علمائے دین کو معاشی معاشی طور پر مستحکم کیجیئے علماء کا مذاق نہ اڑایئے
تاریخ کے تجزیاتی مطالعے سے یہ واضح ہوگیا کہ خلافت عثمانیہ کے زوال (۱۹۲۴) کے بعد اسلام کی تجدید و اصلاح کی جو تحریک چلائی گئی ہے اس کے تمام ذرائع مادیت پر اصرار کرتے ہیں‘ مادیت کے ان تھپیڑوں سے دنیا کا کوئی بھی طبقہ اپنی کشتی کو صاف بچا کر نہیں نکال سکا‘ علماء کا شجرۂ نسب بھی چونکہ فرشتوں سے نہیں ملتا۔ اس لئے ان کے دلوں میں بھی آسائشوں کی تمنائوں کا انگڑائی لینا فطری ہیٍ اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی ہمیں تسلیم کرلینا چاہئے کہ علماء کے علمی و عملی زوال کے ہزار شکوے اور فکری افلاس کے ہزار طعنوں کے باوجود امت مسلمہ میں اگر دین کسی نہ کسی صورت میں زندہ ہے تو وہ انہی کی جہد مسلسل کا مرہون منت ہے۔
مورخین ۱۸۵۷ء کی بغاوت ناکامی کی ایک بڑی وجہ تنظیم و ترتیب کے فقدان اور نتائج سے چشم پوشی کو مانتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ بغاوت کے حوالے سے مورخین کے اس نفسیاتی مطالعے کو حاصل زندگی کے ہر شعبے اور ہر تحریک میں دیکھا جانا چاہئے۔ افسوس کہ آج کے اس آباد خرابے میں ہمارے علماء کی تمام تر توجہات صرف اور صرف مدارس کے قیام اور ان کی توسیع کی طرف ہے اور اس قیام و توسیع کے جنون میں مدارس کے تابناک مستقبل کی فکر کہیں چھپ سی گئی ہے‘ حالانکہ انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ جب دین کو زندہ رکھنے کا سارا کریڈٹ انہی کو جاتا ہے تو پھر مسلم بچوں کی دینی علوم اور مدارس سے بیزاری کی صورت میں ملت اسلامیہ ہند کے مرگ مفاجات کی تنہا ذمہ داری بھی انہیں قبول کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔
کسی بھی تحریک یا ادارے پر اچانک زوال نہیں آتا بلکہ عروج وزوال دونوں کاسلسلہ عہد بہ عہد ہوتا ہے۔ آج ارباب مدارس ملکی سطح پر سینکڑوں مدارس اوران میں پڑھنے والے ہزاروں طلبہ کی تعداد دیکھ کر ان کے مستقبل کی طرف سے خوش فہمیوں کی جنت میں سیر کررہے ہیں تو ان کی یہ سطحی نظر بجائے خود ہمارے مدارس کے زوال کا روشن استعارہ ہے۔ مدارس کی داخلی سرگرمیوں اور ان کی تنظیم کے متعلق سے کوئی شخص اگر غور وفکر کرے تو ایسے بہت سے سوالات اس کے ذہن میں ابھریں گے جو مدارس کے مستقبل کے تعلق سے یقیناً اسے فکرمند کردیں گے۔ غوروفکر کے بعد میری بھی حالت اس نامعلوم شخص سے الگ نہیں‘ مدارس کی سرگرمیوں کا گہرائی سے جائزہ لینے کے بعد جو سوالات سامنے آئے وہ یہ ہیں
کچھ سوالات
میرا خیال ہے کہ کسی بھی علاقے میں دینی ادارے کے قیام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہاں مقامی سطح پر اسلام کا فروغ ہواور مقامی افراد دین سے واقف ہوکر اسے اپنی عملی زندگی میں اپلائی Apply کرسکیں۔ لیکن ملک گیر سطح پر جس شہر‘ قصبہ یا دیہات میں جو ادارہ ہے‘ وہاں کے مقامی بچے دو فیصد بھی اس ادارے میں نہیں پڑھتے۔ یہی حال پاکستان کے تقریبا تمام مدارس کا ہیٍ اس سلسلے میں ارباب مدارس کے خلوص اور نیتوں پر مجھے شک نہیں‘ وہ اپنی بساط بھر اس بات کی کوشش بھی کرتے ہوں گے کہ علاقائی بچے وہاں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آئیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ انہی کوششوں کا ایک حصہ سالانہ جلسہ دستار بندی کاانعقاد بھی ہے تاکہ دستار بندی کے حسین منظر کو دیکھ کرمقامی والدین کے دلوں میں بھی اپنے بچوں کو عالم دین بنانے کی تمنا موجیں مارے‘ لیکن اس رونمائی کے باوجود وہ اپنی گاڑھی کمائی سے مدرسے کو چندہ دینے کو تیار رہیں‘ اپنے جگر گوشوں کو مدرسے میں داخل کرنے کے لئے راضی نہیں‘ آخر کیوں؟ علاقائی سطح پر اگر علماء تیار ہوتے تو یقیناً وہاں کے حالات میں دینی حیثیت سے نمایاں تبدیلیاں آتیں‘ لیکن دینی مرکز کھل جانے کے باوجود علاقائی افراد بے فیض ہیں۔ اب ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ مقامی سطح پر دینی مرکز کے بنیادی مقصد کے فقدان کی صورت میں اس ادارے کے قائم رہنے کا جواز کیا رہ جاتاہے؟
ماضی میں مدارس کے حالات کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والوں میں مقامی طلبہ بھی کثرت سے ہوتے تھے اور ان طلبہ میں ایک اچھی خاصی تعداد ان کی بھی ہوتی تھی جن کا تعلق متمول گھرانے سے تھا۔ ماضی کے نامور علماء کی سوانح ہمیں بتاتی ہے کہ ان میں سے ایسے بہت سے تھے جو زمین دار اور دولت مند گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن اس صورت حال میں اس تیزی سے انحطاط آیا ہے کہ اب ۹۵ فیصد طلبہ جو مدارس کا رخ کرتے ہیں ان کا تعلق متوسط یا نچلے طبقے سے ہوتا ہے۔ آج دولت مند اور سیٹھ حضرات بڑی بڑی رقمیں اداروں کو چندے کی صورت میں دے رہے ہیں اور ساتھ میں دینی مدارس کی مالی سرپرستی بھی فرمارہے ہیں لیکن اپنے بچوں کو ان اداروں میں بھیج کر عالم دین بنانے میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں‘ کیوں؟ مدارس کو وہ لاکھوں روپے دینے کو تیار ہیں‘ اپنے بچے دینے کو راضی نہیںٍ جبکہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم سے غافل نہیں ہیں۔ اپنے بچوں کو یہ لوگ موٹی موٹی رقمیں ڈونیشن کی صورت میں دے کر ملک کے نامور کالجوں اور اسکولوں میں تعلیم دلا رہے ہیں مگر دینی مراکز میں اپنے بچوں کو داخل کرنے کاتصور بھی نہیں کرتے۔
متمول گھرانے کے افراد کی طرح ماضی میں شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والے بھی کثیر تعداد میں مدارس میں تعلیم حاصل کرتے تھے‘ لیکن اب مدارس کا سروے ہمیں اس نتیجے پر لے جاتا ہے کہ دینی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والوں کی بڑی اکثریت قصبات اور دیہات سے تعلق رکھتی ہے اور بتدریج شہروں کے بچے مدارس کا رخ کرنے کی بجائے اسکولوں میں پڑھنے کو ترجیح دے رہے ہیں اور یہی حالات کم و بیش علماء اور مشائخ کے بچوں کے ہیں۔ وہ خود عالم دین ہیں مگر اپنے بچوں کو عالم دین بنانا پسند نہیں کررہے ہیں‘ آخر کیوں؟
ان کے علاوہ آخر کیوں مدارس کے فارغین دعوت و تبلیغ کا کام انجام دینے کی بجائے کمپیوٹر اور انگریزی سیکھ کر چھوٹی موٹی نوکریاں کرنا پسند کررہے ہیں؟ آخر کیوں جب ایک علاقے میں ایک مدرسے سے دینی ضرورت پوری ہوجارہی ہے‘ اس کے باوجود وہاں یکے بعد دیگر مختلف مدارس قائم ہوتے جارہے ہیں؟ آخر کیوں اچھے علماء خطابت اور طریقت کے میدان میں اپنے ہنر آزمانے کو بے تاب دیکھ رہے ہیں؟ اور کیوں علماء کے اندر اب دعوت وتبلیغ دین کے حوالے سے وہ اخلاص نہیں رہا‘ جو ان کا طرہ امتیاز ہوا کرتا تھا ؟ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
میرا خیال ہے کہ ان تمام ’’کیوں‘‘ کا جواب آپ تلاش کریں گے تو اس کی تان ’’مادیت‘‘ پر جاکر ٹوٹے گی۔
اکیسویں صدی میں مادیت کا جو سیلاب آیا ہے‘ اس نے زندگی کے منظر نامے کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا ہے‘ اس لئے دینی مراکز کے اطراف میں رہنے والے افراد اپنے بچوں کے مستقبل کے حوالے سے دیکھی ہوئی مکھی کو نگلنے کو تیار نہیں۔ مادیت کے سیلاب نے جس علاقے کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے‘ وہ ہیں شہری علاقے اور خاص طورپر بڑے شہر ‘ اس لئے متمول گھرانے کے پروردہ اورشہر سے تعلق رکھنے والے بچے اس تعلیم کو حاصل کرنے کو تیار نہیں جو انہیں امارت و خوشحالی کے ثریا سے غربت اور تنگ حالی کی زمین پر دے مارے ۔رہے وہ علماء اور مشائخ جو دینی مزاج اور حمیت رکھتے تھے اور اسکول و کالج کی تعلیم کی مخالفت میں کبھی جن کی شعلہ نوائی مشہور تھی اور مدارس کی تعلیم کے حصول اور داڑھی و ٹوپی کے التزام پر جن کے مزاج کی گرمی ان کی زبان پر بھی محسوس کی جاتی تھی‘ خوشحال زندگی کی تمنا میں ان کی وہ مذہبی آگ بھی سرد ہوچکی ہے اور اب بتدریج وہ اپنے بچوں کو ’’افسر‘‘ بناکر ان کی گاڑھی کمائی سے اچھی زندگی گزارنے کی آرزو لئے وقت کا انتظار کررہے ہیں۔ گویا مدارس کا رخ کرنے والے عموما اب وہ لوگ رہ گئے ہیں‘ جن کا تعلق دیہات و قصبات سے ہے‘ جہاں ابھی مادیت اور مغربی تہذیب کے سرکش طوفان نے دستک نہیں دی ہے‘ لیکن اس طوفان کی آمد کی دھمک واضح طور پر محسوس کی جارہی ہے‘ اس لئے ہندوستان کے بیشتر دیہاتوں اور قصبوں میں اب وہ پہلے جیسی غربت نہیں رہی‘ یہ علاقے بھی بنیادی ضرورتوں اور آسائشوں سے مالا مال ہیں اور دیہات کی سادگی اور انسانیت اپنا رخت سفر باندھ رہی ہیں۔ وہاں بھی عیش و طرب کی زندگی کے حصول کے لئے اب لوگ صرف انہی چیزوں کو گلے سے لگانے کی تیاری کررہے ہیں‘ جوان کے خوابوں کو تعبیر دیتی ہیں۔ ایسی نازک حالت میں ڈر ہے کہ مدارس میں داخل ہونے والے دیہاتوں اور قصبوں کے یہ غریب اور متوسط طلبہ بھی مستقبل میں دینی تعلیم کے لئے تیار نہ ہوں۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ پھر مدارس میں کون پڑھے گا؟ ایسی صورت میں پھر وہ جملہ حقیقت کا لبادہ اوڑھے اس افسانوی چراغ کے جن کی طرح میری نوک قلم پر آجاتا ہے کہ : آئندہ پچاس برسوں کے بعد مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے طلبہ میسر نہیں ہوں گے ۔
علماء سے قناعت کا مضحکہ خیز مطالبہ
اب تک کے تجزیئے سے یہ واضح ہوچکا ہے کہ قوم کے افراد کی مدارس اور دین سے برگشتگی کی بنیادی وجہ خوشحال زندگی سے محرومی ہیٍ اسی طرح سماج میں علماء کی بے وقعتی اور بے اعتباری کی وجہ بھی یہی ہے کہ ان کی محنتوں کا معاوضہ اتنا بھی نہیں ہوتا جتنا ایک معمولی آفس میں کام کرنے والے کلرک کا ہوا کرتا ہے۔ یہ دنیا کے افراد جن میں عام آدمی سے لے کر دانشوران تک اور مدرسے کے منتظمین سے لے کر مساجد کے ذمہ داران تک سبھی شامل ہیں‘ اتنے خود غرض ہوچکے ہیں کہ وہ خود اپنے لئے دنیا بھر کی آسائشوں کی تمنا کرتے ہیں اور ان کے حصول کیلئے کوئی دقیقہ نہیں چھوڑتے‘ لیکن علماء سے خودی اور نفس کی حفاظت کرتے ہوئے توکل و قناعت کا مطالبہ کرتے ہیںٍ ان کے اس مطالبے پر کبھی غور کرتا ہوں تو بے اختیار ہنسی آجاتی ہے‘ کیونکہ شرعی رو سے توکل و قناعت کا مطالبہ اس طبقے سے کیا جانا چاہئے جس کے پاس ضرورت سے زیادہ دولت ہو‘ اس کے باوجود اس کی ہوس کم نہیں ہوتی‘ جن بے چاروں کو مہینے کے آخر میں اپنی ضروریات کی تکمیل کے لئے سوچنا پڑتا ہو‘ ان سے توکل و قناعت کا مطالبہ ایک بھونڈا مذاق نہیں تو اور کیا ہے؟
اسلام میں غربت کو ایک مرض کہا گیا ہے اور اس مرض کا علاج بتایا گیا ہے تاکہ مسلم سماج کا پسماندہ طبقہ چین کی سانس لے سکے اور اسلامی دستور کے زیر سایہ اپنی خودی اور نفس کی حفاظت کرسکے۔ آج شورش پسند اور سازشی عناصر نے اسی ’’غریبی‘‘ کا استحصال کرکے اس کی آڑ میں لادینیت اور جرائم کا کاروبار پھیلا رکھا ہے۔ ہندوستان میں لاکھوں دلتوں کا عیسائی اور بدھ مذاہب کو قبول کرنا‘ کسانوں کا روز بروز اجتماعی خودکشی کرنا‘ پڑھے لکھے نوجوانوں کا جرائم کی دنیا میں قدم رکھنا اور علماء کا سطحی حرکتوں کا ارتکاب کرنا اس کی واضح مثالیں ہیں۔ اسلامی تعلیمات سے غفلت اور مسیحی و جبری پروپیگنڈے نے ہمیں اس موڑ پر لاکھڑا کردیا ہے جہاں ہم غربت و افلاس کو اسلام کا نظریہ سمجھنے لگے ہیں۔ جبکہ قرآن و حدیث کے ذخیرے سے ایسی کسی آیت یا حدیث کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی جس میں غربت و افلاس کو سراہا گیا ہو‘ وہ حدیثیں جن میں زہدوپرہیزگاری اور دنیا سے کنارہ کشی کی تعریف کی گئی‘ ان کا غریبی اور ناداری کی تعریف سے دور کا بھی واسطہ نہیں‘ اس لئے کہ دنیا سے کنارہ کشی کی تلقین اسی سے کی جائے گی جو اپنی دولت و امارت کے ذریعہ دنیاوی عیش و عشرت میں مگن ہوکر اپنے مذہب سے غافل ہوگیا ہو‘ وہ شخص جس کے پاس اپنی بنیادی ضرورتوں کے لئے بھی پیسہ نہ ہو‘ وہ ویسے ہی دنیا سے کنارہ کش ہے‘اس سے مزید کنارہ کشی کا مطالبہ تحصیل حاصل کے سوا اور کیا ہے؟ قناعت کی تعلیم جن احادیث میں ملتی ہے ان کا یہ مفہوم ہرگز نہیں کہ انسان کیڑے مکوڑے جیسی زندگی گزارے اور خوشحال زندگی کی مطلق تمنا نہ کرے یا دولت مند عیش و طرب میں مست رہ کر فضول خرچی کرتا رہے اور شرقی حدود کی پاسداری بھی نہ کریٍ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام دولت کو نعمت سمجھتا ہے اور اپنے بندوں کو بطور احسان گنواتا ہے۔ اس دولت کے حصول پر اپنے رب کی بارگاہ میں شکر ادا کرنے کا حکم دیتا ہے اور غریبی کومصیبت قرار دے کر اس سے پناہ مانگنے کی تلقین کرتا ہے۔ علماء سے توکل کا مطالبہ کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ علماء کا تعلق بھی اسی دنیا سے ہے‘ وہ بھی حضرت آدم کی اولاد ہیں‘ ان کی بھی اپنی ضرورتیں ہیں‘ خالی جیب نہ مذہب کی قیادت ہوسکتی ہے اور نہ مذہب و ملت کی شیرازہ بندی کے لئے غوروفکر میں گہرائی پیدا ہوسکتی ہے‘ بلکہ معاشی تنگ حالی ذہن و فکر کو اتنا مفلوج کردیتی ہے کہ بڑے بڑے باصلاحیت علماء بھی زندگی سے مایوس ہوکر کنج نشیں ہوجاتے ہیں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
مشکلات کا واحد حل
اگر ہم چاہتے ہیں کہ دین و مذہب کی شمع یونہی فروزاں رہے تو دینی مدارس کی بقاء نہایت ضروری ہے۔لیکن جس طرح مکین کے بغیر کوئی گھر مکان نہیں ہوتا‘ اسی طرح طلبہ کے بغیر کوئی عمارت‘ مدرسہ نہیں ہوسکتی‘ طلبہ مدارس میں داخل ہوں گے تو علماء‘ حفاظ اور محققین بن کر نکلتے رہیں گے اور دین کاکارواں اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہے گا۔ علماء ہی نہ ہوں گے تو نہ مساجد آباد رہیں گی‘ نہ دینی مراکز زندہ رہیں گے اور نہ اسلام اپنی اصل ہیئت میں معاشرے میں باقی رہے گا۔ میرے نزدیک ایسی نازک حالت میں مدارس کے تحفظ کا صرف ایک راستہ ہے کہ علماء کو ان کی محنتوں کا بدل اسی طرح ملے جس طرح عصری علوم حاصل کرنے کے بعد دیگر لوگوں کو ملا کرتا ہے‘ آج لوگ علماء اور مدارس سے بیزار ہوکر اسکول و کالج کا رخ صرف اس لئے کررہے ہیں کہ وہاں سے معیشت کے دروازے کھل جاتے ہیں‘ اگر مدارس بھی ایک ممکنہ حد تک اس کا بدل پیش کریں تو یقیناً والدین اپنے بچوںکو مدرس میں بھی اسی جوش و خروش سے بھیجیں گے جس طرح وہ اسکول بھیجا کرتے ہیں۔ یہ راستہ ایسا مشکل بھی نہیں کہ جس کی طرف پیش قدمی نہ کی جاسکتی ہو۔
میری سمجھ میں آج تک یہ نہیں آسکا کہ مدارس کے علماء اور مساجد کے آئمہ کی تنخواہیںاتنی کم کیوں دی جاتی ہیں۔ اس ناتواں روایت کا سرا ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا۔ اگر مدارس و مساجد کے منتظمین اس کی توجیہہ یہ پیش کرتے ہیں کہ عوامی چندے سے مدارس و مساجد چلتے ہیں اور چندے سے اچھی تنخواہیں دینا ممکن نہیں تو یہ عذر مدارس و مساجد کی تعمیر میں کیوں نہیں پیش کیا جاتا جہاں لاکھوں کروڑوں روپے صرف ان کی تعمیر و تزئین میں خرچ کردیئے جاتے ہیں اور یہ معذرت خواہانہ رویہ ان جلسوں کے انعقاد پر کیوں نہیں ہوتا جہاں ایک ایک رات میں لاکھوں روپے فضول پانی کی طرح بہا دیئے جاتے ہیں۔ اگر مدارس و مساجد کی تعمیر اور جلسہ و جلوس کے انعقاد کے لئے آپ لاکھوں کروڑوں جمع کرسکتے ہیں تو علماء اور آئمہ کی اچھی تنخواہوں کے لئے کوششیں کیوں نہیں کی جاسکتیں؟
میری رائے میں جن اداروں میں دو سو طلبہ کی گنجائش ہے وہاں ڈیڑھ سو ہی رکھے جائیں‘ جہاں سو طلبہ کی گنجائش ہے‘ وہاں پچاس ہی رکھے جائیں اور اس بجٹ سے مدرسین کو اچھی تنخواہیں اور سہولیات فراہم کی جائیں۔ آج بین الاقوامی سطح پرمادیت کا جو طوفان اٹھا ہے اس پر بند تو نہیں باندھا جاسکتا‘ لیکن اس طوفان سے لڑنے کے لئے انہیں تیار ضرور کیا جاسکتا ہے اور یہ جنگ انہیں معاشی طور پر مستحکم کرکے ہی لڑی جاسکتی ہے۔ ہمارے بچوں کو اگر دینی تعلیم کے حصول سے خوشحال زندگی کی ضمانت ملنے لگے تو یقیناً مدارس کی تعمیر بھی ہوتی رہے گی اور توسیع بھی‘ علم وفن میں جلا بھی پیدا ہوگا اور فکرونظر میں گہرائی بھی‘ اسی طرح اچھے علماء معاشرے میں پیدا ہوتے رہیں گے‘ جو باعزت طریقے سے ملت کی مذہبی قیادت کرپائیں گے۔ اگر خدانخواستہ اس آواز کو مجنون کی بڑ سمجھ کر نظر انداز کردیا گیا تو آنے والا وقت دین و مذہب کے حوالے سے نہایت خطرناک نتائج لے کر آنے والا ہے‘ پھراس وقت غوروفکر کے سارے درازے شاید بند ہوچکے ہوں گے۔
علماء نے ہمیشہ طوفانوں کی زد پر دینی شوکتوںکا چراغ جلایا ہے‘ اس کام کے لئے نہ انہوں نے کبھی وسائل کے فقدان کا مرثیہ پڑھا اور نہ کارواں بننے کا انتظار کیا۔ آج جب مدارس کے حوالے سے دین کا تحفظ ناگزیر ہوگیا ہے تو اس کام کے لئے بھی کسی سیٹھ‘ ساہوکار یا منتظم ادارہ کی پیش قدمی کا انتظار وقت کی بربادی کے سوا کچھ نہیں۔ پورے پاکستان میں ۹۹فیصد دینی مراکز کا قیام کسی نہ کسی عالم دین کی ہی فکری اور عملی جدوجہد کا مظہر ہے اور ان اداروں کا انتظام و اہتمام بھی بیشتر علماء کے ہی ہاتھوں میں ہے۔اس لئے اپنے علماء کے معاشی استحکام کی تحریک کے لئے انہیں ہی قدم بڑھانا ہوگا۔ آج اگر مسلم معاشرہ اس کمزور روایت کی تبدیلی کو ہضم نہیں کرپاتا ہے تو اس کے ذمہ دار بھی ہم ہی ہیں۔ صدیوں سے آئیڈیل علماء کے سلسلے میں بے لوثی‘ بے غرضی اور توکل کی حکایتیں اور روایتیں سنا سنا کر ہم نے اس کی بصارتوں کے ساتھ بصیرتوںکو بھی اتنا کمزور کردیا ہے کہ نہ اسے علماء کی مادی ضرورتوںکی چیخیں سنائی دیتی ہیں اور نہ ان کے بے آب چہروں کی کثافتیں دکھتی ہیںِ۔ اس لئے وہ خود تو کوٹھیوں اور عالی شان مکانوں میں زندگی کی جملہ آسائشوں کے ساتھ رہتا ہے اور علماء کو جھونپڑیوں اور کرائے کے مکانوں میں دیکھنا پسند کرتا ہے۔ وہ خود تو مساجد میں چار پہیوں اور دو پہیوں کی گاڑیوں سے نمازیں پڑھنے کے لئے آتا ہے اور اپنے امام کو زمین پر رینگتے ہوئے یا سائیکلوں پر آتا دیکھنا چاہتا ہے۔ علماء اور دیگر افراد کے درمیان اسی معاشی فرق نے معاشرے کے دلوں سے علماء کے وقار کو ختم کردیا ہے۔ اس لئے اس فاصلے کو مٹا کر علماء کو سماج میں باعزت بنانے کے لئے خود انہیں ہی پیشرفت کرنی ہوگی اور معاشرے کے بوجھل کانوں اور آنکھوں کو اس کا عادی بنانا ہوگا۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment