Tuesday, 1 September 2020

محبّت و شانِ حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما

محبّت و شانِ حسنین کریمین رضی اللہ عنہم
محترم قارئینِ کرام : سیدا لشہداء حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت 5 شعبان 4ھ؁کو مدینہ منورہ میں ہوئی ۔ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم نے آپ کا نام حسین اور شبیر رکھا اور آپ کی کنیت ابو عبد اللہ اور لقب سبط رسول اللہ اور رَیْحَانَۃُ الرَّسُوْل ہے اور آپ کے برادرِ معظم کی طرح آپ کو بھی جنتی جوانوں کا سردار اور اپنا فرزند فرمایا ۔ 10 محرم ۶۱ھ؁ جمعہ کے دن کربلا کے میدان میں یزیدی ستم گاروں نے انتہائی بیدردی کے ساتھ آپ کو شہید کردیا ۔

امامِ حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ : آپ کا نام مبارک “حسن” اور کنیت ”ابو محمد” ہے ۔ آپ کا یہ نام خود نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم نے رکھا تھا ۔ اور آپ سے پہلے دنیا میں کسی بچے کا نام ”حسن” نہیں رکھا گیا ۔

علامہ ابن اثیر جزری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فر ماتے ہیں کہ : حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کا نسب مبارک یہ ہے ۔ حسن بن علی بن ابی طالب بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف القر شی الہاشمی ۔ آپ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم کی صاحبزادی ہیں جو دنیا کی تمام عورتوں کی سردار ہیں ۔

تاریخ پیدا ئش : آپ ۱۵/شعبان المعظم سن ۳/ ہجری میں مدینہ منورہ کی سر زمین پر پیدا ہوئے ۔

نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم کو آپ کے ساتھ کمال رافت و محبت تھی ۔ حدیث شریف میں ا ر شادہوا: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ مَنْ اَحَبَّھُمَا فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَمَنْ اَبْغَضَھُمَا فَقَدْ اَبْغَضَنِیْ ۔
ترجمہ : جس نے ان دونوں (حضرت امام حسن وامام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما) سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے عداوت کی اس نے مجھ سے عداوت کی ۔ (المستدرک للحاکم،کتاب معرفۃ الصحابۃ،باب رکوب الحسن...الخ،الحدیث:۴۸۳۰،ج۴،ص۱۵۶)

جنتی جوانوں کا سردار فرمانے سے مراد یہ ہے کہ جو لوگ راہ خدا عزوجل میں اپنی جوانی میں راہ جنت ہوئے حضرت امامین کریمین ان کے سردار ہیں اور جوان کسی شخص کو بلحاظ اس کے نو عمری کے بھی کہا جاتا ہے اور بلحاظ شفقت بزرگانہ کے بھی، آدمی کی عمر کتنی بھی ہو اس کے بزرگ اس کو جوان بلکہ لڑکا تک کہتے ہیں، شیخ اور بوڑھا نہیں کہتے ہیں اسی طرح بمعنی فُتُوَّت و جوانمردی بھی لفظ ِجوان کا اطلاق ہوتاہے خواہ کوئی شخص بوڑھا ہومگر ہمتِ مردانہ رکھتا ہو وہ اپنی شجاعت وبَسالَت کے لحاظ سے جوان کہلایا جاتا ہے ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر شریف اگرچہ وقتِ وصال پچاس سے زائد تھی ۔ مگر شجاعت و جوانمردی کے لحاظ سے نیز شفقت پدری کے اقتضاء سے آپ کو جوان فرمایا گیا اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ انبیائے کرام و خلفائے راشدین کے سوا امامین جلیلین تمام اہل جنت کے سردار ہیں کیونکہ جوانا نِ جنت سے تمام اہل جنت مراد ہیں اس لئے کہ جنت میں بوڑھے اور جوان کافر ق نہ ہوگا۔ وہاں سب ہی جوان ہوں گے اور سب کی ایک عمر ہوگی ۔ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم نے ان دونوں فرزندوں کو اپنا پھول فرمایا۔ ھُمَا رَیْحَانَیْ مِنَ الدُّنْیَا وہ دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔ (الصواعق المحرقۃ،الباب الحادی عشر،الفصل الثالث، ص۱۹۳)(صحیح مسلم ، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا،باب فی دوام نعیم اھل الجنۃ...الخ،الحدیث :۲۸۳۷،ص۱۵۲۱)(مشکاۃ المصابیح،کتاب المناقب،باب مناقب اہل البیت ...الخ، الحدیث: ۶۱۴۵، ج۲، ص۴۳۷،چشتی)،(رواہ الترمذی)

نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم ان دونوں نونہالوں کو پھول کی طرح سونگھتے او رسینۂ مبارک سے لپٹا تے ۔ (سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب ابی محمد الحسن بن علی ...الخ)

نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم کی چچی حضرت ام الفضل بنت الحارث حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ ایک روزحضورانور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا : یارسول اللہ! صلی اللہ علیک وسلم آج میں نے ایک پریشان خواب دیکھا ، حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیا ؟ عرض کیا : وہ بہت ہی شدیدہے۔ ان کو اس خواب کے بیان کی جرآت نہ ہوتی تھی ۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مکرردریافت فرمایا تو عرض کیا کہ میں نے دیکھا کہ جسد اطہر کاایک ٹکڑا کاٹا گیا اور میری گود میں رکھا گیا۔ ارشادفرمایا :تم نے بہت اچھا خواب دیکھا، ان شاء اللہ تعالیٰ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بیٹا ہوگا او ر وہ تمہاری گود میں دیا جائے گا ۔ ایساہی ہوا ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے اور حضرت ام الفضل کی گود میں دیئے گئے ۔ ام الفضل فرماتی ہیں : میں نے ایک روز حضوراقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر حضرت اما م حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں دیا،کیا دیکھتی ہوں کہ چشم مبارک سے آنسو ؤں کی لڑیاں جاری ہیں۔ میں نے عرض کیا: یانبی اللہ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میرے ماں باپ حضو رپر قربان ! یہ کیا حال ہے ؟ فرمایا : جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور انہوں نے یہ خبر فرمائی کہ میری امت اس فرزند کو قتل کرے گی۔ میں نے کہا: کیااس کو؟ فرمایا:ہاں اور میرے پاس ا س کے مقتل کی سرخ مٹی بھی لائے۔(دلائل النبوۃ للبیہقی،جماع ابواب اخبار النبی...الخ،باب ما روی فی اخبارہ...الخ،ج۶،ص۴۶۸)(رواہ البیہقی فی الدلائل)

عَنْ اُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ قَالَ طَرَقْتُ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم ذَاتَ لَیْلَۃٍ فِیْ بَعْضِ الْحَاجَۃِ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم وَھُوَ مُشْتَمِلٌ عَلٰی شَیْئٍ لَا أَدْرِیْ مَا ھُوَ، فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنْ حَاجَتِیْ قُلْتُ: مَا ھٰذَا الَّذِيْ أَنْتَ مُشْتَمِلٌ عَلَیْہِ، فَکَشَفَہٗ فَإِذَا حَسَنٌ حُسَیْنٌ عَلٰی وَرکَیْہِ فَقَالَ: رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم : (( ھَذَانِ إِبْنَايَ وَاِبْنَا ابْنَتِيْ ، أَللّٰھُمَّ أُحِبُّھُمَا فَأَحِّبَھُمَا وَأَحِبَّ مَنْ یُّحِبُّھُمَا ۔
ترجمہ : سیّدنا اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ: ایک رات میں نے اپنے کسی کام کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو اپنی چادر میں کسی چیز کو لپیٹے ہوئے تھے ۔ مجھے معلوم نہ ہوسکا کہ یہ کیا چیز ہے ۔ جب میں نے اپنی ضرورت پوری کرلی تو پوچھا: اللہ کے رسول! آپ یہ کیا چیز لپیٹے ہوئے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر ہٹائی تو یہ (میرے محبوب ساتھی) حسن و حسین ابناء علی رضی اللہ عنہم تھے۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں کولہوں سے چمٹے ہوئے تھے۔ اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دونوں (حسن و حسین رضی اللہ عنہما ) میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی (فاطمہ رضی اللہ عنہا ) کے بیٹے ہیں ۔ اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان سے محبت رکھ اور اس سے بھی پیار رکھ جو ان دونوں سے انس رکھتا ہے ۔ (صحیح سنن ترمذي، رقم: ۲۹۶۶؍ کتاب المناقب ؍ حدیث: ۳۷۶۹)

نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا : حُسَیْنٌ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْ حُسَیْنٍ ، اَحَبَّ اللّٰہُ مَنْ اَحَبَّ حُسَیْنًا ، حُسَیْنٌ سِبْطٌ مِنَ الْاَسْبَاطِ ۔
ترجمہ : حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، اللہ تعالیٰ اس شخص سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت رکھتا ہے حسین نواسوں میں سے ایک نواسہ ہے ۔ (صحیح سنن ترمذي، رقم: ۲۹۶۹ ؍ کتاب المناقب ؍ حدیث: ۳۷۷۵)
یہ روایت “حسین مني و أنا من حسین، أحب اللہ من أحب حسیناً ، حسین سِبط من الأسباط“ کے متن کے ساتھ عبداللہ بن عثمان بن خثیم عن سعید بن ابی راشد عن یعلی العامری کی سند سے ان کتابوں میں موجود ہے : (مسند الامام احمد (۱۷۲/۴) و فضائل الصحابۃ للامام احمد (ح ۱۳۶۱) مصنف ابن ابی شیبہ (۱۰۲،۱۰۳/۱۲ ح ۳۲۱۸۶) المستدرک للحاکم (۱۷۷/۳ ح ۴۸۲۰ وقال : ھذا حدیث صحیح الاسناد وقال الذھبی: صحیح) صحیح ابن حبان (الاحسان: ۶۹۳۲، دوسرا نسخہ: ۶۹۷۱) المعجم الکبیر للطبرانی (۳۳/۳ ح ۲۵۸۹ و ۲۷۴/۲۲ ح ۷۰۲) سنن ابن ماجہ (۱۴۴) سنن الترمذی (۳۷۷۵ وقال :”ھذا حدیث حسن”،چشتی) ۔ اس حدیث کی سند حسن ہے ۔ اسے ابن حبان، حاکم اور ذہبی نے صحیح اور ترمذی نے حسن قرار دیا ہے ۔ بوصیری نے کہا :”ھذا إسناد حسن، رجالہ ثقات“ ۔ اس کا راوی سعید بن ابی راشد: صدوق ہے۔ حافظ ذہبی نے کہا : صدوق (الکاشف ۲۸۵/۱ ت ۱۹۰۰) اسے ابن حبان، ترمذی اور حاکم نے ثقہ و صدوق قرار دیا ہے ۔ بعض الناس کا یہ کہنا کہ “اس کی توثیق صرف ابن حبان نے کی ہے ” باطل ہے ۔ خلاصہ التحقیق : یہ روایت حسن لذاتہ اور صحیح لغیرہ ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم نے سیدنا حسن بن علی اور سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے بارے میں فرمایا : ھما ریحا نتاي من الدنیا ۔
ترجمہ : وہ دونوں دنیا میں سے میرے دو پھول ہیں ۔ (صحیح البخاری: 3753)

نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا : حسین مني وأنا من حسین، أحبّ اللہ من أحبّ حسیناً، حسین سبط من الأسباط ۔
ترجمہ : حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اللہ اس سے محبت کرے جو حسین سے محبت کرتا ہے، حسین میری نسلوں میں سے ایک نسل ہے ۔ (سنن الترمذی: 3775 وقال: ھذا حدیث حسن، مسند احمد 4/ 172، ماہنامہ الحدیث: 24 ص 48، یہ روایت حسن لذاتہ ہے)

سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ (مباہلے والی) آیت : نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَ کُمْ ۔ اور (مباہلے کے لئے) ہم اپنے بیٹے بلائیں تم اپنے بیٹے بلاؤ۔ (اٰل عمران: 16) ۔ نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم نے علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین (رضی اللہ عنہم اجمعین) کو بلایا اور فرمایا : اَللّٰھُمَّ ھٰؤ لاء أھلي ۔ اے اللہ ! یہ میرے اہل (بیت) ہیں ۔ (صحیح مسلم: 32/2404 وترقیم دارالسلام: 6220،چشتی)

ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ : ایک دن صبح کو نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم باہر تشریف لائے اور آپ کے جسم مبارک پر اونٹ کے کجاوں جیسی دھاریوں والی ایک اونی چادر تھی تو حسن بن علی (رضی اللہ عنہما) تشریف لائے ، آپ نے انھیں چادر میں داخل کر لیا ۔ پھر حسین (رضی اللہ عنہ) تشریف لائے، وہ چادر کے اندر داخل ہو گئے ۔ پھر فاطمہ (رضی اللہ عنہا) تشریف لائیں تو انھیں آپ نے چادر کے اندر داخل کر لیا، پھر علی (رضی اللہ عنہ) تشریف لائے تو انھیں (بھی) آپ نے چادر کے اندر داخل کر لیا ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا : اِنَّمَا یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا ۔ اے اہلِ بیت! اللہ صرف یہ چاہتا ہے کہ تم سے پلیدی دور کر دے اور تمھیں خوب پاک صاف کر دے ۔ [الاحزاب: 33] ۔ (صحیح مسلم: 61/2422 ودارالسلام: 6261)

سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے فرمایا : نساؤہ من أھل بیتہ ولکن أھل بیتہ من حرم الصدقۃ بعدہ ، آپ (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم) کی بیویاں آپ کے اہلِ بیت میں سے ہیں لیکن (اس حدیث میں) اہلِ بیت سے مراد وہ ہیں جن پر آپ کے بعد صدقہ (لینا) حرام ہے یعنی آلِ علی، آلِ عقیل، آلِ جعفر اور آلِ عباس ۔ (صحیح مسلم: 2408 وترقیم دارالسلام:6225)

سیدنا واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم نے اپنی دائیں طرف فاطمہ کو اور بائیں طرف علی کو بٹھایا اور اپنے سامنے حسن و حسین (رضی اللہ عنہما) کو بٹھایا (پھر) فرمایا : اِنَّمَا یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا ۔ اے اہلِ بیت! اللہ صرف یہ چاہتا ہے کہ تم سے پلیدی دُور کر دے اور تمھیں خوب پاک وصاف کردے۔ (الاحزاب: 33) اے اللہ یہ میرے اہلِ بیت ہیں ۔ (صحیح ابن حبان، الاحسان: 6937/6976، الموارد: 2245، ومسند احمد4/107 وصححہ البیہقی2/ 152 والحاکم 3/147 ح 4706 علیٰ شرط الشیخین ووافقہ الذہبی علیٰ شرط مسلم والحدیث سندہ صحیح)

سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم نے علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کے بارے میں فرمایا :’’اللھم ھؤلا ء أھل بیتي‘‘اے میرے اللہ! یہ میرے اہلِ بیت ہیں ۔ (المستدرک 2/ 416 ح 3558 وسندہ حسن وصححہ الحاکم علیٰ شرط البخاری) ۔ مسند احمد (6/292 ح 26508 ب) میں صحیح سند سے اس حدیث کا شاہد (تائیدی روایت) موجود ہے۔

سیدنا علی ، سیدہ فاطمہ ، سیدنا امامِ حسن اور سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہم کے اہلِ بیت میں ہونے کے بیان والی حدیث عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ (ترمذی: 3787 وسندہ حسن) سے مروی ہے ۔

سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم نے ام سلمہ کو فرمایا : ’’أنت من أھلي‘‘ تو میرے اہل (بیت) سے ہے ۔ (مشکل الآثار للطحاوی / تحفۃ الاخیار 8/471 ح6147 وسندہ حسن،چشتی)

مختصر یہ کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ، سیدنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کا اہلِ بیت میں سے ہونا صحیح قطعی دلائل میں سے ہے ، اس کے باوجود بعض بد نصیب حضرات ناصبیت کا جھنڈا اُٹھائے ہوئے یہ کہہ دیتے ہیں کہ ’’یہ اہلِ بیت میں سے نہیں ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا : الحسن والحسین سیدا شباب أھل الجنۃ ۔ حسن اور حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں ۔ (مسند احمد 3/3 ج 10999 عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ وسندہ صحیح، النسائی فی الکبریٰ: 8525 وفی خصائص علی:140)

سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا : اس فرشتے (جبریل علیہ السلام) نے مجھے خوش خبری دی کہ ’’وأن الحسن والحسین سیّدا شباب أھل الجنۃ‘‘ اور بے شک حسن و حسین (رضی اللہ عنہما) اہلِ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں ۔ (ترمذی: 3781 واسنادہ حسن، وقال الترمذی: ’’حسن غریب‘‘ وصححہ ابن حبان، الموارد: 2229 وابن خزیمہ: 1194 والذہبی فی تلخیص المستدرک 3/381)

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا : الحسن والحسین سیدا شباب أھل الجنۃ وأبوھما خیرمنھما ۔
حسن اور حسین اہلِ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں اور ان کے ابا (سیدناعلی رضی اللہ عنہ) ان دونوں سے بہتر ہیں ۔ (المستدرک للحاکم 3/167 ح 4779 وسندہ حسن، وصححہ الحاکم ووافقہ الذہبی)
’’سید اشباب أھل الجنۃ‘‘ والی حدیث متواتر ہے ۔ (نظم المتناثر من الحدیث المتواتر ص 207 ح:235، قطف الازہار المتناثرہ فی الاخبار المتواترہ للسیوطی ص 286 ح: 105، لقط اللآلی المتناثرہ فی الاحادیث المتواترہ للزبیدی ص 149 ح: 45)

نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا : ھذان ابناي وابنا ابنتي، اللھم إنّي أحبھما فأحبھما وأحبّ من یحبّھما ۔ یہ دونوں (حسن وحسین) میرے بیٹے اور نواسے ہیں، اے میرے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تُو بھی ان دونوں سے محبت کر اور جو اِن سے محبت کرے تُو اس سے محبت کر ۔ (الترمذی: 3769 وسندہ حسن وقال: ’’ھذا حدیث حسن غریب‘‘ فیہ موسیٰ بن یعقوب الزمعی حسن الحدیث وثقہ الجمہور،چشتی)

عطاء بن یسار (تابعی) رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھیں ایک آدمی (صحابی) نے بتایا : انھوں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما) کو سینے سے لگا کر فرما رہے تھے : اللھم إني أحبھما فأحبھما ۔ اے اللہ ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو (بھی) ان دونوں سے محبت کر ۔ (مسند احمد 5/ 369 ح 23133 وسندہ صحیح)

حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا : أحبو ا اللہ لما یغذوکم من نعمہ، وأحبوني بحب اللہ، وأحبوا أھل بیتي لحبي ۔ اللہ تمھیں جو نعمتیں کھلاتا ہے اُن کی وجہ سے اللہ سے محبت کرو ، اور اللہ کی محبت کی وجہ سے مجھ سے محبت کرو ، اور میری محبت کی وجہ سے میرے اہلِ بیت سے محبت کرو ۔ (الترمذی: 3789 وسندہ حسن، وقال الترمذی: ’’حسن غریب‘‘ و صححہ الحاکم 3/150 ح 4716 ووافقہ الذہبی وقال المزی: ’’ھذا حدیث حسن غریب‘‘ / تہذیب الکمال 10/199، عبداللہ بن سلیمان النوفلی وثقہ الترمذی والحاکم والذہبی فھو حسن الحدیث)

حضرت سیدنا الامام ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ارقبوا محمدًا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم في أھل بیتہ ، محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم کے اہلِ بیت (سے محبت) میں آپ کی محبت تلاش کرو ۔ (صحیح بخاری: 3751)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا : من أحبھما فقد أحبني ومن أبغضھما فقد أبغضني ۔ جس شخص نے ان (حسن اور حسین رضی اللہ عنہما) سے محبت کی تو یقینا اُس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بُغض کیا تو یقینا اس نے مجھ سے بُغض کیا ۔ (مسند احمد 2/440 ح 9673 وفضائل الصحابۃ لاحمد: 1376 وسندہ حسن، وصححہ الحاکم 3/166 ح 4777 ووافقہ الذہبی / عبدالرحمٰن بن مسعود الیشکری وثقہ ابن حبان 5/106 والحاکم والذہبی وقال الہیثمی فی مجمع الزوائد 5/ 240: ’’وھو ثقۃ‘‘ فحدیثہ لا ینزل عن درجۃ الحسن) ، اس روایت کو دوسری جگہ حافظ ذہبی نے قوی قرار دیا ہے۔ (دیکھئے تاریخ الاسلام 5/95 وقال : ’’وفی المسند بإسناد قوي‘‘)

ایک بار نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم خطبہ دے رہے تھے کہ حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما) تشریف لے آئے تو آپ منبر سے اُتر گئے اور انھیں پکڑ کر اپنے سامنے لے آئے، پھر آپ نے خطبہ شروع کر دیا ۔ (الترمذی: 3774 وسندہ حسن، ابو داود: 1109، النسائی 3/108 ح 1414، وقال الترمذی: ’’ھذا حدیث حسن غریب‘‘ وصححہ الطبری فی تفسیرہ 28/ 81 وابن خزیمہ: 1456، 1801 وابن حبان، موارد الظمآن: 2230 والحاکم 1/287، 4/189 ووافقہ الذہبی، وقال الذہبی فی تاریخ الاسلام 5/97: ’’إسنادہ صحیح‘‘،چشتی)

سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کعبے کے سائے تلے بیٹھے ہوئے تھے کہ حسین بن علی رضی اللہ عنہ کو آتے ہوئے دیکھا تو انھوں نے فرمایا : ھذا أحب أھل الأرض إلٰی أھل السماء الیوم ، یہ شخص آسمان والوں کے نزدیک زمین والوں میں سب سے زیادہ محبوب ہے ۔ (تاریخ دمشق 14/ 181 وسندہ حسن، یونس بن ابی اسحاق برئ من التدلیس کما فی الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین 66/ 2ص 48)

حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : ایک دن میں ننبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم کے پاس گیا تو (دیکھا) آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں ۔ میں نے کہا : اے اللہ کے نبی ! کیا کسی نے آپ کو ناراض کر دیا ہے ؟ آپ کی آنکھوں سے آنسو کیوں بہہ رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : بلکہ میرے پاس سے ابھی جبریل (علیہ السلام) اُٹھ کر گئے ہیں ، انھوں نے مجھے بتایا کہ حسین کو فرات کے کنارے قتل (شہید) کیا جائے گا ۔ (مسند احمد 1/85 ح 648 وسندہ حسن، عبداللہ بن نجی وابوہ صدوقان وثقہما الجمہور ولا ینزل حدیثہما عن درجۃ الحسن، انظر نیل المقصود فی تحقیق سنن ابی داود: 227)

حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ : میں نے ایک دن دوپہر کو نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم کو خواب میں دیکھا ، آپ کے بال بکھرے ہوئے اور گرد آلود تھے، آپ کے ہاتھ میں خون کی ایک بوتل تھی ۔ میں نے پوچھا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، یہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ حسین ( رضی اللہ عنہ) اور اُن کے ساتھیوں کا خون ہے ، میں اسے صبح سے اکٹھا کر رہا ہوں ۔ (مسند احمد 1/242 وسندہ حسن، دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو: 10ص 14تا 16، اورشمارہ: 20ص 18تا 23)

اس سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر سخت غمگین تھے ۔

ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم کے پاس حسین بن علی (رضی اللہ عنہ) موجود تھے اور آپ رو رہے تھے ۔ آپ نے فرمایا: مجھے جبریل (علیہ السلام) نے بتایا کہ میری امت اسے میرے بعد قتل کرے گی ۔ (مشیخۃ ابراہیم بن طہمان: 3وسندہ حسن ومن طریق ابن طہمان رواہ ابن عساکر فی تاریخ دمشق 14/192، ولہ طریق آخر عندالحاکم 4/398ح 8202 وصححہ علیٰ شرط الشیخین ووافقہ الذہبی،چشتی)

جب حضرت سیدنا امامِ حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی شہادت کی خبر عراق سے آئی تو حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : عراقیوں پر لعنت ہو ، عراقیوں نے آپ کو قتل کیا ہے ، اللہ انھیں قتل کرے ۔ انھوں نے آپ سے دھوکا کیا اور آپ کو ذلیل کیا ، اللہ انھیں ذلیل کرے ۔ (فضائل الصحابۃ، زوائد القطیعی 2/782 ح 1392 وسندہ حسن، ومسند احمد 6/298 ح 26550 وسندہ حسن)

حضرت سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کو جب شہید کیا گیا تو آپ کا سر مبارک عبید اللہ بن زیاد (ابن مرجانہ ، ظالم مبغوض) کے سامنے لایا گیا تو وہ ہاتھ کی چھڑی کے ساتھ آپ کے سر کو کُریدنے لگا ۔ یہ دیکھ کر سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حسین (رضی اللہ عنہ) نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم کے سب سے زیادہ مشابہ تھے ۔ (صحیح بخاری: 3748)

حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کسی (عراقی) نے مچھر (یا مکھی) کے (حالتِ احرام میں) خون کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا : اسے دیکھو ، یہ (عراقی) مچھر کے خون کے بارے میں پوچھ رہا ہے اور انھوں نے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم کے بیٹے (نواسے) کو قتل (شہید) کیا ہے ۔ (صحیح بخاری: 5994، 3753)

سعد بن عبیدہ (ثقہ تابعی رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ : میں نے حضرت سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کو دیکھا ، آپ ایک کپڑے (برود) کا جُبہ (چوغہ) پہنے ہوتے تھے ۔ عمرو بن خالد الطہوی نامی ایک شخص نے آپ کو تیر مارا جو آپ کے چوغے سے لٹک رہا تھا ۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر 14/214 وسندہ صحیح)

جب حضرت سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر سنی تو امام المومنین حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : ان لوگوں نے یہ کام کر دیا ہے ، اللہ ان کے گھروں یا قبروں کو آگ سے بھر دے ۔ اور وہ (غم کی شدت سے) بے ہوش ہوگئیں ۔ (تاریخ دمشق 14/ 229 وسندحسن)

حضرت سیدہ اُم المومنین اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : میں نے جنوں کو (امام) حسین (رضی اللہ عنہ کی شہادت) پر روتے ہوئے سُنا ہے ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی 3/121 ح 2862، 3/122 ح 2867، فضائل الصحابہ لاحمد 2/776 ح 1373 وسندہ حسن،چشتی)

حضرت سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ (10) محرم (عاشوراء کے دن) اکسٹھ (61) ہجری میں شہید ہوئے ۔ (دیکھئے تاریخ دمشق لابن عساکر 14/237 وھو قول اکثر اہل التاریخ) ، یہ ہفتے (سبت) کا دن تھا ۔ (تاریخ ابی زرعہ الدمشقی: 243 بسند صحیح عن ابی نعیم الفضل بن دکین الکوفی) ، بعض کہتے ہیں کہ سوموار کا دن تھا ۔ (دیکھئے تاریخ دمشق 14/ 236)

بہت سے کفار اپنے کفر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو بُرا کہتے رہتے ہیں مگر رب رحیم انھیں دنیا میں مہلت دیتا رہتا ہے مگر جسے وہ پکڑلے تو اسے چھڑانے والا کوئی نہیں ۔ مشہور جلیل القدر ثقہ تابعی ابو رجاء عمران بن ملحان العطاردی رحمہ اللہ نے جاہلیت کا زمانہ پایا ہے مگر صحابیت کا شرف حاصل نہ ہو سکا ۔ وہ ایک سو بیس (120) سال کی عمر میں ، ایک سو پانچ (105ھ) میں فوت ہوئے ۔ ابو رجاء العطاردی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : علی اور اہلِ بیت کو بُرا نہ کہو ، ہمارے بلہجیم کے ایک پڑوسی نے (سیدنا) حسین رضی اللہ عنہ کو بُرا کہا تو اللہ تعالیٰ نے اسے اندھا کر دیا ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی 3/112 ح 2830 ملخصاً وسندہ صحیح)

تابعیِ صغیر ابراہیم بن یزید النخعی نے فرمایا : اگر میں ان لوگوں میں ہوتا جنھوں نے حسین بن علی (رضی اللہ عنہ) کو قتل (شہید) کیا تھا ، پھر میری مغفرت کر دی جاتی ، پھر میں جنت میں داخل ہوتا تو میں نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم کے پاس گزرنے سے شرم کرتا کہ کہیں آپ میری طرف دیکھ نہ لیں ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی 3/112 ح 2829 وسندہ حسن،چشتی)

آخر میں ان لوگوں پر لعنت ہے جنہوں نے حضرت سیدنا و مالانا و محبوبنا و امامنا امامِ حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو شہید کیا یا شہید کرایا یا اس کے لئے کسی قسم کی معاونت کی ۔ اے اللہ ! ہمارے دلوں کو سیدنا امام حسین بن علی ، تمام اہلِ بیت اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی محبت سے بھر دے ۔ آمین ۔ حضرت سیدنا مولا علی ، حجرت سیدنا امامِ حسین اور اہلِ بیت رضی اللہ عنہم سے ناصبی و خارجی بُغض رکھتے ہیں اور شیعہ ان کے دعویِ محبت میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بُغض رکھتے ہیں اور اہلِ بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کی محبت میں غلو کرتے اور ضروریاتِ دین کا انکار کرتے ہیں ۔

یہ دونوں فریق افراط و تفریط والے راستوں پر گامزن ہیں ۔ اہلِ سنت و جماعت کا راستہ اعتدال اور انصاف والا راستہ ہے ۔ الحمد للہ ۔ اہلِ سنت کے جلیل القدر امام ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید الطبری رحمۃ اللہ علیہ نے شہادتِ امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے تاریخی واقعات کو ابو مخنف وغیرہ کذابین ومتروکین کی سند سے اپنی تاریخ طبری میں نقل کررکھا ہے ۔ یہ واقعات وتفاصیل موضوع اور من گھڑت وغیرہ ہونے کی وجہ سے مردود ہیں لیکن امام طبری رحمۃ اللہ علیہ اس سے بری ہیں کیونکہ انہوں نے سندیں بیان کردی ہیں ۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم کے علاوہ حدیث کی ہر کتاب سے صرف وہی روایت پیش کرنی چاہئے جس کی سند اصولِ حدیث اور اسماء الرجال کی روشنی میں صحیح لذاتہ یا حسن لذاتہ ہو ورنہ پھر خاموشی ہی بہتر ہے ۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی مُسنَد متصل مرفوع تمام احادیث صحیح ہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...