Tuesday 7 February 2023

حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ حصّہ دوم

0 comments

حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ حصّہ دوم

فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی ان لوگوں سے کہتا ہے جو کہتے ہیں صحابی رضی اللہ عنہم نے میلاد منایا لو پڑھو صحابہ رضی اللہ عنہم اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے میلاد منایا اسے میلاد نہیں کہتے تو اور کیا کہتے ہیں پڑھیے : امام حاکم کی مستدرک ، امام طبرانی کی معجم کبیر اور علامہ ہیثمی کی مجمع الزوائد میں اس متعلق روایتیں منقول ہیں کہ غزوۂ تبوک سے واپسی کے وقت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آپ کی تعریف و توصیف اور مدح و ثنا کرنے کی اجازت طلب کی ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعاؤں سے نوازتے ہوئے اجازت مرحمت فرمائی تب حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اشعار پڑھے ۔ امام حاکم کی کتاب مستدرک علی الصحیحین سے حدیث شریف کا متن نقل کیا جارہا ہے : سمعت جدی خريم بن اوس حارثة بن لام رضی الله عنه يقول هاجرت الی رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منصرفه من تبوک فاسلمت فسمعت العباس بن عبدالمطلب يقول يارسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انی اريد ان امتدحک فقال رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قل لايفضفض الله فاک قال قال فقال العباس : ⬇

من قبلها طبت فی الظلال وفی
مستودع حيث يخصف الورق

تنقل من صالب الی رحم
اذا مضی عالم بدا طبق

حتی احتوی بيتک المهيمن من
خندف علياء تحتها الطبق

وانت لما ولدت اشرقت ال
ارض وضاء ت بنورک الافق

ترجمہ : حضرت خریم بن اوس بن حارثہ بن لام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں تبوک سے واپسی کے وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف ہجرت کیا اور مشرف بہ اسلام ہوا میں نے حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں یہ عرض کرتے ہوئے سنا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں چاہتاہوں کہ آپ کی مدحت وتعریف کروں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : آپ تعریف کیجیے اللہ تعالی آپ کے چہرہ کو زینت بخشے ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اشعار کہے منجملہ ان کے کچھ اشعار یہ ہیں جب آپ کی ولادت باسعادت ہوئی تو زمین روشن و منور ہوگئی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نور مبارک سے افق عالم منور و تابندہ ہو گئے ۔ (معجم کبیر لطبرانی حدیث نمبر 4057 مستدر ک علی الصحیحین کتا معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ عنہم حدیث نمبر 5426، مجمع الزوائد کتاب علامات النبوۃ باب فی کرامۃ اصلہ صلی اللہ علیہ وسلم جلد 8 صفحہ 217،چشتی)(نیز معجم طبرانی اور مجمع الزوائد میں یہ شعر مذکور ہے : فنحن فی ذلک الضياء وفی النور وسبل الرشاد نخترق ۔ توہم اس روشنی میں اور اسی نور میں ہدایت کے راستے سرکررہے ہیں۔ مستدرک میں لايفضفض کے الفاظ ہیں اور معجم کبیر اور مجمع الزوائد میں لا يفضض مروی ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قرابت داروں میں جن لوگوں کے دلوں میں رب تعالیٰ کی بندگی کا ذوق راسخ ہوا انہوں نے محبتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سرشار ہو کر ترک و توکل اختیار کرتے ہوئے دین اسلام کی نصرت میں بھرپور حصہ لیا - نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحبت نے ان کو نئی فکر اور ایسے اصول و ضوابط سے آشنا کیا جس کے مطابق زندگی گزار کر وہ لوگ فقید المثال بن گئے - ان شریف النسب و اعلیٰ حسب لوگوں میں خاتَم المہاجرین ، حضرت سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی ذاتِ اقدس ایک منفرد ونمایاں مقام رکھتی ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عم بزرگوار (محبوب چچا ) ہیں ۔ آپ  کا شمار جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ہوتا ہے ۔

حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ عام الفیل سے تین سال پہلے پیدا ہوئے ۔ ( صفۃ الصفوۃ باب العباس بن عبد المطلب)

آپ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے تین سال بڑے ہیں- مغیرہ بن ابی رزین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ رضی اللہ عنہ بڑے ہیں یا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ؟ آپ  رضی اللہ عنہ نے فرمایا:عمر میری زیادہ ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مجھ سے بڑے ہیں ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ،باب،کتاب التاریخ)

آپ رضی اللہ عنہ کے بچپن کے بارے میں ایک روایت منقول ہےکہ : حضرت عباس رضی اللہ عنہ بچپن میں لاپتہ ہو گئے ؛ آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ ’’نَتِيلَةُ بِنْتُ جَنَابٍ‘‘ نے منت مانی کہ انہیں حضرت عباس رضی اللہ عنہ مل جائیں تو بیت اللہ شریف کو لباس پہنائیں گی ۔ جب آپ رضی اللہ عنہ مل گئے تو آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ نے نذر پوری کی ۔ یوں آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ وہ پہلی عربی خاتون ہیں جن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے کعبۃ اللہ پر ریشمی پردے لٹکائے اور مختلف اقسام کے قیمتی کپڑوں (حریر و دیباج ) سے بیت اللہ شریف کو مزین کیا ۔ (فتح الباری لابن حجر،باب قولہ کسوۃ الکعبۃ،چشتی)۔(مرقاۃ المفاتیح:باب مناقب اہل بیت)

آپ رضی اللہ عنہ دراز قد ، سفید رنگ والے ، بہت خوبصورت تھے ۔ (البدایہ و النھایہ، باب:ذکر عباس بن عبدالمطلب)

اللہ عزوجل نے آپ رضی اللہ عنہ کو حسن و جمال سے نوازا تھا یہی وجہ ہے کہ اہل قریش نے آپ رضی اللہ عنہ کے علم ، شجاعت ، سخاوت ، سیادت اور خاندانی صلہ رحمی دیکھ کر آپ رضی اللہ عنہ کو بیت اللہ شریف کا محافظ منتخب کیا ۔ جیسا کہ ابو عمر یوسف بن عبداللہ القرطبی  علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں کہ : حضرت عباس رضی اللہ عنہ مکہ کے سردار اور بہت بڑے رئیس تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی اطاعت کی جاتی تھی مسجد حرام کی تعمیر اور آب زم زم کے پلانے کا اہتمام آپ رضی اللہ عنہ کے سپرد تھا ۔ بیت اللہ شریف کی تعمیر اس لیے آپ رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوئی کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ اخلاق حسنہ کے مالک تھے اور کعبۃ اللہ کی حرمت کا اس قدر پاس تھا کہ تعمیر کے وقت فضول گفتگو نہ فرماتے تھے ۔ نیز آپ رضی اللہ عنہ کے احسن نظم کو دیکھ کر قریش نے اس بات پر اتفاق کر لیا کہ یہ کام صرف حضرت عباس رضی اللہ عنہ ہی سر انجام دیں گے اور قریش آپ رضی اللہ عنہ کے معاون و مددگار ہوں گے ۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ،باب عباس بن عبد المطلب،چشتی)

بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے معجزات کا اظہار تخلیقِ کائنات سے پہلے ہی شروع ہو گیا تھا اور ہر دور میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نورِ نبوت اپنی تابانیاں دیکھاتارہا ، اس لیے اللہ پاک نے اہل کتاب کے بارے میں ارشادفرمایا : یَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْ ۔ (سورہ البقرۃ:147)
ترجمہ : وہ اس نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو ایسا پہچانتے ہیں جیسے آدمی اپنے بیٹوں کو پہچانتا ہے ۔

اسی طرح مکہ والوں پہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اوصافِ حمیدہ کسی طرح بھی مخفی نہ تھے- امام بیہقی علیہ الرحمہ نے روایت فرمایا کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ عرض کرتے ہیں : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مجھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کی نشانیوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دین میں داخل ہونے کی دعوت دی تھی ۔ مَیں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بچپن میں گہوارے میں چاند سے باتیں فرماتے اور اپنی انگلی سے اس کی طرف اشارہ فرماتے اور جس طرف اشارہ فرماتے چاند اسی طرف جھک جاتا تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا میں چاند سے باتیں کرتا تھا اور چاند مجھ سے باتیں کرتا تھا اور وہ مجھے رونے سے بہلاتا تھا اور اس کے عرش الٰہی کے نیچے سجدہ کرتے وقت میں اس کی تسبیح کرنے کی آوازکو سنا کرتا تھا ۔ (دلائل النبوة للبیہقی، باب: ما جاءنی حفظہ اللہ تعالیٰ رسولہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)

آپ رضی اللہ عنہ کے باقاعدہ اظہارِ اسلام کے بارے میں امام شمس الدين محمد بن احمد ذہبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ : جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فدیے کا مطالبہ کیا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے عرض کی میرے پاس تو کوئی رقم نہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ چچا ! وہ مال کہاں ہے جو مکہ میں (جنگ کےلیے روانہ ہوتے وقت ) چچی اُم فضل رضی اللہ عنہا کو دے آئے ہو (اس میں سے فدیے کی رقم ادا کر دو) ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اس کے علاوہ لوگوں میں سے کسی ایک کو بھی اس بات کا علم نہیں تھا اور بے شک میں ضرور جانتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں ۔ (سیر اعلام النبلاء،باب العباس عم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب میں کثیر ارشادات فرمائے جن میں آپ رضی اللہ عنہ کو بشارتوں اور دعاؤں سے نوازا ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشادفرمایا : عباس مجھ سے ہیں اور میں عباس سے ہوں ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث 3759،چشتی،الناشر شرکہ مصطفٰے البابی الحلبی مصر)

حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ میں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب قریش آپس میں ملتے ہیں تو حسین مسکراتے چہروں سے ملتے ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو ایسے چہروں سے ملتے ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے (یعنی بیزاری کا اظہار کرتے ہیں )حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ سن کر شدید جلال میں آگئے اور ارشاد فرمایا : اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کسی بھی شخص کےدل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہو سکتا جب تک اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور میری قرابت کی خاطر آپ سے محبت نہ کرے ۔ (النسائی فی السنن الکبرٰی، باب عباس بن عبد المطلب)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک جگہ یوں فرمایا کہ جس نے انہیں تکلیف پہنچائی اس نے مجھے اِیذا پہنچائی کیونکہ آدمی کا چچا باپ کے قائم مقام ہوتا ہے۔ (ترمذی،ج 5،ص422، حدیث:3783)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے آپ رضی اللہ عنہ پر نوازشوں اور عطاؤں کی بارش کی ایک جَھلک اور ملاحظہ کیجیے چنانچہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ سے ارشاد فرمایا: کل میرے آنے تک نہ تو گھر سے باہر نکلیے گا اور نہ بچّوں کوکہیں بھیجیے گا مجھے آپ سب سے کچھ کام ہے۔ اگلے دن حضورِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کے یہاں رونق اَفروز ہوئے تو حال اَحوال پوچھنے کے بعد فرمایا : ایک دوسرے کے قریب آجاؤ، جب سب قریب ہو گئے توانہیں اپنی چادر میں ڈھانپ لیا اور دعا کی: اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! یہ میرے چچا ہیں اور میرے والد کے قائم مقام ہیں، یہ سب میرے اہلِ بیت ہیں ا ن سب کو آتشِ دوزخ سے ایسے ہی چُھپادے جیسے میں نے اپنی چادر میں چُھپایاہے، اس پر سب نے آمین کہی یہاں تک کہ دروازے کی دہلیز اورگھر کی دیواروں سے بھی’’اٰمین اٰمین اٰمین کی صدا آنے لگی ۔ (معجمِ کبیر ،ج19،ص263، حدیث:584)

حضرت سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ کی تعظیم و توقیر بجا لاتے ، آپ  کےلیے کھڑے ہوجاتے، آپ کے ہاتھ پاؤں کا بوسہ لیتے، مشاورت کرتے اور آپ کی رائے کو ترجیح دیتے تھے ۔ (تہذیب الاسماء،ج 1،ص244۔تاریخ ابنِ عساکر،ج26،ص372،چشتی)

آپ رضی اللہ عنہ بارگاہِ رسالت میں تشریف لاتے تو حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بطورِ احترام آپ  کےلیے اپنی جگہ چھوڑ کر کھڑے ہوجاتے ۔ (معجمِ کبیر،ج10،ص285، حدیث: 10675)

آپ رضی اللہ عنہ پیدل ہوتے اور حضرت سیّدنا عمر فاروق اور حضرت سیّدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہما  حالتِ سواری میں آپ کے پاس سے گزرتے تو بطورِ تعظیم نیچے اتر جاتے یہاں تک کہ آپ وہاں سے گزر جاتے۔ ( استیعاب،ج2،ص360) حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجہَہُ الْکریم آپ رضی اللہ عنہ  کے ہاتھوں اور پاؤں کو بوسہ دیتے اور فرماتے : اے میرے چچا ! مجھ سے راضی رہیے گا ۔ (تاریخ ابن عساکر،ج26،ص372)

اسلام لانے سے پہلے اور بعد میں بھی مکہ میں آنے والے حاجیوں کو آبِِ زمزم سےسیراب کرنے کے ساتھ ساتھ آپ رضی اللہ عنہ نے یہ ذمہ داری بھی خوب نبھائی کہ کوئی بھی شخص مسجد حرام میں کوئی گالم گلوچ یا بے ہودہ کلام نہ کہے ۔ (اسد الغابہ،ج3،ص163۔ الثقات لابن حبان،ج1،ص18)

آپ رضی اللہ عنہ  رضائے الٰہی کی خاطر غلام خریدتے اور انہیں آزاد کردیا کرتے تھے یہاں تک کہ آخری وقت میں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے 70 غلاموں کو آزاد کیا ۔ (طبقات ِابنِ سعد،ج4،ص22)

آپ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ احادیث کی تعداد 35 ہے ۔ (تہذیب الاسماء،ج1،ص244)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا احترام ایسے کیا کرتے تھے جیسے کوئی بیٹا اپنے باپ کا احترام کرتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کو یہ تخصیص اس لیے دیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو لوگوں میں سے خاص کیا تھا ۔ (اتحاف المھرۃ لابن حجر ، باب کریب بن ابی مسلم مولی ابن عباس،چشتی)

حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا : اے ابو الفضل آپ کو اللہ تعالیٰ کی اتنی رحمتیں ملیں گی حتٰی کہ آپ راضی ہو جائیں گے ۔ (المستدرک الحاکم،باب:ذکر اسلام العباس)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم باہر تشریف لے گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے ملے اور ارشاد فرمایا : کیا میں آپ کو خوشخبری نہ سناؤں ، آپ رضی اللہ عنہ نے عرض کی ہاں کیوں نہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھ سے اس کام (حکومت و سلطنت) کی ابتدا فرمائی اور آپ کی اولاد پر اس کو ختم فرمائے گا ۔ (حلیۃ الاولیاء و طبقات الاولیاء ،باب عبداللہ بن عباس)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آپ رضی اللہ عنہ کے تعلق و نسبت کے بے شمار واقعات کتب احادیث میں مذکور ہیں یہاں فقیر چشتی صرف ایک روایت رقم کرنے کی سعادت حاصل کرتےا ہے ۔ خریم بن اوس بن حارثہ بن لام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب تبوک سے واپس لوٹے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور اسلام لے آیا ، میں نے سنا کہ حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کہہ رہے تھے : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعریف کرنا چاہتا ہوں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ تمہارے منہ کو کبھی خالی نہ کرے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اجازت فرمائی) ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں اشعار پڑھے : ⬇

تنقل من صالب الٰی رحم
اذا مضٰی عالم بدا طبق

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پاک پشتوں سے پاک رحموں میں منتقل ہوتے رہے زمانہ گزرتا رہا اور صدیا ں بیت گئیں ۔

حتٰی احتوٰی بیتک المھیمن من
خندف علیاء تحتھا النطق

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شرافت جو کہ آپ کے فضل و کمال پر شاہد ہے بڑے بڑے خاندانوں پر غالب آ گئی کہ باقی تمام خاندان اس بلند مرتبہ کے نیچے ہیں ۔

و انت لما و لدت اشرقت الارض
و ضاءت بنورک الافق

جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت با سعادت ہوئی تو زمین روشن ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نور سے آسمان چمک اٹھا ۔

فنحن فی ذٰ لک الضیاء و فی النور
و سبل الرشاد نخترق

ہم اسی نور اور اس کی روشنی میں نیکی کے راستوں میں چلتے ہیں ۔ (المستدرک الحاکم، باب:ذکر اسلام العباس)

حافظ صفی الدین احمد بن عبدا للہ الخزرجی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ : حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ سے 35 احادیث مروی ہیں جن میں سے ایک حدیث پر امام بخاری و امام مسلم متفق ہیں ؛ اور امام بخاری علیہما الرحمہ ایک حدیث کے ساتھ اور امام مسلم تین حدیثوں کے ساتھ منفرد ہیں ۔ (خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال، باب من اسمہ عباس،چشتی)

صحابہ کرام آپ رضی اللہ عنہم کا بے حد ادب و احترام کرتے اور اپنی ذات پر آپ رضی اللہ عنہ کو فضیلت دیتے تھے ۔

ابن ابی الزِناد علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ : جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرتے تو وہ (دونوں) اپنی سواری سے نیچے اتر آتے یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ ان کے پاس سے گزر جاتے اس حال میں کہ آپ (دونوں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا کی تعظیم کرتے ۔ (سیر اعلام النبلاء، باب العباس عم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)

عز الدین ابن الاثیر علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو آپ رضی اللہ عنہ کی فضیلت کی وجہ سے پہچانتے ، ہمیشہ مقدم رکھتے ، مشورہ فرماتے اور آپ رضی اللہ عنہ سے رائے لیتے تھے ۔ (اسد الغابہ الفکر، باب عباس بن عبد المطلب)

صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : جب لوگوں پہ قحط پڑا تو حضرت عمر بن خطاب نے حضرت عباس بن عبد المطلب کے وسیلے سے بارش طلب فرمائی اور آپ رضی اللہ عنہم نے عرض کی : اے اللہ بے شک ہم تیر ی بارگاہِ اقدس میں اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وسیلہ پیش کرتے  تھے پس تُو ہم پر بارش نازل فرماتا تھا اور اب ہم تیر ی طرف اپنے نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا کا وسیلہ پیش کرتے ہیں سو تو ہم پر بارش نازل فرما، راوی فرماتے پھران پر بارش نازل ہوتی ۔ (صحیح البخاری،کتاب المناقب)

جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے بھی بارش کےلیے دعا فرمائی تو اسی وقت اس قدر بارش ہوئی کہ لوگ گھٹنوں گھٹنوں تک پانی میں چلتے ہوئے اپنے گھروں میں واپس آئے اور لوگ (جذبہ عقیدت اور جوش مسرت) سے آپ رضی اللہ عنہ کی چادر مبارک کو چومنے لگے اور کچھ لوگ آپ رضی اللہ عنہ کے جسم مبارک پر اپنا ہاتھ پھیرنے لگے ۔

امام بخاری علیہ الرحمہ روایت فرماتے ہیں کہ : حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے جو بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے منظورِ نظر شاعر تھے اس واقعہ کا ذکر اپنے اشعار میں یوں فرماتے ہیں : ⬇

سئل الامام و قد تتابع جدتنا
فسقٰی الغمام بغرۃ العباس
احیی الا لہ بہ البلاد فاصب
مخضرۃ الاجناب بعد الیاس

ترجمہ : امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ نے اس حالت میں دعا مانگی کہ لگاتار کئی سال سے قحط پڑا ہوا تھا تو بادل نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی روشن پیشانی کے طفیل میں سب کو سیراب کر دیا ۔ معبود برحق نے اس بارش سے تمام شہروں کو زندگی عطا فرمائی اور نا امیدی کے بعد تمام شہروں کے اطراف ہرے بھرے ہو گئے ۔ (صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)

عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم رضی اللہ عنہما اپنے والد سے وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ : حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ سے  کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہم مسجد کی توسیع کرنا چاہتے ہیں اور آپ رضی اللہ عنہ کا گھر مسجد کے قریب ہے ۔ اس لیے آپ رضی اللہ عنہ اپنا گھر ہمیں دے دیجیے ہم مسجد کی توسیع میں اس کو شامل کر لیں گے اور اس کے بدلے میں آپ رضی اللہ عنہ کو اس سے بھی زیادہ وسیع گھر دیتے ہیں ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے منع کر دیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : (اگر آپ رضی اللہ عنہ نے رضا مندی کے ساتھ یہ مکان ہمیں نہ دیا تو) ہم آپ سےیہ مکان لے لیں گے ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : آپ رضی اللہ عنہ کو یہ حق نہیں پہنچتا ، یہ لوگ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان کو پورا معاملہ سنایا ۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس سلسلے میں میرے پاس ایک حدیث موجود ہے ۔ انہوں نے پوچھا : وہ کیا ؟ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جب حضرت داؤد علیہ السلام نے بیت المقدس کی توسیع کرنا چاہی اور مسجد کے قریب جو مکان تھا وہ ایک یتیم کا تھا ۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے وہ مکان مانگا لیکن اس نے دینے سے انکار کر دیا ، حضرت داؤد علیہ السلام اس سے وہ مکان لینا چاہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی کہ میرے گھر کو دوسروں کے گھروں پر ناانصافی سے بچایا جائے تو حضرت داؤد علیہ السلام نے وہ ارادہ ترک فرما دیا ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا : کیا اب بھی کوئی بات باقی رہ گئی ہے ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : نہیں ۔ راوی کہتے ہیں : پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مسجد میں آئے ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے پرنالے کا رخ مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب تھا اور بارش کا پانی اس کے ذریعے مسجد میں گرتا تھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ پرنالہ اکھیڑ ڈالا اور کہا کہ یہ پرنالہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مسجد میں نہیں گر سکتا ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا اس ذات کی قسم جس نے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بذات خود یہ پرنالہ اسی مقام پر رکھا تھا اور اے عمر رضی اللہ عنہ آپ نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا لگایا ہوا پرنالہ) اکھیڑ دیا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اب آپ رضی اللہ عنہ اپنے پاؤں میری گردن پر رکھ کر چڑھ جائیے اور یہ پرنالہ جہاں پر تھا وہاں لگا دیجیے ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا پھر فرمایا میں نے یہ مکان آپ رضی اللہ عنہ کو دیا ۔ آپ مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شریف کی توسیع کر لیں تب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا مکان مسجد میں شامل کر لیا اور آپ رضی اللہ عنہ کو اس کے بدلے مقام زوراء پہ ایک وسیع و عریض مکان دیا ۔ (وفاء الوفاء باخبار دار المصطفٰے ،باب بین عمر و العباس،چشتی)

اس واقعہ کے بنظر غائر مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کس قدر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات بابرکات سے والہانہ محبت وعشق کرتے تھے اوران کے قلوب و اذہان میں کس قدر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرامین مبارکہ کا پاس و لحاظ تھا کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ باوجود امیرالمؤمنین ہونے کے جب آپ رضی اللہ عنہ کو ایک حدیث مبارک کا حوالہ پیش کیا جاتا ہے تو وہ اپنا فیصلہ واپس لے لیتے ہیں اور پرنالہ اکھیڑنے کے بعد معلوم ہوتاہے کہ اس کو تو میرے کریم آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے دستِ اقدس سے نصب فرمایا تھا تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اپنے کندھوں پہ سوار کر کے دوبارہ اسی جگہ پہ لگواتے ہیں جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نصب فرمایاتھا ۔

آپ رضی اللہ عنہ کی ازواج میں ’’حضرت اُم فضل ’’لُبَابَةَ بِنْتِ الْحَارِث‘‘ اور ’’حُجَيْلَةُ بِنْتُ جُنْدُب‘‘ شامل ہیں ۔ (تلقیح فھو اھل الاثر، باب مسطح بن اثاثہ)

بیٹیوں کےعلاوہ آپ کے دس بیٹے تھے جن میں حارث، عبداللہ ، عبیداللہ ، عبدالرحمٰن ، عون ، فضل ، قثم ، کثیر اور معبد رضی اللہ عنہم شامل ہیں ۔ (تاریخ ابن کثیر،ذکر عباس بن عبدالمطلب)

وصالِ مبارک نماز جنازہ او رمزار پرانوار

حضرت علی بن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ : حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اپنے وصال کے وقت 70 غلام آزاد کیے ۔ (تاریخِ دمشق، باب: العباس بن عبدالمطلب)

آپ رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ میں جمعہ کے روز 88 سال کی عمر میں 12 (بعض کتب میں 14 رجب درج ہے) رجب 32ھ کو وصال مبارک فرمایا ۔ (البدایہ و النھایہ، باب ذکرعباس بن عبد المطلب)

امیر المؤمنین سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ رضی اللہ عنہ کا مزار پر انوار جنت البقیع مدینہ منورہ میں مرجع خلائق ہے ۔ (سیر اعلام النبلاء، باب: العباس عم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)

عرض چشتی : جن خوش نصیب اہلِ ایمان کے دلوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی والہانہ محبت کے جذبات فروغ پا جاتے ہیں ان کے دل احکامِ خداوندی کی تابعداری کےلیے بے اختیار ہو کر جذبہ روحانی سے معمور ہو جاتے ہیں ۔ مقصود ایمان و ایقان اور آج کی اشد ضرورت بھی یہی ہے کہ نبی کریم کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تذکرے عام کر کے ان کی عزت و تکریم کے نقوش قلب پر ثبت کیے جائیں ، ان کی تعلیمات اور طریق کو اپنی زندگی میں نمونہ عمل بنائیں تاکہ عصرِ حاضر کی مادی فکر کو قرون اولیٰ کے روحانی جذبے پر فوقیت کے تصورات دلوں میں جاگزیں ہوں ۔ اللہ عزوجل ہمیں جملہ صحابہ کرام و اہلبیتِ اطہار اور ازواجِ مطہرات رضی عنہم اجمعین کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرماۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔