حضرت سیّدُنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ حصّہ سوم
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی بے مثال محبّت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کا واقعہ کتبِ تاریخ و سیر میں تفصیل سے درج ہے ۔ آتش پرستی سے توبہ کر کے عیسائیت کے دامن سے وابستہ ہوئے۔ پادریوں اور راہبوں سے حصولِ علم کا سلسلہ بھی جاری رہا ، لیکن کہیں بھی دل کو اطمینان حاصل نہ ہوا ۔ اسی سلسلے میں اُنہوں نے کچھ عرصہ غموریا کے پادری کے ہاں بھی اس کی خدمت میں گزارا۔ غموریا کا پادری الہامی کتب کا ایک جید عالم تھا ۔ اس کا آخری وقت آیا تو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ اب میں کس کے پاس جاؤں ؟ اُس عالم نے بتایا کہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ قریب ہے ۔ یہ نبی دینِ ابراہیمی کے داعی ہوں گے ۔ اور پھر غموریا کے اُس پادری نے مدینہ منورہ کی تمام نشانیاں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو بتا دیں کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ سے ہجرت کر کے کھجوروں کے جھنڈ والے اس شہرِ دلنواز میں سکونت پذیر ہوں گے۔ عیسائی پادری نے اللہ کے اس نبی کے بارے میں بتایا کہ وہ صدقہ نہیں کھائیں گے البتہ ہدیہ قبول کر لیں گے اور یہ کہ ان کے دونوں کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت ہو گی ۔ پادری اس جہانِ فانی سے کوچ کر گیا ، تلاشِ حق کے مسافر نے غموریا کو خدا حافظ کہا اور سلمان فارسی شہرِ نبی کی تلاش میں نکل پڑے ۔ سفر کے دوران حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ چند تاجروں کے ہتھے چڑھ گئے لیکن تلاشِ حق کے مسافر کے دل میں نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کی تڑپ ذرا بھی کم نہ ہوئی بلکہ آتشِ شوق اور بھی تیز ہو گئی ۔ یہ تاجر اُنہیں مکہ لے آئے ، جس کی سرزمین نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مولد پاک ہونے کا اِعزاز حاصل کر چکی تھی ۔ تاجروں نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو اپنا غلام ظاہر کیا اور اُنہیں مدینہ منورہ (جو اُس وقت یثرب تھا) کے بنی قریظہ کے ایک یہودی کے ہاتھ فروخت کر دیا ۔ اُنہوں نے یہودی کی غلامی قبول کر لی ۔ یہودی آقا کے ساتھ جب وہ یثرب (مدینہ منورہ) پہنچ گئے توگویا اپنی منزل کو پا لیا ۔ غموریا کے پادری نے یثرب کے بارے میں انہیں جو نشانیاں بتائی تھیں وہ تمام نشانیاں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے دیکھ لیں ، وہ ہر ایک سے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور کے بارے میں پوچھتے رہتے لیکن ابھی تک قسمت کا ستارا اَوجِ ثریا پر نہ چمک پایا تھا اور وہ بے خبر تھے کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ سے ہجرت کر کے اس شہرِ خنک میں تشریف لا نے والے ہیں ۔ بعض روایات میں مذکور ہے کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ایک دن اپنے یہودی مالک کے کھجوروں کے باغ میں کھجور کے ایک درخت پر چڑھے ہوئے تھے کہ اُنہوں نے اپنے یہودی مالک کو کسی سے باتیں کرتے ہوئے سنا کہ مکہ سے ہجرت کر کے قبا میں آنے والی ہستی نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کی داعی ہے ۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا دل مچل اٹھا ، اور تلاشِ حق کے مسافرکی صعوبتیں لمحۂ مسرت میں تبدیل ہو رہی تھیں ۔ وہ ایک طشتری میں تازہ کھجوریں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور کہا کہ یہ صدقے کی کھجوریں ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ کھجوریں یہ فرما کر واپس کر دیں کہ ہم صدقہ نہیں کھایا کرتے ۔ غموریا کے پادری کی بتائی ہوئی ایک نشانی سچ ثابت ہو چکی تھی ۔ دوسرے دن پھر ایک خوان میں تازہ کھجوریں سجائیں اور کھجوروں کا خوان لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے۔ عرض کی یہ ہدیہ ہے ، قبول فرما لیجیے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ تحفہ قبول فرما لیا اور کھجوریں اپنے صحابہ میں تقسیم فرما دیں ۔ دو نشانیوں کی تصدیق ہو چکی تھی ۔ اب مُہرِ نبوت کی زیارت باقی رہ گئی تھی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنتُ البقیع میں ایک جنازے میں شرکت کےلیے تشریف لائے اور ایک جگہ جلوہ افروز ہوئے ۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت کی طرف بے تابانہ نگاہیں لگائے بیٹھے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نورِ نبوت سے دیکھ لیا کہ سلمان کیوں بے قراری کا مظاہرہ کر رہا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ازراہِ محبت اپنی پشتِ انور سے پردہ ہٹا لیا تاکہ مہرِ نبوت کے دیدار کا طالب اپنے من کی مراد پا لے ۔ پھر کیا تھا حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی کیفیت ہی بدل گئی ، تصویر حیرت بن کے آگے بڑھے ، فرطِ محبت سے مہرِ نبوت کو چوم لیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاکر ہمیشہ کےلیے دامنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستہ ہو گئے ۔ (حاکم، المستدرک، 3 : 698، رقم : 26544)(بزار، المسند، 6 : 463 - 465، رقم : 32500،چشتی)(طبرانی، معجم الکبير، 6 : 222 - 224، رقم : 46065)(ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 4 : 75 - 580)(ابونعيم، دلائل النبوه، 1 : 40)
تعلیماتِ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ جریر نامی ایک شخص سے فرمایا کہ اللہ کےلیے تواضع اختیار کر ، جو شخص دنیا میں اللہ کےلیے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے روز بلند فرمائے گا ۔ ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ دل اور جسم کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اندھا ہو ، اور ایک اپاہج ہو اپاہج کو درخت پر کھجور نظر آئی مگر توڑ نہیں سکتا اور اندھا توڑ سکتا ہے مگر اسے نظر نہیں آتا ہے ۔ لہٰذا اپاہج نے اندھے سے کہا کہ مجھے کاندھے پر چڑھا کر کھجور تک پہنچادے تو میں توڑ لوں گا (اور دونوں مل کر کھا لیں گے) لہٰذا اندھے نے اس کی بات مان لی اور دونوں کو کھجور مل گئی بالکل اسی طرح دل اور جسم کی مثال ہے کہ دل سمجھ سکتا ہے ، حق وباطل کی تمیز کرسکتا ہے مگر عمل کرنا اس کے بس کا کام نہیں اور جسم عمل کر سکتا ہے مگر کھوٹے کھرے کا فرق نہیں کر سکتا لہٰذا اگر دونوں مل کر عمل کریں تو آخرت کے اعمال کرسکتے ہیں ۔ حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ نے فرمایا : بلاشبہ علم کثیر ہے اور عمر قصیر ہے، لہٰذا وہی علم حاصل کر وجس کی تم کو دین کے بارے میں ضرورت ہو اوراس کے سوا باقی کو چھوڑ دو ۔ (ماخوذ حلیة الاولیاء)
ایک مرتبہ فرمایا ” بہت زیادہ مجاہدہ نہ کرو بلکہ میانہ روی اختیار کرو ، ورنہ تھک کر بیٹھ جاؤ گے اور عمل سے اکتا جاؤ گے ۔ (ماخوذ حلیة الاولیاء)
ایک مرتبہ قریش کے بعض لوگ اپنے نسب کی بڑائی بیان کرنے لگے تو حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ نے فرمایا ” میں تو اتنا جانتا ہوں کہ ناپاک نطفہ سے پیدا کیا گیا ہوں اور مر کر بدبودار نعش بن جاؤں گا ، پھر قیامت کے دن مجھے میزانِ عدل (اعمال کے ترازو کے پاس کھڑا کیا جائے گا ، اگر اس وقت میری نیکیاں بھاری نکلیں تو میں شریف ہوں ، ورنہ رذیل ہوں ۔ یعنی شرافت اور ذلت کا فیصلہ وہیں ہو گا ۔ (ماخوذ صفة الصفوة)
آپ کے مشہور اقوالِ مبارکہ : ⬇
(1) تمہیں چاہئے کہ قبل اس کے جھگڑا ہو جائے کنارہ کشی اختیار کرلو ۔
(2) اچھے کام پہلے پہل مشکل ہی دکھائی دیتے ہیں ۔
(3) انسان کی تباہی و بربادی گناہوں میں پنہاں ہے ۔
(4) وہ لوگ قابلِ رشک ہیں جو مجھ سے زیادہ صاحبِ علم ہیں ۔
(5) یقینی طور پر وہ لوگ قابل رحم ہیں جن کا علم مجھ سے کم ہے ۔
(6) کمزوروں کو معاف کرنا ہی دلیری ہے ۔
(7) خوشیاں تقسیم کرنے سے ہی خوشیاں حاصل ہوتی ہیں ۔
(8) اللہ تعالیٰ کی صفات کا شمار ممکن ہی نہیں ۔
(9) جب تمہارا کوئی دوست ، پڑوسی یا رشتہ دار سرکاری ملازم ہو اور وہ تمہیں کچھ ہدیہ دے یا تمہاری کھانے کی دعوت کرے تو تم اسے قبول کرلو (اگر اس کی کمائی میں کچھ شبہ ہے تو) تمہیں تو وہ چیز بغیر کوشش کے مل رہی ہے اور (غلط کمائی کا) گناہ اس کے ذمہ ہوگا ۔ (کنزالعمال جلد ۵ صفحہ ۶۶)
(10) جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ برائی اور ہلاکت کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس سے حیاء نکال لیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تم دیکھو گے کہ لوگ بھی اس سے بغض رکھتے ہیں اور وہ بھی لوگوں سے بغض رکھتا ہے ۔ (حلیۃ الاولیاء جلد ۱ صفحہ۲۰۴)
(11) جب بندہ راحت ، مسرت اور ثروت کے لمحات میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا رہتا ہے پھر اسے کبھی کوئی تکلیف آ پہنچے اور اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کرے تو فرشتے سن کر کہتے ہیں کہ یہ مانوس آواز ہے جو اس بندے ضعیف کی ہے اس کے ساتھ ہی وہ فرشتے اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی سفارش کرتے ہیں ، اس کے برعکس جوشخص اپنے راحت کے اوقات میں اللہ کو یاد نہ کرتا ہو اور تکلیف پہنچنے پر جب یاد کرے تو فرشتے کہتے ہیں کیسی غیر مانوس آواز ہے ۔ (پس وہ سفارش نہیں کرتے) ۔ (سیرت سلمان رضی اللہ عنہ صفحہ ۲۲۱)
(12) ہرانسان کےلیے باطن اورظاہر ہے جس نے اپنے باطن کی اصلاح کرلی اللہ تعالی اس کے ظاہر کی بھی اصلاح کر دے گا اور جس نے اپنے باطن کو خراب کرلیا تو اللہ تعالی اس کے ظاہر کو بھی درست نہیں کرے گا ۔ (حلیۃ الاؤلیاء جلد ۱ صفحہ ۲۰۳)
(13) لوگوں کو اگر پتہ ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کمزور کے ساتھ کس قدر شامل حال ہوتی ہے ، تو وہ اس کا ساتھ دینے میں کوئی پس و پیش نہ کرتے اوراسے بظاہر بے یارو مددگار نہ چھوڑتے ۔ (حلیۃ الاؤلیاء جلد ۱ صفحہ ۲۰۰)
(14) اس شخص سے تعجب ہے جو دنیا میں بڑی بڑی تمناؤں میں پھنسا ہوا ہے اور موت اس کی تلاش میں لگی ہوئی ہے ، اور اس شخص سے بھی تعجب ہے جو غفلت کا شکار ہے حالانکہ اس سے غفلت نہیں کی جارہی ہے ، اور ہنسنے والے سے بھی تعجب ہے کہ جس کو معلوم نہیں ہے کہ اس کا پروردگار اس سے راضی ہے یا ناراض ۔ حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ مدائن میں مقیم تھے ، وہیں علیل ہوئے اور وہیں وفات پائی ۔ وفات سے قبل اپنی بیوی بقیرہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا ، آج میرے پاس زیارت کرنے والے فرشتے آئیں گے ، تم ایسا کرو مشک پانی میں گھول کر میرے بستر کے چاروں طرف چھڑک دو ، کیوں کہ فرشتے خوشبو پسند کرتے ہیں اور پھر کچھ دیر کےلیے مجھے تنہا چھوڑ دینا ۔ چنانچہ ان کی اہلیہ نے حکم کی تعمیل کی ، تھوڑی دیر میں جو آ کر دیکھا تو جسم سے روح پرواز کر چکی تھی اور یوں محسوس ہو رہا تھا کہ آرام کی نیند سو گئے ہیں ۔ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ ۔ (ماخوذ حلیة الاولیاء) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment