Tuesday 22 September 2020

اہل بیتِ اطہار اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہم کا باہمی تعلق

1 comments

 اہل بیتِ اطہار اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہم کا باہمی تعلق


محترم قارئینِ کرام : دشمنان اسلام لوگوں کی پوری کوشش رہی ہے کہ اہل بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو معاذ اللہ ایک دوسرے کا دشمن ثابت کیا جائے ۔ کبھی وہ ان کی زبان سے ایک دوسرے پر لعنت کہلواتے ہیں ، کبھی ایک دوسرے کو برا بھلا کہلواتے ہیں اور ان کے اسلام میں شک کرواتے ہیں ۔ درحقیقت یہ ان کے اپنے جذبات ہیں جنہیں وہ زبردستی اہل بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی زبان سے کہلوانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسی تمام روایات کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان کی سند میں کوئی نہ کوئی جھوٹا راوی جیسے ابو مخنف ، ہشام کلبی ، سیف بن عمر یا واقدی ضرور موجود ہو گا ۔ یہاں ہم چند روایات اور کچھ نکات پیش کر رہے ہیں ، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان حضرات کی ایک دوسرے کے بارے میں کیا رائے تھی ؟

حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا میرا حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے اختلاف صرف حضرت عثمان رضی ﷲ عنہ کے قصاص کے مسئلہ میں ہے اور اگر وہ خون عثمان رضی ﷲ عنہ کا قصاص لے لیں تو اہل شام میں ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے والا سب سے پہلے میں ہوں گا ۔ (البدایہ و النہایہ ج 7‘ص 259)

حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ۔ میرے لشکر کے مقتول اور حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کے لشکر کے مقتول دونوں جنتی ہیں ۔ (مجمع الزوائد ‘ ج 9‘ ص 258،چشتی)

حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ نے جنگ صفین سے واپسی پر فرمایا ۔ امارات معاویہ رضی ﷲعنہ کو بھی خزانہ سمجھو کیونکہ جس وقت وہ نہ ہوں گے تم سروں کو گردنوں سے اڑتا ہوا دیکھو گے ۔ ( شرح عقیدہ واسطیہ)

حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو جب شہادت حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کو خبر ملی تو سخت افسردہ ہوگئے اور رونے لگے ۔ (البدایہ ج 8 ص 130)

حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے حضرت المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کو صاحب فضل کہا ۔ (البدایہ‘ ج 8ص 131)

حضرت ابو امامہ رضی ﷲ عنہ سے سوال کیا گیا حضرت امیر معاویہ و عمر بن عبدالعزیز میں سے افضل کون ہے ؟ آپ نے فرمایا ہم اصحاب مسجد کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے ‘ افضل ہونا تو کجا ہے ۔ (الروضہ الندیہ‘ شرح العقیدہ الواسطیہ ص 406)

حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے ایک قتل کے مسئلہ پر حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ سے رجوع کیا ۔ ( موطا امام مالک)

حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے روم کے بادشاہ کو جوابی خط لکھا تو اس میں یہ لکھا حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ میرے ساتھی ہیں اگر تو ان کی طرف غلط نظر اٹھائے گا تو تیری حکومت کو گاجر مولی کی طرح اکھاڑ دوں گا ۔ (تاج العروس ص 221)

حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ’’اے نصرانی کتے اگر حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کا لشکر تیرے خلاف روانہ ہوا تو سب سے پہلے حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کے لشکر کا سپاہی بن کر تیری آنکھیں پھوڑ دینے والا معاویہ ہوگا ۔ (بحوالہ مکتوب امیر معاویہ البدایہ)

حضرت علی کے بھائی عقیل اس وقت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کے قریبی ساتھی تھے اور دوسری طرف حضرت معاویہ کے بھائی زیاد بن ابی سفیان ، حضرت علی کے قریبی ساتھی تھے اور آپ نے انہیں ایران و خراسان کا گورنر مقرر کر رکھا تھا ۔ ایک بار عقیل ، معاویہ کے پاس بیٹھے تھے تو معاویہ نے جی کھول کر علی کی تعریف کی اور انہیں بہادری اور چستی میں شیر ، خوبصورتی میں موسم بہار ، جود و سخا میں دریائے فرات سے تشبیہ دی اور کہا : ’’اے ابو یزید (عقیل) ! میں علی بن ابی طالب کے بارے میں یہ کیسے نہ کہوں ۔ علی قریش کے سرداروں میں سے ایک ہیں اور وہ نیزہ ہیں جس پر قریش قائم ہیں ۔ علی میں بڑائی کی تمام علامات موجود ہیں ۔‘‘ عقیل نے یہ سن کر کہا : ’’امیر المومنین ! آپ نے فی الواقع صلہ رحمی کی ۔‘‘ ( ابن عساکر۔ 42/416،چشتی)

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنگ صفین کے بعد جو خط شہروں میں بھیجا، اس میں فرمایا: ہمارے معاملہ کی ابتدا یوں ہوئی کہ ہم میں اور اہل شام میں مقابلہ ہوا۔ ظاہر ہے کہ ہمارا اور ان کا رب ایک ، ہمارا اور ان کا نبی ایک، ہماری اور ان کی اسلام کے متعلق دعوت ایک۔ اس معاملے میں نہ وہ ہم سے زیادہ تھے اور نہ ہم ان سے۔ صرف ایک معاملے میں ہم میں اختلاف ہوا اور وہ تھا خون عثمان کا جبکہ ہم اس سے بری تھے ۔ ( سید شریف رضی۔ نہج البلاغہ۔ خط نمبر 58)

ایک شخص نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے کوئی دینی سوال کیا ۔ آپ نے فرمایا : اس بارے میں علی بن ابی طالب سے پوچھ لیجیے ، وہ مجھ سے زیادہ بڑے عالم ہیں۔‘‘ اس نے کہا : ’’امیر المومنین! آپ کی رائے، میرے نزدیک علی کی رائے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’آپ نے تو بہت ہی بری بات کی اور آپ کی رائے بہت ہی قابل مذمت ہے۔ کیا آپ ان صاحب (علی) کی رائے کو ناپسند کر رہے ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم سے عزت بخشی ہے ؟ آپ نے انہیں فرمایا تھا : علی ! آپ میرے لیے وہی حیثیت رکھتے ہیں جو کہ موسیٰ کے نزدیک ہارون (علیہما الصلوۃ والسلام) کی تھی ۔ فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ (ابن عساکر۔ 42/170)

خوارج نے حضرت علی ، معاویہ اور عمرو رضی اللہ عنہم کو ایک ہی رات میں شہید کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے حملہ آور کو پکڑ لیا تو وہ کہنے لگا : “میرے پاس ایسی خبر ہے جسے سن کر آپ خوش ہو جائیں گے ۔ اگر میں آپ سے وہ بیان کر دوں تو آپ کو بہت نفع پہنچے گا ۔ ” آپ نے فرمایا : “بیان کرو ۔” کہنے لگا : “آج میرے بھائی نے علی کو قتل کر دیا ہو گا ۔” آپ نے فرمایا : “کاش ! تمہارا بھائی ان پر قابو نہ پا سکے ۔ ( طبری۔ 3/2-357)

جنگ صفین کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : “لوگو! آپ لوگ معاویہ رضی اللہ عنہ کی گورنری کو ناپسند مت کریں ۔ اگر آپ نے انہیں کھو دیا تو آپ دیکھو گے کہ سر اپنے شانوں سے اس طرح کٹ کٹ کر گریں گے جیسے حنظل کا پھل اپنے درخت سے ٹوٹ ٹوٹ کر گرتا ہے ۔ ( ابن ابی شیبہ المصنف 14/38850)
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنِ الْحَارِثِ ، قَالَ : لَمَّا رَجَعَ عَلِيٌّ مِنْ صِفِّينَ عَلِمَ أَنَّهُ لَا يَمْلِكُ أَبَدًا , فَتَكَلَّمَ بِأَشْيَاءَ كَانَ لَا يَتَكَلَّمُ بِهَا , وَحَدَّثَ بِأَحَادِيثَ كَانَ لَا يَتَحَدَّثُ بِهَا , فَقَالَ : فِيمَا يَقُولُ : " أَيُّهَا النَّاسُ , لَا تَكْرَهُوا إِمَارَةَ مُعَاوِيَةَ , وَاللَّهِ لَوْ قَدْ فَقَدْتُمُوهُ ! لَقَدْ رَأَيْتُمُ الرُّءُوسَ تَنْزُو مِنْ كَوَاهِلِهَا كَالْحَنْظَلِ ! " ۔(مصنف ابن أبي شيبة » كِتَابُ الْجَمَلِ » بَابُ مَا ذُكِرَ فِي صِفِّينَ ... رقم الحديث: 37151،چشتی)

یزید بن اصم کہتے ہیں کہ جب علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان صلح ہو گئی تو علی اپنے مقتولین کی جانب نکلے اور فرمایا : ’’یہ لوگ جنت میں ہوں گے ۔‘‘ پھر معاویہ کے مقتولین کی طرف چلے اور فرمایا: ’’یہ لوگ بھی جنت میں ہوں گے۔ (روز قیامت) یہ معاملہ میرے اور معاویہ کے درمیان ہو گا۔ فیصلہ میرے حق میں دیا جائے گا اور معاویہ کو معاف کر دیا جائے گا ۔ مجھے میرے حبیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح بتایا تھا ۔ ( ابن عساکر۔ 59/139)

ان واقعات کو پڑھنے کے بعد کوئی ذی شعور بے سند اور لا یعنی بات نہیں کر سکتا ایک اور بات امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما ہم سے زیادہ مولا علی رضی اللہ عنہ کے قریبی ہیں جب انہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور ان سے سالانہ وظائف بهی قبول کرتے رہے تو ہمیں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر تنقید کا کوئی حق نہیں. کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے کسی کافر یا فاسق کے ہاتھ پر بیعت نہیں کر سکتے . اب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر تنقید درپردہ سرداران نوجوانان جنت رضی اللہ عنہما پر تنقید ہے ۔

حضرت امیر معاویہ حضرت علی رضی اللہ عنہما کے مقابلہ میں جنگ آزما ہونے کے بعد بھی ان کے تمام فضائل کے معترف تھے اورانہوں نے بارہا اوربرملا ان کا اعتراف کیا ، جنگ صفین کی تیاریوں کے وقت جب ابو مسلم خولانی ان کو سمجھانے کے لئے گئے اور کہا معاویہ میں نے سنا ہے کہ تم علی سے جنگ کا ارادہ رکھتے ہو، تم کو سبقت اسلام کا شرف حاصل نہیں ہے ، پھر کس برتے پر اٹھو گے تو انہوں نے صاف صاف اعتراف کیا کہ مجھے اس کا دعویٰ نہیں ہے کہ میں فضل میں ان کے مثل ہوں ، میں تو صرف قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو مانگتا ہوں ، اپنی وفات کے کچھ دنوں پہلے انہوں نے مجمع عام میں جو تقریر کی تھی، اس کے الفاظ یہ تھے کہ میرے بعد آنے والا مجھ سے بہتر نہیں ہوگا، جیسا کہ میں اپنے پیش رو سے بہتر نہیں ہوں ۔ (ابن الاثیر:۴/۲،مطبوعہ یورپ)

وہ نہ صرف حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ ؛ بلکہ خاندانی بنی ہاشم کے شرف و فضیلت کے معترف تھے ، ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ بنی امیہ اشرف ہیں یا بنی ہاشم ، انہوں نے زمانہ جاہلیت کی پوری تاریخ دہرا کر دونوں کی فضیلت کا اعتراف کیا اورآخر میں کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کی بعثت کے بعد بنی ہاشم کی فضیلت کو کون پہنچ سکتا ہے ۔ (البدایہ والنہایہ:۸/۱۳۸)

حضرت مولاء علی مشکل کشاء رضی اللہ عنہ نے فرمایا : لوگو! معاویہ کی گورنری کو ناپسند نہ کرو۔ واللہ! اگر تم نے انہیں کھو دیا تو تم ضرور دیکھو گے کہ سر ، شانوں سے اس طرح کٹ کٹ کر گر رہے ہوں گے جیسا کہ حنظل کا پھل اپنے پودے سے گرتا ہے ۔ (ابن ابی شیبہ۔ المصنف۔ کتاب الجمل، باب صفین۔ جلد 14)( 38850۔ ابن ابی الحدید۔ شرح نہج البلاغۃ۔ 12/40)

حضرت مولاء علی مشکل کشاء رضی اللہ عنہ نے فرمایا : زید بن اصم کہتے ہیں کہ جب علی اور معاویہ کے درمیان صلح ہو گئی تو علی (رضی اللہ عنہ) اپنے مقتولین کی جانب نکلے اور فرمایا : ’’یہ لوگ جنت میں ہوں گے ۔‘‘ پھر معاویہ (رضی اللہ عنہ) کے مقتولین کی طرف چلے اور فرمایا : ’’یہ لوگ بھی جنت میں ہوں گے۔ (روز قیامت) یہ معاملہ میرے اور معاویہ کے درمیان ہو گا۔ فیصلہ میرے حق میں دیا جائے گا اور معاویہ (رضی اللہ عنہ) کو معاف کر دیا جائے گا۔ مجھے میرے حبیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح بتایا تھا ۔ ( ابن عساکر۔ 59/139،چشتی)

اہل تشیع کی مشہور کتاب نہج البلاغہ میں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا ایک مراسلہ (Circular) نقل کیا گیا ہے جو آپ نے جنگ صفین کے بارے میں شہروں میں بھیجا۔ اس میں لکھا ہے : حضرت علی علیہ السلام کا خط، جو آپ نے شہروں کی جانب لکھا، اس میں آپ نے اپنے اور اہل صفین کے درمیان ہونے والے واقعے کو بیان فرمایا :
ہمارے معاملہ کی ابتدا یوں ہوئی کہ ہم اہل شام کے ساتھ ایک میدان میں اکٹھے ہوئے۔ ظاہر ہے کہ ہمارا اور ان کا رب ایک، ہمارا اور ان کا نبی ایک، ہماری اور ان کی اسلام کے متعلق دعوت ایک۔ اللہ پر ایمان اور اس کے رسول کی تصدیق کے معاملے میں نہ ہم ان سے بڑھ کر تھے اور نہ وہ ہم سے بڑھ کر۔ صرف ایک معاملے میں ہم میں اختلاف ہوا اور وہ تھا خون عثمان کا جبکہ ہم اس سے بری تھے۔ ہم نے اس کا حل یہ پیش کیا کہ جو مقصد آج نہیں حاصل ہو سکتا ہے، اس کا وقتی علاج یہ کیا جائے کہ آتش جنگ کو خاموش کر دیا جائے اور لوگوں کو جذبات کو پرسکون ہو لینے دیا جائے۔ اس کے بعد جب حکومت کو استحکام حاصل ہو جائے گا اور حالات سازگار ہو جائیں گے تو ہم اتنے طاقتور ہو جائیں گے کہ حق (یعنی قصاص) کو اس کے مقام پر رکھ لیں۔ لیکن انہوں نے کہا کہ اس کا علاج صرف جنگ ہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنگ نے اپنے پاؤں پھیلا دیے اور جم کر کھڑی ہو گئی۔ شعلے بھڑک اٹھے اور مستقل ہو گئے۔ سب نے دیکھا کہ جنگ نے دونوں فریقوں کو دانت سے کاٹنا شروع کر دیا ہے اور فریقین میں اپنے پنجے گاڑ دیے ہیں تو وہ میری بات ماننے پر آمادہ ہو گئے اور میں نے بھی ان کی بات کو مان لیا اور تیزی سے بڑھ کر ان کے مطالبہ صلح کو قبول کر لیا۔ یہاں تک کہ ان پر حجت واضح ہو گئی اور ہر طرح کا عذر ختم ہو گیا۔ اب اس کے بعد کوئی اس حق پر قائم رہ گیا تو گویا اپنے آپ کو ہلاکت سے نکال لے گا ورنہ اسی گمراہی میں پڑا رہ گیا تو ایسا عہد شکن ہو گا جس کے دل پر اللہ نے مہر لگا دی ہے۔ گردش ایام اسی کے سر پر منڈلا رہی ہو گی ۔ (سید شریف رضی۔ نہج البلاغہ۔ خط نمبر 58،چشتی)
یہ تحریر وہ خط ہے جو نہج البلاغہ کے مولف شریف رضی کے مطابق مختلف شہروں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حکم سے بھیجا گیا تاکہ اس جنگ سے متعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نقطہ نظر کو واضح کیا جا سکے ۔ انڈر لائن الفاظ سے واضح ہے کہ آپ ، اہل شام کو عین مسلمان سمجھتے تھے اور ہر حال میں صلح چاہتے تھے ۔ اس سے ابو مخنف کی ان روایات کی بھی تردید ہو جاتی ہے جن کے مطابق حضرت علی جنگ جاری رکھنا چاہتے تھے اور اپنے ساتھیوں کے مجبور کر دینے پر وہ بادل نخواستہ جنگ بندی کے لیئے تیار ہوئے تھے ۔

فرمان مولا علی رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ ہمارے بھائی ہیں

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ہمارے بھائی ہیں ان سے خطاء اجتہادی ہوئی ہم سب ساتھ ہونگے ۔ (ازالۃُ الخفاء جلد 4 صفحہ 522)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دل میں بھی اہل بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کے حوالے سے بڑے نیک جذبات تھے اور اہل بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کے تعلق سے ان کا رویہ ہمیشہ ہم دردانہ اور مشفقانہ رہا ہے آیئے اس سلسلے میں ایک مختصر مضمون پڑھتے ہیں :

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا تعلق اتنا ہمدردانہ تھا کہ جب قیصر روم نے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے مقبوضات پر قبضہ کرنے کا خطرناک منصوبہ بنایا اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے قیصر روم کو ایسا تہدید نامہ لکھا جس کو پڑھ کر اس کے ہوش اڑ گئے اور وہ اپنے ارادے سے باز آ گیا خط کا مضمون یہ تھا : اے لعنتی انسان، مجھے اپنے اللہ کی قسم ہے کہ اگر تو اپنے ارادے سے باز نہ آیا اور اپنے ملک کی طرف واپس لوٹ نہ گیا تو پھر میں اور میرے چچا زاد بھائی (حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ) تیرے خلاف صلح کر لیں گے . پھر تجھے تیرے ہی ملک سے نکال بھگائیں گے اور اس زمین کو اس کی وسعتوں کے باوجود تجھ پر تنگ کر دیں گے ۔ (البدایہ و النہایہ، ج:٨،ص:١١٩)

خارج نے حضرت مولا علی ، حضرت امیر معاویہ اور حضرت عمرو رضی اللہ عنہم کو ایک ہی رات میں شہید کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے حملہ آور کو پکڑ لیا تو وہ کہنے لگا : "میرے پاس ایسی خبر ہے جسے سن کر آپ خوش ہو جائیں گے ۔ اگر میں آپ سے وہ بیان کر دوں تو آپ کو بہت نفع پہنچے گا ۔ " حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : "بیان کرو ۔" کہنے لگا : " آج میرے بھائی نے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا ہو گا ۔" حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : "کاش تمہارا بھائی ان پر قابو نہ پا سکے ۔ (تاریخ طبری ۔ 3/2-357،چشتی)

ایک شخص نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے کوئی دینی سوال کیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس بارے میں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ بن حضرت ابی طالب سے پوچھ لیجیئے ، وہ مجھ سے زیادہ بڑے عالم ہیں ۔ اس نے کہا : امیر المومنین آپ کی رائے ، میرے نزدیک علی (رضی اللہ عنہ) کی رائے سے زیادہ پسندیدہ ہے ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : آپ نے تو بہت ہی بری بات کی اور آپ کی رائے بہت ہی قابل مذمت ہے ۔ کیا آپ ان صاحب (حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ) کی رائے کو ناپسند کر رہے ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے علم سے عزت بخشی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انہیں فرمایا تھا : علی (رضی اللہ عنہ) آپ میرے لیئے وہی حیثیت رکھتے ہیں جو کہ موسی کے نزدیک ہارون (علیہما الصّلوۃ والسّلام) کی تھی ۔ فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ (ابن عساکر۔ 42/170)

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت عقیل رضی اللہ عنہ اس وقت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے قریبی ساتھی تھے اور دوسری طرف حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت زیاد بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما ، حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے قریبی ساتھی تھے اور حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے انہیں ایران و خراسان کا گورنر مقرر کر رکھا تھا ۔ ایک بار حضرت عقیل رضی اللہ عنہ ، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جی کھول کر حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی تعریف کی اور انہیں بہادری اور چستی میں شیر ، خوبصورتی میں موسم بہار ، جود و سخا میں دریائے فرات سے تشبیہ دی اور کہا : ’’اے ابو یزید (عقیل) ! میں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کے بارے میں یہ کیسے نہ کہوں ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قریش کے سرداروں میں سے ایک ہیں اور وہ نیزہ ہیں جس پر قریش قائم ہیں ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ میں بڑائی کی تمام علامات موجود ہیں ۔‘‘ عقیل نے یہ سن کر کہا : ’’امیر المومنین ! آپ نے فی الواقع صلہ رحمی کی ۔ (ابن عساکر۔ 42/416)

ذرا سوچیں کہ اگر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دل میں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے لیے ہم دردی کے جذبات نہ ہوتے تو وہ قیصر روم کو ایسا تہدید نامہ کبھی نہ لکھتے بلکہ اگر کوئی ذاتی پرخاش ہوتی تو در پردہ یا علانیہ قیصر روم کی مدد بھی کرتے. حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے حق میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ سلوک ان دونوں کے برادرانہ تعلقات کی روشن دلیل ہے ۔

اہل بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دل میں اہل بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کی کتنی قدر تھی اس کا اندازہ اس وصیت نامے سے بھی ہوتا ہے جو آپ نے اپنے مرض الموت میں اپنے بیٹے یزید پلید کےلیے لکھوایا تھا ۔ اس وصیت نامے کا ایک خاص اقتباس آپ بھی پڑھیں : البتہ حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے تم کو (یعنی یزید کو) خطرہ ہے ، اہل عراق انہیں تمہارے مقابلے میں لا کر چھوڑ دیں گے . جب وہ تمہارے مقابلے میں آئیں اور تم کو ان پر قابو حاصل ہو جائے تو درگزر سے کام لینا کہ وہ قرابت دار ، بڑے حق دار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عزیز ہیں ۔ (تاریخ طبری ج:٥،ص:١٩٦،چشتی)

شیعہ مولوی ملا باقر مجلسی کتاب جلاء العیون میں لکھتا ہے : حضرت معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ وصال کے وقت یزید کو یہ وصیت فرماگئے کہ امام حسین رضی ﷲ عنہ پس ان کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ہے ۔ تجھے معلوم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بدن کے ٹکڑے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے گوشت و خون سے انہوں نے پرورش پائی ہے ۔ مجھے معلوم ہے کہ عراق والے ان کو اپنی طرف بلائیں گے اور ان کی مدد نہ کریں گے ۔ تنہا چھوڑ دیں گے اگر ان پر قابو پالے تو ان کے حقوق کو پہچاننا ‘ ان کا مرتبہ جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ہے اس کو یاد رکھنا ‘ خبردار ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ دینا ۔ (جلاء العیون جلد دوم صفحہ نمبر 421,422)

ایک اور شیعہ عالم ناسخ التواریخ لکھتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ نے مزید کو یہ وصیت فرمائی : کہ اے بیٹا! ہوس نہ کرنا اور خبردار جب ﷲ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو تو تیری گردن میں حسین بن علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہما کا خون نہ ہو ۔ ورنہ کبھی آسائش نہ دیکھے گا اور ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہے گا ۔

محترم قارئینِ کرام : غور کیجئے حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ ‘ یزید کو یہ وصیت کر رہے ہیں کہ ان کی تعظیم کرنا بوقت مصیبت ان کی مدد کرنا ۔ اب اگر یزید پلید اپنے والد کی وصیت پر عمل نہ کرے تو اس میں حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ کا کیا قصور ؟

حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے یزید پلید کو کافر لکھا ہے اور اہل سنت و جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ یزید پلید ‘ شرابی ‘ ظالم اور امام حسین رضی ﷲ عنہ کے خون کا ذمہ دار ہے ‘ لیکن اس کے بدلے میں حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو بدنام کرنا یہ کون سی دیانت ہے ؟

جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت قائم ہو گئی تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ، اپنے بھائی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت معاویہ کے پاس جایا کرتے تھے ۔ وہ ان دونوں کی بہت زیادہ تکریم کرتے ، انہیں خوش آمدید کہتے اور عطیات دیتے۔ ایک ہی دن میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ نے انہیں بیس لاکھ درہم دیے ۔ ( ابن عساکر۔ 59/193،چشتی)

حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے فرمایا : میں آپ کو ایسا عطیہ دوں گا جو مجھ سے پہلے کسی نے نہ دیا ہو گا۔ چنانچہ انہوں نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو چالیس لاکھ درہم دیے ۔ ایک مرتبہ امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما دونوں ان کے پاس آئے تو انہیں بیس بیس لاکھ درہم دیے ۔ ( ابن عساکر۔ 59/193)

اہل تشیع کے بڑے عالم اور نہج البلاغہ کے شارح ابن ابی الحدید لکھتے ہیں : معاویہ دنیا میں پہلے شخص تھے جنہوں نے دس دس لاکھ درہم بطور عطیہ دیئے ۔ ان کا بیٹا یزید پہلا آدمی تھا جس نے ان عطیات کو دوگنا کیا ۔ حضرت علی کے دونوں بیٹوں حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو ہر سال دس دس لاکھ درہم دیئے جاتے ۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم کو بھی دیئے جاتے ۔ (ابن ابی الحدید۔ شرح نہج البلاغۃ)

جب حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ برابر ہر سال حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کے پاس جاتے رہے ۔ وہ انہیں عطیہ دیتے اور ان کی بھرپور عزت کرتے ۔ ( ابن کثیر۔ 11/477،چشتی)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا حضرات امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما کو تحفے بھیجنا اتنی معروف بات ہے کہ ابو مخنف کو بھی اس سے انکار نہیں ہے ۔ موصوف لکھتے ہیں : معاویہ ہر سال حسین رضی اللہ عنہما کو ہر قسم کے تحفوں کےعلاوہ دس لاکھ دینار بھیجا کرتے تھے ۔ ( ابو مخنف۔ مقتل الحسین علیہ السلام۔ قم: مطبعہ امیر)

محترم قارئینِ کرام : اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

فرق مراتب بے شمار
اور حق بدست حیدر کرار

مگر معاویہ بھی ہمارے سردار
طعن ان پر بھی کار فجار

جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں عیاذ باﷲ حضرت علی اسد ﷲ رضی اللہ عنہ کے سبقت و اوّلیت و عظمت واکملیت سے آنکھ پھیر لے وہ ناصبی یزیدی اور جو حضرت علی اسد ﷲ رضی اللہ عنہ کی محبت میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی صحابیت و نسبت بارگاہ حضرت رسالت بھلا دے وہ شیعی زیدی ہے یہی روش آداب بحمد ﷲ تعالٰی ہم اہل توسط و اعتدال کو ہر جگہ ملحوظ رہتی ہے ـ (فتاوی رضویہ جلد 10 صفحہ 201 قدیم ایڈیشن)،(فتاویٰ رضویہ، جلد10، صفحہ199، مطبوعہ رضا فاؤبڈیشن لاھور،چشتی)

اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرما رہے ہیں کہ مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان مرتبہ کا فرق شمار سے باھر ہے ۔ اگر کوئی حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں حضرت امام المسلمین مولا علی مشکل کُشاء رضی اللہ عنہ کی شان و عظمت کو گرائے وہ ناصبی یزیدی ہے ۔ اور جو مولا علی شیرِ خُدا رضی اللہ عنہ کی محبت کی آڑ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں تنقیص کرے وہ زیدی شیعہ ہے ۔ الحمد لله ہمارا اہلسنت کا مسلک مسلکِ اعتدال ہے جو ہر صاحبِ فضل کو بغیر کسی دوسرے کی تنقیص و توہین کے مانتا ہے ۔ آج کے جاہلوں نے محبتِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کیلئے بُغضِ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ شرط بنا لیا ہے ۔ اللہ تعالٰی ہمیں آل و اصحاب کی محبت میں موت عطا فرمائے آمین ۔ ان شواہد سے واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت امیر معاویہ پر اہل بیت سے بغض و عناد کا جو الزام لگایا گیا ہے وہ سراسر غلط اور بے بنیاد ہے. اس لیے ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ ان کے بارے میں سب و شتم سے ہرگز کام نہ لیں اور ان کا ذکر خیر کے ساتھ ہی کریں کہ یہی اسوہ رسول ہے ، اسی میں ملت کی بھلائی ہے اور اسی میں ہم سب کی نجات ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم کرواتے تھے کا جواب

0 comments

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم کرواتے تھے کا جواب


محترم قارئینِ کرام : رافضی شیعوں اور سنیت کے لبادے میں چھپے تفضیلی رافضیوں کی طرف سے اکثر اوقات یہ بات کہی جاتی ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنروں کو حکم دے رکہا تھا کہ ہر خطبہ مین امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں دیں اور انہیں برا بھلا کہیں ۔ اس کام کو وہ خود بھی کرتے تھے اپنے ہر خطبہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہتے تھے ۔ سب و شتم کا مطلب ہے برا بھلا کہنا ۔ عربی میں ان الفاظ کا مفہوم وسیع ہے اور اس میں تنقید بھی شامل ہے ۔ یہ تنقید سخت الفاظ میں بھی ممکن ہے اور نرم الفاظ میں بھی۔ اس میں گالی دینے کا مفہوم بھی شامل ہے اور نرم انداز میں ناقدانہ تبصرے کا بھی ۔
باغی راویوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر یہ تہمت عائد کی ہے کہ ان کے زمانے میں وہ اور ان کے مقرر کردہ گورنر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جمعہ کے خطبہ کے دوران معاذ اللہ گالیاں دیا کرتے تھے۔ اس تہمت کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ بنو امیہ کے خلاف نفرت پیدا کر کے اپنی پارٹی کے نوجوانوں کو مشتعل کیا جائے۔ اس تہمت کا جھوٹ صرف اتنی سی بات سے واضح ہو سکتا ہے کہ اگر آج کے دور میں کوئی خطیب کسی بھی صحابی کے بارے میں یہ حرکت کرے تو کیا سننے والے اسے چھوڑ دیں گے؟ ہمارے ہاں تو اس مسئلے پر بارہا کشت و خون کی نوبت آ جاتی ہے۔ اس دور میں جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اپنی اولاد موجود تھی اور ان کے زمانے میں یہ حرکت کی گئی تو کیا یہ حضرات معاذ اللہ ایسے غیرت مند تھے کہ انہوں نے اسے روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اس وقت ان کی غیرت کہاں چلی گئی تھی ؟
کیا ہم یہ تصور کر سکتے ہیں کہ آزادی اظہار کے اس دور میں اگر کوئی حکمران یہ رسم جاری کرے کہ جمعہ کے خطبوں میں منبر پر کھڑے ہو کر اپوزیشن کے فوت شدہ راہنماؤں کو گالیاں دی جائیں؟ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کا رد عمل کیا ہو گا؟ کیا اس طرح وہ حکمران بغیر کسی مقصد کے اپنے خلاف مزاحمتی تحریک پیدا نہ کرے گا؟ ہم کسی بھی ایسے حکمران کے بارے میں یہ تصور نہیں کر سکتے جس میں عقل کا ذرا سا بھی شائبہ ہو۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے غیر معمولی تدبر، حلم اور سیاست کو ان کے مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں۔ کیا ان سے اس بات کی توقع کی جا سکتی ہے کہ جنگ کی جس آگ کو انہوں نے اپنے حلم اور تدبر سے ٹھنڈا کیا تھا، وہ اسے ایک لایعنی اور فضول حرکت سے دوبارہ بھڑکا دیں۔ پھر یہ حرکت پورے عالم اسلام کی مساجد میں عین جمعہ کے خطبے میں انجام دی جائے اور اس کے رد عمل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے کسی کی غیرت جوش نہ مارے اور کوئی مزاحمتی تحریک تو کجا یا کم از کم تنقید ہی ان حضرات کی جانب سے سامنے نہ آئے۔ اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سب و شتم محض باغی راویوں کے ذہنوں میں تھا، جسے انہوں نے اپنے زمانے کے باغیوں کو بھڑکانے کے لیے روایات کی شکل میں بیان کیا۔
ایک اور بات کی وضاحت ضروری ہے۔ عربی میں لفظ ’’سبّ‘‘ کا مطلب صرف گالی دینا ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ زیادہ وسیع مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً اگر ایک شخص ، دوسرے کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے اس پر تنقید کرے اور اپنے دلائل پیش کرے، تو اسے بھی ’سبّ‘ کہہ دیا جاتا ہے۔ اس طرح کا ’سبّ‘ ہمارے ہاں بہت سے لوگ ایک دوسرے کے لیے کرتے ہیں اور کوئی برا نہیں مانتا۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے دوران لوگوں کو ایک تالاب کا پانی پینے سے منع فرمایا۔ دو افراد نے اس حکم کی نافرمانی کی تو آپ نے ان پر ’سبّ‘ فرمایا۔( مسلم، کتاب الفضائل، حدیث 706) ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی شخص یہ بدگمانی نہیں کر سکتا کہ آپ نے انہیں معاذ اللہ گالیاں دی ہوں گی۔ اس حدیث کا مطلب یہی ہے کہ آپ نے ان پر تنقید فرمائی ہو گی اور انہیں اپنی اصلاح کا کہا ہو گا۔
ممکن ہے کہ کسی شخص نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پالیسی پر تنقید کی ہو، تو ان راویوں نے ا س پر یہ بہتان گھڑ لیا کہ وہ معاذ اللہ حضرت علی کو گالیاں دیا کرتے تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو کیا ہم حضرت حسن، حسین اور حضرت علی کے دیگر بیٹوں سے یہ توقع کر سکتے ہیں کہ وہ خاموشی سے سنتے رہتے۔یہاں ہم وہ روایات بیان کر رہے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان راویوں نے بات کا بتنگڑ بنا کر اسے کیا سے کیا کر دیا ہے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کے دو گورنر ہیں، جن کے بارے میں یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف منبر پر سب و شتم کرتے تھے۔ ایک مروان بن حکم اور دوسرے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ۔ ان دونوں سے متعلق روایات کا ہم جائزہ لیتے ہیں۔
سب و شتم کی روایت اکثر حضرت سعد بن ابی وقاص سے کی جاتی ہے جو کہ مختلف کتب میں پائی جاتی ہے ہم یہاں صحیح مسلم کتاب فضائل باب فضائل امیر المومنین علی رضہ عنہ سے حوالہ پیش کریں گے۔
عن عامر بن سعد بن أبي وقاص ، عن أبيه ، قال أمر معاوية بن أبي سفيان سعدا فقال ما منعك أن تسب أبا التراب فقال أما ما ذكرت ثلاثا قالهن له رسول الله صلى الله عليه وسلم فلن أسبه لأن تكون لي واحدة منهن ۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ کو کون سی چیز مانع کرتی ہے کہ آپ ابو تراب (حضرت علی رضی اللہ عنہ) پر سَبّ کریں؟ حضرت سعد نے اس کا سبب بتایا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق ۳ باتوں کا ذکر کیا جو بطور فضائل رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمائے تھے ۔
یہاں میں نے حدیث کا وہ حصہ نقل کیا ہے جس پر اعتراض کیا جاتا ہے۔
(1) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا مقصد تھا کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تنقید کیوں نہیں کرتے (یاد رہے ہم اوپر ہم نے طبری کی روایت سے ثابت کیا تھا کہ سب کی معنی تنقید بھی ہے اور یقینن حضرت معاویہ حضرت علی پر تنقید ہی کرتے تھے ) قصاص عثمان رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں ، یعنی اُن کا اجتہاد ٹھیک نہیں۔ تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جو فضائل بتائے ان میں یہ بھی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں ہارون علیہ السلام کی جگہ دی ، جس کا مطلب ہے وہ بلند پائے کے عالم تھے ، وہ اجتہاد میں غلط نہیں ہو سکتے۔
(2) اہل شام قصاص نہ لینے کی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے خائف تھے ، یہ ہو سکتا ہے ان کے سامنے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل سنانا مقصود تھے ، تبھی ایسا سوال کیا کیوں کہ سیدھا کہتے تو اھل شام کے شور کا اندیشہ تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کبھی بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تنقید نہیں کریں گے ، تبھی ایسا سوال کیا۔
حدیث میں اُن پر تنقید کرنے کو نہیں کہا گیا بلکہ سبب دریافت کیا گیا ہے۔
علامہ ابن کثیر نے اس سے ملتا جلتا واقعہ نقل کیا ہے ، میں واقعہ پیش کئے دیتا ہوں:عبد اللہ بن بدیل نے بیان کیا ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ ، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو انہوں نے آپ کو کہا کہ آپ ہمارے ساتھ مل کر نہیں لڑے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تاریک آندھی میرے پاس سے گزرے اور میں اخ اخ کروں تو میں اونٹنی بٹھا دیتا ہوں۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کتاب اللہ میں اخ اخ نہیں بلکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ” اگر مومنین کی ۲ جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیاں صلح کرا دو اور اگر ایک جماعت دوسری پر زیادتی کرے تو اس کے ساتھ جنگ کرو حتی کہ امر اللہ ہی کی طرف واپس آجائے ” خدا کی قسم آپ نہ عادل جماعت کے مقابلہ میں باغی جماعت کے ساتھ ہیں نہ ہی باغی کے مقابلہ میں عادل کے ساتھ ہیں۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے اس شخص سے لڑنے کا نہیں جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا تھا کہ تو میرے لئے ایسے ہے جیسے ہارون علیہ السلام موسی علیہ السلام کے لئے تھے لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ائے گا۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا آپ کے علاوہ اور کس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا فلاں فلاں اورام سلمہ رضی اللہ عنہ نے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں نے آپ سے یہ بات پہلے سنی ہوتی تو میں ان سے جنگ نہیں کرتا۔(تاریخ ابن کثیر جلد ۸ زکر وفات سعد رضی اللہ عنہ،چشتی)
اس میں کہیں بھی سَبّ کا لفظ نہیں بلکہ بہت جگہوں پر یہ واقعہ مختلف لفظوں کے ساتھ مذکور ہے۔ بعض روایات میں ” فزکرو علیا فنال منہ معاویہ ” تو کہیں ” فذکرو علیا فقال سعد لہ ثلاث خصال ” جس سے اس واقعہ کی صداقت میں شبہ ہوتا ہے اور کہیں پر جگہ مکہ ہے تو کہیں پر شام ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:یہاں سبب دریافت کر ریے ہیں کہ کیا چیز مانع ہے یا یہ کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رائے اجتہادی کو غلط کیوں نہیں کہہ رہے۔ یعنی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے اجتہاد کے متعلق ایک بزرگ صحابی سے رائے لے رہے ہیں۔
ابن ماجہ کی روایت: ۔ حدثنا علي بن محمد حدثنا أبو معاوية حدثنا موسى بن مسلم عن ابن سابط وهو عبد الرحمن عن سعد بن أبي وقاص قال قدم معاوية في بعض حجاته فدخل عليه سعد فذكروا عليا فنال منه فغضب سعد وقال تقول هذا لرجل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من كنت مولاه فعلي مولاه وسمعته يقول أنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي وسمعته يقول لأعطين الراية اليوم رجلا يحب الله ورسوله
ینعی حضرت معاویہ سعد رضہ کے پاس آئے اور ان سے حضرت علی کی شکایت کرنے لگے جس پر حضرت سعد غصہ ہوگئے اور فرمایا کہ اس آدمی کی بات کرتے ہو جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا انہوں نے کہا کہ جس میں دوست ہوں علی بھی اس کا دوست ہے اور یہ بھی سنا تھا کہ تمہاری نسبت مجھ سے وہی ہے جو ہاروں کو موسی علیہ االسلام سے تھی لیکن میری بعد کوئی نبی نہیں آئے گا یہ بھی سنا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ کل میں جھنڈا اسے عطا کرون گا جو اللہ اور اس کے رسول کو محبوب ہے۔
اگر اس کو صحیح مان بھی لیا جائے تبھی بھی یہاں گالیاں مراد نہیں لے سکتے ، کیوں کہ حضرت سعد کا غضبناک ہونے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت معاویہ حضرت امیر المومنین رضہ کی شکایت کرنے لگے (یہاں نال کی معنی شکایت کرنا ہے ناکہ گالیاں دینا) اس بات پر حضرت سعد غصہ ہوئے اور حضرت امیر المومنین رضہ کے فضائل بیان کئے ۔ حضرت سعد غصہ ہونا اسی وجہ سے تھا کیوں کہ حضرت امیر المومنین رضہ ، حضرت ابی بکر و عمر کی جماعت سے بلکہ ان کے فضائل سب سے زیادہ ہیں بہت سے علماء اہل سنت ان کو افضل مانتے تھے ۔ ایسے شخص کی اگر حضرت معاویہ خود سے موازنہ کرںن اور تو اور ان کے اجتہاد کو غلط کہیں تو حضرت سعد کا غصہ میں آنا فطری بات ہے کیوں کہ ہوسکتا ہے حضرت معاویہ بار بار یہ کہتے رہے ہوں جس سے سعد رضہ غصہ ہوئے ہون ۔
اور پھر یہ روایت منقتع ہے ابن سابط نے سعد رضہ سے حدیث نہیں سنی اور ابو معاویہ پر بھی کلام ہے،ابن ماجہ کی اس روایت کے دو راویوں کے بارے میں کلام ہے
عبدالرحمن بن سابط تہذیب الکمال میں المزی لکہتے ہیں : عبد الرحمان (2) بن سابط، ويقال:عبد الرحمان بن عبد الله بن سابط، ويقال: عبد الرحمان بن عبد الله بن عبد الرحمان بن سابط بن أبي حميضة بن عمرو ن أهيب بن حذافة بن جمح القرشي الجمحي المكي.
تابعي، أرسل عن النبي صلى الله عليه وسلم (ت).روى عن: أنس بن مالك من وجه ضعيف،وسعد بن أبي وقاص وقيل: لم يسمع منه،(جلد ۱۷ فحہ127)
ینعی انہوں نے سعد رضہ سے روایت کی ہے لیکن ان سے سماع نہیں کیا
تاریخ کبیر میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں مرسل کہا ہے (جلد 5 ص 294)
دارلقطنی نے حدیث سعد کے اسانید میں ان جناب کا زکر نہیں کیا ملاحضہ ہو علل دارالقطنی ۔ابن حجر نے جو لکہا ہے وہ یہ ہے تہذیب التہذیب جلد 6 ص 164)
عبد الرحمن بن سابط ويقال عبد الرحمن بن عبد الله بن سابط ويقال عبد الرحمن بن عبد الله بن عبد الرحمن بن سابط بن أبي حميضة ابن عمروابن أهيب بن حذافة بن جمح الجمحي المكي.تابعي أرسل عن النبي صلى الله عليه وسلم. وروى عن عمر وسعد بن أبي وقاص والعباس بن عبد المطلب وعباس بن أبي ربيعة ومعاذ بن جبل وأبي ثعلبة الخشني وقيل لم يدرك واحدامنهم . قيل ليحيى بن معين سمع عبد الرحمن بن سعد ابن أبي وقاص قال لا.
یعنی یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسل روایت کرتے ہیں حضرت عمر ، سعد رضہ ، عباس رضہ ،عباس بن ابی ربیعہ اور معاذ بن جبل سے روایت کرتے ہیں لیکن ان میں کسی کو بھی انہوں نے نہیں دیکہا۔یحی بن معین سے پوچھا گیا کہ عبدالرحمن نے سعد رضہ سماع کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ نہیں ۔ اسی طرح ابن حجر نے ال اصابہ جلد ۵ ص 176 پہ ان کا زکر کیا ہے ۔
یہ نہ صرف صحابہ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی روایت کر تے ہیں ، اس کے علاوہ انہوں نے حضرت ابی بکر رضہ عمر رضہ اور عائشہ رضہ سے بھی روایات کی ہیں لیکن علماء نے ان روایات کو مراسیل کہا ہے اورابن حجر نے لکہا ہے ان میں کسی کو بھی نہیں ملے ۔ بھر حال یہ بات تو طئے ہے کہ یہ مرسل ہیں اور بہت علماء نے اس بات میں ابن معین کی بات کو ہی صحیح مانا ہے ۔
اس لئے علماء انہیں کثیر الارسال کہتے ہیں ۔اسی بنا پر ابن معین نے انہیں سعد رضہ کی روایات میں مرسل قرار دیا اور ان کی صحابہ سے حدیث کو مر سل کہا ہے ۔ یہ بات صحیح کہ ابن معین ان کی بارے میں منفرد ہیں لیکن علماء اہل سنت میں سے کسی نے ابن معین کی بات سے اختلاف نہیں کیا ابن حاتم کو اگر اختلاف تھا تو انہوں جابر رضہ کے مسئلے میں لکہ دیا کہ یہ متصل ہے لیکن سعد رضہ کے بارے میں انہوں نے بھی نہیں لکہا ، گو کہ وہ بھی ابن معین کی بات صحیح جانتے تھے۔اس لئے یہ کہنا درست ہوگا کہ یہاں تمام علماء رجال ابن معین کا ساتھ دے رہے ہیں ۔
راوی ابو معاویہ : علماء نے انہیں اعمش کے طریق سے تو پسندیدہ کہا ہے لیکن ان کی دوسری احادیث کو مضطرب کہا ہے مدلس بھی تھے اور وہ مرجئی مذہب کے تھے جن کا ماننا ہے کہ انسان ایک بار کلمہ پڑہ کر مسلمان ہو جائے تو پھر اسے جہنم سے نجات مل جاتی ہے دنیا مین پھر جو چاہے کرے۔
ان کا ترجمہ اس طرح ہے ان کا نام محمد بن خازم الاعمی تھا
ابن حجر طبقات مدلسین صفحہ 46 میں ان کا نام بھی زکر کیا ہے
ابن حبان نے اثقات میں ان کا زکر اس طرح کیا ہے
كان حافظا متقنا ولكنه كان مرجئا خبيثا
یہ حافظ تھے لیکن ساتھ میں مرجئی خبیث بھی تھے
امام ابی داود السجستانی کہتے ہیں کہ كان مرجئا، ومرة: كان رئيس المرجئة بالكوفة
امام احمد بن حنبل أبو معاوية الضرير في غير حديث الأعمش مضطرب , لا يحفظها حفظا جيدا(تھذیب الکمال)یعنی ابو معاویہ اعمش کے علاوہ دوسری احادیث میں مضطرب ہے اور ان کا حافظہ بھی کم تھا۔
الذهبي :الحافظ، ثبت في الأعمش، وكان مرجئا (تہذیب الکمال)
یعنی اعمش کے طریق سے صحیح ہیں اور مرجئے تھے
يحيى بن معين: أبو معاوية أثبت من جرير في الأعمش وروى أبو معاوية , عن عبيد الله بن عمر أحاديث مناكير(تہذیب الکمال)
وقال عبدارحمن ابن خراش صدوق، وهو في الأعمش ثقة، وفي غيره فيه اضطراب (اتھذیب الکمال)
قال ابن سعد كان ثقة كثير الحديث يدلس، وكان مرجئا (طبقات ابن سعد: ٦ / ٣٩٢
قال عبد الرحمان بن أبي حاتم:سمعت أبي يقول: أثبت الناس في الأعمش: الثوري، ثم أبو معاوية الضرير، ثم حفص بن غياث، وعبد الواحد بن زياد، وعبدة بن سليمان أحب إلى من أبي معاوية يعنى في غير حديث الأعمش. (الجرح والتعديل: ٧ / الترجمة 1360.
وقال ابن حجر في التهذيب قال النسائي: ثقة في الأعمش وقال أبو داود: قلت لأحمد كيف حديث أبي معاوية عن هشام بن عروة؟ قال: فيها أحاديث مضطربة يرفع منها أحاديث إلى النبي صلى الله عليه وسلم (اتہذیب 9 / 139).
ان دونوں راویوں پر جرح کے بعد یہ روایت خود بخود ہی ضعیف ہوجاتی ہے پھر اس حدیث(یعنی ابن ماجہ کی حدیث) میں سب کا لفظ موجود نہیں ہے ۔
باقی جو بھی روایات ہیں وہ تقریبن اسی ہی مضمون کی ہیں اور ہم نے جیسا کہ اوپر لکہا کہ اس میں مقام کا بھی تعین نہیں ہے کہیں پر شام لکہا ہے کہیں پر مکہ تو کہیں پر مدینہ بھرحال ہمنے ان روایات کی مناسب تعویل پیش کی ہے اور پھر ابن ماجہ کی روایت تو صحیح نہیں ہونی چاہئے اگر صحیح ہے بھی تو اس میں صرف شکایت کرنے کا لکہا جس کا مطلب ہے وہ حضرت علی رضہ کا قصاص کے مسئلہ میں جو اجتہا د تھا یا انہوں نے قصاص نہیں لیا تھا تو ہو سکتا ہے وہ اس کی ہی شکایت کرنے لگیں ہوں۔اس میں سب کا لفظ تک نہیں ہے باقی جن بھی کتب مین یہ روایات پائیں جاتی ہیں وہ ایسی ہی ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر مروان بن حکم نے اپنے خطبے میں "ابو تراب" کہہ کر کیا تو اسے ان باغیوں نے "سب و شتم" قرار دے دیا۔صحیح بخاری کی روایت ہے:عبداللہ بن مسلمہ نے ہم سے روایت بیان کی، ان سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے اور ان سے ان کے والد نے کہ : ایک شخص حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور بولا: " امیر مدینہ (مروان بن حکم کے خاندان کا کوئی شخص) منبر پر کھڑے ہو کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سبّ کر رہے ہیں۔ " انہوں نے پوچھا : "وہ کیا کہتے ہیں؟" بولا: "وہ انہیں ابو تراب کہہ رہے ہیں۔" سہل یہ سن کر ہنس پڑے اور بولے: "واللہ! یہ نام تو انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا اور انہیں اس نام سے زیادہ کوئی اور نام پسند نہ تھا۔ " میں (ابو حازم) نے ان سے پوچھا: "ابو عباس، یہ کیا معاملہ ہے؟" وہ بولے: علی، فاطمہ کے گھر میں داخل ہوئے، پھر باہر نکلے اور مسجد میں سو گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (سیدہ فاطمہ) سے پوچھا: "آپ کے چچا زاد کہاں گئے؟" وہ بولیں: "مسجد میں۔" آپ باہر تشریف لائے تو دیکھا کہ ان (حضرت علی) کی چادر ان کی پیٹھ سے الگ ہوئی ہے اور مٹی سے ان کی کمر بھری ہوئی ہے۔ آپ نے ان کی کمر سے مٹی جھاڑ کر دو مرتبہ فرمایا: "ابو تراب (مٹی والے!) اب اٹھ بھی جاؤ۔(بخاری، کتاب فضائل الصحابہ، حدیث 3500)
صحیح مسلم میں اس روایت کا ایک مختلف ورژن بیان ہوا ہے:قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز بن ابی حازم سے، وہ اپنے والد سے اور وہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ مروان کے خاندان کا ایک آدمی مدینہ منورہ میں کسی سرکاری عہدے پر مقرر کیا گیا۔ اس نے حضرت سہل بن سعد کو بلایا اور انہیں حکم دیا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا کہیں۔ حضرت سہل نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ اس عہدے دار نے حضرت سہل سے کہا: "اگر آپ انکار کر رہے ہیں تو یہی کہہ دیجیے کہ ابو تراب پر اللہ کی لعنت ہو۔" حضرت سہل فرمانے لگے: "علی کو تو ابو تراب سے زیادہ کوئی نام محبوب نہ تھا۔ جب انہیں اس نام سے پکارا جاتا تو وہ خوش ہوتے تھے۔ " وہ عہدے دار حضرت سہل سے کہنے لگا: "یہ بتائیے کہ ان کا نام ابو تراب کیوں رکھا گیا۔(مسلم، کتاب فضائل الصحابہ، حدیث 2409)۔ (اس کے بعد حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے وہی بات سنائی جو اوپر بیان ہوئی ہے۔)
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مروان کے خاندان کا ایک شخص ، جس کا نام معلوم نہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتا تھا۔ روایت میں نہ تو اس کا نام مذکور ہے اور نہ ہی اس کا عہدہ۔ یہ وہ واضح ہے کہ وہ گورنر نہیں تھا۔ پھر اس نے اپنے بغض کا اظہار برسر منبر نہیں بلکہ نجی محفل میں کیا۔ اس دور میں چونکہ ناصبی فرقے کا ارتقاء ہو رہا تھا، اس وجہ سے ایسے لوگوں کی موجودگی کا امکان موجود ہے۔ تاہم یہ نہ تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا مقرر کردہ گورنر تھا اور نہ ہی کوئی اور اہم عہدے دار۔ کسی چھوٹے موٹے عہدے پر فائز رہا ہو گا اور اس کے زعم میں وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم کروانے چلا تھا لیکن حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے اسے منہ توڑ جواب دے کر خاموش کر دیا۔ مروان بن حکم سے متعلق طبری کی یہ روایت بھی قابل غور ہے:علی بن حسین رضی اللہ عنہما نے مروان کے ساتھ یہ سلوک کیا تھا کہ جس زمانے میں بنو امیہ مدینہ سے نکالے گئے تھے، انہوں نے مروان کے مال و متاع کو اور ان کی بیوی ام ابان بنت عثمان رضی اللہ عنہ کو لٹنے سے بچا لیا تھا اور اپنے گھر میں پناہ دی تھی۔ پھر جب ام ابان طائف کی طرف روانہ ہوئیں تو علی بن حسین نے ان کی حفاظت کے لیے اپنے بیٹے عبداللہ کو ان کے ساتھ کر دیا تھا۔ مروان نے اس احسان کا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔ ( طبری۔ 4/1-263،چشتی)
اس روایت میں 63/683 میں ہونے والی اہل مدینہ کی بغاوت کا ذکر ہے۔ جب اہل مدینہ نے یزید کے خلاف بغاوت کی تو انہوں نے مدینہ میں مقیم بنو امیہ پر حملے کیے۔ اس موقع پر حضرت علی بن حسین زین العابدین رضی اللہ عنہما سامنے آئے اور انہوں نے مروان اور ان کی اہلیہ کو گھر میں پناہ دی۔ اگر مروان بن حکم ، برسر منبر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں دیتے، تو کیا انہی حضرت علی کے پوتے زین العابدین انہیں اپنے گھر میں پناہ دیتے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دو بیٹیوں کی شادیاں مروان کے دو بیٹوں معاویہ اور عبدالملک سے ہوئیں۔ اس کے علاوہ آپ کی متعدد پوتیوں کی شادیاں مروان کے گھرانے میں ہوئی۔ (ابن حزم، جمہرۃ الانساب العرب۔ 38, 87) اگر مروان بن حکم نے ایسی حرکت کی ہوتی تو پھر کم از کم یہ رشتے داریاں ہمیں نظر نہ آتیں۔
غالی راوی ابو مخنف نے تاریخ طبری میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں دعوی کیا ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں سب و شتم کرتے تھے لیکن ساتھ خود ہی ان کے الفاظ نقل کر کے اپنا بھانڈہ خود ہی پھوڑ دیا ہےروایت یہ ہے:ابو مخنف نے صقعب بن زہیر سے روایت کی اور انہوں نے شعبی کو کہتے ہوئے سنا: مغیرہ کے بعد ایسا کوئی حاکم ہمارا نہیں ہوا، اگرچہ ان حکام کی نسبت جو پہلے گزرے تھے، یہ نیک شخص تھے۔ مغیرہ نے سات برس چند ماہ معاویہ کے گورنر کے طور پر کوفہ میں حکومت کی ہے اور بڑے نیک سیرت، امن و عافیت کے خواہش مند تھے۔ مگر علی کو برا کہنا اور ان کی مذمت کرنا، قاتلان عثمان پر لعنت اور ان کی عیب جوئی کرنا، اور عثمان کے لیے دعائے رحمت و مغفرت اور ان کے ساتھیوں کی تعریف کو انہوں نے کبھی ترک نہیں کیا۔
اس کی چند سطروں بعد ابو مخنف ہی نے حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کا وہ خطبہ بیان کر دیا ہے، جس کے بارے میں اس کا دعوی ہے کہ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے پر مشتمل تھا۔ خطبے کے الفاظ خود ابو مخنف کے الفاظ میں ہم یہاں درج کر رہے ہیں، اسے دیکھ کر عربی جاننے والے تمام حضرات خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کیا سب و شتم کیا گیا ہے:كان في آخر إمارته قام المغيرة فقال في علي وعثمان كما كان يقول، وكانت مقالته: اللهم ارحم عثمان بن عفان وتجاوز عنه، وأجزه بأحسن عمله، فإنه عمل بكتابك، واتبع سنة نبيك صلى الله عليه وسلم، وجمع كلمتنا، وحقن دماءنا، وقتل مظلوما؛ اللهم فارحم أنصاره وأولياءه ومحبيه والطالبين بدمه! ويدعو على قتلته. فقام حجر بن عدي فنعر نعرة بالمغيرة سمعها كل من كان في المسجد وخارجا منه.
مغیرہ نے اپنی امارت کے آخری زمانے میں خطبہ پڑھا اور علی و عثمان کے بارے میں وہ جو بات ہمیشہ کہتے تھے، وہ اس انداز میں کہی: "اے اللہ! عثمان بن عفان پر رحمت فرمائیے ۔ ان سے درگزر فرمائیے اور نیک اعمال کی انہیں جزا دیجیے۔ انہوں نے آپ کی کتاب پر عمل کیا اور تیرے نبی کی سنت کا اتباع کیا۔ انہوں نے ہم لوگوں میں اتفاق رکھا اور خونریزی نہ ہونے دی اور وہ ناحق شہید کیے گئے۔ اے اللہ! ان کے مدد گاروں، دوستوں، محبوں اور ان کے خون کا قصاص لینے والوں پر رحم فرمائیے ۔ " اس کے بعد آپ نے قاتلین عثمان کے لیے بددعا کی۔ یہ سن کر حجر بن عدی اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے مغیرہ کی جانب دیکھ کر ایک نعرہ لگایا۔ جو لوگ بھی مسجد میں اور اس کے باہر تھے، انہوں نے اس نعرے کو سنا۔ (طبری۔ 4/1-83،چشتی)
اس روایت سے اندازہ ہوتا ہے کہ جس چیز کو ان باغی راویوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم قرار دیا ہے، وہ دراصل قاتلین عثمان کے لیے بددعا تھی۔ ان باغیوں کی کوشش یہ رہی ہے کہ کھینچ تان کر حضرت علی کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کی شہادت میں ملوث کر دیا جائے۔ اس وجہ سے انہوں نے اپنے پر ہونے والی لعنت و ملامت کا رخ معاذ اللہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف پھیرنے کی کوشش کی ہے اور یہ مشہور کر دیا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حکم سے ان کے گورنر معاذ اللہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم کیا کرتے تھے۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ تاریخی کتب میں جہاں جہاں ایسی روایتیں پائی جاتی ہیں جن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم کا ذکر ہے، وہ سب کی سب ابو مخنف یا ان کی پارٹی کے لوگوں کی روایت کردہ ہیں۔ ایسی ہر روایت کی سند کو دیکھ کر اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
اگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حکم سے ان کے گورنر ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منبروں پر برا بھلا کہتے تو یہ ایسی بات تھی کہ جسے ہزاروں آدمی سنتے۔ ان ہزاروں میں سے کم از کم پچاس سو آدمی تو اسے آگے بیان کرتے۔ پھر ان پچاس سو افراد سے سن کر آگے بیان کرنے والے بھی سینکڑوں ہوتے جو کہ سو سال بعد ہزاروں ہو جاتے۔ اس کے برعکس ہم یہ دیکھتے ہیں کہ سوائے اس ایک ابو مخنف اور ان کی پارٹی کے چند لوگوں کے، کوئی بھی شخص یہ روایات بیان نہیں کرتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سب انہی لوگوں کی گھڑی ہوئی داستان ہے۔
ہاں یہ بات قرین قیاس ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حکم سے ان کے گورنر خطبات میں قاتلین عثمان کی باغی پارٹی کے مکر و فریب اور برائی کو بیان کرتے ہوں گے تاکہ لوگ ان سے محتاط رہیں اور ان کے پراپیگنڈا کا شکار نہ ہوں۔ اس گروہ کی مذمت میں وہ سخت باتیں بھی کہتے ہوں گے، انہیں لعنت ملامت بھی کرتے ہوں گے اور ان کے لیے بددعا بھی کرتے ہوں گے۔ اس سب کا مقصد یہی رہا ہو گا کہ باغی پارٹی کے پراپیگنڈا کا توڑ کیا جائے۔ ابو مخنف کی اوپر بیان کردہ روایت سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے خود پر کی گئی تنقید کا ملبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ڈال دیا تاکہ خلفاء اور ان کے گورنروں سے متعلق غلط فہمیاں پھیلائی جائیں اور ان کے خلاف مزید باغی تحریکیں منظم کی جائیں۔
صحیح مسلم کی روایت کا مفہوم کیا ہے؟
باغیوں کے پراپیگنڈا سے متاثر بعض لوگ اس ضمن میں صحیح مسلم کی یہ روایت پیش کرتے ہیں:حضرت معاویہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص کو امیر بنایا تو ان سے پوچھا: "آپ کو کس چیز نے منع کیا کہ آپ ابو تراب پر تنقید نہ کریں؟" انہوں نے کہا: "تین ایسی باتیں ہیں کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھیں، ان کے سبب میں انہیں برا نہیں کہتا۔ میرے نزدیک ان میں سے ایک بات بھی سرخ اونٹوں سے زیادہ پیاری ہے۔
1۔ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت فرماتے سنا جب آپ نے کسی غزوے پر جاتے ہوئے علی کو پیچھے چھوڑ دیا۔ علی نے کہا: 'یا رسول اللہ! کیا آپ مجھے بچوں اور خواتین کے پاس چھوڑے جا رہے ہیں؟' آپ نے فرمایا: ’کیا آپ کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ آپ کی مجھ سے وہی نسبت ہو جو ہارون کی موسی سے تھی سوائے اس کے کہ میرے بعد نبوت ختم ہو گئی؟‘
2۔ میں نے یوم خیبر، آپ کو یہ فرماتے سنا: 'کل میں ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس شخص سے محبت کرتے ہیں۔' ہم لوگ یہ سن کر انتظار میں رہے (کہ وہ کون ہو گا۔) پھر آپ نے فرمایا: 'علی کو بلاؤ۔' انہیں بلایا گیا تو ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں۔ آپ نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں پر لگایا اور جھنڈا انہیں عطا فرما دیا۔ اللہ تعالی نے علی کے ہاتھوں فتح عطا فرمائی۔
3۔ جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی: "(اے پیغمبر!) آپ فرمائیے کہ آؤ، ہم اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو بلا لائیں اور تم اپنوں کو۔۔۔" تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین کو بلایا اور فرمایا: "اے اللہ! یہ میرے اہل و عیال ہیں۔(مسلم، کتاب فضائل الصحابہ، حدیث 2404)
اس روایت سے باغیوں کے پراپیگنڈا سے متاثر بعض لوگ یہ مطلب نکالتے ہیں کہ حضرت معاویہ، حضرت سعد رضی اللہ عنہما کو ترغیب دلا رہے تھے کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تنقید کریں۔ یہ مطلب وہی نکال سکتا ہے جو ان حضرات کے کردار سے واقف نہ ہو۔ روایت کے ایک ایک لفظ سے حضرت سعد کی حضرت علی رضی اللہ عنہما کے لیے محبت ٹپک رہی ہے۔ اگر حضرت معاویہ کا مقصد انہیں ترغیب دلانا ہوتا تو وہ انہیں کوئی سخت جواب دیتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت معاویہ کا مقصد حضرت علی پر تنقید کی ترغیب نہ تھا بلکہ آپ یہ استفسار فرما رہے تھے کہ جب حضرت سعد نے جنگ جمل اور جنگ صفین میں حضرت علی کا ساتھ نہیں دیا، تو پھر آپ کی حضرت علی کی پالیسی کے بارے میں رائے کیا تھی، کیا آپ اس پر تنقید کرتے ہیں؟ اس پر انہوں نے وضاحت کی کہ میری رائے ان کے بارے میں بہت اچھی تھی تاہم ساتھ نہ دینے کی وجوہات کچھ اور تھیں۔
ابو مخنف نے اس بات کو بیان کیا ہے کہ لعنت بھیجنے کے اس سلسلے کا آغاز معاذ اللہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے ہوا تھا۔ واقعہ تحکیم کی اطلاع جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو انہوں نے نمازوں میں حضرت معاویہ، عمرو بن عاص، ابو الاعور اسلمی، حبیب بن مسلمہ، عبدالرحمن بن خالد، ضحاک بن قیس اور ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہم پر لعنت بھیجنا شروع کر دی۔ جب حضرت معاویہ کو اس کی اطلاع ملی تو انہوں نے نمازوں میں حضرت علی، ابن عباس، اشتر، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم پر لعنت بھیجنا شروع کر دی۔( طبری۔ 3/2-267)ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ابو مخنف کا جھوٹ ہے اور اس نے ایسا کر کے ان تمام حضرات کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کے بارے میں اپنے بغض کا اظہار کیا ہے۔ نہ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بدگمانی کی جا سکتی ہے کہ انہوں نے حالت نماز میں لعنت بھیجنے کے عمل کا آغاز فرمایا ہو گا اور نہ ہی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے جوابی کاروائی کے طور پر ایسا کیا ہو گا۔ یہ سب ابو مخنف جیسے باغی راویوں کی اپنی ایجاد ہے اور اس کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہ رہا ہو گا کہ ان بزرگوں سے اپنی نسل کے لوگوں کو بدظن کر کے اپنی باغی تحریک کو تقویت دی جائے۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Saturday 19 September 2020

حضرت امیر معاویہ خانوادہ حضرت علی رضی اللہ عنہم کی نظر میں

0 comments

 حضرت امیر معاویہ خانوادہ حضرت علی رضی اللہ عنہم کی نظر میں


محترم قارئین : آج کے اس مضمون میں اہلبیت رضی اللہ عنہم کی آڑ لے کر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی توہین کرنے والوں کو اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم کے اقوال کی روشنی میں جواب دیا جا رہا ہے اس امید کے ساتھ کہ شاید یہ لوگ گستاخیوں سے باز آجائیں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت اور عقل سلیم عطاء فرمائے آمین ۔ فقیر نے کوشش کی ہے کہ اخلاق کا دامن کہیں نہ چھوٹے پھر بھی اہل علم اگر کہیں غلطی پائیں تو ضرور آگاہ فرمائیں ۔ اور ساتھ ہی اصل اسکن بھی پیش ہیں ۔

امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹوں رضی اللہ عنہم کے تاثرات ذکر کرنے سے پہلے ذرا حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق کیا فرماتے ہیں ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم فرماتے ہیں: '' اللہم اجعلہ ھادیا مہدیا و اہدبہ'' یعنی اے اللہ ! معاویہ کو ہدایت کرنے والا اور ہدایت پانے والا بنادے اور معاویہ کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دے ۔ (ترمذی،جلد:2ص: 225)(اس حدیث کی مکمل تحقیق و تخریج ہم پیش کر چکے ہیں)
ایک موقع پر ارشاد فرمایا : اے اللہ ! معاویہ کو قرآن اور حساب کا علم عطا فرمااور اسے عذاب سے نجات دے۔ (البدایہ، جلد:8، ص:140، کنزل العمال، جلد:7ص: 87)

امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی نظر میں

جنگ صفین کے بعد کچھ لوگوں نے اہلِ شام اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنا شروع کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک گشتی مراسلہ اپنے زیر حکومت علاقہ کے لوگوں کو بھیجا۔ اس مراسلہ کو نہج البلاغہ کے شیعہ مصنف نے صفحہ 151پر درج کیا ہے : ہمارے معاملے کی ابتداء یوں ہوئی کہ ہمارا اور اور اہل شام (معاویہ ) کا مقابلہ ہوا اور یہ بات تو ظاہر ہے کہ ہمارا اور ان کا خدا ایک، ہمارا اور ان کانبی ایک، ہماری اور ان کی دعوت اسلام میں ایک، اللہ پر ایمان رکھنے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنے میں نہ ہم ان سے زیادہ نہ وہ ہم سے زیادہ، پس معاملہ دونوں کا برابر ہے ۔ صرف خونِ عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہم اور ان میں اختلاف ہوا اور ہم اس سے بری ہیں ۔ معاویہ رضی اللہ عنہ میرے بھائی ہیں ۔
حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جنگ صفین کے موقع پر پوچھا گیا : جو لوگ آپ کے مقابلے میں آئے کیا وہ مشرک ہیں ؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : وہ مشر ک نہیں ہیں ۔
پوچھنے والے نے کہا: کیا وہ منافق ہیں ؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : وہ منا فق بھی نہیں ہیں ۔
پوچھنے والے نے کہا : پھر آپ کی نگاہوں میں ان کی حیثیت کیا ہے ؟
جواب میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:''ہم اخواننا بغواعلینا''
ترجمہ : وہ ہمارے بھائی ہیں جنہوں نے ہمارے خلاف زیادتی کی ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، جلد: 4ص: 1013، چشتی)

آپ تاریخ و سیرت اور احادیث کی کتب اٹھائیں اور پڑھیں آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی کہ جو لوگ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں میں سے قیدی بن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور ان میں سے کسی کا انتقال ہو گیا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ انہیں غسل دیا جائے اور کفن دیا جائے، پھر انہوں نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی ۔ اسی طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ دونوں لشکروں کے مقتولین کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :''قتلانا و قتلاہم فی الجنۃ''ہمارے لشکر کے مقتول اور معاویہ کے لشکر کے مقتول سب جنت میں جائیں گے۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ، جلد:4ص: 1036)
کتنے افسوس کامقام ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تو سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام کو اپنے جیسا ایماندار اورمسلمان اور ان کے مقتولین کو جنتی بتلائیں اور دشمنانِ صحابہ سبائی انہیں کافر اور منافق قرار دیں۔ اب قارئین خود فیصلہ فرمائیں کہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بات معتبر سمجھی جائے یا سبائی گروہ کی ۔

اب ذرا تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھیئے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کچھ اختلاف کے باوجود ان کا کتنا احترام کرتے تھے اور ان کے بارے میں کس قدر حسنِ ظن رکھتے تھے۔
تاریخِ اسلام کے اوراق میں آپ کو نظر آئے گا کہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے مابین جنگ جاری ہے۔ منافقین کی شرارتوں، خباثتوں اور کارستانیوں کے نتیجے میں گھمسان کا رن پڑ رہا ہے کہ اس دوران قیصر روم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاقے پر قبضہ کرنے کا خطرناک منصوبہ بنایا۔ اس کا خیال تھا کہ مسلمان آپس میں دست و گریباں ہیں اور مجھے اس سے زیادہ مناسب موقع پھر کبھی میسر نہیں آئے گا۔ اس نے سوچا کہ اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ اندرونی طور پر سخت مشکل میں ہیں ان کی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے ٹھنی ہوئی ہے، میرے اس اقدام سے حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی خوش ہوں گے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو قیصر روم کے خطرناک اور زہریلے عزائم کی اطلاع ملی تو بے حد پریشان ہوئے۔ کیونکہ بیک وقت دو محاذوں پر جنگ لڑنا اور دو محاذوں پر جنگ جاری رکھنا ان کے لیے بہت دشوار اور مشکل تھا، مگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اس پریشانی اور اضطراب کو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی للکار نے دور کردیا۔
قیصرِ روم کے اس ارادے کی اطلاع جب حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ہوئی تو وہ بے چین ہوگئے اور اسی وقت ایک خط قیصر روم کے نام تحریر فرمایا جس کے ذریعے انہوں نے قیصر روم کی غلط فہمیوں کو اس خوبصورتی کے ساتھ دور کیا کہ خط لکھنے کا حق ادا کر دیا۔ خط کیا تھا؟ ایک مؤثر ہتھیار تھا، پر مغز ، مؤثر اور جلال سے بھر پور، رعب و دہشت کا مجسمہ جسے پڑھ کر قیصر روم کے حواس اڑ گئے اور اوسان خطا ہوگئے۔ قیصر روم پر ایسی دہشت اور ایسا رعب طاری ہوا کہ ا س کے قدم جہا ں تھے وہیں رک گئے۔ سیدناامیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خط کامضمون اور طرز تحریر کس قدر ایمان افروز اور کفر سوز ہے یہ ایک الگ حقیقت ہے ، مگر خط کی ا بتداء میں آپ نے جس تیز و تلخ ، رعب دار اور جلال سے بھر پور لہجے میں قیصر روم کو مخاطب کیا ہے وہ انداز اپنی جگہ ''اشداء علی الکفار '' کی عملی تصویر ہے۔
خط کے آغاز میں تحریر فرمایا : الے لعنتی انسان ! مجھے اپنے اللہ کی قسم ہے اگر تو اپنے ارادے سے باز نہ آیا اور اپنے شہروں کی طرف واپس پلٹ نہ گیا تو کان کھول کر سن !!!پھر میں اور میرے چچا زاد بھائی تیرے خلاف صلح کرلیں گے۔پھر تجھے تیرے ملک سے نکال دیں گے اور زمین باوجود وسعت کے تم پر تنگ کردیں گے۔ (البدایہ و النہایہ،جلد: 8ص:119، چشتی)

حضرات مولا علی المرتضیٰ و امیر معاویہ رضی اﷲ عنہما کا باہمی تعلق

حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا میرا حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے اختلاف صرف حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے قصاص کے مسئلہ میں ہے اور اگر وہ خون عثمان رضی اﷲ عنہ کا قصاص لے لیں تو اہل شام میں ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے والا سب سے پہلے میں ہوں گا ۔ (البدایہ و النہایہ ج 7‘ص 259)

حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا۔ میرے لشکر کے مقتول اور حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے لشکر کے مقتول دونوں جنتی ہیں ۔ (مجمع الزوائد ‘ ج 9‘ ص 258)

حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ نے جنگ صفین سے واپسی پر فرمایا۔ امارات معاویہ رضی اﷲعنہ کو بھی خزانہ سمجھو کیونکہ جس وقت وہ نہ ہوں گے تم سروں کو گردنوں سے اڑتا ہوا دیکھو گے ۔ ( شرح عقیدہ واسطیہ)

حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کو جب شہادت حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کو خبر ملی تو سخت افسردہ ہوگئے اور رونے لگے (البدایہ ج 8 ص 130)
حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے حضرت المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کو صاحب فضل کہا ۔ (البدایہ‘ ج 8ص 131)

حضرت ابو امامہ رضی اﷲ عنہ سے سوال کیا گیا حضرت امیر معاویہ و عمر بن عبدالعزیز میں سے افضل کون ہے؟ آپ نے فرمایا ہم اصحاب مسجد کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے‘ افضل ہونا تو کجا ہے ۔ (الروضہ الندیہ‘ شرح العقیدہ الواسطیہ ص 406)

حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے ایک قتل کے مسئلہ پر حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ سے رجوع کیا ۔ ( موطا امام مالک)

حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے روم کے بادشاہ کو جوابی خط لکھا تو اس میں یہ لکھا حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ میرے ساتھی ہیں اگر تو ان کی طرف غلط نظر اٹھائے گا تو تیری حکومت کو گاجر مولی کی طرح اکھاڑ دوں گا ۔ (تاج العروس ص 221)

حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا ’’اے نصرانی کتے اگر حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کا لشکر تیرے خلاف روانہ ہوا تو سب سے پہلے حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کے لشکر کا سپاہی بن کر تیری آنکھیں پھوڑ دینے والا معاویہ ہوگا۔(بحوالہ مکتوب امیر معاویہ البدایہ) ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی نظر میں : حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وفات سے پہلے حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کو وصیت کی تھی کہ بیٹا معاویہ رضی اللہ عنہ کی امارت سے نفرت نہ کرنا کیونکہ اگر تم نے ان کو ضائع کر دیا تو آپس میں کشت و خون دیکھو گے ۔ (تاریخ ابن کثیر، جلد: 8ص: 131، شرح نہج البلاغہ ابن ابی لحدید شیعی جلد: 3ص: 836)
جب سبائیوں نے دیکھا کہ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرکے خلافت ان کے سپر د کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ کیا۔ آپ نیزہ کے زخم کی تکلیف سے کراہ رہے تھے اور فرما رہے تھے: اللہ کی قسم میں معاویہ کو اپنے لیئے ان لوگوں سے بہتر سمجھتا ہوں جو اپنے آپ کو میرا پیروکار کہتے ہیں انہوں نے میرے قتل کا ارادہ کیا ، میرا خیمہ لوٹا، میرے مال پر قبضہ کیا ۔ (شیعہ کتب ، جلاء العیون، احتجاج طبرسی، ص:148، چشتی)
زخم مندمل ہوجانے کے فورا بعد امیر المومنین حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے مشورہ کے بعد فیصلہ کیا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرلینا ہی بہتر ہے چنانچہ آپ نے ربیع الاول 41 ؁ھ کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کر کے خلافت ان کے سپرد کر دی اور یہ صلح ڈر کر یا دب کر نہیں کی بلکہ آپ چاہتے تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے لڑ سکتے تھے۔ آپ کے پاس چالیس ہزار فوج مرنے کو تیار تھی مگر آپ نے مسلمانوں کو خونریزی سے بچانے کے لیے اور حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو خلافت کا صحیح اہل سمجھ کر صلح کی تھی ۔ (الاستیعاب لابن عبد البر جلد: 3ص: 298)
حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے صلح کرنے سے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی یہ پیشینگوئی پوری ہو گئی جو آپ نے اس وقت فرمائی تھی جب حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ بچے تھے کہ میرا یہ بیٹا سردار بیٹا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں صلح کروائے گا ۔ (بخاری، جلد:1ص: 530)
انصاف آپ خود فرمائیں کہ نصف سلطنت خود سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو دے دی تھی اور باقی نصف بھی حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے ان سے صلح کرکے سپر د کردی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ، حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نزدیک سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ خلافت کے اہل ، صحابی رسول، صاحبِ سیادت و فراست اور مدبر تھے اور اس وقت ان سے بڑھ کر اور کوئی بھی اس عظیم ذمہ داری کو نبھانے کی طاقت نہ رکھتاتھا ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی نظر میں : حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے بھی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی تو سبائیوں نے جو صلح کے مخالف تھے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کوآمادہ کرنا چاہا کہ وہ بیعت ختم کر کے مقابلہ کریں لیکن آپ نے صاف انکار کر دیا اور فرمایا: ہم نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی ، عہد کر لیا ہے، اب ہمارا بیعت توڑنا ممکن نہیں ۔ (شیعہ کتب : اخبار الطوال، ص: 234، رجال کشی، ص: 102)
کتب تاریخ و سیر اس پر گواہ ہیں کہ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ دونوں بھائی اکثر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاں جایا کرتے تھے وہ دونوں کی بہت عزت و تکریم کرتے، محبت و شفقت سے پیش آتے اور اپنے برابر تخت پر بٹھاتے اور ایک ایک دن میں ان کو دو، دو لاکھ درہم عطا کرتے۔ حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ بدستور ان کی مجلس میں تشریف لے جایا کرتے او روظائف او رعطایا حاصل کرتے۔
(البدایہ و النہایہ،جلد: 8ص: 150)
آپ پڑھ کر حیران ہوں گے کہ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حقیقی بھانجی آمنہ بنت میمونہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی زوجہ اولیٰ تھیں ، اس لحاظ سے حضرت امام سیدنا حسین رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے داماد تھے ۔ (طبری، جلد: 13ص: 19، چشتی)
اسی طرح حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ ام المومنین سیدہ ام حبیبہ بنت ابی سفیان نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زوجہ محترمہ ہیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ازواج مطہرات مومنوں کی مائیں اس لحاظ سے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تمام مومنوں کے ماموں ہوئے ۔

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : امام اہلسنت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃُاللہ علیہ اور امام خفاجی رحمۃُاللہ علیہ یہ دونوں امام فرماتے ہیں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر طعن کرنے والا جہنّمی کتوں میں سے ایک کتا ہے اور بد تر خبیث تبرائی روفضی ہے ایسے شخص کو امام بنانا جائز نہیں ہے ۔ (احکام شریعت صفحہ نمبر 120 ، 121 )(سنیوں کا لبادہ اڑھے جہنمی کتوں کو پہچانیئے ، چشتی)
علامہ شہاب خفا جی رحمہ اﷲ تعالٰی علیہ نے نسیم الریاض شرح شفاء امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ میں فرمایا: ومن یکون یطعن فی معٰویۃ فذالک کلب میں کلاب الہاویۃ ۔؂ ترجمہ جو امیر معاویہ پر طعن کرے وہ جہنم کے کتّوں سے ایک کُتا ہے۔
(نسیم الریاض جز رابع صفحہ 525 مطبوعہ دارالکتب علمیہ بیروت لبنان)
جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرے وہ جہنمی کتوں میں سے ایک کتا ہے۔(فتاویٰ رضویہ جلد29 صفحہ 264 ۔ امام اہلسنت اعلیٰحضرت رحمۃ اللہ علیہ

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کو خلافتِ راشدہ فرماتے ہیں ۔ (المفوظ، جلد:3ص:71)

حضرت پیر نصیر الدین نصیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اختلافی اُمور کے باوجود حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو دائرہ صحابیت سے خارج کرنا ،کافر،مشرک ثابت کرنا نہ صرف گناہ عظیم بلکہ توہین رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ہے اور موجب کفر ہے ۔ (نام و نسب باب نہم صفحہ نمبر 519 حضرت پیر نصیر الدین نصیر رحمۃُ اللہ علیہ)

محترم قارئین کرام : دشمنان صحابہ سبائی ٹولہ نے سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق ایسا ہمہ گیر پروپییگنڈہ کیا ہے کہ حقائق خرافات کے انبار میں دب کر رہ گئے ہیں اور مسلمان نسلاً بعد نسل اس شر انگیز پروپیگنڈے سے اس حد تک متاثر ہوتے چلے گئے ہیں کہ مدت سے نہ صرف عامۃ المسلمین بلکہ بہت سے خواص کے احساسات بھی حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جیسے عظیم و جلیل القدر اورکاتبِ وحی صحابی کے بارے میں ویسے باقی نہیں رہ گئے جیسے دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں عموما پائے جاتے ہیں ۔
شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہی ایسا جذبات انگیز تھا کہ خانوادہ علی سے گہری محبت رکھنے والی امتِ مسلمہ کو اس کی آڑ میں بہت آسانی سے غلط خیالات و آراء میں مبتلا کیا جا سکتا ہے اور کیا گیا ہے، حالانکہ جذباتی و خیا لی بلند پروازیوں سے الگ ہو کر ٹھوس حقیقی بنیادوں پر علمی و عقلی گفتگو کی جائے تو معلوم ہو گا کہ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا دامن مقدس اسی طرح داغِ طغیان و معصیت سے پاک ہے جس طرح دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ۔

محترم قارئین : چلیے! بقول کسے ایک منٹ کے لیئے تسلیم کرلیتے ہیں کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے سیاسی خطا ہوئی مگر کیا ایک جلیل القدر صحابی کو چند سیاسی خطائیں اتنا پست و حقیر بنا سکتی ہیں کہ ہم جیسے حقیر و بے بضاعت اور گھٹیا لوگ بھی اس کی بے ادبی پر اتر آئیں ۔ ان کا احترام ہمارے دلوں سے اٹھ جائے اور ہم بلا تکلف انہیں جنگ و تفرقہ کا بانی ، باغی اور منافق کہہ گزریں ۔ کیا ستارہ سیا ہ بدلی میں آجائے تو اتنا بے نور ہو جاتا ہے کہ تیل کے چراغ اس پر زبانِ طعن دراز کریں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آسمان دنیا پر چمکنے والے روشن ستارے تھے صراط مستقیم پر چلنے والوں کے لئے ہدایت کا چرغ تھے ۔
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اگر صحابی تھےاور یقینا تھے اورآخر سانس تک دین اسلام پر ثابت قدم رہے تو ''اصحاب" کے دائرے سے انہیں کون نکال سکتا ہے ؟
ویسے بھی ہمارا اور آپ کا جج بن بیٹھنا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو عدالتِ خیال میں فریقین بنا کر لانا ایسی ناروا جسارت ہے کہ دُرّوں سے ہماری پیٹھ کُھرچ دینی چاہیے ۔ ہمیں کیا حق ہے کہ تقریبا چودہ سو برس بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعض محترم اصحاب میں سے ایک کو بر سرِ حق اور ایک کو مجرم اور غلط ثابت کرنے بیٹھیں اور تاریخی واقعات کو صحیفۂ آسمانی تصور کرلیں ۔ چاہے ان کی بعض تفصیلات سے قرآن کا توثیق فرمودہ کردارِ صحابہ مجروح ہوتا ہے ۔ ہمیں کچھ بھی حق نہیں سوائے اس کے کہ ہر صحابی رضی اللہ عنہ کے لیئے دلوں میں عقیدت او رحسنِ ظن پر ورش کریں اور ان کے ہر فعل و عمل کی اچھی توجہیہ نکالنے میں کوشاں رہیں۔
محترم قارئین : یقین کیجیے کہ ہماری اس تحریر کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں ہے کہ سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دامنِ صحابیّت سے ان چھینٹوں کو دھویا جائے جو دنیا ناحق ان پر ڈالتی ہے ۔ ہماری نظر میں صحابیت عظمتِ پیغمبر کے حِصار کا درجہ رکھتی ہے ۔ نبوت کے قصر کی فصیلیں صحابیّت ہی کے رنگ و روغن سے زینت پاتی ہیں۔ اکرام ِ صحابیت کا طلائی حِصار اگر ٹوٹ جائے تو پیغمبر کی آبرو تک ہاتھ پہنچنا آسان ہوجاتا ہے ۔ پس جو لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تنقید کرتے ہیں وہ در اصل امام الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آبرو اور ختم نبوت کے دشمن ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ پر بددیانتی اور خیانت کا الزام لگا کر اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب پر ہاتھ صاف کرنا چاہتے ہیں۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)