مزارات پر ہونے والی خرافات اور امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ تعالیٰ علیہ
اﷲ تعالیٰ کے نیک بندوں کے مزارات شعائر اﷲ ہیں‘ ان کا احترام و ادب ہر مسلمان پر لازم ہے‘ خاصان خدا ہر دور میں مزارات اولیاء علیہم الرّحمہ پر حاضر ہوکر فیض حاصل کرتے آئے ہیں ۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سحبہ وسلّم کے مزار پر حاضر ہوکر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سحبہ وسلّم سے فیض حاصل کیا کرتے تھے… پھر تابعین کرام صحابہ کرام علیہم الرضوان کے مزارات پر حاضر ہوکر فیض حاصل کیا کرتے تھے‘ پھر تبع تابعین‘ تابعین کرام کے مزارات پر حاضر ہوکر فیض حاصل کیا کرتے تھے‘ تبع تابعین اور اولیاء کرام علیہم الرّحمہ کے مزارات پر آج تک عوام وخواص حاضر ہوکر فیض حاصل کرتے ہیں اور ان شاء اﷲ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا ۔
لادینی قوتوں کا یہ ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے کہ وہ مقدس مقامات کو بدنام کرنے کے لئے وہاں خرافات و منکرات کا بازار گرم کرواتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے دلوں سے مقدس مقامات اور شعائر اﷲ کی تعظیم و ادب ختم کیا جاسکے ۔ یہ سلسلہ سب سے پہلے بیت المقدس سے شروع کیا گیا ۔ وہاں فحاشی و عریانی کے اڈے قائم کئے گئے‘ شرابیں فروخت کی جانے لگیں اور دنیا بھر سے لوگ صرف عیاشی کرنے کے لئے بیت المقدس آتے تھے (معاذ اﷲ)
اسی طرح آج بھی مزارات اولیاء علیہم الرّحمہ پر خرافات‘ منکرات ‘ چرس و بھنگ ‘ ڈھول تاشے ‘ ناچ گانے اور رقص و سرور کی محافلیں سجائی جاتی ہیں تاکہ مسلمان ان مقدس ہستیوں سے بدظن ہوکر یہاں کا رخ نہ کریں ۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ : اکثر مخالفین اللہ والوں کے مزاروں پر ہونے والی خرافات کو اعلیٰ حضرت امام احم،د رضا خان قادری محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے علمائے اہلسنت و جماعت کی طرف جوڑ تے ہیں ۔ جبکہ حقیقت یہ کہ اللہ والوں کے مزاروں اور آستانوں پر ہونے والی خرافات اور عجیب عجیب حرکتوں کا اہلسنت و جماعت سے کو ئی تعلق نہیں ہے بلکہ سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمہ اور دوسرے علمائے اہلسنت و جماعت نے اپنی اپنی کتابوں میں ان کا بھر پور رد فرمایا ہے ۔
عورتوں کا درگاہ پر جانا
عورتوں اور جوان لڑکیوں کا حضور ﷺ کے مبارک آستانے کے سوا کسی بھی مزار اور درگا ہ پر جانا جائز نہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد9 صفحہ 541)
مزاروں کا طواف کرنا
مزاروں کا طواف (چکر) اگر تعظیم ( بَرائی ظاہر کرنے) کی نیت سے کیا جائے تو ناجائز ہے کیونکہ طواف کے ساتھ تعظیم صرف کعبہ شریف کے ساتھ خاص ہے، اور مزار کو چومنا بھی ادب کے خلاف ہے، آس پاس کی اونچی لکڑی یا دونوں طرف کے چوکھٹ کو چوم سکتے ہیں ۔ فتاویٰ رضویہ جلد 9صفحہ 529)
نیاز کا کھانا لُٹانا
نیاز کا کھانا لٹانا (پھینک کر دینا) حرام ہے ، کھانے کا اس طرح سے لٹانا (پھینکنا) بے ادبی ہے ۔(فتاویٰ رضویہ جلد 24صفحہ 112)
سر جھکانا یا رکوع کی حد تک جھکنا
عبادت کا سجدہ(سرجھکانا یا رکوع کی حد تک جھکنا) اللہ کے سوا کسی کو بھی کرنا شرک ہے اور تعظیم والا سجدہ مزاروں کو ہو یا پیر کو یا کسی اور کو ،حرام ہے ( فتاوی ٰ رضویہ جلد 22 صفحہ 426)
پیڑ ، دیوار یاتاک پر فاتحہ دلانا
لوگوں کا کہنا ہے کہ فلاں پیڑ پر شہید (یاکوئی بزرگ) رہتے ہیں اور اس پیڑیا دیوار یا تاک کے پاس جاکر مٹھائی ، چاول (یا کسی چیز) پر فاتحہ دلانا ، ہار پھول ڈالنا ، لوبان یا اگربتی جلانا اور منتیں ماننا ، مرادیں مانگنا یہ سب باتیں واہیات ، بیکار ، خرافات اور جاہلوں والی بے وقوفیاں اور بے بنیاد باتیں ہیں۔ (احکام شریعت حصہ 1 صفحہ22)
کسی بزرگ یا شہید یا ولی کی حاضری یا سواری آنا
اسی طرح یہ سمجھنا کہ فلاں آدمی یا عورت پر کسی بزرگ یا شہید یا ولی کی حاضری ہوتی یا سواری آتی ہے یہ بھی فضول اور جاہلوں کی گڑھی ہوئی بات ہے کسی انسان کے کسی بھی طرح سے مرنے کے بعد اسکی روح کسی انسان یا کسی چیز میں نہیں آسکتی ، جو جنتی ہیں ان کو اس طرح کی ضرورت نہیں اور جو جہنمی ہیں وہ آ نہیں سکتے، جنات اور شیطان ضرور کسی چیز یا کسی جانوریا کسی انسان کے جسم کو گمراں کرنے کے لیے آ سکتے ہیں ۔ ہمزاد بھی شیطان جنات میں سے ہوتا ہےجو ہر انسان کے ساتھ پیدا ہوتا ہےزندگی بھر اسکے ساتھ رہتا ہے اور اس انسان کے مرنے کے بعد یا زندگی میں ہی کسی بچے یا بڑے کے جسم میں گھس کراسکی زبان بولتا ہے ، اسی کو جاہل مسلمان دوسرا جنم اور پچھلے جنم کی بات سمجھ لیتے ہیں۔
مزار پر چادر چڑھانا
مزار پرجب چادر موجود ہو خراب نہ ہوئی ہو بدلنے کی حاجت نہیں تو چادر چڑھانا فضول ہے بلکہ جو دام اس میں صرف کریں اللہ کے ولی کو ایصال ثواب کرنے کے لئے کسی محتاج کو دیں۔( احکام شریعت حصہ اول صفحہ42)(ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
آج ہم چادر چڑھانے کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہے اور ڈھول تاشے کے ساتھ چادر لے کر جاتے ہیں یہ غیر شرعی اور غلط طریقہ ہے ۔اس طرح کے رواجوں کا اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
مزار پر حاضری کا طریقہ
فرمانِ سیدنا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ :
زیارت قبر میت کے مواجہ میں کھڑے ہوکر اوراس طرف سے جائے کہ اس کی نگاہ سامنے ہو، سرہانے سے نہ آئےکہ سر اٹھاکر دیکھنا پڑے۔ سلام و ایصال ثواب کے لیے اگر دیر کرنا چاہتا ہے رُو بقبر بیٹھ ھائے اور پڑھتا رہے یا ولی کا مزار ہے تو اس سے فیض لے –واللہ تعالیٰ اعلم ( فتاویٰ رضویہ جلد 9 صفحہ 535)
مزار پر دعا کا طریقہ
اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں کہ فاتحہ کے بعد زائر صاحبِ مزار کے وسیلے سے دعا کرے اور اپنا جائز مقصد پیش کرے پھر سلام کرتا ہوا واپس آئے۔ مزار کو نہ ہاتھ لگائے نہ بوسہ دے۔ طواف باالاتفاق ناجائز ہے اور سجدہ حرام ہے ۔ ( فتاویٰ رضویہ جلد 9 صفحہ 522)
مزار شریف یا قبر پر پھولوں کی چادر ڈالنے میں شرعاً حرج نہیں بلکہ نہایت ہی اچھا طریقہ ہے۔
فائدہ : قبروں پر پھول ڈالنا کہ جب تک وہ تَر رہے گا تسبیح کریں گے اس سے میت سے کا دل بہلتا ہے اور رحمت اتر تی ہے۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ قبروں پر پھولوں کا رکھنا اچھا ہے ۔
(فتاویٰ ہندیہ جلد5 صفحہ 351،)(فتاویٰ امام قاضی خاں)(امداد المفتاح)(ردالمختار جلد 1صفحہ 606)(فتاویٰ رضویہ جلد 9 صفحہ 105)
اللہ جل جلالہ ہمیں سیدھے راستے پر چلائے یعنی انبیاء علیہم السّلام ، شہداء،صدیقین رضی اللہ عنہم ، صالحین ور اولیاء کرام علیہم الرّحمہ کے راستے پر چلائے اور شریعت کا پابند بنائے ۔ آمین ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اﷲ تعالیٰ کے نیک بندوں کے مزارات شعائر اﷲ ہیں‘ ان کا احترام و ادب ہر مسلمان پر لازم ہے‘ خاصان خدا ہر دور میں مزارات اولیاء علیہم الرّحمہ پر حاضر ہوکر فیض حاصل کرتے آئے ہیں ۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سحبہ وسلّم کے مزار پر حاضر ہوکر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سحبہ وسلّم سے فیض حاصل کیا کرتے تھے… پھر تابعین کرام صحابہ کرام علیہم الرضوان کے مزارات پر حاضر ہوکر فیض حاصل کیا کرتے تھے‘ پھر تبع تابعین‘ تابعین کرام کے مزارات پر حاضر ہوکر فیض حاصل کیا کرتے تھے‘ تبع تابعین اور اولیاء کرام علیہم الرّحمہ کے مزارات پر آج تک عوام وخواص حاضر ہوکر فیض حاصل کرتے ہیں اور ان شاء اﷲ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا ۔
لادینی قوتوں کا یہ ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے کہ وہ مقدس مقامات کو بدنام کرنے کے لئے وہاں خرافات و منکرات کا بازار گرم کرواتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے دلوں سے مقدس مقامات اور شعائر اﷲ کی تعظیم و ادب ختم کیا جاسکے ۔ یہ سلسلہ سب سے پہلے بیت المقدس سے شروع کیا گیا ۔ وہاں فحاشی و عریانی کے اڈے قائم کئے گئے‘ شرابیں فروخت کی جانے لگیں اور دنیا بھر سے لوگ صرف عیاشی کرنے کے لئے بیت المقدس آتے تھے (معاذ اﷲ)
اسی طرح آج بھی مزارات اولیاء علیہم الرّحمہ پر خرافات‘ منکرات ‘ چرس و بھنگ ‘ ڈھول تاشے ‘ ناچ گانے اور رقص و سرور کی محافلیں سجائی جاتی ہیں تاکہ مسلمان ان مقدس ہستیوں سے بدظن ہوکر یہاں کا رخ نہ کریں ۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ : اکثر مخالفین اللہ والوں کے مزاروں پر ہونے والی خرافات کو اعلیٰ حضرت امام احم،د رضا خان قادری محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے علمائے اہلسنت و جماعت کی طرف جوڑ تے ہیں ۔ جبکہ حقیقت یہ کہ اللہ والوں کے مزاروں اور آستانوں پر ہونے والی خرافات اور عجیب عجیب حرکتوں کا اہلسنت و جماعت سے کو ئی تعلق نہیں ہے بلکہ سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمہ اور دوسرے علمائے اہلسنت و جماعت نے اپنی اپنی کتابوں میں ان کا بھر پور رد فرمایا ہے ۔
عورتوں کا درگاہ پر جانا
عورتوں اور جوان لڑکیوں کا حضور ﷺ کے مبارک آستانے کے سوا کسی بھی مزار اور درگا ہ پر جانا جائز نہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد9 صفحہ 541)
مزاروں کا طواف کرنا
مزاروں کا طواف (چکر) اگر تعظیم ( بَرائی ظاہر کرنے) کی نیت سے کیا جائے تو ناجائز ہے کیونکہ طواف کے ساتھ تعظیم صرف کعبہ شریف کے ساتھ خاص ہے، اور مزار کو چومنا بھی ادب کے خلاف ہے، آس پاس کی اونچی لکڑی یا دونوں طرف کے چوکھٹ کو چوم سکتے ہیں ۔ فتاویٰ رضویہ جلد 9صفحہ 529)
نیاز کا کھانا لُٹانا
نیاز کا کھانا لٹانا (پھینک کر دینا) حرام ہے ، کھانے کا اس طرح سے لٹانا (پھینکنا) بے ادبی ہے ۔(فتاویٰ رضویہ جلد 24صفحہ 112)
سر جھکانا یا رکوع کی حد تک جھکنا
عبادت کا سجدہ(سرجھکانا یا رکوع کی حد تک جھکنا) اللہ کے سوا کسی کو بھی کرنا شرک ہے اور تعظیم والا سجدہ مزاروں کو ہو یا پیر کو یا کسی اور کو ،حرام ہے ( فتاوی ٰ رضویہ جلد 22 صفحہ 426)
پیڑ ، دیوار یاتاک پر فاتحہ دلانا
لوگوں کا کہنا ہے کہ فلاں پیڑ پر شہید (یاکوئی بزرگ) رہتے ہیں اور اس پیڑیا دیوار یا تاک کے پاس جاکر مٹھائی ، چاول (یا کسی چیز) پر فاتحہ دلانا ، ہار پھول ڈالنا ، لوبان یا اگربتی جلانا اور منتیں ماننا ، مرادیں مانگنا یہ سب باتیں واہیات ، بیکار ، خرافات اور جاہلوں والی بے وقوفیاں اور بے بنیاد باتیں ہیں۔ (احکام شریعت حصہ 1 صفحہ22)
کسی بزرگ یا شہید یا ولی کی حاضری یا سواری آنا
اسی طرح یہ سمجھنا کہ فلاں آدمی یا عورت پر کسی بزرگ یا شہید یا ولی کی حاضری ہوتی یا سواری آتی ہے یہ بھی فضول اور جاہلوں کی گڑھی ہوئی بات ہے کسی انسان کے کسی بھی طرح سے مرنے کے بعد اسکی روح کسی انسان یا کسی چیز میں نہیں آسکتی ، جو جنتی ہیں ان کو اس طرح کی ضرورت نہیں اور جو جہنمی ہیں وہ آ نہیں سکتے، جنات اور شیطان ضرور کسی چیز یا کسی جانوریا کسی انسان کے جسم کو گمراں کرنے کے لیے آ سکتے ہیں ۔ ہمزاد بھی شیطان جنات میں سے ہوتا ہےجو ہر انسان کے ساتھ پیدا ہوتا ہےزندگی بھر اسکے ساتھ رہتا ہے اور اس انسان کے مرنے کے بعد یا زندگی میں ہی کسی بچے یا بڑے کے جسم میں گھس کراسکی زبان بولتا ہے ، اسی کو جاہل مسلمان دوسرا جنم اور پچھلے جنم کی بات سمجھ لیتے ہیں۔
مزار پر چادر چڑھانا
مزار پرجب چادر موجود ہو خراب نہ ہوئی ہو بدلنے کی حاجت نہیں تو چادر چڑھانا فضول ہے بلکہ جو دام اس میں صرف کریں اللہ کے ولی کو ایصال ثواب کرنے کے لئے کسی محتاج کو دیں۔( احکام شریعت حصہ اول صفحہ42)(ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
آج ہم چادر چڑھانے کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہے اور ڈھول تاشے کے ساتھ چادر لے کر جاتے ہیں یہ غیر شرعی اور غلط طریقہ ہے ۔اس طرح کے رواجوں کا اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
مزار پر حاضری کا طریقہ
فرمانِ سیدنا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ :
زیارت قبر میت کے مواجہ میں کھڑے ہوکر اوراس طرف سے جائے کہ اس کی نگاہ سامنے ہو، سرہانے سے نہ آئےکہ سر اٹھاکر دیکھنا پڑے۔ سلام و ایصال ثواب کے لیے اگر دیر کرنا چاہتا ہے رُو بقبر بیٹھ ھائے اور پڑھتا رہے یا ولی کا مزار ہے تو اس سے فیض لے –واللہ تعالیٰ اعلم ( فتاویٰ رضویہ جلد 9 صفحہ 535)
مزار پر دعا کا طریقہ
اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں کہ فاتحہ کے بعد زائر صاحبِ مزار کے وسیلے سے دعا کرے اور اپنا جائز مقصد پیش کرے پھر سلام کرتا ہوا واپس آئے۔ مزار کو نہ ہاتھ لگائے نہ بوسہ دے۔ طواف باالاتفاق ناجائز ہے اور سجدہ حرام ہے ۔ ( فتاویٰ رضویہ جلد 9 صفحہ 522)
مزار شریف یا قبر پر پھولوں کی چادر ڈالنے میں شرعاً حرج نہیں بلکہ نہایت ہی اچھا طریقہ ہے۔
فائدہ : قبروں پر پھول ڈالنا کہ جب تک وہ تَر رہے گا تسبیح کریں گے اس سے میت سے کا دل بہلتا ہے اور رحمت اتر تی ہے۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ قبروں پر پھولوں کا رکھنا اچھا ہے ۔
(فتاویٰ ہندیہ جلد5 صفحہ 351،)(فتاویٰ امام قاضی خاں)(امداد المفتاح)(ردالمختار جلد 1صفحہ 606)(فتاویٰ رضویہ جلد 9 صفحہ 105)
اللہ جل جلالہ ہمیں سیدھے راستے پر چلائے یعنی انبیاء علیہم السّلام ، شہداء،صدیقین رضی اللہ عنہم ، صالحین ور اولیاء کرام علیہم الرّحمہ کے راستے پر چلائے اور شریعت کا پابند بنائے ۔ آمین ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment