Wednesday 9 September 2020

خاتم النبیین کا معنیٰ اور تحذیر النّاس کا جواب

1 comments

خاتم النبیین کا معنیٰ اور تحذیر النّاس کا جواب

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : تحذیرالناس کے مصنف قاسم نانوتوی ہیں جن کو بانی دارالعلوم دیوبند بھی کہا جاتا ہے ان کی اس کتاب کا تعارف کروانا نہایت ضروری اس لیے بھی ہے کہ اس کتاب میں خاتم النبیین کے ایک نیا اور بالکل الگ تھلگ معنی پیش کیا گیا جس کا پوری تاریخِ اسلام میں کہیں وجود ہی نہیں ملتا ، اس کتاب کی وجہ سے کافی فتنہ بڑھا اور یہاں تک کہ اسی کتاب کے معانی کی آڑ میں قادیان سے مرزا غلام احمد قادیانی نے دعوی نبوت کر دیا ۔ قصہ مختصر اب جانیے کہ آخر اس کتاب میں ہے کیا ؟ اول تو فقیر قارئین کی معلومات کےلیے تحذیر الناس کی دو جھلکیاں پیش کرتا ہے ۔


آغاز کتاب میں ہی یہ لکھا ہے : سو عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا زمانہ انبیا سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخر نبی ہیں مگر اہلِ فہم پر روشن ہو گا کہ تقدم یا تاخر زمانہ میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں و لکن رسول اللہ و خاتم النبیین فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتا ہے ۔ اس کے بعد صفحہ نمبر ۲۵ پر لکھا ہے : اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا ۔


یہ تحذیرالناس کی وہ عبارات ہیں جن کے رد میں برِصغیر کے علماء نے بکثرت کتب تحریر فرمائیں ان عبارات پر علماء عرب و عجم نے حکم صادر فرمایا ۔ جس کی تفصیل حسام الحرمین اور الصوارم الہندیہ میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ آئیے اس کتاب اور اس کے مصنف کا حال قاسم نانوتوی کے مکتب فکر ہی کے حکیم الامت اشرف علی تھانوی سے ملاحظہ فرمائیں : ⬇


چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ : جس وقت سے مولانا قاسم نانوتوی نے تحذیرالناس لکھی ہے کسی نے ہندوستان بھر میں مولانا کے ساتھ موافقت نہیں کی بجز مولانا عبدالحئی صاحب کے ۔ (الاضافات الیومیہ جلد چہارم صفحہ ۵۸۰ زیر ملفوظ ۹۲۷،چشتی)


یہاں یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ مولانا عبدالحئی لکھنوی بھی کتاب ابطالِ اغلاطِ قاسمیہ کی اشاعت کے بعد اس مسئلہ میں قاسم نانوتوی کے موافق نہ رہے اور تکفیر کے قائل ہو گئے ۔ حوالہ کےلیے قاسم نانوتوی ہی کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے ۔ ڈاکٹر خالد محمود کی کتاب مطالعہ بریلویت جلد ۳ صفحہ ۳۰۰)


تحذیرالناس کی اشاعت کے بعد قاسم نانوتوی کی حالت کیا تھی آئیے ان ہی کے ایک ہم مکتب کی تحریر کردو کتاب ارواح ثلاثہ کی حکایت نمبر ۲۶۵ کا یہ حصہ ملاحظہ کریں : اب مولانا نانوتوی گارڈ رکھتے چھپ کر رہتے سفر کرتے تو نام تک بتانے کا حوصلہ نہ رکھتے ، خورشید حسین بتاتے یہ کتاب مولانا نانوتوی کےلیے مصیبت بن گئی تھی ۔


ایک اور حوالہ قاسم العلوم از نورالحسن راشد کاندھلوی صفحہ ۵۵۰ سے ملاحظہ کریں چنانچہ تحریر ہے کہ : پر خدا جانے ان کو کیا سوجھی جو اس کو چھاپ ڈالا جو یہ باتیں سننا پڑیں ۔


اگر تحذیرا لناس کی عبارات کفریہ نہیں تو پھر اس میں تحریف کیوں کی گئی لیجیے بطور نمونہ ایک حوالہ پیش ہے اصل قدیم تحذیرالناس مطبوعہ کتب خانہ رحیمیہ دیوبند ضلع سہارنپور کے صفحہ نمبر ۲۵ پر اصل عبارت یوں ہے : اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا ۔


اب مکتبہ راشد کمپنی دیوبند یوپی کی شائع کردہ کتاب کی عبارت ملاحظہ فرمائیں : اگر بالفرض آپ کے زمانہ میں یا بالفرض آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد بھی کوئی نبی فرض کیا جائے تو بھی خاتمیت محمدی میں فرق نہ آئے گا ۔


یعنی عبارت میں نبی پیدا ہو کی جگہ نبی فرض کیا جائے کر دیا اس کارستانی سے یہ ثابت ہوا کہ ان کے ہم فکر علماء کے نزدیک بھی یہ عبارت کفریہ تھی جبھی تو اس میں تحریف کر دی ۔


اب آئیے ایک لرزہ خیز انکشاف کی طرف جو کہ انہیں کے حکیم الامت اشرف علی تھانوی نے کیا ، چنانچہ لکھتے ہیں کہ تحذیرالناس کی وجہ سے جب مولانا پر کفر کے فتوے لگے تو جواب نہیں دیا بلکہ یہ فرمایا کہ کافر سے مسلمان ہونے کا طریقہ بڑوں سے یہ سنا ہے کہ کلمہ پڑھنے سے کوئی مسلمان ہو جاتا ہے تو میں کلمہ پڑھتا ہوں ۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۔ (الاضافات الیومیہ جلد ۴ صفحہ ۲۹۳ زیر ملفوظ ۴۵۷،چشتی)


احسن نانوتوی جن کا قاسم نانوتوی کے مکتب فکر میں بڑا مقام ہے انہوں نے بھی مفتی نقی علی خان قادری برکاتی علیہ الرحمہ کی طرف سے فتویٰ کفر صادر ہونے کے بعد مفتی نقی علی خان کے ایک ساتھی رحمت حسین کو یہ لکھا جناب مخدوم و مکرم بندہ دام مجدیم پس از سلام مسنون التماس ہے مگر مولوی صاحب نے براہ مسافر نوازی غلطی تو ثابت نہ کی اور نہ مجھ کو اس کی اطلاع دی بلکہ اول ہی کفر کا حکم شائع فرما دیا اور تمام بریلی میں لوگ اس طرح کہتے پھرے ۔ خیر میں نے خدا کے حوالے کیا اگر اس تحریر سے میں عنداللہ کافر ہوں تو توبہ کرتا ہوں خدا تعالیٰ قبول کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عاصی محمد احسن ۔ (کتاب مولانا محمد احسن نانوتوی صفحہ ۸۸)(تنبیہ الجہال صفحہ ۱۶،چشتی)


اب آئیے ذرا ذکر ان حضرات کا بھی ہو جائے جن پر یہ الزام دیا جاتا ہے کہ انہوں نے اس کتاب کی تائید کی تھی چنانچہ ان میں سے اول مولانا عبد الحئی کا ذکر اوپر گزر چکا اب کچھ دیگر حضرات کے بارے میں ملاحظہ فرمائیں : ⬇


مولانا عبدالباری فرنگی محلی نے الطاری الداری کی اشاعت کے بعد اپنے سابقہ موقف سے توبہ کی اور امام احمد رضا کے فتوائے تکفیر سے اتفاق کر لیا ۔ (اخبار ہمدم لکھنو ۲۰ مئی ۱۹۲۱)


مولانا معین الدین اجمیری نے ۱۹۱۹ میں مفتی حامد رضا خان سے خط و کتابت میں فتویٰ کفر کی حمایت کی ۔ (محدث اعظم جلد ۱ صفحہ ۱۱۱)


اسی طرح پیر کرم شاہ صاحب علیہ الرحمہ نے غلط فہمی کا شکار ہو کر کتاب کی تعریف اولاً کر دی بعد میں ماہنامہ ضیائے حرم شمارہ اکتوبر ۱۹۸۶ کے صفحہ ۴۹ پر ندامت و افسوس کا اظہار کیا اور صفحہ ۴۴ پر نانوتوی کی عبارت کو خاتم النبیین کے اجماعی مفہوم کے مخالف قرار دیا ۔ مزید ۱۹۷۷ میں سورۃ طلاق کی تفسیر کرتے ہوئے اثر ابن عباس کو موضوع اور من گھڑت قرار دیا ۔ (تفسیر ضیاء القرآن صفحہ ۳۰۸۲)


پیر کرم شاہ صاحب علیہ الرحمہ کے موقف میں آنے والی تبدیلی کی تصدیق ڈاکٹر خالد محمود دیوبندی نے اپنی کتاب مطالعہ بریلویت جلد ۱ صفحہ ۴۱۳ پر بھی کی ہے چنانچہ اس نے لکھا کہ آخر کار پیر کرم شاہ صاحب نے سابقہ موقف چھوڑ کر دیوبندی حضرات کو تکفیر کا صدمہ پہنچایا ہے ۔


حضرت خواجہ قمرالدین سیالوی علیہ الرحمہ کے حوالہ سے بھی یہ مغالطہ پیش کیا جاتا ہے کہ وہ بھی قاسم نانوتوی کی کتاب کے مؤید تھے حالانکہ اس کے حوالے سے آپ کے تکفیری فتویٰ موجود ہیں مزید کتاب دعوت فکر صفحہ ۱۱۰ پر تحریر ہے کہ آپ کو تحذیرالناس پیش کی گئی تو آپ نے قاسم نانوتوی کی تکفیر کر دی ۔


اب ایک سوال کا جواب پیشِ خدمت ہے جو کہ قاسم نانوتوی کے معتقدین اور حامیان نظریہ تحذیرالناس بہت زور و شور سے اٹھاتے ہیں ۔ وہ سوال یہ ہے : بانی دارالعلوم دیوبند مولوی قاسم نانوتوی کی کتاب ''تحذیر الناس'' کی مندرجہ ذیل دونوں عبارتوں کے متعلق بالفرض کے لفظ کے ساتھ جو بات کہی گئی ہے اس پر اعتراض کیوں کر درست ہے ؟ ۔ جب کہ محض کسی چیز کے فرض کر لینے پر حکم نہیں ہوتا ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے ! لو کان فیھما الھۃ الا اللّٰہ لفسدتا ۔ عبارت تحذیر الناس یہ ہے : ⬇


اگر بالفرض آپ کے زمانہ میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے ۔

اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا ۔


جواب : یہ عبارت کفر یوں ہے کہ اس عبارت میں اس بات کا انکار ہے کہ خاتم النبیین کے معنی آخر الانبیاء ہیں ۔ خاتم النبیین کے معنی آخر الانبیاء ہونا ضروریات دین سے ہے ۔ اس پر اجماعِ امت ہے ۔ اور اس عبارت میں اس کا انکار ہے ۔ نانوتوی یہ کہتے ہیں کہ ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سب سے آخری نبی نہیں اور خاتم النبیین کے معنی آخری نبی کے نہیں ۔ بلکہ خاتم بالذات کے ہیں ۔ یعنی نبوت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بلا واسطہ ملی ۔ اس لیے اگر آپ کے زمانے میں یا آپ کے زمانے کے بعد کوئی نبی پیدا ہو تو خاتمیت محمدی میں کوئی فرق نہیں آئے گا ۔ حالانکہ جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم خاتم النبیین بمعنی آخر الانبیاء ہیں تو آپ کے زمانہ میں یا آپ کے زمانے کے بعد کوئی نبی پیدا ہو تو خاتمیت محمدی میں فرق آئے گا بلکہ آپ خاتم ہی نہ ہوں گے کہ جب خاتم بمعنی آخر لیا تو دوسرے کا سوال ہی نہیں ۔ اس کو اور آسان الفاظ میں یوں سمجھیے ایمان یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم خاتم النبیین ہیں اس معنی میں آپ کے زمانے میں یا آپ کے زمانے کے بعد کوئی نبی پیدا ہو تو یہ خاتمیت محمدی کے منافی ہے ۔ اگر منافی نہ ہوتا تو کفر نہ ہوتا ۔ تو جو بات کفر ہے اس کو قرآن کے معنی بتا دیا ہے ۔ اس لیے یہ کلمہ کفر ہوا ۔ اگر مطلقاً یہ شرط وجزا ایمان ہے تو اس معترض سے پوچھیے اگر کوئی اس سے سیکھ کے یہ کہے ۔


''اگر بالفرض زمین و آسمان میں چند خدا ہیں تو بھی اللہ عزوجل کی توحید میں کوئی فرق نہیں آئے گا''۔ یہ کلمہ کفر ہے یا ایمان ؟


اگر ایمان بتائے تو دیوبند بھیج کر اس کا دماغ درست کیجیے اور اگر کفر مانے تو اس سے پوچھیے یہاں بھی اگر ہے یہاں بھی بالفرض ہے ۔ یہ کیوں کر کفر ہوا اور تحذیر الناس میں ''اگر'' اور ''بالفرض'' ہونے کی وجہ سے وہ کیسے دیوبندیوں کا ایمان ہوا ؟


دیوبندیوں نے تحذیر الناس کی عبارت کو آیۃ کریمہ : لوکان فیھما الھۃ الا اللّٰہ لفسدتا ۔ کے مثل مان کر تحذیر الناس کی عبارت کے کفر کو قبول کیا ۔ اس لیے کہ حسب قاعدہ نحو ''لو'' اپنے مدخول کے مثبت کو منفی اور منفی کو مثبت بنا دیتا ہے ۔ اسی وجہ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ زمین و آسمان میں نہ چند معبود ہیں اور نہ زمین و آسمان میں فساد ۔ اب اس قاعدے کی روح سے تحذیر الناس کی عبارت کا مطلب یہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے زمانے میں کہیں کوئی نبی نہیں اور آپ کی خاتمیت باقی نہیں ۔ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں اور خاتمیت محمدی میں فرق آگیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خاتمیت کا باقی رہنا اور اس میں فرق ماننا کفر ہے ۔


بات اصل یہ ہے کہ قاتل ایک قتل چھپانے کےلیے دس قتل کرتا ہے ، چور پکڑے جانے کے اندیشے سے قتل کر ڈالتا ہے ، ایک کفر پر پردہ ڈالنے کی ہر کوشش دوسرے کفر کی جانب کھینچ کر لے جاتی ہے ۔ تحقیق یہ ہے کہ صدق شرطیہ کےلیے صدق مقدم و تالی لازم نہیں ۔ یہ حق ہے ۔ مگر وجود علاقہ لازم ہے ۔ اور قضیہ شرطیہ میں علاقے ہی پر مدار حکم ہے ۔ یہ کہنا سچ ہے ''انسان اگر گدھا ہوتا تو اس کے دم ہوتی ''مگر یہ کہنا غلط ہے کہ'' انسان اگر گدھا ہوتا تو اس کے سینگ ہوتے'' ۔ اس لیے کہ پہلے میں علاقہ درست دوسرے میں نہیں ۔ اب اگر کوئی یہ کہے زید بالفرض اگر گدھا ہوتا تو خدا ہوتا کلمہ کفر ہے ۔ اس لیے کہ یہاں قائل نے جو علاقہ ثابت کیا ہے وہ کفر ہے ۔


اسی طرح تحذیر الناس میں ''اگر'' اور ''بالفرض'' ہوتے ہوئے بھی وہ عبارت اس لیے کفر ہے کہ اس میں جو علاقہ بتایا گیا ہے وہ کفر ہے ۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے زمانے میں یا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے زمانے کے بعد نبی ہونے کو خاتمیت محمدی کے منافی نہیں جانا ۔ حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے زمانے میں یا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے زمانے کے بعد کسی نبی کا پیدا ہونا خاتمیت محمدی کے منافی ہے ۔ اور یہ اجلی بدیہیات اور ضروریات سے ہے ۔ جسے ہر بے پڑھا لکھا سمجھدار مسلمان بھی جانتا ہے ۔ کسی مسلمان سے پوچھیے کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے زمانے میں یا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد کوئی نبی پیدا ہو جائے تو خاتمیت محمدی میں فرق آئے گا کہ نہیں ؟ تو وہ فوراً کہے گا ضرور فرق آئے گا ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم خاتم النبیین کیسے ؟


''اگر'' اور "بالفرض'' کی آڑ تو کسی عیار کی ایجاد ہے کہ عوام اس میں الجھ کر شک میں پڑ جائیں ۔ ورنہ بات صاف ہے تحذیر الناس کی عبارت سے بالکل واضح ہے کہ اس کا قائل حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے زمانے میں یا آپ کے بعد کسی نبی کے پیدا ہونے کو ممکن مانتا ہے اور یہ کفر ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے زمانے میں یا بعد میں نبی پیدا ہونا محال شرعی ہے ۔ یہ آیۃ کریمہ خاتم النبیین کے منافی ہے اس لیے صریح کفر ہے ۔


بہت سی باتیں ایسی ہیں کہ ان کا ممکن ہونا ماننا بھی کفر ہے جیسے ۔ اللہ عزوجل کا شریک ممکن ماننا ۔ قرآن کے بعد کسی آسمانی کتاب کا نزول ممکن ماننا اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے زمانے میں یا آپ کے بعد کسی نبی کو ممکن ماننا کفر ہے ۔ اور تحذیر الناس کی عبارت کا یہی صریح مطلب ہے ۔ اس لیے یہ عبارت بلا شبہ کفرِ صریح ہے ۔


اب مولوی قاسم نانوتوی کی کتاب تحذیر الناس کے متعلق انہی کے پیر بھائی مگر مسلک کے لحاظ سے جلیل القدر سنی بزرگ حضرت شیخ الاسلام علامہ انوار اللہ فاروقی علیہ الرحمہ کی شہرہ آفاق کتاب انوارِ احمدی سے اقتباس پیش کیے جائیں گے جو کہ تنبیہات کے عنوان کے تحت بیان کیے گئے ہیں ۔


''مو لو ی محمد قا سم نانو تو ی دیوبند کے اکا برین میں شامل ہیں ، مولوی قاسم نانوتوی نے اپنی کتاب تحذیرالنا س میں خاتم النبیین کے غلط معانی پیش کرنے کی کوشش کر کے عقیدہ ختم نبوت میں رخنہ اندازی کی نا کا م کوشش کی ، جس کی علمائے اہلسنت ہمیشہ مذمت فرماتے رہے ، زیرِ نظر بحث میں بھی اس کے باطل عقیدہ کو دلائل کے ساتھ رد کیا گیا ہے ۔


عقیدہ خا تم النبیین پر حضرت مولانا محمد انوار اللہ رحمۃ اللہ علیہ مصنف کتا ب ''انوا ر احمدی'' کے علمی دلائل ، ایمانی شواہد ، اور بصیرت افروز تنبیہا ت کی شاندار بحث پڑھنے سے پہلے جامعہ نظامیہ حیدر آباد کے محترم مولانا عبدالحمید صاحب کا یہ حاشیہ پڑھیے تاکہ بحث کے بنیادی گوشوں سے آپ پوری طرح با خبر ہو جائیں ۔ شیخ الجا معہ تحریر فرماتے ہیں ! ''تحذ یرالناس نامی کتاب میں خاتم النبیین کے مسئلے پر (مو لو ی محمد قاسم نانوتوی بانی دارلعلوم دیوبند) نے ایک فلسفیانہ بحث فرمائی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ خاتم النبیین ہونا فضلیت کی بات نہیں ۔ کسی کا مقدم زمانے یا متاخر زمانے یعنی اگلے زمانے یا پچھلے زمانے میں پایا جانا فضلیت سے تعلق نہیں رکھتا ۔ اور اگر بالفرض آپ کے بعد کوئی نبی آجائے تو آپ کی فضلیت پر اس کا کوئی اثر مرتب نہیں ہو گا ۔ کیو نکہ خاتم النبیین ہونے میں امکان ذاتی کی نفی نہیں یعنی آپ کے بعد کسی نبی کا ہونا ممکن ہے ۔


اس شبہ کا ازالہ حضرت مولانا مرحوم نے اپنے اس مضمو ن میں نہایت وضاحت کے ساتھ کیا ہے کہ : ⬇


خاتم النبیین کا وصف آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا خاصہ ہے جو آپ کی ذا ت گرامی کے سا تھ مختص ہے کسی اور میں پایا نہیں جا سکتا ۔ خاتم النبیین کا لقب ازل ہی سے آپ کےلیے مقرر ہے اس کا اطلاق آپ کے سوا کسی اور پر نہیں ہو سکتا کیو نکہ خاتم النبیین کا مفہوم جزئی حقیقی ہے ۔ جزئی حقیقی وہ ہے جس کا اطلاق ایک سے زائد پر عقلاً ممتنع ہے لہٰذا ایسی صورت میں کسی اور خاتم النبیین کا ذاتی امکان باقی نہ رہا ۔


اسی مضمون کو حضرت نے تحذیر الناس کے جواب میں پھیلا کر تحریر فرمایا ہے اور اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ جب اللہ جل شانہ نے آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اپنے کلام قدیم میں خاتم النبیین فرمایا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ازل ہی سے اس صفت خاص کے ساتھ متصف ہیں ۔ ایسا کوئی زمانہ نہیں جو باری تعالیٰ کے علم اور کلام پر مقدم ہو ۔ اور اس میں کوئی اور شخص اس وصف سے متصف ہو سکے ۔ پس خا تم النبیین کی صفت مختصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات گرامی میں منحصر ہے کسی دوسرے کا اس صفت کے سا تھ اتصاف محال ہے ۔


مولوی محمد قاسم نانوتوی کی فلسفیانہ بحث بدعت ہے : اس کے بعد حضرت مولانا نے اس با ت پر تنبیہ فرمائی کہ جو لوگ کل بدعۃ ضلالۃ پڑھ کر ہر نئی بات کو خواہ حسنہ ہو یا سیہ مستوجب دوزخ قرار دیا کرتے ہیں وہ اس سوال کا جواب دیں کہ کیا خاتم النبیین کی فلسفی بحث بدعت نہیں ہے ۔ جو نہ قرآن میں ہے اور نہ اس کے بارے میں کوئی حدیث وارد ہے ، نہ قرونِ ثلاثہ میں ، صحابہ ، تابعین اور تبع تابعین رضی اللہ عنہم نے خاتم النبین پر ایسی کوئی بحث کی ہے ؟


مولوی محمد قاسم نانوتوی کی فلسفیانہ بحث کا نتیجہ : مزید براں اس بدعت قبیحہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ قادیانی نے اس فلسفیانہ استدلال سے اپنی نبوت پر دلیل پیش کی ہے اور شہادت میں مصنف تحذیرالناس کا نام پیش کیا ہے ۔ اب یہ مدعی اور گواہ کے ساتھ اسی بارگاہ میں پیش ہو گا جس نے امت کو تعلیم دی ہے کہ اپنی آوازوں کو نبی کی آوا ز پر بلند مت کر و ۔ بلند کرو گے تو تمہارے سا ر ے اعما ل ضبط کر دئیے جا ئیں گے ۔ (محمد عبد الحمید شیخ جا معہ نظا میہ ، انوارِ احمدی صفحہ ٤۴۲٢،چشتی)


مولوی محمد قاسم نانوتوی کے انکار ختمِ نبوت پر تنبیہا ت : اس حا شیہ کے بعد حضرت مصنف کی وہ زلزلہ فگن تنبیہات ملا حظہ فرمائیں جو لفظ خاتم النبیین کے سلسلے میں تحذیرالنا س کے مصنف کے خلاف انہوں نے صادر فرمائی ہیں : ⬇


پہلی تنبیہ : بعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اگرچہ دوسرے کا خاتم النبیین ہونا محال و ممتنع ہے مگر یہ امتنا ع لغیرہ ہو گا نہ بالذات جس سے امکانِ ذاتی کی نفی نہیں ہو سکتی ۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ وصف خاتم النبیین خاصہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ہے جو دوسرے پر صادق نہیں آ سکتا ۔ اور موضوعلہ ، اس لقب کا ذات آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہے کہ عندالاطلاق کوئی دوسرا اس مفہوم میں شریک نہیں ہو سکتا پس یہ مفہوم جزئی حقیقی ہے ۔ (انوار احمدی صفحہ نمبر ٤٢٢۔چشتی)


دوسری تنبیہ : پھر جب عقل نے بہ تبعیت نقل خاتم النبیین کی صفت کے ساتھ ایک ذات کو متصف مان لیا تو اس کے نزدیک محال ہو گیا کہ کوئی دوسری ذات اس صفت کے سا تھ متصف ہو ۔ اور بحسب منطوق لازم الوثوق مایبدل القول لدیابدالآباد تک کےلیے یہ لقب مختص آنحضر ت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہی کےلیے ٹھہرا تو جزئیت اس مفہوم کی ابدالآباد تک کےلیے ہو گئی ۔ کیونکہ یہ لقب قرآن شریف سے ثابت ہے جو بلا شک قدیم ہے ۔ (انوا ر احمدی صفحہ ۴۳٤)


تیسر ی تنبیہ : اب دیکھا جائے کہ مصدا ق اس صفت کا کب سے معین ہوا ۔ سو ہمارا دعویٰ ہے کہ ابتدائے عالمِ امکان سے جس قسم کا بھی وجود فرض کیا جائے ہر وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس صفتِ مختصہ کے ساتھ متصف ہیں ۔ کیونکہ حق تعالیٰ اپنے کلام قدیم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو خا تم النبیین فر ما چکا ۔ اب کون سا ایسا زمانہ نکل سکے گا ۔ جو اللہ کے وصفِ علم و کلام پر مقدم ہو ؟ ۔ (انوار احمدی صفحہ ٤۴۷،چشتی)


چو تھی تنبیہ : غیر ت عشق محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بڑی چیز ہے ۔ جب اسے جلال آتا ہے تو ایک زلزلہ کی سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے لیکن اسے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تنقیص ذرا بھی برداشت نہیں ۔ مصنف کتاب با وجودیکہ بہت نرم طبیعت کے آدمی ہیں لیکن اس موقعہ پر ان کے قلم کا جلا ل دیکھنے کے قابل ہے ۔ کسی اور خاتم النبیین کے امکان کے سوال پر ان کے ایمان کی غیرت اس درجہ بے قابو ہو گئی ہے کہ سطر سطر سے لہو کی بوند ٹپک رہی ہے ۔ میدانِ وفا میں عشق کو سر بکف دیکھنا ہو تو یہ سطریں پڑھیے ۔ مصنف کتاب ، تحذیرالناس کے مباحث کا محاسبہ کرتے ہوئے تحریر فرما تے ہیں : اب ہم ذرا ان صاحبوں سے پوچھتے ہیں کہ اب وہ خیالا ت کہاں ہیں جو کل بدعۃ ضلالۃ پڑھ پڑھ کر ایک عَالَم کو دوزخ میں لے جا رہے تھے ۔ کیا اس قسم کی بحث فلسفی بھی کہیں قرآن و حدیث میں وارد ہے ؟ یا قرونِ ثلاثہ میں کسی نے کی تھی ۔ پھر ایسی بدعتِ قبیحہ کے مرتکب ہو کر کیا استحقاق پیدا کیا اور اس مسئلہ میں جب تک بحث ہوتی رہے گی اس کا گناہ کس کی گردن پر ہو گا ؟


دیکھیے حضرت جر یر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے حدیث شریف میں وارد ہے کہ حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ! جو شخص اسلام میں کوئی برا طر یقہ نکالے تو اس پر جتنے لوگ عمل کرتے رہیں گے سب کا گناہ اس کے ذمے ہوگا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہو گی ۔ (رواہ مسلم)


لکھتے لکھتے اس مقام پر عشق و ایمان کی غیرت نقطہ انتہا کو پہنچ گئی ہے ۔ غیظ میں ڈوبے ہوئے کلمات کا ذرا تیور ملاحظہ فرمائیے ! تحریر فر ما تے ہیں : بھلا جس طرح حق تعالیٰ کے نزدیک صرف آنحضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم خاتم النبیین ہیں ویسا ہی اگر آپ کے نزدیک بھی رہتے ہیں تو اس میں آپ کا کیا نقصان تھا ۔ کیا اس میں بھی کوئی شرک و بدعت رکھی تھی جو طرح طرح کے شاخسانے نکالے گئے '' یہ تو بتائیے کہ ہمارے حضرت نے آپ کے حق میں ایسی کون سی بدسلوکی کی تھی جو اس کا بدلہ اس طرح لیا گیا کہ فضیلتِ خاصہ میں بھی مسلم ہونا مطلقًا ناگوار ہے ۔ یہاں تک کہ جب دیکھا کہ خود حق تعالیٰ فرما رہا ہے کہ آپ سب نبیوں کے خاتم ہیں تو کمال تشویش ہوئی کہ فضیلت خاصہ ثابت ہوئی جاتی ہے ۔ جب اس کے ابطال کا کوئی ذریعہ دینِ اسلام میں نہ ملا تو فلاسفہ معاندین کی طرف رجوع کیا اور امکانِ ذاتی کی شمشیر دودم (دودھاری تلوار) ان سے لے کر میدان میں آکھڑ ے ہوئے ۔


پانچویں تنبیہ : افسوس ہے اس دھن میں یہ بھی نہ سوچا کہ معتقدین سادہ لو ح کو اس خاتمِ فرضی کا انتظار کتنے کنوئیں جھنکائے گا ۔ معتقدین سادہ لوح کے دلوں پر اس تقریر نا معقول کا اتنا اثر تو ضرور ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خاتمیت میں کسی قدر شک پڑ گیا ۔ چنانچہ بعض اتباع نے اس بنا پر الف لام خاتم النبیین سے یہ بات بنائی کہ حضرت صرف ان نبیوں کے خاتم ہیں جو گزر چکے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد بھی انبیاء پیدا ہو ں گے اور ان کا خا تم کو ئی اور ہو گا ۔


معا ذاللہ اس تقریر نے یہاں تک پہنچا دیا کہ قرآن کا انکار ہونے لگا ۔ ذرا سوچیے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خاتم النبیین ہونے کے سلسلے میں یہ سارے احتمالات حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے روبرو نکالے جاتے تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر کس قدر شاق گزرتا ۔


چھٹی تنبیہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سامنے تورات کے مطالعے کا ارادہ کیا تھا تو اس پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حالت کس قدر متغیر ہو گئی تھی کہ چہرہ مبارک سے غضب کے آثار پیدا تھے ۔ اور باوجود اس خُلقِ عظیم کے ایسے جلیل القدر صحابی پر کتنا عتاب فرمایا تھا جس کا بیان نہیں ۔ جو لوگ تقرب و اخلاص کے مذاق سے واقف ہیں وہی اس کیفیت کو سمجھ سکتے ہیں ۔ پھر یہ فرمایا کہ اگر خود حضرت مو سیٰ میری نبوت کا زمانہ پاتے تو سوائے میری اتباع کے ان کےلیے کوئی چارہ نہ ہوتا ۔


اب ہر شخص با آسانی سمجھ سکتا ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے صحابی با اخلاص کی صرف اتنی حرکت اس قدر ناگوار طبع غیور ہوئی تو کسی زید و عمرو کی اس تقریر سے جو خود خاتمیت محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں شک ڈال دیتی ہے ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو کیسی اذیت پہنچتی ہو گی ۔ کیا یہ ایذار سانی خالی جائے گی ؟ ہرگز نہیں حق تعالیٰ ار شا د فر ماتا ہے ! اِنَّ الَّذِیْنَ یُوْذُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْ لَہ ، لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فِیْ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَ اَعَدَّلَھُمْ عَذَابًا مُّھِیْنًا ۔

ترجمہ : جو لو گ ایذا دیتے ہیں اللہ کو اور اس کے اس کے رسول کو ، لعنت کرے گا اللہ ان پر دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔ اور تیار کر رکھا ہے ان کےلیے ذلت کا عذاب ۔ (انوا ر احمدی صفحہ نمبر ٥٢٢)


الحمد للہ فقیر نے تعصب سے ھٹ کر حقائق و دلائل کی روشنی میں علمی اور مہذب انداز میں تحذیر الناس میں خاتم النبیین کے کیے گئے غلط معنیٰ کا رد پیش کیا ہے دعا ہے اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کےلیے ذریعہ ہدایت اور فقیر کےلیے ذریعہ نجات بنائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

1 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔