
فرشتوں کے بارے میں عقائد
جن فرشتوں کا ذکر قرآن میں آیا ہے ان کا کوئی اصلی وجود نہیں ہوسکتا بلکہ خدا کی بے انتہا قوتوں کے ظہور کو اور ان قویٰ کو جو خدا نے اپنی تمام مخلوق میں مختلف قسم کے پیدا کئے ہیں ملک یا ملائکہ کہتے ہیں‘‘ (تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، جلد 1ص 42، رفاہ عام سٹیم پریس، لاہور)
جبریل نام کا کوئی فرشتہ نہیں نہ وہ وحی لے کر آتا تھا بلکہ یہ ایک قوت کا نام ہے جو نبی میں ہوتی ہے‘‘ (تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، جلد 1ص 130، رفاہ عام سٹیم پریس، لاہور)
جنات کے بارے میں عقائد
جس طرح جنوں کی مخلوق کو مسلمان نے تسلیم کیا ہے ایسی مخلوق کا وجود قرآن سے ثابت نہیں (مقالات سرسید احمد حصہ 2ص 180، ناشر مجلس ترقی ادب، لاہور)
شیطان کوئی جدا مخلوق نہیں بلکہ انسان ہی میں موجود ایسی قوت جو شر کی طرف لے جائے اسے شیطان کہتے ہیں‘‘ (خود نوشت ص 70، ضیاء الدین لاہور، جمعیتہ پبلی کیشنز)
عذاب قبر کے بارے میں عقیدہ
اگر عذاب قبر میں گناہ گاروں کی نسبت سانپوں کا لپٹنا اور کاٹنا بیان کیاجائے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ درحقیقت سچ مچ کے سانپ جن کو ہم دنیا میں دیکھتے ہیں۔ مردے کو چمٹ جاتے ہیں بلکہ جو کیفیت گناہوں سے روح کو حاصل ہوتی ہے۔ اس کا حال انسانوں میں رنج و تکلیف ومایوسی کی مثال سے پیدا کیا جاتا ہے جو دنیا میں سانپوں کے کاٹنے سے انان کوہوتی ہے، عام لوگ اورکٹ ملا اس کو واقعی سانپ سمجھتے ہیں‘‘ (تہذیب الاخلاق جلد 2ص 165)
مسٹر احمد خان علی گڑھی نے یونہی میزان، پل صراط، اعمال نامے اور شفاعت کا بھی انکار کیا ہے (دیکھئے تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، جلد3ص 73، رفاہ عام سٹیم پریس، لاہور)
ایسے ہی لوگوں کے متعلق علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا
خود کو بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
امام مہدی علیہ السّلام کے بارے میں عقیدہ
ان غلط قصوں میں سے جو مسلمانوں کے ہاں مشہور ہیں ایک قصہ امام مہدی آخر الزماں کے پیدا ہونے کا ہے اس قصے کی بہت سی حدیثیں کتب احادیث میں بھی مذکور ہیں مگر کچھ شبہ نہیں کہ سب جھوٹی اور مصنوعی ہیں… اور ان سے (احادیث سے) کسی ایسے مہدی کی جو مسلمانوں نے تصور کررکھا ہے اور جس کا قیامت کے قریب ہونا خیال کیا ہے بشارت مقصود نہیں تھی‘‘ (مقالات سرسید، حصہ 6ص 121، ناشر مجلس ترقی ادب)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
صور پھونکنے کی حقیقت
’تمام علمائے اسلام صور کو ایک شے، موجود فی الخارج اور اس کے لئے پھونکنے والے فرشتے یقین کرتے ہیں اور عموماً مسلمانوں کا اعتقاد یہی ہے… پس جن عالموں کی یہ رائے ہے وہ بھی مثل ہمارے نہ صور کے لغوی معنی لیتے ہیں اور نہ صور کے وجود فی الخارج کو مانتے ہیں اورنہ اس کے وجود کی اور نہ اس کے پھونکنے والوںکی ضرورت جانتے ہیں ۔ (مقالات سرسید: حصہ 13،ص 282-283، ناشر مجلس ترقی ادب)
دیدار باری تعالیٰ
خدا کا دیکھنا، دنیا میں نہ ان آنکھوں سے ہوسکتا ہے اور نہ ان آنکھوں سے جو دل کی آنکھیں کہلاتی ہیں اور نہ قیامت میں کوئی شخص خدا کو دیکھ سکتا ہے‘‘ (تفسیر القرآن: سرسید احمد خان، رفاہ عام سٹیم، پریس لاہور)
روزہ نہ رکھنے کی عام اجازت
جو لوگ کہ روزہ رکھنے کی نہایت تکلیف اور سختی اٹھا کر طاقت رکھتے ہیں ان کو اجازت ہے کہ روزے رکھنے کے بدلے فدیہ دے دیں‘‘ (مقالات سرسید: حصہ 15ص 390، ناشر مجلس ترقی ادب)
شراب
شراب کی حرمت جب تک نہ ہوئی تھی تمام انبیاء سابقین اور اکثر صحابہ اس کے مرتکب ہوئے‘‘ (خود نوشت، ضیاء الدین لاہوری ص 155، جمعیتہ پبلی کیشنز)
عیسائی
البتہ میری خواہش رہی کہ مسلمانوں اور عیسائیوں میں محبت پیدا ہو کیونکہ قرآن مجید کے موافق اگر کوئی فرقہ ہمارا دوست ہوسکتا ہے تو وہ عیسائی ہیں‘‘ (مکتوبات سرسید، جلد 1ص 3، ناشر مجلس ترقی ادب)
مسلمانوں کو ہندو کہہ سکتے ہیں
پس مسلمانوں اور ہندوئوں میں کچھ مغائرت نہیں ہے جس طرح آریہ قوم کے لوگ ہندو کہلائے جاتے ہیں، اسی طرح مسلمان بھی ہندو یعنی ہندوستان کے رہنے والے کہلائے جاسکتے ہیں‘‘ (مقالات سرسید، حصہ 15، ص 41، ناشر مجلس ترقی ادب)
ایصال ثواب
ایک کے فعل کا خواہ وہ اس قسم سے ہو جس کو عبادت بدنی کہتے ہیں اور خواہ اس قسم سے ہو جس کو عبادت مالی کہتے ہیں دوسرے پر خواہ زندہ ہو یا مردہ کچھ اثر نہیں ہوتا‘‘ (خود نوشت، ص 139، ضیاء الدین لاہوری، جمعیتہ پبلی کیشنز)
مرزا قادیانی
حضرت مرزا صاحب کی نسبت زیادہ کدوکاوش کرنی بے فائدہ ہے۔ ایک بزرگ زاہد اور نیک بخت آدمی ہیں… ان کی عزت اور ان کا ادب کرنا بہ سبب ان کی بزرگی اور نیکی کے لازم ہے‘‘ (خطوط سرسید)
انگریزوں سے محبت
البتہ میری خواہش رہی کہ مسلمانوں اور عیسائیوں میں محبت پیدا ہو کیونکہ قرآن مجید کے موافق اگر کوئی فرقہ ہمارا دوست ہو سکتا ہے تو وہ عیسائی ہیں۔ (مکتوبات سر سید ج ا ص 3 ناشر مجلس ترقی ادب) حالانکہ قرآن میں ان کی دوستی سے منع کیا گیا ہے اور فرمایا گیا، جو ان سے دوستی کرے گا وہ انہی میں سے ہے اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (سورۃ المائدہ آیت:51)
گو ہندوستان کی حکومت کرنے میں انگریزوں کو متعدد لڑائیاں لڑنی پڑی ہوں مگر درحقیقت انہوں نے یہاں کی حکومت بہ زول حاصل کی اور نہ مکروفریب سے۔ بلکہ درحقیقت ہندوستان کو کسی حاکم کی اس کے اصلی معنوں میں ضرورت تھی سو اس ضرورت نے ہندوستان کو ا نکا محکوم بنادیا‘‘ (حیات جاوید: جلد 2ص 241-242 ناشر بک ٹاک لاہور)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
جن مسلمانوں نے سرکار (انگریز) کی نمک حرامی اور بدخواہی کی میں ان کا طرف دار نہیں ہوں۔ میں ان سے بہت زیادہ ناراض ہوں اور ان کو حد سے زیادہ برا جانتا ہوں کیونکہ یہ ہنگامہ ایسا تھا کہ مسلمانوں کو اپنے مذہب کے بموجب عیسائیوں کے ساتھ رہنا چاہئے تھا جو اہل کتاب اور ہمارے مذہبی بھائی بند ہیں‘‘ (حیات جاوید جلد 1ص 158 بک ٹاک لاہور)
تمام اہل ہند ناظم کشور ہندو وائسرائے لارڈ کیننگ دام اقبالہم کا یہ رحم اور احسان کبھی دل سے نہیں بھولیں گے جس میں تمام اصلی حالات فساد پر غور کرکے اس پر رحم اشتہار کے جاری ہونے کی صلاح دی… تمام اہل ہند اس کے اس احسان کے بندے ہیں اور دل و جان سے اس کو دعا دیتے ہیں۔ الٰہی تو ہماری دعا کو قبول کر۔ آمین الٰہی جہان ہو اور ہمارا وائسرائے لارڈ کیننگ ہو‘‘ (خطبات سرسید: ص 34، ناشر مجلس ترقی ادب)
خدارا انصاف! یہ انگریز کا ایجنٹ مرزا قادیانی کی طرح آزادی کا درس دے رہا ہے یا انگریزی کی غلامی کا اور پھر اس کا عقیدہ بھی اسلامی نہیں ہے اگر اس نے کوئی مسلمانوں کی خدمت کی ہے تو اس میں کوئی تعجب و حیرانگی والی بات نہیں ہے اللہ تعالیٰ فاسق و فاجر لوگوں سے بھی اس دین کی مدد کرا دیتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ کرتے ہیں کہ ہم غزوہ حنین میں رسولﷺ کی بارگاہ میں حاضر تھے تو رسولﷺ نے ایک ایسے شخص کے بارے میں جو اسلام کا دعویٰ کرتا تھا فرمایا: کہ یہ جہنمی ہے۔ جب میدانِ کارزار گرم ہوا تو اس شخص نے قتل وقتال میں بڑھ چڑھ کر کار گزاری دکھائی۔ پس وہ زخمی ہو گیا۔ بارگاہِ رسالتﷺ میں عرض کی گئی کہ جس شخص کے متعلق آپﷺ نے فرمایا تھا کہ وہ جہنمی ہے آج کافروں سے بڑی جان توڑ کر لڑا اور مر چکا ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا: وہ جہنمی ہے۔ راوی کہتے ہیں بعض صحابہ اس فرمان کی تہہ تک نہ پہنچ سکے۔ اسی اثناء میں کسی نے کہا کہ وہ مرا نہیں بلکہ وہ سخت زخمی ہے۔ جب رات ہوئی تو وہ زخم پر صبر نہ کر سکا اور خود کشی کر لی۔ جب رسول اللہﷺ کو یہ بات بتائی گئی تو آپﷺ نے نعرہ ٔ تکبیر بلند کیا اور فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ بیشک میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ پھر آپﷺ نے حضرت بلال کو لوگوں میں علان کرنے کا حکم فرمایا ’’ کہ جنت میں مسلمان کے سوا کوئی داخل نہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ اس دین کی فاجر و فاسق شخص کے ذریعے بھی مدد فرماتا ہے۔‘‘ (بخاری حدیث: 3062کتاب الجہاد باب، مسلم حدیث: 111 کتاب الایمان: مشکوۃ 5892 کتاب الفضائل باب المعجزات)
یعنی بغیر ایمان اور عقیدہ صحیحہ کوئی نیکی جنت میں پہنچنے کا ذریعہ نہیں تمام نیکیوں کی درستی کےلیے ایمان ایسا ہی ضروری ہے جیسے نماز کے لیے وضو یا جیسے درخت کی سرسبزی کے لیے جڑ کا درست ہونا ۔ بہر حال وہ حرام موت مرا یا کافر ہو کر مرا یا فاسق ہو کر ظاہر یہ ہے کہ کافر ہو کر مرا ظاہری حالت لوگوں نے دیکھ لی کہ اس نے خود کشی کی دل کی حالت کی خبر حضورﷺ نے دے دی اُس کا یہ کام اُس کے دلی کفر کی علامت بن گیا ۔ دوسری بات یہ ہے کہ سر سید نہ کہا جائے بلکہ اس کا نام لیا جائے احمد خاں کیونکہ حدیث میں ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا: منافق کو سید (سردار) نہ کہو کہ اگر وہ سید ہوا تو تم نے اپنے رب کو ناراض کر دیا۔ (ابوداؤد 4977 مشکوۃ کتاب الادب باب الاسامی حدیث 4780) مفتی احمد یار خان نعیمی فرماتے ہیں اس حکم میں کافر، فاسق، منافق سب ہی داخل ہیں بلا ضرورت خوشامد کے لیے ان لوگوں کو ایسے الفاظ کہنا سخت جرم ہے۔ بے دین ذلیل ہے سید عزت والا ہوتا ہے تعظیمی الفاظ کفار کے لیے استعمال کرنا رب تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث اور حرام ہیں۔ ضرورتِ دینی یا ضرورتِ دنیاوی کی وجہ سے یہ کہنا معاف ہے۔ یوں ہی بے دینوں کو مولانا تعظیماً کہنا جائز نہیں کہ مولیٰ تو سید سے بھی زیادہ تعظیم کا لفظ ہے ہاں اگر مولیٰ بمعنی غلام مراد لے تو جائز ہے۔ (مراۃ شرح مشکوۃ ج 8 ص 295)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment