Wednesday, 15 February 2023

معراجُ النّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سورۂ والنجم کی روشنی میں حصّہ اوّل

معراجُ النّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سورۂ والنجم کی روشنی میں حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام : منبعِ علم و دانش قرآن مجید فرقان حمید میں واقعۂ معراج تین الگ الگ مقامات پر بیان ہوا ہے ۔ سورۃ النجم میں سفرِ معراج کا ذکرِ جمیل قدرے تفصیل سے ہوا ہے ۔ فرمایا : وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَى ۔ مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى ۔ وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى ۔ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَى ۔ وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَى ۔ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى ۔ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى ۔ فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى ۔ (سورہ النجم آیت ننبر 1 تا 10)

وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰى (1)
ترجمہ : اس پیارے چمکتے تارے محمد کی قسم جب یہ معراج سے اُترے ۔

اللہ ربّ العزت نے ان آیات مقدسہ کے آغاز میں قسم اٹھائی ہے اور یقیناً ربّ العالمین کا قسم اٹھانا ایک غیرمعمولی بات ہے ۔ ایک غیر معمولی واقعہ کی تمہید کو اجاگر کرنا مقصود ہے ۔ خالق کائنات کا کسی واقعہ کو بیان کرنے سے پہلے قسم اٹھانا اس بات کی بھی دلیل ہے کہ جو واقعہ بیان کیا جا رہا ہے وہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے اور جس ہستی معظم کے بارے میں یہ واقعہ بیان ہو رہا ہے، وہ ہستی کن عظمتوں اور رفعتوں کی حامل ہے ! اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ خدائے رحیم و کریم کسی وقیع معاملے کا انکشاف فرما رہے ہیں ۔ اس غیر معمولی اہتمام کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بندوں پر یہ آشکار کرنا بھی مقصود ہے کہ اس معجزۂِ معراج کو اپنی ناقص عقل کی کسوٹی پر نہ پرکھیں بلکہ اس خالق ارض و سماوات کی قدرت کاملہ کا مظہر جان کر دل و جان سے قبول کر لیں ۔ فرمایا : قسم ہے ستارے کی جب وہ اترے ۔ مذکورہ آیات کی پہلی آیت میں ’’نجم‘‘ اور ’’ھوی‘‘ کے الفاظ معنی خیز بھی ہیں اور ہمیں غور و تدبر کی دعوت بھی دے رہے ہیں ۔ اس آیت میں نَجم سے کیا مراد ہے اس بارے میں  مفسرین کے بہت سے قول ہیں  اور ان اَقوال کے اعتبار سے آیت کے معنی بھی مختلف ہیں ۔

اس سے مراد ’’ثُرَیّا ‘‘ ہے ، اس صورت میں  آیت کے معنی یہ ہوں  گے کہ ثریا تارے کی قسم ! جب وہ فجر کے وقت غروب ہو ۔ یاد رہے کہ اگرچہ ثریا کئی تارے ہیں  لیکن ان پر نَجم کا اِطلاق عرب والوں  کی عادت ہے ۔ نجم سے نجوم کی جنس یعنی تمام تارے مراد ہیں ۔ اس صورت میں  آیت کے معنی یہ ہوں  گے کہ آسمان کے تمام تاروں  کی قسم!جب وہ غروب ہوں ۔ اس سے وہ نباتات مراد ہیں جو تنا نہیں  رکھتیں  بلکہ زمین پر پھیلتی ہیں ۔ اس صورت میں  آیت کے معنی یہ ہوں  گے کہ زمین پر پھیلے ہوئے بیل بوٹوں  کی قسم! جب وہ جنبش کریں ۔ نجم سے مراد قرآنِ پاک ہے۔اس صورت میں  آیت کے معنی یہ ہوں  گے کہ قرآن کی قسم !جب وہ رفتہ رفتہ نازل ہو ۔ نجم سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات ِمبارکہ ہے ، اس صورت میں  آیت کے معنی یہ ہوں  گے کہ (اس پیارے چمکتے) تارے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قسم ! جب وہ معراج کی رات آسمانوں  سے اترے ۔ (تفسیر خازن سورہ النجم الآیۃ: ۱، ۴ / ۱۹۰)(تفسیر قرطبی، النجم الآیۃ: ۱، ۹ / ۶۲، الجزء السابع عشر،چشتی)

علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں : نجم اصل میں طلوع ہونے والے ستارے کو کہتے ہیں اس کی جمع نجوم ہے اور نجم زمین پر پھیلنے والی بیل کو بھی کہتے ہیں، وقت کے ایک مقررحصہ اور قسط کو بھی نجم کہتے ہیں، ستاروں کے علم میں غور و فکر کرنے کو بھی نجم کہتے ہیں اسی سے منجم ( نجومی) بنا ہے، نجم ستارے کے طوع ہونے کو بھی کہتے ہیں، عرب ثریا کو بھی نجم کہتے ہیں ( وہ ستا ستارے جو ایک دوسرے کے نزدیک ہیں ان کو ثریا کہتے ہیں، ان کو سات ستاروں کا جھمکا بھی کہتے ہیں) ۔ فنظر نظرۃ ی النجوم (الصافات : ٨٨) پس اس نے ستاروں کے علم میں نظر کی ، یعنی غور کیا ۔ والنجم اذا ھوی (النجم : ١) روشن ستارے کی قسم ! جب وہ زمین کی طرف اترا ۔ اس سے مراد ستارہ ہے اور ستارے کے اترنے کا ذکر کیا ہے کیونکہ ستارے کے طلوع کا معنی خود النجم میں موجود ہے ، ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد ثریا ہے اور عرب جب مطلقاً نجم کا لفظ بولیں تو اس سے ثریا کا ارادہ کرتے ہیں ۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے قرآن مجید مراد ہے جو کہ قسط وار اور بہ تدریج نازل ہوا ہے اور ” ھویٰ “ سے مراد قرآن مجید کا نزول ہے ۔ فلا قیم بموقع النجم ۔ (سورہ الواقعہ : ٧٥) ۔ پس میں ستاروں کے گرنے یا قرآن کے بہ تدریج نازل ہونے کی قسم کھاتا ہوں ۔ والنجم الشجر یسجدن ۔ (سورہ الرحمن : ٦) ۔ زمین پر کھڑے ہوئے درخت اور زمین پر پھیلی ہوئی بیلیں دونوں سجدہ کرتی ہیں ۔ (المفردات ج ٢ ص ٦٢٥، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)

علامہ مجدد الدین المبارک بن محمد المعروف ابن الاثیر الجزری المتوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں : نجم کا معنی کسی چیز کا ظہور اور خروج ہے ، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی : سراج من النار یظھر فی اکنافھم حتی ینجم فی صدورھم ۔ آگ کا شعلہ منافقین کے کندھوں میں ظاہر ہوگا اور ان کے سینوں سے نکلے گا ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠، مسند احمد ج ٤ ص ٣٢٠ طبع قدیم)

نجم کا معنی ستارہ ہے اور اس کی جمع نجوم ہے اور کبھی اس سے مراد ثریا ہوتا ہے اور عرب ثریا کو ستاروں کا علم ( نام) قرار دیتے ہیں اور جب وہ مطلقاً نجم کہیں تو اس سے مراد ثریا ہوتا ہے ، درج ذیل حدیث میں ثریا کا اطلاق اسی معنی پر ہے ۔ ما طلع النجم قط و فی الارض عاھۃ الا رفعت ۔ جب بھی ثریا طلوع ہوتا ہے تو زمین سے پھلوں کی آفت اٹھالی جاتی ہے ۔
( مسند احمد جلد ٢ صفحہ ٣٨٨ طبع قدیم)(مشکل الآثار جلد ٣ صفحہ ٩٢)

اور اس کا معنی قسطوں میں کسی چیز کا دینا ہے ، حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا : واللہ لا ازیدک علی اربعۃ الاف منجمعۃ اللہ کی قسم ! میں تم کو قسط وار چار ہزار سے زیادہ نہیں دوں گا ۔ (النہایہ ج ٥ ص ٢٠۔ ٢١، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٨، ١٤ ھ،چشتی)

علامہ ابن منظور افریقی متوفی ٧١١ ھ نے ” المفردات “ اور ” النہایہ “ کی عبارات کو جمع کردیا ہے ۔ (لسان العرب جلد ١٤ صفحہ ٢٠٣، داراصادر بیروت)
 
حضرت ابن عباس اور مجاہد رضی اللہ عنہم نے کہا : ”والنجم اذا ھوی“ کا معنی ہے : ثریا کی قسم ! جب وہ فجر کے وقت نیچے اترے اور عرب ثریا کو نجم کہتے ہیں، ہرچند کہ وہ تعداد میں کئی ستارے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ وہ سات ستارے ہیں ، ان میں سے چھ ظاہر ہیں اور ایک مخفی ہے ، اس سے لوگوں کی آنکھوں کی آزمائش ہوتی ہے ۔ قاضی عیاض نے ”کتابُ الشفا“ میں لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ثریا میں گیارہ ستارے دیکھے تھے ۔

مجاہد علیہ الرّحمہ سے یہ بھی روایت ہے کہ اس کا معنی ہے : اور قرآن کی قسم ! جب وہ نازل ہوا ، کیونکہ قرآن مجید قسط وار بہ تدریج نازل ہوا ہے ۔
فزاء اور حسن بصری نے کہا : اس کا معنی ہے : ستاروں کی قسم ! جب وہ ڈوب جائیں اور نجوم کو نجم سے تعبیر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حسن بصری سے یہ بھی روایت ہے کہ ستاروں کی قسم ! جب وہ چھڑ جائیں گے ۔

ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ ستارے ہیں جن کے ساتھ شیاطین کو رجم کیا جاتا ہے ، اس کا سبب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رسول بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا تو آپ کی ولادت سے پہلے بہ کثرت ستارے ٹوٹنے لگے ، پس بہت عرب خوف زدہ ہوگئے ، ان کے ہاں ایک نابینا کاہن تھا وہ گھبرا کر اس کے پاس گئے ، جو ان کو مستقبل کی خبریں بتاتا تھا ، اس نے کہا : بارہ برج کو دیکھو اگر ان میں سے کوئی برج ٹوٹ گیا ہے تو اب دنیا ختم ہونے والی ہے، اور اگر ان میں سے کوئی برج نہیں ٹوٹا ہے تو دنیا میں ایک بہت بڑا واقعہ ہوگا ، سو تم دیکھو کیا رونما ہوتا ہے ، پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوگئے تو انہوں نے سمجھ لیا کہ یہی وہ امر عظیم تھا اور اللہ تعالیٰ نہ یہ آیت نازل فرمائی : ”والنجم اذا ھوی“ یعنی یہ ستارہ ہے جو نیچے اترا ہے یہ ستارہ اس نبوت کا ہے جو اب ظاہ ہوئی ہے ۔

اور جعفر بن محمد بن علی بن حسین رضی اللہ عنہم نے کہا : اس کا معنی ہے : محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم ! جب وہ شب معراج کو آسمان سے زمین پر آئے ۔
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عتبہ بن ابی لہب جس کے نکاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحب زادی تھیں ، اس نے شام کی طرف جانے کا ارادہ کیا اور کہا : میں ضرور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاٶں گا اور ان کو ایذاء پہنچاٶں گا ، اس نے کہا : اے محمد ! میں ”والنجم اذا ھوی“ اور ”دنی فتدلی“ کا انکار کرتا ہوں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرہ اقدس پر تھوک دیا اور آپ کی صاحب زادی آپ کی طرف بھیج کر ان کو طلاق دے دی ، تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی : اے اللہ ! اس پر اپنے کتوں میں سے ایک کتا مسلط کر دے ، اس موقع پر ابو طالب تھی تھے ، انہوں نے غم گین ہو کر کہا : اے بھیجتے ! اس دعا سے آپ کو کیا فائدہ ہو گا ؟ عتبہ نے جا کر اپنے باپ کو یہ خبر دی ، پھر وہ شام کی طرف چلے گئے اور ایک جگہ ٹھہرے ، ان کے پاس گر جا سے ایک راہب آیا اور کہا : اس زمین میں درندے آتے ہیں ، ابو لہب نے اپنے اصحاب سے کہا : اے قریش کی جماعت ! ہماری مدد کرو کیونکہ آج رات مجھے اپنے بیٹے پر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا کے ضرر کا خطرہ ہے ، پھر انہوں نے اپنے ارد گرد اپنے اونٹوں کو بٹھا لیا اور عتبہ کو چاروں طرف سے گھیر لیا ، پھر شیرآ کر سب کے چہروں کو سونگھتا رہا حتیٰ کہ عتبہ پر حملہ کر کے اس کو قتل کر دیا ۔ (دلائل النبوۃ لابی نعیم رقم الحدیث : ٣٨٣۔ ٣٨١)(تفسیر امام عبد الرزاق ج ٢ ص ٢٠٢۔ رقم الحدیث : ٣٠٢١، دارالمعرفۃ، بیروت)(تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ٢٧٣، دارالفکر، الکشف والبیان ج ٩ ص ١١٣٥،چشتی)(جامع البیان رقم الحدیث : ٢٥٠٩٤)(الجامع الاحکام القرآن جز ١٧ ص ٧٨)(الدرالمنثور ج ٧ ص ٢٦٣)(الکشاف ج ٤ ص ٤١٩)(روح البیان ٩ ص ٢٤٩)(السنن الکبریٰ ج ٥ ص ٢١١)(حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اس واقعہ کو اشعار میں نظم کیا ہے جس کو تفصیل سے ” الکشف “ اور ” الجامع الاحکام القرآن “ میں ” دلائل النبوۃ “ رقم الحدیث : ٢٢٠ کے حوا لے سے نقل کیا ہے)

” النجم “ سے ثریا کو مراد لینا اس لیے مناسب ہے کہ آسمان کے ستاروں میں ثریا سب سے زیادہ روشن اور سب سے زیادہ واضح ہے اور ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی کثرت معجزات اور دلائل کے اعتبار سے نبیوں میں سب سے زیادہ روشن اور واضح ہیں، نیز اور اخر خریف میں جب عشاء کے وقت ثریا کا ظہور ہوتا ہے تو زمین سے پھلوں کی آفات دور ہوجاتی ہیں اور پھل پک جاتے ہیں ، اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جب ظہورہوا تو دلوں کی بیماریاں دور ہوگئیں اور ایمان اور عرفان کے پھل پک کر تیار ہوگئے، اس مناسبت سے اللہ تعالیٰ نے النجم کی قسم کھائی جس کا معنی ثریا ہے ۔
النجم سے آسمان کے ستارے مراد لینا اس لیے مناسب ہے کہ ستاروں سے سمندر، جنگلوں اور ریگستانوں میں راستے کی ہدایت حاصل ہوتی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کفر اور شرک کے اندھیروں میں صحیح راستہ کی ہدایت حاصل ہوتی ہے، اس مناسبت سے اللہ تعالیٰ نے النجم کی قسم کھائی جس کا معنی آسمان کے ستارے ہیں ۔
النجم سے ستاروں کو رجم کرنا اور ان سے شیاطین کو آسمانوں سے بھگانا یعنی شہاب ثاقب مراد لینا اس لیے مناسب ہے کہ جس طرح شہاب ثاقب سے شیاطین کو آسمانوں سے دور کیا جاتا ہے اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے زمین پر لوگوں سے شیاطین کو دور کیا جاتا ہے، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے النجم کی قسم کھائی جس کا معنی شہاب ثاقب ہے ۔
النجم سے قرآن مجید مراد لینا اس لیے مناسب ہے کہ قرآن مجید نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت اور رسالت کے صدق پر دلالت کرتا ہے، قرآن مجید میں ہے : یٰسٓ۔ وَالْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ ۔ اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ ۔ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ۔ (سورہ یٰسین : ١۔ ٤)
ترجمہ : یٰسین۔ قرآن حکیم کی قسم۔ بیشک آپ ضرور رسولوں میں سے ہیں۔ سیدھے راستے پر قائم ہیں ۔ 
 اور یہاں فرمایا : قرآن کی قسم ! جو قسط وار نازل ہوا ، تمہارے آقا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور پیغمبر نے نہ کبھی سیدھا راستہ گم کیا اور نہ کبھی بےراہ چلے ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے النجم کی قسم کھائی جس کا معنی قسط وار ہے ۔
النجم کا معنی زمین پر پھیلنے والی بیل مراد لینا اس لیے مناسب ہے کہ ان بیلوں کے پھلوں سے جسم کی تقویت اور نشو و نما ہوتی ہے اور آپ کی تعلیمات سے روح کی تقویت اور نشو و نما ہوتی ہے ۔
علامہ ابو عبد اللہ قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ، علامہ محمد بن یوسف اندلسی متوفی ٧٥٤ ھ، علامہ اسماعیل حنفی متوفی ١١٣٧ ھ اور علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ نے النجم کی تفسیر میں یہ روایت نقل کی ہے :
امام جعفر بن محمد علی بن حسین رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ النجم سے مراد ہے : محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم ! جس وہ شب معراج آسمان سے زمین پر آئے اور یہ اس لیے مناسب ہے کہ اس آیت کے بعد والی آیتوں میں بھی اللہ تعالیٰ کے قرب ” دنا فتدلی “ اور اللہ تعالیٰ کو سر کی آنکھوں سے دیکھنے کا ذکر ہے جس کا تعلق شب معراج ہے ۔(الجامع الاحکام القرآن جز ١٧ ص ٧٨،چشتی)(البحر المحیط ج ١٠ ص ٩)(روح البیان ج ٩ ص ٢٤٩)(روح المعانی جز ٢٧ ص ٧٠)
نیز علامہ آلوسی نے اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی لکھا ہے کہ یہ بھی جائز ہے کہ ” اذا ھوی “ سے یہ مراد ہو کہ شب معراج نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عروج لا مکان تک ہوا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی قسم کھا کر یہ بتایا کہ آپ راہ راست سے گم ہونے اور راہ راست کے بغیر چلنے کے شائبہ سے بھی مبرا، منزہ اور پاک ہیں ۔ (روح المعانی جز ٢٧ ص ٧٠، دارالفکر بیروت، ١٤١٧ ھ)

یہ لفظ عربی زبان و ادب میں کبھی اسم کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور کبھی اس کا استعمال بطور مصدر عمل میں لایا جاتا ہے ۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ اگر لفظ نجم بطور اسم استعمال ہو تو اس کا ایک معنی یہ لیا جائے گا کہ کسی چیز کی اصل، مبداء، Root اور Range مثلا ً کسی درخت کی جڑ، جو ایک تناور درخت کی اصل ہوتی ہے۔ جس جگہ سے کوئی چشمہ پھوٹے اس جگہ کو بھی نجم کہا جاتا ہے۔ چشمہ سب کو سیراب کرتا ہے۔ سنگلاخ چٹانوں کو بھی شاداب موسموں کی نوید دیتا ہے ۔

فن حدیث میں لفظ نجم استعمال ہوتا ہے ۔ یہ اس حدیث کے لئے آتا ہے جو اپنا اصل نہ رکھتی ہو، یعنی بے بنیاد اور من گھڑت ہو مثلاً جب یہ کہا جائے کہ ھذا الحدیث لا نجم لہ تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس حدیث کی کوئی اصل نہیں۔ یہ بے بنیاد اور من گھڑت ہے ۔

آیتِ مذکورہ میں نجم سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہے ۔ ’’قسم ہے ستارے کی جب وہ اترے‘‘ معراج کی شب عظمت کا تاج کس رسولِ محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرِ اقدس پر سجایا گیا، کھلے آسمانوں کی سیر کرائی گئی ۔ ظاہر ہے یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات تھی اور خدا اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ستارے سے تشبیہہ دے رہا ہے۔ ستارا جو روشنی کی علامت ہے، ستارہ جو حرکت اور زندگی کا استعارہ ہے۔ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : النجم انه محمد ۔ نجم سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ۔(روح المعانی، 14 : 45،چشتی)(تفسير المظهری، 9 : 103)

ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ نجم سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلبِ اطہر ہے ، وہ قلب مقدس جس پر اس عظیم سفر کی جزئیات رقم ہوئیں ۔ اگر یہ معنی لیا جائے تو بھی مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس ہی ٹھہرتی ہے ۔

اکثر محدثین و مفسرین نے نجم سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کو ہی لیا ہے ۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’تفسیر کبیر‘‘ میں، علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’روح المعانی‘‘ میں، امام خازن رحمۃ اللہ علیہ نے ’’تفسیر خازن‘‘ اور نبہان بقلی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’عرائس البیان‘‘ میں نجم کے اسی مفہوم کو اعتماد و اعتبار کی سند عطا کی ہے۔ ان کے علاوہ دیگر متعدد ائمہ تفسیر نے بھی نجم سے مراد سیاح لامکاں حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس ہی لی ہے۔ امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ نجم کی شرح کرتے ہوئے رقمطراز ہیں : خدا کی ذات بابرکات نے کنائے اور اشارے کے پیرائے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رخشندہ و تابندہ ذات کی قسم کھائی اور فرمایا : قسم ہے اے محبوب! کہ تو اصل ہے ۔ (المفردات : 483)

بعض ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اصل اور جڑ ہیں تو یہ کس چیز کی اصل یا جڑ ہیں! جب ہم قرآن سے اس سوال کا جواب پوچھتے ہیں تو قرآن کا اسلوب یہ ہے کہ وہ کسی شئے کا نام نہیں لیتا بلکہ مطلقاً کہتا ہے ’’والنجم‘‘۔ قاعدہ اور ضابطہ یہ ہے کہ اگر کہہ دیا جائے کہ بندہ فلاں چیز کی اصل اور منبع ہے تو یہ اصل اور منبع ہونا اس چیز کے ساتھ مختص ہو کر رہ جائے گا ۔ اس اصل اور منبع کو دوسری چیزوں کا اصل اور منبع ہونے کا درجہ حاصل نہ ہو سکے گا اور اگر کسی چیز کا نام نہ لیا جائے تو اس سے مراد ہر ہر چیز کی اصل و منبع ہوتا ہے ۔ ربِّ کائنات نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لے کر انہیں محدود کرنا پسند نہیں فرمایا ۔ اس لیے ذات سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی شئے سے مختص نہیں کیا گیا ۔ جن و انس ، شمس و قمر، شجر و حجر، برگ و ثمر، نباتات و جمادات، حور و غلمان، غرض کائنات ہست و بود کا وجود و ظہور سب کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مقدسہ کے توسل اور تصدق ہی سے قائم ہے ۔ محبوب اگر تجھے پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو یہ سورج ہوتا اور نہ یہ چاند ستارے۔ اس آیت مقدسہ میں نجم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مراد لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقصود کائنات ٹھہرایا جا رہا ہے ۔ اس کائنات رنگ و بو میں صرف دو وجود ہیں : ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...