Wednesday, 9 August 2017

نبی اکرم نور مجسّم صلی اللہ علیہ وسلّم کے بے مثال چہرہ اقدس کا دلنشین تذکرہ

نبی اکرم نور مجسّم صلی اللہ علیہ وسلّم کے بے مثال چہرہ اقدس کا دلنشین تذکرہ

حضور نبی اکرم اکی ذاتِ اقدس قُدرتِ خُداوندی کا شاہکارِ عظیم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تخلیق ربِ کائنات کی جملہ تخلیقی رعنائیوں کا مرقعِ زیبائی ہے۔ مخلوقات کے تمام محامد و محاسن کا نقطۂ کمال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روئے مقدس جمالِ خُداوندی کا آئینہ دار ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرکزِ نگاہِ خاص و عام ہیں۔ ’’اِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا (آپ ہر وقت ہماری نگاہوں میں رہتے ہیں‘‘) کا خطابِ خداوندی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعزازِ لازوال ہے۔

اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کا ذکر بڑی محبت اور اپنائیت کے انداز میں فرمایا۔ اسلام کے ابتدائی دور میں تقریباً سترہ ماہ مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے رہے۔ اس پر یہود طعنہ زن ہوئے کہ مسلمان اور ان کا نبی یوں تو ہمارے دین کے مخالف ہیں مگر نماز کے وقت ہمارے ہی قبلہ کی طرف رخ کرتے ہیں۔ یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعتِ مبارکہ پر گراں گزری اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ اطہر میں تبدیلیء قبلہ کی خواہش پیدا ہوئی جو کہ اتنی شدت اختیار کر گئی کہ اس کو پورا ہوتا دیکھنے کے لئے دورانِ نماز چہرۂ اقدس اٹھا کر بار بار آسمان کی طرف دیکھتے۔ اللہ رب العزت کو اپنے محبوب بندے کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ عین نماز کی حالت میں تبدیلیء قبلہ کا حکم وارد ہوا، جس میں باری تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس کا خصوصی ذکر فرمایا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ.

’’اے حبیب! ہم بار بار آپ کے رُخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں، سو ہم ضرور بالضرور آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں، پس آپ اپنا رخ ابھی مسجد حرام کی طرف پھیر لیجیئے۔‘‘ القرآن، البقره، 2 : 144

ایک اور مقام پر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روئے زیبا کا تذکرہ استعاراتی اور علامتی زبان میں انتہائی دلنشین انداز سے کرتے ہوئے باری تعالیٰ نے یوں ارشاد فرمایا :

وَ الضُّحٰیO وَ الَّيْلِ اِذَا سَجٰیO مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَ مَا قَلٰیO

’قسم ہے چاشت (کی طرح چمکتے ہوئے چہرۂ زیبا) کیO اور سیاہ رات (کی طرح شانوں کو چھوتی ہوئی زلفوں) کیO آپ کے رب نے (جب سے آپ کو منتخب فرمایا ہے) آپ کو نہیں چھوڑا اور نہ (جب سے آپ کو محبوب بنایا ہے) ناراض ہی ہوا ہےO‘‘

القرآن، الضحٰی، 93 : 1 - 3

ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ ان آیات مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

والانسب بهذا المقام في تحقيق المرام أن يقال أن في الضحي إيماء إلي وجهه صلي الله عليه وآله وسلم کما أن في الليل أشعارا إلي شعره عليه الصلوة والسلام.

’’اس سورت کا نزول جس مقصد کے لئے ہوا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ یہ کہاجائے کہ ضُحٰی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور اور لیل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زلفوں کی طرف اشارہ ہے۔‘‘

ملا علي قاري، شرح الشفا، 1 : 82

امام زرقانی رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

الضُّحٰی : بوجهها، و الليل : شعره.

’’ضحی سے مُراد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روئے منور اور لَیْل سے مُراد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زلفیں ہیں۔‘‘

زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 8 : 444

امام فخرالدین رازی رحمۃ اﷲ علیہ پہلے سوال اُٹھاتے ہیں : کیا کسی مفسر نے ضحٰی کی تفسیر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انوراور لیل کی تفسیر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زُلفوں کے ساتھ کی ہے؟ اور پھر خود ہی جواب مرحمت فرماتے ہیں : نعم، و لا إستبعاد فيه و منهم من زاد عليه، فقال : و الضُّحيٰ : ذکور أهل بيته، و الليل : أناثهم.
’’ہاں، یہ تفسیر کی گئی ہے اور اس میں کوئی بُعد نہیں اور بعض (مفسرین) نے اس میں اضافہ فرمایا ہے کہ وَالضُّحیٰ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہلِ بیت کے مرد حضرات اور وَاللَّیْلِ سے اہلِ بیت کی خواتین مراد ہیں۔‘‘

رازي، التفسير الکبير، 31 : 209

دیگر تفاسیر مثلاً ’تفسیر نیشا پوری (3 : 107)‘، ’تفسیر روح المعانی (30 : 178)‘، ’تفسیر روح البیان (10 : 453)‘ اور ’تفسیر عزیزی (پارہ عم، ص : 310)‘ میں بھی ضحٰی سے چہرۂ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور لیل سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گیسوئے عنبریں مراد لئے گئے ہیں۔

اصحابِ رسول اوراقِ قرآن اور چہرۂ انور

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چلتا پھرتا قرآن کہا گیا ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم چہرۂ انور کو کھلے ہوئے اوراقِ قرآن سے تشبیہ دیا کرتے تھے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ایامِ وصال میں یارِ باوفا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امامت میں نماز ادا کر رہے تھے، اچانک آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے حجرۂ مبارک کا پردہ اُٹھایا اور اپنے غلاموں کی طرف دیکھا تو ہمیں یوں محسوس ہوا :

کَاَنَّ وجهه ورقةُ مصحفٍ.

’’گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور قرآن کا ورق ہے۔‘‘

1. بخاری، الصحيح، 1 : 240، کتاب الاذان، رقم : 648
2. مسلم، الصحيح، 1 : 315، کتاب الصلوة، رقم : 419
3. ابن ماجه، السنن، 1 : 519، کتاب الجنائز، رقم : 1624
4. نسائی، السنن الکبريٰ، 4 : 261، رقم : 7107
5. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 110، 163، 196
6. ابن حبان، الصحيح، 15 : 296، رقم : 6875
7. عبدالرزاق، المصنف، 5 : 433، رقم : 9754
8. ابويعلي، المسند، 6 : 250، رقم : 3548
9. حميدي، المسند، 2 : 501، رقم : 1188
10. ابوعوانه، المسند، 1 : 445، رقم : 1647
11. بيهقی، السنن الکبريٰ، 3 : 75، رقم : 4875
12. ابونعيم، المسند المستخرج، 2 : 43، رقم : 936
13. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 2 : 216

صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے اسی شعورِ جمال کو محدثِ کبیر امام عبدالرؤف المناوی رحمۃ اللہ علیہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :

و وجه التشبيه حسن الوجه وصفا البشرة وسطوع الجمال لما افيض عليه من مشاهدة جمال الذات.

’’چہرۂ انور کے حسن و جمال، ظاہری نظافت و پاکیزگی اور چمک دمک کا (قرآنِ مجید کے ورق سے) تشبیہ دینا اس وجہ سے ہے کہ یہی وہ روئے مقدس ہے جو جمالِ خُداوندی کے مشاہدہ سے فیض یاب ہوا۔‘‘

مناوي، حاشيه برجمع الوسائل، 2 : 255

آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور اپنی صورت پذیری میں قرآنِ حکیم کے اوراق جیسی چمک دمک کا مظہرِاتم تھا کیونکہ یہی وہ روئے منور ہے جس نے اللہ رب العزت کے حسن و جمال کے مشاہدے سے فیض پایا۔

آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روئے تاباں کو قرآن مجید کے ورق سے تشبیہ دینے کے حوالے سے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے :

عبارة عن الجمال البارع وحسن البشرة وصفاء الوجه واستنارته.

(جس طرح ورقِ مصحف کلامِ الٰہی ہونے کی وجہ سے حسی اور معنوی نور پر مشتمل ہو کر دیگر تمام کلاموں پر فوقیت رکھتا ہے، اسی طرح) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (بھی اپنے) حسن و جمال، چہرہ انور کی نظافت و پاکیزگی اور تابانی میں یکتا و تنہا ہیں۔‘‘

نووي، شرح صحيح مسلم، 1 : 179

آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جمال الہٰیہ کے عکس کا پرتو اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ اقدس سراپا مظہریتِ حق کی شان کا حامل تھا اس لیے اس چہرۂ انور کے دیدار کو عین دیدارِ حق قراردیا گیا، جیسا کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا : من رآني فقد رأي الحق، فإن الشيطٰن لا يتکونني.

’’جس نے مجھے دیکھا، اُس نے حق کو دیکھا، کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کر سکتا۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، 6 : 2568، کتاب التعبير، رقم : 6596
2. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 55
3. بيهقي، دلائل النبوه، 7 : 45

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

إن الشيطان لا يستطيع أن يتشبه بي، فمن رآني في النوم فقد رآني.

’’بیشک شیطان میری صورت اختیار کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے مجھے ہی دیکھا۔‘‘

1. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 361، 362
2. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 322، رقم : 393
3. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 272

امام نبہانی، امام احمد بن ادریس رحمۃ اﷲ علیہ کے حوالے سے حدیث مذکورہ کی تشریح درج ذیل الفاظ میں کرتے ہیں :

من رآني فقد رآي الحق تعالٰي.

’’جس نے مجھے دیکھا یقیناً اُس نے حق تعالیٰ کو دیکھا۔‘‘

نبهاني، جواهرالبحار، 3 : 63

حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ بھی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں، حضور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کے دو معنی ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ جس نے مجھے دیکھا اُس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا، اس لئے کہ ابلیس لعین میری صورت اختیار نہیں کر سکتا اور دوسرے یہ کہ جس نے مجھے دیکھا اس نے اللہ رب العزت کو دیکھا۔

حاجي امداد الله، شمائم امداديه، 49 : 50

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کو جمالِ خُداوندی کا آئینہ قرار دیتے ہوئے رقمطراز ہیں :

اما وجہِ شریفِ ویا مراٰتِ جمالِ الٰہی است، و مظہرِ انوارِ نامتناہی وے بود.

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روئے منور ربِ ذُوالجلال کے جمال کا آئینہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات کا اس قدر مظہر ہے کہ اس کی کوئی حد نہیں۔‘‘

محدث دهلوي، مدارج النبوه، 1 : 5

روئے منور کی ضوء فشانیاں

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ تاباں کی ضوفشانی اللہ رب العزت کے انوار و تجلیات سے مستعار و مستنیر ہے جو آفتاب جہاں تاب کے مانند ہر سو جلوہ فگن ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے فیض یاب ہوتے تو ان کی آنکھوں میں نور اور سینوں میں ٹھنڈک بھر جاتی، ان کے دل اس حسن جہاں آراء کے جلوؤں سے کبھی بھی سیر نہ ہوتے اور وہ یہ چاہتے تھے کہ یہ پیکرِ حسن ہمیشہ ان کی آنکھوں کے سامنے جلوہ آرا رہے اور وہ اس حسنِ سرمدی کے حیات آفریں چشمے سے زندگی کی خیرات حاصل کرتے رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کی درخشانی و تابانی ہنگامی اور عارضی نہ تھی بلکہ ہر آن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس سے انوار کی رِم جھم جاری رہتی تھی۔ اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس میں اس قدر دل آویزی اور کشش و جاذبیت رکھی تھی کہ ہر طالبِ دیدار ہمہ وقت تمنائی رہتا کہ روئے مقدس کو دیکھتا ہی چلا جائے اور وہ جلوہ گاہِ حسن کبھی اس کی نگاہوں سے اوجھل نہ ہو۔

حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أحسن الناس وجهاً و أحسنهم خلقاً.

’’حضور پُرنورا چہرۂ انور اور اپنے اخلاقِ حسنہ کے لحاظ سے لوگوں میں سب سے زیادہ حسین و جمیل ہیں۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، 3 : 1330، کتاب المناقب، رقم : 3356
2. مسلم، الصحيح، 4 : 1819، کتاب الفضائل، رقم : 2337
3. ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 160

سفرِ ہجرت جاری تھا، کاروانِ ہجرت اُمِ معبد کے پڑاؤ پر رُکا تو اُمِ معبد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوئی اور تصویرِ حیرت بن گئی۔ وہ بے ساختہ پُکار اُٹھی :

رأيت رجلا ظاهر الوضاء ة، متبلج الوجه.

’’میں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جن کی صفائی و پاکیزگی بہت صاف اور کھلی ہوئی ہے، چہرہ نہایت ہشاش بشاش ہے۔‘‘

1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 230
2. حاکم، المستدرک، 3 : 10، رقم : 4274
3. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 279

جلیل القدر صحابی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حسن و جمالِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح سرائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

مَا رَآيتُ شَيآ أحسن من رسول اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم کأنّ الشمس تجري في وجهه.

’’میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر حسین و جمیل کسی اور کو نہیں پایا (یعنی آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے روئے منور کی زیارت کرکے یوں محسوس ہوتا) گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روئے منور میں آفتابِ روشن محوِ خرام ہے۔‘‘

1. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 380، رقم : 8930
2. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 350، رقم : 8588
3. ابن حبان، الصحيح، 14 : 215، رقم : 6309
4. ابن مبارک، کتاب الزهد، 1 : 288، رقم : 838
5. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 415
6. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 209
7. ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 151
8. ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 6 : 573

حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے ربیع بنت معوذ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شمائل پوچھے تو اُنہوں نے کہا :

يا بني! لو رأيته رأيت الشمس طالعة.

’’اے میرے بیٹے! اگر تو ان کی زیارت کرتا تو (گویا حسن و جمال میں) طلوع ہوتے سورج کی زیارت کرتا۔‘‘

1. دارمي، السنن، 1 : 44، رقم : 61
2. شيباني، الآحاد و المثاني، 6 : 116، رقم : 3335
3. طبراني، المعجم الکبير، 24 : 274، رقم : 696
4. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 151، رقم : 1420
5. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 200
6. هيثمي، مجمع الزوائد : 8 : 280
7. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 4 : 1838، رقم : 3336

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے دریافت کیا :

آکَان وجه النبي صلي الله عليه وآله وسلم مثل السيف؟

’’کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روئے منور تلوار کی مانند تھا؟‘‘

اُنہوں نے جواباً کہا : لا، بل مثل القمر.

’’نہیں (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ اقدس تلوار کے مانند نہیں) بلکہ چاند کی طرح (چمکدار اور روشن) تھا۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، 3 : 1304، کتاب المناقب، رقم : 3359
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 598، ابواب المناقب، رقم : 3636
3. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 281
4. دارمي، السنن، 1 : 45، رقم : 64
5. ابن حبان، الصحيح، 14 : 198، رقم : 6287
6. روياني، المسند، 1 : 224، 225، رقم : 310
7. ابن جعد، المسند، 1 : 375، رقم : 2572
8. بخاري، التاريخ الکبير، 1 : 10
9. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 416، 417
10. ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 163
11. مقريزي، امتاع الاسماع، 2 : 152
(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
یہی سوال حضرت جابر بن سُمرہ رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا تو انہوں نے فرمایا :

لا، بل کان مثل الشمس و القمر وکان مستديرا.

’’نہیں، بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور سورج اور چاند کی طرح (روشن) تھا اور گولائی لئے ہوئے تھا۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، 4 : 1823، کتاب الفضائل، رقم : 2344
2. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 104، رقم : 21037
3. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 235
4. ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 147
5. طبراني، المعجم الکبير، 2 : 224، رقم : 1926

اس سلسلے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے :

کان في وجه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم تدوير.

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور گول تھا (جیسے چودھویں کا چاند ہوتا ہے)۔‘‘

1. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 39
2. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 411
3. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 213

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جن صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے چہرۂ انور کو گول کہا توان کا مقصود چہرۂ انور کو محض چاند سے تشبیہ دینا تھا۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ روئے منور بالکل گول نہ تھا اور نہ لمبا بلکہ اعتدال و توازن کا ایک شاہکار تھا۔

شیخ ابراہیم بیجوری رحمۃ اﷲ علیہ رقمطراز ہیں :

مثل القمر المستدير هو أنور من السيف لکنه لم يکن مستديراً جداً، بل کان بين الإستدارة و الإستطالة.

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روئے منورگولائی میں چاند کی طرح اور چمک دمک میں تلوار سے بڑھ کر تھا۔ لیکن چہرۂ اقدس نہ بالکل گول تھا اور نہ لمبا ہی تھا، بلکہ ان کے درمیان تھا (یعنی چہرۂ انور توازن و اعتدال کا عمدہ ترین نمونہ تھا)۔‘‘

بيجوري، المواهب اللدنيه علي الشمائل المحمديه : 25

چہرۂ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چاند سے تشبیہ

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کی تابانی و ضوفشانی دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بے ساختہ اسے چاند سے تشبیہ دینے لگتے۔ جب وہ تاروں بھرے آسمان میں پورے چاند کو دیکھتے تو اس کے حسنِ شب تاب سے ان کی خوش نصیب نگاہیں بے اختیار چہرۂ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اٹھ جاتیں، جس کے حسن عالم تاب نے تمام جہاں کو اپنا اسیر بنا رکھا ہے۔

حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

وَکَانَ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إذا سُرّ استنار وجهه، حتي کأنه قطعة قَمَر، وکنا نعرف ذلک منه.

’’جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسرور ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روئے منور سے نُور کی شعاعیں پھوٹتی دکھائی دیتی تھیں، یوں لگتا جیسے چہرۂ اقدس چاند کا ٹکڑا ہو اور اس سے ہم جان لیتے (کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوشی کے عالم میں ہیں)۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، 3 : 1305، کتاب المناقب، رقم : 3363
2. بخاري، الصحيح، 4 : 1718، کتاب التفسير، رقم : 4400
3. مسلم، الصحيح، 4 : 2127، کتاب التوبه، رقم : 2769
4. نسائي، السنن الکبريٰ، 6 : 360، رقم : 11232
5. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 458، رقم : 27220
6. ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 424، رقم : 37007
7. حاکم، المستدرک، 2 : 661، رقم : 4193
8. طبراني، المعجم الکبير، 19 : 55، 69، رقم : 95، 134
9. ابن هشام، السيرة النبويه، 5 : 220
10. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 197
11. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 163، رقم : 251

یارِ غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سفر اور حضر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت کی سعادت نصیب ہوئی۔ ہجرت کے موقع پر غارِ ثور میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے زانوؤں پر سر رکھ کر استراحت فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چہرہ انور کی قریب سے زیارت کا اعزاز حاصل کیا۔ آپ فرماتے ہیں :

کان وجه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کدارة القمر.

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روئے منور (چودھویں کے) چاند کے (حلقہ اور) دائرہ کی مانند (دکھائی دیتا) تھا۔‘‘

1. ابن جوزي، الوفا : 412
2. هندي، کنزالعمال، 7 : 162، رقم : 18526

حضرت جابر بن سُمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سُرخ چادر اوڑھے آرام فرما رہے تھے، میں کبھی چاند کو دیکھتا اور کبھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کی زیارت کرتا بالآخر دل بے اختیار ہو کر پُکار اُٹھا :

فلهو عندي أحسن من القمر.

’’آپ صلي اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے نزدیک چاند سے بھی زیادہ خوبصورت ہیں۔‘‘

1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 39، رقم : 10
2. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 1 : 224
3. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 196

ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :

فنور وجهه صلي الله عليه وآله وسلم ذاتي، لا ينفک عنه ساعة في الليالي و الأيام، و نور القمر مکتسب مستعار ينقص تارة ويخسف أخرٰي.

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کا نُور دن رات میں کبھی جدا نہیں ہوتا کیونکہ چاند کے برعکس یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاذاتی وصف ہے، چاند کا نور تو سُورج سے مستعار ہے، اس لئے اس میں کمی بھی آجاتی ہے حتیٰ کہ کبھی تو بالکل بے نُور ہو جاتا ہے۔‘‘

ملا علي قاري، جمع الوسائل علي الشمائل المحمديه، 1 : 56

حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ روئے منور کے حوالے سے فرماتے ہیں :

يتلألؤ وجهه تلألؤالقمر ليلة البدر.

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور چودھویں رات کے چاندکی طرح چمکتا تھا۔‘‘

ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 35، رقم : 8
(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں

و کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أحسن الناس وجها و أنورهم لونا، لم يصفه واصف قط الا شبه وجهه بالقمر ليلة البدر، وکان عرقه في وجهه مثل اللؤلو.

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے بڑھ کر حسین و جمیل اور خوش منظر تھے۔ جس شخص نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توصیف و ثناء کی اُس نے چہرۂ انور کو چودہویں رات کے چاند سے تشبیہ دی، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روئے منور پر پسینے کے قطرے موتیوں کی طرح (چمکتے) تھے۔‘‘

1. قسطلاني، المواهب اللدنيه، 2 : 312
2. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 300

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روئے منور کو چاند سے تشبیہ دینے کے حوالے سے ابن دحیہ کہتے ہیں :

لآن القمر يؤنس کل من شاهده و يجْمَعُ النور من غير أذي حَرّ، و يتمکن من النظر إليه بخلاف الشمس التي تُعشي البصر فتمنع من الرؤية.

’’چونکہ چاند اپنے دیکھنے والے کو مانوس کرتا ہے، چاند سے روشنی کا حصول گرمی کے بغیر ہوتا ہے اور اُس پر نظر جمانا بھی ممکن ہوتا ہے، بخلاف سورج کے کہ اس کی طرف دیکھنے سے آنکھیں چندھیا جاتی ہیں اور (کسی چیز کو) دیکھنے سے عاجز آ جاتی ہیں۔‘‘

صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 41

شیخ ابراہیم بیجوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں

إنما آثر القمر بالذکردون الشمس لأنه صلي الله عليه وآله وسلم محا ظلمات الکفر کما أن القمر محا ظلمات الليل.

’’ (چہرۂ انور کو) سورج سے تشبیہ نہ دے کر چاندسے تشبیہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفر کی تاریکیوں کو اسی طرح دور کر دیا جس طرح چاند اندھیری رات کی تاریکیوں کو دور کر دیتا ہے۔‘‘

ابراهيم بيجوري، المواهب اللدنيه علي الشمائل المحمديه : 19

اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا فرماتی ہیں :

ان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم دخل عليها مسروراً، تبرق أسارير وجهه.

’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس اس حال میں تشریف لائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شاداں و فرحاں تھے، چہرۂ اقدس کے تمام خدو خال نُور کی طرح چمک رہے تھے۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، 3 : 1304، باب صفة الانبياء، رقم : 3362
2. مسلم، الصحيح، 2 : 1081، کتاب الرضاع، رقم : 1459
3. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 440، کتاب الولاء والهبة، رقم : 2129
4. ابو داؤد، السنن، 2 : 280، کتاب الطلاق، رقم : 2267
5. نسائي، السنن، 6 : 184، کتاب الطلاق، رقم : 3493
6. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 82، رقم : 24570
7. دارقطني، السنن، 4 : 240، رقم : 131
8. عبدالرزاق، المصنف، 7 : 447، رقم : 13833
9. بيهقي، السنن الکبريٰ، 10 : 265، رقم : 21061
10. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 4 : 63

امام ابن اثیر رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں

فی صفته عليه الصلوة والسلام : إذا سُر فکأنّ وجهه المرآة، وکأن الجدر تلاحک وجهه، أي يري شخص الجدر في وجهه صلي الله عليه وآله وسلم .

’’یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات میں سے تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسرور ہوتے تو روئے منور آئینے کی طرح (شفاف اور مجلا) ہو جاتا گویا کہ دیواروں کا عکس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس میں صاف نظرآتا۔‘‘

ابن اثير، النهايه، 4 : 238، 239
(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا فرماتی ہیں کہ میں حفصہ بنت رواحہ سے سوئی عاریتاً لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کپڑے سی رہی تھی کہ اچانک وہ میرے ہاتھ سے گر گئی اور تلاش بسیار کے بعد بھی نہ ملی۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے :

فتبينت الابرة من شعاع نور وجهه صلي الله عليه وآله وسلم.

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس سے نکلنے والے نُور کی وجہ سے مجھے اپنی گم شدہ سوئی مل گئی۔‘‘

1. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 1 : 325
2. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 107
چہرۂ مبارک . . . صداقت کا آئینہ

حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ جو اسلام لانے سے قبل یہود کے بہت بڑے عالم تھے، فرماتے ہیں کہ اسلام کے دامنِ رحمت میں آنے سے پہلے جب میں نے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے بارے میں سنا تو نبوت کی دعویدار اس ہستی کو دیکھنے کے لئے آیا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجدِ نبوی میں تشریف فرما تھے۔

فلما استبنت وجه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عرفت أنّ وجهه ليس بوجه کذابٍ.

’’پس جب میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاچہرۂ اقدس دیکھا تو میرا دل پُکار اُٹھا کہ یہ (نورانی) چہرہ کسی جھوٹے شخص کا نہیں ہو سکتا۔‘‘

1. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 652، ابواب صفة القيامه، رقم : 2485
2. ابن ماجه، السنن، 1 : 423، کتاب اقامةالصلوة والسنه فيها، رقم : 1334
3. حاکم، المستدرک، 3 : 14، رقم : 4283
4. حاکم، المستدرک، 4 : 176، رقم : 7277
5. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 451
6. دارمي، السنن، 1 : 405، رقم : 1460
7. بيهقي، السنن الکبريٰ، 2 : 502، رقم : 4422
8. بيهقي، شعب الايمان، 3 : 216، رقم : 3361
9. ابن ابي شيبه، المصنف، 5 : 248، رقم : 25740
10. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 235
11. ابن عبدالبر، الدريه، 1 : 85
12. ابن حجر عسقلاني، الاصابه، 4 : 118
13. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 314

حضرت حارث بن عمرو سہمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

أتيت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وهو بمني أو بعرفات، وقد أطاف به الناس، قال : فتجئ الآعراب فإذا رأوا وجهه، قالوا : هذا وجهٌ مبارک.

’’میں منٰی یا عرفات کے مقام پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ (بیکس پناہ) میں حاضر ہوا اور (دیکھا کہ) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے لئے لوگ جوق درجوق آ رہے ہیں پس میں نے مشاہدہ کیا کہ دیہاتی آتے اور جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس کی زیارت کرتے تو بے ساختہ پُکار اُٹھتے کہ یہ بڑا ہی مبارک چہرہ ہے۔‘‘

1. ابوداؤد، السنن، 2 : 144، کتاب الحج، رقم : 1742
2. بخاري، الادب المفرد، 1 : 392، رقم : 1148
3. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 261، رقم : 3351
4. بيهقي، السنن الکبريٰ، 5 : 28، رقم : 8701
5. هيثمي، مجمع الزوائد، 3 : 269

سالارِ قافلہ کی بیوی کی شہادت

طارق بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہمارے قافلے نے مضافاتِ مدینہ میں پڑاؤ ڈالا، ہمارے قافلے میں نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے۔ اُس وقت تک ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے آشنا نہیں تھے، آقائے محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہمارا سُرخ اُونٹ پسند آگیا، اُونٹ کے مالک سے سودا طے ہوا، لیکن اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس رقم نہ تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طے شدہ رقم بھجوانے کا وعدہ کیا اور سُرخ اُونٹ لے کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تشریف لے جانے کے بعد اہلِ قافلہ اپنے خدشات کا اظہار کرنے لگے کہ ہم نے تو سُرخ اُونٹ کے خریدار کا نام تک دریافت نہیں کیا اور محض وعدے پر اُونٹ ایک اجنبی کے حوالے کر دیا ہے، اگر اُونٹ کے خریدار نے اپنا وعدہ پورا نہ کیا تو کیا ہو گا؟ لوگوں کی قیاس آرائیاں سننے کے بعد سالارِ قافلہ کی بیوی قافلے والوں کو مخاطب کرکے یوں گویا ہوئی :

لاتلاوموا، فإني رأيت وجه رجل لم يکن ليحقرکم، ما رأيت شيئا أشبه بالقمر ليلة البدر من وجهه.

’’تم ایک دوسرے کو ملامت نہ کرو، بیشک میں نے اس شخص کا چہرہ دیکھا ہے (اور میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ) وہ ہرگز تمہیں رسوا نہیں کرے گا۔ میں نے اس شخص کے چہرے سے بڑھ کر کسی چیز کو چودھویں کے چاند سے مشابہہ نہیں دیکھا۔‘‘

1. ابن حبان، الصحيح، 14 : 518، رقم : 6562
2. حاکم، المستدرک، 2 : 668، رقم : 4219
3. ابن اسحاق، السيرة، 4 : 216
4. قسطلاني، المواهب اللدنيه، 2 : 200
5. ابن قيم، زادالمعاد، 3 : 649

جب شام ہوئی تو ایک شخص آیا اور کہنے لگا : ’’میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قاصد ہوں، یہ کھجوریں لو پیٹ بھر کر کھا بھی لو اور اپنی قیمت بھی پوری کر لو۔‘‘ تو ہم نے خوب سیر ہو کر کھجوریں کھائیں اور (اونٹ کی) قیمت بھی پوری کر لی۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...