عقیقہ کے شرعی مسائل و احکام
عقیقہ کے لغوی معنی کاٹنے کے ہیں۔شرعی اصطلاح میں نومولود بچہ یا بچی کی جانب سے اسکی پیدائش کے ساتویں دن جو خون بہایا جاتاہے۔ اُسے عقیقہ کہتے ہیں۔ عقیقہ کرنا سنت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین سے صحیح اور متواتر احادیث سے ثابت ہے۔
کیا بچہ اور بچی کے عقیقہ میں کوئی فرق ہے ؟
بچہ اور بچی دونوں کا عقیقہ کرنا سنت ہے، البتہ احادیث کی روشنی میں صرف ایک فرق ہے ، وہ یہ ہےکہ بچہ کے عقیقہ کے لئے دو اور بچی کے عقیقہ کے لئے ایک بکرا/بکری ضروری ہے۔ لیکن اگر کسی شخص کے پاس بچہ کے عقیقہ کے لئے دو بکرے ذبحہ کرنے کی استطاعت نہیں ہے تو وہ ایک بکرا سے بھی عقیقہ کر سکتا ہے ، جیساکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ابو داود میں موجود ہے۔
بچہ اور بچی کے عقیقہ میں فرق کیوں رکھا گیا ؟
اسلام نے عورتوں کو معاشرہ میں ایک ایسا اہم اور باوقار مقام دیاہے، جو کسی بھی سماوی یا خود ساختہ مذہب میں نہیں ملتا ، لیکن پھر بھی قرآن کی آیاتو احادیث شریفہ کی روشنی میں یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالی نے اس دنیا کے نظام کو چلانے کے لئے مردوں کو عورتوں پر کسی درجہ میں فوقیت دی ہے، جیساکہ دنیا کے وجود سے لیکر آج تک ہر قوم میں اور ہر جگہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ مثلا حمل و ولادت کی تمام تر تکلیفیں اور مصیبتیں صرف عورت ہی جھیلتی ہے۔ لہذا شریعت اسلامیہ نے بچہ کے عقیقہ کے لئے دو اور بچی کے عقیقہ کے لئے ایک خون بہانے کا جو حکم دیا ہے، اس کی حقیقت خالق کائنات ہی بہتر جانتا ہے
کیا بالغ مرد و عورت کا بھی عقیقہ کیا جا سکتا ہے ؟
جس شخص کا عقیقہ بچپن میں نہیں کیا گیا، جیساکہ عموما ہندوستان اور پاکستان میں عقیقہ چھوڑ کر چھٹی وغیرہ کرنے کا زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے، جو کہ غلط ہے۔ لیکن اب بڑی عمر میں اس کا شعور ہو رہا ہے، تو وہ یقینا اپنا عقیقہ کر سکتا ہے، کیونکہ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے اعلان نبوت کے بعد اپنا عقیقہ کیا اخرجہ ابن حزم فی "الحلی" ، والطحاوی فی "المشکل"، نیز احادیث میں کسی بھی جگہ عقیقہ کرنے کے آخری وقت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ بڑی بچی کے سر کے بال منڈوانا جائز نہیں ہے۔ ایسی صورت میں بال نہ کٹوائیں، کیونکہ بال کٹوائے بغیر بھی عقیقہ کی سنت ادا ہو جائے گی۔
عقیقہ سے مراد بکری وغیرہ کو بچے کی پیدائش پر ذبح کرنا ہے، عقیقہ کرنا سنت ہے، کوئی کرے تو ثواب ہوگا نہ کرے تو گناہ نہیں ہے۔ حدیث مبارکہ میں آتا ہے :عن سلمان بن عامر الضبی قال سمعت رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم يقول مع الغلام عقيقة، فاهريقوا عنه دماً و اميطوا عنه الا ذی.(رواه البخاری)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
سلمان بن عامر الضبی فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ بچے کی ولادت پر عقیقہ ہے، پس تم تم اس کی طرف سے خون بہاؤ (یعنی بکری ذبح کرو) اور اس سے تکلیف کو دور کرو۔
ابو درداء کی روایت میں ہے :عن الغلام شامتين و عن الجارية شامة.(رواه ابو داؤد والنسائی)
بچے کی طرف سے دو بکریاں اور بچی کی طرف سے ایک بکری ذبح کرو۔
مستحب اور بہتر یہی ہے کہ ساتویں دن عقیقہ ہو جائے اگر کسی وجہ سے نہ کر سکیں، تو طریقہ یہ ہے کہ جس دن بچہ پیدا ہوا ہے اس کے ساتویں دن کا حساب کریں۔ مثلاً جمعہ کو پیدا ہوا تو عمر بھر میں جب بھی کرنا ہو تو جمعرات کو عقیقہ کریں، تو یہ ساتواں دن بن جاتا ہے۔ باقی جانور کے لیے وہی شرائط ہیں جو قربانی کے جانور کے لئے ہیں۔نوٹ : عقیقہ قربانی کے حصوں میں سے بھی ادا ہو جاتا ہے۔
عقیقہ ہر بچے کی طرف سے کرنا سنت ہے۔ بہتر یہ ہے کہ لڑکے کی طرف سے دو بکرے یا گائے میں دو حصے۔ لڑکی کی طرف سے ایک بکرا یا گائے میں ایک حصہ۔ اگر لڑکے لڑکی دونوں کی طرف سے ایک ایک بکرا، بھیڑ۔ دنبہ چھترا یا گائے کے سات حصوں میں فی کس ایک ایک حصہ بھی ڈال دیا جائے تو جائز ہے۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔من ولد له ولد فاحب ان ينسک عنه فلينسک عن الغلام شاتين و عن الجاريه شاه.
جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اور اس کی طرف سے ذبح کرنا چاہے تو لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کرے۔
ابوداؤد، السنن، 3 : 107، رقم : 2842، دارالفکر
بریدہ کہتے ہیں، زمانہ جاہلیت میں ہم میں سے کسی کے ہاں لڑکا پیدا ہوتا، تو بکری ذبح کر کے اس کے خون کو بچے کے سر پر مل لیتے۔
جب اسلام آیا تو فرمایا :کنا نذبح الشاه يوم السابع و نحلق راسه ونلطخه بزعفران.
ہم ساتویں دن بکری ذبح کرتے بچے کے بال اتارتے اور سر پر زعفران ملتے۔‘‘
(ابوداؤد، السنن، 3 : 107)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں۔مع الغلام عقيقه فاهريقوا عنه دما واميطوا عنه الاذی.(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
لڑکے کے ساتھ عقیقہ ہے۔ اس کی طرف سے خون بہاؤ اور تکلیف ہٹاؤ۔‘‘
ترمذی، السنن، 3 : 496، رقم 1191، داراحیاء التراث العربی، بیروت
عقیقہ اور صدقہ میں فرق
حدیث پاک میں ہے : امام ابو داؤد، امام ترمذی اور امام نسائی رحمہ اللہ اُم کرز رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لڑکے کی طرف سے دو بکڑیاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکڑی ذبح کی جائے اور کوئی حرج نہیں کہ نَر ہو یا مادہ۔
ایک اور حدیث میں ہے : امام احمد، امام ابو داؤد، امام ترمذی اور امام نسائی حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا : لڑکا اپنے عقیقے میں گروی ہے ساتویں دن اسکی طرف سے جانور ذبح کیا جائے اور اس کا نام رکھا جائے اور سر کے بال کاٹے جائیں۔
ہمارے احناف کے نزدیک عقیقہ کرنا سنت ہے۔ ساتویں دن جب عقیقہ کیا جائے گا تو سنت ادا ہو جائے گی لیکن جانور میں وہی صفات ہونا ضروری ہے جو قربانی کے جانور کے لیے ہیں۔
باقی صدقہ عام ہے چاہے کوئی جانور ذبح کرے، رقم دے دیں یا کھانا کھلائیں وغیرہ وغیرہ۔ عقیقہ کا گوشت مالدار اور غریب دونوں کھا سکتے ہیں۔ عیدالاضحیٰ کے دن قربانی میں ساتواں حصہ عقیقہ کی نیت سے مقرر کرنا بھی درست ہے۔ (کتب فقہ)
قربانی کے بڑے جانور سے عقیقہ بھی کیا جا سکتا ہے
قربانی کے حصوں میں سے عقیقہ کے لیے بھی حصہ رکھا جا سکتا ہے۔
و کذالک ان اراده بعضهم العقيقه عن ولد ولدله من قبل.(فتاویٰ عالمگيريه، 5 : 304)
اسی طرح اگر قربانی کے حصوں میں بعض افراد عقیقہ کا ارادہ کر لیں تو جائز ہے۔
عقیقہ کے لئے مستحب وقت ساتواں دن ہے۔ لیکن عمر میں کسی وقت بھی کر سکتے ہیں۔
گوشت قربانی کا ہو یا عقیقے کا‘ دونوں ہی صدقہ ہیں۔ اس لیے ان کا گوشت الگ الگ کر کے اور بتا کر دینا ضروری نہیں، اگر کوئی ایسا کرے تو اس میں کوئی حرج بھی نہیں۔ بہتر یہ ہے کہ قربانی کی طرح عقیقہ کے گوشت کے بھی تین حصے کیے جائیں۔ ایک حصہ غریبوں کو، ایک رشتہ داروں اور دوستوں کو دے دیا جائے اور ایک خود رکھ لیں۔ اگر کوئی پروگرام ہو تو سارے کا سارا بھی استعمال کر سکتے ہیں، لیکن غرباء، یتامیٰ اور مساکین کا خیال کرتے ہوئے انہیں بھی پروگرام میں شامل کریں تو یہ زیادہ بہتر ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
عقیقہ کے گوشت کے بھی تین حصے کیے جائیں
بہتر تو یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کی طرح عقیقہ کے گوشت کے بھی تین حصے کیے جائیں۔ ایک حصہ غریبوں کو، ایک رشتہ داروں اور دوستوں کو دے دیا جائے اور ایک خود رکھ لیں۔ اگر کوئی پروگرام ہو تو سارے کا سارا بھی استعمال کر سکتے ہیں، لیکن غریبوں کا خیال رکھتے ہوئے ان کو بھی پروگرام میں شامل کر لیا جائے تو بہترین عمل ہے۔ لہذا غریبوں کی مدد ضرور کی جائے اور ان کو تیسرا حصہ ضرور دیا جائے، بہترین عمل یہی ہے۔
بڑے جانور میں عقیقہ ایک نہیں سات بکریوں کے برابر ہوگا
فقہاء کرام فرماتے ہیں:وکذٰلک اِن أراد بعضهم العقيقه عن ولد ولدله من قبل.
اسی طرح اگر قربانی کے حصوں میں بعض افراد پہلے پیدا ہونیوالی اولاد کے عقیقہ کا ارادہ کر لیں تو جائز ہے۔
علاء الدين الکاساني، بدائع الصنائع، 5: 72، دار الکتاب العربي
الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، 5: 304، دار الفکر
ابن عابدين شامي، ردالمحتار، 6: 326، دار الفکر، بيروت
لہٰذا اگر ایک بڑے جانور میں کچھ لوگ قربانی کے حصے ڈالیں اور کچھ عقیقہ کے تو جائز ہے یعنی بڑے جانور میں عقیقہ ایک نہیں سات بکریوں کے برابر ہوگا۔
اہل حدیث مسلک کے عالم دین، فتاوی ستاریہ میں لکھتے ہیں:ایک گائے شرعاً سات بکریوں کے قائم مقام ہوتی ہے۔ لہٰذا ایک گائے تین لڑکوں اور ایک لڑکی یا صرف سات لڑکیوں کی طرف سے ہو سکتی ہے۔(فتاوی ستاريه، 3: 3)
گائے سات بکریوں کے قائم مقام ہے۔ سات لڑکیوں یا دو لڑکوں اور تین لڑکیوں کی طرف سے عقیقہ ہو سکتا ہے۔(فتاوی ستاريه، 4: 64)(بحواله فتاوی علماء اہل حديث، 13: 192، از علی محمد سعيدی، جامعه سعيديه، خانيوال ۔
لہٰذا بڑے جانور، گائے، بھینس یا اونٹ میں عقیقہ کے قربانی کی طرح سات حصے ہوں گے۔
عقیقہ کا طریقہ یہ ہے کہ بچہ کی طرف سے دو جانور اور بچی کی طرف سے ایک جانور ذبح کرے اور اس کا گوشت خود بھی استعمال کر سکتا ہے اور دوسروں میں بھی تقسیم کر سکتا ہے اور اس عقیقہ والے جانور میں ان تمام شرائط کا ہونا ضروری ہے جو قربانی کے جانور کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔(عالمگیری ص ۲۵۷، ج ۵)
ہم نے کوشش کی ہے عقیقہ سے متعلق تمام پہلوؤں پر لکھنے کی اللہ تعالیٰ سے دعا ہے قبول فرمائے اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
جزاک اللہ خیرا کثیرا
ReplyDelete