Monday 28 August 2017

قربانی کی کھال کے مصارف

0 comments
قربانی کی کھال کے مصارف

قربانی کی کھال اگر کوئی شخص اپنے ذاتی مصرف میں لانا چاہے تو لا سکتا ہے، مثلاً جائے نماز بنا لے۔ تمام فقہاء کرام کے نزدیک ایسا جائز ہے۔ لیکن اگر فروخت کریں تو اس کی قیمت مناسب مصرف میں استعمال کی جائے اور ہرگز اپنے پاس نہ رکھی جائے۔

یہ کھالیں کسی بھی فلاحی و دینی کام میں استعمال کی جا سکتی ہیں۔ غربا و مساکین کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والے بااعتماد فلاحی ادارے کو دی جا سکتی ہیں۔ غریب و مستحق طلبا کی تعلیم پر خرچ کی جا سکتی ہیں۔ بیمار لوگوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے کے لیے خرچ کی جا سکتی ہیں۔

مولائے کاینا حضرت سیدنا علی بن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَمَرَهُ أَنْ يَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ، وَأَنْ يَقْسِمَ بُدْنَهُ كُلَّهَا لُحُومَهَا وَجُلُودَهَا وَجِلَالَهَا، وَلَا يُعْطِيَ فِي جِزَارَتِهَا شَيْئًا، قَالَ: نَحْنُ نُعْطِيهِ مِنْ عِنْدِنَا ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اونٹوں پر مقرر فرمایا اور حکم دیا کہ اونٹ سارے کا سارا تقسیم کردوں، گوشت، کھال اور جھول سب، اور اس میں سے کچھ بھی قصائی کو (بطور اجرت ) نہ دوں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم قصائی کو پھر اپنی طرف سے اجرت دیتے تھے)۔
(أخرجه البخاري كتاب الحج باب يتصدق بجلود الهدي، ومسلم كتاب المناسك باب من جلّل البدنة، وأحمد (1/79)، والدارمي(2/74)، من حديث علي رضي الله عنه، وانظر الإرواء(1161)

سنت یہ ہے کہ قربانی کی کھالوں کو صدقہ کردیا جائے

الترغیب والترہیب میں حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَنْ بَاعَ جِلْدَ أُضْحِيَّتِهِ فَلَا أُضْحِيَّةَ لَهُ ۔ (صحیح ترغیب 1088)
ترجمہ : جس نے اپنی قربانی کی کھال فروخت کی اس کی قربانی نہیں ۔

اسے حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا صحیح الاسناد ہے۔ اور الحافظ کہتے ہیں اس کی اسناد میں عبداللہ بن عیاش القبانی المصری ہے جو کہ مختلف فیہ ہے۔ اس کے علاوہ بھی احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قربانی کی کھالیں بیچنے سے منع فرمایاہے ۔ ’’فَلَا أُضْحِيَّةَ لَهُ‘‘ کے حاشیہ میں اس کا معنی لکھا ہے کہ اسےاس کا ثواب نہيں ملے گا۔ (الکامل ص 156 ج 2 ط دار احیاء التراث العربی، بیروت)۔

قربانی کے جانور کی کھال کے مصارف کا مختصر بیان

ذاتی استعمال میں لانا: قربانی کی کھال کو جائے نماز ،مشکیزہ ،یا موزے وغیرہ بناکر اپنے ذاتی استعمال میں لانا بھی جائز ہے ۔

مگر کھال کو بیچ کر رقم ذاتی استعمال میں لانا جائز نہیں ہے اب اس رقم کو صدقہ کرنا ضروری ہے ۔

قربانی کی کھال امام و خطیب کو دینا:قربانی کے جانور کی کھال امام و خطیب کو بطور ہدیہ دینا جائز ہے جبکہ معاوضہ کے طور پر دینا جائز نہیں ہے ۔

مالدار امام کا اپنے لئے کھال مانگنا: اگر امام مالدار ہو تو اس کا قربانی کی کھال اپنے لےے مانگنا بہت برا ہے اور منصبِ امامت کی تذلیل ہے ۔

قربانی کی کھال کو فروخت کرنا: اگر کوئی شخص قربانی کی کھال کو اپنے مصرف میں لانے کےلئے فروخت کرتا ہے تو اس کی قیمت صدقہ کرنا لازمی ہے ورنہ قربانی نہیں ہو گی اور اگر کھال کو اس لئے فروخت کرتا ہے کہ اس کی قیمت کسی مدرسہ میں دے گا تو پھر کوئی حرج نہیں ۔لیکن جہاد کے نام پر فساد پھیلانے والی تنظیموں کو کھال نہیں دینی چاہئے ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

قربانی کی کھال کا مصرف کیا کیا ہو سکتا ہے :قربانی کی کھال ہر اُس کام میں صرف کی جا سکتی ہے جو باعث ثواب ہے ۔البتہ فنکاروں کو دینا مناسب نہیں۔

قربانی کی کھال کا بہترین مصرف: قربانی کی کھال کا بہترین مصرف دینی مدارس اہلسنت و جماعت ہیں ۔مدارس میں کھال صدقہ جاریہ بن جاتی ہے ۔

قربانی کا چمڑا قصاب کو دینا: قربانی کا چمڑا گوشت یا اس میں سے کوئی چیز قصاب یا ذبح کرنے والے کو اُجرت میں دینا جائز نہیں ہے ۔

قربانی کی کھال مالدار بیوہ کو دینا: بعض لوگ قربانی کی کھال کی قیمت بیوہ عورتوں کو دیتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ ان کے پاس سونا چاندی یا نقد بقدر نصاب موجود ہے کہ نہیں ہاں اگر بیوہ عورت غریب ہے تو اسے قربانی کی کھال دینا صحیح ورنہ نہیں۔

قربانی کے جانور کی چربی ،سری پائے اور اون وغیرہ کا حکم: قربانی کرنے کے بعد جانور کی چربی ،سری پائے ،اون ،بال اور دودھ وغیرہ کو ایسی چیز کے عوض فروخت نہیں کرنا چاہےے جس سے بعینہ فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا جیسے روپے پیسے اور کھانے پینے کی چیزیں ۔اسی طرح ان چیزوں کو فروخت کر دیا تو ان کی قیمت صدقہ کرنا ضروری ہے ۔(ماخوذ : فتاویٰ رضویہ ، فتاویٰ عالمگیری ، بہار شریعت)

واضح رہےکہ قربانی کی کھال کواپنےاستعمال میں لاکرجائےنماز،مشکیزہ وغیرہ بنانابھی درست ہےاورکسی مستحق کودینابھی درست ہے (اورمستحق ہروہ شخص ہےجوساڑھےباؤن تولہ چاندی ،یااسکےبرابرسونا،روپیہ یاضرورت سےزائد سامان کامالک نہ ہو) اسی طرح قربانی کی کھال کسی غنی کوبطورہدیہ بھی دی جاسکتی ہے،اوراگرقربانی کی کھال کوفروخت کیاجائےتوان روپیوں کااپنےاستعمال میں لانادرست نہیں بلکہ صدقہ کرناواجب ہے۔(فتح القدير للمحقق ابن الهمام الحنفي – (22 / 119)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

چنانچہ فتاوٰی شامی (6/328)میں ہے : (فَإِنْ) (بِيعَ اللَّحْمُ أَوْ الْجِلْدُ بِهِ) أَيْ بِمُسْتَهْلَكٍ (أَوْ بِدَرَاهِمَ) (تَصَدَّقَ بِثَمَنِهِ)
وَلَوْ بَاعَ الْجِلْدَ وَاللَّحْمَ بِالدَّرَاهِمِ أَوْ بِمَا لَا يُنْتَفَعُ بِهِ إلَّا بِاسْتِهْلَاكِهِ تَصَدَّقَ بِثَمَنِهِ
الهداية في شرح بداية المبتدي – (4 / 360)

فلو باع الجلد أو اللحم بالدراهم أو بما لا ينتفع به إلا بعد استهلاكه تصدق بثمنه، لأن القربة انتقلت إلى بدله، وقوله عليه الصلاة والسلام: “من باع جلد أضحيته فلا أضحية له” يفيد كراهة البيع.(البناية شرح الهداية – (12 / 55)
(واللحم بمنزلة الجلد في الصحيح) ش: يعني إذا باعه بالدراهم يتصدق به، وإن باعه بشيء آخر ينتفع به، كما في الجلد، ولو اشترى ما لا ينتفع به إلا بعد استهلاكه لا يجوز، احترز بقوله في الصحيح، عما روي في ” الأجناس ” قال: وإنما في اللحم أن يأكل ويطعم وليس له غيره فيه، وفي الجلد له أن يشتري الغربال والمنخل ويتخذ منه مسكا ۔

قربانی کی کھال فروخت کرنے کے بعد ان کی قیمت غرباء مساکین پر صدقہ کرنا واجب ہے، جو لوگ زبردستی قربانی کی کھال لے جاتے ہیں ان کا زبردستی بغیر مالکان کی خوش دلی کے لے جانا گناہ ہے، ان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ایسا کریں، بلکہ مالکان کو راضی کرکے لے جائیں اور فروخت کرکے جن مصارف میں خرچ کریں گے ان کی وضاحت کرکے مالکان کو مطمئن کردیں۔ بہرصورت آپ لوگوں کی قربانی صحیح اور درست ہوگئی، کھال کی قیمتوں کے غلط استعمال کرنے کے ذمہ دار لے جانے والے ہوں گے، قربانی کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔مسجد کے اخراجات، امام کی تنخواہ وغیرہ میں خرچ کرنا ناجائز ہے، مدرسہ کے طلبہ اگر غریب مستحق زکاة ہیں تو انھیں دی جاسکتی ہے، لیکن اگر مالدار ہیں تو چرم قربانی کی قیمت مالدار طلبہ کو نہیں دی جاسکتی۔

أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَخْبَرَهُ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ أَنْ يَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ، وَأَنْ يَقْسِمَ بُدْنَهُ كُلَّهَا، لُحُومَهَا وَجُلُودَهَا وَجِلاَلَهَا، وَلاَ يُعْطِيَ فِي جِزَارَتِهَا شَيْئًا ۔
مولائے کاینات حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ کو بتایا کہ نبی کریم ﷺ نے ان کو حکم دیا کہ وہ آپ ﷺ کے قربانی کے اونٹوں پر (بطور نگران) کھڑے ہوں اور ان کو حکم دیا کہ اس کا گوشت اور کھالیں اور جُل مساکین میں صدقہ کردیں اور اس (گوشت، کھالوں اور جُل) میں سے کچھ بھی اس کی اجرت کے طور پر نہ دوں۔(صحيح البخاري، كتاب الحج، باب يتصدق بجلود الهدي، (1717))
اس حدیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کھالیں صدقہ ہیں اور صدقہ کے مصارف اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمائے ہیں: ‹اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَابْنِ السَّبِيْلِ فَرِيْضَۃً مِّنَ اللہِ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ صدقات یقیناً صرف اور صرف فقراء ، مساکین (صدقہ کے) عاملین اور تالیف قلب اور گردنوں کو آزاد کروانے اور غارمین (جن کو چٹی پڑ جائے) اور فی سبیل اللہ (جہاد) اور مسافروں کےلیے ہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فریضہ ہے اور اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا، حکمت والا ہے۔ [التوبۃ: 60] اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے صدقات کے آٹھ مصارف بیان کیے ہیں لہٰذا قربانی کی کھالیں بھی ان آٹھ مصارف پر خرچ کی جائیں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔