Sunday 6 August 2017

فضائل و مسائلِ حج و قربانی حصّہ چہارم

0 comments
فضائل و مسائلِ حج و قربانی حصّہ چہارم

قربانی کے فضائل و مسائل : سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا، کہ یوم النحر میں ابن آدم کا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ پیارا نہیں، اور (قربانی کا) جانور قیامت کے دن اپنے سینگ اور بال اور کهروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قبولیت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے ۔ لہذا اس (قربانی) کو خوشدلی سے کرو ۔ (جامع الترمذی کتاب الاضاحی)
حضور جان عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے خوش دلی سے طالب ثواب ہو کر قربانی کی وہ (قربانی) جہنم کی آگ سے حجاب (روک) ہوجائے گی ۔ ( معجم کبیر رقم الحدیث 2736 جلد 3)
رسول مکرم شفیع اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا، جو روپیہ عید (عیدالاضحیٰ) کے دن قربانی میں خرچ کیا گیا اس سے زیادہ کوئی روپیہ پیارا نہیں ۔ (معجم کبیر رقم الحدیث 10894)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
سیدعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا، جس میں وسعت ہو اور قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے ۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الاضاحی)
حنش روایت کرتے ہیں کہ میں نے شیر خدا علی المرتضی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کو دیکها کہ وہ دو مینڈهے کی قربانی کرتے ہیں، میں نے عرض کی یہ کیا؟ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مجهے وصیت فرمائی کہ میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی طرف سے قربانی کروں، لہٰذا میں سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی طرف سے (یہ دوسری) قربانی کرتا ہوں ۔ (جامع الترمذی، کتاب الاضاحی)
رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا، قربانی میں گائے سات (7) کی طرف سے اور اونٹ سات (7افراد) کی طرف سے ہے ۔ ( معجم کبیر رقم الحدیث 10026 جلد10؛ مجمع الزوائد للهیثمی کتاب الاضاحی باب فی البقرہ والبدنہ جلد 4 صفحہ 9)
سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا، جس نے ذی الحجہ کا چاند دیکھ لیا اور اس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہے تو جب تک قربانی نہ کرلے بال اور ناخنوں سے نہ لے؛ یعنی بال نہ کٹوائے اور ناخن نہ ترشوائے ۔ ( صحیح مسلم، کتاب الاضاحی)
سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری برکاتی قدس سرہ العزیز، نے اسی حدیث پاک کے متعلق اک سوال (کہ اگر کسی قربانی کرنے والے نے ذی الحجہ کا چاند دیکهنے کے بعد بال کٹوائے یا ناخن ترشوائے تو اس کی قربانی ہوجائے گی یا نہیں، اور ایسا کرنا حکم عدولی کہلائے گا؟) کے جواب میں فرمایا:یہ حکم صرف استحبابی ہے، کرے تو بہتر نہ کرے تو مضائقہ نہیں، نہ اس کو حکم عدولی کہہ سکتے ہیں، نہ قربانی میں نقص آنے کی کوئی وجہ، بلکہ اگر کسی شخص نے 31 دن سے کسی عذر کے سبب خواہ بلا عذر ناخن نہ تراشےہوں نہ خط بنوایا ہو کہ چاند ذی الحجہ کا ہوگیا، تو وہ اگرچہ قربانی کا ارادہ رکهتا ہو اس مستحب پر عمل نہیں کرسکتا کہ اب دسویں (ذی الحجہ) تک رکهے گا (یعنی بال زیر ناف و تحت بغل اور ناخن) تو ناخن و خط بنوائے ہوئے اکتالیسواں دن ہوجائے گا، اور چالیس دن سے زیادہ نہ بنوانا گناہ ہے، فعل مستحب کےلئے گناہ نہیں کرسکتا ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 353)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
سیدالعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا، افضل قربانی وہ ہے جو با اعتبار قیمت اعلی ہو، اور خوب فربہ ہو ۔ (مسند امام احمد، جلد 5)
سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا، چار قسم کے جانور قربانی کےلئے درست نہیں ۔ (1) *کانا جس کا کانا پن ظاہر ہے ۔ (2) *بیمار جس کی بیماری ظاہر ہو ۔ (3) لنگڑا جس کا لنگ ظاہر ہو ۔ (4) اور ایسا لاغر جس کی ہڈیوں میں مغز نہ ہو ۔ (سنن ابوداؤد کتاب الاضاحی، باب مایکرہ من الضحایا)
شیر خدا علی المرتضی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے کان کٹے ہوئے، اور سینگ ٹوٹے ہوئے (جانور) کی کی قربانی سے منع فرمایا ۔ (ابن ماجہ کتاب الاضاحی باب مایکرہ من الضحایا)
سیدالعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا، جانوروں کے کان اور آنکهیں غور سے دیکھ لیں اور اس کی قربانی نہ کریں جس کے کان کا اگلا حصہ کٹا ہو اور نہ اس کی جس کے کان کا پچهلا حصہ کٹا ہو، نہ اس کی جس کا کان پهٹا ہو یا کان میں سوراخ ہو ۔ (جامع الترمذی، کتاب الاضاحی، باب مایکرہ من الاضاحی)
رسول مکرم رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے سیدہ مخدومہ کائنات بتول زهرا صلی اللہ تعالیٰ علی ابیہا وعلیہا وبارک وسلم سے ارشاد فرمایا، کهڑی ہوجاو اور اپنی قربانی کے پاس حاضر ہو جاؤ کہ اس(قربانی کے جانور) کے خون کے پہلے ہی قطرہ میں جو گناہ ہیں سب کی مغفرت ہوجائے گی، راوئ حدیث حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم یہ (فضیلت) آپ کی آل کےلئے خاص ہے یا آپ کی آل کےلئے بهی ہے اور عامہ مسلمین کےلئے بهی، فرمایا کہ میری آل کےلئے خاص بهی ہے، اور تمام مسلمین کےلئے عام بھی ہے ۔ ( مجمع الزوائد للهیثمی، کتاب الاضاحی، باب فضل الاضحیہ و شهود ذبحها، جلد4 صفحہ 4)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ بنت صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنهما سے مروی، کہ سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے حکم فرمایا کہ، سینگ والا مینڈها لایا جائے جو سیاہی میں چلتا ہو اور سیاہی بیٹهتا ہو اور سیاہی میں نظر کرتا ہو، یعنی اس کے پاؤں پیٹ اور انکهیں سیاہ ہوں، وہ قربانی کےلئے حاضر کیا گیا، حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا، عائشہ (رضی اللہ تعالٰی عنها) چهری لاو پهر فرمایا اسے پتهر پر تیز کرلو پهر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے چهری لی اور مینڈهے کو لٹایا اور اسے ذبح کرنے لگے اور فرمایا ، بسم اللہ اللهم تقبل من محمد وآل محمد ومن امتہ محمد ( صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم)
ترجمہ : اے اللہ (عزوجل) تو اس کو محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ) کی طرف سے اور ان کی آل کی طرف سے اور امت کی طرف سے قبول فرما ۔
( صحیح مسلم، کتاب الاضاحی باب استحباب استحساالضحیہ...)
ابوداؤد اور ابن ماجہ میں حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی حدیث پاک میں یہ کلمات بهی ہیں : اللھم منک ولک عن محمد و امتہ بسم اللہ واللہ اکبر ۔
ترجمہ : اے اللہ (عزوجل) یہ تیرے لئے ہی ہے محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم) اور امت کیطرف سے ۔(سنن ابوداؤد کتاب الضحایا، باب مایستحب من الضحایا؛ سنن ابن ماجہ، ابواب الاضاحی، باب اضاحی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم)
نحضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ ہی مروی ایک حدیث پاک میں یہ کلمات ہیں : بسم اللہ واللہ اکبر هذا عنی وعمن لم یضح عن امتی ۔
ترجمہ : اے اللہ (عزوجل ) یہ میری طرف سے ہےاور میری امت میں سے اس کی طرف سے ہے جو قربانی نہ کرسکے ۔ ( سنن ابوداؤد، کتاب الضحایا، باب فی الشاتہ یضحی بہا عن جماعتہ)
خلیفہ اعلی حضرت, صدر شریعت مفتی امجدعلی اعظمی رحمہ فرماتے ہیں : یہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے بے شمار الطاف میں سے ایک خاص کرم ہے کہ اس موقع پر بهی امت کا خیال فرمایا اور جو لوگ قربانی نہ کر سکے ان کی طرف سے خود ہی قربانی ادا فرمائی ۔ یہ شبہ کہ ایک مینڈها ان سب کی طرف سے کیونکر ہوسکتا ہے یا جو لوگ ابهی پیدا ہی نہ ہوئے ان کی قربانی کیونکر ہوئی اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے خصائص سے ہے ۔ جس طرح حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم چهه مہینے کے بکری کے بچہ کی قربانی حضرت ابو بردہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کےلئے جائز فرمادی اوروں کےلئے اس کی ممانعت کردی ۔(صحیح بخاری کتاب العیدین، باب کلام الامام والناس فی الخطبہ....؛ صحیح مسلم کتاب الاضاحی، باب وقتها)
اسی طرح اس میں خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی خصوصیت ہے ۔ (بہارشریعت حصہ 15)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
قربانی واجب ہونے کی شرائط اور ان کے متعلق مسائل کا بیان
(1) اسلام یعنی غیر مسلم پر قربانی واجب نہیں ۔
(2) اقامت یعنی مقیم ہونا، مسافر پر قربانی واجب نہیں ۔
(3) تونگری، یعنی مالک نصاب ہونا یہاں مالداری سے مراد وہی ہے جس سے صدقہ فطر واجب ہوتا ہے وہ مراد نہیں جس سے زکوٰۃ واجب ہوتی ہے ۔
(4) حریت، یعنی آزاد ہونا، جو آزاد نہیں اس پر قربانی واجب نہیں،؛؛ قربانی واجب ہونے کےلئے مرد ہونا شرط نہیں- عورتوں پر بهی واجب ہوتی ہے جسطرح مردوں پر واجب ہے؛؛ نابالغ پر قربانی واجب نہیں، اور نہ نابالغ کے باپ پر واجب کہ وہ نابالغ کی طرف سے قربانی کرے ۔ ( بہارشریعت حصہ 15 بحوالہ درمختار ، کتاب الاضحیہ جلد 9)
سوال : صاحب نصاب کسے کہتے ہیں ؟
جواب : جس کے پاس حاجت اصلیہ سے زائد ساڑهے سات تولے سونا یا ساڑهے باون تولے چاندی یا اتنی چاندی کی قیمت کے برابر روپے پیسے یا مال تجارت ہو وہ صاحب نصاب ہوگا ۔ ( بہارشریعت حصہ 15)
نوٹ : حاجت اصلیہ سے کیا مراد ہے ؟ حاجت سے مراد رہنے کا مکان اور خانہ داری کے سامان اور سواری کا جانور ( موجودہ دور میں کار، موٹر سائیکل وغیرہ) اور خادم اور پہننے کے کپڑے، طالب علم کےلئے کتابیں، پیشہ ور کے آلات ، مشینری، موبائل ،کاروبار یا تعلیم وغیرہ کےلئے کمپیوٹر، کسانوں کے زرعی آلات یہ سب حاجت اصلیہ میں داخل ہیں ۔
سوال : اگر کسی کے پاس مکان سکونت یعنی جس میں وہ رہتا ہے کے علاوہ دوسرا مکان ہو تو کیا اس پر قربانی واجب ہوگی ؟
جواب : امام اهلسنت، محب سادات، الشاہ امام احمد رضا خان قادری برکاتی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں، ایسے شخص پر قربانی واجب ہے، اگرچہ وہ مکان کرایہ پر دیا ہو یا خالی پڑا ہو یا سادی زمین ہو بلکہ مکان سکونت اتنا بڑا ہے کہ اس کا ایک حصہ جاڑے گرمی کی سکونت کے کئے کافی ہو، اور دوسرا حصہ حاجت سے زائد ہو، اور اس کی قیمت تنہا یا اسی قسم کے مال سے ملکر نصاب تک پہنچے جب بهی قربانی واجب ہے، اسی طرح صدقہ فطر بهی(واجب ہے) (فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 361)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔