آیت مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ وَ الَّذِیْنَ مَعَه اور شانِ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ-وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ تَرٰهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا٘ - سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ - ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرٰةِ - وَ مَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ ﱠ كَزَرْعٍ اَخْرَ جَ شَطْـــهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰى سُوْقِه یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ - وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا۠۔(۲۹)
ترجمہ : محمد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ہیں ا ور آپس میں نرم دل تو انہیں دیکھے گا رکوع کرتے سجدے میں گرتے اللہ کا فضل و رضا چاہتے ان کی علامت اُن کے چہروں میں ہے سجدوں کے نشان سے یہ ان کی صفت توریت میں ہے اور ان کی صفت انجیل میں جیسے ایک کھیتی اس نے اپنا پٹھا نکالا پھر اُسے طاقت دی پھر دبیز ہوئی پھر اپنی ساق پر سیدھی کھڑی ہوئی کسانوں کو بھلی لگتی ہے تاکہ اُن سے کافروں کے دل جلیں اللہ نے وعدہ کیا ان سے جو ان میں ایمان اور اچھے کاموں والے ہیں بخشش اور بڑے ثواب کا ۔
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے تاجدار گولڑہ شریف حضرت پیرسیّد مہر علی شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : آیت مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ وَ الَّذِیْنَ مَعَه اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ (پ۲۶، الفتح: ۲۹) ترجم : مُحَمَّد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ہیں ۔ میں اللہ تعالٰی کی طرف سے خلفائے اربعہ عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی ترتیب خلافت کی طرف واضح اشارہ ہے ۔ چنانچہ وَالَّذِیْنَ مَعَہُ سے خلیفۂ اول حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ مراد ہیں ، اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارسے خلیفۂ ثانی حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ، رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ سے خلیفۂ ثالث حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ، اور تَرَاھُمْ رُکَّعاً سُجَّداً ، اِلَخ سے خلیفہ رابع حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے صفات مخصوصہ کی طرف اشارہ ہے کیونکہ معیت اور صحبت میں حضرت سیدنا صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ، کفار پر شدت میں حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ، حلم وکرم میں حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اور عبادت واخلاص میں حضرت سیدنا مولائے علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُخصوصی شان رکھتے تھے۔(مِھر منیر، صفحہ نمبر 424 ، 425 ، اللباب فی علوم الکتاب، الفتح:۲۹، ج۱۷، ص۵۱۷،چشتی)
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ : محمد اللہ کے رسول ہیں ۔ اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی پہچان کروائی کہ’’ اللہ وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ‘‘ اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی پہچان کروا رہا ہے کہ محمد مصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔
حکیم الامت حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اگرچہ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صفات بہت ہیں ، لیکن رب تعالیٰ نے انہیں یہاں رسالت کی صفت سے یاد فرمایا اور کلمہ میں بھی یہ ہی وصف رکھا ، دو وجہ سے ، ایک یہ کہ حضور (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ) کا تعلق رب (عَزَّوَجَلَّ) سے بھی ہے اور مخلوق سے بھی ۔ رسول میں ان دونوں تعلقوں کا ذکر ہے یعنی خدا کے بھیجے ہوئے اور مخلوق کی طرف بھیجے ہوئے ۔اگرچہ نبی میں بھی یہ بات حاصل ہے لیکن نبی میں صرف خبر لاناہے اور رسول میں (شریعت و کتاب) خبر ، ہدایات اور انعامات سب لانے کی طرف اشارہ ہے ۔ دوسرے اس لئے کہ و ہ بچھڑوں کو ملانے والے رسول ہی ہوتے ہیں ، جیسے ڈاک کا محکمہ کہ اگر یہ نہ ہوں تو وہ ملک اور وہ شہر کٹ جاویں ، اسی طرح خالق و مخلوق میں تعلق پیدا کرنے والے رسول ہی ہیں کہ اگر ان کا واسطہ درمیان میں نہ ہو تو خالق و مخلوق میں کوئی تعلق نہ رہے ، حضور (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ) اللہ (عَزَّوَجَلَّ) کے رسول ہیں کہ اُس کی نعمتیں ہم تک پہنچاتے ہیں اور ہمارے رسول ہیں کہ ہماری درخواستیں بارگاہِ رب میں پیش فرماتے ہیں اور ہمارے گناہ وہاں پیش کر کے معاف کراتے ہیں ، جو کہے کہ ہم خود رب (عَزَّوَجَلَّ) تک پہنچ جائیں گے وہ درپردہ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی رسالت کا منکر ہے ، اگر ہم وہاں خود پہنچ جاتے تو رسول کی کیا ضرورت تھی ، رب (عَزَّوَجَلَّ) غنی ہو کر بغیر واسطہ ہم سے تعلق نہیں رکھتا تو ہم محتاج اور ضعیف ہو کر (واسطے کے بغیر) رب تعالیٰ سے تعلق کیسے رکھ سکتے ہیں ۔ ( شان حبیب الرحمن، ص ۲۱۸)
وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ : اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ، آپس میں نرم دل ہیں ۔ آیت کے اس حصے سے اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے صحابہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے اَوصاف بیان فرما کر ان کی پہچان کروائی ہے ،چنانچہ ارشادفرمایا کہ جو لوگ میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت ہیں اور ایک دوسرے پر مہربان ہیں ۔
صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی کافروں پر سختی
انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ اپنے محبوب کے دشمنوں سے نفرت کرتا اور ان پر سختی کرتا ہے اور اس میں بھی جس کی محبت جتنی زیادہ ہو ا س کی اپنے محبوب کے دشمن سے نفرت اور سختی بھی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے اور یہ چیزاس کے عشق و محبت کی علامات میں سے ایک اہم علامت شمار کی جاتی ہے ۔صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ وہ مبارک ہستیاں ہیں جن کا اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے عشق و محبت بے مثال اور لا زوال ہے اور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذات ِگرامی انہیں اپنے مال ،اولاد ،اہل و عیال حتّٰی کہ اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب اور عزیز تھی اور اسی بے انتہاء عشق و محبت کا یہ نتیجہ تھا کہ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ اللہ تعالیٰ اور ا س کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے دشمنوں یعنی کفار سے سخت نفرت کرتے اور ان پر انتہائی سختی فرمایا کرتے تھے اور ان کے اسی عمل کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ان کے ایک وصف کے طور پر بیان فرمایاہے کہ میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے صحابہ کا ایک وصف یہ ہے کہ وہ کافروں پر سخت ہیں ۔
عمومی طور پر تما م صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ ہی کافروں پر سختی فرمایا کرتے تھے البتہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اس معاملے میں سب سے زیادہ مشہور تھے ، حتّٰی کہ شیطان جیسا بدترین کافر بھی آپ کی سختی سے ڈرتا تھا ، یہاں آپ کی اس سیرت سے متعلق تین واقعات کا خلاصہ ملاحظہ ہوں :
(1) غزوہ ٔبدر کے بعدآپ نے یہ رائے پیش کی کہ سارے کافر قیدی قتل کر دئیے جائیں اورآپ کی اس رائے کی تائید میں قرآنِ مجید کی آیات نازل ہوئیں ۔
(2) بشر نامی منافق نے سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فیصلہ ماننے سے انکار کیا تو آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسے قتل کر دیا اور فرمایا جو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ سے راضی نہ ہو اُس کا میرے پاس یہ فیصلہ ہے ۔
(3) جب منافقوں کا سردار عبداللہ بن اُبی مر گیا تو حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی رائے یہ تھی اس کی نمازِ جنازہ نہ پڑھی جائے اور اس کی قبر پر نہ جایا جائے، اس کی تائید میں بھی قرآنِ مجید کی آیت نازل ہوئی ۔
صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی باہمی نرم دلی
اس سے پہلے اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے دشمنوں کے ساتھ صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے سلوک کا حال بیان ہوا اور اب اللہ تعالیٰ اور ا س کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے کامل محبت کرنے والوں کے باہمی سلوک کا حال ملاحظہ ہو،چنانچہ ان کا یہ وصف بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ وہ آپس میں نرم دل ہیں ۔صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ آپس میں ایسے نرم دل اورایک دوسر ے کے ساتھ ایسے محبت و مہربانی کرنے والے تھے جیسے ایک باپ اپنے بیٹے کے ساتھ کرتا ہے اور ان کی یہ ایمانی محبت اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ جب ایک صحابی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ دوسرے کو دیکھتے تو فرطِ محبت سے مصافحہ اورمعانقہ کرتے ۔
صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی اس سیرت میں دیگر مسلمانوں کے لئے بھی نصیحت ہے کہ ایک مسلمان اپنے مسلمان بھائی سے نفرت نہ کرے اور اس کے ساتھ سختی سے پیش نہ آئے بلکہ شفقت و نرمی سے پیش آئے اوراس کے ساتھ مہربانی بھرا سلوک کرے ۔حدیثِ پاک میں ہے کہ تم مسلمانوں کو آپس کی رحمت ،باہمی محبت اور مہربانی میں ایک جسم کی طرح دیکھو گے کہ جب ایک عُضْوْ بیمار ہوجائے تو سارے جسم کے اَعضاء بے خوابی اور بخار کی طرف ایک دوسرے کو بلاتے ہیں ۔ ( بخاری، کتاب الادب، باب رحمۃ النّاس والبہائم، ۴/۱۰۳، الحدیث: ۶۰۱۱) اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو آپس میں شفقت و نرمی سے پیش آنے اور ایک دوسرے پر مہربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین ۔
تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا : تُو انہیں رکوع کرتے ہوئے ،سجدے کرتے ہوئے دیکھے گا ۔ یعنی صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کثرت سے اور پابندی کے ساتھ نمازیں پڑھتے ہیں اسی لئے کبھی تم انہیں رکوع کرتے اور کبھی سجدہ کرتے ہوئے دیکھو گے اوراس قدر عبادت سے ان کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی رضاحاصل کرنا ہے ۔ (تفسیر خازن، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۹، ۴/۱۶۲،)(تفسیر روح البیان، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۹، ۹/۵۷،چشتی)
صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی عبادت کا حال
صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ وہ مبارک ہستیاں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی صحبت سے فیضیاب فرمایا اور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ان کی خود تربیت فرمائی جس کی برکت سے یہ حضرات نیک کاموں میں مصروف رہتے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے میں خوب کوشش کیا کرتے تھے ، یہاں بطورِ خاص نماز کے حوالے سے ان کی کوشش ، جذبے اور عمل سے متعلق چند واقعات ملاحظہ ہوں :
(1) جب نماز کا وقت ہوتا تو حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرمایا کرتے : اے لوگو ! اٹھو ، (گناہوں کی) جو آگ تم نے جلا رکھی ہے اسے (نماز ادا کر کے) بجھا دو (کیونکہ نماز گناہوں کی آگ بجھا دیتی ہے) ۔( احیاء علوم الدین، کتاب اسرار الصلاۃ ومہماتہا، الباب الاول، فضیلۃ المکتوبۃ، ۱/۲۰۱)
(2) حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : اگر تین چیزیں نہ ہوتیں (یعنی)اگر میں اللہ تعالیٰ کے لئے اپنی پیشانی کو (سجدے میں ) نہ رکھتا ، یا ایسی مجلسوں میں نہ بیٹھتا جن میں اچھی باتیں اس طرح چنی جاتی ہیں جیسے عمدہ کھجوریں چنی جاتی ہیں یاراہِ خدا میں سفر نہ کرتا تو میں ضرور اللہ تعالیٰ سے ملاقات (یعنی وفات پا جانے) کو پسند کرتا ۔ ( حلیۃ الاولیاء، عمر بن الخطاب، ۱/۸۷، الحدیث: ۱۳۰)
(3) حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ (ممنوع اَیّام کے علاوہ) مسلسل روزہ رکھا کرتے اور رات کے ابتدائی حصے میں کچھ دیر آرام کرتے پھر ساری رات عبادت میں بسر کرتے تھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب صلاۃ التطوع... الخ، من کان یامر بقیام اللیل، ۲/۱۷۳، الحدیث: ۶،چشتی)
(4) حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی زوجہ فرماتی ہیں : آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ساری رات عبادت کرتے اور (بسا اوقات) ایک رکعت میں قرآنِ مجید ختم فرمایا کرتے تھے ۔( معجم الکبیر،سن عثمان ووفاتہ رضی اللّٰہ عنہ، ۱/۸۷، الحدیث:۱۳۰،چشتی)
(5) حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے بارے میں مروی ہے کہ جب نماز کا وقت ہوجاتا تو آپ پر کپکپاہٹ طاری ہو جاتی اور چہرے کا رنگ بدل جاتا ، آپ سے عرض کی گئی : اے امیر المومنین ! آپ کو کیا ہو گیا ؟ ارشاد فرمایا : ’’اس امانت کی ادائیگی کا وقت آ گیا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں ، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تو انہوں نے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اسے اٹھانے سے ڈر گئے ۔ ( احیاء علوم الدین، کتاب اسرار الصلاۃ ومہماتہا، فضیلۃ الخشوع، ۱/۲۰۶،چشتی)
(6) حضرت نافع رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا رات میں نماز پڑھتے، پھر فرماتے : اے نافع ! کیا سحری کا وقت ہو گیا ؟ وہ عرض کرتے : نہیں ، تو آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ دوبارہ نماز پڑھنا شروع کر دیتے ، پھر (جب نماز سے فارغ ہوتے تو) فرماتے : اے نافع!کیا سحری کا وقت ہو گیا ؟ میں عرض کرتا : جی ہاں ، تو آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بیٹھ کر استغفار اور دعا میں مصروف ہو جاتے یہاں تک کہ صبح ہو جاتی ۔ ( معجم الکبیر، عبد اللّٰہ بن عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہما، ۱۲/۲۶۰، الحدیث: ۱۳۰۴۳،چشتی)
(7) جب قبیلہ بنو حارث کے لوگ حضرت خبیب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو شہید کرنے کے لئے مقامِ تنعیم کی طرف لے گئے تواس وقت آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان سے فرمایا : مجھے دو رکعت نماز پڑھ لینے دو ۔ انہوں نے اجازت دیدی تو آپ نے نماز ادا کرنے کے بعد ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : اللہ تعالیٰ کی قسم ! اگرتم یہ گمان نہ کرتے کہ میں موت سے ڈر کر لمبی نماز پڑھ رہا ہوں تو میں ضرور نماز کو طویل کردیتا ۔ (سیرت نبویہ لابن ہشام، ذکر یوم الرجیع فی سنۃ ثلاث، ص۳۷۱،چشتی)
اللہ تعالیٰ ان عظیم ہستیوں کی مقبول نمازوں کے صدقے ہمیں بھی پابندی کے ساتھ نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔
سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِِ : ان کی علامت ان کے چہروں میں سجدوں کے نشان سے ہے ۔ یعنی ان کی عبادت کی علامت ان کے چہروں میں سجدوں کے اثر سے ظاہر ہے ۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ علامت وہ نور ہے جو قیامت کے دن اُن کے چہروں سے تاباں ہوگا اور اس سے پہچانے جائیں گے کہ انہوں نے دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رضا کےلئے بہت سجدے کئے ہیں ۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ وہ علامت یہ ہے کہ ان کے چہروں میں سجدے کا مقام چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا دمکتا ہوگا ۔ حضرت عطاء رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول ہے کہ رات کی لمبی نمازوں سے اُن کے چہروں پر نور نمایاں ہوتا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے : جو رات میں کثرت سے نماز پڑھتا ہے تو صبح کو اس کا چہرہ خوب صورت ہوجاتا ہے ۔‘‘ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ گرد کا نشان بھی سجدہ کی علامت ہے ۔ (تفسیر خازن، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۹، ۴/۱۶۲، مدارک، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۱۱۴۸،چشتی)
ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرٰةِ - وَ مَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ : یہ ان کی صفت توریت میں ہے اور ان کی صفت انجیل میں ہے ۔ اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ توریت اور انجیل میں صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے بیان کردہ یہ اوصاف مذکور ہیں اور خاص طور پر وہ مثا ل مذکور ہے جو آگے بیان ہو رہی ہے۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ یہاں صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے جو اَوصاف بیان ہوئے یہ توریت میں مذکور ہیں اور انجیل میں مذکور ہے کہ ان کی مثال ایسے ہے جیسے ایک کھیتی ہو جس نے اپنی باریک سی کونپل نکالی ، پھر اسے طاقت دی، پھر وہ موٹی ہوگئی ، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی اوران چیزوں کی وجہ سے وہ کسانوں کو اچھی لگتی ہے ۔
مفسرین کرام علیہم الرّحمہ فرماتے ہیں : کہ یہ اسلام کی ابتداء اور اس کی ترقی کی مثال بیان فرمائی گئی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ تنہا اُٹھے ، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو آپ کے مخلص اَصحاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے تَقْوِیَت دی ۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اَصحاب کی مثال انجیل میں یہ لکھی ہے کہ ایک قوم کھیتی کی طرح پیدا ہوگی ، اس کے لوگ نیکیوں کا حکم کریں گے اور بدیوں سے منع کریں گے ۔ ایک قول یہ ہے کہ کھیتی سے مراد حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہیں اور اس کی شاخوں سے مراد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور (ان کے علاوہ) دیگر مومنین ہیں ۔(تفسیرکبیر ، الفتح ، تحت الآیۃ : ۲۹ ، ۱۰/۸۹)(تفسیر خازن، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۹، ۴/۱۶۲)(تفسیر مدارک ، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۱۱۴۸،چشتی)
حکیم الامت حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : صحابہ کرام (رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ) کو کھیتی سے اس لئے تشبیہ دی کہ جیسے کھیتی پر زندگی کا دار و مدار ہے ایسے ہی ان پر مسلمانوں کی ایمانی زندگی کا مدار ہے اور جیسے کھیتی کی ہمیشہ نگرانی کی جاتی ہے ایسے ہی اللہ تعالیٰ ہمیشہ صحابہ کرام (رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ) کی نگرانی فرماتا رہتا رہے گا ، نیز جیسے کھیتی اولاً کمزور ہوتی ہے پھر طاقت پکڑتی ہے ایسے ہی صحابہ کرام (رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ) اولاً بہت کمزورمعلوم ہوتے تھے پھر طاقتور ہوئے ۔ ( نور العرفان، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۸۲۲،چشتی)
آیت کے اس حصے سے معلوم ہوا کہ جس طرح توریت اور انجیل میں حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نعت شریف مذکور تھی ایسے ہی حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے مَناقِب بھی تھے ۔ اہل سنت و جماعت کا اس بات پر اجماع ہے کہ انبیاء و رسل بشر و رسل ملائکہ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ہیں ، ان کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق ، ان کے بعدحضرت سیدنا عثمان غنی ، ان کے بعد حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا،ان کے بعد عَشَرَۂ مُبَشَّرہکے بقیہ صحابۂ کرام، ان کے بعد باقی اہل بدر، ان کے بعد باقی اہل اُحد، ان کے بعد باقی اہل بیعت رضوان، پھر تمام صحابۂ کرام رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن ۔
لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ : تاکہ ان سے کافروں کے دل جلیں ۔ یعنی صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو کھیتی سے تشبیہ اس لئے دی گئی ہے تاکہ ان سے کافروں کے دل جلیں ۔ (تفسیر مدارک، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۱۱۴۸) اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے جلنا کافروں کا طریقہ ہے ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان کی اُلفت و محبت نصیب فرمائے ، آمین ۔
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ : اللہ نے ان میں سے ایمان والوں اور اچھے کام کرنے والوں سے وعدہ فرمایا ہے ۔ اس آیت کے شروع میں صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے اَوصاف و فضائل بیان کیے گئے اور آخر میں ان کو مغفرت اوراجر عظیم کی بشارت دی جارہی ہے ۔ یاد رہے کہ تمام صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ صاحبِ ایمان اور نیک اعمال کرنے والے ہیں اس لئے یہ وعدہ سبھی صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے ہے ۔
لامہ ابن ابی حاتم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الحَاکِم نے حضرت عبد الرحمن بن عبد الحمید عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الۡمَجِیۡد سے روایت کی ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق وعمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی خلافت کا ذکر کتاب اللہ میں مرقوم ہے۔ پھر انہوں نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی:﴿وَعَدَ اللهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ، وَ لَیُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِیْنَهُمُ الَّذِی ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَیُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا١ؕ یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِكُوْنَ بِیْ شَیْـًٔا١ وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ۵۵﴾(پ۱۸، النور: ۵۵) ترجمۂ کنزالایمان:’’اللہنے وعدہ دیا ان کو جو تم میں سے ایمان لائے اور اچھے کام کئے کہ ضرور انہیں زمین میں خلافت دے گا جیسی ان سے پہلوں کو دی اور ضرور ان کے لئے جما دے گا ان کا وہ دین جو ان کے لئے پسند فرمایا ہے اور ضرور ان کے اگلے خوف کو امن سے بدل دے گا میری عبادت کریں میرا شریک کسی کو نہ ٹھہرائیں اور جو اس کے بعد ناشکری کرے تو وہی لوگ بے حکم ہیں ۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ یہ آیت کریمہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی خلافت پر صادق آتی ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر، تحت سورۃ النور، الآیۃ: ۵۵،ج۶، ص۷۱، تاریخ الخلفاء، ص۵۰،چشتی)
حضرت سیدنا ابوبکر بن عیاش رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بلا شبہ قرآن پاک کی روسے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کے خلیفہ ہیں ۔ پھر آپ نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی : ﴿لِلْفُقَرَآءِ الْمُهٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ اَمْوَالِهِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَ رِضْوَانًا وَّ یَنْصُرُوْنَ اللهَ وَ رَسُوْلَهٗ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَۚ۸﴾(پ۲۸،الحشر:۸)ترجمہ :’’ان فقیر ہجرت کرنے والوں کے لئے جو اپنے گھروں اور مالوں سے نکالے گئے اللہ کا فضل اور اس کی رضا چاہتے اور اللہ و رسول کی مدد کرتے وہی سچے ہیں ۔ پھر فرمایا :’’جسے اللہ1نے صادق فرمایا ہو وہ جھوٹ نہیں بول سکتا ۔
قُلْ لِّلْمُخَلَّفِیْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ اِلٰى قَوْمٍ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ تُقَاتِلُوْنَهُمْ اَوْ یُسْلِمُوْنَ١ۚ فَاِنْ تُطِیْعُوْا یُؤْتِكُمُ اللهُ اَجْرًا حَسَنًا١ۚ وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّیْتُمْ مِّنْ قَبْلُ یُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا۱۶﴾ (پ۲۶، الفتح: ۱۶)
ترجمہ : ان پیچھے رہ گئے ہوئے گنواروں سے فرماؤ عنقریب تم ایک سخت لڑائی والی قوم کی طرف بلائے جاؤ گے کہ ان سے لڑو یا وہ مسلمان ہو جائیں پھر اگر تم فرمان مانو گے اللہ تمہیں اچھا ثواب دے گا اور اگر پھر جاؤ گے جیسے پھر گئے تو تمہیں دردناک عذاب دے گا ۔
حضرت ابن ابی حاتم اور ابن قتیبہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمَا فرماتے ہیں کہ ’’یہ آیت مبارکہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی خلافت پر واضح حجت ہے، کیونکہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نےہی انہیں لڑائی کی طرف بلایا ۔
حضرت شیخ ابو الحسن الاشعری فرماتے ہیں کہ: میں نے ابو العباس ابن شریح کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قرآن پاک کی اس آیت میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی خلافت کاواضح اعلان ہے ۔‘‘ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا : ’’کیونکہ اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد کوئی ایسی جنگ نہیں ہوئی جس کی طرف اوروں نے بلایا ہو سوائے حضرت سیدنا ابوبکرصدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے بلانے کے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے لوگوں کو مرتدین اور مانعین زکوٰۃ سے لڑائی کی دعوت عام دی ۔ لہٰذا یہ آیت مقدسہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی خلافت کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اللہ نے یہ فرمایا ہے کہ جو اس سے روگردانی کرے گا اسے سخت عذاب میں جھونک دیا جائے گا ۔
تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ جو ’’القوم‘‘کی تفسیر یہ بیان کرتے ہیں کہ اس سے مراد اہل فارس اور اہل روم ہیں تب بھی اس آیت کا مصداق حضرت سیدنا ابوبکرصدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہ ہی ٹھہرتے ہیں کیونکہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ان کی طرف لشکر کشی فرمائی اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے بعد اس امر کی تکمیل حضرت سیدنا عمرفاروق اعظم وحضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے ہاتھ مبارک پر ہوئی۔ یہ دونوں حضرات حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی فرع ہیں ۔ (تاریخ الخلفاء، ص۴۹)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment