Friday 11 August 2017

موجودہ معاشرہ ، والدین اولاد سے بیزار کیوں ذرا سوچیئے ؟

0 comments
موجودہ معاشرہ ، والدین اولاد سے بیزار کیوں ذرا سوچیئے ؟

اس کی وجوہات تو بہت ہیں لیکن میں یہاں پر اس بات کو زیادہ ترجیح دینا چاہوں گا جس کی آج معاشرے میں بہت کمی دیکھی جاتی ہے اور وہ ہے ’’اولاد کی صحیح تربیت‘‘ ہمارے یہاں اولاد کی تربیت تو کی جاتی ہے لیکن اس طرح نہیں جس طرح کی تربیت کرنے کو ہمارا دین اسلام کہتا ہے اور اگر تربیت کی بھی جاتی ہے۔ دین اسلام کے فرامین کے شانہ بشانہ تو وہ اس وقت کی جاتی ہے۔

جب ہمارا بچہ غلط صحبتوں، شراب، زنا، چوری، قتل جیسے سنگین جرائم میں ماہر ہوجاتا ہے پھر تربیت کرنے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا پھر وہی بات آجاتی ہے کہ اب پچھتاوا کیسا، جب چڑیا چگ گئی کھیت۔ آج کل ہر گھر میں یہ مرض دیکھنے کو ملتا ہے بلکہ مجھ سے اکثر لوگ کہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کوئی ایسی دعا یا تعویذ بتادیں تاکہ ہمارا بچہ ہمیں گالیاں نہ دے۔ ہم سے بدتمیزی نہ کرے۔ ہمیں گھر سے نکالنے کی دھمکی نہ دے۔ اگر آپ ہمارا یہ مسئلہ کشمیر حل کردیں گے تو ہم آپ کے پیر دھو کر پئیں تو میں ان سے یہ پوچھتا ہوں کہ آپ نماز پڑھتے ہیں تو تقریبا 100% میں سے 70% کا جواب ’’نا‘‘ میں ہوتا ہے تو اب آپ خود بتایئے میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ جب سب گھر والے ایک ساتھ مل کر بے ہودہ فلمیں، ڈرامے دیکھیں گے اور گانے سنیں گے اور نماز، روزہ، قرآن کو سرے سے بھول جائیں تو کیا ہماری اولاد نماز پڑھے گی، روزہ رکھے گی، قرآن پڑھے گی، جواب یہی آئے گا کہ نہیں تو جب ہم گھر میں ہر وقت شیطانیت کو دعوت دیتے رہیں گے تو رحمت کے فرشتے کہاں ہمارے گھر کا رخ کریں گے اور پھر کہاں ہوگی ہم پر اﷲ کی رحمت، پھر شکوہ کرتے ہیں زمانے سے کہ ہمارے گھر میں فلاں نے جادو کردیا۔ ہماری بہو ہمیں بدنام کرتی ہے۔ ہمارے کاروبار میں برکت نہیں ہورہی۔ سب کما رہے ہیں لیکن پھر بھی وہی بے برکتی ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

آئے دن کوئی نہ کوئی بیمار ہوجاتا ہے۔ ایک کا علاج کرواتے ہیں۔ اس کا علاج پورا نہیں ہوتا کہ دوسرا بیمار ہوجاتا ہے اور ایسی کیفیت میں تو اکثر لوگ معاذ اﷲ کفریہ کلمات کہہ جاتے ہیںکہ پتا نہیں ہم سے ایسا کون سا گناہ ہوگیا جس کی وجہ سے آج ہم اس پوزیشن میں آپہنچے ہیں۔ مطلب نماز کا نہ پڑھنا، قرآن کا نہ پڑھنا، روزہ نہ رکھنا، زکوٰۃ نہ دینا گویا کوئی گناہ ہی نہیں ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم اس مرض سے نجات پالیں۔ ہماری اولاد ہمارے فرامین کے مطابق چلے ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنے، عالم دین بن کر دین اسلام کی خدمت کرے تو ہمیں چاہئے کہ ہم شروع سے ہی اپنے بچے کی صحیح تربیت کریں اور جب وہ جوانی میں پہنچنے لگیں۔ دوستوں میں اپنا وقت گزارنے لگے تو ہم پر لازم ہے کہ ہم دیکھیں کہ ہمارا بچہ کن لڑکوں کی صحت میں اٹھ بیٹھ رہا ہے۔ اگر ہم ایسا نہیں کرسکتے تو ہمیں اس وقت سے ڈرنا چاہئے کہ جب ہمارا بچہ بری صحبت میں بیٹھ کر شراب، زنا، قتل، چوری، سارے جرائم کرنا شروع کردے اور معاشرہ یہ کہے صاحب آپ کا بچہ اب آپ کے ہاتھوں سے نکل چکا۔ اب آپ اپنی ماضی کی غلطیاں یاد کریں اور میں یہاں ایک بہت اہم بات بتانے والا ہوں کہ ہمارے یہاں بچہ ہو جوان ہو یا بوڑھا، کسی کی بھی یادداشت اتنی قوی نہیں ہوتی جوکہ ہونی چاہئے اس کی سب سے بڑی اور اہم وجہ میں یہاں تحریر کرتا ہوں، ہوسکے تو آزمایئے گا اور عمل بھی کیجئے گا۔

میڈیکل ریسرچ کہتی ہے کہ دل پورے جسم کو خون سپلائی کرتا ہے لیکن دل ودماغ سے اوپر ہونے کی وجہ سے خون پورے پریشر سے دماغ تک نہیں پہنچتا اور یہ کمی دماغ کی کمزوری اور ڈپریشن کی وجہ بنتا ہے۔ اگر انسان روز ایک مرتبہ بھی ایسی پوزیشن میں آئیں کہ اس کا دماغ اس کے دل سے نیچے ہو، جیسے مسلمان سجدہ کرتا ہے تو خون صحیح طرح دماغ تک پہنچ جاتا ہے اور اسے طاقتور اور تروتازہ رکھتا ہے۔

اے انسان تو اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلائے گا۔ اس نے نماز پڑھنے کا حکم بھی انسان کو دیا تو اس میں فائدہ بھی انسان کا ہی ہے ورنہ عبادت کی جہاں تک بات ہے تو رب تعالیٰ کی عبادت کے لئے اس کے مقرر کردہ فرشتے ہی کافی ہیں۔ کوئی فرشتہ اﷲ کے حکم سے رکوع میں ہے جب تک اﷲ چاہے گا وہ رکوع میں ہی رہے گا۔ اس طرح کوئی فرشتہ سجدے میں ہے۔ لیکن اے انسان تجھے اﷲ نے صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ تجھ پر بھی لازم ہے کہ تو صرف اور اﷲ کی عبادت تو خوش دلی سے کرے تاکہ تیرا ہی فائدہ ہو اور تجھے ہی پریشانیوں سے نجات ملے۔ میں یہاں پر اپنی بات کا اختتام اس بات پر کرنا چاہوں گا کہ اگر بندہ اﷲ کے آگے جھکنا شروع کردے تو اﷲ تعالیٰ اس بندے کو مخلوق کے سامنے جھکنے سے بچالے گا۔اللہ تعالیٰ ہمیں بری صحبتوں،برے کاموں سے بچائے آمین۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔