والدین کی خدمت کیجیئے یہی راستہ جنّت کا راستہ ہے
خوش قسمت اولاد : وہ اولاد نہایت ہی خوش قسمت ہے، جس نے اپنے والدین کو عقل و شعور میں پایا اور ان کی خدمت کرکے جنّت کی شاہِ کلید حاصل کرلیا۔ والدین کا رشتہ ایک ایسا عظیم رشتہ ہے جو سب سے زیادہ حسن سلوک،عزت و توقیر، اطاعت و فرمانبرداری، احسان و اکرام اور ادب و احترام کا متقاضی ہے۔ والدین ایک عظیم نعمت اور عطیۂ ربّانی ہیں۔ زجر و توبیخ کرنا اور ڈانٹ ڈپٹ کرنا تو دور کی بات، اسلام نے انہیں” افّ “بھی کہنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ ایک مطیع و فرمانبردار اور صالح اولاد کی یہ ذمے داری ہے کہ والدین کے سامنے متواضعانہ انداز میں پیش ہو اور ان کا حکم کو بجالائے۔
بد قسمت اولاد : آج لوگ والدین کے حقوق کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور بسا اوقات تو یہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگ والدین کے مقابلے میں جانور وں کو ترجیح دیتے ہیں۔ آج یورپی ممالک؛ بل کہ بہت سے ایشیائی ممالک میں بھی جو لوگ”فادرس ڈے “ اور”مادرس ڈے“مناتے نہیں تھکتے، ان کا حال یہ ہے کہ والدین کو بڑھاپے میں”اولڈ ایج ہاؤس“ میں پہنچادیتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ والدین بڑھاپے میں اپنی اولاد اور بچوں کے زیادہ محتاج اور ضرورت مند ہوتے ہیں۔ ایسے وقت میں ان کو ایسی جگہ پر پہنچا دیا جاتا کہ وہ ایک تو بڑھاپے اور دوسرے اولاد کی جدائی کے صدمہ میں ڈپریشن کے مریض ہوجاتے ہیں۔ یہ نام نہاد مہذّب و مشفق یورپی ممالک کے لوگ، جو اپنے والدین کے حقوق ادا نہیں کرپاتے، دوسروں کو حقوق انسانی کا درس دینے میں ذرہ برابر بھی شرم و عار محسوس نہیں کرتے ہیں۔ ان ممالک میں ایک شخص اپنے پالتو کتّے کے حقوق کی رعایت، اپنے والدین کے حقوق سے زیادہ کرتا ہے۔ اس طرح کی اولاد کو بدقسمت نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے ۔
حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ : اسلامی تاریخ میں ایک شخص اویس بن عامر قرنی یمنی (رحمۃ اللہ علیہ) کے نام سے جانےجاتے ہیں۔وہ بڑے متقی و زاہد اور خیرالتابعین تھے۔ انھوں نے عہد نبوی پایا؛ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نہیں کرسکے۔
وجہ یہ تھی وہ اپنی والدہ کی خدمت کے لیےتنہا تھے اور کوئی دوسرا نہیں تھا جو ان کی خدمت کرتا؛ لہذا والدہ کی خدمت میں رہے اور رسول اللہ صلی اللہ کا دیدار کرسکے اور نہ صحبت نبوی سے مشرف یاب ہوسکے۔ یہ ہے حسن سلوک اور والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کا عظیم نمونہ ۔ (حلیۃ الأولیاء 2/87)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اویس قرنی کو”خیر التابعین“سے تعارف کرایا۔امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں۔
ترجمہ: تابعین میں سب سے بہتروہ شخص ہےجسے اویس کہا جاتا ہے۔ اس کی ماں (زندہ) ہے،ا ور اس کے جسم میں (برص کے) سفید داغ ہیں۔ تم ان سے کہو کہ وہ تمہارے لیے مغفرت کی دعا کرے ۔ (مسلم شریف )(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اسلام ایک متوازن اور معتدل دین ہے۔ اس دین میں سب کے حقوق کی خوب رعایت کی گئی ہے۔ قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں والدین کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کرنے کا جو حکم آیا ہے، ہم اسے ذیل میں قلم بند کرتے ہیں ۔
والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو : اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے: ترجمہ: اور ہم نے انسان کو ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔(سورۃ عنکبوت، آیت: 8)
اللہ سبحانہ وتعالی نے اس آیت کریمہ میں انسان کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ اس حکم کو اللہ تعالی نے”وَصَّيْنَا“ سے تعبیر کیا ہے۔وصیّت کہتے ہیں کسی شخص کو کسی عمل کی طرف بلانے کو؛ جب کہ وہ بلانا نصیحت اور خیرخواہی پر مبنی ہو۔
والدین کو”ہونہہ“بھی مت کہو : ایک جگہ قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے کہ والدین کو”اف“ بھی نہ کہا جائے۔ ترجمہ ملاحظہ فرمائیے:اور تیرے رب نے حکم کردیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی عبادت مت کرو اور تم ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو۔ اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں کے دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں، سو ان کو کبھی ”ہونہہ“ بھی مت کہنااور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا۔ اور ان کےسامنے شفقت سے، انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہناکہ اے میرے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمایئے جیسا کہ انہوں نے مجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیاہے۔(سورۃ بنی اسرائیل، آیت: 23-24)
والدین کے ساتھ احسان کا معاملہ کرو : قرآن کریم میں ایک جگہ فرمان خداوندی ہے۔ ترجمہ:اور تم اللہ کی عبادت اختیار کرواور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرو اور (اپنے) والدین کے ساتھ اچھا معاملہ کرو۔(سورۃ نساء، آیت: 36)
لفظ ”احسان“ لایا گيا، جس کے عام مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ حسب ضرورت ان کے نفقہ میں اپنا مال خرچ کریں اور یہ بھی داخل ہے کہ جیسی ضرورت ہو اس کے مطابق جسمانی خدمات انجام دیں۔ یہ بھی داخل ہے کہ ان کے ساتھ گفتگو میں سخت آواز سے یا بہت زور سے نہ بولیں جس سے ان کی بے ادبی ہو، کوئی ایسا کلمہ نہ کہیں جس سے ان کی دل شکنی ہو۔ ان کے دوستوں اور تعلق والوں سے بھی کوئی ایسا سلوک نہ کریں جس سے والدین کی دل آزاری ہو؛ بل کہ ان کو آرام پہونچانے اور خوش رکھنے کے لیے جو صورتیں اختیار کرنی پڑیں وہ سب کریں۔ یہاں تک کہ اگر ماں باپ نے اولاد کے حقوق میں کوتاہی بھی کی ہو جب بھی اولاد کے لیے بدسلوکی کرنے کا کوئی موقع نہیں ہے۔
والدین کی شکرگزاری کیا کرو : اللہ تعالی انسان کو والدین کی شکر گزاری اور اچھائی و حسن سلوک کی وصیت و تاکید کرتے ہوئے ماں کے حمل کی مشقت و تکلیف اور پھر دودھ پلانے کا ذکرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ترجمہ: اور ہم نے انسان کو ان ماں باپ کے متعلق تاکید کی ہے۔اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر، اس کو پیٹ میں رکھا اور دو برس میں اس کا دودھ چھوٹتا ہے کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکرگزاری کیا کرو۔(سورۃ لقمان، آیت: 14)
یہاں جب کہ والدین کے حقوق اور ان کی شکرگزاری کا حکم دیا گيا؛ تو اس کی حکمت یہ بتلادی کہ اس کی ماں نے اس کے وجود و بقا میں، بڑی محنت برداشت کی ہے کہ نو مہینے تو اس کو اپنے شکم میں رکھ کر اس کی حفاظت کی اور اس کی وجہ سے جو روز بروز اس کو ضعف پر ضعف اور تکلیف پر تکلیف بڑھتی گئی، اس کو برداشت کیا، پھر اس کے پیدا ہونے کے بعد بھی دو سال تک اس کو دودھ پلانے کی زحمت برداشت کی، جس میں ماں کو خاصی محنت بھی شب و روز اٹھانی پڑتی ہے، اور اس کا ضعف بھی اس سے بڑھتا ہےاور چوں کہ بچے کی پرورش میں محنت و مشقت زیادہ ماں اٹھاتی ہے؛ اس لیے شریعت میں ماں کا حق باپ سے بھی مقدم رکھا گیا ہے۔
نماز کے بعد والدین کا درجہ : شریعت اسلامیہ میں نماز کو ایک بڑا ستون قرار دیا گیا ہے اور اس کے بعد والدین کے ساتھ نیکی کا درجہ رکھا گیا ہے؛ لہذا جب بھی والدین ہمیں اپنی خدمت اور کسی بھی غرض سے بلائیں، ہمیں بغیر کسی تاخیر کے ان کی خدمت میں حاضر ہونا چاہیے۔ حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کون سا عمل اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: نماز وقت پر ادا کرنا۔ انہوں نے سوال کیا، پھر کون سا عمل؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: والدین کے ساتھ نیکی کرنا۔ انہوں نے پھر سوال کیا، پھر کون سا عمل؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب مرحمت فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔(بخاری شریف، حدیث نمبر: 5970)
والدہ احسان کی سب سے زیادہ مستحق : والدہ احسان اور حسن سلوک کی سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ ایک سائل کے سوال کے جواب میں تین بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدہ کو حسن رفاقت اور حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق بتلایاہے۔ اس حدیث شریف کی وضاحت میں علماء کرام نے یہ لکھا ہے کہ حسن سلوک کے حوالے سے ماں کا درجہ باپ کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔وہ اس لیے کہ ماں تین ایسی مشقتیں برداشت کرتی ہیں، جو باپ نہیں کرتا۔ وہ مشقتیں یہ ہیں: حمل کی مشقت، بچہ جننے کی مشقت اور دودھ پلانے کی مشقت۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حدیث کے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ ترجمہ: ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور اس نے سوال کیا: اے اللہ کے رسول! میری حسن رفاقت کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری ماں“ اس نے سوال کیا: پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری ماں“ پھر اس نے عرض کیا: پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”تمہاری ماں“ (اس کے بعد پھر ) اس شخص نے سوال کیا: پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:”تمہارا باپ۔ (بخاری شریف، حدیث: 5971)
مشرکہ ماں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرو : اگر کسی کے والدین کافر و مشرک ہوں، اس صورت میں بھی اسلام حسن سلوک سے نہیں روکتا؛ بل کہ حکم کرتا ہے کہ ان کے ساتھ بھی اچھے اخلاق سے پیش آؤ اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرو۔
حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا کی والدہ ”قتیلہ“ جو کہ مشرکہ تھیں،بیٹی کے پاس کچھ ضرورت کی وجہ سے آئیں۔ اس حوالے سے بیٹی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ دریافت کروایا؛ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”صلہ رحمی“ کا حکم صادر فرمایا۔ حدیث کا ترجمہ ذیل میں ہے: عہد رسالت میں میری والدہ میرے پاس آئی؛ جب کہ وہ مشرکہ تھیں؛ تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتوی طلب کرتے ہوئے عرض کیا کہ میری ماں کسی کام سے آئی ہیں۔ کیا میں اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب عنایت فرمایا: “ہاں، اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو ۔ (بخاری شریف، حدیث: 2620)
والدین کی رضا میں اللہ کی رضا : ایک حدیث شریف میں اللہ کی رضا کو والدین کی رضا کے ساتھ لازم کردیا گیاہے۔ اگر والدین راضی ہوں؛ تو اللہ بھی راضی اور اگر والدین ناراض ہوں؛ تو اللہ بھی ناراض۔ ابن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: رب کی رضا باپ کی رضا میں ہے اور اللہ کی ناراضی باپ کی ناراضی میں ہے۔(ترمذی شریف، حدیث: 1899)
والدین کے دوست کے ساتھ حسن سلوک : اسلام میں والدین کے ساتھ حسن سلوک اور عزت و اکرام کے ساتھ یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ ان کے عزیز و اقارب اور دوستوں اور سہیلیوں کے ساتھ بھی توقیر و تعظیم اور حسن سلوک کا معاملہ کیا جائے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بہت بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے والد کے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔(مسلم شریف)
والدین کی نافرمانی کبیرہ گناہ ہے : والدین کی نافرمانی کو اکبر کبائر (کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ) میں شمار کرایا گيا ہے۔کبیرہ گناہ تو خود ایسا گناہ ہے کہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتا، پھر وہ گناہ جو اکبر کبائر ہو اس کی شناعت و قباحت کتنی ہوگی! ایک حدیث شریف میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کے فورا بعد، والدین کی نافرمانی کو اکبر کبائر میں شمار کرایا ہے۔ حضرت عبد الرحمن بن ابو بکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہایت ہی بڑے کبیرہ گناہ نہ بتادوں؟ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیوں نہیں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔ پھر آپ ٹیک لگا کر بیٹھے تھے کہ (ٹیک چھوڑ کر) بیٹھے، پھر فرمایا: خبرادا! جھوٹی بات کہنا اور جھوٹی گواہی دینا۔ خبرادا! جھوٹی بات کہنا اور جھوٹی گواہی دینا۔(بخاری شریف، حدیث: 5976)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
دوسروں کے والدین کو بھی برا مت کہو : کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی اپنے والدین کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھتا ہے؛ مگر دوسروں کے والدین کو گالی گلوچ کرتا ہے۔ پھر جواب میں دوسرا شخص بھی اس کے والدین کی گالی دیتا ہے؛ اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اگر کسی کے ماں باپ کے ساتھ سبّ و شتم کرتے ہو، پھر جواب میں وہ تمہارے والدین کے ساتھ سبّ و شتم کرتاہے؛ تو یہ ایسا ہے کہ گویاتم خود اپنے والدین کو گالی گلوچ کررہے ہو؛ جب کہ والدین کے ساتھ گالی گلوچ کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کبرہ گناہوں میں سے ہے کہ آدمی اپنے والدین کو گالی دے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ اے رسول اللہ! کیا آدمی اپنے والدین کو گالی دیے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہاں، وہ کسی کے باپ کو گالی دے، پھر وہ اس کے باپ کو (جواب میں) گالی دےاور یہ اس کی ماں کو گالی دے، پھر وہ (جواب میں) اس کی ماں کو گالی دے۔(مسلم شریف)
خاک آلودناک : ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کے لیے بدنصیب و بد قسمت اور ناک غبار آلود ہونے کی بد دعا فرمائی ہے جس نے اپنے ماں اور باپ دونوں کو یا پھر ان میں سے ایک کو کبر سنی میں پانے کے باوجود، ان کی خدمت کرکے اور ان دعا کی بدولت جنت کا مستحق نہ بن گيا ہو۔ والدین تو ہمیشہ حسن سلوک اور حسن رفاقت کے حق دار ہیں؛ لیکن بڑھاپے میں وہ اپنے اولاد کی خدمت کے زیادہ محتاج ہوتے ہیں؛ لہذا اولاد کو بھی چاہیے کہ والدین کے ساتھ بڑھاپے میں زیادہ حسن سلوک کریں۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث شریف میں بڑھاپے کا ذکر ہے۔ ترجمہ ملاحظہ فرمائیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس شخص کی ناک غبار آلود ہوجائے،پھر اس شخص کی ناک خاک آلود ہوجائے،پھر اس شخص کی ناک غبار آلود ہوجائے۔ آپ سےپوچھا گيا: اے اللہ کے رسول! کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: جس نے اپنے والدین میں سے ایک یا دونوں کو بڑھاپے میں پائے، پھر وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوا۔(مسلم شریف)
والدین کی وفات کے بعدان کے حقوق : اسلامی تعلیمات کے مطابق والدین کے حقوق صرف ان کی حیات ہی تک محدود نہیں ہیں؛ بل کہ جب وہ انتقال کرجائیں، اس کے بعد بھی ان کےحقوق ہیں۔ بنو سلمہ قبیلہ کا ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور اس حوالے سے اس نے سوال کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے بعد بھی والدین کے حقوق شمارکرائے۔
حضرت ابو اسید مالک بن ربیعہ ساعدی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ قبیلۂ بنو سلمہ کا ایک شخص آپ کے پاس آیا۔ پھر اس نے سوال کیا: اے اللہ کے رسول! کیا میرے والدین کی موت کے بعد، کوئی ایسی نیکی باقی ہےکہ میں ان کے ساتھ کرسکوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہاں، ان کے لیے دعا کرنا، ان کےلیے استغفار کرنا، ان (کی موت ) کے بعد ان کے وعدوں کو پورا کرنا، ان کے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنااور ان کے دوستوں کی عزت کرنا۔(ابو داؤد شریف، حدیث: 5142)
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ والدین کی موت کے بعد ہمیں ان کے لیے دعا کرنا چاہیے، استغفار کرنا چاہیے، ان کےوعدوں کو پورا کرناچاہیے، ان کے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنی چاہیے اور ان کے دوست و احباب کی عزت کرنی چاہیے۔اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment