Sunday 6 August 2017

فضائل و مسائلِ حج و قربانی حصّہ پنجم

0 comments
فضائل و مسائلِ حج و قربانی حصّہ پنجم

سوال : ایک شخص صاحب نصاب نہیں تها اور قربانی کےلئے جانور خرید لیا بعدمیں معلوم ہوا کہ مجھ پر قربانی واجب نہیں، تو کیا ایسا شخص خریدہ ہوا جانور بیچ کر رقم استعمال کرسکتا ہے، کیونکہ اس پر قربانی واجب نہیں ؟
جواب : جو صاحب نصاب نہ ہو اسے فقہی بولی میں فقیر کہتے ہیں اور صاحب نصاب کو غنی،فقیر پر شرعا قربانی واجب نہ تهی، مگر جب اس نے قربانی کی نیت سے جانور خرید لیا تو اس نیت کیوجہ سے اسی جانور کی قربانی اس پر واجب ہوگئی ۔ (بہارشریعت حصہ 15)
اور اب یہ اس جانور کو فروخت کرکے رقم استعمال نہیں کرسکتا ، فروخت کرنا تو کجا اب یہ اس جانور کو دوسرے سے بدل بهی نہیں سکتا ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 20 صفحہ 372)
سوال : مسافر اگر قربانی کرے تو کیا اسے ثواب ملے گا ؟
جواب : مسافر پر اگرچہ قربانی واجب نہیں مگر نفل کے طور پر قربانی کرے تو کر سکتا ہے ثواب پائے گا ۔ (بہارشریعت حصہ 15)
سوال : اگر کوئی شخص قربانی کے پہلے دن صاحب نصاب نہیں تها، عیدالاضحیٰ کے دوسرے یا تیسرے دن غنی ہوگیا، اس پر قربانی واجب ہوگی یا نہیں ؟
جواب : قربانی کے واجب ہونے کو پورے وقت میں پایا جانا ضروری نہیں، بلکہ قربانی کےلئے جو وقت (تین دن) مقرر ہے اس کے کسی حصہ میں شرائط کا پایا جانا قربانی واجب ہونے کےلئے کافی ہے؛ یہ شخص پہلے دن فقیر تها مگر دوسرے یا تیسرے دن وقت کے اندر مالدار ہوگیا، یا مسافر تها مقیم ہوگیا یا غلام تها اب آزاد ہوگیا حتی کہ کافر تها اب مسلمان ہوگیا ان تمام صورتوں میں قربانی واجب ہے ۔ ( بہارشریعت حصہ 15 بحوالہ فتاوی ہندیہ کتاب الاضحیہ )
سوال : مالک نصاب نے قربانی کےلئے جانور خریدا ، وہ گم ہوگیا، یا چوری ہوگیا اب یہ مالک نصاب نہ رہا تو کیا وہ نیا جانور خریدےگا ؟
جواب : اس صورت میں اس پر دوسرا جانور خرید کر قربانی کرنا واجب نہیں کہ وہ صاحب نصاب نہ رہا، بلکہ اگر قربانی کے دنوں میں گمشدہ یا چوری ہوا جانور مل گیا اور یہ اب بهی صاحب نصاب نہیں تو اس پر قربانی واجب نہیں ۔ ( بہارشریعت حصہ 15 بحوالہ فتاوی ہندیہ کتاب الاضحیہ باب اول)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
قربانی کے جانور تین قسم کے ہیں
(1) اونٹ ۔ (2) گائے ۔ (3) بکری
ہر قسم میں اس کی جتنی نوعیں ہیں سب داخل ہیں، نر، مادہ، خصی اور غیر خصی سب کا ایک حکم ہے یعنی سب کی قربانی ہوسکتی ہے ۔
بهینس گائے میں شمار ہے اس کی بهی قربانی ہوسکتی ہے.
بهیڑ اور دنبہ بکری میں داخل ہیں انکی بهی قربانی ہو سکتی ہے
( بہارشریعت حصہ 15 بحوالہ فتاوی ہندیہ، کتاب الاضحیہ باب خامس)
نوٹ : وحشی جانور جیسے نیل گائے اور ہرن کی قربانی نہیں ہوسکتی)
قربانی کے جانور کی عمر
(1) اونٹ پانچ سال کا ۔ (2) گائے دو سال کی ۔ (3) بکرا ایک سال کا ۔
اس سے عمر کم ہو تو قربانی جائز نہیں، اگر مقررہ عمر سے زیادہ ہو تو جائز بلکہ افضل ہے، دنبہ یا بهیڑ کا چهه ماہہ بچہ اگر اتنا بڑا (فربہ صحت مند) ہو کہ دور سے دیکهنے میں سال بهر کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے ۔ ( فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 443 ! بہارشریعت حصہ 15 بحوالہ درمختار کتاب الاضحیہ)
قربانی کے جانور کو عیب سے خالی ہونا چاہئیے، تهوڑا سا عیب ہو( مثلاً کان چرا ہوا ہو یا کان میں سوراخ ہو ) تو قربانی ہوجائے گی مگر مکروہ ہوگی، اگر عیب زیادہ ہو(تفصیل آگے آرہی ہے) تو قربانی نہیں ہوگی جس جانور کے پیدائشی سینگ نہ ہوں اس کی قربانی جائز ہے،سینگ تهے مگر جڑ تک ٹوٹ گیا قربانی ناجائز ہے، اگر اس سے کم ٹوٹا تو قربانی جائز ہے، جس جانور کے پیدائشی کان نہ ہوں یا ایک کان نہ ہو، اسکی قربانی ناجائز ہے، جس جانور میں جنوں (پاگل) اس حد کا ہو کہ چرتا نہ ہو، اتنا کمزور ہو کہ ہڈیوں میں مغز نہ رہا؛ اندها؛ یا ایسا کانا کہ اس کا کانا پن ظاہر ہے، ایسا بیمار جسکی بیماری ظاہر ہو؛ اتنا لنگڑا کہ خود اپنے پاؤں سے ذبح کرنے کی جگہ تک نہ جاسکے؛ ایسا جانور کہ جس کے کان، دم؛ یا دم چکی ( دنبے کی گول چپٹی دم) ایک تہائی( 1/3) سے زیادہ کٹے ہوئے ہوں؛ جانور کی ناک کٹی ہو؛ دانت نہ ہوں، تهن کٹے ہوئے ہوں یا خشک ہوگئے ہوں، ( گائے یا بهینس میں دو تهن بکری میں ایک تهن کا خشک ہونا ناجائز ہونے کےلئے کافی ہے) جس جانور کا دودھ علاج کے ذریعے خشک کردیا گیا ہو؛ خنثی جانور یعنی جس میں نر اور مادہ دونوں علامتیں پائی جاتی ہوں، اس کا گوشت کسی طرح پکائے نہیں پکتا ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 255)
اور جلالہ جو صرف غلیظ کهاتا ہو(حدیث پاک میں جلالہ کا گوشت کهانے اور اس کا دودھ پینے سے منع فرمایا گیا ۔ (جامع الترمذی، کتاب الاطعمہ)
یا جس جانور کا ایک پاؤں کاٹ دیا گیا ہو، ان سب کی (جو ابهی بیان ہوئے) قربانی ناجائز ہے، تفصیل کےلئے دیکهئے، الہدایہ کتاب الاضحیہ، درمختار کتاب الاضحیہ؛
فتاوی ہندیہ اسے فتاوی عالمگیری بهی کہتے ہیں، کتاب الاضحیہ، فتاویٰ رضویہ جلد20)(بہار شریعت حصہ 15)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
سوال : کیا خصی جانور کی قربانی جائز ہے؟ کیونکہ اس میں رگیں کوٹ دی جاتی ہیں، یہ عیب کے زمرے میں نہیں آتا ؟
جواب : خصی جانور کی قربانی جائز اور سنت سے ثابت ہے، حضرت جابر حضرت ابوہریرہ اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنهم سے مروی ؛ سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم، نے ذبح کے دن دو مینڈهے سینگ والے، چت کبرے، خصی کیے ہوئے ذبح کیئے ۔ (مسندِ امام احمد، مسند انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ، جلد 4 صفحہ 5؛؛ سنن ابوداؤد، کتاب الضحایا، باب مایستحب من الضحایا؛ سنن ابن ماجہ، ابواب الاضاحی باب اضاحی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم؛ مشکوتہ باب فی الاضحیہ فصل ثانی)
امام اهلسنت رحمہ اسی طرز کے سوال کہ خصی جانور کی قربانی جائز ہے؟ کے جواب میں فرماتے ہیں، جائز ہے کہ اس کی کمی سے اس جانور میں عیب نہیں آتا بلکہ وصف بڑهه جاتا ہے کہ خصی جانور کا گوشت بہ نسبت فحل کے زیادہ اچها ہوتا ہے. ہندیہ (فتاوی عالمگیری) میں خلاصہ سے منقول ہے کہ ذکر کٹا (جانور) جو جفتی کے قابل نہ رہا وہ قربانی میں جائز ہے ۔ ( فتاوی رضویہ جلد20 صفحہ 458)
سوال : کیا بهینس بهی قربانی کا جانور ہے؛ اگر ہے تو اس کا کیا ثبوت ہے ؟
جواب : لغت عرب میں بهینس کو "جاموس" کہتے ہیں (المنجد) اس کا شمار گائے کی نوع یعنی قسم میں ہوتا ہے، امام اهلسنت الشاہ امام احمد رضا خان قادری برکاتی قدس سرہ العزیز نے اپنی مایہ ناز کتاب؛" هادی الاضحیہ بالشاتہ الهندیہ" میں بهینس کی قربانی کے جواز میں کثیر کتب فقہ سے استدلال فرمایا :
(جن میں ہدایہ)(خانیہ)(رمز الحقائق)(تکملہ طوری )(مسخلص الحقائق)( شرح ملا مسکین)(طحاوی علی الدر)(شرح نقایہ برجندی)(جامع الرموز)(جامع المضمرات)(مجمع الانہر عن المحیط)(فتح اللہ المعین عن التبیین)(بحرالرائق)(ولوالجیہ)(هندیہ عن البدائع)(ردالمحتار ؛ شامل ہیں ان کتب کے نام گنوا کے فرماتے ہیں، ضرورت پر ساری کتابیں پیش کی جا سکتی ہیں؛ الحمدللہ ساری کتابیں میری ذاتی ہیں؛
(مذکورہ کتب میں سے اکثر اس فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی کے پاس بهی ہیں)
ان میں سے چند عبارات پیش خدمت ہیں؛ علامہ طوری لکهتے ہیں؛ الجاموس لانہ نوع من البقر، بهینس گائے کی نوع سے ہے ۔ ( تکملہ من البحرالرائق، کتاب الاضحیہ جلد 8 صفحہ 177)
امام برہان الدین رحمہ فرماتے ہیں؛ ویدخل فی البقر الجاموس ۔ (ہدایہ کتاب الاضحیہ جلد 4 صفحہ 449)
فتاوی ہندیہ میں ہے، والجاموس نوع من البقر ۔ ( فتاویٰ ہندیہ کتاب الاضحیہ باب خامس جلد5 صفحہ 297)
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ فرماتے ہیں، جاموس نوعی از بقرست و جائز ست ۔ (اشعتہ اللمعات کتاب الصلوٰہ باب الاضحیہ جلد 1 صفحہ 608)
ان تمام عبارات کا خلاصہ یہی ہے کہ جاموس یعنی بهینس گائے کی قسم سے ہے اور قربانی کا جانور ہے، اسکی عمر بهی قربانی کےلئے دو سال ہے ۔
سوال : گابهن (حاملہ) بکری یا گائے کی قربانی جائز ہے؟ اور اگر اس کے پیٹ سے زندہ بچہ نکلے اس کےلئے شریعت کا کیا حکم ہے ؟
جواب : اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں؛ دودھ کے جانور یا گابهن کی قربانی اگرچہ صحیح ہے مگر ناپسند ہے، حدیث میں اس سے ممانعت فرمائی ۔ (یہ حدیث سنن ابن ماجہ ابواب الذبآئح میں ہے) فتاوی رضویہ جلد20 صفحہ 370)
اسلئے گابهن جانور کی قربانی سے اجتناب کرنا بہتر ہے، اور اگر پیٹ سے زندہ بچہ نکل آئے تو اسے ذبح کیا جاسکتا ہے اور اس کا گوشت کهانا بهی جائز ہے، اگر مرا ہوا بچہ ہو تو اسے پهینک دے مردار ہے ۔ ( بہارشریعت حصہ 15)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔