Tuesday 28 February 2023

فضائل و مناقب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 13

0 comments

فضائل و مناقب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 13

بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے یزید پلید کی بیعت کی کا جواب : اکثر رافضیوں اور نیم رافضیوں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یزید پلید کی بیعت کی تھی ۔ اس کی آڑ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی توہین کی جاتی ہے اور سرِ عام گستاخیاں کی جاتی ہیں جس پر ادارے و حکمران خاموش تماشاٸی بنے رہتے ہیں ہم اداروں اور حکمرانوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان گستاخوں کو لگام دیں کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر مسلمانانِ اہلسنت خود انہیں لگام دیں پھر کچھ بھی تمہارے کنٹرول میں نہ رہے گا ۔ پھر مت کہنا قانون ہاتھ میں لے لیا ۔ اس بارے میں پہلے بھی لکھ چکے ہیں ۔ اس مضمون میں مزید تحقیق پیشِ خدمت ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں گستاخیوں اور گستاخوں کے شر و فتنہ سے بچاۓ آمین ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نےیزید پلید کی بیعت کی تھی ان میں چند بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شامل تھے جیسے حضرت عبداللہ بن عمر ، عبد اللہ بن عباس ، ابو سعید خدری ، ابو ایوب انصاری ، ابو عبداللہ انصاری ، جابر بن عبداللہ انصاری ، سلمہ بن اکوع انصاری ، ابو امامہ انصاری ، اسامہ بن زید ، انس بن مالک ، جابر بن سمرہ ، جریر بن عبداللہ ، عبداللہ بن جعفر طیار ، عبداللہ بن عامر ، عدی بن حاتم رضوان اللہ تعالی علیھم عنھم اجمعین شامل تھے ، اور پانچ امہات المونین حضرت حفضہ ، حضرت جویرہ ، حضرت عایشہ صدیقہ ، حضرت ام سلمہ ، اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہن شامل تھیں ۔ اس کے علاوہ کٸی عظیم المرتبت تابعی جن میں حضرت محمد بن الحنفیہ برادر سیدنا حسین رضی اللہ عنہم بھی بعیت میں شامل تھے ۔

اس بات کا کوئی بک ریفرینس دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ میں نے تقریبا 20 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جو نام لکھے ہیں ان کی سن وفات لکھ دیتا ہوں ۔ ان تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کیوں کی اور پھر بیعت کیوں توڑ دی اس مضمون آپ پڑھیں گے ان شاء اللہ :

بیعت کرنے والوں میں سے چند کے اسماۓ مبارکہ

حضرت حفضہ سن 54 ہجری

حضرت جویریہ سن 56 ہجری

حضرت عایشہ سن 58 ہجری

حضرت ام سلمہ سن 59 ہجری

حضرت میمونہ سن 61 ہجری

حضرت عبداللہ بن عمر سن 74 ہجری

حضرت عبداللہ بن عباس حضرت عبداللہ بن زبیر کے دور خلافت میںوفات پائی

حضرت ابو سیعد خدری اموی خلیفہ عبدالمالک کے عہد تک زندہ رہے

حضرت ابوایوب انصاری سن 49 ہجری میں قسطنطیہ کی محاصرے میں وفات پائی

حضرت جابر بن عبداللہ انصاری سن 76 یا 78 ہجری

حضرت سلمہ بن اکوع سن 74 ہجری

حضرت ابو امامہ باہلی سن 62 ہجری

حضرت اسامہ بن زید سن 54 یا 59 ہجری

حضرت انس بن مالک اموی خلیفہ ولید کے عہد تک زندہ رہے

حضرت جابر بن سمرہ سن74 ہجری

حضرت جریی بن عبداللہ سن 54 ہجری

حضرت عبداللہ بن جعفر طیار سن 85 ہجری

حضرت عبداللہ بن عامر سن 59ہجری

حضرت عدی بن حاتم سن 68 ہجری

یاد رہے واقعہ کربلا، حضرت امام حسین کی شہادت سن 61 ہجری میں ہوئی تھی ۔ (رضی اللہ عنہم اجمعین)

اس کے علاوہ مزید کٸی نام ہیں ۔ یہ معلومات فقیر چشتی نے مختلف کتابوں مثلا تاریخ طبری ، البدایہ والنہایہ ، تاریخ ابن خلدون اور تاریخ ابن اثیر سے حاصل کیں ہیں ۔ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یزید کی بیعت کی تو اس وقت یزید پلید کا فسق و فجور ظاہر نہ ہوا تھا جب اس خبیث پلید یزید کے کرتوت ظاہر ہوۓ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیعت توڑ دی : ⬇

محترم قارئینِ کرام : سید الشہداء امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے واقعۂ جانکاہ کی وجہ سے اہل مدینہ یزید کے سخت مخالف ہوگئے اور صحابی ابن صحابی حضرت عبد اللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہما کے دست مبارک پر بیعت کرلئے تو یزید پلید نے ایک فوج مدینہ طیبہ پرچڑھائی کےلیے روانہ کی جس نے اہل مدینہ پر حملہ کیا اور اس کے تقدس کو پا مال کیا اس موقع پر حضرت عبد اللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہما نے اہل مدینہ سے روح پرور خطاب کیا اور اس میں یزید کی خلافِ اسلام عادات واطوار کا ذکر کیا جیسا کہ محدث وقت مؤرخ اسلام محمدبن سعد رحمۃ اللہ علیہ (متوفی230 ھجری) کی طبقات کبری میں اس کی تفصیل موجود ہے : اجمعواعلی عبد الله بن حنظلة فاسندواامرهم اليه فبايعهم علی الموت وقال ياقوم اتقوا الله وحده لاشريک له فوالله ماخرجنا علی يزيد حتی خفنا ان نرمی بالحجارة من السماء ان رجلا ينکح الامهات والبنات والاخوات ويشرب الخمر ويدع الصلوة والله لو لم يکن معی احد من الناس لابليت لله فيه بلاء حسنا ۔ (طبقات کبری جلد 5 صفحہ 66،چشتی)
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہما نے اہل مدینہ سے تادم زیست مقابلہ کرنے کی بیعت لی او رفرمایا : اے میری قوم ! اللہ وحدہ سے ڈرو جس کا کوئی شریک نہیں ، اللہ کی قسم ! ہم یزید کے خلاف اس وقت اُٹھ کھڑے ہوئے جبکہ ہمیں خوف ہوا کہ کہیں ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش نہ ہوجائے ، وہ ایسا شخص ہے جو ماؤں، بیٹیوں اور بہنوں سے نکاح جائزقرار دیتا ہے ، شراب نوشی کرتا ہے ،نماز چھوڑتا ہے ، اللہ کی قسم ! اگر لوگوں میں سے کوئی میرے ساتھ نہ ہوتب بھی میں اللہ کی خاطر اس معاملہ میں شجاعت وبہادری کے جوہر دکھاؤں گا ۔

جب یزید لعین کی بد کرداریاں سامنے آئیں تو بیعت کرنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم بیعت توڑ دی اور یزید کے خلاف اعلان جنگ کیا اور اکثر ان میں سے شہید ہوئے ۔ (تاریخ ابن خلدون جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 550،چشتی)

علامہ ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ (متوفی630 ھجری) کی تاریخ کامل ابن اثیر میں 51 ہجری کے بیان میں ہے وقال الحسن البصری ۔ سکير اخميرا يلبس الحرير ويضرب بالطنابير : حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ یزید کے بارے میں فرماتے ہیں وہ انتہادرجہ کا نشہ باز، شراب نوشی کا عادی تھا ریشم پہنتا اور طنبور ے بجاتا ۔

علامہ ابن کثیر (مولود 700 ھ متوفی 774 ھ) لکھتے ہیں : وکان سبب وقعة الحرةان وفدامن اهل المدينة قدمواعلی يزيد بن معاوية بدمشق ۔ ۔ ۔ فلمار جعوا ذکروا لاهليهم عن يزيد ماکان يقع منه القبائح فی شربه الخمرو مايتبع ذلک من الفواحش التی من اکبر ها ترک الصلوة عن وقتها بسبب السکر فاجتمعوا علی خلعه فخلعوه عند المنبرالنبوی فلما بلغه ذلک بعث اليهم سرية يقدمها رجل يقال له مسلم بن عقبة وانما يسميه السلف مسرف بن عقبة فلما وردالمدينة استباحها ثلاثة ايام فقتل فی غضون هذه الايام بشرا کثيرا ۔
ترجمہ : واقعۂ حرہ کی وجہ یہ ہوئی کہ اہل مدینہ کا وفد دمشق میں یزید کے پاس گیا ،جب وفد واپس ہواتواس نے اپنے گھر والوں سے یزید کی شراب نوشی اور دیگر بری عادتوں اور مذموم خصلتوں کا ذکر کیا جن میں سب سے مذموم ترین عادت یہ ہیکہ وہ نشہ کی وجہ سے نماز کو چھوڑدیتا تھا ،اس وجہ سے اہل مدینہ یزید کی بیعت توڑنے پر متفق ہوگئے او رانہوں نے منبر نبوی علی صاحبہ الصلوۃ والسلام کے پاس یزید کی اطاعت نہ کرنے کا اعلان کیا ،جب یہ بات یزید کو معلوم ہوئی تو اس نے مدینہ طیبہ کی جانب ایک لشکر روانہ کیا جس کا امیر ایک شخص تھا جس کو مسلم بن عقبہ کہا جاتا ہے سلف صالحین نے اس کو مُسرِف بن عقبہ کہا ہے جب وہ مدینہ طیبہ میں داخل ہوا تو لشکر کے لئے تین دن تک اہل مدینہ کے جان و مال سب کچھ مباح قرار دیاچنانچہ اس نے ان تین روز کے دوران سینکڑوں حضرات کوشہید کروایا ۔ (البدایۃ والنہا یۃ جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 262،چشتی)

امام بیقہی رحمۃ اللہ علیہ (مولود384 ھ متوفی458 ھ) کی دلائل النبوۃ میں روایت ہے عن مغيرة قال أنهب مسرف بن عقبة المدينةثلاثة ايام فزعم المغيرة أنه افتض فيها الف عذراء ۔
ترجمہ : حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں مسرف بن عقبہ نے مدینہ ٔطیبہ میں تین دن تک لوٹ مار کی اورایک ہزارمقدس و پاکبازان بیاہی دخترانِ اسلام کی عصمت دری کی گئی ۔ العیاذ باللہ ۔

جبکہ اہل مدینہ کو خوف زدہ کرنے والے کیلئے حدیث شریف میں سخت وعید آئی ہے مسند احمد ، مسند المدنيين میں حدیث مبارک ہے عن السائب بن خلاد ان رسول الله صلی الله عليه وسلم قال من اخاف اهل المدينة ظلماًاخافه الله وعليه لعنة الله والملائکة والناس اجمعين لايقبل الله منه يوم القيامةصرفاولاعدلا ۔
ترجمہ : سیدنا سائب بن خلاد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے اہل مدینہ کو ظلم کرتے ہوئے خوف زدہ کیا اللہ تعالی اس کوخوف زدہ کرے گا او راس پر اللہ کی ، فرشتوں کی اورتمام لوگوں کی لعنت ہے ، اللہ تعالی اس سے قیامت کے دن کوئی فرض یا نفل عمل قبول نہیں فرمائے گا - (مسند احمد ، مسند المدنيين حدیث نمبر 15962)

اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس شخص کاکیا انجام ہوگا جو اہل مدینہ کو صرف خوفزدہ وہراساں ہی نہیں کیا بلکہ مدینہ طیبہ میں خونریزی قتل وغارتگری کیا اور ساری فوج کے لئے وحشیانہ اعمال کی اجازت دیدی ۔

فن عقیدہ میں پڑھائی جانے والی درس نظامی کی مشہور کتا ب شرح عقائد نسفی صفحہ 117 میں علامہ سعد الدین تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا ہے : وبعضهم اطلق اللعن عليه لماانه کفرحين امر بقتل الحسين واتفقواعلی جوازاللعن علی من قتله اوا مربه اواجازبه ورضی به ،والحق ان رضايزيد بقتل الحسين واستبشاره بذلک واهانة اهل بيت النبی صلی الله عليه وسلم مماتواترمعناه وان کان تفاصيله احاداً فنحن لانتوقف فی شانه بل فی ايمانه لعنة الله عليه وعلی انصاره واعوانه ۔
ترجمہ : بعض ائمہ نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کا حکم دینے کی وجہ سے مرتکب کفر قرار دیکر یزید پر لعنت کو جائز رکھا ہے ، علماء امت اس شخص پر لعنت کرنے کے بالاتفاق قائل ہیں جس نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہیدکیا یا شہید کرنے کا حکم دیا یا اسے جائز سمجھا اور اس پر خوش ہوا ، حق یہ ہے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر یزید کا راضی ہونا اس سے خوش ہونا اور اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم کی توہین کرنا ان روایت سے ثابت ہے جو معنوی طور پر متواتر کے درجہ میں ہیں اگرچہ اس کی تفصیلات خبرِ واحد سے ثابت ہیں چنانچہ ہم یزید کے بارے میں توقف نہیں کر سکتے بلکہ اس کے ایمان کے بارے میں توقف کریں گے اس پراور اس کے اعوان و مدگاروں پر اللہ کی لعنت ہو ۔

حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یزید کافر اور لعنتی : ⬇

قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 1225 ھ) جو کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد تھے اورحضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے "اپنے دور کا بیہقی" ہونے کا لقب دیا ، اپنی مشہور رفسیر تفسیرِمظہری میں لکھتے ہیں : یزید اور اس کے ساتھیوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی اور اہل ِبیت کی دشمنی کا جھنڈا انہوں نے بلند کیا اور حضرت حسین کو انہوں نے ظلماً شہید کردیا اور یزید نے دین ِمحمدی کا ہی انکار کردیا اور حضرت حسین کو شہید کر چکا تو چند اشعار پڑھے جن کا مضمون یہ تھا کہ آج میرے اسلاف ہوتے تو دیکھتے کہ میں نے آلِ محمد اور بنی ہاشم سے ان کا کیسا بدلہ لیا ۔ یزید نے جو اشعار کہے تھی ان میں آخری شعر یہ تھا : احمد نے جو کچھ (ہمارے بزرگوں کے ساتھ بدر میں) کیا اگر اولاد سے میں نے اس کا انتقام نہ لیا تو میں بنی جندب سے نہیں ہوں ۔
یزید نے شراب کو بھی حلال قرار دے دیا تھا ۔ شراب کی تعریف میں چند شعر کہنے کے بعد آخری شعر میں اس نے کہا تھا : اگر شراب دین ِاحمد میں حرام ہیں تو (ہونے دو) مسیح بن مریم کے دین (یعنی عیسایت) کے مطابق تم اس کو (حلال سمجھ کر) لے لو ۔ یزید اور اس کے ساتھیوں اور جانشینوں کے یہ مزے ایک ہزار مہینے تک رہے، اس کے بعد ان میں سے کوئی نہ بچا ۔ (تفسیر مظہری عربی جلد 5 صفحہ 271 سورہ 14 آیت 29)،(تفسیر مظہری جلد پنجم صفحہ نمبر 327،چشتی)

یزید بد بخت نے امام حسین رضی اللہ عنہ شہید کروایا اور اسے بدر والے مقتول کفار کا بدلہ قرار دیا،یزید شرابی کو حلال جنات ، حرمت کعبۃ اللہ و مدینۃ المنوّرہ پامال کی غرض کونسا جرم ہے جو اس نے نہ کیا ۔ (تفسیر مظری جلد پنجم صفحہ 645)

نوٹ : ہمیشہ کی طرح دیوبندیوں نے دارالاشاعت کراچی کے ترجمہ میں ڈنڈی مار ہے اور یزید کے اشعار جو قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیے ہیں وہ مکمل طور پر نقل نہیں کئے ۔

یزید ملعون کے کفریہ اشعار یہ ہیں : ⬇

لَعِبَتْ هاشِمُ بِالْمُلْکِ فَلاَ ۔۔۔۔۔۔۔ خَبَرٌ جاءَ وَ لاَ وَحْىٌ نَزَلْ

لَیْتَ اَشْیاخِی بِبَدْر شَهِدُوا ۔۔۔۔۔۔۔ جَزَعَ الْخَزْرَجُ مِنْ وَقْعِ الاَسَلْ

لاََهَلُّوا وَاسْتَهَلُّوا فَرَحاً ۔۔۔۔۔۔۔ وَ لَقالُوا یا یَزِیدُ لاَ تَشَلْ

فَجَزَیْناهُ بِبَدْر مَثَلا ۔۔۔۔۔۔۔ وَ اَقَمْنا مِثْلَ بَدْر فَاعْتَدَلْ

لَسْتُ مِنْ خِنْدِف اِنْ لَمْ اَنْتَقِمْ  ۔۔۔۔۔۔۔ مِنْ بَنِی اَحْمَدَ ما کانَ فَعَلْ

ترجمہ اشعار : اے کاش ہمارے وہ آباء و اجداد (کفّار) جو بدر میں مارے گئے ، وہ زندہ ہوتے تو وہ دیکھ لیتے کہ آل احمد سے ہم نے کیسے انتقام لیا ۔ ہم نے ان کے بزرگوں کو قتل کر کے بدر کا بدلہ چکا دیا ہے ۔ اگر آل احمد سے بدلہ نہ لیا ، تو میں بنی خندف سے نہیں ہوں ، بنی ہاشم نے حکومت کے ساتھ کھیل کھیلا ہے ان پر نہ کوئی وحی نازل ہوئی ہے اور نہ کوئی فرشتہ اتر آیا ہے ۔ (سیره ابن هشام جلد 3 صفحه 143)(تاریخ طبری جلد 7 صفحه 383)(البدایہ والنھایہ ج 8 ص 208)(اخبار الطوال دینوری ص267)(تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 423)(ابن جوزی، المنتظم ،ج 2،ص 199)(ابو الفرج اصبہانی، مقاتل الطالبيين ،ج 1 ،ص 34)(ابن المطهر ،البدء والتاريخ ،ج 1،ص 331،چشتی)(الدولة الأموية للصلابي ،ج 2،ص 256) (البداية والنهاية ،ج 8،ص 192)(تاريخ الطبري ،ج 8،ص 187)(تاريخ الطبري - ،ج 8 ،ص 188)(تفسیر مظہری عربی ، ج 5 ص 271 سورہ 14 آیت 29)(تفسیر مظہری جلد پنجم صفحہ نمبر 327)

سورہ نمبر 24 آیت 55 کی تفسیر میں بھی قاضی ثناءاللہ پانی پتی حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت "ومن كفر بعد ذلك" میں یزید بن معاویہ کی طرف اشارہ ہو۔ یزید نے رسول اللہ کے نواسے کو اور آپ کے ساتھیوں کو شہید کیا۔ یہ ساتھی خاندان ِنبوت کے ارکان تھے ، عزتِ رسول کی بےعزتی کی اور اس پر فخر کیا اور کہنے لگا آج بدر کے دن کا انتقام ہوگیا، اسی نے مدینۃ الرسول پر لشکر کشی کی اوت حرہ کے واقع میں مدینہ کو غارت کیا اور وہ مسجد میں جس کی بناء تقویٰ پر قائم کی گئی تھی اور جس کے جنت کو باغوں میں سے ایک باغ کہا گیا ہے اس کی بے حرمتی کی، اس نے بیت اللہ پر سنگباری کےلیے منجیقیں نصب کرایئں اور اس نے اول خلیفہ رسول حضرت ابو بکر کے نواسے حضرت عبداللہ بن زبیر کو شہید کرایا اور ایسی ایسی نازیبا حرکتیں کیں کہ آخر اللہ کے دین کا منکر ہوگیا اور اللہ کی حرام کی ہوئی شراب کو حلال کردیا ۔ (تفسیر مظہری جلد 8 صفحہ 268)

قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی رحمۃ اللہ علیہ السّیف المسلول میں فرماتے ہیں : یزید پر لعنت کرنا جائز ہے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن سے ثابت کیا ہے اور جو اللہ کو مانتا ہے وہ یزید سے دوستی نہیں کرے علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یزید پر لعنت ہے ، اور یزید کا کفرِ صریح یہ ہے کہ اس نے سرِ امام حسین رضی اللہ عنہ کی توہین کی اور کفریہ اشعار پڑھےایسوں پر اللہ ، تمام فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہو ۔ (السیّف المسلول صفحہ نمبر 488 تا 490)

قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک خط میں تحریر کیا : غرض یہ کہ یزید کافر معتبر روایت سے ثابت ہے ۔ پس وہ مستحقِ لعنت ہے اگرچہ لعنت کرنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے لیکن الحب فی اللہ البغض فی اللہ اس کا متقاضی ہے ۔ (المکتوبات صفحہ نمبر 203) ۔ (مزید حصّہ نمبر 14 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Monday 27 February 2023

فضائل و مناقب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 12

0 comments

فضائل و مناقب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 12

یزید کی بیعت نہ کرنے کے دُوررَس اَثرات : امامِ حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اللہ نے نہ صِرف خوفِ خدا ، تقویٰ و پرہیز گاری ، جرأت و بہادری اور حِلم و بُرْدباری جیسے عظیم اَوصاف سے نوازا تھا بلکہ فِراست ، تَدَبُّر اور دُور اندیشی جیسی اعلیٰ صلاحیتیں بھی عطا فرمائی تھیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ کا یزید کی بیعت نہ کرنا آپ کی فِراست اوردور اندیشی پر دلالت کرتا ہے ، جس کے یہ  اَثرات ظاہر ہوئے : ⬇

حق وباطل میں فرق

امامِ حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت نہ کر کے تاقیامت حق و باطل میں فرق کردیا ۔

نااہل کو مَنْصَب دینے کی مُمانَعَت

آپ کے بیعت نہ کرنے  سے دنیا پر واضح ہو گیا کہ نااہل کو کبھی کوئی منصب نہ دیا جائے اور اگر بالفرض وہ زبردستی کسی عُہدے کو حاصل کرلے تو اہلِ عزیمت کو چاہیے کہ ہرگز اُس کی اِطاعت نہ کریں ۔ فسق و فجورکا دروازہ بند کر دیا : اگر آپ یزید کی بیعت کرلیتے تو اس کی ہربدکاری کے جواز کےلیے آپ کی بیعت سند (یعنی دلیل) ہو جاتی اور شریعتِ اِسلامیہ وملّتِ حنیفہ کا نقشہ مٹ جاتا ۔

نظامِ اِسلام کا تَحَفُّظ

اگرآپ یزید کی بیعت کرلیتے تو یزید آپ کی بہت قدر و منزلت کرتا ، خوب مال و دولت نچھاور کرتا لیکن اِسلام کا نظام درہم برہم ہو جاتا اور ایسا فساد برپا ہوتا جسے بعد میں دور کرنا دُشوار ترین ہوتا ۔

اَحکامِ شرعیَّہ میں برابری

آپ کا یزید کی بیعت نہ کرنا اس کے فِسق و فجور کو واضح کرتا اور اس بات کو پختہ کرتا ہے کہ اَحکامِ شرعیہ ایک عام آدمی و حاکم سب کےلیے برابر ہیں ، جس طرح عام شخص کا فِسق و فجور سے بچنا ضَروری ہے اسی طرح  حاکم کابھی ۔

اِسلامی ریاست کا تَحَفُّظ

امامِ حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی فراست سے جان لیا تھا کہ یزید بیعت کے بعد اِسلامی ریاست کا کیا حال کرے گا اسی لیے آپ نے بیعت نہ کی ، آپ کی شہادت کے بعد یزیدی فوجوں نے مدینۂ منورہ پر لشکرکشی کی ، سینکڑوں صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کو شہید کیا ، مسجدِ نبوی شریف کے ستون سے گھوڑے باندھے ، تین دن تک مسجد میں لوگ نماز سے مشرَّف نہ ہوسکے ، مدینہ میں خوب لوٹ مار کی گئی ۔ (وفاء الوفا جلد 1 صفحہ 134،چشتی)

مکّۂ مکرّمہ پر چڑھائی کی گئی ، پتھر برسائے گئے حتی کہ مسجدُ الحرام کا صحن پتھروں سے بھر گیا ، کعبۃُ اللہ کے غلاف اور چھت کو ان بےدینوں نے جلا دیا اور کعبۃُ اللہ کی بےحرمتی کی ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 167)(سوانح کربلا، صفحہ 178)

قیامِ اَمْن اور رعایا کے حقوق

قیامِ اَمْن اور رعایا کے حقوق پورے کرنا حاکم کی ذمّہ داریوں میں سے اہم ترین ذمّہ داری ہوتی ہے لیکن یزید اور اس کے حواری (ساتھی) قیامِ اَمْن اور رعایا کے حقوق پورے کرنے کے مخالف تھے ، امام ِحسین رضی اللہ عنہ نے اس کی بیعت نہ کر کے پوری دنیا کو قیامِ امن اور رعایا کے حقوق پورے کرنے کا پیغام دیا ۔

قربانی کا درس

امامِ حسین رضی اللہ عنہ  نے اپنی اور اپنے احباب کی جانوں کا نذرانہ راہِ خدا میں پیش کر کے امّتِ مسلمہ کو حق پر قائم رہنے اور ظلم کے سامنے سر نہ جھکانے کا نہ صرف درس (Lesson) دیا بلکہ یہ بھی بتایا کہ دینِ اسلام کی خاطر اپنی جان تک قربان کرنے سے پیچھے نہ ہٹا جائے ۔ راہ ِخدا میں اپنا گھر بار بیوی بچے مال و دولت سب کچھ لُٹانے  کے سبب امامِ حسین رضی اللہ عنہ  اور آپ کے اصحاب کا نام اب تک عزّت و عَظَمت کے ساتھ لیا جاتا ہے اور آئندہ بھی لیا جاتا رہے گا جبکہ یزید اور یزیدیوں کی اب تک مذمت وملامت ہوتی آئی ہے اور تاقیامت اس کا نام تحقیر سے لیا جاتا رہے گا ۔

کرامات امام حسین رضی اللہ عنہ

اللہ عزوجل نے جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کثیر معجزات سے نوازا بلکہ معجزہ بنا کر بھیجا اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے امام حسین رضی اللہ عنہ کو بھی بے شمار کرامات سے نوازا تھا جن کا ظہور میدانِ کربلا میں بھی ہوا ۔ جہاں آپ رضی اللہ عنہ 50 سال سے زائد عمر ہونے کے باوجود شجاعت و بہادری کے ساتھ میدانِ کربلا میں دشمنانِ اہلِ بیت سے جنگ کرتے رہے وہیں آپ رضی اللہ عنہ سے مختلف کرامات ظاہر ہوئیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں : ⬇

ولادتِ با کرامت

حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہم اجمعین سراپا کرامت تھے حتی کہ آپ کی ولاد با سعادت بھی با کرامت ہے۔ حضرت سیدی عارف باللہ نورُ الدّین جامی قدس سرہ السامی "شواہد النبوۃ" میں فرماتے ہیں سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت با سعادت چار شعبان المعظم ۴؁ ھ کو مدینۃ المنورۃ زادھا اللہ شرفا و تعظیما میں منگل کے دن ہوئی۔ منقول ہے کہ امامِ پاک رضی اللہ عنہ کی مدت حمل چھے ماہ ہے۔ حضرت سیدنا یحیٰ علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام اور امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی ایسا بچہ زندہ نہ رہا جس کی مدت حمل چھے ماہ ہوئی ہو ۔ (شواہد النبوۃ صفحہ ۲۲۸، مکتبۃ الحقیقۃ ترکی)​

رُخسار سے انوار کا اظہار

حضرت علامہ جامی قدس سرہ السامی مزید فرماتے ہیں حضرت امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کی شان یہ تھی کہ جب اندھیرے میں تشریف فرما ہوتے تو اآپ رضی اللہ عنہ کی مبارک پیشانی اور دونوں مقدس رخسار سے انوار نکلتے اور قرب و جوار ضیا بار (یعنی روشن) ہو جاتے ۔ (شواہد النبوۃ صفحہ ۲۲۸)

کنویں کا پانی اُبل پڑا

حضرتِ سیدنا امامِ عالی مقام امامِ حُسین رضی اللہ عنہ جب مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ (زادھما اللہ شرفا و تعظیما) کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں حضرت سیدنا ابنِ مُطیع علیہ رحمۃ اللہ البدیع سے ملاقات ہوئی۔ اُنہوں نے عرض کی میرے کنویں میں پانی بہت ہی کم ہے، برائے کرم ! دُعائے بَرَکت سے نواز دیجیے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اُس کنویں کا پانی طلب فرمایا ۔ جب پانی کا ڈول حاضر کیا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے منہ لگا کر اُس میں سے پانی نوش کیا اور کُلّی کی ۔ پھر ڈول کو واپَس کنویں میں ڈال دیا تو کنویں کا پانی کافی بڑھ بھی گیا اور پہلے سے زیادہ میٹھا اور لذیذ بھی ہو گیا ۔ (الطبقات الکبریٰ جلد نمبر ۵ صفحہ نمبر ۱۱۰ دار الکتب العلمیۃ بیروت،چشتی)

گھوڑے نے بد لگام کو آگ میں ڈال دیا

حضرتِ سیدُنا امامِ حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ یومِ عاشُورا یعنی بروز جُمُعَۃُ المبارَک ۱۰ مُحَرَّمُ الحرام ۶۱؁ھ کو یزیدیوں پر اِتمامِ حُجّت کرنے کےلیے جس وَقت میدانِ کربلا میں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اُس وقت آپ رضی اللہ عنہ کے مظلوم قافلے کے خیموں کی حفاظت کےلیے خندق میں روشن کردہ آگ کی طرف دیکھ کر ایک بد زبان یزیدی (مالک بن عُروہ) اِس طرح بکواس کرنے لگا ، ’’ اے حسین ! تم نے وہاں کی آگ سے پہلے یہیں آگ لگا دی ! ‘‘ حضرت سیدنا امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کَذَبتَ یا عَدُوَّ اللہ یعنی اے دشمنِ خدا ! تو جھوٹا ہے ، کیا تجھے یہ گمان ہے کہ معاذ اللہ عزوجل میں دوزخ میں جاؤں گا ! ‘‘ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے قافلے کے ایک جاں نثار جوان حضرت سیدنا مسلم بن عوسجہ رضی اللہ عنہ نے حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہ سے اُس منہ پھٹ بدلگام کے منہ پر تیر مارنے کی اجازت طلب کی ۔ حضرت امام علی مقام رضی اللہ عنہ نے یہ فرما کر اجازت دینے سے انکار کیا کہ ہماری طرف سے حملے کا آغاز نہیں ہونا چاہیے ۔ پھر امامِ تِشنہ کام رضی اللہ عنہ نے دستِ دُعا بلند کر کے عرض کی : اے ربِ قہار! عزوجل اس نابَکار کو عذابِ نار سے قبل بھی اس دنیائے ناپائیدار میں آگے کے عذاب میں مبتلا فرما ۔ فوراً دعا مستجاب (قبول) ہوئی اور اُس کے گھوڑے کا پاؤۢں زمین کے ایک سوراخ پر پڑا جس سے گھوڑے کو جھٹکا لگا اور بے ادب و گستاخ یزیدی گھوڑے سے گرا ، اُس کا پاؤۢں رَکاب میں اُلجھا ، گھوڑا اُسے گھسیٹتا ہوا دوڑا اور آگ کی خندق میں ڈال دیا ۔ اور بد نصیب آگ میں جل کر بھسم ہو گیا ۔ امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ نے سجدہ شکر ادا کیا ، حمد الٰہی بجا لائے اور عرض کی : یا اللہ عزوجل تیرا شکر ہے کہ تُو نے آلِ رسول کے گستاخ کو سزا دی ۔ (سوانحِ کربلا صفحہ ۸۸)

سیاہ بچھو نے ڈنک مارا

گستاخ و بدلگام یزیدی کا ہاتھوں ہاتھ بھیانک انجام دیکھ کر بھی بجائے عبرت حاصل کرنے کے اِس کو ایک اتفاقی امر سمجھتے ہوئے ایک بے باک یزیدی نے بکا: آپ کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کیا نسبت ؟ یہ سن کر قلبِ امام کو سخت ایذا پہنچی اور تڑپ کر دُعاء مانگی : "اے ربِ جبار عزوجل اِس بدگفتار کو اپنے عذاب میں گرفتار فرما ۔" دعا کا اثر ہاتھوں ہاتھ ظاہر ہوا اُس بکواسی کو ایک دم قضائے حاجت کی ضرورت پیش آئی فوراً گھوڑے س اُتر کو ایک طرف کو بھاگا اور برہنہ ہو کر بیٹھا ، ناگاہ ایک سیاہ بچھو نے ڈنک مارا نجاست آلودہ تڑپتا پھرتا تھا ، نہایت ہی ذلت کے ساتھ اپنے لشکریوں کے سامنے اِس بدزبان کی جان نکلی ۔ مگر ان سنگ دلوں اور بے شرموں کو عبرت نہ ہوئی اِس واقِعہ کو بھی ان لوگوںنے اتفاقی امر سمجھ کر نظر انداز کر دیا ۔ (سوانحِ کربلا صفحہ ۸۹)

گستاخِ حُسین پیاسا مرا

یزیدی فوج کا ایک سخت دل مُزنی شخص امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے سامنے آ کر یوں بکنے لگا : دیکھو تو سہی دریائے فُرات کیسا موجیں مار رہا ہے ، خدا کی قسم تمہیں اس کا ایک قطرہ بھی نہ ملے گا اور تم یوں ہی پیاسے ہلاک ہو جاؤ گے ۔ امامِ تشنہ کام رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ رب الانام عزوجل میں عرض کی ، اللہم امتہ عطشانا ۔ یعنی یا اللہ عزوجل اس کو پیاسا مار ۔ امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دعا مانگتے ہی اس بے حیا مزنی کا گھوڑا بدک کر دوڑا مزنی پکڑنے کےلیے اس کے پیچھے بھاگا ، پیاس کا غلبہ ہوا اس شدت کی پیاس لگی کہ العطش ! العطش ! یعنی ہائے پیاس ہائے پیاس ! پکارتا تھا مگر جب پانی اس کے منہ سے لگاتے تھے تو ایک قطرہ بھی نہ پی سکتا تھا یہاں تک کہ اسی شدت پیاس میں تڑپ تڑپ کر مر گیا ۔ (سوانح کربلا صفحہ ۹۰،چشتی)

معلوم ہوا کہ اللہ عزوجل کو امامِ پاک رضی اللہ عنہ کی بے ادبی قطعاً نامنظور ہے ۔ اور آپ رضی اللہ عنہ کا بدگو دونوں جہاں میں مردود و مطرود ہے ۔ گستاخانِ حُسین کو دنیامیں بھی دردناک سزاؤں کا سامنا ہوا اور اس میں یقیناً بڑی عبرت ہے ۔

صدرُ الافاضل حضرت علامہ مولىٰنا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی بعض گستاخانِ حسین کے ہاتھوں ہاتھ ہونےوالے عبرت ناک بد انجام کے واقعات نقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں : فرزندِ رسول کو یہ بات بھی دکھا دینی تھی کہ اس کی مقبولیتِ بارگاہِ حق عزوجل پر اور ان کے قرب و منزلت پر جیسی کہ نصوصِ کثیرہ و احادیثِ شہیرہ شاہد ہیں ایسے ہی ان کے خوارق و کرامات بھی گواہ ہیں ۔ اپنے اس فضل کا عملی اظہار بھی اتمامِ حجت کے سلسلے کی ایک کڑی تھی کہ اگر تم آنکھ رکھتے ہو تو دیکھ لو کہ جو ایسا مستجاب الدعوات ہے اس کے مقابلہ میں آنا خدا عزوجل سے جنگ کرنا ہے ۔ اس کا انجام سوچ لو اور باز رہو مگر شرارت کے مجسمے اس سے بھی سبق نہ لے سکے اور دنیائے ناپائیدار کی حرص کا بھوت جو ان کے سروں پر سوار تھا اُس نے اِنھیں اندھا بنا دیا ۔ (سوانحِ کربلا)

نور کا ستون اور سفید پرندے
امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد آپ کے سرِ منورسے متعدد کرامات کا ظہور ہوا ۔ اہلِ بیت علیہم الرضوان کے قافلے کے بقیہ افراد 11 محرم الحرام کو کوفہ پہنچے جب کہ شہدائے کربلا علیہم الرضوان کے مبارک سر اُن سے ہپلے ہی وہاں پہنچ چکے تھے ۔ امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کا سرِ انور رُسوائے زمانہ یزیدی بدبخت خولی بن یزید کے پاس تھا یہ مردود رات کے وقت کوفہ پہنچا ۔ قصرِ امارت (یعنی گورنر ہاؤس) کا دروازہ بند ہو چکا تھا ۔ یہ سرِ انور کو لے کر اپنے گھر آ گیا ۔ ظالم نے سرِ انور کو بے ادبی کے ساتھ زمین پر رکھ کر ایک بڑا برتن اس پر اُلٹ کر اس کو ڈھانپ دیا اور اپنی بیوی نوار کے پاس جا کر کہا میں تمہارے لیے زمانے بھر کی دولت لایا ہوں وہ دیکھ حسین بن علی کا سر تیرے گھر پڑا ہے ۔ وہ بگڑ کر بولی : تجھ پر خدا کی مار ! لوگ تو سیم و زر لائیں اور تو فرزندِ رسول کا مبارک سر لایا ہے ۔ خدا کی قسم ! اب میں تیرے ساتھ کبھی نہ رہوں گی ۔ نوار یہ کہ کر اپنے بچھونے سے اُٹھی اور جدھر سرِ انور تشریف فرما تھا اُدھر آ کر بیٹھ گئی ۔ اُس کا بیان ہے : خدا کی قسم ! میں نے دیکھا کہ ایک نور برابر آسمان سے اس برتن تک مثل ستون چمک رہا تھا ۔ اور سفید پرندے اس کے ارد گرد منڈلا رہے تھے ۔ جب صبح ہوئی تو خولی بن یزید سرِ انورکو ابنِ زیاد بدنہاد کےپاس لے گیا ۔ (الکامل فی التاریخ جلد ۳ صفحہ ۴۳۴)

خولی بن یزید کا دردناک انجام

دنیا کی محبت اور مال و زر کی وہس انسان کو اندھا اور انجام سے بے خبر کر دیتی ہے بد بخت خولی بن یزید نےدنیا ہی کی محبت کی وجہ سے مظلومِ کربلا کا سرِ انور تنسے جدا کیا تھا ۔ مگر چند ہی برس کے بعد اس دنیا ہی میں اس کا ایسا خوفناک انجام ہوا کہ کلیجہ کانپ جاتا ہے چنانچہ چند ہی برس کے بعد مختار ثقفی نے قاتلینِ امامِ حسین کے خلاف جو انتقامی کاروائی کی اس ضمن میں صدر الافاضل حضرت علامہ مولیٰنا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : مختار نے ایک حکم دیا کہ کربلا میں جو شخص لشکرِ یزید کے سپہ سالار عمرو بن سعد کا شریک تھا وہ جہاں پایا جائے مار ڈالا جائے ۔ یہ حکم سن کر کوفہ کے جفا شعار سورما بصرہ بھاگنا شروع ہوئے ۔ مختار کے لشکر نے ان کا تعاقب کیا جس کو جہاں پایا ختم کر دیا ۔ لاشیں جلا ڈالیں ، گھر لوٹ لیے ۔ خولی بن یزید وہ خبیث ہے جس نے حضرت امامِ عالی مقام سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک تنِ اقدس سے جدا کیا تھا ۔ یہ رُوسیاہ بھی گرفتار کر کے مختار کےپاس لایا گیا، مختار نے پہلےاس کے چاروں ہاتھ پیر کٹوائے پھر سُولی چڑھایا ، آخر آگ میں جھونک دیا ۔ اس طرح لشکر ابنِ سعد کے تمام اشرار کو طرح طرحکے عذابوں کے ساتھ ہلاک کیا ۔ چھے ہزار کوفی جو حضرت امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کے قتل میں شریک تھے ان کو مختار نے طرح طرح کے عذابوں کےساتھ ہلاک کردیا ۔ (سوانحِ کربلا صفحہ نمبر ۱۲۲،چشتی)

نیزہ پر سرِ اقدس کی تِلاوت

حضرتِ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے : جب یزیدیوں نے حضرت امامِ حسین رضی اللہ عنہ کےسرِ انور کو نیزے پر چڑھا کر کُوفہ کی گلیوں میں گشت کیا اُس وقت میں اپنے مکان کے بالا خانہ پر تھا ۔ جب سرِ مبارک میرے سامنے سے گزرا تو میں نے سنا کہ سرِ پاک نے (پارہ ۱۵ سورۃ الکہف کی آیت نمبر ۹) تلاوت فرمائی :
اَم حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْکَھْفِ وَ الرَّقِیمِ کَانُوْا مِن اٰیٰتِنَا عَجَباً ۔ (پ۱۵ الکہف ۹)
ترجمہ : کیا تمہیں معلوم ہوا کہ پہاڑ کی کھوہ (غار) اور جنگل کے کنارے والے ہماری ایک عجیب نشانی تھے ۔ (شواہد النبوۃ)

اِسی طرح ایک دوسرے بُزُرگ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جب یزیدیوں نے سرِ مبارک کو نیزہ سے اُتار کر ابنِ زیادِ بد نہاد کے محل میں داخل کیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقدس ہونٹ ہل رہے تھے اور زبانِ اقدس پر پارہ ۱۳ سورۂ ابراہیم کی آیت نمبر ۴۲ کی تلاوت جاری تھی : وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلاً عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ ۔ (پ۱۳ ابراھیم۴۲)
ترجمہ : اور ہر گز اللہ کو ب خبر نہ جاننا ظالموں کے کام سے ۔ (روضۃ الشہدا مترجم جلد ۲ صفحہ ۳۸۵)

منہال بن عمرو کہتے ہیں : واللہ میں نے بجشمِ خود دیکھا کہ جب امام حسین رضی اللہ عنہ کے سرِ انور کو لوگ نیزے پر لیے جاتے تھے اُس وقت میں دِمِشق میں تھا ۔ سرِ مبارک کے سامنے ایک شخص سورۃُ الکہف پڑھ رہا تھا جب وہ آیت نمبر ۱۵ پر پہنچا : اَنَّ اَصْحٰبَ الْکَھْفِ وَ الرَّقِیمِ کَانُوْا مِن اٰیٰتِنَا عَجَباً ۔ (پ۱۵ الکہف ۹)
ترجمہ : پہاڑ کی کھوہ (غار) اور جنگل کےکنارے والے ہماری ایک عجیب نشانی تھے ۔
اُس وقت اللہ تعالیٰ نے قوتِ گویائی بخشی تو سرِ انور نے بزبانِ فصیح فرمایا : اعجبُ من اصحابِ الکہفِ قتلی و حملی "اصحابِ کہف کے واقعہ سے میرا قتل اور میرے سر کو لیے پھرنا عجیب تر ہے"۔ (شرح الصدور صفحہ ۲۱۲)

صدر الافاضل حضرتِ علامہ مولیٰنا سید محمد نعیم الدین مراداؔٓبادی علیہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب سوانح کربلا میں یہ حکایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں : درحقیقت بات یہی ہے کہ کیونکہ اصحابِ کہف پر کافروں نے ظلم کیا تھا اور حضرتِ امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کو ان کے نانا جان صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت نے مہمان بنا کر بلایا ، پھر بیوفائی سے پانی تک بند کر دیا ! ال و اصحاب علیہم الرضوان کو حضرتِ امامِ پاک رضی اللہ عنہ کے سامنے شہید کیا ۔ پھر خود حضرتِ امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کیا ، اہلبیت کرام علیہم الرضوان کو اسیر بنایا ، سرِ مبارک کو شہر شہر پھرایا ۔ اصحابِ کہف سالہا سال کی طویل نیند کے بعد بولے یہ ضرور عجیب ہے مگر سرِ انور کا تنِ مبارک سے جدا ہونے کے بعد کلام فرمانا عجیب تر ہے ۔ (سوانحِ کربلا صفحہ ۱۱۸)

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے نوک نیزہ سے قرآن پاک کی تلاوت کرکے شاید یزیدیوں کو یہ بتانے کی کوشش کی ہوگی کہ تم ہمارا سر ہمارے بدن سے جدا تو کر سکتے ہو پر قران سے جو ہمارا رشتہ ہے وہ جدا نہیں کرسکتے اور قران کے اصل وارث ہم ہی ہیں دوسری وجہ جو علماء ارشاد فرماتے ہیں وہ یہ ہے کہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نواسیاں بے پردہ تھیں تو لوگوں کی توجہ ان پر سے ہٹانے کےلیےآپ کے کٹے ہوئے سر نے تلاوت شروع کردی جس سے لوگ آپ کے سر کی طرف متوجہ ہو گئے ۔

خون سے لکھا ہوا شعر

یزید پلید کے ناپاک لشکری شہدائے کربلا علیہم الرضوان کے پاکیزہ سروں کے لے کر جا رہے تھے دریں اثنا ایک منزل پر ٹھہرے ۔ حضرت سیدنا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : وہ نبیذ یعنی کھجور کا شیرہ پینے لگے ۔ ایک اور روایت میں ہے ، و ھم یشربون الخمر یعنی وہ شراب پینے لگے ۔ اتنے میں ایک لوہے کا قلم نمودار ہوا اور اس نے خون سے یہ شعر لکھا :

اترجو امۃ قتلت حسینا
شفاعۃ جدہ یوم الحساب

ترجمہ : کیا حسین رضی اللہ عنہ کے قاتل یہ بھی امید رکھتے ہیں کہ روز قیامت ان کے نانا جان صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شفاعت پائیں گے ؟

بعض روایات میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بِعثتِ شریفہ سےتین سو برس پیش تر یہ شعر ایک پتھر پر لکھا ہوا ملا ۔ (الصواعق المحرقہ ۱۹۴)

سرِانور کی کرامت سے راھِب کا قبول اسلام

ایک راہب نصرانی نے دَیر (یعنی گرجا گھر) سے سرِ انور دیکھا تو پوچھا، بتایا ، کہا : "تم بُرے لوگ ہو ، کیا دس ہزار اشرفیاں لے کر اس پر راضی ہو سکتے ہو کہ ایک رات یہ سر میرے پاس رہے ۔" ان لالچیوں نے قبول کر لیا ۔ راہب نے سرِ مبارک دھویا ، خوشبو لگائی ، رات بھر اپنی ران پر رکھے دیکھتا رہا ایک نور بلند ہوتا پایا ، راہب نے وہ رات رو کر کاٹی ، صبح اسلام لایا اور گرجا گھر ، اس کا مال ومتاع چھوڑ کر اپنی زندگی اہلِ بیت کی خدمت میں گزار دی ۔ (الصواعق المحرقہ ۱۹۹،چشتی)

درہم و دینار ٹھیکریاں بن گئے

یزیدیوں نے لشکرِ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ اور ان کے خیموں سے جو درہم و دینار لوٹے تھے اور جو راہب سے لیے تھے اُن کو تقسیم کرنے کیلئے جب تھیلیوں کے منہ کھولے تو کیا دیکھا کہ وہ سب درہم و دینار ٹھیکریاں بنے ہوئے تھے اور اُن کے ایک طرف پارہ ۱۳ سورۂ ابراہیم کی آیت (نمبر ۴۲) وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلاً عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ ۔
ترجمہ : اور ہر گز اللہ کو بے خبر نہ جاننا ظالموں کے کام سے ۔
اور دوسری طرف پارہ ۱۹ سورۃ الشعراء کی آیت (نمبر ۲۲۷) تحریر تھی : وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْآ اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ ۔
ترجَمہ : اور اب جانا چاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے ۔ (الصواعق المحرقہ صفحہ نمبر ۱۹۹،چشتی)

سرِ انور کہاں مدفون ہوا ؟

امامِ عالی مقام حضرتِ سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے سرِ انور کے مدفن کے بارے میں اختلاف ہے۔علامہ قرطبِی اور حضرتِ سیدنا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : یزید نے اسیرانِ کربلا اور سرِ انور کو مدینہ منورہ زادھا اللہ شرفا و تعظیما روانہ کر دیا اور مدینہ منورہ زادھا اللہ شرفا و تعظیما میں سرِ انور کو تجہیز و تکفین کے بعد جنتُ البقیع شریف میں حضرتِ سیدتنا فاطمہ زہرا یا حضرتِ سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہما کے پہلو میں دَفْن کر دیا گیا ۔ بعض کہتے ہیں کہ اسیرانِ کربلا نے چالیس روز کے بعد کربلا میں آکر سرِ انور کو جَسدِ مبارَک سے ملا کر دفن کیا ۔ بعض کا کہنا ہے ، یزید نے حکم دیا تھا کہ امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے سرِ انور کو شہروں میں پھراؤ ۔ پھِرانے والے جب عسقلان پہنچے تو وہاں کے امیرنے اُن سے لے کر دفن کر دیا ۔ جب عسقلان پر فرنگیوں کا غلبہ ہوا تو طلائع بن رزّیک جس کو صالح کہتے ہیں نے تیس ہزار دینار دے کر فرنگیوں سے سرِ انور لینے کیی اجازت حاصل کی اور مع فوج و خُدام ننگے پاؤں وہاں سے ۸ جمادی الآخر ۵۴۸؁ھ بروز اتوار مصر میں لایا۔ اُس وقت بھی سرِ انور کا خون تازہ تھا اور اُس سے مُشک کی سی خوشبو آتی تھی۔ پھر اس نے سبز حَریر (ریشم) کی تھیلی میں آبنوسی کُرسی پر رکھ کر اس کے ہم وزن مُشک و عنبر اور خوشبو اس کے نیچے اور اردگرد رکھوا کر اس پر مشہدِ حُسینی بنوایا چنانچہ قریبِ خان خلیلی کے مشہدِ حُسینی مشہور ہے ۔ (شامِ کربلا صفحہ ۲۴۶،چشتی)

تُربتِ سرِ انور کی زیارت

حضرتِ سیدنا شیخ عبدُ الفَتّاح بن ابی بکر بن احمد شافِعی خلوتی رحمۃ اللہ علیہ اپنے رسالہ "نور العین" میں نقل فرماتے ہیں : شیخ الاسلام شمس الدین لقانی قدس سرہ جو کہ اپنے وقت کے شیخ الشیوخِ مالکیہ تھے ہمیشہ مشہد مبارک میں سر انور کی زیارت کو حاضر ہوتے اور فرماتے کہ حضرت امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کا سرِ انور اِسی مقام پر ہے۔ حضرت سیدنا شیخ شہابُ الدین حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے مشہدِ حسینی کی زیارت کی مگر مجھے شبہ ہر رہا تھا کہ سرِ مبارک اِس مقام پر ہے یا نہیں ؟ اچانک مجھ کو نیند آ گئی، میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص بہ صورتِ نقیب سرِ مبارَک کے پاس سے نکلا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حجرۂ مبارَکہ میں حاضر ہوا اور عرض کی، "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم احمد بن حلبی اور عبد الوہاب نے آپ کے شہزادے امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے سرِ مبارَک کے مدفن کی زیارت کی ہے " آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اللہم تقبل منھما و اغفرلھما ۔ اے اللہ ان دونوں کی زیارت کو قبول فرما اور دونوں کو بخش دے ۔ حضرت سیدنا شیخ شہاب الدین حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اُس دن سے مجھے یقین ہو گیا کہ حضرتِ سیدنا امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کا سرِ انور یہیں تشریف فرما ہے پھر میں نے مرنے تک سرِ مُکرَّم کی زیارت نہیں چھوڑی ۔ (شامِ کربلا ص۲۴۷)

سرِ انور سے سلام کا جواب

حضرتِ سیدنا شیخ خلیل ابی الحسن تمارسی رحمۃ اللہ علیہ سرِ انور کی زیارت کےلیے جب مشہد مبارَک کے پاس حاضر ہوتے تو عرض کرتے: السلام علیکم یا ابنَ رسول اللہ اور فوراً جواب سنتے: و علیک السلام یا ابا الحسن۔ ایک دن سلام کا جواب نہ پایا، حیران ہوئے اور زیارت کر کے واپس آ گئے دوسرے روز پھر حاضر ہو کر سلام کیا تو جواب پایا۔ عرض کی، یا سیدی! کل جواب سے مشرف نہ ہوا کیا وجہ تھی؟ فرمایا: اے ابو الحسن! کل اِس وقت میں اپنے نانا جان صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر تھا اور باتوں میں مشغول تھا ۔ (شامِ کربلا صفحہ ۲۴۷،چشتی)

حضرت سیدنا امام عبد الوہاب شعرانی قدس سرہ الربانی فرماتے ہیں اہلِ کشف صوفیا اِسی کے قائل ہیں کہ حضرتِ سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کا سرِ انور اِسی مقام پر ہے۔ شیخ کریم الدین خلوتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اجازت سے اس مقام کی زیارت کی ہے۔ (شامِ کربلا صفحہ ۲۴۸)

سرِ انور کی عجیب بَرَکت

منقول ہے ، مصر کے سلطان ملک ناصر کو ایک شخص کے متعلق اطلاع دی گئی کہ یہ شخص جانتا ہے کہ اس محل میں خزانہ کہاں دفن ہے مگر بتاتا نہیں ۔ سلطان نے اُگلوانے کےلیے اس کی تعذیب کی یعنی اذیت دینے کا حکم دیا ۔متولیِ تعذیب نے اس کو پکڑا اور اس کے سر پر خنافس (گبریلے) لگائے اور اس پر قرمز (یعنی ایک قسم کے کیڑے) ڈال کر کپڑا باندھ دیا ۔ یہ وہ خوفناک اذیت و عقوبت ہے کہ اس کو ایک منٹ بھی انسان برداشت نہیں کر سکتا اس کا دماغ پھٹنے لگتا ہے اور وہ فوراً راز اُگل دیتا ہے ۔ اگر نہ بتائے تو کچھ ہی دیر کے بعد تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے ۔ یہ سزا اُس شخص کو کئی مرتبہ دی گئی مگر اس کو کچھ بھی اثر نہ ہوا بلکہ ہر مرتبہ خنافس مر جاتے تھے۔ لوگوں نے اِس کا سبب پوچھا تو اس شخص نے بتایا کہ جب حضرتِ امام عالی مقام سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک یہاں مصر میں تشریف لایا تھا الحمدللہ میں نے اس کو عقیدت سے اپنے سر پر اُٹھایا تھا یہ اُسی کی برکت اور کرامت ہے ۔ (شامِ کربلا صفحہ نمبر ۲۴۸،چشتی)

سرِ مبارک کی چمک

ایک رِوایت یہ بھی ہے کہ سرِ انور یزید پلید کے خزانہ ہی میں رہا ۔ جب بنو اُمیہ کے بادشاہ سلیمان بن عبد الملک کا دورِ حکومت (۹۶ تا ۹۹ ھ) آیا اور ان کو معلوم ہوا تو انہوں نے سرِ انور کی زیارت کی سعادت حاصل کی اس وقت سرِ انور کی مبارک ہڈیاں سفید چاندی کی طرح چمک رہی تھیں ، انہوں نے خوشبو لگائی اور کفن دے کر مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کروا دیا ۔ (تھذیب التھذیب جلد ۲ صفحہ ۳۲۶ دارالفکر بیروت)

رضائے مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا راز

حضرتِ علامہ ابنِ حَجَر ھَیتمی مَکِّی علیہ رحمۃ اللہ علیہ رِوایت فرماتے ہیں کہ : سُلیمان بن عبدُالملِک جنابِ رسالتِ مَآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت سے خواب میں مشرف ہوئے دیکھا کہ شہنشاہِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے ساتھ مُلاطَفَت (یعنی لُطف و کرم) فرما رہے ہیں ۔ صبح انہوں نے حضرت سیدنا حسن بصری رضی اللہ عنہ سے اِس خواب کی تعبیر پوچھی ، اُنہوں نے فرمایا : شاید تُو نے آلِ رسول کے ساتھ کوئی بھلائی کی ہے ۔ عرض کی ، جی ہاں ! میں نے حضرتِ سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے مبارک سر کو خزانۂ یزید میں پایا تو اُس کو پانچ کپڑوں کا کفن دے کر اپنے رُفقا کے ساتھ اس پر نماز پڑھ کر اس کو دفن کیا ہے حضرت سیدنا حسن بصری رضی اللہ عنہ نے فرمایا : آپ کا یہی عمل رِضائے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سبب ہوا ہے ۔ (الصواعق المحرقہ صفحہ ۱۹۹،چشتی)

مغرور شخص پیاسا واصلِ جہنم ہوا

امام حسین رضی اللہ عنہ کی کرامات اور آپ کا مستجاب الدعوات (جس کی دعائیں قبول ہوتی ہوں) ہونے کو دیکھ کر بھی اُن بے باک اور سخت دلوں کو غیرت نہ آئی اور ایک مغرور شخص نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے آکر کہنے لگا کہ : اے حسین ! دیکھو تو دریائے فرات کیسے موجیں مار رہا ہے مگر خدا کی قسم تم اس کا ایک قطرہ بھی نہ پی سکو گے حتیٰ کہ تم پیاسے ہلاک ہو جاؤ گے ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ اُس مغرور شخص کی باتیں سن کر رونے لگے اور اپنے پاک پروردگار سے عرض کرنے لگے : اللّٰہُمَّ اَمِتْہ عَطْشَانًا یا رب عزوجل اس کو پیاسا مار ۔امام حسین رضی اللہ عنہ کا دعا مانگنا تھا کہ اُس مغرور شخص کا گھوڑا اسے گرا کر بھاگنے لگا جس کو پکڑنے کےلیے اُس شخص نے دوڑ لگائی جس کے سبب اس پر پیاس کا غلبہ ہوا اور وہ العطش العطش کہنے لگا ، اُس کے ساتھیوں نے اسے پانی پلانا چاہا لیکن ایک قطرہ بھی اُس کے حلق سے نیچے نہیں اترا اور وہ مغرور شخص اسی شدتِ پیاس میں واصلِ جہنم ہو گیا ۔ (روضۃ الشہداء، باب نہم جلد 2 صفحہ 186 تا 188)

امام حسین رضی اللہ عنہ کی کرامات آپ کی شان و عظمت پر گواہ ہیں ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ سے کرامات کا ظاہر ہونا اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی کرامات آپ کی شان و عظمت پر گواہ ہیں نیز دشمنانِ اہلِ بیت کو یہ بتانا تھا کہ دیکھ لو کہ جو ایسامستجاب الدعوات ہو اس کے مقابلے میں آنا اللہ پاک سے جنگ کرنا ہے لہٰذا اس معاملے میں اللہ عزوجل سے ڈرو مگر اُن بے باک لوگوں نے دنیاوی منصب پانے کےلیے حسین ابنِ علی رضی اللہ عنہما کو شہید کر ڈالا جس کی سزا انہیں دنیا میں بھی ملی جن کا ذکر ہم کر چکے ہیں ۔ ان واقعات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آلِ رسول کی اللہ پاک کی بارگاہ میں کیسی قدر و منزلت ہے ، صرف دعا مانگنے کی دیر تھی اور دشمنانِ آلِ رسول چند ہی لمحوں میں موت کے گھاٹ اتر گئے ۔ اللہ پاک ہمیں بھی آلِ رسول کا ادب و احترام کرنےاور اُن کی طرح دینِ اسلام کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ عطا فرمائے آمین ۔ (مزید حصّہ نمبر 13 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

فضائل و مناقب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 11

0 comments

فضائل و مناقب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 11

واقعہ کربلا حقائق و واقعات کی روشنی میں : حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جوہرِ شہادت کا ظہورِ تام تھی اس لیے اسے شہرت بھی اسی مقام کی نسبت سے حاصل ہوئی ۔ کائنات میں کسی بھی شخص کی شہادت کا چرچا اس کی شہادت سے پہلے نہیں ہوا جس طرح کہ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو حاصل ہوا ۔ حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد قائم ہونے والے دور حکومت کے بارے میں فرمایا : اَلْخَلَافَة فِیْ اُمَّتِیْ ثَلَاثُوْنَ سَنَةً ثُمَّ مَلکَ بَعْدَ ذَلِکَ ۔ (بہیقی السنن الکبریٰ جلد 5 صفحہ 47 رقم الحدیث 1855)
ترجمہ : میری امت میں خلافت تیس برس تک رہے گی پھر اس کے بعد ملوکیت ہوگی ۔

چنانچہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق خلافت تیس برس رہی۔ یہ زمانہ عہد خلافت راشدہ کہلاتا ہے۔ عہد خلافتِ راشدہ کے دوران حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اعلان خلافت کے ساتھ ہی ملک شام میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی آزاد حکومت قائم کی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ تسلیم نہ کیا۔ اس پر امت مسلمہ متفق رہی ہے کہ خلافت بہرطور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا حق تھا۔ آپ ہی خلیفہ برحق اور خلیفہ راشد تھے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے جداگانہ اعلان حکومت کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کی کشمکش کا آغاز ہوگیا جس کے نتیجے میں جنگ جمل اور جنگ صفین جیسے چھوٹے بڑے معرکے ہوئے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس پیش گوئی کے مطابق سن 60 ہجری میں قبیلہ قریش کی شاخ بنو امیہ کا اوباش نوجوان یزید تخت نشین ہوا اور 61 ہجری کے ابتدائی دس دنوں میں سانحہ کربلا پیش آیا ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد یزید تخت نشین ہوا ۔ اس کےلیے سب سے اہم اور بڑا مسئلہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی بیعت کا تھا کیونکہ ان حضرات نے یزید کی ولی عہدی قبول نہ کی تھی اس سلسلے میں یزید نے مدینہ کے گورنر ولید بن عقبہ کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر بھیجی اور ساتھ ہی یہ حکم نامہ بھیجا کہ : حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے میرے حق میں بیعت لو اور جب تک وہ میری بیعت نہ کریں انہیں ہرگز مت چھوڑو ۔ (تاریخ، الطبری 113)

ولید بن عقبہ رحمدل اور خاندان نبوت کی تعظیم و توقیر کرنے والا شخص تھا۔ اس نے اس حکم کی تعمیل پر گھبراہٹ محسوس کی اور اپنے نائب مروان کو صورت حال سے آگاہ کیا۔ مروان سنگدل اور سخت انسان تھا۔ اس نے کہا میرے خیال میں تم ان حضرات کو اسی وقت بلا بھیجو اور انہیں بیعت کرنے کےلیے کہو اگر وہ بیعت کرلیں تو ٹھیک ہے ورنہ انکار کی صورت میں تینوں کا سر قلم کر دو ۔ (ابن اثیر، 4 - 15، البدایہ والنھایہ، 8 : 1417،چشتی)

سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنی حفاظت کا سامان کر کے ولید کے پاس پہنچے۔ اس نے آپ رضی اللہ عنہ کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر سنائی اور پھر یزید کی بیعت کیلئے کہا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے تعزیت کے بعد فرمایا : ’’میرے جیسا بندہ اس طرح چھپ کر بیعت نہیں کرسکتا، اور نہ ہی میرے لیے اس طرح چھپ کر بیعت کرنا مناسب ہے اگر آپ باہر نکل کر عام لوگوں کے ساتھ ہمیں بھی بیعت کی دعوت دیں تو یہ الگ بات ہے‘‘۔ ولید جو کہ ناپسند آدمی تھا اس نے کہا اچھا! آپ تشریف لے جائیں، اس پر مروان نے ولید سے کہا اگر اس وقت تم نے ان کو جانے دیا اور بیعت نہ لی تو تم کبھی بھی ان پر قابو نہ پاسکوگے تاوقتیکہ بہت سے لوگ قتل ہوجائیں ان کو قید کرلو، اگر یہ بیعت کرلیں تو ٹھیک ہے ورنہ ان کا سر قلم کر دو۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ یہ سن کر اٹھ کھڑے ہو گئے اور فرمایا : ’’ابن الزرقا! تو مجھے قتل کرے گا؟ خدا کی قسم تو جھوٹا اور کمینہ ہے‘‘۔ یہ کہہ کر آپ گھر تشریف لے آئے ۔ (ابن اثیر، 4 : 15 - 16)

بعد ازاں اہلِ کوفہ نے باہم مشاورت سے امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کو کوفہ آنے کی دعوت دی۔ اہل کوفہ کے خطوط اور وفود کے بعد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو حالات سے آگاہی کے لئے کوفہ بھیجا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کی بے پناہ عقیدت و محبت کو دیکھتے ہوئے امام عالی مقام کو لکھ بھیجا کہ آپ رضی اللہ عنہ تشریف لے آئیں، یہاں ہزاروں افراد آپ کی طرف سے میرے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں۔

چنانچہ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ نے کوفہ جانے کا عزم صمیم کر لیا۔ آپ رضی اللہ عنہ مکہ معظمہ سے 8 ذی الحجہ کو کوفہ کیلئے روانہ ہوئے۔ راستے میں صفاح کے مقام پر عرب کے مشہور شاعر فرذدق سے آپ رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہوئی۔ وہ کوفہ سے آ رہا تھا۔ فرذدق نے آپ رضی اللہ عنہ کو سلام عرض کیا اور دعا دیتے ہوئے کہا : اللہ تعالیٰ آپ کی مراد پوری کرے اور آپ کو وہ چیز عطا فرمائے جس کے آپ طلبگار ہیں۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تمہارے پیچھے لوگوں کا کیا حال ہے۔ اس نے کہا :

’’لوگوں کے دل تو آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہیں مگر ان کی تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ہیں۔‘‘

فرزدق سے ملاقات کے بعد قافلہ حسینی رضی اللہ عنہ کوفے کے حالات سے بے خبر کوفہ کی جانب رواں دواں تھا۔ راستے میں ہر چراہ گاہ سے جس پر قافلے کا گزر ہوتا کچھ لوگ ہمراہ ہوجاتے۔ جب قافلہ حسینیہ رضی اللہ عنہ ’’ثعلمیہ‘‘ کے مقام پر پہنچا تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ اور ہانی بن عروہ کی شہادت کی خبر ملی۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنا سفر جاری رکھا اور جب آپ رضی اللہ عنہ ’’کوہ ذی حشم‘‘ کے مقام پر پہنچے تو حُر بن یزید جو کہ حکومت یزید کی طرف سے آپ رضی اللہ عنہ کو گرفتار کرنے کیلئے بھیجا گیا تھا ایک ہزار مسلح سواروں کے ساتھ پہنچ گیا اور آپ رضی اللہ عنہ کے مقابل آ کر کھڑا ہو گیا اور ابن زیاد کا حکم دیا کہ آپ کو لے کر اس کے پاس پہنچوں۔

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں اور اہل و عیال کے ہمراہ 2 محرم الحرام 61 ہجری بروز جمعرات اپنے ساتھیوں اور اہل و عیال سمیت خیمہ زن ہوگئے۔ حر نے آپ کے مقابل خیمے نصب کر لئے۔ حر کے دل میں اگرچہ اہل بیت نبوت کی عظمت تھی یہاں تک کہ اس نے اپنی نمازیں بھی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پیچھے ہی ادا کیں تھیں مگر وہ ابن زیاد کے حکم سے مجبور تھا۔

جس مقام پر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں اور اہل و عیال کے ہمراہ خیمہ زن ہوئے اس دشت و بیابان کی اداس و مغموم فضا کو دیکھ کر آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا اس مقام کا نام کہاں ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ اس جگہ کو ’’کربلا‘‘ کہتے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بس یہیں خیمے لگا لو، یہی ہمارے سفر کی آخری منزل ہے ۔

سرزمین کربلا پہنچتے ہی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ فرامین یاد آ رہے تھے جو انہوں نے بچپن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنے تھے کہ میرا بیٹا، میرا حسین سرزمین طف (کربلا) میں شہید کر دیا جائے گا۔ اس لئے جب آپ کو علم ہوا کہ یہی سرزمین کربلا ہے تو آپ نے حتمی فیصلہ دیتے ہوئے اسی مقام پر ٹھہرنے کا ارادہ فرمایا۔ اس طرح قافلہ حسینی رضی اللہ عنہ غریب الوطنی کے عالم میں کربلا کے میدان میں خیمہ زن ہوا۔ دوسری طرف یزیدی حکومت ان نفوس قدسیہ پر قیامت برپا کرنے کی بھرپور تیاریوں میں مصروف تھی چنانچہ 3 محرم الحرام کو عمر بن سعد چار ہزار سپاہیوں کے ساتھ مقابلہ کے لئے کوفہ سے کربلا پہنچا۔

عمر بن سعد نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس قاصد بھیجا کہ آپ کیوں تشریف لائے ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’ اہل کوفہ نے مجھے لکھا تھا کہ ان کے پاس آؤں۔ اب اگر وہ مجھ سے بیزار ہیں تو میں واپس مکہ چلا جاتا ہوں‘‘۔ جب ابن سعد کو یہ جواب ملا تو اس نے کہا کہ میری یہ تمنا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کسی طرح مجھے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ سے بچا لے چنانچہ اس نے ابن زیاد کو یہ بات لکھ بھیجی کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اہل کوفہ کی ان سے بیزاری پر واپس مکہ جانا چاہتے ہیں لیکن ابن زیاد نے جواب دیا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں پر پانی بند کر دو اور حسین رضی اللہ عنہ سے کہو کہ وہ خود اور ان کے ساتھی یزید بن معاویہ کی بیعت کر لیں۔ جب وہ بیعت کر لیں گے تو ہم سوچیں گے کہ اب کیا کرنا چاہئے؟ اس پر عمر بن حجاج کی قیادت میں ابن سعد کے آدمیوں نے سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قافلے پر پانی بند کر دیا۔

9 محرم الحرام 61ھ کو ابن سعد کا دستہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے خیموں کی طرف آیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ذریعے ان سے آنے کا ارادہ معلوم کیا تو انہوں نے کہا کہ امیر ابن زیاد کا حکم ہے کہ تم اس کی اطاعت قبول کر لو ورنہ ہم تمہارے ساتھ جنگ کریں گے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو کہا : ’’ان لوگوں سے کہو کہ ہمیں ایک رات کی مہلت دے دیں تاکہ اس آخری رات ہم اچھی طرح نماز پڑھ لیں، دعا مانگ لیں اور توبہ استغفار کر لیں۔ اﷲ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ مجھے نماز، تلاوت اور دعا و استغفار سے بڑا قلبی تعلق ہے ۔ (البدایہ والنہایہ، 8 / 175)

ابن سعد کے دستہ نے یہ بات مان لی اور قافلہ حسینی رضی اللہ عنہ نے رات اﷲ تعالیٰ کی عبادت اور مناجات میں بسر کی۔

رفقاء سے سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا خطاب

ابن سعد کے دستے واپس لوٹنے کے بعد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے رفقاء کو جمع کیا۔ ﷲ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے اصحاب سے نہایت فصیح و بلیغ خطاب فرمایا کہ : میں کسی کے ساتھیوں کو اپنے ساتھیوں سے زیادہ وفادار اور بہتر نہیں سمجھتا اور نہ کسی کے اہل بیت کو اپنے اہل بیت سے زیادہ نیکوکار اور صلہ رحمی کرنے والا دیکھتا ہوں۔ ﷲ تعالیٰ تم سب کو میری طرف سے جزائے خیر عطا کرے گا۔ اگر تم میں سے کوئی جانا چاہتا ہے تو رات کی تاریکی میں چلا جائے۔ بے شک یہ لوگ میرے ہی قتل کے طالب ہیں جب مجھے قتل کریں گے تو پھر کسی اور کی ان کو طلب نہیں ہو گی مگر آپ رضی اللہ عنہ کے اصحاب اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے عرض گزار ہوئے ’’اے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم آپ پر اپنی جانیں قربان کر دیں گے، ہم اپنی گردنوں، پیشانیوں، ہاتھوں اور جسموں سے آپ رضی اللہ عنہ کا دفاع کریں گے۔ جب ہم قتل ہو جائیں گے تو سمجھیں گے کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔(البدایہ والنہایہ، 8 / 176 - 177،چشتی)

آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کے جذبات سن کر انہیں اجازت مرحمت فرمائی اور پھر آپ رضی اللہ عنہ کے اصحاب نے آپ رضی اللہ عنہ کی معیت میں رات بھر نوافل ادا کئے اور بارگاہِ ایزدی میں عاجزی و انکساری کے ساتھ مغفرت کی دعائیں مانگیں۔(البدایہ والنہایہ، 8 / 177،چشتی)(ابن اثیر، 4 / 59)

10 محرم الحرام 61 ھ کا خونی آفتاب اپنی پوری خون آشامیوں کے ساتھ طلوع ہوا حسینی فوج کے 72 سپہ سالاروں نے یزیدی فوج کا ڈٹ کے مقابلہ کیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یزیدی فوج میدان چھوڑ کر بھاگ جائے گی۔ اس طرح مٹھی بھر جانثارانِ حسین رضی اللہ عنہ پروانہ وار شمع امامت پر قربان ہونے لگے۔ اس وقت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت سیدنا زین العابدین رضی اللہ عنہ علیل تھے۔ علالت کے باوجود اپنے والد گرامی سے اجازت طلب کی مگر آپ رضی اللہ عنہ نے سمجھایا کہ ایک تو آپ رضی اللہ عنہ علیل ہیں اور دوسرے آپ رضی اللہ عنہ کا زندہ رہنا ضروری ہے کیونکہ خانوادئہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر چراغ گل ہو چکا ہے، ہر پھول مرجھا چکا ہے، اب میری نسل میں فقط تو ہی باقی رہ گیا، مجھے تو شہید ہونا ہی ہے اگر تو بھی شہید ہو گیا تو میرے نانا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل کیسے چلے گی۔ تجھے اپنے نانا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل کی بقاء کے لئے زندہ رہنا ہے‘‘ پھر آپ کو کچھ نصیحتیں کیں اور یوں فرزند صاحب ذوالفقار حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر خود میدان کربلا میں اترے۔ مقابلے میں آپ رضی اللہ عنہ دیر تک یزیدیوں کو واصل جہنم کرتے رہے۔ پورے یزیدی لشکر میں کہرام مچ گیا۔ حیدر کرار کا یہ فرزند جس طرف تلوار لے کر نکلتا یزیدی لشکر خوفزدہ بھیڑوں کی طرح آگے بھاگنے لگتا۔

اسی معرکہ کے دوران آپ رضی اللہ عنہ کو بہت پیاس لگی، آپ رضی اللہ عنہ نے پانی کے لئے دریائے فرات کا رخ کیا مگر دشمن سخت مزاحمت کرنے لگا، اچانک ایک تیر آپ رضی اللہ عنہ کے چہرہ مبارک پر لگا اور آپ رضی اللہ عنہ کا چہرہ مبارک زخمی ہو گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے تیر کھینچ کر نکالا پھر ہاتھ چہرے کی طرف اٹھائے تو دونوں چلو خون سے بھر گئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنا خون آسمان کی طرف اچھال دیا اور ﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا : ’’الٰہی میرا شکوہ تجھی سے ہے، دیکھ تیرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے کے ساتھ کیا برتاؤ ہو رہا ہے ۔ (الطبری جلد 6 صفحہ 33،چشتی)

حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ دن کا طویل حصہ میدان کربلا میں تنہا دشمن کا مقابلہ کرتے رہے اور دشمنوں میں سے ہر کوئی آپ رضی اللہ عنہ کے قتل کو دوسرے شخص پر ٹالتا رہا کیونکہ حسین رضی اللہ عنہ کا قتل کوئی بھی اپنے ذمہ نہ لینا چاہتا تھا۔ آخر شمر بن ذی الجوشن نے کہا : ’’تمہارا برا ہو کیا انتظار کر رہے ہو؟ کام تمام کیوں نہیں کرتے؟ آپ رضی اللہ عنہ ہر طرف سے نرغہ ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پکار کر کہا : کیا میرے قتل پر ایک دوسرے کو ابھارتے ہو ؟ وﷲ ! میرے بعد کسی بندے کے قتل پر ﷲ تعالیٰ اتنا ناخوش نہیں ہو گا جتنا میرے قتل پر ۔(ابن اثیر جلد 4 صفحہ 78)

شمر لعین کے اکسانے پر یزیدی لشکر آپ رضی اللہ عنہ پر ٹوٹ پڑا، زرعہ بن شریک تمیمی نے آگے بڑھ کر آپ رضی اللہ عنہ کے بائیں کندھے پر تلوار ماری جس سے آپ رضی اللہ عنہ لڑکھڑا گئے۔ اس پر سب حملہ آور پیچھے ہٹے پھر سنان بن ابی عمرو بن انس نخفی نے آگے بڑھ کر آپ رضی اللہ عنہ کو نیزہ مارا جس سے آپ رضی اللہ عنہ گر پڑے۔ سنان نے سواری سے اتر کر آپ رضی اللہ عنہ کا سر تن سے جدا کر کے خونی یزید کے حوالے کر دیا۔(البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 188،چشتی)

یوں نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، جگر گوشۂ بتول سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے کربلا کے میدان میں جانثاری کی ایک نئی تاریخ رقم کر کے قربانی کی ایک لازوال مثال قائم کر دی اور رہتی دنیا تک یہ پیغام دے دیا کہ باطل کے خلاف حق کی سربلندی کے لئے اگر سر تن سے جدا بھی ہوتا ہے تو پرواہ نہ کی جائے اور قربانی سے دریغ نہ کیا جائے۔

اس سانحہ کو قید زمین و مکاں نہیں

اک درس دائمی ہے شہادت حسین (رضی اللہ عنہ) کی

یہ رنگ وہ نہیں جو مٹانے سے مٹ سکے

لکھی گئی ہے خون سے امامت حسین (رضی اللہ عنہ) کی

آج جہاں ہم حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں تو ضروری ہے کہ سیرتِ حسین رضی اللہ عنہ پر عمل پیرا ہوں۔ اپنے ظاہر و باطن کو ان کی سیرت میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ باہمی رنجشوں اور فرقہ واریت کو چھوڑ کر محبت و عمل کا نشان، دین محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علمبردار اور اسلام کی خاطر مر مٹنے والے بن جائیں تاکہ روز حشر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے سامنے سرخرو ہو سکیں اور کہہ سکیں کہ اے حبیب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے امام حسین رضی اللہ عنہ کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگیاں دین کی سربلندی کی خاطر قربان کی ہیں ۔

سو جان سے فدا تھے نبی (ﷺ) کیوں حسین (رضی اللہ عنہ) پر
عقدہ کھلا یہ معرکۂ کربلا کے بعد

شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کے وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میدانِ کربلا میں موجود تھے اور شہداءِ کربلا رضی اللہ عنہم کا خون ایک شیشی میں جمع کیا ہوا تھا ۔ (فتاویٰ علمیّہ جلد دوم صفحہ 269 یہ حدیث صحیح راوی ثقہ ہیں حافظ زبیر علی زئی محدث و محقق غیر مقلد وہابی حضرات)

اہلحدیث حضرات کے محقق لکھتے ہیں : شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کی خبر نبی کریم صلی الله عليه وآله وسلم نے دے دی تھی اور بوقتِ شہادت امام آپ صلی الله عليه وآله وسلم کربلا میں موجود تھے آپ صلی الله عليه وآله وسلم کو صدمہ ہوا ۔ (فضائل صحابہ صفحہ 104 تحقیق حافظ زبیر علی زئی غیر مقلد اہلحدیث وہابی)

اس سے یہ ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میدانِ کربلا میں موجود تھے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حیات ہیں اور جہاں چاہیں تشریف لے جا سکتے ہیں ۔ اور یہ بھی ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو شہادتِ امامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صدمہ ، پریشانی اور تکلیف ہوئی ۔

یزید کے وکیلو ذرا سوچو کیا منہ دکھاؤ گے آقا کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ کہو گے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خاندان کو تکلیفیں پہچانے والے یزید پلید کی حمایت میں زندگی گزار دی ؟

عن ام سلمة قالت قال رسول ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يقتل حسين بن علي علي رأس سيتن من المهاجري ۔ (مجمع، 9 : 190)۔(بحواله طبراني في الاوسط)
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا حسین بن علی کو ساٹھ ہجری کے اختتام پر شہید کر دیا جائے گا ۔

غیب کی خبریں بتانے والے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کی نشاندہی کردی کہ یہ عراق کا میدان کربلا ہوگا بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ یہ عظیم سانحہ 61 ہجری کے اختتام پر رونما ہوگا ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اکثر دعا فرمایا کرتے : اللهم انی اعوذبک من رائس الستين وامارة الصبيان ۔
ترجمہ : اے اللہ میں ساٹھ ہجری کی ابتدا اور (گنوار) لڑکوں کی حکومت سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔ (الصواعق الحرقه : 221)

60 ہجری کی ابتدا میں ملوکیت کی طرف قدم بڑھایا جاچکا تھا اور یہی ملوکیت وجہ نزاع بنی۔ اور اصولوں کی پاسداری اور اسلامی امارت کے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خاطر نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو کربلا کے میدان میں حق کا پرچم بلند کرتے ہوئے اپنی اور اپنے جان نثاروں کی جانوں کی قربانی دینا پڑی۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ اہل حق کٹ تو سکتے ہیں کسی یزید کے دست پلید پر بیعت کرکے باطل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ وہ نیزے کی انی پر چڑھ کر بھی قرآن سناتے ہیں ۔ ان کے بے گور و کفن لاشوں پر گھوڑے تو دوڑائے جا سکتے ہیں لیکن انہیں باطل کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا ، یہی لوگ تاریخ کے چہرے کی تابندگی کہلاتے ہیں اور محکوم و مظلوم اقوام کی جد و جہد آزادی انہی نابغانِ عصر کے عظیم کارناموں کی روشنی میں جاری رکھتے ہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ 60 ہجری کی ابتدا سے پناہ مانگتے تھے کہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے نقشِ قدم سے انحراف کی راہ نکالی جا رہی تھی ، لڑکوں کے ہاتھ میں عنان اقتدار دے کر اسلامی ریاست کو تماشا بنایا جا رہا تھا ۔ کہ اب سنجیدگی کی جگہ لا ابالی پن نے لے لی تھی ۔

حضرت یحیٰ حضرمی کا ارشاد ہے کہ سفرِ صفین میں مجھے شیر خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا ۔ جب ہم نینوا کے قریب پہنچے تو دامادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابو عبد اللہ ! فرات کے کنارے صبر کرنا میں نے عرض کیا ’’یہ کیا ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے جبرئیل نے خبر دی ہے : ان الحسين يقتل بشط الفرات و اراني قبضة من تربته ۔
ترجمہ : حسین رضی اللہ عنہ فرات کے کنارے قتل ہوگا اور مجھے وہاں کی مٹی بھی دکھائی ۔ (الخصائص الکبریٰ جلد 2 صفحہ 12،چشتی)

حضرمی روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت علی شیر خدا رک کر اس زمین کو دیکھنے لگے تو اچانک بلند آواز میں گویا ہوئے ۔ ابو عبد اللہ! حسین رضی اللہ عنہ بر کرنا ۔ ہم سہم گئے ہمارے رونگٹے کھڑے ہوگئے ، آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ ورطہ حیرت میں ڈوب گئے کہ یا الہی یہ ماجرا کیا ہے ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ اس میدان کربلا میں میرا حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوگا ۔

حضرت اصبغ بن بنانہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : اتينا مع علي موضع قبر الحسين فقال ههنا مناخ رکابهم و موضع رحالهم و مهراق دمائهم فئة من ال محمد صلي الله عليه وآله وسلم يقتلون بهذه العرصة تبکی عليهم السماء والارض ۔
ترجمہ : ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قبر حسین رضی اللہ عنہ کی جگہ پر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ ان کے اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ اور یہ ان کے کجاوے رکھنے کی جگہ ہے اور یہ ان کے خون بہنے کا مقام ہے۔ آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک گروہ اس میدان میں شہید ہوگا جس پر زمین و آسمان روئیں گے ۔ (الخصائص الکبری جلد 2 صفحہ 126)(سر الشهادتين صفحہ 13)

گویا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کا پورا نقشہ کھینچ دیا کہ یہاں پر وہ شہادت کے درجہ پر فائز ہوگا اور یہاں خاندان رسول ہاشمی کا خون بہے گا ۔

ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا ذکر پہلے ہوچکا ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حسین کو عراق میں قتل کردیا جائے۔ اور یہ کہ جبرئیل نے کربلا کی مٹی لاکر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : يا ام سلمه اذا تحولت هذه الترته دما فاعلمي ان ابني قد قتل فجعلتها ام سلمة في قارورة ثم جعلت تنظر اليها کل يوم و تقول ان يوما تحولين دما ليوم عظيم ۔
ترجمہ : اے ام سلمہ رضی اللہ عنہاجب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو جان لینا کہ میرا یہ بیٹا قتل ہوگیا ہے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے اس مٹی کو بوتل میں رکھ دیا تھا اور وہ ہرروز اس کو دیکھتیں اور فرماتیں اے مٹی! جس دن تو خون ہوجائے گی وہ دن عظیم ہوگا ۔ (الخصائص الکبری، 2 : 125،چشتی)۔(سر الشهادتين، 28)۔( المعجم الکبير للطبرانی، 3 : 108)

حضرت سلمیٰ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے رونے کا سبب پوچھا اور کہا : کس شے نے آپ کو گریہ و زاری میں مبتلا کر دیا ہے؟ آپ نے کہا : میں نے خواب میں نبی اکرم صلی الله عليه وآله وسلم کی زیارت کی ہے۔ آپ صلی الله عليه وآله وسلم کا سر انور اور ریش مبارک گرد آلود تھی۔ میں نے عرض کی، یا رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم ، آپ صلی الله عليه وآله وسلم کی کیسی حالت بنی ہوئی ہے ؟ آپ صلی الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا : میں نے ابھی ابھی حُسین (رضی اللہ عنہ) کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا ہے ۔ یہ حدیث ان کتب میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہیں ۔ (جامع ترمذی صفحہ نمبر 1028 حدیث نمبر3771 باب مناقب حسن و حسین (رضی اللہ عنہما) طبع الاولیٰٰ 1426ھ، دار الکتب العربی بیروت)۔(مستدرک امام حاکم تلخیص :علامہ ذہبی جلد 4 صفحہ 387 حدیث نمبر 6895 باب ذکر ام المومنین ام سلمہ //طبع قدیمی کتب خانہ پاکستان ، جز :5 ،چشتی)(تہذیب التہذیب ابن حجر عسقلانی جلد 2 صفحہ 356 طبع الاولی ھند)(البدایہ والنھایہ ابن کثیر محقق:عبدالمحسن ترکی جلد 11 صفحہ 574 طبع الاولیٰٰ 1418 ھ، جز:21 الھجر بیروت)

امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ صلی الله عليه وآله وسلم غبار آلود دوپہر کے وقت خون سے بھری ہوئی ایک شیشی لیے ہوئے ہیں۔ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم فداک ابی و امی، یہ کیا ہے ؟ آپ صلی الله عليه وآله وسلم نے فرمایا، یہ حسین (رضی اللہ عنہما) اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے جسے میں آج صبح سے اکٹھا کر رہاہوں ۔ عمار کہتے ہیں کہ ہم نے حساب لگایا تو ٹھیک وہی دن شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کا روز تھا ۔ علامہ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس روایت کو امام احمد نے روایت کیا ہے اور اس کی اسناد قوی ہیں ۔ (البدایۃ والنھایۃ)

ابن ابی الدنیا نے عبداللہ بن محمد بن ہانی ابو عبد الرحمن نحوی سے، انہوں نے مہدی بن سلیمان سے اور انہوں نے علی بن زید بن جدعان سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن عباس سو کر اٹھے تو “انا للہ و انا الیہ راجعون ” کہا اور کہنے لگے اللہ کی قسم امام حسین شہید کر دیے گئے ہیں۔ ان کے اصحاب نے پوچھا کہ اے ابن عباس ! کیوں کر؟ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم کو خون کی ایک شیشی لیے ہوئے خواب میں دیکھا ہے ۔ آپ صلی الله عليه وآله وسلم نے فرمایا کہ اے ابن عباس ! کیا تم جانتے ہو کہ میرے بعد میری امت کے اشقیاء نے کیا کیا؟ انہوں نے امام حسین رضی اللہ عنہ نے شہید کر دیا ہے ۔ اور یہ اس کا اور اس کے اصحاب کا خون ہے جسے میں اللہ تعالی کے حضور پیش کروں گا ۔ چنانچہ وہ دن اور گھڑی لکھ لی گئی ۔ اس کے بعد چوبیس دن بعد مدینہ شریف میں یہ خبر آئی کہ امام حسین کو اسی دن اور اسی وقت میں شہید کیا گیا ۔ حمزہ بن زیارت نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دیکھا کہ دونوں پیغمبر امام حسینؑ کے روضہ پر نماز پڑھ رہے ہیں۔ شیخ ابو نصر نے بالاسناد حضرت اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالہ سے بیان کیا کہ حضرت جعفر بن محمد نے فرمایا کہ حضرت حسین ؑ کی شہادت کے بعد آپ کی قبر انور پر ستر ہزار فرشتے اترے اور قیامت تک آپ کے کے لیے اشکباری کرتے رہیں گے ۔ (البدایۃ والنھایۃ)

عن ام سلمه قالت قال رسول ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم أخبرني جبرئيل ان ابني الحسين يقتل بأرض العراق فقلت لجبرئيل ارني تربة الارض التي يقتل فيها، فجاء فهذه تربتها ۔ (البدايه والنهايه، 8 : 196 - 200)۔(کنز العمال، 12 : 126، حدیث : 34313)
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی ﷲ عنھا روایت کرتی ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے جبرئیل امین نے (عالم بیداری میں) بتایا کہ میرا یہ بیٹا حسین عراق کی سرزمین میں قتل کر دیا جائیگا میں نے کہا جبرئیل مجھے اس زمین کی مٹی لا کر دکھا دو جہاں حسین کو قتل کر دیا جائے گا پس جبرئیل گئے اور مٹی لا کر دکھا دی کہ یہ اس کے مقتل کی مٹی ہے ۔

عن عائشة عنه انه قال أخبرنی جبرئيل ان ابني الحسين يقتل بعدي بأرض الطف ۔
ترجمہ : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جبرئیل امین نے مجھے خبر دی کہ میرا یہ بیٹا حسین میرے بعد مقام طف میں قتل کر دیا جائے گا ۔ (المعجم الکبير جلد 3 صفحہ 107 حدیث نمبر 2814)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی روایت بھی کم و بیش وہی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے، یہ بھی قتل حسین رضی اللہ عنہ کی اطلاع ہے۔ یہ روح فرسا اطلاع پا کر قلب اطہر پر کیا گزری ہوگی اس کا تصور بھی روح کے در و بام کو ہلا دیتا ہے، پلکوں پر آنسوؤں کی کناری سجنے لگتی ہے اور گلشن فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تباہی کا دلخراش منظر دیکھ کر چشم تصور بھی اپنی پلکیں جھکا لیتی ہے ۔

ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ آقا علیہ السلام کے چشمان مقدس سے آنسو رواں تھے میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج کیا بات ہے چشمان مقدس سے آنسو رواں ہیں ؟ فرمایا کہ مجھے ابھی ابھی جبرئیل خبر دے گیا ہے کہ : ان امتک ستقتل هذا بأرض يقال لها کربلاء ۔ ترجمہ : آپ کی امت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس بیٹے حسین کو اس سر زمین پر قتل کر دے گی جس کو کربلا کہا جاتا ہے ۔ (المعجم الکبير، 3 : 109، حدیث : 2819،چشتی)

شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کا پیغام

محترم قارئینِ کرام : سید الشہدا حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہمیں کئی پیغام دیتی ہے اول یہ کہ ایمان والا اپنے خون کے آخری قطرہ تک حق پر صداقت پر جما رہے باطل کی قوت سے مرعوب نہ ہو ۔ دوسری بات یہ کہ امام حسین رضی اللہ عنہ یزید کی جن خرابیوں کے باعث مخالفت کی ویسے لوگوں سے اپنے آپ کو الگ کرے اور فسق و فجور والا کام نہ کرے اور نہ ویسے لوگوں کا ساتھ دے نیز یہ بھی پیغام ملا کہ ظاہری قوت کے آگے بسا اوقات نیک لوگ ظاہری طور پر مات کھا جاتے ہیں مگر جو حق ہے وہ سچائی ہے وہ کبھی ماند نہیں پڑتی مات نہیں کھاتی اور وہ ایک نہ ایک دن ضرور رنگ لاتی ہے ۔ یہی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اسلام کا سرمایہ حیات یزیدیت نہیں بلکہ شبیریت حسینیت ہے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ شہادت امتِ مسلمہ کےلیے کئی پہلو سے عملی نمونہ ہے، جس پر انسان عمل پیرا ہو کر اپنی زندگی کو اسلامی طرز پر قائم رکھے اسلامی زندگی اسلامی رنگ و روپ کی بحالی کےلیے صداقت حقانیت جہد مسلسل اور عمل پیہم میں حسینی کردار اور حسینی جذبہ ایثار و قربانی سے سرشار ہو ۔ اقتدار کی طاقت جان تو لے سکتی ہے ایمان نہیں ۔ اگر ایمانی طاقت کار فرما ہو تو اس کے عزم و استقلال کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا ۔ لندن کے مشہور مفکر '' لارڈ ہیڈلے '' کے بقول '' اگر حسین میں سچا اسلامی جذبہ کار فرما نہ ہوتا تو اپنی زندگی کے آخری لمحات میں رحم و کرم ، صبر و استقلال اور ہمت و جوانمردی ہرگز عمل میں آ ہی نہیں سکتی تھی جو آج صفحہ ہستی پر ثبت ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حضرت اما م حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے حقیقی فلسفہ و حقیقت اور مقصد کو سمجھا جائے اور اس سے ہمیں جو سبق اورپیغام ملتا ہے اسے دنیا میں عام کیا جائے ۔

فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی اہل اسلام کی خدمت میں عرض کرتا ہے محبتِ اہلبیت و امام حسین رضی اللہ عنہم کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ ہم انے پیغام کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں ۔ حضرت امام عالی مقام سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا پہلا پیغام عملی جدوجہد کا پیغام ہے ۔ محبت حسین رضی اللہ عنہ کو فقط رسمی نہ رہنے دیا جائے بلکہ اسے اپنے عمل و حال و قال میں شامل کرلیا جائے اور اپنی زندگی کا مقصد بنایا جائے ، یعنی معلوم کیا جائے کہ یزیدی کردار کیا ہے اور حسینی کردار کیا ہے ۔

یزید نے کھلم کھلا اسلام کا انکار نہیں کیا تھا اور نہ ہی بتوں کی پوجا کی تھی ، مسجدیں بھی مسمار نہیں کی تھیں ۔ وہ اسلام کا نام بھی لیتا تھا ، وہ یہ بھی کہتا تھا کہ میں نماز بھی پڑھتا ہوں ، میں مسلمان بھی ہوں، میں موحد بھی ہوں ، میں حکمران بھی ہوں ، میں آپ کا خیر خواہ بھی ہوں ۔ اسلام کا انکار یہ تو ابوجہلی ہے ، ابولہبی ہے ۔ یزیدی کردار یہ ہے کہ مسلمان بھی ہو اور اسلام سے دھوکہ بھی کیا جائے ، امانت کی دعویٰ بھی ہو اور خیانت بھی کی جائے ، نام اسلام کا لیا جائے اور آمریت بھی مسلط کی جائے ۔ اپنے سے اختلاف کرنے والوں کو کچلا جائے ۔ اسلام سے دھوکہ فریب یزیدیت کا نام ہے ۔ بیت المال میں خیانت کرنا ، دولت کو اپنی عیش پرستی پر خرچ کرنا یزیدیت کا نام ہے ۔ معصوم بچوں اور بچیوں کے مال کو ہڑپ کرنا یزیدیت کا نام ہے ۔ مخالف کو کچلنا اور جبراً بیعت اور ووٹ لینا یزیدیت کا نام ہے ۔ (چشتی)

آج روح حسین رضی اللہ عنہ ہم سے پکار پکار کر کہتی ہے کہ : میری محبت کا دم بھرنے والوں میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ میری محبت رسمی ہے یا پھر آج تم کوئی معرکہ کربلا برپا کرتے ہو ۔ میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ میری محبت میں پھر تم آج کے وقت یزیدیوں کو للکارتے ہو یا نہیں ۔ روح حسین رضی اللہ عنہ آج پھر دریائے فرات کو رنگین دیکھنا چاہتی ہے ، آج تمہارے صبر و استقامت کا امتحان لینا چاہتی ہے ۔ کہ کون اسلام کا جھنڈا سربلند کرتے ہوئے تن من دھن کی بازی لگاتا ہے ، کون ہے جو مجھ سے حقیقی پیار کرتا ہے ۔

حسینیت کا تقاضا یہ ہے کہ جہاں جہاں تمہیں یزیدیت کے کردار کا نام و نشان نظر آئے حسینی لشکر کے غلام و فرد بن کر یزیدیت کے بتوں کو پاش پاش کردو ۔ اس کے لیے اگر تمہیں مال ، جان ، اور اپنی اولاد ہی کیوں نہ قربان کرنی پڑے ۔ خصوصا آج جو کچھ مقبوضہ کشمیر میں ہمارے بھائیوں ، بچوں ، ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ ہو رہا ہے حسینیت کا تقاضا ہے کہ ہم سب ان کے حو میں آواز بلند کریں ۔

پہلے حسینی کردار کی تجلی اپنے اندر پیدا کرو ، سیرت حسین کو اپنے سینے پہ سجالو ، پھر اس قوت حسینی سے یزیدی کردار کی مخالفت کرو اور اس کا مقابلہ کرو ۔ کاش ہمیں وہ دل نصیب ہوجائے جس میں عمل و محبت امام حسین رضی اللہ عنہ ہو ۔ کیوں کہ یہ دنیا تو ہر کسی کو چھوڑنی ہے ، جس نے اقتدار کے نشے میں اگر لوگوں کا قتل عام کیا ، معصوموں کا خون بہایا ، ظلم کے پہاڑ گرائے وہ بھی مرگیا ، جس نے اپنے سینے پر تیروں کو جگہ دی ، شریعت کی پیروی کی ، مخلوق کی خدمت کی وہ بھی چلا گیا۔ لیکن یزیدیت تباہی و بربادی کا نام ہے ، اور حسینیت محبت و اخوت و بہادری کا نام ہے ۔ جو ظالم ہو کر مرتا ہے وہ خالق و مخلوق کی نظر میں مردود ہے ۔ جو عادل ہوکر اپنی جان رب کریم کے حوالے کرتا ہے وہ مقبول ہو جاتا ہے ۔ یہی شہادت حسین رضی اللہ عنہ کا فلسفہ تھا ۔ یہی آپ کا جذبہ تھا کہ حسینیت کبھی کسی ظالم و جابر کے سامنے سرخم نہیں کرتی اور کبھی مصیبت میں نہیں گھبراتی ۔ وہ مصیبت میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی ہے تو خوشی میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی ہے ۔

حضرت سیّدنا اما م حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے حقیقی فلسفہ و حقیقت اور مقصد کو سمجھا جائے اور اس سے ہمیں جو سبق اورپیغام ملتا ہے اسے دنیا میں عام کیا جائے کیونکہ پنڈت جواہر لا ل نہرو کے بقول ’’ حسین کی قربانی ہر قوم کےلیے مشعلِ راہ و ہدایت ہے ‘‘ اور جیسا کہ مولانا محمد علی جوہر نے شہادت حسین پہ کہا ہے کہ : ⬇

قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

اور کسی شاعر نے بہت پیاری بات کہی ہے : ⬇

نہ یزید کا وہ ستم رہا نہ وہ ظلم ابن زیاد کا
جو رہا تو نام حسین کا جسے زندہ رکھتی ہے کربلا

حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ حق ہے اور یزید باطل ہے اور دین کی بقا کےلیے ہر دور میں شبیری کردار درکارہے کہ مرورِ وقت کے باوجود خونِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سرخی اور زیادہ بڑھتی جارہی ہے ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس عظیم الشان قربانی سے اس داستانِ حرم کی تکمیل ہوئی جو سیّدنا اسماعیل علیہ السّلام سے شروع ہوئی تھی اور حق وباطل ، کفر واسلام ، نیکی و بدی اورخیر وشر کے درمیان تمیز ہو گئی اور حد فاصل قائم ہوگئی ۔ یزیدیت مذموم ٹھہری اور یزید کا نام قیامت تک کےلیے گالی بن کر رہ گیا ۔ اللہ تعالیٰ ہم لوگوں کو شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ سے سبق لینے ، حق پر چلنے اور ہمیں پیغامِ شہادت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ (مزید حصّہ نمبر 12 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

فضائل و مناقب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 10

0 comments

فضائل و مناقب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 10

شیعوں نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو بلایا اور پھر شہید کر دیا : شیعوں کے مطابق سارا کوفہ شیعہ تھا اور شیعہ کمزور نہیں بلکہ بڑی طاقت و تعداد میں تھے ، چالیس ہزار اور ایک روایت کے مطابق ایک لاکھ کے قریب قریب شیعوں نے بیعت بھی کی ۔ ہزاروں اہل کوفہ شیعوں نے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو خطوط لکھے اور بلوایا اور حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے جوابی خطوط لکھے اور جلد کوفہ پہنچنے کا فرمایا ۔ ثبوت کتب شیعہ سے : أن أهل الكوفة كتبوا إليه: انا معك مائة ألف، وعن داود بن أبي هند عن الشعبي قال: بايع الحسين عليه السلام أربعون ألفا من أهل الكوفة ۔
ترجمہ : بے شک کوفیوں نے امام حسین کی طرف خط لکھے بے شک ہم آپ کے ساتھ ہیں اور ہم ایک لاکھ کے قریب ہیں۔۔۔شعبی کی روایت کے مطابق چالیس ہزار کوفیوں نے امام حسین کی بیعت کی ۔ (شیعہ کتاب بحار الانوار 44/337)

وبايعه الناس حتى بايعه منهم ثمانية عشر ألفا فكتب إلى الحسين ع اما بعد فان الرائد لا يكذب أهله وان جميع أهل الكوفة معك وقد بايعني منهم ثمانية عشر ألفا فعجل الاقبال حين تقرأ كتابي هذا والسلام ۔
ترجمہ : (سیدنا مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہما کے ذریعے) اٹھارہ ہزار کوفیوں نے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور سیدنا مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہما نے امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا کے سارے کوفہ والے آپ کے ساتھ ہیں اور ان میں سے 18 ہزار نے میری بیعت کر لی ہے تو جب آپ کو یہ میرا خط ملے تو آپ جلدی تشریف لائیں والسلام ۔ (شیعہ کتاب اعیان الشیعۃ 1/589،چشتی)

وتواترت الکتب حتی اجتمع فی نوب متفرقۃ اثنا عشر الف کتاب ۔

ترجمہ : کوفیوں کی طرف سے متواتر خطوط آئے یہاں تک کہ حضرت حسین کے پاس بارہ ہزار کے قریب خطوط جمع ہو گئے ۔ (شیعہ کتاب ناسخ التواریخ 2/262)

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا جواب

من الحسين بن علي إلى الملأ من المؤمنين والمسلمين أما بعد فان هانيا وسعيدا قدما علي بكتبكم وكانا آخر من قدم علي من رسلكم وقد فهمت كل الذي اقتصصتم وذكرتم ومقالة جلكم انه ليس علينا امام فاقبل لعل الله يجمعنا بك على الحق والهدى وانا باعث إليكم أخي وابن عمي وثقتي من أهل بيتي مسلم بن عقيل فان كتب إلي انه قد اجتمع رأي ملئكم وذوي الحجى والفضل منكم على مثل ما قدمت به رسلكم وقرأت في كتبكم فاني أقدم إليكم وشيكا إن شاء الله تعالى ۔
ترجمہ : یہ خط حسین بن علی کا مومنوں ، مسلمانوں، شیعوں کی طرف ہے امابعد! بہت سے قاصدوں اور خطوط بیشمار آنے کے بعد جو تم نے مجھے خط ہانی وسعید کے ہاتھ بھیجا مجھے پہنچا تمہارے سب خطوط کے مضامین سے مطلع ہوا …… واضح ہو کہ میں بالفعل تمہارے پاس اپنے برادر و پسرعم و محل اعتماد مسلم بن عقیل کو بھیجتا ہوں ۔ اگر مسلم مجھے لکھیں کہ جو کچھ تم نے مجھے خطوط میں لکھا ہے بمشورۂ عقلا و دانایان و اشراف و بزرگان قوم لکھا ہے اس وقت میں انشاء اﷲ بہت جلد تمہارے پاس چلا آؤں گا ۔ (شیعہ کتاب اعیان الشیعۃ 1/589،چشتی)

حتی بایعہ فی ذالک الیوم ثمانون الف رجل فلما رای مسلم کثرۃ من بایعہ من الناس کتب الی الحسین ان قد بایع ثمانون الف فعجل بالقدوم ۔
ترجمہ : حتی کہ اس ایک دن میں آٹھ ہزار کوفیوں نے امام مسلم کی بیعت کی جب امام مسلم بن عقیل نے دیکھا کہ لوگ کثرت سے بات کر رہے ہیں تو آپ نے حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف خط لکھا کہ آٹھ نے بیعت کر لی ہے آپ جلدی تشریف لائیں ۔ (ناسخ التواریخ2/266)

یزیدی پلیدوں کی دھمکیوں ، لالچ ، نسلی تعصب و منافقت وغیرہ میں آکر اہلِ کوفہ شیعانِ علی کہلانے والوں نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے نائب مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہما سے بے وفائی غداری کی اور امام مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہما کو شہید کرایا اور امام نے اسی بے وفائی غداری منافقت کا احوال امام حسین رضی اللہ عنہ کو بھیجنے کی وصیت کی : ⬇

یزید و ابن زیاد کی دھمکیوں لالچوں میں اکر کوفی شیعوں نے امام حسین کی بیعت توڑ دی ۔

ولاینبغی علینا باغ فمن لم یفعل برئت منہ الذمۃ و ھلال لنا دمہ و مالہ…فلما سمع اہل الکوفۃ جعل ینظر بعضھم بعضا و نقضوا بیعۃ الحسین ۔
ترجمہ : ابن زیاد نے دھمکی دی کہ کہ ہم پر کوئی بغاوت نہ کریں اگر کسی نے بغاوت کی تو وہ اپنا خود ذمہ دار ہے اس کا خون ہمارے لئے حلال ہے اس کا مال ہمارے لیے حلال ہے۔۔۔پس جب اہل کوفہ نے یہ دھمکی سنیں تو ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور انہوں نے حضرت حسین کی بیعت توڑ ڈالی  (شیعہ کتاب ناسخ التواریخ ملتقطا2/273,274،چشتی)

شام تک صرف تیس شیعہ سیدنا مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہما کے ساتھ رہے ۔

فما زالوا يتفرقون ويتصدعون حتى أمسى ابن عقيل وما معه ثلاثون نفسا في المسجد حتى صليت المغرب فما صلى مع ابن عقيل الا ثلاثون نفسا ۔
ترجمہ : ابن زیاد کی دھمکی کے بعد کوفی شیعہ متفرق ہونے لگے اور بیعت توڑنے لگے یہاں تک کہ شام کے وقت حضرت مسلم بن عقیل کے ساتھ 30 تیس لوگ بچے جنہوں نے نماز مغرب پڑھی ۔ (شیعہ کتاب مقتل الحسین صفحہ نمبر 45)

شام کے بعد سیدنا مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایک بھی کوفی شیعہ نہ تھا سب نے بے وفائی غداری کی اور اپنے گھر سے نکال دیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ایک انجان عورت کے گھر پناہ لی :

فقام وقال : يا أمة الله ما لي في هذا المصر منزل ولا عشيرة، فهل لك في أجر ومعروف، لعلي مكافئك بعد اليوم، فقالت: يا عبد الله وما ذاك؟ قال: أنا مسلم بن عقيل كذبني هؤلاء القوم وغروني وأخرجوني ۔
ترجمہ : حضرت مسلم بن عقیل اٹھے اور ایک انجان گھر کی طرف آئے ایک عورت گھر سے نکلیں تو ان سے فرمایا میرا اس شہر انسا میں اب کوئی ٹھکانہ رہا کوئی خاندان نہ رہا تو کیا تم مجھے پناہ دے کر اجر اور نیکی کماؤں گی شاید کہ میں آج کے دن کا اچھ بدلہ تمہیں لوٹا دو ۔ عورت نے کہا کہ اللہ کے بندے آپ کون ہیں تو آپ نے فرمایا کہ میں مسلم بن عقیل ہوں ان کوفی شیعوں نے مجھے جھٹلا دیا ہے اور مجھے دھوکا دیا ہے اور مجھے در بدر کر دیا ہے ۔ (شیعہ کتاب الارشاد جلد 2 صفحہ 55،چشتی)

شہادت امام مسلم رضی اللہ عنہ اور ان کی وصیت امام حسین رضی اللہ عنہ کے لیے کہ کوفی شیعہ غدار مکار جھوٹے ہیں ان کی باتوں میں مت آئیے ، اگر کوفہ کی طرف روانہ ہیں تو واپس چلے جائیے ۔

ثم قال لمحمد بن الأشعث : يا عبد الله إني أراك ستعجز عن أماني، فهل عندك خير؟ أتستطيع أن تبعث من عندك رجلا على لساني يبلغ حسينا، فإني لأراه قد خرج إليكم اليوم مقبلا أو هو خارج غدا وأهل بيته معه، وإن ما ترى من جزعي لذلك، فيقول: إن مسلما بعثني إليك وهو في أيدي القوم أسير لا يرى أن يمسي حتى يقتل وهو يقول: إرجع بأهل بيتك ولا يغرك أهل الكوفة فإنهم أصحاب أبيك الذي كان يتمنى فراقهم بالموت أو القتل، إن أهل الكوفة قد كذبوك وكذبوني، وليس لمكذوب رأي، فقال محمد: والله لأفعلن ۔
ترجمہ : حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہما نے محمد بن اشعث سے کہا کہا کہ کیا آپ کسی قاصد یا خط کے ذریعے میرا پیغام امام حسین کی طرف پہنچائیں گےآپ نے فرمایا جی بالکل ۔ حضرت مسلم بن عقیل نے پیغام یہ دیا کہ امام حسین کی طرف پیغام بھیجو کہ بے شک خوفیہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے متعلق آپ کے والد صاحب نے کہا تھا کہ کہ میں مر جاؤں لیکن ان کا ساتھ نہ رہو بے شک یہ لفا انہوں نے آپ کو جھٹلا دیا ہے اور مجھے بھی جھٹلا دیا ہے تو آپ اہل کوفہ کے دھوکے میں مت آئیے واپس لوٹ جائے ۔ (شیعہ کتاب ناسخ التواریخ ابصار العین صفحہ 83)

حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو کوفیوں کی بے وفائی غداری منافقت کی خبر پہنچی تو کوفی شیعوں کی مذمت کی انہیں غدار بے وفا اپنا قاتل قرار دیا اور کوفی شیعہ لشکر یزیدی لشکر کے ساتھ مل کر امام حسین کے قاتل بنے بلکہ شیعہ کتب کے مطابق تو یزیدی فوج دور ٹہری رہی اور امام حسین کے مدمقابل وہی 80 ہزار کوفی شیعہ تھے جنہوں نے عہد و وفا کے وعدے کرکے بلوانے کے بعد آپ سے غداری منافقت کرتے ہوئی اپ کے قتل کےلیے اپ کے سامنے تھے : ⬇

جب کوفیوں نےبےوفائی ، غداری کی ۔ مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہما کو شہید کیا ، جس کی خبر امام حسین رضی اللہ عنہ کو یہ خبر کربلا کے قریب ملی تو آپ نےفرمایا : قد خذلتنا شيعتنا ۔ ہمارے کہلانے والے شیعوں نے ہمیں رسوا کیا ، دھوکہ دیا ، بے وفائی کی ۔ (شیعہ کتاب موسوعہ کلمات الامام الحسین صفحہ 422)

أني أقدم على قوم بايعوني بألسنتهم وقلوبهم، وقد انعكس الأمر لأنهم استحوذ عليهم الشيطان فأنسيهم ذكر الله، والآن ليس لهم مقصد إلا قتلي وقتل من يجاهد بين يدی ۔
ترجمہ : میں (امام حسین رضی اللہ عنہ) تو یہ سمجھ کر کوفیوں کے پاس جا رہا تھا کہ انہوں نے زبان اور دلوں سے میری بیعت کی ہے لیکن معاملہ اس کےالٹ نکلا ۔ ان کوفیوں پر شیطان نے غلبہ حاصل کر لیا ہے اور اللہ کی یاد سے بھلا دیا ہے اب ان کوفی شیعوں کا مقصد مجھے اور میرے ساتھیوں اہل بیت کو قتل کرنا ہی ہے ۔ (شیعہ کتاب موسوعہ کلمات الامام الحسین صفحہ 483)

ثابت ہوا کہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے بھی انہی کوفی شیعوں کو اپنا قاتل کہا جنوں نے خطوط لکھے تھے ۔

شیعہ کتاب ناسخ التواریخ میں لکھا ہے کہ ابن زیاد سپہ سالار لشکرِ یزید جس نے حضرت امام حسین  رضی اللہ عنہ کو شہید کیا 80 ہزار کوفی شیعوں پر مشتمل تھا ملاحظہ ہو : ⬇

وابی مخنف لشکر ابن زیاد را ہشتاد ہزار سوار نگاشتہ و گوید ہمگاں کُوفی بودند و حجازی و شامی با ایشاں نہ بود ۔
ترجمہ : یعنی ابو مخنف نے ابن زیاد کا لشکر (جو امام حسین رضی اللہ عنہ سے لڑنے کے لیے سب سے آگے تھا) اسّی ہزار بتایا ہے اور کہا ہے کہ وہ سب کے سب کوفی شیعہ تھے ۔ ان میں نہ کوئی حجازی تھا اور نہ شامی ۔ (شیعہ کتاب ناسخ التواریخ فارسی جلد 2 صفحہ 183،چشتی)

حتی کہ قاتل غدار شمر بھی غدار کوفی شیعہ تھا  شمر بھی پکا کوفی شیعہ تھا مگر اہل کوفہ کی طرح یہ بھی منافق غدار بے وفا ہو گیا اور شیعہ کے مطابق قاتلانِ حسین میں شمار کیا جاتا ہے : ⬇

شهد صفين معه شبث بن ربعي وشمر بن ذي الجوشن الضبابي ثم حاربوا الحسين ع يوم كربلاء ۔
ترجمہ : شبث بن ربعي اور شمر بن ذي الجوشن شیعان علی میں سے تھے حضرت علی کے ساتھ جنگ صفین لڑی لیکن پھر یہ غدار ہوگئے اور امام حسین سے جنگ لڑی کربلا کے دن ۔ (شیعہ کتاب اعیان الشیعۃ1/326)

حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی شہادت سے پہلے سختی سے حکم دیا تھا کہ : لا تشقي علي جيبا، ولا تخمشي علي وجها، ولا تدعي علي بالويل والثبور ۔
ترجمہ : جب میں شہید ہوجاؤں تو اپنے کپڑے مت پھاڑنا ، اپنا چہرہ (سینہ، پیٹھ) زخمی مت کرنا (ماتم مت کرنا) اور یہ مت پکارنا کہ ہائے مصیبت ، ہائے ہم ہلاک ہوگئے (مطلب نوحے ماتم چیخ و پکار مت کرنا) ۔ (شیعہ کتاب بحار الانواز45/3،چشتی)

حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا و دیگر اہل بیت امام رضی اللہ عنہم کی تقریریں جس مین کوفی شیعون کو مکار منافق غدار اور قاتلانِ حسین کہا گیا ملاحظہ کیجیے : ⬇

حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی تقریر

اما بعد ، اے اہل کوفہ ! اے غدارو ، اے مکارو ، ابےحیلہ بازو تم ہم پر گریہ کرتے ہو اور خود تم نے ہم کو قتل کیا ہے ۔ ابھی تمہارے ظلم سے ہمارا رونا موقوف نہیں ہوا اور تمہارے ستم سے ہمارا فریاد و نالہ ساکن نہیں ہوا اور تمہاری مثال اس عورت کی ہے جواپنے رسّہ کو مضبوط بٹتی اور پھر کھول ڈالتی ہے ۔ تم ہم پر گریہ و نالہ کرتے ہو حالانکہ خود تم ہی نے ہم کو قتل کیا ہے ۔ سچ ہے وﷲ ! لازم ہے کہ تم بہت گریہ کرو اور کم خندہ ہو۔ تم نے عیب و عارِ ابدی خود خرید کیا ۔اس عار کا دھبّہ کسی پانی سے تمہارے جامے سے زائل نہ ہوگا۔جگر گوشہ خاتم پیغمبران و سید جوانانِ بہشت کے قتل کرنے کا کس چیز سے تدارک کر سکتے ہو! ۔ اے اہل کوفہ! تم پر وائے ہو!! تم نے کن جگر گوشہ ہائے رسولؐ کو قتل کیا اور کن باپردے گان اہل بیت رسول کو بے پردہ کیا ؟ کس قدر فرزندانِ رسول کی تم نے خونریزی کی ،ان کی حرمت کو ضائع کیا ۔تم نے ایسے بُرے کام کئے جن کی تاریکیوں سے زمین و آسمان گھر گیا ۔ (شیعہ کتب ۔ جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل ۱۵صفحہ ۵۰۴-۵۰۳،چشتی)(ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب ۲ صفحہ۲۴۳مطبوعہ لندن)

بعد ازاں حضرت سیدہ فاطمہ بنت امام حسین رضی اللہ عنہما نے بھی اہل کوفہ کو لعن طعن کی ہے لکھا ہے : ⬇

درودیوار سے صدا ئے نوحہ بلند ہوئی اور کہا اے دختر پاکان و معصومان ۔ خاموش رہو کہ ہمارے دلوں کو تم نے جلا دیا اور ہمارے سینہ میں آتش حسرت روشن کردی اور ہمارے دلوں کو کباب کیا ۔ (جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل ۱۵صفحہ ۵۰۵،چشتی)

اس کے بعد حضرت سیدہ ام کلثوم خواہر امام حسین رضی اللہ عنہما نے ہودج میں سے مندرجہ ذیل تقریر فرمائی : ⬇

اے اہل کوفہ !تمہارا حال اور مآل برا ہو اور تمہارے منہ سیاہ ہوں!تم نے کس سبب سے میرے بھائی حسینؓ کو بلایا اور ان کی مدد نہ کی اور انہیں قتل کرکے مال و اسباب ان کا لوٹ لیا؟اور ان کی پردیگان عصمت و طہارت کو اسیر کیا؟وائے ہو تم پر اور ۔ ہو تم پر،کیا تم نہیں جانتے کہ تم نے کیا ظلم و ستم کیا ہے اور کن گناہوں کا اپنی پشت پر انبار لگایا اور کیسے خون ہائے محترم کو بہایا دخترانِ رسولِ مکرمؐ کو نالاں کیا؟ …… بعد اس کے مرثیہ سید الشہداء میں چند شعر انشاء فرمائے جس کے سننے سے اہل کوفہ نے خروش واویلا واحسرتا بلند کیا۔ ان کی عورتوں نے بال اپنے کھول دیئے۔ خاک حسرت اپنے سر پر ڈال کے اپنے منہ پر طمانچے مارتی تھیں اور واویلا وا ثبورا کہتی تھیں اور ایسا ماتم برپا تھا کہ دیدۂ روزگار نے کبھی نہ دیکھا تھا۔(شیعہ کتب ۔ جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل ۱۵صفحہ ۵۰۵ ، ۵۰۶،چشتی)(ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب نمبر۲ صفحہ ۲۴۶)

امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی تقریر : ⬇

حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ سے خطاب کیا اور فرمایا : میں تم کو خدا کی قسم دیتا ہوں !تم جانتے ہو کہ میرے پِدر کو خطوط لکھے اور ان کو فریب دیا اور ان سے عہد و پیمان کیا اور ان سے بیعت کی۔آخر کار ان سے جنگ کی اور دشمن کو ان پر مسلط کیا ۔ پس ۔۔ ہو تم پر ! تم نے اپنے پاؤں سے جہنم کی راہ اختیار کی اور بری راہ اپنے واسطے پسند کی۔ تم لوگ کن آنکھوں سے حضرت رسول کریم صلی الل علیہ و آلہ وسلّم کی طرف دیکھو گے جس روز وہ تم سے فرمائیں گے ۔ تم نے میری عزت کو قتل کیا اور میری ہتک حرمت کی۔ کیا تم میری امت سے نہ تھے۔‘‘ یہ سن کر پھر صدائے گریہ ہر طرف سے بلند ہوئی ۔ آپس میں ایک دوسرے سے کہتا تھا ہم لوگ ہلاک ہوئے۔جب صدائے فغاں کم ہوئی ، حضرت نے فرمایا ۔ خدا اس پر رحمت کرے جو میری نصیحت قبول کرے سب نے فریاد کی کہ یا بن رسول ﷲ ! ہم نے آپ کا کلام سنا۔ ہم آپ کی اطاعت کریں گے ۔۔۔ جو آپ سے جنگ کرے اس سے ہم جنگ کریں اور جو آپ سے صلح کرے اس سے ہم صلح کریں ۔ اگر آپ کہیں آپ کے ستمگاروں سے آپ کا طلبِ خون کریں ۔ حضرت نے فرمایا ۔ ہیہات ہیہات اے غدّارو اے مکّارو اب پھر دوبارہ میں تمہارے فریب میں نہ آؤں گا اور تمہارے جھوٹ کو یقین نہ جانوں گا ۔ تم چاہتے ہو مجھ سے بھی وہ سلوک کرو جو میرے بزرگوں سے کیا ۔ بحق خداوند آسمانہائے دوّار!میں تمہارے قول و قرار پر اعتماد نہیں کرتا اور کیونکر تمہارے دروغ بے فروغ کو یقین کروں ، حالانکہ ہمارے زخم ہائے دل ہنوز تازہ ہیں،میرے پدر اور ان کے اہل بیت کل کے روز تمہارے مکر سے قتل ہوئے اور ہنوز مصیبت حضرت رسول و پدر و برادر و عزیزو اقرباء میں نہیں بھولا اور اب تک ان مصیبتوں کی تلخی میری زبان پر ہے اور میرے سینے میں ان محبتوں کی آگ بھڑک رہی ہے ۔ (شیعہ کتاب جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل ۱۵ صفحہ ۵۰۶،۵۰۷،چشتی)

ایک دوسری روایت میں ہے : فَقَالَ عَلِیُّ ابْنُ حُسَیْنِ بِصَوْتٍ ضَعِیْفٍءَ تَنُوْحُوْنَ وَ تَبْکُوْنَ لِاَجْلِنَا فَمَنْ قَتَلَنَا۔ سیّد سجاد بآواز ضعیف فرمود،ہاں اے مردم بر ما گریند و برما نوحہ مے کنند۔پس کشندۂ ما کیست؟ مارا کہ کشت و کہ اسیر کرد ۔ (شیعہ کتاب ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب ۲ صفحہ ۲۴۳) ۔ کہ امام زین العابدین نے کمزور آواز سے کہا تم ہم پر نوحہ و ماتم کرتے اور روتے ہو ۔تو پھر ہم کو قتل کس نے کیا ہے تمہی نے تو کیا ہے ۔

حضرت سیدہ اُم کلثوم رضی اللہ عنہا نے اہل کوفہ کی عورتوں کے رونے پر محمل پر سے کہا۔’’اے زنانِ کوفہ! تمہارے مردوں نے ہمارے مردوں کو قتل کیا ہم اہلِ بیت کو اسیر کیا ہے پھر تم کیوں روتی ہو؟ خداوند عالم بروز قیامت ہمارا تمہارا حاکم ہے ۔ (شیعہ کتب  جلاء العیون جلد ۲ باب ۵ فصل ۱۵ صفحہ ۵۰۷)(ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب ۲ صفحہ ۲۴۸)

ان سب تقاریر سے دو باتیں ثابت ہیں : ⬇

(1) قاتلینِ امام حسین رضی اللہ عنہ کوفی شیعہ تھے اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے مبایعین تھے ۔

(2) سب سے پہلے عالمگیر ماتم کرنے والے (یزید کے بعد) خود اہل کوفہ شیعہ قاتلینِ امام حسین رضی اللہ عنہ ہی تھے مگر اہل بیت نے ماتم و چیخ و پکار کو ناپسند کیا ۔ ان سے ملتا جلتا عربی مواد ناسخ التواریخ جلد تین صفحہ 32 و مابعدہ میں موجود ہے ۔

لاکھوں صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم میں سے اگر کچھ کی اولادیں نافرمان نکلیں تو اس سے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم پر کوئی حرف نہیں آتا حتیٰ کہ حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا بھی اپنے والد کا نافرمان نکلا تھا اس سے حضرت نوح پر کوئی اعتراض و حرف نہیں آتا بلکہ جب مدینہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پتہ چلا کہ بے وفا غدار کوفی شیعوں نے یزیدی فوج کے ساتھ مل کر لختِ جگر امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا ہے تو اس پر اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت توڑ دی اور شدید مخالف ہو گئے اور امام حسین رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینے لے لیے تیار ہونے لگے ۔ جب یزید کو پتہ چلا تو اس نے بہت ہی بڑا لشکر مدینہ بھیجا اور بے دردی سے کئ صحابہ کرام اور ان کی اولاد و خاندان رضی اللہ عنہم کو شہید کیا ۔ اس طرح صحابہ کرام اور ان کی اولادوں نے امام حسین رضی اللہ عنہم کی خاطر اور اسلام و حق کی خاطر شہادت تو قبول کی مگر کوفی شیعوں کی طرح بے وفائی غداری منافقت نہیں کی : ⬇

واقعہ کربلا کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مدینہ منورہ میں یزید کے خلاف آواز اٹھائی اور مقابلے کے تیار ہوگئے ، یزید نے ایک بڑا لشکر اہل مدینہ کی طرف بھیجا اور قتل عام کا حکم دیا..جس میں کئ صحابہ انصار و مہاجرین اور ان کی اولادین رضی اللہ عنہم شہید کی گئیں اس واقعہ کو واقعہ حرہ کہا جاتا ہے : ⬇

کل المورخین و اجمعوا علی ان اہل الشام قتلوا فی ھذہ الواقعۃ جمعا کبیرا من الصحابۃ و من ابناء المھاجرین و الانصار ۔
ترجمہ : یعنی تمام مورخین کا اجماع ہے کہ واقعہ حرہ میں صحابہ اور انصار و مہاجرین رضی اللہ عنہم کی اولاد کی ایک بری تعداد قتل کی گئ ۔ (شیعہ کتاب مقتل الحسین1/81،چشتی)

فبلغ عدۃ قتلی الحرۃ یومئذ من قریش و الانصار و المھاجرین و وجوہ الناس الفا و سبع مائۃ ۔
ترجمہ : یعنی واقعہ حرہ میں اس دن قریش مین سے اور انصار و مہاجرین صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے اور بڑے ذی شرف لوگوں مین سے ایک ہزار سات سو قتل ہوئے ۔ (شیعہ کتاب بھج الصباغۃ شرح نھج البلاغۃ ص20)

ایک جاہلانہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ صحابہ کرام اور ان کی اولادیں رضی اللہ عنہم کربلا کے بعد تو یزید کے خلاف نکلے مگر کربلا سے پہلے امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیوں نا نکلے ؟

جواب : واضح رہے کہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ جنگ کےلیے نہیں نکلے تھے کہ صحابہ کرام ان کی اولادیں اہل مکہ اہل مدینہ رضی اللہ عنہ بھی ساتھ جاتے ۔ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ تو جنگ کےلیے نہیں بلکہ بیعت کےلیے کوفہ جا رہے تھے کوفیوں کے بلانے پر ۔ شاید حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کوفی شیعوں کے کثیر تعداد میں خطوط لکھ کر بلانے پر کوفہ کو اپنا مرکز بنانا چاہتے تھے ۔ اسی لیے اپنے اہل و عیال رضی اللہ عنہم سمیت ہجرت کر کے کوفہ روانہ ہوئے ۔ باقی جن جن جن صحابہ رضی اللہ عنہم کو جنگ کا معلوم ہوا یا زندہ موجود تھے اور پنہچ سکتے تھے تو وہ میدانِ کربلا میں پنچے اور امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ شہید ہوۓ جیسا کہ سابقہ مضمون میں ہم تفصیل سے لکھ چکے ہیں ۔ (مزید حصّہ نمبر 11 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

فضائل و مناقب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 9

0 comments

فضائل و مناقب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 9

حسینی قافلے کے شرکا نے میدانِ کربلا میں بے مثال قربانیاں پیش کرکے امامِ عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کے رُفَقَا نے اسلام کی بنیادوں کو مضبوط ومستحکم کیا ، حسینی قافلے کے شُرَکاء میں بنوہاشم کے سولہ ، سترہ یا انیس افراد تھے ۔ (سیر اعلام النبلاء جلد 4 صفحہ 416 تا 426)(الاستیعاب جلد 1 صفحہ 445)


سوانح کربلا صفحہ نمبر 128 پر ہے : امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے ساتھ اہلِ بیت و دیگر کل 82 نُفُوس  تھے جبکہ ایک قول کے مطابق یہ کاروانِ عشق 91 افراد پر مشتمل تھا جس میں 19 اہلِ بیت اور 72 دیگر جاں نثار تھے ۔(تاریخ  کربلا صفحہ 269)

حکیمُ الامت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ الرَحمَۃُ فرماتے ہیں : کربلا میں حسینی قافلہ بہتّر (72) آدمیوں پرمشتمل تھا ۔ (مراٰۃ المناجیح جلد 3 صفحہ 387)

حسینی قافلے کے شُرَکا امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ سے بے پناہ محبت کرتے اور اپنا تَن مَن دَھن آپ پر لٹانے کا بے مثال جذبہ رکھتے تھے اور بڑے بہادر و شجاع تھے ۔ امام زین العابدین علی اَوْسَط رضی اللہ عنہ نے دورانِ سفر عرض کی : بابا جان ! جب ہم حق پر ہیں تو ہمیں موت کی کوئی پروا نہیں ۔ (تاریخ الطبری جلد 9 صفحہ 216،چشتی)

اسی طرح ایک جانثار نے عرض کی : اگر دنیا ہمارے لئے باقی رہے اور ہم اِس میں ہمیشہ رہنے والے ہوں اور پھر آپ کی مددو نصرت کے سبب ہمیں دنیا چھوڑنی پڑے تو ہم آپ ہی کا ساتھ دیں گے ۔ (تاریخ الطبری جلد 9 صفحہ 213،چشتی)

حسینی قافلے کے بعض شُرَکا تو بہت مشہور ہیں مثلاً علی اکبر ، علی اصغر ، عباس ، حُر ، قاسم ، عَون ، محمد رضی اللہ عنہم مگر بعض زیادہ شہرت نہیں رکھتے ، جیسےحضرت سیدنا عثمان بن علی المرتضیٰ ، ابوبکر بن امام حسن ، عُمَر بن امام حسن ۔ حضرتِ عثمان بن علی نے امام عالی مقام رضی اللہ عنہم کے آگے آگے رہ کر خود کو اُن کی ڈھال بنائے رکھا ، یزید اَصْبَحِی نے آپ کو تیر مار کر زخمی کیا پھر آپ کا مبارک سَر تَن سے جدا کیا اور اپنے لیڈر سے ذلیل دنیا کا انعام لینے پہنچ گیا ۔ (الاخبار الطوال صفحہ نمبر 379،چشتی)

شِمْر بن ذی الجَوْشَن نے کربلا میں حسینی لشکر کے بعض جان نثاروں کو اَمان دینے کی بات کی تو انہوں نے یہ کہہ کر اَمان کو ٹھکرا دیا کہ تجھ پر اور تیری اَمان پر اللّٰہ تعالٰی کی لعنت ہو کہ تو ہمیں اَمان دیتا ہے اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بیٹے (امام حسین) کےلیے کوئی اَمان نہیں ۔ (تاریخ الطبری جلد 9 صفحہ 224)

حضرت ابوبکر بن حسن رضی اللہ عنہ کربلا میں شہید ہوئے جو عبداللہ بن عقبہ غَنَوِی کے تیر کا نشانہ بنے ۔ (الاخبار الطوال صفحہ نمبر 379)

قیدی بنائے جانے والے بچوں میں ایک چار سال کے شہزادے حضرت عُمَر بن حسن رضی اللہ عنہما تھے ۔ (الاخبار الطوال صفحہ 380)

حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے عُمَر نامی دو شہزادے تھے ایک نے کربلا میں شہادت پائی اور دوسرے قید ہوئے ۔ (سوانح کربلا صفحہ 126تا127)

خاندانِ علی میں عام طور پر ابوبکر ، عُمَر ، عثمان اور عائشہ نام رکھے جاتے تھے ۔ جن پانچ بیٹوں سے مولا علی رضی اللہ عنہ کی اولاد چلی اُن میں سے ایک کا نام عمر رضی اللہ عنہ تھا ، جن کا 85 برس کی عمر میں مقامِ یَنْبُع میں وصال ہوا جبکہ ایک بیٹے حضرت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے جنہوں نے کربلا میں شہادت پائی ۔ (الکامل فی التاریخ جلد 3 صفحہ 262تا263،چشتی)

اہلِ بیتِ اَطْہار کی صحابۂ کرام سے مَحبَّت کا دَرْس بھی ملتا ہے ۔ یہ خلفائے راشدین سے محبت ہی تھی کہ حسنین کریمین رضی اللہ عنہم نے اپنی اولاد کے نام ان کے نام پر  رکھے ، اسی طرح حضرت سیّدنا امام زین العابدین علی اَوْسَط رضی اللہ عنہ کے دوبیٹوں کے نام عُمَر اور عثمان تھے ، امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی ایک شہزادی عائشہ نام کی تھیں ، امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ کے تین  بچوں کے اسمائے گرامی عُمَر ، ابوبکر اور عائشہ تھے اور یوں ہی امام علی رضا رضی اللہ عنہ کی ایک صاحبزادی کا نام عائشہ تھا ۔ (طبقات الکبریٰ جلد 5 صفحہ 163،چشتی)(سیراعلام النبلاء جلد 8 صفحہ 251)(تہذیب الکمال جلد 7 صفحہ 403)

کربلا میں شہید ہونے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم

محترم قارئینِ کرام : اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم سے نام نہاد محبت کے دعوے دار واقعہ کربلا کے سے متعلق من گھڑت واقعات تو بیان کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ  عنہم پر بکواسات و تبرا کرتے ہیں اور اکثر کہتے ہیں کربلا میں صحابہ کرام رضی اللہ  عنہم کیوں ساتھ نہیں گۓ جبکہ حقاٸق اس کے بر عکس ہیں جہاں میدانِ کربلا میں اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کے افراد شہید ہوۓ وہاں ان سے زیادہ تعداد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بزرگی کی حالت میں شہید ہوۓ کتنا بڑا جھوٹ و ظلم ہےکہ حقاٸق کو بالاۓ طاق رکھ کر من گھڑت قصے کہانیاں بڑے زور و شور سے بیان کی جاتی ہیں آٸیے کچھ حقاٸق شعیہ اور اہلسنت کتب کی وشنی میں پڑھتے ہیں  : ⬇

(1) حضرت اسلم بن کثیر الازدی (مسلم بن کثیر) رضی اللہ عنہ : زیارت ناحیہ میں ان کا نام ’’اسلم‘‘ ذکر ہوا ہے جبکہ کتب رجال میں بجائے’’اسلم‘‘ کے ’’مسلم بن کثیر الازدی الاعرج‘‘بیان ہوا ہے زیارت ناحیہ کے جملات یوں ہیں : السلام علیٰ اسلم بن کثیر الازدی الاعرج ۔ (اقبال الاعمال جلد ۳ صفحہ ۷۹)

شیعہ علامہ زنجانی نے لکھا ہے کہ یہ صحابی رسول (ص) تھے ۔ (وسیلۃ الدارین صفحہ ۱۰۶)

شیعہ شیخ طوسی اور مامقانی نے اپنی کتب رجال میں نقل کرتے ہیں کہ جنگ جمل میں تیر لگنے سے پاؤں زخمی ہوگیا تھا جس کی وجہ سے’’اعرج‘‘ (ایک پاؤں سے اپاہج) ہو گئے انہوں نے صحبت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو درک کیا تھا ۔

علام عسقلانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : مسلم بن کثیر بن قلیب الصدفی الازدی الاعرج ۔۔۔ الکوفی لہ ادراک للنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘‘  مزید اضافہ کرتے ہیں فتح مصر میں بھی یہ صحابی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حاضر تھے ۔

علامہ طبری اور شیعہ محقق ابن شھر آشوب نے ان کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کربلا میں جملۂ اولیٰ میں شہید ہوئے ۔ (فرسان الھیجاء ذبیح اللہ محلاتی صفحہ نمبر ۳۶،چشتی)

حضرت مسلم بن کثیر ’’ازد‘‘ قبیلہ کے فرد تھے جب امام حسین علیہ السلام نے مدینہ سے ہجرت کی تو ان دنوں یہ صحابی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوفہ میں قیام پذیر تھے یہی وجہ ہے امام حسین علیہ السلام کو کوفہ میں آنے کی دعوت دینے والوں میں یہ شامل ہیں پھر حضرت مسلم بن عقیل جب کوفہ میں سفیرِ حسین بن کر پہنچے تو انھوں نے حضرت مسلم بن عقیل کی حمایت کی لیکن حضرت مسلم کی شہادت کے بعد کوفہ کو ترک کیا اور کربلا کے نزدیک حضرت امام حسین سے جا ملے اور پہلے حملہ میں جام شہادت نوش کی ۔ (شہدائے کربلا گروہ مصنفین صفحہ ۳۵۸)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس صحابی کے متعلق جو ایک جنگ میں ’’اعرج‘‘ ہونے کے باوجود شریک ہوئے اور اپنی جان کی قربانی پیش کی فرمایا : والذی نفسی بیدہ لقد رأیت عمروبن الجموح یطأُ فی الجنہ بعرجتہ ‘‘ یعنی مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے دیکھ رہا ہوں عمرو بن الجموح کو کہ لنگڑا ہوکر بھی جنت میں ٹہل رہا ہے ۔ اس بنا پرحضرت مسلم بن کثیر کا بھی وہی مقام ہے کہ اگرچہ قرآن فرماتا ہے : لیس علی الاعمی خرج ولا علی الاعرج حرج ۔ (سورۂ فتح، آیت ۱۷)

یعنی جہاد میں شرکت نہ کرنے میں اندھے پر کوئی حرج نہیں اورنہ ہی لنگڑے پر کوئی مؤاخذہ ہے لیکن اس فداکار اسلام نے نواسہ رسول کی حمایت میں اپنی اس اپاہج حالت کے باوجود جان قربان کر کے ثابت کیا کہ اسلام کے تحفظ کےلیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے یہی وجہ ہے’’صاحب تنقیح المقال‘‘ کے یہ جملے ہیں : ’’شہیدالطف غنی عن التوثیق‘‘ فرماتے ہیں چونکہ کربلا کے شھداء میں شامل لہذا وثاقت کی بحث سے بے نیاز ہیں ۔

(2) حضرت انس بن حارث رضی اللہ عنہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی تھے جنگ بدر و حنین میں شرکت بھی کی ۔ (تنقیح المقال مامقانی جلد ۱ صفحہ ۱۵۴،چشتی)

شیعہ مجتہد مامقانی لکھتا ہے : (انس) بن حارث صحابی نال بالطف الشھادۃ ‘‘ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے اور کربلا میں شہادت کے مقام پر فائز ہوئے ۔ (مقتل الحسین مقرم جلد ۲ صفحہ ۲۵۳)

امام ابن عبدالبر اپنی کتاب الاستیعاب میں یوں رقمطراز ہیں ’’ انس بن حارث رویٰ عنہ والد اشعث بن سلیم عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی قتل الحسین وقتل مع الحسین رضی اللہ عنھما ’’ انس بن حارث کے واسطہ سے اشعث بن سلیم کے والد نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی شہادت سے متعلق روایت نقل کی ہے کہ یہ (انس بن حارث) حضرت حسین (رضی اللہ عنہما) کے ہمراہ شہید ہوئے ۔ (الاستعیاب ابن عبداللہ جلد ۱ صفحہ ۱۱۲)

الاستیعاب نے جس روایت کا ذکر کیا ہے وہ یوں ہے کہ حضرت انس بن حارث نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرابیٹا (حسین) کربلا کی سر زمین پرقتل کیا جائے گا جو شخص اس وقت زندہ ہو اس کےلیے ضروری ہے کہ میرے بیٹے کی مدد و نصرت کوپہنچے ۔

روای کہتا ہے کہ انس بن حارث نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فرمان پر لبیک کہتے ہوئے کربلا میں شرکت کی اور امام حسین کے قدموں پر اپنی جان نچھاور کردی ۔ (یہ مطلب ان کتب میں بھی موجود ہے ۔ (اسد الغابہ ابن اثیر جلد ۱ صفحہ ۱۲۲،چشتی)(تاریخ الکبیر بخاری جلد ۲ صفحہ ۳۰)(الاصابہ فی تمییز الصحابہ ابن حجر العسقلانی جلد ۱ صفحہ ۲۷۰)

اس حدیث نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اہمیت کے پیش نظر ضروری سمجھتے ہیں کہ اسے کامل سند کے ساتھ ذکر کردیا جائے : سعد (سعید) بن عبدالملک بن واقد الحرانی بن عطا بن مسلم الخقاف عن اشعث بن سلیم عن ابیہ قال سمعت انس بن حارث یقول:سمعت رسول اللہ(ص) یقول:ان ابنی ھذا (یعنی الحسین)یُقتل بارض یقال لھا کربلا فمن شھد منکم فلینصرہ۔‘‘

قال(العسقلانی):’’فخرج انس بن الحرث الی کربلا فقتل مع الحسین۔‘‘

صاحب فرسان نے ابن عساکر سے یوں نقل کیا ہے :’’وقال ابن عساکر انس بن الحرث کان صحابیاً کبیرا ممن رأی النبی(ص) وسمع حدیثہ وذکرہ عبدالرحمٰن السلمی فی اصحاب الصفہ۔(فرسان الھیجاء، محلاتی، صفحہ ۳۷)

امام ابن عساکر لکھتے ہیں کہ انس بن الحرث ان عظیم اصحاب رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سے تھے جنھیں حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حدیث بھی سنی تھی عبدالرحمٰن سلمی نے انھیں اصحاب صفہ میں شمار کیا ہے ۔

بلاذری لکھتے ہیں کہ حضرت انس کوفہ سے نکل پڑے ایک مقام پر امام حسین اور عبیداللہ بن حرجعفی کے درمیان ہونے والی گفتگو سنی فوراً امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی خدمت حاضر ہوئے اور قسم کھانے کے بعد عرض کی ’’ کوفہ سے نکلتے وقت میری نیت یہ تھی کہ عبیداللہ بن حر کی طرح کسی کا ساتھ نہ دونگا (نہ امام کا نہ دشمن کا) یعنی جنگ سے اجتناب کرونگا لیکن خدواند نے میری مدد فرمائی کہ آپ کی مدد ونصرت کرنے کومیرے دل میں ڈال دیا اور مجھے جرأت نصیب فرمائی تاکہ اس حق کے راستے میں آپ کا ساتھ دوں ۔ حضرت امام حسین نے انہیں ہدایت اور سلامتی ایمان کی نوید سنائی اور انھیں اپنے ساتھ لے لیا ۔ (انساب الاشراف بلاذری جلد نمبر ۳ صفحہ نمبر ۱۷۵ دارالتعارف،چشتی)

یہ صحابی رسول نواسۂ رسول امام حسین کے دشمنوں سے جنگ کرنے کی غرض سے کربلا میں موجود ہیں حضرت امام حسین نے اپنے اس وفادار ساتھی کو یہ ذمہ داری سونپی کہ عمربن سعد کوحضرت کاپیغام پہنچائے اور اس ملعون کو نصیحت کرے کہ شاید وہ ہوش میں آجائے اورقتل حسین سے باز رہے جب حضرت انس ، عمربن سعد کے پاس پہنچے تو اس کوسلام نہ کیا عمربن سعد نے اعتراض کیا کہ مجھے سلام کیوں نہیں کیا، آیاتومجھے کافر اور منکر خدا سمجھتا ہے ؟ ۔ حضرت انس نے فرمایا : توکیسے منکر خدا و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ ہو جبکہ تو فرزندِ رسول کے خون بہانے کا عزم کرچکا ہے ۔ یہ جملہ سن کرعمربن سعد سرنیچے کرلیتا ہے اورپھر کہتا ہے کہ میں بھی جانتا ہوں کہ اس گروہ(گروہ حسین) کا قاتل جہنم میں جائے گا لیکن عبیداللہ بن زیاد کے حکم کی اطاعت ضروری ہے ۔ (فرسان الھیجاء صفحہ ۳۷،چشتی)

ابتدائے ملاقات سے حضرت انس تکلیف دہ حالات اپنی نظروں سے دیکھ رہے تھے لہذا جب دشمن کی طرف سے جنگ شروع ہوئی تو حضرت انسؓ بھی دیگر اصحاب حسین کی طرح حضرت امام سے اجازت طلب کرکے عازم میدان ہوئے یہ مجاہد جوان نہیں تھا گو ایمان جوان تھا نقل کرتے ہیں کہ حضرت انس کی حالت یہ تھی کہ سن پیری (بڑھاپے) کی وجہ سے خمیدہ (جھکی ہوئی) کمر کو شال (رومال) سے باندھ کرسیدھا کرتے ہیں ، سفید ابرو ، آنکھوں پر پڑ رہے تھے ، رومال پیشانی پرباندھ کراپنی آنکھوں سے ان بالوں کو ہٹاتے ہیں اور میدان کارزار میں روانہ ہوتے ہیں ۔حضرت امام حسین نے جب اپنے اس بوڑھے صحابی کو دیکھا تو حضرت کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اورفرمایا : خدا تجھ سے یہ قربانی قبول کرے اے پیرمرد ۔ (حیاۃ الامام الحسین جلد ۳ صفحہ ۲۳۴)

ہر مجاہد جنگ کرتے وقت رجز (مجاہدانہ اشعار) پڑھا کرتا تھا جو رجز حضرت انس نے پڑھا ہے نہایت پرمعنی تھا پہلے اپنا تعارف کرایا پھر کہا : واستقلبوا لقوم بغرٍالآن آل علی شیعۃ الرحمٰن ، وآل حرب شیعۃ الشیطان ۔ (۲۰) کاہل ودان نسب جانتے ہیں کہ میراقبیلہ دشمن کو نابود کرنے والا ہے اے میری قوم شیرغراں کی طرح دشمن کے مقابلے میں جنگ کرو کیونکہ آل علی رحمان کے پیروکار جبکہ آل حرب (بنوسفیان) شیطان کے پیروکار ہیں ۔(الفتوح جلد ۵ صفحہ ۱۹۶)

حضرت حضرت انس نے بڑھاپے کے باوجود سخت جنگ کی ۱۲ یا۱۸ دشمنوں کوقتل کرنے کے بعد جام شہادت نوش کیا زیارت ناحیہ کے جملات یہ ہیں:’’السلام علی ٰ انس بن الکاھل الاسدی ۔ (الاقبال جلد ۳ صفحہ ۳۴۴)

(3) حضرت بکر بن حی رضی اللہ عنہ:علامہ سماوی نے اپنی کتاب ابصارالعین میں حدایق الوردیہ سے نقل کیا ہے کہ ’’بکربن حی‘‘ کوفہ سے عمربن سعد کے لشکر میں شامل ہوکر کربلا پہچا لیکن جب جنگ شروع ہونے لگی تو حضرت امام حسین کی خدمت میں حاضر ہوکر عمربن سعد کے خلاف جنگ کرتے ہوئے پہلے حملے میں شہیدہوگئے منھی الآمال میں ان کاذکر ان شہداء میں موجود ہے جو حملہ اولیٰ میں شہید ہوئے ۔ (منتھی الآمال جلد ۱)

تنقیح المقال نے ’’حضرت بکربن حی‘‘ کو شہدائے کربلا میں شمار کیاہے عبارت یوں ہے:’’بکربن حی من شھدالطف بحکم الوثاقۃ‘‘

ابن حجر عسقلانی نے’’ حضرت بکربن حی‘‘ کے ترجمہ میں لکھا ہے:’’بکربن حی بن علی تمیم بن ثعلبہ بن شھاب بن لام الطائی۔۔۔۔۔۔لہ ادراک ولولدہ مسعود ذکربالکوفہ فی زمان الحجاج وکان فارساً شجاعاً۔۔۔۔۔۔‘‘ حضرت بکربن حی نے حضرت پیغمبر(ص) کے محضر مبارک کودرک کیا اور ان کے بیٹے مسعود کے بارے میں ملتا ہے کہ حجاج بن یوسف کے زمانے میں کوفہ میں مقیم تھا ۔ (الاصابہ جلد ۱ صفحہ ۳۴۹،چشتی)

’’الاصابہ‘‘میں’’ حضرت بکربن حی‘‘ کے صحابی رسول(ص) ہونے کی گواہی ملتی ہے گو بیان نہیں کیا کہ یہ صحابی کربلا میں شہید ہوئے یانہیں لیکن دیگر منابع رجال و مقاتل میں انھیں شہدائے کربلا میں شمار کیا گیاہے ۔

(4) حضرت جابر بن عروہ غفاری رضی اللہ عنہ : کتاب’’شہدائے کربلا‘‘ میں بیان ہوا ہے کہ متاخرین کے نزدیک یہ صحابی رسول خد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے جوکربلا میں شہید ہوئے ۔

جنگ بدر اور دیگر غزوات میں رسول اکرم(ص) کے ہمراہ شریک ہوئے یہ بوڑھے صحابی روز عاشورا رومال باندھ کراپنے ابروؤں کوآنکھوں سے ہٹاتے ہیں اورعازم میدان جنگ ہوتے ہیں جب امام علیہ السلام کی نظر پڑی توفرمایا:اے پیرمرد!خداتجھے اجردے ۔ (الاصابہ جلد ۱ صفحہ ۳۴۹)

ذبیح اللہ محلاتی نے مقتل خوارزمی سے درج ذیل عبارت نقل کی ہے : ثم یرز جابر بن عروۃ الغفاری وکان شیخاً کبیراً وقد شھد مع رسول اللہ بدراً او حنیناً وجعل یشد وسطہ بعمامعتہ ثم شدحاجبیہ بعصابتہ حتی رفعھما عن عینیہ والحسین (ع) ینظر الیہ وھویقول شکراللہ سعیک یاشیخ فحمل فلم یزل یقاتل حتی قتل ستین رجلاً ثم استثھد رضی اللہ عنہ ۔ (فرسان الھیجاء صفحہ ۵۴)

بعض کتب جیسے تنقیح المقال، مقتل ابی مخنف اور وسیلۃ الدارین میں صحابی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اورشہیدکربلا کے عنوان سے بیان ہوا ہے البتہ دیگر معتبر منابع میں ان کا ذکر موجود نہیں اس وجہ سے بعض محققین ان کے بارے میں مردد ہیں ۔

’’تنقیح‘‘ کے جملات یہ ہیں ’’ جابر بن عمیر الانصاری ،صحانی مجہول ۔ (تنقیح المقال جلد ۱ صفحہ ۱۹۸)

وسیلۃ الدارین کی عبارت کے مطابق یہ صحابی رسول تھے اور جنگ بدر کے علاوہ دیگر جنگوں میں بھی شریک رہے۔’’انّ جابر بن عروہ کان اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوم بدر وغیرھا ۔ (وسیلۃ الدارین زنجانی صفحہ ۱۱۲)

جب دشمن کے مقابلہ میں آئے تویہ رجز پڑھا : ⬇

قد علمت حقاً بنوغفار وخندف ثم بنو نزار

ینصرنا لاحمدمختار یاقوم حاموا عن بنی الاطہار

الطیبین السادۃ الاخیار صلی علھم خالق الابرار

ترجمہ : یہ بنوغفار وخندف نزا ر قبائل جانتے ہیں کہ ہم یاور محمدِ مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اے لوگو آل اطہار جو سید و سردار ہیں ان کی حمایت کرو کیونکہ خالق ابرار نے بھی ان پر درود و سلام بھیجا ہے ۔ ان الفاظ کے ساتھ دشمن پرآخری حجت تمام کرتے ہوئے چند افراد کو واصلِ جہنم کرنے کے بعد جام شہادت نوش کیا ۔ (مقتل الحسین ابی مخنف صفحہ ۱۱۵،۱۱۶)

(5) حضرت جنادۃ بن کعب الانصاری رضی اللہ عنہ:حضرت جنادہ بن کعب وہ صحابی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جوحضرت امام حسین کی نصرت کےلیے کربلا میں اپنی زوجہ اورکم سن فرزند کے ساتھ شریک ہوئے خود کو اپنے بیٹے سمیت نواسۂ رسول کے قدموں پرقربان کر دیا ۔

علامہ رسولی محلاتی نقل کرتے ہیں جنادہ صحابی رسول خدا اور حضرت علی کے مخلص شیعہ تھے۔ جنگ صفین میں حضرت علی کے ساتھ شریک ہوئے۔ (زندگانی امام حسین ۔ (رسول محلاتی صفحہ ۲۵۲)

حضرت جنادۃ بن کعب الانصاری کوفہ میں حضرت مسلم بن عقیل کے لئے بیعت لینے والوں میں شامل تھے حالات خراب ہونے کی وجہ سے کوفہ کو ترک کیا اور امام حسین سے جا ملے ۔

تنقیح المقال نے جنادہ کے بارے میں اس طرح بیان کیا ہے:’’جنادۃ بن (کعب)بن الحرث السلمانی الازدی الانصاری الخزرجی من شھداء الطف ۔وقدذکراھل السیرانہ کان من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ (تنقیح المقال مامقانی جلد ۱ صفحہ ۲۳۴)

صاحب کتاب فرسان نے تاریخ ابن عساکر کے حوالے سے نقل کیا ہے:ابن مسعود روایت کرتے ہیں’’ حضرت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جنادۃ بن الحارث کو ایک مکتوب میں بیان فرمایا کہ یہ مکتوب محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب سے جنادہ اوراس کی قوم نیز ہر اس شخص کےلیے ہے جو اس کی پیروی کرے گا کہ نماز قائم کریں اور زکوۃٰ ادا کریں اور خدا و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کریں جواس حکم پر عمل کرے گا خدا و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفظ وامان میں رہے گا ۔ (فرسان الھیجاء صفحہ ۷۶)

اس فداکار صحابی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے راہبر کے حکم پر عمل کرکے نہ فقط مال کی زکوۃٰ ادا کی بلکہ اپنی جان اور اولاد کی زکوۃٰ بھی دیتے ہوئے دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرلی۔ حضرت جنادہ کی زوجہ ’’مسعود خزرجی‘‘ کی بیٹی اور بڑی شجاع و فداکار خاتون تھی جب جنادہ شہید ہوچکے تو اس مجاہدہ عورت نے اپنے خورد سال بیٹے عمرو بن جنادہ کو (جوگیارہ یا نوسال کی عمر میں تھا) کو حکم دیا کہ جاؤ جہاد کرو ۔ (تنقیح المقال جلد ۲ صفحہ ۳۲۷)

یہ با ادب بچہ ماں کی اجازت کے باوجود اپنے مولا و آقا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آیا اور بڑے احترام سے عرض کی مجھے جہاد کی اجازت عطا فرمائیں ۔ حضرت امام حسین نے اجازت دینے سے یہ کہہ کر انکار کیا کہ شاید تیری ماں راضی نہ ہو (کیونکہ تیرا سن چھوٹا ہے اورتیری ماں بوڑھی ہے) یہ جملات سننے تھے کہ اس ننھے مجاہد نے عرض کی کہ ’’انّ امّی قد امرتنی‘‘ (میری ماں تومجھے اجازت دے چکی ہیں) ۔ میری ماں نے نہ فقط اجازت دی ہے بلکہ مجھے لباس جنگ اس نے خود پہنایا ہے اور حکم دیا ہے آپ پر جان قربان کردوں ۔امام حسین نے جب اس کا جذبۂ جہاد دیکھا تو اجازت دی میدان جنگ میں آکر صحابی رسول کے اس کمسن فرزند نے اپنا تعارف بڑے نرالے انداز میں کرایا۔ خلاف معمول اپنا نام یا والد اور قبیلہ کا ذکر نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ اس کمسن بچے کے بارے میں مؤرخین میں اختلاف ہے کہ یہ کس کا فرزند ہے بعض کتب میں یہ جملہ ملتا ہے کہ ’’ خرج شباب قتل ابوہ فی المعرکہ ۔ (حماسہ حسینی استاد شہید مطہری جلد ۲ صفحہ ۳۲۷)

دشمن کو للکار کر کہتا ہے : ⬇

امیری حسینٌ ونعم الامیر سرور فواد البشیرالنذیر

علیٌ وفاطمہ والداہ فھل تعلمون لہ من نظیر

لہ طلعۃ مثل شمس الضحیٰ لہ غُرّہ مثل بدرالمنیر۔

ترجمہ : میرے آقا وسردار اور بہترین سردار حسین ہیں بشیرالنذیر (پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل کا چین ہیں ۔ علی و فاطمہ جس کے والدین ہوں کیا اس کی مثال (دنیا میں) کہیں مل سکتی ہے ؟چمکتے سورج کی مانند نورافشانی کرنے والا ۔ اور چودھویں کے چاند کی مانند (تاریکیوں میں) روشنی دینے والا راہنما امام ہیں ۔ (شہدائے کربلا عبدالحسین بینش صفحہ ۲۸۲)

میدانِ جنگ میں شہید ہوجانے کے بعد دشمن نے سرجدا کر کے ماں کی طرف پھینکا ماں نے سراٹھا کرکہا : مرحبا اے نورعین اور پھر دشمن کو دے مارا اور عمود خیمہ اٹھا کر دشمن کی فوج پرحملہ کرنا چاہا لیکن حضرت امام حسین نے واپس بلالیا اور اس باوفا خاتون کے حق میں دعا فرمائی ۔ حضرت جنادہ کا نام بعض منابع میں ’’جابر‘‘ ۔ (تاریخ طبری جلد ۵ صفحہ ۲۲۶) ۔ یا ’’جبار‘‘ یا ’’جیاد‘‘ درج ہوا ہے ان کے والد کے نام کو بھی بعض نے ’’حارث‘‘ (تاریخ طبری جلد ۵ صفحہ ۲۲۶،چشتی)

اور بعض نے ’’حرث‘‘ (انساب الاشراف ، البلاذری جلد ۳ صفحہ ۱۹۸) ذکر کیا جبکہ قاموس (قاموس الرجال جلد ۲ صفحہ ۷۲۴) میں ’’جنادہ‘‘ کے نام سے موجود ہے ان کے قبیلہ کا نام ’’سلمانی ۔ (الکامل فی التاریخ ابن اثیر جلد ۴ صفحہ ۷۴)

یا’’سلمانی ازدی‘‘ (تنقیح المقال، ج۱، ص۲۳۴) بیان ہوا ہے۔

یہ صحابی رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ’’عذیت الھجانات‘‘کے مقام پر امام حسین کے حضور شرفیاب ہوئے اسی دوران’’حر‘‘امام حسین کاراستہ روک کر انھیں گرفتار کرنا چاہتا تھا جبکہ امام حسین کی شدید مخالفت کی وجہ سے اس کام سے باز رہا امام ان تازہ شامل ہونے والے افراد (جیسے جنادہ بن حارث)کے ذریعے کوفہ کے حالات سے مطلع ہوئے اس وقت سے لے کر روز عاشور تک ساتھ رہے صبح عاشور حضرت جنادہ بعض دیگر افراد کے ساتھ تلوار ہاتھ میں لے کردشمن کے لشکر پرحملہ آور ہوئے دشمن کے نرغہ میں جانے کی وجہ سے تمام افراد ایک مقام پردرجۂ شہادت پر فائز ہوئے۔ زیارت رجبیہ وناحیہ میں ان پر’’سلام ‘ ‘ ذکرہوا ہے۔(شہدائے کربلا عبدالحسین بینش، ص۱۱۵)

(5) حضرت جندب بن حجیر الخولانی الکوفی رضی اللہ عنہ : حضرت جندب بن حجیر کندی خولانی‘‘یا’’جندب بن حجر‘‘پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عظیم صحابی اور اہل کوفہ میں سے تھے۔(اقبال الاعمال ،ج۳،ص۷۸)

حضرت جندب ان افراد میں سے ہیں جنھیں حضرت عثمان نے کوفہ سے شام بھیجا تھا جنگ صفین میں بھی شرکت کی اورحضرت علی کی طرف سے قبیلہ’’ کندہ اورازد‘‘ کے لشکر کے سپہ سالار مقرر ہوئے اور واقعہ کربلا میں امام حسین کے ہمرکاب جنگ کرتے ہوئے شہیدہوئے۔(شہدائے کربلا عبدالحسین بینش، ص۱۳۶)

صاحب وسیلۃ الدارین لکھتے ہیں:’’قال ابن عساکر فی تاریخہ ھوجندب بن حجیر بن جندب بن زھیر بن الحارث بن کثیر بن جثم بن حجیر الکندی الخولانی الکوفی یقال لہ صحبۃ مع رسول اللہ وھو من اھل الکوفہ وشھد مع النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔۔۔۔۔۔ وقال علماء السیر ومنھم الطبری:انہ قاتل جندب بن حجیربین یدیہ الحسین(ع) حتی قتل فی اول القتال۔۔۔۔۔۔‘‘

مندرجہ بالا ترجمہ کے مطابق یہ صحابی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور شہدائے کربلا میں سے تھے۔(وسیلۃ الدارین ،ص ۱۱۴)

حضرت جندب بن حجیر رضی اللہ عنہ کے صحابی رسول ہونے میں اتفاق ہے لیکن مقام شہادت میں اختلاف ہے ۔

ابن عساکر انھیں جنگ صفین کے شہداء میں ذکر کرتے ہیں۔(تاریخ اسلام ،ابن عساکر ، ج۱۱،ص۳۰۳)

بعض دیگر معتبر منابع انھیں شہدائے کربلا میں شمار کرتے ہیں۔ تنقیح المقال میں ان کا ذکر اس طرح ہے:شھد الطف۔۔۔وعدہ الشیخ من رجالہ من اصحاب الحسین واقول ھوجندب بن حجیرالکندی الخولانی الکوفی وذکراھل السیر انّ لہ صحبۃ و۔۔۔‘‘(تنقیح المقال، ج۱، ص۲۳۶)

رجال طوسی ’’اقبال‘‘اور’’اعیان الشیعہ‘‘میں بھی شہدائے کربلا کی فہرست میں ذکر کیاگیا ہے۔(رجال ،شیخ طوسی (رہ) ،ص۷۲، اقبال ، ج ۳،ص۳۴۶)

حضرت جندب کوفہ کے نامدار اور معروف افراد سے تعلق رکھتے تھے کوفہ کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے وہاں سے نکل پڑے عراق میں حر کا لشکر پہنچنے سے قبل حضرت امام حسین سے مقام ’’حاجر‘‘میں ملاقات کی اور امام کے ہمراہ وارد کربلا ہوئے جب روز عاشور (عمرسعد کی طرف سے) جنگ شروع ہوئی یہ دشمن کامقابلہ کرتے ہوئے پہلے حملہ میں مقام شہادت پرفائز ہوئے۔(شہدائے کربلا عبدالحسین بینش، ص۱۳۶)

(7) حضرت حبیب بن مظاہر الاسدی رضی اللہ عنہ:خاندان بنی اسد کے معروف فرد حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابی اور حضرت علی ، امام حسن و امام حسین کے وفادار ساتھی تھے۔(رجال ،شیخ طوسی (رہ) صفحہ ۳۸،۶۸)

عسقلانی ان کا ذکر بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ ’’حبیب بن مظاہر بن رئاب بن الاشتر۔۔۔الاسدی کان صحابیاً لہ ادراک وعمرحتی قتل مع الحسین (رضی اللہ عنہ) یوم الطف مع ابن عمہ ربیۃ بن خوط بن رئاب مکنی اباثور‘‘ ۔ (الاصابہ ،حرف ’’حا‘‘ حبیب بن مظاہر) ۔ معتبر منابع میں ان کے حالات زندگی اور کربلا میں جہاد کا ذکر مفصل ملتا ہے ۔

حضرت حبیب بن مظاہر حضرت علی کے شاگرد خاص اور وفادار صحابی تھے۔ آپ نے مولاعلی کے ساتھ کئی جنگوں میں شرکت کی بہت سے علوم پر دسترس تھی زہدوتقویٰ کے مالک تھے ان کاشمار پارسان شب اورشیران روز میں ہوتا ہے ہرشب ختم قرآن کرتے تھے۔(سفینۃ البحار،ج۲، ص۲۶)

صاحب رجال کشی (اختیار معرفۃ الرجال) فضیل بن زبیر کے حوالہ سے حضرت حبیب بن مظاہر اور میثم تمار کے مابین ہونے والے مکالمے کو نقل کرتے ہیں جس میں یہ دونوں حضرات اپنی شہادت سے متعلق پیش آنے والے حالات سے ایک دوسرے کو آگاہ کرتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت علی کے یہ تربیت شدہ شاگرد’’علم باطن‘‘اور’’علم بلایا ومنایا‘‘(آئندہ آنے والی مشکلات ومصائب) پر کس قدر تسلط رکھتے تھے ۔ (تفصیلی مکالمہ ملاحظہ ہو رجال کشی صفحہ ۷۸)

حضرت حبیب بن مظاہر کا شمار راویان حدیث میں بھی ہوتا ہے۔ روایت میں ہے کہ حضرت حبیب ایک مرتبہ امام حسین سے سوال کرتے ہیں کہ آپ حضرات قبل از خلقت آدم کس صورت میں تھے ؟

حضرت امام حسین نے فرمایا:’’ہم نور کی مانند تھے اور عرش الٰہی کے گرد طواف کررہے تھے اور فرشتوں کو تسبیح و تمحید و تھلیل سکھاتے تھے ۔ (بحارالانوار مجلسی،ج۴۰، ص۳۱۱)

تسبیح یعنی سبحان اللہ‘تمحید یعنی الحمداللہ، اورتھلیل یعنی لاالہ الا اللہ کہنا۔

حضرت حبیب ان افراد میں شامل تھے جنھوں نے سب سے پہلے امام حسین کو کوفہ آنے کی دعوت دی۔(تاریخ الطبری،ج۵،ص۳۵۲۔)

جب حضرت مسلم بن عقیل کوفہ پہنچے توسب سے پہلاشخص جس نے حضرت مسلم کی حمایت اور وفاداری کا اعلان کیا عابس بن ابی شبیب شاکری تھے، اس کے بعد حضرت حبیب بن مظاہر کھڑے ہوئے اورعابس شاکری کی بات کی تائید کرتے ہوئے یوں گویا ہوئے: ’’خدا تم پر رحم کرے کہ تو نے بہترین انداز میں مختصر الفاظ کے ساتھ اپنے دل کا حال بیان کردیا خدا کی قسم میں بھی اسی نظریہ پر پختہ یقین رکھتا ہوں جیسے عابس نے بیان کیا ہے۔(تاریخ الطبری،ج۵،ص۳۵۲،چشتی)

حضرت حبیب حضرت مسلم کے بہترین حامی تھے اور مسلم بن عوسجہ کے ساتھ مل کر حضرت مسلم بن عقیل کے لئے لوگوں سے بیعت لیتے تھے ۔ (ابصارالعین، سماوی، ص۷۸)

جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کے بعد اہل کوفہ کی بے وفائی کی وجہ سے ان کے قبیلہ والوں نے مجبوراً ان دونوں(حبیب اورمسلم بن عوسجہ)کو مخفی کردیا لیکن جونہی حبیب بن مظاہر کو امام حسین کے کربلا پہنچنے کی خبر ملی تو رات کے وقت سے فائدہ اٹھا کرحضرت سے جا ملے حالت یہ تھی کہ دن کو مخفی ہوجاتے اور رات کو سفر کرتے یہاں تک کہ اپنی دلی آرزو کو پالیا۔(اعیان الشیعہ، ج۲، ص۵۵۴)

بعض منابع نے ذکر کیا ہے کہ حضرت امام حسین کوجب جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر ملی تو آپ نے حبیب بن مظاہر کوخط لکھ کر بلایا۔(اسرا الشھادہ، ص۳۹۶)

لیکن یہ مطلب معتبر ذرائع کی رو سے ثابت نہیں۔(شہدائے کربلا صفحہ ۱۳۴)

کربلا پہنچنے کے بعد جب عمروسعد کے لشکر میں اضافہ ہوتا دیکھا تو امام حسین سے اجازت لے کر اپنے قبیلہ ’’بنی اسد‘‘ کے پاس گئے اور مفصل خطاب کے بعد انھیں امام حسین کی مدد و نصرت کے لئے درخواست کی جس کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیے:’’۔۔۔میں تمہارے لیے بہترین تحفہ لایا ہوں وہ یہ کہ درخواست کرتا ہوں فرزند رسول کی مدد کےلیے تیار ہوجاؤ۔۔۔نواسۂ رسول آج عمرسعد کے بائیس ہزار لشکر کے محاصرہ میں ہے آپ لوگ میرے ہم قبیلہ ہیں میری بات پر توجہ کریں تاکہ دنیا وآخرت کی سعادت تمہیں نصیب ہوسکے خدا کی قسم تم میں سے جو بھی فرزند رسول خدا کے قدموں میں جان قربان کرے گا مقام اعلیٰ علیین پر حضرت رسول خدا کے ساتھ محشور ہوگا۔(الفتوح، ج۵، ص۱۵۹)

حضرت حبیب کی تقریر اتنی موثر تھی کہ بہت سے لوگوں نے اس آواز پر لبیک کہا اور حضرت امام حسین کا ساتھ دینے کے لئے آمادہ و تیار ہوگئے لیکن ’’ارزق بن حرب صیدادی‘‘ ملعون نے چار ہزار سپاہیوں کے ساتھ ان افراد پرحملہ کرکے انھیں منتشر کردیا۔ حضرت حبیب نے یہ اطلاع حضرت امام کو پہنچائی جب حضرت امام حسین اپنے خدا سے راز و نیاز کرنے کے لئے عصر تا سوعا (نہم محرم) کو دشمن سے مہلت طلب کی تو اس دوران ’’حبیب ‘‘ نے لشکر عمرسعد کو موعظہ و نصیحت کرتے ہوئے کہا:’’خدا کی قسم!کتنی بری قوم ہوگی کہ جب فردائے قیامت اپنے پیغمبر کے حضور حاضر ہوں گے توایسے حال میں کہ اسی رسول کے نواسہ اور ان کے یار و انصار کے خون سے اس کے ہاتھ آلودہ ہوں گے۔‘‘

شہادت کی موت سے محبت کا یہ عالم ہے کہ جب شب عاشور اپنے ساتھ ’’یزید بن حصین ‘‘سے مزاح کرتے ہیں تو یزید بن حصین نے کہا کہ یہ کیسا وقت ہے مزاح کاجبکہ ہم دشمن کے محاصرے میں ہیں اورہم موت کے منہ میں جانے والے ہیں توحبیب نے کہا اے دوست اس سے بہتر کونسا خوشی کا وقت ہوگا جبکہ ہم بہت جلد اپنے دشمن کے ہاتھوں شہید ہوکر بہشت میں پہنچنے والے ہیں۔(اخیارالرجال، الکشی، ص۷۹)

ایک روایت کے مطابق شب عاشور جب ہلال بن نافع نے حبیب بن مظاہر کو بتایا کہ حضرت زینب سلام اللہ علیھا پریشان ہیں کہ میرے بھائی حسین کے صحابی کہیں بے وفائی نہ کرجائیں تو آپ تمام اصحاب کوجمع کرکے درخیمہ پر لائے اور حضرت زینب کی خدمت میں صمیم دل سے اظہار وفاداری کیا اور اپنی جانوں کانذرانہ پیش کرنے کا دوبارہ عہد کیا تاکہ حضرت زینب کی یہ پریشانی ختم ہوسکے۔(الدّمعۃ الساکبہ، ج۴، ص۲۷۴)

صبح روز عاشور حضرت امام حسین نے اپنے لشکر کو منظم کیا دائیں طرف موجود لشکر کی کمانڈ زہیربن قین اور بائیں طرف حبیب بن مظاہر جبکہ قلب لشکر کی سربراہی حضرت ابوالفضل العباس کے سپرد کی اسی اثنا میں دشمن کے سپاہی وارد میدان ہوکر مبارزہ طلب کرتے ہیں تو حبیب مقابلہ کے لئے آمادہ ہوئے لیکن حضرت امام نے روک لیا اس طرح ظہرعاشور جب امام نے لشکر عمرسعد سے نماز ادا کرنے کی خاطر جنگ بندی کےلیے کہا تو ایک ملعون نے گستاخی کرتے ہوئے کہا کہ تمہاری نماز قبول نہیں ہوگی (نعوذ باللہ) اس وقت حضرت حبیب سے برداشت نہ ہوا اور فوراً یہ کہتے ہوئے آگے بڑھے ۔

’’اے حمار(گدھے)!تیرے خیال باطل میں آل پیغمبر کی نماز قبول نہیں؟! اور تمہاری نماز قبول ہے؟!!‘‘

اس طرح دونوں کا مقابلہ ہوا حبیب نے اس ملعون کو زمین پر گرادیا پھر باقاعدہ رجز پڑھتے ہوئے وارد میدان ہوئے شدید جنگ کی دشمن کے کئی افراد کو واصل جہنم کیا لیکن ایک تیمی شخص نے تلوار کا وار کیا جس کی تاب نہ لاکر آپ شہید ہوگئے اس نے آپ کے سر کو جدا کرلیا اسی سر کو بعد میں گھوڑے کی گردن میں باندھ کرکوفہ میں پھرایا گیا گویا کوفہ کا نامور مجاہد اہل کوفہ سے یہ کہہ رہا تھا دیکھو یہ سرآل رسول کی خاطر کٹ سکتا ہے لیکن دشمن کے سامنے جھک نہیں سکتا ۔ (شہدای کربلا ، ص۱۳۵) ۔ السلام علیک یاحبیب بن مظاھرالاسدی۔

(8) حضرت زاھر بن عمروالاسلمی رضی اللہ عنہ : ’’زاھر‘‘شجاع اور بہادر شخص تھے صحابی رسول(ص) اوراصحاب شجرہ میں سے تھے اور محبین اہل بیت علیھم السلام میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ حضرت رسول خدا (ص) کے ہمراہ غزوہ حدیبیہ اور جنگ خیبر میں شریک ہوئے۔

ذبیح اللہ محلاتی وسیلۃ الدارین کی عبار نقل کرتے ہیں: ’’قال العسقلانی فی الاصابہ ھوزاھر بن عمرو بن الاسود بن حجاج بن قیس الاسدی الکندی من اصحاب الشجرۃ وسکن الکوفہ وروی عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وشھدالحدیبیہ وخیبر ۔۔۔۔۔۔‘‘ ’’۔۔۔۔۔۔ زاھر درحقیقت زاھر بن عمرو الکندی ہیں جواصحاب شجرہ میں سے تھے کوفہ میں مقیم تھے اورحضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت بھی نقل کی ہے حدیبیہ اور خیبر میں شریک تھے۔‘‘فرسان الھیجاء ص۱۳۸ از وسیلۃ الدارین ،ص۱۳۷)

حضرت زاھر کے بیٹے ’’مجزأۃ‘‘نے اپنے باپ کے واسطہ سے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت بیان کی ہے فوق الذکر مطلب مختصر فرق کے ساتھ دیگر منابع میں بھی موجو د ہے۔(اسد الغابہ، ابن اثیرعلی بن محمد، ج۲، ص۱۹۲، الاصابہ،ج۱، ص۵۴۲،چشتی)

بعض محققین کے خیال میں زاھر اور زاھر اسلمی دو الگ الگ افراد ہیں۔(قاموس الرجال، شوشتری، ج۲، ص۴۰۲،۴۰۶)

تنقیح المقال کی عبارت میں انھیں اصحاب شجرہ اور شہدائے کربلا میں شمار کیاگیا ہے۔’’ زاھر اسلمی والدمجزأۃ من اصحاب الشجرہ‘‘ ۔ نیز فرماتے ہیں :’’زاھر صاحب عمرو بن الحمق شھید الطف فوق الوثاقہ وعدہ الشیخ فی رجالہ من اصحاب ابی عبداللہ واقول ھوزاھر بن عمروالاسلمی الکندی من اصحاب الشجرہ روی عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وشھد الحدیبیہ وخیبر وکان من اصحاب عمربن الحمق الخزاعی کمانص علی ذالک اھل السیرو۔۔۔‘‘(تنقیح المقال، ج۱، ص۴۳۸)

مذکورہ بالا عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’’زاھر‘‘نام کے دواشخاص ہیں لیکن مرحوم مامقانی کی نظرمیں زاھر بن عمرو اسلمی کاشمار اصحاب شجرہ اور شہدائے کربلا میں ہونا ثابت ہے۔

نیز بیان کرتے ہیں کہ یہ محب اہل بیت تھے بہت بڑا تجربہ کار پہلوان اور بہادر شخص تھا حضرت علی کی شہادت کے بعد ’’عمربن حمق‘‘کے ساتھ مل کر معاویہ کی ظالمانہ حکومت اور ابن زیاد کے خلاف برسرپیکار رہا جب معاویہ نے ان کی گرفتاری اورقتل کاحکم صادر کیا تو یہ دونوں شہر سے فرار کرگئے پہاڑوں اور جنگلوں میں زندگی بسر کرنے لگے یہاں تک کہ ’’عمروبن حمق‘‘حکومتی کارندوں کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بعد شہید کردیا گیا لیکن زاھر زندہ رہا آخرکار ۶۰ ؁ ھ میں حج کے موقعہ پر امام حسین کی خدمت میں شرفیاب ہوا اور آپ کے ساتھ مل کر کربلا کی جنگ میں شرکت کی عاشورا کے دن پہلے حملے میں جام شہادت نوش کیا۔(شہدای کربلا، ص۱۶۴، ازتنقیح ، ج۱، ص۴۳۷ تاریخ مدینہ دمشق، ج۲۵، ص۵۰۲)

زیارت ناحیہ اور رجبیہ میں سلام ان الفاظ میں ذکرہوا السلام علی زاھر مولیٰ عمروبن حمق ۔ (اقبال، ص۷۹)

(9) حضرت زیاد بن عریب ابوعمرو رضی اللہ عنہ : قدیم محققین نے ان سے متعلق کوئی خاص تفصیل بیان نہیں کی، لیکن بعض معاصر نے ان کا ذکر اس طرح درج کیا ہے:’’زیاد بن عریب بن حنظلہ بن دارم بن عبداللہ بن کعب الصائدبن ھمدان‘‘۔(جمھرۃ انساب العرب، ص۳۹۵)

حضرت ابوعمرو زیاد بن عریب نے حضرت پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے محضر مبارک کودرک کیا ان کے والد بزرگوار بھی صحابی رسول تھے ابوعمرو شجاع، عابد و زاھد اور شب زندہ دار شخص تھے زیادہ نمازگزار تھے زہدوتقویٰ کی وجہ سے دین کی عزت نے آرام سے نہ بیٹھنے دیا لہذا واقعہ کربلا میں اپنا کردار ادا کرنے کی غرض سے حضرت امام حسین کی خدمت میں پہنچے اور دشمن کے خلاف جہاد و مبارزہ کرنے کے بعد درجۂ شہادت پرفائز ہوئے۔(ابصارالعین، سماوی، ص۱۳۴)

(10) حضرت سعد بن الحارث مولی امیرالمؤمنین (رضی اللہ عنہ) : حضرت سعدبن حرث خزاعی کے نام سے معروف ہیں۔ قدیم منابع میں ان کا نام شہدائے کربلا کی فہرست میں ذکر نہیں لیکن بعض متاخرین نے شہیدکربلا کے عنوان سے ان کے حالات زندگی قلمبند کیے ہیں ۔ حضرت سعد بن حرث خزاعی نے محضر پیغمبرِ اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کودرک کیا اس لحاظ سے صحابی رسول(ص) ہیں ۔پھر امیرالمؤمنین سیدنا علی کے ہمراہ رہے حضرت نے انھیں کچھ عرصہ کے لئے سپاہ کوفہ کی ریاست سونپی تھی نیز کچھ مدت کے لئے انھیں آذربائیجان کا گورنر بھی منصوب کیا۔ صاحب فرسان نے’’ حدایق الوردیہ‘‘ ،’’ ابصارالعین‘‘،’’ تنقیح المقال‘‘ اور’’الاصابہ‘‘ جیسی معتبر کتب سے ان کے حالات نقل کیے ہیں۔(فرسان الھیجاء ،ص۱۵۴)

صاحب فراسان نے الاصابہ کے حوالے سے حضرت سعد کا  ذکر یوں کیا ہے (لیکن الاصابہ میں مراجع کرنے سے یہ ذکر نہیں ملا)

’’سعید بدل سعد بن الحارث بن شاربہ بن مرۃ بن عمران بن ریاح بن سالم بن غاضر بن حبشہ بن کنجب الخزاعی مولیٰ علی بن ابی طالب (ع) لہ ادارک وکان علی شرطۃٍ علی (ع) فی الکوفہ وولاۃ آذربایجان ۔۔۔۔۔۔‘‘(فرسان الھیجاء ،ص۱۵۴)

وسیلۃ الدارین نے بھی صفحہ ۱۲۸ پر صحابی اور شہیدکربلا کے عنوان سے ذکرکیا ہے۔ تنقیح المقال کی عبارت میں بھی اس طرح موجود ہے:’’سعد بن الحارث الخزاعی مولیٰ امیرالمؤمنین صحابی امامی شہید الطف ثقہ‘‘ مذید لکھتے ہیں کہ سعد بن الحارث لہ ادراک الصحبۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وکان علی شرطۃ امیرالمؤمنین فی الکوفہ وولاۃ آذربائیجان۔(تنقیح المقال، ج۲، ص۱۲،چشتی)

مزید تفصیلات ان کتب میں موجود نہیں البتہ اتنا ضرور ملتا ہے کہ’’ حضرت سعد‘‘ امیرالمؤمنین سیدنا علی کی شہادت کے بعد حضرت امام حسن و امام حسین کا ہر میدان میں یار و مددگار رہا جب حضرت امام حسین نے قیام کیا تو ابتداء میں اپنے مولا کی خدمت میں مکہ میں جا ملے پھر مکہ سے کربلا آئے اورروز عاشور جنگ کرتے ہوئے جان قربان کردی۔

اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ’’ محقق شوشتری‘‘ نے اپنی کتاب میں ان کے صحابی ہونے پر تنقید کی ہے، اس دلیل کی بنا پر کہ اگر صحابی ہوتے تو قدیم منابع نے کیوں ذکر نہیں کیا۔(قاموس الرجال، شوشتری، ج۵، ص۲۷،۲۸)

لیکن مذکورہ بالا بعض معتبر منابع میں ان کا ذکر صحابی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہونے کے عنوان سے آجانا ہمارے مطلب کے اثبات کے لئے کافی ہے۔

(11) حضرت شبیب بن عبداللہ (مولیٰ الحرث) رضی اللہ عنہ : حضرت شبیب بن عبداللہ بن شکل بن حی بن جدیہ حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابی اور کوفہ کی معروف و مشہور شخصیت اور بڑے بافضیلت انسان تھے ۔ (وسیلۃ الدارین، ص۱۵۵ ، نقل از الاصابہ، ج۳، ص۳۰۵)

جہاں بھی ظلم وستم دیکھا اس کے خاتمہ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے یہی وجہ ہے کہ جنگ جمل وصفین ونہروان میں بھی شرکت کی اور حضرت علی کے وفادار یار و مددگار رہے ۔ (فرسان الھیجاء، ص۱۶۷)

مختلف معتبر منابع میں ان کا ذکر موجود ہے جیسے’’ رجال طوسی‘‘،’’ استرآبادی‘‘،’’ تنقیح المقال ‘‘، ’’ مقتل ابی مخنف‘‘، ’’ تاریخ طبری‘‘ وغیرہ۔

’’تنقیح‘‘ میں ان کا ذکر اس طرح درج ہے: ’’شبیب بن عبداللہ مولی الحرث صحابی شہیدالطف ،فوق الوثاقہ ‘‘شبیب سیف بن حارث اور مالک بن عبداللہ کے ہمراہ کربلا پہنچے اور اپنے مولا امام حسین کی اطاعت میں جنگ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔

کتاب روضۃ الشھداء ص۲۹۵ میں ان پرسلام نقل ہوا ہے ۔ السلام علی شبیب بن عبداللہ مولیٰ بن سریع ۔

(12) حضرت شوذب بن عبداللہ الھمدانی الشاکری رضی اللہ عنہ : حضرت شوذب صحابی رسول اورحضرت علی کے باوفا ساتھی تھے ۔ علامہ’’ زنجانی‘‘ نے علامہ’’ مامقانی‘‘ سے ان کا ذکر نقل کیا ہے :’’ذکرالعلامہ مامقانی فی رجالہ شوذب بن عبداللہ الھمدانی الشاکری ان بعض من لایحصل لہ ترجمہ تخیل انّہ شوذب مولی عابس والحال ان مقامہ اجل من عابس من حیث العلم والتقویٰ وکان شوذب صحابیاً واشترک مع امیرالمؤمنین(ع) ۔ (وسیلۃ الدارین، ص۱۵۴)

حضرت شوذب علم وتقویٰ کے اعتبار سے بلندپایہ شخصیت تھے۔ کوفہ کی معروف علمی شخصیت ہونے کی وجہ سے اہل کوفہ کے لئے حضرت امیرالمومنین کی احادیث نقل کرتے تھے امام علی کے ساتھ تینوں جنگوں میں شریک رہے۔

جب حضرت مسلم بن عقیل کوفہ میں پہنچے توان کی بیعت کرنے کے بعد حضرت امام حسین تک اہل کوفہ کے مزید خطوط پہنچانے میں عابس شاکری کے ہمراہ رہے۔ نہایت مخلص اور عابد و زاھد انسان تھے بڑھاپے کے عالم میں بھی ظلم کے خلاف عملی کردار ادا کیا ۔کوفہ میں حضرت مسلم کی شہادت کے بعد عابس شاکری کے ہمراہ حضرت امام حسین کی خدمت میں کربلا پہنچتے ہیں۔ جب حنظلہ بن سعد شبامی شہید ہوگئے تو عابس نے شوذب سے پوچھا کہ کیا خیال ہے ؟

کہتے ہیں تیرے ہمراہ فرزند رسول خدا کی نصرت کے لئے جنگ کرنا چاہتا ہوں تاکہ شہادت کا مقام حاصل کرسکوں عابس نے کہا اگر یہ ارادہ ہے توامام کے پاس جا کر اجازت طلب کرو۔ حضرت امام حسین کی خدمت میں حاضر ہوکر اجازت جہاد حاصل کی اور وارد جنگ ہوئے چند دشمنوں کو واصل جہنم کیا آخر میں شہید ہوگئے۔(شہدائے کربلا، ص۱۹۸)

ان الفاظ میں زیارت رجبیہ اور زیارت ناحیہ میں ان پرسلام بھیجا گیا ہے۔ السلام علی شوذب مولی شاکر ۔ (اقبال، ص۳۴۶،چشتی)

قابل توجہ امریہ ہے کہ بعض خیال کرتے ہیں کہ’’ شوذب ‘‘،’’عابس شاکر ‘‘کے غلام تھے جبکہ اہل علم حضرات سے پوشیدہ نہیں کہ لفظ مولی صرف غلام کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ’’ ہم پیمان‘‘ کے معنی بھی استعمال کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ بعض محققین نے لکھا ہے کہ چونکہ شوذب مقام علمی ومعنوی کے اعتبار سے عابس پر برتری رکھتے تھے لہذا انھیں غلام عابس نہیں کہہ سکتے بلکہ عابس اور اس کے قبیلہ کے ہم پیمان وہم عہد تھے۔(عنصرشجاعت، ج۱، ص۱۳۰) ۔ یہی دلیل علامہ مامقانی سے نقل شدہ ترجمہ میں بیان کی گئی ہے۔

(13) حضرت عبدالرحمٰن الارحبی رضی اللہ عنہ  : حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بزرگ صحابی تھے۔ تمام معتبر منابع میں ان کا ذکر موجود ہے۔

جیسے ’’رجال شیخ طوسی‘‘،’’ رجال استرآبادی‘‘، ’’ مامقانی‘‘ ، نیز ’’الاستیعاب‘‘،’’ الاصابہ‘‘ اور’’وسیلۃ الدارین‘‘ نے بھی نقل کیا ہے۔

تاریخ طبری اورالفتوح میں ان کے بعض واقعات بھی بیان ہوئے ہیں۔

’’الاستیعاب‘‘ کی عبارت اس طرح ہے : ھو عبدالرحمن بن عبداللہ بن الکدن الارحبی۔۔۔۔۔۔‘‘انہ کان من اصحاب النبی(ص) لہ ھجرۃ۔

حضرت امیر معاویہ بن ابی سفیان کی وفات کی خبر جب کوفہ پہنچی تو کچھ لوگ’’ سلمان بن صرد خزاعی‘‘ کے گھر جمع ہوئے تاکہ اجتماعی طور پر حضرت امام حسین کو خط لکھ کر دعوت دیں اور خلافت کو ان کے سپرد کریں نیز کوفہ کے گورنر نعمان بن بشیر کو کوفہ سے باہر نکال دیں ان خطوط کو’’قیس مسہرصیداوی‘‘ ، عبدالرحمٰن ارحبی اورعمارۃ بن عبداللہ السلولی لے کر حضرت امام حسین کی خدمت میں ہوئے اس طرح یہ گروہ دوم تھا جوحضرت کودعوت دینے کے لئے آیا۔پہلا گروہ عبداللہ بن سمیع کی قیادت میں حضرت کی خدمت میں حاضرہوا تھا۔

حضرت عبدالرحمٰن ارحبی شجاع تجربہ کار فاصل اور فصیح و بلیغ صحابی تھے۔(یاران پائیدار، ص۹۷)۔(تاریخ الطبری، ج۵، ص۳۵۲)

۵۰ یا ۵۳ ددعوت نامے لے کر ۱۲ رمضان المبارک ۶۰ ؁ ھ کومکہ کی طرف روانہ ہوئے بعض مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن ارحبی ۱۵۰ افراد پر مشتمل ایک وفد کے ہمراہ حضرت امام حسین کی خدمت اقدس میں پہنچے۔(الفتوح، ج۵، ص۴۸)

مکہ میں حضرت امام کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا پھر حضرت کے نمائندہ خاص جناب امیر مسلم کے لئے کوفہ میں انقلابی سرگرمیوں میں مشغول رہے۔ کوفہ میں حالات خراب ہونے کے بعد کربلا میں دشمنان دین کے خلاف جنگ میں شرکت کی جب عمربن سعد نے امام حسین کے قتل کا پختہ ارادہ کرلیا تواس صحابی رسول نے اپنی جان کی بازی لگا کر بھی اپنے مولا و آقا کی حمایت کا اعلان کیا اپنی شجاعت کے کارنامے دکھانے کے علاوہ فصاحت و بلاغت کے ذریعے بھی حسین ابن علی کی حقانیت اوربنوامیہ کے بطلان کو اپنے اشعار میں واضح کیا تاریخ میں اس وفادار صحابی کے جو رجز بیان ہوئے ہیں اس زمانہ کی بہترین عکاسی کرتے ہیں کیونکہ بنوامیہ نے اسلام کے نام پر اسلام کی نابودی کا تہیہ کر رکھا تھا اس لئے وہ اصحاب کرام جو اب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول وفعل کے ذریعے حقیقی اسلام کے راہبر کی شناخت کرچکے تھے آج دشمنان دین کو اسلام کے حقیقی راہبر کی اطاعت وفرمانبرداری کی طرف دعوت دینا اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہیں۔ حضرت عبدالرحمٰن کے رجز کا ایک مصرعہ یوں ہے:انی لمن ینکرنی ابن الکدن انی علی دین حسین وحسن۔(انساب الاشراف جلد ۳ صفحہ ۱۹۶،چشتی)

اس طرح امام حسین کو’’دین حق‘‘ کا علمبردار سمجھتے ہوئے ان کے قدموں میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اس شہید باوفا پر زیارت ناحیہ میں ان الفاظ میں سلام پیش کیاگیا ہے : السلام علی عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کدرالارحبی۔(الاقبال، ج۳، ص۷۹)

(14) حضرت عبدالرحمٰن بن عبدربہ الخزرجی رضی اللہ عنہ : مختلف منابع نے ان کے لئے صحابی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہونے کی گواہی دی ہے انھیں بعض نے انصاری بھی لکھا ہے اصل میں مدینہ میں مقیم تھے جب پیغمبر اسلام (ص) نے مدینہ میں ہجرت فرمائی تو اوس و خزرج قبائل نے اسلام قبول کیا۔ اس وقت سے ان سب کو انصاری کہاجاتا تھا۔

صاحب قاموس الرجال نقل کرتے ہیں کہ : عبدالرحمٰن بن عبدربہ الانصاری الخزرجی کان صحابیاً لہ ترجمۃ ورویۃ وکان من مخلص اصحاب امیرالمؤمنین علیہ السلام‘‘۔

صحابی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے جن سے روایت بھی نقل ہوئی ہے اورحضرت امیر علیہ السلام کے مخلص اصحاب میں سے تھے۔

جس روایت ک اتذکرہ کیا گیا ہے یہ درحقیقت ’’غدیرخم‘‘ کے مقام پر پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب سے ولایت علی کا واضح اعلان کرنا ہے پھرجب وفات پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اکثر افراد جن میں بعض نے دنیاوی مقاصد اور بعض نے خوف کی وجہ سے علی علیہ السلام خلیفہ تسلیم نہ کیا تو ایک مرتبہ رحبہ کے مقام حضرت علی نے لوگوں کو قسم دے کر پوچھا کہ جس نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے میرے بارے میں کوئی حدیث فضیلت سنی ہو تو بلند ہو کر بیان کرے اسی اثنا میں حضرت عبدالرحمٰن خاموش نہ بیٹھ سکے اور اٹھ کر کہا کہ میں نے غدیر خم کے مقام پر رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ فرمایا:’’من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ‘‘جس جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی مولا ہے۔

مناسب ہوگا کہ الاصابہ فی تمیز الصحابہ کی عبارت نقل کی جائے العسقلانی یوں رقمطراز ہیں:عبدالرحمٰن بن عبدرب الانصاری ذکرہ ابن عقدہ فی کتاب المولاۃفی من روی حدیث:من کنت مولاہ فعلیٌّّ مولاہ وساق من طریق الاصبغ بن نباتہ قال لما نشدعلیٌّ الناس فی الرحبہ من سمع النبی (ص) یقول یوم غدیر خم ماقال الاقام ، ولایقوم الامن سمع ، فقام بضعۃ عشررجلاً منھم :’’ابوایوب‘‘،’’ ابوزینب‘‘ و’’عبدالرحمٰن بن عبدرب‘‘ فقالوا نشھد انا سمعنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول ’’ان اللہ ولی وانا ولی المومنین ؛فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ‘‘ ۔ (الاصابہ، ج۲، ص۳۲۸)

اس عظیم محقق کی عبارت کے مطابق دس سے زیادہ افراد کھڑے ہوئے اور گواہی دی کہ ہم نے سنا تھا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:بے شک اللہ ولی ہے میں بھی مومنین کاولی ہوں پس جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے۔

ابصارالعین نے بھی بیان کیا ہے کہ:کان ھذا صحابیاً وعلمہ امیرالمؤمنین القرآن ورباہ وھواحدرواۃ حدیث من کنت مولاہ۔۔۔حین طلب علیہ السلام ۔

یعنی یہ صحابی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے حضرت علی نے ان کی تربیت کی اور انھیں قرآن مجید کی تعلیم دی اور من کنت مولاہ کی حدیث کو اس صحابی نے اس وقت بیان کیا جب حضرت علی نے گواہی طلب کی تھی۔(ابصارالعین فی انصارالحسین(ع) ، ص۹۲)

پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے بعد کوفہ میں سکونت اختیار کرلی اور کوفہ کی معروف شخصیت تھے یہی وجہ ہے کہ کوفہ میں امام حسین کے لئے لوگوں سے بیعت طلب کرتے تھے لیکن جب کوفہ میں امام حسین کے لئے راہ ہموار کرنے میں ناکام ہوئے تو کربلا میں امام سے ملحق ہو کر دشمن کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے پہلے حملہ میں یا بعداز ظہر شہید ہوگئے۔(ذخیرالدارین، ص۲۷۰،چشتی)

(15) حضرت عبداللہ بن حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ : الاصابہ‘‘ میں ہے:ابوالھیاج عبداللہ بن ابی سفیان بن حارث بن عبدالمطلب بن ھاشم الھاشمی۔(الاصابہ ، ج۷، ص۱۵۱)

حضرت عبداللہ بن حارث کا باپ حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عم زاد اور برادر رضاعی تھا ۔ یہ صحابی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، عظیم شاعر بھی تھے اور انھوں نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت بھی نقل کی ہے۔ اپنے بعض اشعار میں حضرت علی کی مدح وثنا بھی بیان کی ہے۔

حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد امام علی کے ساتھ رہے انہیں کے ہمرکاب مختلف جنگوں میں شرکت کی۔ ایک مرتبہ جب حضرت عبداللہ کو علم ہوا کہ عمرو عاص نے بنی ھاشم پر طعن و تشنیع اور عیب جوئی کی ہے تو عمرو عاص پر سخت غصہ ہوئے اور اسے مورد عتاب قرار دیا۔  آخر تک اہل بیت کے ہمراہ رہے کربلا میں جب حضرت امام حسین کا معلوم ہوا تو ان کی خدمت میں پہنچ کر اپنی وفاداری کا عملی ثبوت دیا۔

اس طرح عاشور کے دن رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نواسہ کی حمایت کرتے ہوئے یزیدی فوج کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔(شہدائے کربلا، صفحہ ۲۲۹)

(16) حضرت عمرو بن ضبیعۃ رضی اللہ عنہ : مختلف منابع رجال و مقاتل میں ذکر ہوا ہے کہ یہ صحابی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے اور کربلا میں حضرت امام حسین کے ہمرکاب شہادت پائی۔کتاب فرسان میں الاصابہ سے نقل کیاگیا ہے کہ ’’ ھوعمروبن ضیبعۃ بن قیس بن ثعلبہ الضبعی التمیمی لہ ذکرفی المغازی۔۔۔‘‘ نیز ’’رجال استرآبادی‘‘ سے بھی نقل کرتے ہوئے یوں بیان ہوا ہے:’’قال المحقق استرآبادی فی رجالہ ھوعمروبن ضبیعہ۔۔۔وکان فارساً شجاعاً لہ ادراک۔(فرسان الھیجاء، ج۲، ص۷)

مامقانی نے بھی انہیں صحابی ادراکی نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ تجربہ کار اور ماہر جنگجو شخص تھا کئی ایک جنگوں میں شرکت کی نیز شجاعت میں شہرت رکھتا تھا۔(تنقیح المقال، ج۲، ص۳۳۲)

حضرت عمرو بن ضبیعتہ ابتدا میں عمرسعد کے لشکر کے ساتھ وارد کربلا ہوئے لیکن جب دیکھا کہ عمرسعد نواسہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کا ارادہ رکھتا ہے تو فوراً حضرت امام حسین کے ساتھ ملحق ہوگئے۔ حملہ اولیٰ میں شہادت پائی۔ زیارت ناحیہ میں عمر کے نام سے ذکرہوا ہے : السلام علی عمربن ضبیعہ الضجی۔(الاقبال، ج۳، ص۷۸)

(17) حضرت عون بن جعفر طیار رضی اللہ عنہ:کنیت ابوالقاسم ہے۔ حضرت جعفر بن ابی طالبکے بیٹے ہیں۔ اگرچہ سن ولادت واضح بیان نہیں ہوا لیکن چونکہ واقعہ کربلا میں ۵۴ یا۵۷ سال کے تھے لہذا امکان ہے کہ ۴ ھ یا ۵ ھ کو حبشہ میں ولادت ہوئی ہوگی ۔

یعقوبی کے مطابق حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ موتہ میں حضرت جعفر طیار کی شہادت کے بعد سال ہشتم ہجری میں عون اور ان کے بھائی عبداللہ ومحمد کو اپنی گود میں بٹھایا اورپیارکرتے رہے۔(تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۶۵)

ایک روایت کے مطابق رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جعفر طیار کے بیٹوں کو بلایا اور سلمانی کو بلاکر کہا کہ ان بچوں کے سر کی اصلاح کرے اور پھر فرمایا:عون خلقت اوراخلاق میں میری شبیہ ہے الاصابہ میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔(الاصابہ، ج۴، ص۷۴ نمبر شمار ۶۱۱۱،چشتی)

حضرت عون کا شمار حضرت علی کے یار و انصار میں ہوتا ہے۔ حضرت علی کے ہمراہ جنگوں میں بھی شریک رہے حضرت ام کلثوم (حضرت زینب صغری) کا عقد حضرت علی نے عون سے کردیا تھا۔(تنقیح المقال جلد ۲ صفحہ ۳۵۵)

حضرت علی کی شہادت کے بعد ہمیشہ امام حسن و حسین رضی اللہ عنہم کے ساتھ رہے یہاں تک کہ جب حضرت امام حسین یزید پلید کے مظالم کی وجہ سے مدینہ سے روانہ ہوئے ، حضرت عون بھی اپنی زوجہ محترمہ کے ہمراہ اپنے مولا کے اس جہاد میں شریک رہے اور روز عاشور حضرت علی اکبر کی شہادت کے بعد حضرت امام کی اجازت سے وارد میدان ہوئے ۳۰ سوار اور ۱۸ پیادہ سپاہ یزید کو واصل جہنم کیا لیکن زید رقاد جہنمی نے آپ کے گھوڑے کو زخمی کردیا جس کی وجہ سے آپ گھوڑے پر نہ سنبھل سکے پھر اس ملعون نے تلوار کا وار کرکے شہیدکردیا ۔

ان کے رجز کو تاریخ نے یوں نقل کیا ہے : ⬇

ان تنکرونی فانا بن جعفر شھید صدق فی الجنان ازھر
یطیر فیھا بجناح اخضر کفی بھذٰا شرفاً فی المحشر۔(مقتل الحسین(ع) ، خوارزمی، ج۲، ص۳۱)

(18) حضرت کنانہ بن عتیق رضی اللہ عنہ : حضرت کنانہ کوفہ کے شجاع اور متقی و پرہیزگار افراد میں سے تھے اور ان کا شمار قاریان کوفہ میں ہوتا ہے۔(ابصارالعین، ص۱۹۹)

حضرت کنانہ اوران کا باپ عتیق حضرت رسول اکرم (ص) کے ہمرکاب جنگ احدمیں شریک ہوئے۔(تنقیح المقال، ج۲، ص۴۲،چشتی)

وسیلۃ الدارین نے حضرت کنانہ کے ترجمہ کو رجال ابوعلی سے یوں نقل کیا ہے : قال ابوعلی فی رجالہ کنانۃ بن عتیق الثعلبی من اصحاب الحسین(ع) قتل معہ بکربلا وقال العسقلانی فی الاصابہ ھوکنانۃ بن عتیق بن معاویہ بن الصامت بن قیس الثعلبی الکوفی شھداء احداً ھووابوہ عتیق فارس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وقدذکرہ ابن منذہ فی تاریخہ ۔ (وسیلۃ الدارین، ص۱۸۴)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ ’’حضرت کنانہ‘‘ بھی ان اصحاب رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سے ہیں جوحضرت امام حسین کی مدد و نصرت کےلیے کربلا تشریف لائے اور اپنی جانوں کو نواسہ رسول کے قدموں میں نچھاور کیا۔زیارت رجبیہ اور ناحیہ میں ان پر سلام پیش کیا گیا ہے:السلام علی کنانۃ بن عتیق۔(الاقبال، ص۷۸)

(19) حضرت مجمّع بن زیاد جھنّی رضی اللہ عنہ : حضرت رسول اکرم (ص) کے اصحاب میں سے تھے۔ جنگ بدر و احد میں شریک رہے۔ مختلف منابع نے ان کوصحابی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور شھیدکربلا کے عنوان سے ذکرکیا ہے۔ جیسے ذخیرۃ الدارین، حدایق ،ابصارالعین ،تنقیح المقال، اور وسیلۃ الدارین وغیرہ۔

کتاب’’ الدوافع الذایتہ‘‘ نے ’’الاستعیاب ‘‘سے عبارت نقل کی ہے کہ’’ ھومجمّع بن زیاد بن عمروبن عدی بن عمروبن رفاعہ بن کلب بن مودعۃ الجھنی شھدا بدراً واحد ۔

اس کے عبارت کے نقل کرنے کے بعد خود تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : اَی انّہ صحابیٌ جلیل بناءً علی ذالک ۔

تنقیح المقال نے بھی الاصابہ اور الاستعیاب سے اس طرح کی عبارت نقل کی ہے کہ یہ صحابی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے بدر و احد میں شریک بھی رہے لیکن ہمارے ہاں موجود الاصابہ میں یہ عبارت موجود نہیں۔

بہرحال جناب مجمع نے کوفہ میں حضرت مسلم کی بیعت کی سب لوگ حضرت مسلم کوچھوڑ گئے لیکن حضرت مجمع بن زیاد ان افراد میں سے تھے جو ڈٹے رہے اور کوفہ میں حالات سازگار نہ ہونے کی وجہ سے کربلا میں حضرت امام حسین سے ملحق ہوکر یزیدی ارادوں کو خاک میں ملانے کی خاطر حضرت امام حسین کاساتھ دیا یہاں تک کہ اپنی جان قربان کردی۔ دشمن کربلا میں اس مجاہد کو آسانی سے شکست نہ دے سکا تو ان کا محاصرہ کرلیا جاتا ہے جس کی وجہ سے شہیدہوجاتے ہیں۔(ابصارالعین، ص۲۰۱)

(20) حضرت مسلم بن عوسجہ رضی اللہ عنہ : شیعہ وسنی کے تمام معتبر ترین منابع جیسے الاستعیاب، الاصابہ، طبقات بن سعد، تنقیح المقال ، تاریخ طبری وغیرہ میں ان کا ذکر موجود ہے کہ یہ صحابی رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے اور صدر اسلام کے بزرگ اعراب میں شمار ہوتے تھے۔ ابتدائے اسلام کی بہت سی جنگوں میں شریک رہے۔ غزوہ آذربائیجان اور جنگ جمل و صفین و نہروان میں بھی شرکت کی۔ حضرت علی کے باوفا یار و مددگار تھے۔(فرسان الھیجاء، ج۲، ص۱۱۶)

حضرت مسلم بن عوسجہ مختلف صفات کے مالک بھی تھے شجاع و بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ قاری قرآن ،عالم علوم اور متقی و پرہیزگار ،باوفا اور شریف انسان تھے۔(تنقیح المقال، ج۳، ص۲۱۴،چشتی)

حضرت مسلم بن عقیل کے کوفہ وارد ہوتے ہی ان کی مدد و نصرت میں پیش پیش تھے اور ان کی حمایت میں لوگوں سے بیعت لیتے تھے نیز مجاہدین کےلیے اسلحہ کی فراہمی اور دیگر امدادی کاروائیوں میں مصروف رہے۔(الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۳)

حضرت مسلم و جناب ہانی بن عروہ کی شہادت کے بعد مخفی طور پر رات کے وقت اپنی زوجہ کو ساتھ لے کر حضرت امام حسین کی خدمت میں پہنچے۔ سات یا آٹھ محرم کو مسلم کوفہ سے کربلا پہنچ گئے اور سپاہ یزید کے خلاف ہر مقام پر پیش پیش رہے۔جب امام نے حکم دیا کہ خیمہ کے اطراف میں آگ روشن کی جائے تو شمرملعون نے آکر توہین آمیز جملات کہے جس پر حضرت مسلم بن عوسجہ نے حضرت امام حسین سے عرض کی کہ اگر اجازت دیں تواسے ایک تیر سے ڈھیر کردوں لیکن حضرت نے فرمایا نہیں کیونکہ میں پسند نہیں کرتا کہ ہماری طرف سے جنگ کا آغاز ہو۔(تاریخ الطبری، ج۵، ص۴۲۴،چشتی)

شب عاشور جس وقت امام حسین نے اپنے اصحاب کو چلے جانے کی اجازت دی تو جہاں بعض دیگر اصحاب امام نے اپنی وفاداری کا یقین دلایا وہاں حضرت مسلم بن عوسجہ نے جو تاثرات بیان کئے وہ سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہیں عرض کی:خدا کی قسم!ہرگز نہیں چھوڑ کے جاؤں گا یہاں تک کہ اپنے نیزہ کو دشمن کے سینہ میں توڑ نہ دوں‘خداکی قسم اگرستر بار مجھے قتل کردیا جائے پھر جلا کر راکھ کر دیا جائے اور ذرہ ذرہ ہوجاؤں پھر اگر زندہ کیا جاؤں تو بھی آپ سے جدا نہیں ہونگا۔۔۔۔۔۔یہاں تک کہ ہر بار آپ پر اپنی جان قربان کرونگا اس لیے کہ جان تو ایک ہی جائے گی لیکن عزت ابدی مل جائے گی۔‘‘(تاریخ الطبری،ج۵، ص۴۱۹)

حضرت مسلم بن عوسجہ عظیم صحابی رسول و امام ہیں کہ جن کو حضرت امام حسین نے ایک آیت قرآنی کا مصداق قراردیا جب مسلم بن عوسجہ پچاس دشمنوں کو ہلاک کرنے کے بعد شہید ہوگئے تو حضرت امام حسین نے فوراً ان کی لاش پر پہنچے اور فرمایا:’’خدا تم پر رحمت کرے اے مسلم‘‘پھر سورۂ احزاب کی آیت ۲۳ کی تلاوت کی :”مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیۡہِ ۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ ۫ۖ وَ مَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِیۡلًا  ۙ۔مومنوں میں کتنے ہی ایسے شخص ہیں کہ جو اقرار اُنہوں نے خدا سے کیا تھا اس کو سچ کر دکھایا۔ تو ان میں بعض ایسے ہیں جو اپنی نذر سے فارغ ہو گئے اور بعض ایسے ہیں کہ انتظار کر رہے ہیں اور اُنہوں نے (اپنے قول کو) ذرا بھی نہیں بدلا ۔

اس طرح امام حسین نے اپنے نانا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابی کو الوداع کہا : السلام علی مسلم بن عوسجہ الاسدی۔۔۔وکنت اول من اشتری نفسہ واول شھید شھداللہ ۔

(21) حضرت نعیم بن عجلان رضی اللہ عنہ : ایک روایت کے مطابق حضرت نعیم اور ان کے دو بھائیوں نظر و نعمان نے حضرت رسول اکرم(ص) کو درک کیا اس طرح یہ صحابی ادرکی ہیں۔ خزرح قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ حضرت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد سیدنا علی کے ساتھ جنگ صفین میں حضرت کا ساتھ دیا۔ حضرت علی نے ان کے بھائی نعمان کو بحرین کے علاقے کا والی بنایا۔(تنقیح المقال، ج۳، ص۲۷۴)

حضرت نعیم کے دونوں بھائی حضرت امام حسن کے زمانہ میں انتقال کرگئے جبکہ حضرت نعیم کوفہ میں زندگی بسر کررہے تھے کہ مطلع ہوئے کہ حضرت امام حسین عراق میں وارد ہوچکے ہیں کوفہ کو ترک کرتے ہیں اور حضرت امام کی خدمت میں حاضر ہوکر غیرت دینی کا عملی ثبوت پیش کرتے ہیں اور نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اپنی وفاداری کا اعلان کرتے ہوئے سپاہ یزید کے خلاف جنگ میں اپنے خون کا آخری قطرہ بھی قربان کر دیتے ہیں ۔ (تنقیح المقال جلد ۳ صفحہ ۲۷۴)

کتاب مناقب کے مطابق روز عاشور اولین حملہ میں جام شہادت نوش کیا ۔(مناقب آل ابی طالب جلد ۴ صفحہ ۱۲۲)

زیارت ناحیہ اور رجبیہ میں ان پر سلام ذکر ہوا ہے : السلام علی نعیم بن العجلان الانصاری ۔ (الاقبال جلد ۳ صفحہ ۷۷) ۔ (مزید حصّہ نمبر 10 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)