Wednesday, 9 August 2017

حسن و جمال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم

حسن و جمال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم

حضور پُر نور ﷺ اپنے حسن و جمال میں بے مثال ہیں۔کوئی انسان آپ ﷺ کا حسن و جمال کیسے بیان کر سکتے ہے۔حضرات علمائے کرام تصریح فرماتے ہیں کہ آقائے دو عالم ﷺ پر ایمان لانا اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک اس بات پر ایمان نہ لائے جائے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب پاک ﷺ کے جسم شریف کو اس شان سے پیدا فرمایا کہ کوئی انسان آپﷺ جیسا نہ آپ ﷺ سے پہلے پیدا ہوا نہ آپﷺ کے بعد پیدا ہو گا۔(انوار محمدیہ، ص۱۹۴)آپ ﷺ جیسا کون ہو سکتا ہے کہ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔قَد جاء کُم من اللہ نور۔تمہارے پاس اللہ کی جانب سے نور مجسم تشریف لایا ہے۔اس نور مجسم جیسا اور کوئی ہو سکتا ہے؟خود سرور کائنات ﷺ فرماتے ہیں ؛اَنَا اَمْلَحُ وَاَخِیْ یُوْ سُفُ اَصْبَحَ۔(مدراج النبوۃ جلد اول، ص۵، و توریخ حبیب الہٰ، ص ۱۵۷)میں ملیح ہوں اور میرے بھائی یوسف علیہ السلام خوب گورے تھے۔سب جانتے ہیں کہ یوسف علیہ السلام اپنے حسن و جمال میں شہرہ آفاق ہیں، مگر حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ میں ان سے زیادہ ملاحت رکھتا ہوں۔ثابت ہوا کہ سرکار دو عالم ﷺ یوسف علیہ السلام سے زیادہ خو بصورت تھے، آپﷺ کے حسن و جمال کے ملاحظہ کرنے والے صحابہ کیا فرماتے ہیں۔حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے رسول پاکﷺ سے کوئی شے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھی۔گویا آفتاب آپ ﷺ کے چہر ے میں اتر آیا ہے۔(رواہ التر مذ ی ، مشکوۃ، ص۱۵۸)دوسری حدیث پا ک پڑھیے ؛ حضرت جابر بن سمرہ ؓ کا فرمان ؛میں نے چاندنی رات میں نبی پاکﷺ کو دیکھا آپ ﷺ نے دھارے دار جوڑا زیب تن کر رکھا تھا۔میں ایک نظر حضور ﷺ کی طرف کرتا تھا اور ایک چاند کی طرف پس آپ ﷺ میرے نزدیک چاند سے زیادہ خوبصورت تھے (رواہ الترمذی والدارمی،مشکوۃ، ص۱۵۷)فا ئدہ؛ حضرت جابر بن سمرہ ؓ کا یہ فرمان کہ حضور ﷺ میر نزدیک زیادہ خوبصورت تھے۔یہ بطور تلذذ فرمایا۔ورنہ واقع میں حضور ﷺ تمام کے نزدیک چاند سے زیادہ خوبصورت تھے۔(مدراج جلد اول، ص۷) حضرت امیر المومنین علی کرم اللہ وجہ الکریم کا فرمان۔آپ حضورﷺ کا حلیہ مبارک بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔لَمْ اَرَ قَبْلَھٗ وَ لَا بَعْدَ ہٗ مِثْلَہٗ صَلَّی اَللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (رواہ الترمذی، مشکوۃ، ص۱۵۷)ترجمہ؛ میں نے حضور ﷺ کی مثل نہ آپ ﷺ سے پہلے کسی کو دیکھا نہ بعد میں۔حضرت جبرئیل علیہ السلام کا فرمان میں تمام مشرق و مغارب میں پھرا لیکن میں نے کوئی شخص حضرت محمد رسول ﷺ سے افضل نہیں دیکھا کسی شاعر نے کیا خواب کہا ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

آقا قہا گردیدہ ام مہر بتاں دزدیدہ ام

بسیار خوباں دیدہ ام لیکن تو چیز ے دیگری

علامہ بو صیری ؒ قصیدہ بردہ شریف میں عرض کرتے ہیں۔آپ فضائل باطنی و ظاہری میں کمال کے درجے کو پہنچے ہوئے ہیں۔پھر خداوند تعالیٰ نے آپ کو اپنا حبیب بنایا اور آپ اپنی خوبصورتی اور خوبیوں میں شریک سے پاک ہیں۔ہر حسن جو آپ میں پایا جاتا ہے وہ غیر منقسم اور غیر مشترک ہے۔مندرجہ بالا اقوال سے ثابت ہوا کہ حبیب خداﷺ حسن و جمال میں اس انتہائی مقام کو پہنچے ہوئے ہیں جہاں کوئی بھی نہیں پہنچا اور پہنچ سکے گا۔حقیقت وہ ہے جو امام قرطبیؒ نے فر مائی ہے۔آپ فرماتے ہیں۔ہمارے سامنے حضور ﷺ کا تمام حسن ظاہر نہیں ہوا کیونکہ اگر تمام حسن ہمارے سامنے ظاہر ہو جا تا تو ہماری آنکھیں حضور ﷺ کو دیکھنے کی طاقت نہ رکھتیں۔(انوار محمدیہ، ص ۱۹۴) اسی لیے اللہ تعالیٰ نے حضور سراپا نور ﷺ کے جمال پاک پر ستر ہزار پردے ڈال رکھا ہے تاکہ لوگ آپ کو دیکھ سکیں۔ورنہ کسی کی آنکھ تھی جو حضور اکرمﷺ کا مشاہدہ کر سکتی۔(معارج النبوۃ رکن دوم، ص ۱۱۸)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

جسم پاک کی نورانیت : ہمارے آقا و مولا حضرت محمد رسولﷺ کا جسم اقدس نورانی تھا، سر مبارک سے لے کر پاؤں شریف تک نور تھے۔ محقق علی الا طلاق شیخ عبد الحق محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں۔رسو ل پاک بتمامہ چوٹی سے تا قدم بالکل نور تھے کہ انسان کی آنکھ آپ کے جمال با کمال کو دیکھنے سے چوندھیا جاتی تھی۔چاند اور سورج کی مانند روشن اور چمک دار تھے۔اگر لباس بشریت نہ پہنا ہوتا تو کسی کو آپ کی طرف نظر کرنے اور آپ کے حسن کا ادرک ممکن نہ ہوتا۔(مدراج النبوۃ جلد اول، ص ۱۳۷) چونکہ آپ نور تھے اور نور کا سایہ نہیں ہوتا، اس لئے آپ ﷺ کا سایہ بھی نہیں تھا۔حضرت ذکوان ؓ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کا سایہ نہ تھا۔رسول پاک ﷺ کا سایہ نہ آفتاب کی روشنی میں تھا، نہ چاند کی چاندنی میں۔حکیم ترمذی نے حضرت ذکوان سے نوادر اصول میں اس کو روایت کیا (مدراج النبوۃ جلد اول، ص۲۶)

حضور ﷺ کے جسم اقدس کی لطافت و نظافت : حضور سراپا نور ﷺ اتنے صاف اور پاکیزہ تھے کہ جسم اقدس پر مکھی نہیں بیٹھتی تھی۔اور نہ ہی آپﷺ کے کپڑوں میں جوئیں پڑتی تھیں (مدراج النبوۃ جلد اول، ص ۱۱۴، شفا شریف، ص۲۳۴، انوار محمد یہ، ص ۳۱۱)

جسم اقدس خوشبودار تھا : ہما رے آقا و مولیٰ ﷺ کے جسم اقدس سے کستوری و عنبر کی سی خوشبو آیا کرتی تھی۔حضرت انس ؓ فرماتے ہیں۔ میں نے کوئی کستوری اور عنبر حضور ﷺ کے جسم اقدس سے زیادہ خوشبودار نہیں سونگھا۔(متفق علیہ، مشکوۃ، ص۵۱۷)حضور پر نور ﷺ کے ساتھ جو شخص مصافحہ کرتا تو اس کے ہاتھوں سے تمام دن خوشبو آیا کرتی تھی۔اور جس بچے کے سر پر ہاتھ پھیر دیتے تھے وہ بچوں میں خوشبودار مشہور ہو جاتا تھا۔(مدراج النبوۃ جلد اول، ص۳۰، شفا شریف، ص ۴۰) حضرت جا بر ؓ فرماتے ہیں۔میں نے صبح کی نماز رسول پاکﷺ کے ہمراہ پڑھی، پھر آپ ﷺ اپنے گھر کی طرف نکلے، میں بھی آپ ﷺ کے ساتھ نکلا، آپ ﷺ کے سامنے بہت سے بچے آئے آپ ﷺ ہر ایک بچہ کے رخسار پر ہاتھ پھیر تے جاتے تھے۔میر رخسار پر بھی ہاتھ مبارک پھیر ا تو میں نے آپ ﷺ کے ہاتھ میں ٹھنڈک محسوس کی بلکہ ایک خوشبو پائی۔گویا کہ آپ نے وہ خوشبو عطر فروش کے ڈبہ سے نکالی ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں۔ میں نے (وقت انتقال)نبی کریم ﷺ کو غسل دیا۔میں وہ چیز جو میت سے نکلا کرتی ہے، دیکھنے لگا، مگر میں نے کوئی چیز نہ دیکھی۔تو میں نے کہا، آپﷺ زندگی اور موت میں بھی پاکیز ہ ہیں۔فرمایا کہ آپ ﷺ سے ایسی خوشبو نکلی کہ میں نے ہر گز اس کی مثل نہیں پائی ( شفا شریف۔ص، ۱۴) حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں۔ (ایک دفعہ ) مجھے پیارے رسول پاک ﷺ نے سواری پر اپنے پیچھے بٹھا لیا۔ میں نے مہر نبوت کو اپنے منہ میں لے لیا۔پس مجھ پر خوشبو اور کستوری کی لپٹ آنی شروع ہو گئی۔(شفا شریف، ص، ۰ ۴)حضرت انس ؓ فرماتے ہیں۔ جب حبیب خدا ﷺ مدینہ طیبہ کے کسی راہ پر گزر فر ماتے تو لوگ اس راہ میں خو شبو پاتے اور کہتے کہ رسول پاک ﷺ اس راہ سے گزرے ہیں۔(رواہ ابو یعلی، انوار محمد یہ، ص۱۲۷)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...