فلسفہ شہادت حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما
شہادتِ حسین علیہ السلام تاریخ اسلام کا ایسا زریں و رنگین ورق ہے جس کے جمالِ رنگین کی چمک دمک دنیائے اسلام کو ہمیشہ روشن اور تابناک رکھے گی ۔ اس میں شک نہیں کہ ہر صاحبِ کمال کی خوبی، باعثِ ایجاد عالم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے توسل سے معرضِ وجود میں آئی ہے، لیکن اس باب میں شہادت حسین علیہ السلام کو ایک ایسی خصوصیت حاصل ہے جو دوسری جگہ نہیں پائی جاتی ۔ جس کا مختصر بیان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کونین کی سب نعمتوں کو چار نعمتوں میں جمع فرمادیا ہے۔ سورۂ فاتحہ میں اپنے بندوں کو یہ تلقین فرمائی کہ تم مجھ سے یہ دعا کیا کرو۔
اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ
’’یا اللہ! تو ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت فرما۔ ان لوگوں کے راستے کی جن پر تونے انعام فرمایا۔‘‘
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے انعام کئے ہوئے بندوں کی تفصیل فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا
فَاُولٰئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَ۵ ط (النساء: ۶۹)
’’تو انہیں ان کا ساتھ ملے گا جس پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صلحاء کا۔‘‘
معلوم ہوا کہ نعمت ِ الٰہی نبوت، صدیقیت، شہادت اور صالحیت سے الگ نہیں اور جو چیز ان سے الگ ہو وہ اگرچہ نعمت نظر آئے لیکن درحقیقت نعمت نہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اللہ تعالیٰ نعمتوں کے حصول کا ذریعہ اسی وقت قرار پاسکتے ہیں جب کہ ہرنعمت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دامنِ رحمت میں ہو۔ اگر کوئی نعمت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دامنِ اقدس میں نہ ہو تو کسی صورت میں کسی کو حاصل نہیں ہوسکتی، نبوت، صدیقیت، قطبیت، غوثیت … تمام انبیاء سابقین اور قیامت تک آنے والے صدیقین، اولیاء کاملین علیٰ نبینا علیہم الصلوٰۃ والسلام کو اسی لئے حاصل ہوئی کہ یہ سب نعمتیں دامنِ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں پائی جاتی ہیں، لیکن شہادت بظاہر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نہیں ملی، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے وعدہ فرمایا کہ : وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ۔ (المائدہ: ۶۷،چشتی)
اللہ تعالیٰ آپ کو لوگوں سے بچائے گا اور آپ کی جان پاک لینے پر کسی کو قدرت نہ ہوگی۔ اب اگر کوئی دشمن کسی طرح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو معاذ اللہ شہید کردے تو معاذا اللہ وعدہ الٰہیہ غلط ہوگا اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ غلط ہونا محال ہے، لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا شہید ہونا بھی محال ہوگا۔ اس لئے شبہ پیدا ہوتا ہے کہ شہیدوں کو شہادت کیسے ملی؟ اور شہداء اس نعمت سے کس طرح متمتع ہوئے؟
دراصل شہادت حسنین علیہما السلام اسی شبہ کا حل اور اسی سوال کا جواب ہے۔
یہ امر واضح ہے کہ ہر چیز کی ایک باطنی حقیقت ہوتی ہے اور ایک ظاہری صورت، صورتِ ظاہری حقیقت باطنہ پر دلیل ہوتی ہے لیکن اس کا ظہورِ تام کبھی ابتدائے وجود سے مؤخر اور زمانہ مستقبل میں ہوتا ہے۔ یعنی کمال شہادت کی حقیقت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذاتِ مقدسہ میں پوشیدہ تھی، اور اس کی صورتِ ظاہری اپنے وقت میں بصورت دلیل معرضِ وجود میں آئی، لیکن اس کا ظہورِ تام حضرات حسنین علیہما السلام کی ذواتِ قدسیہ میں ہوا۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جو ہر شہادت حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات اقدس میں اول امر سے موجود تھا اور وہ اس طرح کہ حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : لو ددت ان اقتل فی سبیل اللہ ثم احیٰ ثم اقتل ثم احیٰ ثم اقتل ۔
’’میری دلی خواہش ہے کہ میں اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں۔‘‘
نظر بصیرت سے غور کیا جائے تو یہی وصف جمیل روح شہادت اور حقیقت شہادت ہے۔
جس شخص کے دِل میں مقتول فی سبیل اللہ ہونے کی خواہش نہیں اگر وہ میدانِ جہاد میں کفار کے ہاتھوں قتل ہو بھی جائے تو عنداللہ شہید نہیں او رجس کے دِل میں کلمۃ اللہ کو بلند کرتے ہوئے خدا کی راہ میں شہید اور مقتول ہونے کی محبت اور خواہش ہو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہید ہے، حدیث شریف میں وارد ہوا
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ اِلٰی صُوَرِکُمْ وَلَآ اَعْمَالِکُمْ وَلٰکِنْ یَّنْظُرُ اِلٰی قُلُوْبِکُمْ وَنِیَّاتِکُمْ
’’بیشک اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور عملوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دِلوں اور نیتوں کو دیکھتا ہے۔‘‘
ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عند اللہ کمال شہادت سے متصف ہیں اور شہادت کی حقیقت باطنہ ذات اقدس میں موجو دہے۔
شہادت کی دو ؍۲ قسمیں ہیں
نمبر۱: شہادت جہریہ نمبر۲: شہادت سریہ
عام طور پر شہادت جہریہ کے چار جزو ہوتے ہیں۔
شہید دشمنان دین کے ہاتھوں آلۂ جارحیہ سے زخمی ہو یا اس کے جسم کا کوئی عضو الگ ہوجاتا ہے۔ جسم سے خون بہتا ہے اور وہ راہِ خدا میں مقتول ہوکر جان بحق ہوجاتا ہے۔
اور شہادت سریہ میں دشمن کے ہاتھوں سے زہر دیئے جانے سے یا مثلاً پانی میں ڈوب کر، آگ میں جل کر، عمارت کے نیچے دب کر موت واقع ہوتی ہے۔
مقتول فی سبیل اللہ ہونے کی محبت و خواہش شہادت جہری و سری دونوں کو شامل ہے۔ اس لئے شہادت کی دونوں قسموں کا وجود حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذاتِ مقدسہ میں ثابت ہے۔
رہی صورتِ ظاہری جو حقیقت ِ باطنہ کی دلیل ہے وہ بھی حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات مقدسہ میں پائی گئی۔
شہادت سِرّی کی ظاہری صورت بکری کے اس زہر آلودہ شانہ کا لقمہ تناول فرمانا ہے جو خیبر میں ایک یہودیہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بھیجا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس میں سے ایک لقمہ تناول فرمایا تو اس شانہ سے آواز آئی کہ حضور! مجھ میں زہر ہے آپ تناول نہ فرمائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے پھر اس میں سے نہ کھایا، ایک صحابی اس زہر آلود شانہ کا لقمہ کھانے کی وجہ سے اسی وقت شہید ہوگئے۔ اس میں شک نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے زہر آلود گوشت کا لقمہ کھایا اور اس کا اثر جسم اقدس میں آیا بلکہ اس کا اثر ہمیشہ باقی رہا، لیکن اس کے کھانے سے جس طرح وہ صحابی رضی اللہ عنہ اسی وقت جان بحق ہوگئے۔ اسی طرح حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ واقعہ نہیں ہوا۔ اس لئے کہ ارادۂ الٰہیہ اپنی مراد سے مختلف نہیں ہوسکتا۔ مشیت ایزدی یہی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی جان پاک کسی دشمن کے ہاتھوں نہ جانے پائے۔ آیت کریمہ ’’وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ‘‘ اس پر شاہد عادل ہے ۔ لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم زندہ سلامت رہے، لیکن اس زہر آلود لقمہ کے تناول فرمانے سے اللہ تعالیٰ کی حکمت پوری ہوگئی کہ زہر کا اثر جسم اقدس میں پہنچا اور وفاتِ مقدسہ تک اس کا اثر وجود پاک میں باقی رہا جو مخفی شہادت سریّہ اور اس کی حقیقت باطنہ کی ظاہری صورت قرار پایا اور اس کے لئے دلیل کی حیثیت میں ظاہر ہوا۔ اس حکمت کو اللہ تعالیٰ نے پورا کیا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اللہ تعالیٰ جل مجدہٗ کی تجلیات جلال و جمال کے مشاہدہ میں مستغرق ہوگئے اور بحکم خدا وندی اس میں ایسے مشغول ہوئے کہ اس گوشت میں یہودیہ نے جو زہر ملادیا تھا اس کی طرف بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی توجہ نہ رہی اور اس عدم التفات کی حالت میں ایک لقمہ زہر آلود گوشت کا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے تناول فرمالیا اور حکمتِ خداوندی کا مقتضیٰ پورا ہوگیا۔ اس کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ایک لقمہ کے سوا اب میرے حبیب اس گوشت سے کچھ نہ کھائیں تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سینۂ اقدس میں جو علم رسالت کی تجلیاں جلوہ گر تھیں، اُنہیں اس زہر آلود گوشت میں منعکس فرمایا، جو ایک آواز کی شکل میں ظاہر ہوئیں، جس کے سننے کی طرف اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو متوجہ فرمایا۔
گوشت سے آواز کا پیدا ہونا گوشت کی صفت نہیں بلکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے آفتاب علم کی شعاعیں تھیں جو گوشت کے آئینہ میں چمکیں اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف واپس آئیں، جیسے زمین پر رکھا ہوا شیشہ جب آفتاب کے مقابل ہوکر چمکنے لگے تو اس سے بلند ہونے والی شعاعیں سورج ہی کی طرف واپس جاتی ہیں اور وجود آفتاب کی دلیل ہوتی ہیں۔ بالکل اسی طرح آفتابِ علم مصطفوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شعاعیں اس گوشت میں چمکیں جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سامنے رکھا ہوا تھا اور اللہ تعالیٰ نے انوارِ علم نبوی کی شعاعوں کو قبول کرنے کی قابلیت اس گوشت میں اپنی قدرتِ کاملہ سے اسی طرح پیدا فرمادی تھی جس طرح آئینہ میں انوارِ آفتاب کو قبول کرنے کی صفت و قابلیت پیدا فرمائی ہے۔ زہر آلود گوشت میں منعکس ہونے والی تجلیاں اہل بصیرت کی نظر میں آفتاب علم محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی چمکتی ہوئی دلیل ہیں۔
الغرض خیبر میں زہر آلود گوشت کا لقمہ تناول فرمانا اور اس کے اثرات کا ذاتِ پاک مصطفوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں ہونا شہادت سریہ کی حقیقت کی صورتِ ظاہری اور دلیل قوی ہے۔
اس کے بعد شہادت جہریہ کی طرف آیئے تو اس کی ظاہری صورت بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذاتِ مقدسہ میں ثابت ہے۔
جنگ ِ اُحد میں حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا جسم مبارک زخمی ہوا۔ جسم اقدس سے خون بھی جاری ہوا اور جسم اقدس کا ایک نورانی جزو بھی علیحدہ ہوا، لیکن ایسا جزو مبارک جس کے الگ ہونے سے ذاتِ مقدسہ میں کسی قسم کا عیب نہ آئے۔ ظاہر ہے کہ آنکھ، ناک، کان، ہاتھ، پاؤں یا ان کا کچھ حصہ اگر کٹ جائے تو آدمی عیب دار ہوجاتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم چونکہ محمد ہیں، (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ) جس کے معنی ہیں بہت تعریف کیا ہوا یعنی بے عیب (کیوں کہ عیب کی مذمت کی جاتی ہے جو محمدیت کے خلاف ہے۔ اس لئے مشیت ِ ایزدی کا تقاضا یہ ہوا کہ بدن مبارک کا ایک جزو الگ ہونے سے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذاتِ مقدسہ میں کوئی عیب نہ پیدا ہو چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دندانِ مبارک کا ایک کنارہ جنگ احد میں کسی کافر کے پتھر مارنے سے شکستہ ہوا جس کی وجَہ سے دندان مبارک کی شعاعیں پہلے سے بھی زیادہ ہوگئیں۔ جیسے سچے موتی کا ایک کنارا گر جائے تو اس جگہ کی چمک اور زیادہ ہوجاتی ہے۔ اسی طرح آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا دندانِ مبارک جس کی چمک سے ظلمت ِ شب میں اُجالا ہوجاتا تھا ایک کنارہ گر جانے سے بجائے عیب دار ہونے کے اور زیادہ چمک دار ہوگیا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ دندانِ مبارک جڑ سے اکھڑ گیا تھا۔ یہ غلط ہے اس لئے کہ صحیح حدیث سے یہی ثابت ہے کہ صرف کنارا گرا تھا۔ دندانِ مبارک جڑ سے نہیں ٹوٹا۔ علاوہ ازیں دانت کا جڑ سے الگ ہوجانا حسن و خوبی کے خلاف ہے۔ اس لئے محمدیت کا مقتضیٰ یہی تھا کہ صرف کنارہ گر جائے اور دندانِ مبارک اپنی جگہ بدستور قائم رہے۔
خلاصۃ المرام یہ کہ شہادتِ جہریہ کے اجزائے اربعہ میں سے تین جزو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات اقدس میں جنگ ِ احد کے موقع پر پائے گئے۔ جسمِ اقدس کا زخمی ہونا، جسم اقدس سے خون مبارک کا بہنا، بدن پاک کا ایک جزو لطیف بدن سے جدا ہونا۔ اب اگر چوتھا جزو (حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مقتول ہوکر وفات پاجانا بھی) متحقق ہوجاتا تو وعدہ الٰہیہ ’’وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ‘‘ غلط قرار پاتا اور ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ وعدہ الٰہیہ کا غلط ہونا محال ہے۔ لہٰذا شہادتِ جہریہ کے چوتھے جزو سے اپنے حبیب ا کی ذات مقدسہ کو بچایا اور چار میں سے تین جزو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرمادیئے۔ بنابریں اگر یوں کہہ دیا جائے کہ ’’للاکثر حکم الکل‘‘ اکثر اجزاء کیلئے کل اجزاء کا حکم ہے لہٰذا شہادتِ جہریہ کے تمام اجزاء حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذاتِ مقدسہ میں حکماً پائے گئے تو یہ صحیح ہوگا اور ان اجزاء کا پایا جانا شہادت جہریہ کی صورتِ ظاہری قرار ہوگی اور یہ دلیل ہوگی اس حقیقتِ شہادت کے وجود پر جس کو ہم حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لئے ابھی ثابت کر چکے ہیں۔ معلوم ہوا کہ شہادت سرّی اور جہری دونوں کی حقیقت اور ان کی ظاہری صورت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات مقدسہ میں پائی جاتی ہے جس کا انکار کوئی اہلِ علم منصف مزاج نہیں کرسکتا۔
اس بحث سے فارغ ہوکر ظہور تام کے مسئلہ کو آگے لایئے، ادنیٰ تامل کے بعد آپ اس حقیقت کو سمجھ پائیں گے کہ حضور نور مجسم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات اقدس میں کمالِ شہادت کا ظہور تام ارادۂ الٰہیہ ’’وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ‘‘ کے خلاف تھا۔ اس لئے اس کو مؤخر فرمایا گیا اور حضرات حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہما جن کی ذوات قدسیہ میں اولاد رسول ہونے کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بدن مبارک کے اجزائے کریمہ پائے جاتے ہیں اور یہ دونوں شہزادے مل کر ایک جسم نبوی کی شبیہ کامل قرار پاتے ہیں۔ اس ظہور تام کا مظہر اتم قرار پائے یعنی امام حسن رضی اللہ عنہ زہر سے شہید ہوئے اور امام حسین رضی اللہ عنہ نے میدانِ کربلا میں دشمنانِ دین کے ہاتھوں تلوار سے جامِ شہادت نوش فرمایا اور یہ دونوں شہادتیں اس جوہر شہادت محمدی اور روح شہادت مصطفوی کا ظہور تام قرار پائیں۔
اس پورے بیان کو ایک مثال ہی میں آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ایک درخت کی شاخوں میں دو ؍۲ پھل لگے تو ہر عقلمند یہی کہے گا کہ پھل اگرچہ شاخوں کو لگے ہوئے ہیں مگر یہ شاخوں کے نہیں بلکہ درخت کے پھل ہیں۔ بس یوں کہئے کہ شجر محمدی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ) کی دو شاخیں ہیں۔
ایک حسین رضی اللہ عنہ اور دوسری حسن رضی اللہ عنہ، حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی شاخ میں شہادت سری کا پھل لگا اور حسین رضی اللہ عنہ کی شاخ میں شہادت جہری کا۔ پھل اگرچہ شاخوں میں لگا ہوا ہے لیکن درحقیقت درخت کا پھل ہے۔ شہادتِ حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہما بظاہر حسنین کی ذواتِ مقدسہ میں پائی جاتی ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ شہادت محمدی ہے جس کا ظہور تام حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہما میں ہورہا ہے۔
چونکہ ظہور شہادت کا تعلق جسمانیت سے ہے اس لئے شہادتِ محمدی کا ظہور تام مندرجہ ذیل تین اوصاف کے بغیر نہیں ہوسکتا۔
(۱) مظہر اتم شہادت محمدی ایسا شخص ہونا چاہئے جو جزئیت اور جسمانیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ کمالِ قرب کی صفت رکھتا ہو کیوں کہ شہادت کا تعلق جسم و جسمانیت سے ہے ۔
(۲) شہادت محمدی کا مظہر اتم متصف بالر جولیۃ ہوگا کیوں کہ اس کے بغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات مقدسہ سے مناسبت کاملہ نہیں ہوسکتی۔
(۳) شہادتِ محمدی کا مظہر اتم دو افراد ہونے چاہئیں جو پہلی دو ؍۲ صفتیں مساوی طور پر اپنے اندر رکھتے ہوں ۔
کیوں کہ ایک شہادتِ جہری ہے دوسری سرّی۔ ایک شخص ایک ہی شہادت کا مظہر اتم ہوسکتا ہے۔ لہٰذا دو؍۲ فرد ہونے ضروری ہیں ۔ ادنیٰ تامل سے معلوم ہوسکتا ہے کہ ان امورِ ثلاثہ کا جامع بغیر حضرات حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے اور کوئی نہیں، لہٰذا ان کی خصوصیت باقی تمام مظاہر کی امت محمدی کے مقابلہ میں اظہر من الشمس ہے ۔ (ماخوذ خطباتِ کاظمی)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment