سرسید احمد خان کے گمراہ کُن عقائد و نظریات
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : انگریز نے مرزا غلام احمد قادیانی اور سرسید احمد خان سے وہ کام لیے جو وہ اپنے ملکوں کی ساری دولت خرچ کر کے بھی نہیں کر سکتے تھے ۔ سرسید کا عقیدہ کیا تھا ؟ مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ سرسید احمد تین باتوں میں مجھ سے متفق ہے : ⬇
ایک یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا نہیں ہوئے‘ بلکہ معمول کے مطابق ان کا باپ تھا۔ (واضح رہے کہ عیسائیوں کے ایک فرقے کا بھی یہ عقیدہ ہے کہ مریم علیہا السلام کے یوسف نامی ایک شخص سے تعلقات تھے جس کے نتیجہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام شادی سے قبل پیدا ہوئے ۔ (نعوذ باللہ من ذلک)
دوسرے یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر نہیں اٹھایا گیا بلکہ اس سے ان کے درجات بلند کرنا مراد ہے ۔
تیسرے یہ کہ نبی آخر الزمان حضرت محمد کو روح مع الجسد معراج نہیں ہوئی‘ بلکہ صرف ان کی روح کو معراج ہوئی ہے ۔
نیچری وہ فرقہ ہے جس کا عقیدہ یہ ہے کہ جیسی آدمی کی نیچر ہو ویسا دین ہونا چاہئیے مطلب یہ کہ : اللہ تعالی اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات و قوانین کا نام دین نہیں ہے بلکہ جو آدمی کی نیچر ہو ویسا دین ہونا چاہیے اس فرقے کو نیچری کہتے ہیں نیچری فرقے کا بانی سر سیّد احمد خان ہے ۔ سر سید احمد خان خود نیچری تھا اس کے نظر یات باطل تھے ۔
سر سیّد کے اسلام کے خلاف جرائم اور اس کے کفریہ عقائد
سرسیّد کے خاص اور چہیتے شاگرد اور پہنچے ہوئے پیرو کار خالد نیچری کی خاص پسندیدہ شخصیت ضیاءالدین نیچری کی کتاب خود نوشت افکار سر سیّد کی چند عبارتیں آپ کے سامنے پیش کی جاتی ہیں : ⬇
عقیدہ : خدا نہ ہندو ہے نہ عرضی مسلمان ،نہ مقلّد نہ لا مذہب نہ یہودی نہ عیسائی بلکہ وہ تو پکا چھٹا ہوا نیچری ہے ۔(بحوالہ :کتاب :خود نوشت ص63)
عقیدہ : خدانے اَن پڑھ بد ؤوں کے لئے ان ہی کی زبان میں قرآن اُتارا یعنی سرسیّد کے خیال میں قرآن انگریزی جو اس کے نزدیک بہتر واعلیٰ زبان ہے اس میں نازل ہو نا چاہئے لیکن خدا نے اَن پڑھ بدؤوں کی زبان عربی میں قرآن نازل کیا ۔(معاذاللہ )(بحوالہ :کتاب :خود نوشت )
عقیدہ : شیطان کے متعلق سرسیّد کا عقیدہ یہ تھاکہ وہ خود ہی انسان میں ایک قوّت ہے جو انسان کو سیدھے راستے پر سے پھیر تی ہے ۔شیطان کے وجود کو انسان کے اندر مانتا ہے انسان سے الگ نہیں مانتا ۔ (بحوالہ :کتاب :خود نوشت ص 75)
عقیدہ : حضرت آدم علیہ السلام کا جنّت میں رہنا ،فرشتوں کا سجدہ کرنا ،حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی رضی اللہ عنہ کا ظہور ،دجال کی آمد ،فرشتے کا صور پھونکنا ،روز جزا و سزا ، میدان حشرو نشر ، پل صراط، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت ،اللہ تعالیٰ کا دیدار ان سب عقائد کا انکار کیا ہے جو کہ قرآن و حدیث سے ثا بت ہیں ۔(بحوالہ :کتاب :خود نوشت ص 24تا132)
عقیدہ : خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ خلافت کا ہر کسی کو استحقاق تھا جس کی چل گئی وہ خلیفہ ہوگیا ۔(بحوالہ :کتاب :خود ونوشت ص 233)
عقیدہ : حج میں قربانی کی کوئی مذہبی اصل قرآن سے نہیں پائی جاتی آگے لکھتا ہے کہ اس کا کچھ بھی نشان مذہب اسلام میں نہیں ہے حج کی قربانیاں درحقیقت مذہبی قربانیاں نہیں ہیں ۔(معاذاللہ ) (بحوالہ :کتاب :خو د نوشت ص 139)
عقیدہ : الطاف حسین حالی حیاتِ جاوید میں لکھتا ہے کہ جب سہانپور کی جامع مسجد کے لئے ان سے چندہ طلب کیا گیا تو انہوں نے (سر سیدنے )چندہ دینے سے انکار کر دیا اور لکھ بھیجا کہ میں خدا کے زندہ گھروں (کالج) کی تعمیر کی فکر میں ہو ں اور آپ لوگوں کو اینٹ مٹی کے گھر کی تعمیر کا خیال ہے ۔(خو د نوشت صفحہ 101) ۔ (معاذاللہ)
اعلحٰضرت امام اہلسنّت مولانا شاہ احمد رضا خانصاحب محدّث بریلی علیہ الرحمہ نے اسکے لٹر یچر وغیرہ کے تجز ئیے کے بعد یہ فتویٰ دیا ہے کہ سرسیّد احمد خان نیچری گمراہ آدمی تھا ۔
محترم قارئینِ کرام : سر سید احمد خان فرقہ وہابیت سے تعلق رکھتا تھا بعد میں اس نے نیچری فرقے کی بنیاد رکھی انگریزوں کا ایجنٹ ،نام نہاد لمبی داڑھی والا مسٹر احمد خان بھی کچھ اس قسم کا آدمی تھا جسکی وجہ سے اسکے ایمان میں بگاڑ پیدا ہوا اور آہستہ آہستہ اس نے اسلامی حقائق و عقائد کا مذاق اڑانا شروع کی اور بے ایمان ،مر تد اور گمراہ ہوگیا ۔
دینِ اسلام میں نیچری سوچوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے اللہ تعالیٰ اوراسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرّر اور بیان کردہ قوانین پر عمل کرنے کا نام اسلام ہے ۔
سر سید احمد خان نہ تھا بلکہ مسٹر احمد خان تھا اس کو اسلام کا خیر خواہ کہنے والے اس کے باطل عقائد پڑھ کر ہوش کے نا خن لیں اس کو اچھا آدمی کہہ کر یا لکھ کر اپنے ایمان کے دشمن نہ بنیں کیونکہ ہر مکتبہ فکر کا عالم مسٹر احمد خان (سر سید احمد خان) کو نیچری فرقہ کا بانی ، گمراہ اور زندیق لکھتا ہے ۔
سر سید احمد خان کے افکار و عقاٸد نے علماء و مشائخ کو ہلا کر رکھ دیا تھا ۔ اگرچہ اس وقت کے علماء و مشائخ نے سر سید پر کفر کا فتویٰ عائد کرنے سے گریز کیا لیکن سرسید کے گمراہ کن افکار سے کلی براءت کا بھی اظہار کیا اور سرسید کی اصلا ح کی بھی کوششیں کی لیکن وہ بار آور نہ ہو سکیں اور سر سید اپنی ہی فکر کے پیچھے چل پڑے۔ذیل میں چند ایسے افکار درج کیے جا رہے ہیں : ⬇
سرسید کا کہنا تھا کہ ملائکہ اور شیطان کوئی الگ مخلوق نہیں ۔ یہ انسان میں خیروشر کی قوتوں کے نام ہیں ۔
جنات سے جنگلی اور وحشی انسان مراد ہیں ۔
کسی نبی سے کسی قسم کا معجزہ مافوق الفطرت اور خلاف عقل واقع نہیں ہوا ۔
قرآن مجید میں انبیاء علیہم السلام سے منسوب محیر العقول واقعات محض قویٰ انسانی کی قوت کا مظہر ہیں ۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام بن باپ پیدا نہیں ہوئے کیونکہ قانون فطرت کے بر خلاف ایسا نہیں ہو سکتا ۔
ٹٹ پونجیئے عربی مدرسوں سے ہماری کوئی قومی عزت نہیں ۔ اس سے کاہل ، مال مردم خور ، بے محنت اور خیرات کی روٹی کھانے والے ملاﺅں کا گروہ بڑھتا جائے گا ۔
اعلیٰ عہدے صرف لائق انگریزی دانوں کو دیے جانے کی پالیسی میں سختی ہونی چاہیے ۔
خدا لارڈمیکالے کو بہشت نصیب کرے ۔ اس سے زیادہ ہندوستان کو بھلائی پہنچانے والاکوئی اور نہیں ۔
ہندوستان میں برٹش گورنمنٹ خدا کی طرف سے ایک رحمت ہے ۔ اس کی اطاعت اور فرمانبرداری اور نمک حلالی خدا کی طرف سے ہمارا فرض ہے ۔
ہندو اور مسلمان ایک مذہبی لفظ ہے ورنہ ہندو ، مسلمان اور عیسائی بھی جو ہندوستان میں رہتے ہیں سب ایک ہی قوم ہیں ۔ (افکار سر سید مرتبہ ضیاءالدین لاہوری)(نقش سر سید)(سر سید کی کہانی)(حیات سر سید)
قرآن مجید کی فصاحت بے مثال کو معجزہ سمجھنا ایک غلط فہمی ہے ۔ فاتوا بسورة من مثلہ کا یہ مقصد نہیں ہے ۔ (تصانیف احمدیہ حصہ ١ جلد ١ صفحہ۱۲)
جس مجموعہ مسائل و احکام و اعتقادات وغیرہ پر فی زمانہ اسلام کا اطلاق کیا جاتا ہے وہ یقیناً مغربی علوم کے مقابلہ میں قائم نہیں رہ سکتا ۔ (بروایت حالی حیات جاوید جلدا۵۲۲)
میں فرض سمجھتا ہوں کہ جو لوگ لکھے پڑھے ہیں (میں اپنے تئیں لکھے پڑھوں میں نہیں سمجھتا) وہ حال کے علوم جدید کا مقابلہ کریں اور اسلام کی حمایت میں کھڑے ہوں اور مثل علماء کے یا تو مسائلِ حکمت جدید کو باطل کردیں یا مسائل اسلام کو ان کے مطابق کردیں کہ اس زمانہ میں صرف یہی صورت حمایت اور حفاظت اسلام کی ہے ۔(مقالات سر سید صفحہ ١٠)
تمام مفسرین کی سوائے معتزلہ کے یہ عادت ہے کہ اپنی تفسیروں میں محض بے سند اور افوائی روایتوں کو بلا تحقیق لکھتے چلے جاتے ہیں اور ذرا بھی تحقیق کی طرف متوجہ نہیں ہوتے ۔ (ترقیم فی قصہ اصحاب الکہف وارقیم۔مطبع معید عام آگرہ۔ص۔۲۱)
تفسیروں اور سیر کی کتابوں میں خواہ وہ تفسیر ابن جریر ہو یا تفسیر کبیتر وغیرہ اور خواہ وہ سیرة ابن اسحاق ہو خواہ سیرت ابن ہشام اور کواہ وہ روضة ال احباب ہو یا مدارج النبوہ وغیرہ ان میں تو اکثر ایسی لغو اور نامعتبر روایتیں اور قصے مندرج ہیں جن کا بیان نہ کرنا ان کے بیان کرنے سے بہتر ہے ۔ (آخری مضامین صحہ ۵۳۱،چشتی)
میں اس بات کا قائل نہیں ہوں کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنی کتب مقدسہ میں تحریف لفظی کی ہے اور نہ علمائے متقدمین و محقیقین اس بات کے قائم تھے مگر علمائے متاخرین اس بات کے قائل ہیں کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنی کتب مقدسہ میں تحریف و تبدل کی ہے ۔ (تفسیر القرآن جلد ۱ صفحہ ۴)
جو ہمارے خدا کا مذہب ہے وہی ہمارا مذہب ہے خدا نہ ہندو ہے نہ عرفی مسلمان نہ مقلد نہ لا مذہب نہ یہودی نہ عیسائی وہ تو پکا چھٹا ہوا نچیری ہے وہ خود اپنے کو نیچری کہتا ہے پھر اگر ہم بھی نیچری ہوں تو اس سے زیادہ ہم کو کیا فخر ہے ۔ (مقالات سر سید جلد ۵۱ صفحہ ۷۴۱،چشتی)
میں شیطان کے وجود کا قائل ہوں مگر انسان ہی میں وہ موجود ہے ۔(تہذیب الاخلاق)
انسان کے دین دنیا اور تمدن ومعاشرت بلکہ زندگی کی حالت کو کرامت اور معجزہ پر یقین یا اعتقاد رکھنے سے زیادہ خراب کرنے والی کوئی چیز نہیں ہے ۔(مقالات سر سید)
حالانکہ قرآن مجید کی کسی آیات میں اس بات پر نص نہیں ہے کہ حضرت ابراہیم درحقیقت آگ میں ڈالے گئے تھے بے شک ان کےلیے آگ دہکائی گئی تھی اور ڈرایا گیا تھا کہ ان کو آگ میں ڈال کر جلا دیں گے مگر یہ بات کہ درحقیقت وہ آگ میں ڈالے گئے قرآن مجید سے ثابت نہیں ہے ۔ (تفسیر القرآن)
خدا نے ہم کو قانون فطرت سے یہ بتایا کہ آگ جلا دینے والی ہے پس جب تک یہ قانون فطرت قائم ہے اس کے برخلاف ہونا ایسا ہی ناممکن ہے جیسے کہ قولی وعدہ کے بر خلاف ناممکن ہے ۔ (تحریر فی اصول التفسیر صفحہ 40)
حضرت یونس کے قصے میں اس بات پر قرآن مجید میں کوئی نص صریح نہیں ہے کہ درحقیقت مچھلی ان کو نگل گئی تھی ۔ (تحریر فی اصول التفسیر)
حضرت عیسیٰ کو یہودیوں نے نہ سنگ بار کرکے قتل کیا نہ صلیب پر قتل کیا بلکہ وہ اپنی موت سے مرے اور خدا نے ان کے درجہ اور مرتبہ کو مرتفع کیا ۔ (تفسیر القرآن)
قرآن مجید میں کہیں بیان نہیں ہوا کہ معراج بجسدہ و حالتِ بیداری میں ہوئی تھی ۔ شق قمر کا ہونا محض غلط ہے ۔ ہمارے نزدیک تو نہ حضرت عیسیٰ آسمان پر سے اترنے والے ہیں نہ مہدی موعود پیدا یا ظا ہر ہونے والے ہیں ۔ (آخری مضامین)
مہدی کے آنے کی کوئی پیش گوئی مذہبِ اسلام میں ہے ہی نہیں بلکہ وہ سب ایسی ہی جھوٹی روایتیں ہیں جیسے کہ دجال اور مسیح کے آنے کی ۔ (تہذیب الاخلاق)
سر سید احمد خان کو موجودہ دور کا روشن خیال طبقہ نئے دور کا مجدّد اور مسلمانوں کی ترقی کا راہنما سمجھتے ہیں، ذیل میں سرسید کے افکار پر کچھ تفصیل پیش خدمت ہے۔ یہ پڑھنے کے بعد آپ کےلیے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہوگا کہ سرسید بھی حقیقت میں معتزلہ کے اسی سلسلہ کا فرد تھا اوراور اس کے روحانی شاگرد’ روشن خیال مذہب کے موجودہ داعی ڈاکٹر، فلاسفر، دانشور، پروفیسر ٹائپ لوگ بھی معتزلہ کے اسی مقصد یعنی دین میں شکوک وشبہات پیدا کرنے اور لوگوں کا ایمان چوسنے کا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ اور ہمارے معاشرہ کا تھوڑا پڑھا لکھا اور آزاد خیال طبقہ ان کو اسلام کا اصل داعی سمجھ کر انہی کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزار رہا ہے ۔
سرسید کی چند تصنیفات
سرسید نے اسلام کے نام پر بہت سارے مضامین‘ مقالات اور کتب تحریر کیں۔ ایک خلق الانسان (انسانی پیدائش سے متعلق لکھی ‘ جس میں ڈارون کے اس نظریہ کی تصدیق و توثیق کی گئی ہے کہ انسان پہلے بندر تھا پھر بتدریج انسان بنا‘ یوں قرآن وسنت کی نصوص کا منکر ہوا ، اسباب بغاوت ہند ۱۸۵۷ء میں مسلمانوں کے انگریزوں کے خلاف جہاد کو بغاوت کا نام دیا‘ اور انگریز سامراج کے مخالف علما اور مجاہدین پر کھلی تنقید کی ، تفسیر القرآن پندرہ پاروں کی تفسیر لکھی ہے جو درحقیقت تحریف القرآن ہے ۔ سرسید لکھتے ہیں : میں نے بقدر اپنی طاقت کے خود قرآن کریم پر غور کیا اور چاہا کہ قرآن کو خود ہی سمجھنا چاہیے ۔ (تفسیر القرآن: ۱۹ ص:۲)
چنانچہ سرسید نے اسلام کے متوارث ذوق اور نہج سے اتر کر خود قرآن پر غور کیا اور اسلام کے نام پر اپنے ملحدانہ نظریات سے فرنگیانہ اسلام کی عمارت تیار کرنا شروع کی‘ جس میں نہ ملائکہ کے وجود کی گنجائش ہے‘ نہ ہی جنت ودوزخ کا کہیں نشان ہے اور نہ جنات اور ابلیس کے وجود کا اعتراف ہے اور معجزات وکرامات تو ان کے نزدیک مجنونہ باتیں ہیں ۔
خود سرسید کے پیرو کار ومعتقد مولانا الطاف حسین حالی‘ مؤلف مسدس (وفات دسمبر ۱۹۱۴ء) تحریر فرماتے ہیں کہ : سرسید نے اس تفسیر میں جابجا ٹھوکریں کھائی ہیں اور ان سے رکیک لغزشیں سرزد ہوئی ہیں ۔ (حیات جاوید مطبوعہ آگرہ ص:۱۸۴)
سرسید کی عربی شناسی
غزوہٴ احد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے کا ایک دانت مبارک شہید ہوا تھا‘ چنانچہ علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں : وان الرباعیة التی کسرت لہ علیہ السلام ہی الیمنیٰ السفلیٰ ۔ (السیرة النبویة ج:۳‘ ص:۵۷)
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے کا داہنا نچلا دانت مبارک شہید ہوا تھا ۔
فن تجوید وقرأت کے لحاظ سے سامنے کے چار دانتوں میں سے ایک کو رباعی کہتے ہیں‘ جیسے لغت کے امام ابن منظور افریقی لکھتے ہیں : رباعی کا لفظ ثمانی کی طرح ہے یعنی سامنے کے چار دانتوں میں سے ایک ۔ (لسان العرب جلد ۸ صحہ ۱۰۸)
سرسید نے رباعی کا لفظ دیکھ کر اسے اربع (چار) سمجھ لیا ہے اور حکم لگا دیا کہ آپ کے چار دانت شہید ہوئے تھے“۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں : آنحضرت کے چار دانت پتھر کے صدمہ سے ٹوٹ گئے ۔ (تفسیر القرآن ج:۴‘ص:۶۴)
قارئینِ کرام : ملاحظہ فرمائیں کہ جو شخص رباعی اور اربعہ میں فرق نہیں کرسکا اس نے قرآن کی تفسیر لکھنے میں کیا گل کھلائے ہوں گے ۔
قرآن کی من مانی تشریحات
سرسید نے معتزلی سوچ کے مطابق دینِ اسلام کو عقل کی ترازو میں تول کر مسلماتِ دین کا انکار کیا اور قرآنِ کریم میں جہاں معجزات یا مظاہر قدرت خداوندی کا ذکر ہے‘ اس کی تاویل فاسدہ کر کے من مانی تشریح کی ہے ۔ پہلے پارے میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ : یہود سے جب عہد و پیماں لیا جارہا تھا تو اس وقت کوہِ طور کو ان کے سروں پر اٹھا کر لاکھڑا کردیا تھا ۔ جسے سارے مفسرین نے بیان کیا ہے‘ سر سید اس واقعہ کا انکار کرتا ہے اور لکھتا ہے : پہاڑ کو اٹھا کر بنی اسرائیل کے سروں پر نہیں رکھا تھا‘ آتش فشانی سے پہاڑ ہل رہا تھا اور وہ اس کے نیچے کھڑے رہے تھے کہ وہ ان کے سروں پر گر پڑے گا ۔
سرسید نہ صرف آیت کی غلط تاویل کرتا ہے بلکہ نہایت ڈھٹائی کے ساتھ مفسرین کا مذاق بھی اڑاتاہے ۔ وہ لکھتاہے : مفسرین نے اپنی تفسیروں میں اس واقعہ کو عجیب و غریب واقعہ بنادیا ہے اور ہمارے مسلمان مفسر عجائباتِ دور اذکار کا ہونا مذہب کا فخر اور اس کی عمدگی سمجھتے تھے‘ اس لیے انہوں نے تفسیروں میں لغو اور بیہودہ عجائبات (یعنی معجزات) بھر دی ہیں‘ بعضوں نے لکھا ہے کہ کوہِ سینا کو خدا ان کے سروں پر اٹھا لایا تھا کہ مجھ سے اقرار کرو نہیں تو اسی پہاڑ کے تلے کچل دیتاہوں‘ یہ تمام خرافات اور لغو اور بیہودہ باتیں ہیں ۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ص۹۷تا۹۹،چشتی)
کوئی سر سید سے یہ پوچھے کہ آتش فشانی اور پہاڑ کے لرزنے کا بیان اس نے کس آیت اور کس حدیث کی بناء پر کیا ہے۔ اس کے پاس کوئی نقلی ثبوت نہیں ہے یہ اس کی اپنی عقلی اختراع ہے ہم اس کے جمہور مفسرین کے مقابلے میں ایسی عقل پر دس حرف بھیجتے ہیں ۔
بریں عقل ودانش بباید گریست
جنت و دوزخ کا انکار
تمام مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ جنت ودوزخ حق ہیں اور دونوں پیدا کی جا چکی ہیں ۔ خود قرآن پاک سے یہ ثابت ہے ارشاد خداوندی ہے : وسارعوا الی مغفرة من ربکم وجنة عرضہا السموات والارض اعدت للمتقین ۔ (سورہ آل عمران:۱۳۳)
ترجمہ : اور اپنے رب کی بخشش کی طرف دوڑو اور جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین جتنی ہے اور پرہیزگاروں کےلیے تیار کی جاچکی ہے ۔
دوزخ کے پیدا کیے جانے بارے میں ارشاد خداوندی ہے : فاتقوا النار التی وقود ہا الناس والحجارة اعدت للکافرین ۔ (سور البقرہ:۲۴)
ترجمہ : پس ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے جو کافروں کے لئے تیار کی جاچکی ہے ۔
سرسید جنت و دوزخ دونوں کے وجود کا انکار کرتا ہے وہ لکھتا ہے : پس یہ مسئلہ کہ بہشت اور دوزخ دونوں بالفعل مخلوق وموجود ہیں‘ قرآن سے ثابت نہیں ۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ص:۳۰)
وہ مزید لکھتاہے : یہ سمجھنا کہ جنت مثل باغ کے پیدا کی ہوئی ہے‘ اس میں سنگ مرمر کے اور موتی کے جڑاؤ محل ہیں۔ باغ میں سرسبز وشاداب درخت ہیں‘ دودھ وشراب وشہد کی نالیاں بہہ رہی ہیں‘ ہرقسم کا میوہ کھانے کو موجود ہے ۔ ایسا بیہودہ پن ہے جس پر تعجب ہوتا ہے‘ اگر بہشت یہی ہو تو بے مبالغہ ہمارے خرابات (شراب خانے) اس سے ہزار درجہ بہتر ہیں ۔ (نعوذ باللہ) (تفسیر القرآن ج:۱‘ص:۲۳،چشتی)
قرآن میں جنت کی نعمتوں کا تذکرہ کسی قرآن پڑھنے والے سے مخفی نہیں ، مگر سر سید نے نا صرف ان کا صاف انکار کیا بلکہ مذاق بھی اڑایا اور شراب خانوں کو جنت سے ہزار درجے بہتر قرار دیا ۔ أَسْتَغْفِرُ اللّٰه ۔
کعبة اللہ شریف کے متعلق موقف
کعبة اللہ شریف بارے کی عظمت کے بارے میں قرآن وحدیث میں کافی تذکرہ موجود ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یعنی سب سے پہلا گھرجو لوگوں کے لئے وضع کیا گیا ہے یہ وہ ہے جو مکہ میں ہے ۔ بابرکت ہے اور جہاں والوں کے لئے راہنما ہے ۔ (سورہ آل عمران:۹۶)
ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے کعبہ کو جو کہ گھر ہے بزرگی اور تعظیم والا‘ لوگوں کےلیے قیام کا باعث بنایاہے ۔ (سورہ المائدہ:۹۷)
علامہ اقبال نے اسی کی تشریح میں فرمایا ہے : ⬇
دنیا کے بتکدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا
اب ذرا کلیجہ تھام کر سرسید کی ہرزہ سرائی کعبۃ اللہ کے بارے میں ملاحظہ فرمائیں ۔ نقل کفر کفر نباشد ۔ اپنی تحریف القرآن میں لکھتاہے : جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس پتھر کے بنے ہوئے چوکھونٹے گھر میں ایسی متعدی برکت ہے کہ جہاں سات دفعہ اس کے گرد پھرے اور بہشت میں چلے گئے یہ ان کی خام خیالی ہے ۔ اس چوکھونٹے گھر کے گرد پھر نے سے کیا ہوتا ہے‘ اس کے گرد تو اونٹ اور گدھے بھی پھر تے ہیں تو وہ کبھی حاجی نہیں ہوئے ۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ ص:۲۱۱و۲۵۱)
مزید لکھتا ہے : کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا اسلام کا کوئی اصلی حکم نہیں ہے ۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ ص:۱۵۷،چشتی)
خانہ کعبہ کے گرد طواف کے مقدس عمل کو سرسید کا ”سات دفعہ اس کے گرد پھرنا“ پھر خدا کے اس عظیم اور مقدس گھر کو انتہائی ڈھٹائی اور بے غیرتی کے ساتھ ”چوکھونٹا گھر“ کہنا اور آگے خباثت کی انتہا کرتے ہوئے یہ کہنا کہ اس کے گرد تو اونٹ اور گدھے بھی پھر تے ہیں‘ کیا وہ حاجی بن گئے؟ پھر نماز میں خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنے کے خلاف یہ زہر افشانی کرنا کہ یہ اسلام کا اصلی حکم نہیں ہے‘ کیا یہ بکواسات کیا کوئی صاحب ایمان کر سکتا ہے ؟
دوسرے پارہ کے شروع میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایاہے : سیقول السفہاء الخ“ ”اب بہت سارے بیوقوف کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس سے خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم کیوں دیا ؟
اس آیت کی رو سے جو لوگ خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنا نہیں مانتے وہ بیوقوف ہیں اور سرسید تمام بیوقوفوں کا سردار ۔
سرسید فرشتوں کے وجود کا منکر
فرشتوں کا مستقل خارجی وجود قرآن وحدیث سے صراحۃً ثابت ہے اور فرشتوں کا اس طرح وجود ماننا اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے‘ ان کے وجود کو مانے بغیر کوئی مسلمان نہیں کہلا سکتا ۔قرآن پاک میں ہے کہ : فرشتے خدا کی ایسی مخلوق ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے اور جس کام کا حکم دیا جاتاہے اس کو بجالاتے ہیں ۔ (سورہ التحریم:۶)
دوسری جگہ مذکور ہے : پھر یہی فرشتے حضرت لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے اور قوم لوط پر عذاب ڈھانے لگے ۔ (الحجر:۵۸تا۷۷)
ان تمام آیات اور روایات سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کا مستقل خارجی وجود ہے‘ مگر سرسید اس کا منکر ہے وہ لکھتا ہے کہ : قرآن مجید سے فرشتوں کا ایسا وجود جیسا مسلمانوں نے اعتقاد کررکھا ہے ثابت نہیں ہوتا ۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ص:۴۲)
آگے لکھتا ہے : اس میں شک نہیں کہ جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے تھے‘ انسان تھے اور قوم لوط کے پاس بھیجے گئے تھے ۔ علماء مفسرین نے قبل اس کے کہ الفاظ قرآن پر غور کریں یہودیوں کی روایتوں کے موافق ان کا فرشتہ ہونا تسلیم کرلیا ہے‘ حالانکہ وہ خاصے بھلے چنگے انسان تھے ۔ (تفسیر القرآن ج:۵‘ص:۶۱)
اس طرح قرآن پاک اور احادیث طیبہ یہ بات موجود ہے کہ : مختلف غزوات کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کے لئے فرشتوں کو بھیجا ہے جیسا کہ آیت ولقد نصرکم اللہ ببدر وانتم اذلة ۔ (سورہ آل عمران:۱۲۳) میں مذکور ہے ۔ سرسید اس کا منکر ہے وہ اس آیت کے تحت لکھتا ہے : بڑا بحث طلب مسئلہ اس آیت میں فرشتوں کا لڑائی میں دشمنوں سے لڑنے کےلیے اترنا ہے‘ میں اس بات کا بالکل منکر ہوں‘ مجھے یقین ہے کہ کوئی فرشتہ لڑنے کو سپاہی بن کریا گھوڑے پر چڑھ کر نہیں آیا‘ مجھ کو یہ بھی یقین ہے کہ قرآن سے بھی ان جنگجو فرشتوں کا اترنا ثابت نہیں ۔ (تفسیر القرآن از سرسید ج:۲‘ص:۵۲)
سرسید جبرائیل امین کا منکر ہے
قرآن پاک میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کا ذکر ہے ۔ ترجمہ : جو کوئی مخالف ہو اللہ کا یا اس کے فرشتوں کا یا اس کے پیغمبروں کا یا جبرائیل کا اور میکائیل کا تو اللہ تعالیٰ ایسے کافروں کا مخالف ہے ۔ (البقرہ:۹۸)
اسی طرح کئی احادیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کبھی انسانی شکل میِں بار گاہ نبوی میں تشریف لاتے ‘چنانچہ مشکوٰة کی پہلی حدیث ”حدیث جبرائیل“ میں جب سوالات کرنے کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لے گئے تو آپ ا نے فرمایا : فانہ جبرئیل اتاکم یعلمکم دینکم ۔ یہ حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے‘ تم کو تمہارا دین سکھانے آئے تھے ۔ (مشکوٰة: کتاب الایمان)
سرسید حضرت جبرائیل علیہ السلام کے وجود کا منکر ہے ۔ وہ لکھتا ہے : ہم بھی جبرائیل اور روح القدس کو شئی واحد تجویز کرتے ہیں‘ مگر اس کو خارج از خلقتِ انبیاء جداگانہ مخلوق تسلیم نہیں کرتے‘ بلکہ اس بات کے قائل ہیں کہ خود انبیاء علیہم السلام میں جو ملکہ نبوت ہے اور ذریعہ مبدء فیاض سے ان امورکے اقتباس کا ہے جو نبوت یعنی رسالت سے علاقہ رکھتے ہیں‘ وہی روح القدس ہے اور وہی جبرائیل ہے ۔ (تفسیر القرآن از سرسید ج:۲‘ ص:۱۵۶‘ ج:۱‘ ص:۱۸۱‘ ۱۲۲‘ ۱۲۹‘ ۱۷۰،چشتی)
اس عبارت میں سرسید نے اس بات کا انکار کیا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کوئی خارجی وجود ہے ‘ بلکہ ان کے نزدیک یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طبیعت میں ودیعت کردہ ایک ملکہ نبوت کا نام ہے ۔
سرسید کا واقعہ معراج سے انکار
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے معجزات میں سے ایک معجزہ واقعہٴ معراج ہے ۔ سرسید نے یہاں بھی عقل لڑائی مشرکینِ مکہ کی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اپنے جسم مبارک کے ساتھ سات آسمانوں پر جانا اس کی عقل میں نہ آسکا اور وہ انکار کرگیا ۔ اپنی تفسیرالقرآن ج :۲ ص: ۱۳۰ پر لکھتا ہے : ہماری تحقیق میں واقعہ معراج ایک خواب تھا جو رسول اللہ نے دیکھا تھا ۔
حقیقت میں معجزہ کہتے ہی اس کو ہیں جس کو سمجھنے سے عقل عاجز ہو ۔ اگر اسے خواب یا تصور کا واقعہ قرار دیں تو معجزہ نہیں کہلا یا جا سکتا ‘ کیونکہ خواب اور تصور میں کوئی بھی شخص اس قسم کا واقعہ دیکھ سکتا ہے ۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا واقعہ معراج تب معجزہ بنے گا جب ہم یہ تسلیم کر لیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو معراج روح مع الجسد ہوئی تھی یعنی جسم اور روح دونوں کو معراج ہوئی تھی‘ اور اسی بات پر امت کا اجماع چلا آرہا ہے ۔ روایات میں آتاہے کہ واقعہ معراج کا سن کر کفار ومشرکین مکہ آپ کے ساتھ حجت بازی کرنے لگے ۔ اگر واقعہ معراج خواب کا واقعہ ہوتا تو کفار ومشرکین کبھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ حجت بازی نہ کرتے ۔
جنات وشیاطین کے وجود کا انکار
جنات و شیاطین کا وجود قرآن وحدیث سے ثابت ہے اور ایک راسخ العقیدہ مسلمان کےلیے اس میں شک وشبہ کی گنجائش نہیں‘ مگر سرسید اس کا انکار کرتا ہے‘ وہ حضرت سلیمان علیہ السلام اور ان کے ماتحت جنات کے کام کرنے کے قرآنی واقعہ پر تبصرہ کرتا ہے : ان آیتوں میں ”جن“ کا لفظ آیا ہے‘ اس سے وہ پہاڑی اور جنگلی آدمی مراد ہے‘ جو حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاں بیت المقدس بنانے کا کام کرتے تھے اور جن پر بسبب وحشی اور جنگلی ہونے کے جو انسانوں سے جنگلوں میں چھپے رہتے تھے اور نیز بسبب قوی اور طاقتور اور محنتی ہونے کے ”جن“ کا اطلاق ہوا ہے پس اس سے وہ جن مراد نہیں جن کو مشرکین نے اپنے خیال میں ایک مخلوق مع ان اوصاف کے جو ان کے ساتھ منسوب کئے ہیں‘ ماناہے اور جن پر مسلمان بھی یقین کرتے ہیں ۔ (تفسیر القرآن ج: ۳‘ ص: ۶۷)
اس طرح سرسید شیطان کا الگ مستقل وجود تسلیم نہیں کرتا ‘ بلکہ انسان کے اندر موجود شرانگیز صفت کو شیطان قرار دیتاہے ۔
آگے لکھتاہے : انہی قویٰ کو جو انسان میں ہے اور جن کو نفس امارہ یا قوائے بہیمیہ سے تعبیر کرتے ہیں‘ یہی شیطان ہے ۔ (تفسیر القرآن جلد ۳ صفحہ ۴۵،چشتی)
سرسید کے اعتزالی گمراہ کُن عقائد و نظریات کا مکمل احاطہ کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے ، فقیر چشتی نے اس کے چند گمراہ افکار پر روشنی ڈالی ہے ۔ حقیقت میں سرسید اور ان جیسے دیگر روشن خیالوں کی فکری جولانیوں کودیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ : ⬇
ناطقہ بگریباں ہے اسے کیا کہیے ؟
خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھیے ؟
مسلمانوں کےلیے ضروری ہے کہ وہ موجودہ دور کے ان معتزلہ کے افکار و نظریات کو پہچان کر اپنے ایمان و عمل کو ان کی فریب کاری سے بچائیں اور جو سادہ لوح مسلمان ان کے شکنجہ میں آ چکے ہیں ان کے بارے میں فکر مند ہوکر ان کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کریں ۔ حیرت کی بات ہے موجودہ پی ڈی ایم کی امریکی سازش سے لاٸی گٸی حکومت نے پاکستان کے پچھترویں 75 جشنِ آزادی پر جو پچھتر روپۓ کا یادگاری نوٹ جاری کیا ہے اُس پر اپنے آقا انگریز کے اس پٹھو گمراہ شخص کی تصویر لگاٸی ہے اے اہلِ ایمان و اہلِ وطن کب تک خوابِ غفلت میں پڑے رہو گے ؟ ۔ اللہ عزوجل ہمیں جملہ فتنوں سے بچاۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment