اسلام میں زنا کی سزا حصّہ دوم
محترم قارئینِ کرام : امید ہے اس موضوع سے متعلق حصّہ اوّل آپ نے پڑھ لیا ہوگا آیئے اب اس موضوع سے متعلق حصّہ دوم پڑھتے ہیں :
اسلام عصمت وعفت کو سب سے بڑی قیمتی متاع قرار دیتا ہے اور اس کی حفاظت کو ہر شیء پر مقدم رکھتا ہے ۔ چنانچہ زنا اسلامی معاشرہ میں انتہائی گھناؤنا اور بدترین جرم ہے اور اسلامی تعزیرات میں اس جرم کی سخت ترین سزا مقرر ہے ۔ اسلامی نظام حیات میں نہ صرف زنا واجب التعزیر ہے بلکہ اس کے اسباب اور محرکات بھی ممنوع ہیں ۔ اسلام ہر اس راہ کو بند کرتا ہے جو انسان کو اس گناہ کی طرف لے جاتی ہو ۔ مثلا بے پردگی و بے حیائی ، اختلاط مردوزن ، مخلوط مجالس ، زیب و زینت کی نمائش ، زیورات کی جھنکار وغیرہ ۔
مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ حدود میں عورتوں کی گواہی قبول نہیں ہوتی ۔
(امام ابوبکر عبد اللہ بن محمد بن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ متوفی 235 ھ ‘ روایت کرتے ہیں : زہری بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ اور آپ کے بعد دونوں خلیفوں کے زمانہ میں یہ سنت تھی کہ حدود میں عورتوں کی گواہی جائز نہیں۔
حسن بصری بیان کرتے ہیں کہ حدود میں عورتوں کی گواہی جائز نہیں۔
عامر بیان کرتے ہیں کہ حدود میں عورتوں کی شہادت جائز نہیں ۔ سفیان بیان کرتے ہیں کہ میں نے حماد سے سنا ہے کہ حدود میں عورتوں کی شہادت جائز نہیں ۔ شعبی بیان کرتے ہیں کہ حدود میں عورت کی گواہی جائز ہے نہ غلام کی ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج 10 ص 60۔ 59‘ مصنف عبدالرزاق ج 7 ص 330۔ 329)
علامہ قرطبی نے لکھا ہے کہ اس مسئلہ میں امت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔
زنا کے ثبوت کے لئے چار مسلمان آزاد مردوں کی گواہی ضروری قرار دی ہے تاکہ زنا کے ثبوت کے لئے بار ثبوت سخت ہو زنا کے ثبوت کے لئے یہ کڑی شرط اس لئے عائد کی گئی ہے تاکہ لوگوں کی عزتیں محفوظ رہیں اور کوئی شخص دو جھوٹے گواہ پیش کر کے کسی کو بلاوجہ متہمم نہ کرسکے ‘ اگر کوئی شخص چار مسلمان گواہ پیش نہ کرسکا تو اس پر حد قذف لگے گی جو اسی (80) کوڑے ہیں اور جس نے کسی کو زنا کرتے ہوئے دیکھا اور اس پر چار گواہ نہ ہوں تو بندوں کا پردہ رہے گا ‘ یا اس لئے کہ زنا کا ارتکاب مرد اور عورت کرتے ہیں اور ہر دو کو سزا ملتی ہے اس لئے اس میں چار گواہ مقرر کئے گئے تاکہ ہر ایک کے حق میں دو دو گواہ ہوں اور نصاب شہادت مکمل ہوجائے لیکن یہ کوئی قوی وجہ نہیں ہے ۔
حد زنا میں چار مردوں کی گواہی پر اعتراض کا جواب : چار مرد گواہوں کی شرط پر بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ مثلا لڑکیوں کے ہوسٹل میں ایک لڑکی کی جبرا اور ظلما عصمت دری کی گئی اور موقع پر صرف لڑکیاں ہیں یا کسی صورت میں کوئی بھی نہیں ہے وہ لڑکی کیسے انصاف حاصل کرے گی ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ سزا اس وقت دی جاتی ہے جب قانونی تقاضے پورے ہوں مثلا اگر جنگل میں جہاں کوئی نہ وہاں کوئی شخص کسی کو قتل کردے تو گواہ نہ ہونے کی وجہ سے قاتل کو سزا نہیں ملے گی ایسی صورتوں میں مجرم دنیاوی سزا سے تو بچ جائے گا لیکن اخروی سزا کا مستحق ہوگا ۔
کیا زانی کے خلاف استغاثہ کرنے والی لڑکی پر حد قذف لگے گی ؟
ایک وحشت زدہ کنواری لڑکی جس کا لباس تار تار اور خون آلود ہے روتی اور آنسو بہاتی ہوئی پولیس کے پاس پہنچتی ہے اور کہتی ہے کہ فلاں شخص نے اس کے ساتھ زنا بالجبر کیا ہے۔ اس شخص کو فورا موقع واردات پر گرفتار کرلیا جاتا ہے اور میڈیکل رپورٹ سے ثابت ہوجاتا ہے کہ اس لڑکی سے دخول کیا گیا ہے اور اس شخص کی منی اس لڑکی کے اندام نہانی میں موجود ہے تو اب سوال یہ ہے کہ اس قرینہ کی وجہ سے اس شخص پر زنا کی حد لازم ہوگی یا بغیر چار مرد گواہوں کے اس شخص کی طرف زنا کی نسبت کرنے کی وجہ سے اس لڑکی پر حد قذف لگائی جائے گی ؟ اس کا حل یہ ہے کہ ثبوت زنا کے لئے یقینا یہ قوی قرینہ ہے لیکن اس شخص پر حد لگانے کے بجائے اس کو تعزیرا سزا دی جائے جیسا کہ فقہاء شراب کی بو کی بناء پر شراب کی حد تو جاری نہیں کرتے لیکن تعزیرا سزا دیتے ہیں ‘ باقی رہایہ سوال کہ بغیر چار مرد گواہوں کے کسی شخص کی طرف زنا کی نسبت کرنا قذف ہے اور اس کو تہمت لگانا ہے اس لئے اس لڑکی پر حد قذف لگنی چاہیے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قذف اس وقت ہوگا جب کوئی شخص کسی کو متہم اور بدنام کرنے کی حیثیت سے مسلمانوں میں ایک فحش بات کو پھیلانے کی غرض سے اس پر زنا کی تہمت لگائے ‘ اس کے علاوہ اگر کسی غرض صحیح کی وجہ سے کوئی شخص کسی کی طرف زنا کی نسبت کرے تو یہ قذف نہیں ہے مثلا ایک شخص حاکم کے سامنے اعتراف جرم کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے فلاں عورت کے ساتھ زنا کیا ہے اس لئے مجھ پر حد جاری کی جائے۔ اب اس کے اعتراف سے اس پر تو زنا کی حد لازم ہوجائے گی لیکن اس کے اعتراف سے اس عورت پر اس وقت تک حد لازم نہیں ہوگی جب تک کہ وہ عورت خود اعتراف نہ کرے اور اس شخص نے جو اعتراف جرم کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ اس نے فلاں عورت کے ساتھ زنا کیا ہے اور اس عورت کی طرف زنا کی نسبت کی ہے یہ قذف نہیں ہے ‘ اور نہ ان کلمات سے اس شخص پر حد قذف لازم ہوگی کیونکہ ان کلمات سے اس شخص کا مقصود اپنے جرم کا اعتراف کرنا ہے نہ کہ کسی کو بدنام اور متہم کرنا مقصود ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور تم میں سے جو دو شخص بےحیائی کا ارتکاب کریں تو تم ان کو اذیت پہنچاؤ پس اگر وہ توبہ کرلیں تو ان سے درگزر کرو ۔
” دو شخصوں کی بےحیائی “ کی تفسیر میں متعدد اقوال
اس آیت کی تفسیر میں اختلاف ہے بعض مفسرین نے کہا اس سے مراد کنوارہ مرد اور کنواری عورت ہے اور اس سے پہلی آیت میں شادی شدہ عورتیں مراد تھیں اس کی دلیل یہ ہے : امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی 310 ھ روایت کرتے ہیں : سدی نے کہا اس آیت میں کنواری لڑکیاں اور کنوارے لڑکے مراد ہیں جن کا نکاح نہیں ہوا اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر وہ بےحیائی کا ارتکاب کریں تو ان کو (مار پیٹ سے) ایذا پہنچاؤ۔ ابن زید کا بھی یہی قول ہے ۔ بعض نے کہا پہلی آیت میں زنا کار عورتیں مراد تھیں اور ان کو مار پیٹ سے ایذا پہنچاؤ‘ اس کی دلیل یہ ہے کہ مجاہد نے اس کی تفسیر میں کہا ہے اس آیت سے زناہ کرنے والے مرد مراد ہیں ‘ اور بعض نے کہا اس آیت میں مرد اور عورت دونوں مراد ہیں خواہ وہ کنوارے ہوں یا شادی شدہ ان کی سزا یہ ہے کہ ان کو مار پیٹ کر ایذا پہنچائی جائے یہ عطا اور حسن بصری کا قول ہے ۔ (جامع البیان ج 4 ص 200‘ مطبوعہ دارالمعرفہ بیروت ‘ 1409 ھ)
ایذاء پہنچانے سے مراد یہ ہے کہ ان کو اس بےحیائی پر ملامت کی جائے اور ڈانٹ ڈپٹ کی جائے اور مار پیٹ کی جائے۔ حسن بصری کا قول یہ ہے کہ عورتوں کو پہلے ملامت کی جائے اور مارا جائے اور پھر گھروں میں قید کردیا جائے اور اس آیت کا حکم مقدم ہے اور اس سے پہلی والی آیت کا حکم موخر ہے ‘ بہرحال جمہور مفسرین کے نزدیک ان دونوں آیتوں کا حکم سورة نور سے منسوخ ہوگیا جس میں کنواروں کے لئے زنا کی حد سو کوڑے بیان کی گئی ہے اور احادیث متواترہ سے جن میں شادی شدہ زانیوں کی حد رجم (سنگسار کرنا) بیان کی گئی ہے البتہ ابو مسلم کے نزدیک پہلی آیت سے مراد وہ عورتیں ہیں جو اپنی جنس کے ساتھ شہوانی لذت حاصل کرتی ہیں اور دوسری آیت سے مراد وہ مرد ہیں جو ایک دوسرے سے عمل قوم لوط (اغلام) کرکے لذت حاصل کرتے ہیں۔ ابو مسلم کے نزدیک یہ دونوں آیتیں منسوخ نہیں ہیں لیکن یہ قول ضعیف ہے کیونکہ صحابہ کرام اور فقہاء تابعین نے عمل قوم لوط کی حرمت پر اس آیت سے استدلال نہیں کیا تاہم چونکہ یہاں اغلام کی بحث آگئی ہے اس لئے ہم اغلام کی حرمت پر قرآن مجید اور احادیث سے دلائل کا ذکر کریں گے ۔
اغلام کی حرمت پر قرآن مجید کی آیات
ولوطا اذ قال لقومہ اتاتون الفاحشۃ ماسبقکم بہا من احد من العلمین، انکم لتاتون الرجال شہوۃ من دون النسآء بل انتم قوم مسرفون “۔ (الاعراف : 81۔ 80)
ترجمہ : لوط کو بھیجا جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا تم ایسی بےحیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا والوں میں سے کسی نے نہیں کی، بیشک تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے نفسانی خواہش پوری کرتے ہو بلکہ تم (انسانیت کی) حد سے تجاوز کرنے والے ہو۔
ولوطا اذ قال لقومہ اتاتون الفاحشۃ وانتم تبصرون، ائنکم لتاتون الرجال شھوۃ من دون النسآء بل انتم قوم تجھلون “۔ (النمل : 55۔ 54 )
ترجمہ : اور لوط کو (یاد کیجئے) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا تم (آپس میں) دیکھتے ہوئے بےحیائی کرتے ہو، بیشک تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے نفسانی خواہش پوری کرتے ہو بلکہ تم جاہل لوگ ہو۔
وامطرنا علیم مطرا فسآء مطرالمنذرین “۔ (النمل : 58)
ترجمہ : اور ہم نے ان پر پتھرروں کی بارش کی سو جو لوگ ڈرائے ہوئے تھے ان پر کیسی بری بارش ہوئی۔
فلما جآء امرنا جعلنا عالیھا سافلھا وامطرنا علیھا حجارۃ من سجیل منضود، مسومۃ عندربک وماھی من الظالمین ببعید “۔ (ھود : 83۔ 82)
ترجمہ : اور جب ہمارا عذاب آپہنچا تو ہم نے (قوم لوط کی) بستی کے اوپر کے حصہ کو نچلا حصہ کردیا اور ہم نے ان پر لگا تار کنکر پتھر برسائے جو آپ کے رب کی طرف سے نشان زدہ تھے ‘ اور پتھر برسانے کی یہ سزا ظالموں کے لئے مستعبد نہیں ہے ۔
اغلام کی حرمت پر احادیث اور آثار
امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی 279 ھ روایت کرتے ہیں : حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا جس چیز کا مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ خوف ہے وہ قوم لوط کا عمل (اغلام ‘ مرد کا اپنی جنس کے ساتھ بدفعلی کرنا) ہے ۔ (یہ حدیث حسن ہے)،(سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : 1457‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث : 2563‘ المستدرک صحیح الاسناد : ج 4 ص 357)
امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث متوفی 275 ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جس شخص کو تم قوم لوط کا عمل کرتے ہوئے دیکھو تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کردو۔ (سنن ابو داؤد ‘ رقم الحدیث : 4462‘ سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : 1456‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث : 2561‘ شعب الایمان ‘ رقم الحدیث : 5386)
امام ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ حاکم نیشاپوری متوفی 405 ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جو لوگ عہد شکنی کرتے ہیں ان میں قتل (عام) ہوجاتا ہے اور جن لوگوں میں بےحیائی پھیل جاتی ہے اللہ تعالیٰ ان میں موت کو مسلط کردیتا ہے اور جو لوگ زکوۃ نہیں دیتے ان سے بارش کو روک لیا جاتا ہے۔ یہ حدیث امام مسلم کی شرح کے مطابق صحیح ہے۔ (المستدرک ج 2 ص 126‘ امام ذہبی نے بھی اس حدیث کی موافقت کی ہے)
امام ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی متوفی 360 ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے سات آدمیوں پر سات آسمانوں کے اوپر سے لعنت کرتا ہے ‘ اور ان میں سے ایک شخص پر تین بار لعنت کرتا ہے اور ہر ایک پر ایسی لعنت کرتا ہے جو اس کو کافی ہوگی۔ فرمایا : جو قوم لوط کا عمل کرے وہ ملعون ہے ‘ جو قوم لوط کا عمل کرے وہ ملعون ہے جو قوم لوط کا عمل کرے وہ ملعون ہے ‘۔ جو غیر اللہ کے لئے ذبح کرے وہ ملعون ہے ‘ جو کسی جانور سے بدفعلی کرے وہ ملعون ہے ‘ جو شخص ماں باپ کی نافرمانی کرے وہ ملعون ہے ‘ جو شخص ایک عورت اور اس کی بیٹی کو نکاح میں جمع کرے وہ ملعون ہے ‘ جو شخص زمین کی حدود میں تبدیلی کرے وہ ملعون ہے ‘ جو شخص اپنے مولا کے غیر کی طرف منسوب ہو وہ ملعون ہے ‘ (محرزبن عارون کے سوا اس حدیث کی سند صحیح ہے جمہور کے نزدیک وہ ضعیف ہے ‘ لیکن امام ترمذی نے اس کی حدیث کو حسن کہا ہے ‘ حاکم نے اس حدیث کو کہا یہ صحیح الاسناد ہے) (المعجم الاوسط ‘ رقم الحدیث : 8492)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا چار آدمی اللہ کے غضب میں صبح کرتے ہیں اور اللہ کے غضب میں شام کرتے ہیں میں نے پوچھا یا رسول اللہ وہ کون ہیں ؟ فرمایا : وہ مرد جو عورت کی مشابہت کریں اور وہ عورتیں جو مردوں کی مشابہت کریں اور جو شخص جانوروں سے بدفعلی کرے اور جو مرد ‘ مرد سے بدفعلی کرے۔ اس حدیث کے ایک راوی محمد بن سلام خزاعی کی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت غیر معروف ہے ‘ امام بخاری نے کہا اس حدیث میں اس کا کوئی متابع نہیں ہے۔ امام ابن عدی نے کہا محمد بن سلام کی وجہ سے یہ حدیث منکر ہے ‘ ہرچند کہ یہ حدیث ضعیف ہے لیکن ترہیب میں معتبر ہے۔ (المعجم الاوسط ‘ رقم الحدیث : 6854‘ شعب الایمان ‘ رقم الحدیث : 5385‘ کامل ابن عدی : ج 6 ص 2233)
امام ابوبکراحمد بن حسین بیہقی متوفی 458‘ ھ روایت کرتے ہیں : محمد بن منکدر بیان کرتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولید نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ عرب کے بعض قبائل میں ان کو ایک مرد ملا جو مرد کے ساتھ بدفعلی کرتا ہے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے اصحاب کو جمع کیا جن میں حضرت علی رضی بھی تھے (رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین) حضرت علی نے فرمایا یہ ایک ایسا گناہ ہے جس کو صرف ایک امت نے کیا تھا اور تمہیں معلوم ہے اللہ نے ان پر کیسا عذاب بھیجا ‘ میرے رائے ہے کہ اس شخص کو آگ میں جلادیا جائے اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے تمام اصحاب نے اس پر اتفاق کرلیا کہ اس شخص کو آگ میں جلا دیا جائے ‘ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس شخص کو آگ میں جلانے کا حکم دیا ۔ (یہ حدیث حسن ہے) شعب الایمان رقم الحدیث : 5389)
امام بخاری نے عکرمہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ زندیق لائے گئے انہوں نے ان کو جلا دیا ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ خبر پہنچی تو انہوں نے کہا اگر میں وہاں ہوتا تو ان کو نہ جلاتا ‘ کیونکہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے اللہ کے عذاب کے ساتھ سزا دینے سے منع فرمایا ہے۔ (صحیح بخاری ‘ رقم الحدیث : 6922) چونکہ وہاں پر موجود حضرت علی رضی اللہ عنہ تک یہ حدیث نہیں پہنچی تھی اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ مشورہ دیا اور دیگر صحابہ نے اس مشورہ کی تائید کی ۔
عمل قوم لوط کی حد یا تعزیر میں مذہب اربعہ
علامہ علاء الدین محمد بن علی بن محمد حصکفی حنفی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 1088 ھ لکھتے ہیں : دررغرر میں مذکور ہے کہ جو شخص عمل قوم لوط کرے اس کو تعزیر لگائی جائے گی مثلا اس کو آگ میں جلا دیا جائے ۔ اور اس پر دیوار گرا دی جائے گی ‘ اور اس کو کسی بلند جگہ سے الٹا کرکے گرا دیا جائے گا اور اس پر پتھر مارے جائیں گے اور الحاوی میں مذکور ہے کہ اس کو کوڑے مارنا زیادہ صحیح ہے ‘ فتح القدیر میں مذکور ہے اس پر تعزیر ہے اور اس کو اس وقت تک قید میں رکھا جائے حتی کہ وہ مرجائے یا توبہ کرلے ‘ اور اگر وہ دوبارہ یہ عمل کرے تو اس کو امام سیاسۃ قتل کردے ‘ امام کی قید سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قاضی کو یہ اختیار نہیں ہے۔ (النہر والبحر) اسی طرح استمناء حرام ہے ‘ صحیح مذہب یہ ہے کہ جنت میں عمل قوم لوط نہیں ہوگا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی مذمت کی ہے اور اس کو قبیح اور خبیث فعل قرار دیا ہے اور جنت میں اس عمل سے پاک ہے (فتح القدیر) الاشباہ والنظائر میں مذکور ہے کہ اس فعل کی حرمت عقلی ہے اس لئے جنت میں اس کا وجود نہیں ہوگا ایک قول یہ ہے کہ اس کی حرمت شرعی ہے ‘ البحر میں مذکور ہے کہ اس کی حرمت عقلا شرعا اور طعا زنا سے زیادہ شدید ہے اور زنا کی حرمت طبعا نہیں ہے کیونکہ جس عورت کی طرف طبیعت راغب ہو اس سے نکاح کیا جاسکتا ہے اور اگر وہ کنیز ہو تو اس کو خرید کر اس سے شہوت پوری کی جاسکتی ہے ‘ اس کے برخلاف اگر کسی لڑکے پر طبیعت راغب ہو تو اس سے قضاء شہوت کا کوئی جائز ذریعہ نہیں ہے ‘ امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس پر حد نہیں ہے اس کی یہ وجہ نہیں ہے کہ یہ کم درجہ کا جرم ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ حد مجرم کو جرم سے پاک کردیتی ہے (یہ امام شافعی کا قول ہے) بلکہ حد نہ ہونا اس جرم کی شدت کی وجہ سے ہے اور جو شخص اس عمل کو جائز سمجھے وہ جمہور کے نزدیک کافر ہے۔ (الدرمختار علی ھامش رد المختار ج 3 ص 56۔ 155 مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت)
علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 1252 ھ لکھتے ہیں : زیادات میں مذکور ہے اس کے فاعل کی سزا امام کی رائے پر موقوف ہے جب کہ فاعل عادی ہو خواہ اس کو قتل کردے خواہ اس کو مارے اور قید کردے ‘ الاشباہ میں مذکور ہے جب تک وہ بار بار یہ فعل نہ کرے امام اعظم کے نزدیک اس کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ علامہ بیری نے کہا ہے کہ دو بار اس فعل کے کرنے پر اس کو قتل کردیا جائے گا فتح القدیر میں ہے کہ اس کو بلندی سے گرانے کی سزا اس لئے ہے تاکہ قوم لوط کی سزا سے مشابہت ہو کیونکہ ان کی زمین کو الٹ پلٹ کردیا گیا تھا۔ ابن الولید معتزلی نے کہا جنت میں اس فعل کے اندر کوئی قباحت نہیں ہے کیونکہ دنیا میں اس فعل سے اس لئے منع کیا گیا ہے اس سے نسل منقطع ہوتی ہے اور یہ فعل کے اندر کوئی قباحت نہیں ہے کیونکہ دنیا میں اس فعل سے اس لئے منع کیا گیا ہے کہ اس سے نسل منقطع ہوتی ہے اور یہ فعل محل نجاست میں ہوتا ہے اور جنت میں یہ دونوں چیزیں نہیں ہیں ‘ اس لئے جنت میں شراب حلال ہے کیونکہ اس میں نشہ نہیں ہوگا اور نہ عقل زائل ہوگی ‘ امام ابو یوسف نے جواب دیا کہ مردوں کی طرف جنسی میلان کرنا ان کے لئے باعث عار ہوتا ہے اور یہ فی نفسہ قبیح ہے کیونکہ ان کو اس عمل کے لئے پیدا نہیں کیا گیا اسی وجہ سے اس فعل کو کسی شریعت میں جائز نہیں کیا گیا ‘ اس کے برعکس شراب بعض شریعتوں میں جائز تھی اور جنت کو باعث عار اور قابل نفرت کاموں سے پاک رکھا گیا ہے ‘ لیکن ابن الولید نہیں مانا اس نے کہا عار کی وجہ یہ ہے کہ اس میں نجاست کے ساتھ تلویث ہے اور جب جنت میں نجاست نہیں ہوگی تو عار بھی نہیں ہوگا ‘ اس کے ثبوت کے لئے دو گواہ کافی ہیں نہ کہ چار اور اس میں صاحبین کا اختلاف ہے۔ (رد المختار ج 3 ص ‘ 156۔ 155 مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت 1407 ھ)
علامہ ابوالحسن علی بن محمد بن حبیب ماوردی شافعی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 450 لکھتے ہیں : عمل قوم لوط سب سے بڑی بےحیائی کا کام ہے اس لئے اس پر سب سے بڑی حد ہے اس میں دو قول ہیں : (1) امام شافعی نے کہا ہے کہ شادی شدہ ہو یا کنوارہ اس کو پتھر مار مار کر قتل کردیا جائے (کتاب الام ج 7 ص 83) حضرت عبداللہ بن عباس ‘ سعید بن مسیب ‘ امام مالک ‘ امام احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے۔ قتل کرنے کے دو طریقے ہیں یا تو رجم کردیا جائے یہ فقہائے بغداد کا قول ہے یا تلوار سے قتل کردیا جائے یہ فقہائے بصرہ کا قول ہے ۔ (2) شادی شدہ کو رجم کردیا جائے اور کنوارے کو سو کوڑے لگائے جائیں اور اس کو ایک سال کے لئے شہر بدر کردیا جائے۔ اس کی حد میں فاعل اور مفعول بہ برابر ہیں البتہ اگر مفعول نابالغ ہو تو اس پر تعزیر ہے ۔ (الحاوی الکبیر ج 17 ص 62 ملخصا مطبوعہ دارالفکر بیروت 1414 ھ)
امام عبد اللہ بن احمد بن قدامہ حنبلی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 620 ھ لکھتے ہیں : امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک عمل قوم لوط کرنے والے کی حد یہ ہے کہ اس کو رجم کردیا جائے خواہ وہ شادی شدہ ہو خواہ کنوارہ۔ امام احمد کا دوسرا قول یہ ہے کہ کنوارے کو کوڑے لگائے جائیں گے اور شادی شدہ کو رجم کیا جائے گا۔ (المغنی ج 9 ص ‘ 58 مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ‘ 1405 ھ)
علامہ ابو عبد اللہ محمد بن عبداللہ بن علی الخرشی المالکی قرطبی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 1101 ھ لکھتے ہیں : جس شخص نے قوم لوط کا عمل کیا ہو تو فاعل اور مفعول بہ دونوں کو رجم کردیا جائے خواہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ‘ فاعل کی اس بات میں تصدیق نہیں کی جائے گی کہ اس نے خوشی سے یہ فعل کیا تھا یا مجبورا اگر مفعول بہ کے ساتھ جبرا یہ فعل کیا گیا یا بچہ کے ساتھ اس کی خوشی سے کیا گیا ہو تو اس کو رجم نہیں کیا جائے گا ‘ اور صرف فاعل کو رجم کیا جائے گا اس کے ثبوت کے لئے بھی چار گواہ ضروری ہیں جس طرح زنا میں چار مرد گواہوں کی شرط ہے ۔ (الخرشی علی مختصر سید خلیل ج 8 ص 82‘ مطبوعہ دارصادر بیروت)
ائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ علیہم اجمعین کے نزدیک اس عمل پر حد ہے اور بہ ظاہر اس کا ثبوت بھی چار گواہوں سے ہوگا۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس پر تعزیر ہے کیونکہ اس کی سزا حد زنا کی طرف معین اور قطعی نہیں ہے نیز امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک حد کا نہ ہونا تخفیف کے لئے نہیں بلکہ تغلیظ کے لئے ہے ۔ (مزید حصّہ سوم میں)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment