Friday, 11 September 2020

اسلام میں زنا کی سزا حصّہ اوّل

 اسلام میں زنا کی سزا حصّہ اوّل


محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَالّٰتِیۡ یَاۡتِیۡنَ الْفٰحِشَۃَ مِنۡ نِّسَآئِکُمْ فَاسْتَشْہِدُوۡا عَلَیۡہِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنۡکُمْ ۚ فَاِنۡ شَہِدُوۡا فَاَمْسِکُوۡہُنَّ فِی الْبُیُوۡتِ حَتّٰی یَتَوَفّٰىہُنَّ الْمَوْتُ اَوْ یَجْعَلَ اللہُ لَہُنَّ سَبِیۡلًا ۔ (سورہ النساء آیت نمبر 15)
ترجمہ : اور تمہاری عورتوں میں جو بدکاری کریں ان پر خاص اپنے میں کے چار مردوں کی گواہی لو پھر اگر وہ گواہی دے دیں تو ان عورتوں کو گھر میں بند رکھو یہاں تک کہ انہیں موت اٹھالے یا اللہ ان کی کچھ راہ نکالے ۔

وَالَّذَانِ یَاۡتِیٰنِہَا مِنۡکُمْ فَاٰذُوۡہُمَا ۚ فَاِنۡ تَابَا وَاَصْلَحَا فَاَعْرِضُوۡا عَنْہُمَا ؕ اِنَّ اللہَ کَانَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ۔ (سورہ النساء آیت نمبر 16)
ترجمہ : اور تم میں جو مرد عورت ایسا کام کریں ان کو ایذا دو پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نیک ہوجائیں تو ان کا پیچھا چھوڑ دو بیشک اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے ۔

اسلامی قوانین کے مطابق زنا سے مراد ایسی مُجامَعَت یا مُباشَرَت ہے جو اپنے وقوع میں غیرقانونی ہو ۔ گویا ایسا عمل جس میں مرد کے ذَکر کا، عورت کی فرج یا اَنْدامِ نِہانی میں بغیر نکاح یا ازدواج کے ادخال ہو، زنا کہلاتا ہے ۔ اسلام نے زنا میں دونوں مفاہیم کو شامل کیا ہے : ایک قبل ازدواج جماع جو کہ نکاح (شادی) سے پہلے یا غیر شادی شدہ افراد کے مابین ہو اور دوسرا بیرون ازدواج جماع جو کہ اپنے غیرمنکوحہ (مرد یا عورت) سے کیا جائے ۔ گو کہ دونوں صورتوں میں ایسا جماع جرم اور گناہ ہی ہے لیکن دونوں صورتوں کی سزائیں مختلف ہیں ۔

زنا بالرضاء اور زنا بالجبر باعتبارِ کیفیت و نتائج دو مختلف جرم ہیں ، اس لیے شریعت اسلامیہ نے ان دونوں جرائم میں فرق کیا ہے۔ زنا بالرضاء میں دونوں فریق مستحق سزا ہوں گے۔اگر زانی جوڑا شادی شدہ (محصن/محصنہ) ہے تو جرم کے ثابت ہونے پر دونوں کو سنگسار کیا جائے گا، اگر دونوں میں سے ایک شادی شدہ ہے تو سنگسار کیا جائے گا ۔ اگر دونوں غیرمحصن (غیرشادی شدہ) ہیں توسورۂ نور کی آیت نمبر 6 حکم کے مطابق ان کو سو کوڑے مارے جائیں گے، دونوں میں سے کوئی ایک غیرشادی شدہ ہے تو اسے یہ سزا دی جائے گی ۔

اس کے برعکس زنا بالجبر میں مجبور پر کوئی حد نہیں ۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے السنن میں روایت کیا ہے کہ : استکرهت امرأة علیٰ عهد رسول ﷲ صلی الله عليه و آليه وسلم فدرء رسول ﷲ صلی الله عليه و آليه وسلم عنها الحد و اقامه علی الذی اصابها ۔ (سنن الترمذی، ابواب الحدود،باب ماجآء فی المرأة اذا استکرهت علی الزنا)

نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے عہد میں ایک عورت کے ساتھ زبردستی زنا کیا گیا تھا ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے اس عورت پر حد قائم نہیں کیا اور اس پر حد قائم کیا جس نے اس عورت سے زنا کیا تھا ۔

امام ترمذی مزید فرماتے ہیں : والعمل علی هذا الحديث عند اهل العلم من اصحاب النبی صلی الله عليه و آليه وسلم وغيرهم ان ليس علی المستکره ۔

علماء صحابہ کرام رضوان ﷲ علیہم اجمعین وغیرہم کا اس حدیث پر عمل ہے کہ جس پر زبردستی کی جائے اس پر حد لاگو نہیں ہوتی ۔

مسلمانوں میں سے جو عورتیں زنا کا اِرتِکاب کریں ان کے بارے حکم دیا گیا کہ ان پر زنا کے ثبوت کیلئے چار مسلمان مردوں کا گواہ ہوناضروری ہے جو عورتوں کے زنا پر گواہی دیں اور ایک قول یہ ہے کہ یہاں حکام سے خطاب ہے یعنی وہ چار مردوں سے گواہی سنیں ۔ (تفسیر خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۵، ۱/۳۵۷)

زنا کے ثبوت کے لئے گواہی کی شرائط

زنا کا ثبوت گواہی سے ہو تو ضروری ہے کہ زنا کے گواہ چار عاقل ،بالغ ، مسلمان مرد ہوں کوئی عورت نہ ہو، چاروں نیک اور متقی ہوں ، اور انہوں نے ایک وقتِ مُعَیَّن میں زنا کا یوں مشاہدہ کیا ہو جیسے سرمہ دانی میں سلائی نیز یہ چاروں گواہ حلفِ شرعی کے ساتھ گواہی دیں۔ اگر ان میں سے ایک بات بھی کم ہوئی تو زنا ثابت نہ ہو گا اور گواہی دینے والے شرعاً اسی اسی کوڑوں کے مستحق ہوں گے ۔ (فتاوی رضویہ، ۱۳/۶۲۳)

فَاَمْسِکُوۡہُنَّ فِی الْبُیُوۡتِ : ان عورتوں کو گھر میں بند کر دو ۔ زانیہ عورتوں کو موت آنے تک گھروں میں قید رکھنے کا حکم زنا سے متعلق کوڑوں اور رَجم کی سزا مقرر ہونے سے پہلے تھا جب زنا کی حد کے بارے میں احکام ناز ل ہو ئے تو یہ حکم مَنسوخ ہو گیا ۔ (تفسیرات احمدیہ، النساء، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۲۴۰،چشتی)

زنا اور قَذف کی سزا کا بیان سورۂ نور آیت نمبر 2اور 4 میں بیان ہواہے ۔

زنا کی مذمت

اس آیت میں زنا کرنے والوں کی سزا سے متعلق بعض ا حکام بیان ہوئے ، اس مناسبت سے ہم یہاں زنا کی مذمت پر 4 اَحادیث ذکر کرتے ہیں تاکہ مسلمانوں پر زنا کی قَباحت و برائی مزید واضح ہو اور وہ ا س برے فعل سے بچنے کی کوشش کریں۔

حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جو عورت کسی قوم میں اس کو داخل کردے جو اس قوم سے نہ ہو (یعنی زنا کرایا اور اُس سے اولاد ہوئی) تو اُسے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت کا حصہ نہیں ملے گا اور اللہ تعالیٰ اُسے جنت میں داخل نہ فرمائے گا ۔ (ابو داؤد، کتاب الطلاق، باب التغلیظ فی الانتفائ، ۲/۴۰۶، الحدیث: ۲۲۶۳)

حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس بستی میں زنا اور سود ظاہر ہوجائے تو اُنہوں نے اپنے لیے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب کو حلال کرلیا ۔ (مستدرک، کتاب البیوع، اذا ظہر الزنا والربا فی قریۃ۔۔۔ الخ، ۲/۳۳۹، الحدیث: ۲۳۰۸،چشتی)

حضرت عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جس قوم میں زنا ظاہر ہوگا، وہ قحط میں گرفتار ہوگی اور جس قوم میں رشوت کا ظہور ہوگا، وہ رُعب میں گرفتار ہوگی ۔ (مشکوۃ المصابیح، کتاب الحدود، الفصل الثالث، ۱/۶۵۶، الحدیث: ۳۵۸۲)

حضرت بریدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں بوڑھے زانی پر لعنت کرتی ہیں اور زانیوں کی شرمگاہ کی بدبو جہنم والوں کی ایذا دے گی ۔ (مجمع الزوائد، کتاب الحدود والدیات، باب ذم الزنا ، ۶/۳۸۹، الحدیث: ۱۰۵۴۱)

فَاٰذُوۡہُمَا : ان دونوں کوتکلیف پہنچاؤ ۔ بے حیائی کا اِرتکاب کرنے والوں کے متعلق سزا کا بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ انہیں ایذاء دو جیسے جھڑک کر ، برا بھلا کہہ کر، شرم دلا کر، جوتیاں وغیرہ مار کرزبانی اور بدنی دونوں طرح سے ایذا دو ۔ زنا کی سزا پہلے ایذا دینا مقرر کی گئی، پھر قید کرنا، پھر کوڑے مارنا یا سنگسار کرنا ۔ (تفسیر مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۲۱۷)

یہ آیت بھی حد ِزنا کی آیت سے منسوخ ہے ۔ بعض علماء نے فرمایا کہ پچھلی آیت میں فاحشہ سے مرا د خود عورت کا عورت سے بے حیائی کا کام کرنا ہے اور ’’ وَالَّذَانِ یَاۡتِیٰنِہَا ‘‘ سے مرد کا مرد سے لَواطَت کرنا مراد ہے ۔ اس صورت میں یہ آیت مَنسوخ نہیں بلکہ مُحکم ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ لواطت اور مساحقت (عورتوں کی عورتوں سے بے حیائی) میں حد مقرر نہیں بلکہ تَعزیر ہے ۔ یعنی قاضی کی صوابدید پر ہے وہ جو چاہے سزا دے ۔ یہ ہی امامِ اعظم ابو حنیفہ کا قول ہے ۔ (تفسیر کبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳/۵۲۸، تفسیرات احمدیہ، النساء، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۲۴۲،چشتی)

یہی وجہ ہے کہ لواطت کے مرتکب کو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے مختلف سزائیں دیں اگر لواطت میں حد ہوتی تو ایک ہی سزا دی جاتی اس میں اختلاف نہ ہوتا ۔ ’’حد‘‘ مخصوص ہوتی ہے جیسے سو کوڑے ، اسی کوڑے وغیرہ۔ جبکہ تعزیر وہاں ہوتی ہے جہاں شرعی حد مقرر نہ ہو بلکہ قاضی کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے ، چاہے تو دس کوڑے مارنے کا فیصلہ کردے اور چاہے تو بیس کا اور چاہے تو کوئی اور سزا دیدے ۔

فَاِنۡ تَابَا وَاَصْلَحَا : پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور اپنی اصلاح کر لیں ۔ فرمایا گیا کہ بے حیائی کا ارتکاب کرنے والے اگر پچھلے گناہوں پر نادم ہو جائیں اور آئندہ کے لئے اپنی اصلاح کر لیں تو انہیں چھوڑ دو ۔ اس سے معلوم ہوا کہ تعزیر کا مستحق مجرم اگر تعزیر سے پہلے صحیح معنی میں توبہ کر لے تو ا س پر خواہ مخواہ تعزیر لگانا ضروری نہیں ۔

توبہ کے معنی

توبہ کے معنی ہوتے ہیں رجوع کرنا، لوٹنا۔ اگر یہ بندے کی صفت ہو تو معنی ہوں گے گناہ یا ارادہ ِگناہ سے رجوع کرنااور اگر رب تعالیٰ کی صفت ہو تو معنی ہوں گے بندے کی توبہ قبول فرمانا یا اپنی رحمت کو بندے کی طرف متوجہ کرنا ۔

اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا تھا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کی بدکاری پر انہیں سزا دینے کا حکم دیا ہے اور یہ بھی درحقیقت ان کے ساتھ حسن سلوک ہے کیونکہ سزا ملنے کے بعد جب وہ بدکاری سے باز آجائیں گی تو آخرت کی سزا سے بچ جائیں گی ‘ دوسری وجہ یہ بتلانا ہے کہ عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کا معنی یہ نہیں ہے کہ انہیں بےحیائی کے لئے بےلگام چھوڑ دیا جائے اور تیسری وجہ یہ بتانا ہے کہ احکام شرعی اعتدال پر مبنی ہیں ‘ ان میں افراط اور تفریط نہیں ہے نہ یہ کہ عورت کو بالکل دبا کر رکھا جائے اور اس کے حقوق سلب کر لئے جائے اور نہ یہ کہ اسے بالکل آزاد چھوڑ دیا جائے اور اس کی بےراہ روی پر بھی اس سے محاسبہ اور مواخذہ نہ کیا جائے ۔

جمہور مفسرین نے یہ کہا ہے کہ اس آیت میں بدکاری سے مراد زنا ہے کیونکہ جب عورت کی طرف زنا کی نسبت کی جائے تو اس کا ثبوت اسی وقت ہوتا ہے جب اس کے خلاف چار مسلمان مرد گواہی دیں ۔ اسلام میں ابتداء اس کی یہ سزا تھی کہ ایسی عورت کو تاحیات گھر میں قید کردیا جائے یا اللہ ان کے لئے کوئی اور راہ پیدا کردے ‘ اور وہ راہ یہ ہے کہ کنواری عورت کو سو کوڑے لگائے جائیں اور شادی شدہ کو رجم کردیا جائے اور اس راہ کا بیان نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے اس حدیث میں فرمایا ہے امام مسلم بن حجاج قشیری رحمۃ اللہ علیہ متوفی 261 ھ روایت کرتے ہیں : حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا مجھ سے لو ‘ مجھ سے لو ‘ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے راہ پیدا کردی ‘ اگر کنوارہ مرد کنواری عورت کے ساتھ زنا کرے تو سو کوڑے لگاؤ اور ایک سال کے لئے شہر بدر کردو اور اگر شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت کے ساتھ بدکاری کرے تو ان کو سو کوڑے لگاؤ اور ان کو سنگسار کردو ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : 1690،چشتی)(سنن ترمذی رقم الحدیث : 1439)(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 2550)(سنن کبری للبیہقی ج 8 ص 222) (صحیح ابن حبان ج 10 ‘ ص 4425)

جمہور مفسرین کے نزدیک یہ آیت اس وقت منسوخ ہوگئی جب زنا کی حد کے احکام نازل ہوگئے اور ابومسلم اصفہانی کے نزدیک یہ آیت منسوخ نہیں ہوئی ان کے نزدیک عورتوں کی بدکاری یا بےحیائی کے کام سے مراد زنا نہیں ہے بلکہ اس سے مراد عورتوں کا اپنی جنس کے ساتھ لذت حاصل کرنا ہے ‘ لیکن ابو مسلم اصفہانی کا یہ قول اس لئے صحیح نہیں ہے کہ اس کے علاوہ اور کسی نے یہ تفسیر نہیں کی اور یہ اس حدیث کے خلاف ہے کہ اللہ نے عورتوں کے لئے راہ پیدا کردی ۔ (تفسیر کبیر ج 3 ص 167 مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ 1398 ھ)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : تو ان کے خلاف اپنے چار (مسلمان آزاد) گواہ طلب کرو ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...