ماہِ محرّم الحرام یا کسی بھی مہینے میں نکاح منع نہیں ہے
محترم قارٸینِ کرام : فتویٰ منہاج القرآن محرم الحرام میں نکاحِ مسنون کرنا یا کسی بھی دن کرنا منع نہیں مگر محرم میں دھوم دھام سے شادی کرنا سمجھ سے بالا تر ہے ۔ (منہاج الفتاویٰ جلد اوّل صفحہ 480)۔(منہاج الفتاویٰ کا اسکن ہم ساتھ دے رہے ہیں)
محترم قارئینِ کرام : یہ ایک شرعی مسلہ ہے شرعی مسلے کو شرعیت کی روشنی میں دیکھیں اسے کسی تعصب کی نظر نہ کریں باقی احترام دس محرم الحرام مدِّ نظر رہے کیونکہ اس دن اہلبیت اطہار اور سیّدنا امام حسین علیہم السّلام اور آپ کے رفقاء رضی اللہ عنہم کی عظیم شہادتیں ہوئی ہیں ۔ جس چیز کے بارے میں کوئی مخصوص حکم نہ ہو تو وہ کام اصل کے اعتبار سے مباح ہوتا ہے ، اور علمائے کرام کے مابین یہ متفق علیہ قاعدہ ہے کہ عادات میں جب تک حرمت کی دلیل نہیں ملتی تو اصل جواز ہی ہے ، چنانچہ کتاب وسنت ، اجماع ، یا قیاس ، اور آثار وغیرہ میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی جو ماہِ محرم میں نکاح وغیرہ سے مانع ہو ، اس لئے اباحتِ اصلیہ کی بنا پر ماہِ محرم یا کسی بھی ماہ میں نکاح جائز ہے ۔
اس بارے میں علمائے کرام کا کم از کم اجماعِ سکوتی ہے ، کہ ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین ، ائمہ کرام علیہم الرّحمہ اور ان کے علاوہ دیگر متقدمین یا متاخرین میں سے کوئی بھی ایسا عالم نہیں ملا جو اس ماہ میں شادی ، بیاہ ، اور منگنی کو حرام یا کم از کم مکروہ ہی سمجھتا ہو ۔
لہٰذا اگر کوئی منع کرتا ہے تو اسکی تردید کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ اسکے پاس کوئی دلیل نہیں ہے ، اور علمائے کرام میں سے کوئی بھی اس کے موقف کا قائل نہیں ہے ہاں احترام دس محرم الحرام مد نظر رہنا چاہیئے ۔
امیر الموٴمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا سے شادی اسی ماہِ مبارک میں ہوئی ، اگرچہ اس قول کے علاوہ دیگر اقوال بھی ملتے ہیں ۔ (تاریخ مدینة الدمشق لابن عساکر، باب ذکر بنیہ وبناتہ علیہ الصلاة والسلام وأزواجہ: ۳/۱۲۸، دار الفکر۔ تاریخ الرسل والملوک للطبري، ذکر ما کان من الأمور في السنة الثانیة، غزوة ذات العشیرة، ۲/۴۱۰، دار المعارف بمصر،چشتی)
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ اور حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کا نکاح سنہ ۲/ ہجری میں ہوا؛ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ مہینہ کون سا تھا، توا س میں تین طرح کے اقوال ملتے ہیں، محرم الحرام، صفر المطفر اور ذوالحجہ۔ ابن عساکر اور طبری رحمہما اللہ نے محرم الحرام کے مہینے میں نکاح ہونے کی روایت کو ترجیح دی ہے ۔
ماہِ محرم کو ماتم اور سوگ کا مہینہ قرار دینا جائز نہیں ، حدیث میں ہے کہ عورتوں کو ان کے خویش واقارب کی وفات پر تین دن ماتم اور سوگ کرنے کی اجازت ہے اور اپنے شوہر کی وفات پر چار ماہ دس دن سوگ منانا ضروری ہے ، دوسرا کسی کی وفات پر تین دن سے زائد سوگ منانا جائز نہیں ، حرام ہے، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : لا یحل لامرأة توٴمن باللہ والیوم الآخر إن تحد علی میت فوق ثلٰث لیال إلا علٰی زوج أربعة أشھر وعشراً
ترجمہ : جو عورت خدا اور قیامت کے دن پر ایمان رکھے، اس کے لیے جائز نہیں کہ کسی کی موت پر تین رات سے زیادہ سوگ کرے؛ مگر شوہر اس سے مستثنیٰ ہے کہ اس کی وفات پر چار ماہ دس دن سوگ کرے“۔ (بخاري، باب: تحد المتوفی عنھا أربعة أشھر وعشراً إلخ، ص: ۸۰۳، ج:۲، پ:۲۲)، ( صحیح مسلم، باب: وجوب الإحداد في عدة الوفات، إلخ، ص: ۴۹۶، ج:۱)، (مشکوٰة، باب العدة، الفصل الأول، ص: ۲۸۸)
ماہ محرم الحرام میں شادی وغیرہ کرنے کو نامبارک اور ناجائز سمجھنا سخت گناہ اور اہل سنت و جماعت کے عقیدے کے خلاف ہے ، اسلام میں جن چیزوں کو حلال اور جائز قرار دیا گیا ہو ، اعتقاداً یا عملاً ان کو ناجائز اور حرام سمجھنے میں ایمان کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے ، مسلمانوں کو چاہیئے کہ روافض اور شیعہ سے پوری احتیاط برتیں ، ان کی رسومات سے علیحدہ رہیں ، ان میں شرکت حرام ہے ۔
قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : مسلم ر اتشبہ بہ کفار وفساق حرام است۔“ یعنی: مسلمانوں کو کفار وفساق کی مشابہت اختیار کرنی حرام ہے ۔ (مالا بد منہ صفحہ نمبر 131)
امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ سے ایک سوال ہوا سوال اور جواب پڑھیئے :
سوال : (1) بعض سنی جماعت عشرہ محرم میں نہ تو دن بھر میں روٹی پکاتے ہیں اور نہ جھاڑو دیتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ بعد دفن تعزیہ روٹی پکائی جائے گی ۔ (2) ان دس دن میں کپڑے نہیں اتارتے ۔ (3) ماہِ محرم میں کوئی بیاہ شادی نہیں کرتے ، اس کا کیا حکم ہے ؟
No comments:
Post a Comment