معراج النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ چہارم
معراج جسمانی اور دیدار الہی قرآن و حدیث کی روشنی میں ۔ اللہ تعالی نے مخلوق کی ہدایت اور رہنمائی کےلیے حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا ، ہر نبی کو ان کے دور کے تقاضوں کے مطابق معجزات عطا کیے ، امت جس فن میں کمال رکھتی تھی حضرات انبیاء کرام علیہم السلام بھی اسی صنف سے اس شان کا معجزہ پیش کرتے کہ تمام افراد کی عقلیں دنگ رہ جاتیں ، صبح قیامت تک آنے والی تمام نسل انسانی چونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی کی امت ہے ، اللہ تعالی نے اسی لحاظ سے آپ کو معجزات عطا فرمائے ، آج سائنس و ٹکنالوجی‘ ترقی اور عروج کی منزلیں طئے کرتی ہوئی اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ انسان سورج کی شعاعوں کو گرفتار کر رہا ہے ، خلائی کائنات کا سفر کرتے ہوئے چاند تک پہنچ گیا ہے ، لیکن سائنس اور ماہرین فلکیات اپنی اس حیرت انگیز ترقی کے باوجود حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے معجزۂ معراج کی عظمت و رفعت اور بلندیوں کا تصور نہیں کر سکتے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شبِ معراج حالتِ بیداری میں اپنے رب عزوجل کا دیدار کیا ، جس پر متعدد آیاتِ قرآنیہ و احادیثِ نبویہ سے تائید ملتی ہے اور اس پر اقوالِ صحابہ بھی موجود ہیں اور یہ دیدار دنیاوی زندگی کے اندر حالتِ بیداری میں صرف اور صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے ، کسی اور کو نہیں ہو سکتا ۔جو شخص دنیاوی زندگی میں حالتِ بیداری میں رب عزوجل کو دیکھنے کا دعوی کرے ، اس پر علماء نے گمراہی اور کفر کا حکم دیا ہے ، ہاں خواب میں رب عزوجل کا دیدار ممکن ہے ، بلکہ بہت سے اولیائےکرام کو ہوا بھی ہے ، جیسے حضرت سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے خواب میں سوبار اللہ عزوجل کادیدار کیا ۔
سائنسی دنیا جس قدر ترقی کرتی جار ہی ہے اسی قدر حقائق اسلامیہ آشکار ہوتے جا رہے ہیں ، آج کم فہم اور سطحی علم رکھنے والے افراد جو اعتراض کرتے ہیں کہ ’’یہ کیسے ممکن ہیکہ رات کے مختصر سے حصہ میں اتنا طویل سفر کیا گیا ہو‘‘ ان پر بھی واضح ہوگیا کہ انسان کی بنائی ہوئی ’’بجلی‘‘ کی سرعت کا حال یہ ہے کہ وہ ایک سکنڈ میں تین لاکھ کیلومیٹر کا سفرطے کرتی ہے، جب مخلوق کی بنائی ہوئی ’’روشنی‘‘ کی قوتِ سرعت اس شان کی ہے تو قادر مطلق نے جنہیں سراپا نور بنا کر بھیجا ہے اس نورِ کامل کی سرعتِ رفتار اور طاقتِ پرواز کا کون اندازہ کر سکتا ہے ۔
ماہ رجب کی ستائیسویں شب اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو حالت بیداری میں مکہ مکرمہ سے بیت المقدس اور بیت المقدس سے ساتوں آسمان‘ جنت و دوزخ اور ساتویں آسمان سے عرش بریں ، ماوراء عرش جہاں تک اس کو منظور تھا سیر کرائی اپنے قرب خاص و دیدار پر انوار کی سعادت سے مشرف فرمایا اور آپ کی وساطت سے امت کو نماز کا عظیم تحفہ عنایت فرمایا ۔ معراج جسمانی قرآن کریم سے ثابت ہے ارشاد الٰہی ہے : سُبْحَانَ الَّذِیْ أَسْرٰی بِعَبْدِه لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَي الَّذِي بَارَکْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ اٰيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ۔ ترجمہ : پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندۂ خاص کو رات کے مختصر سے حصہ میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک سیر کرائی جس کے اردگرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ انہیں اپنی نشانیاں دکھائیں- بے شک وہی سننے والا دیکھنے والا ہے۔ (سورۃ بنی اسرائیل ۔1)
جسمانی معراج کی واضح دلیل آیت معراج میں وارد ’’بعبدہ‘‘ کا لفظ ہے ’’عبد‘‘ کے معنی سے متعلق مفسرین نے فرمایا ہے کہ روح اور جسم کے مجموعہ کا نام ’’عبد‘‘ ہے عبد (بندہ) نہ صرف روح کو کہا جاسکتا ہے اور نہ محض جسم کو۔ لہٰذا لفظ عبد سے معلوم ہوا کہ معراج روح اقدس و جسم اطہر کے ساتھ ہوئی ۔ "و تقرير الدليل أن العبد اسم لمجموع الجسد والروح ، فوجب أن يکون الإسراء حاصلاً لمجموع الجسد والروح" ۔ (تفسیر رازی‘ سورۃ بنی اسرائیل۔ 1)
صحیح احادیث میں براق لائے جانے کا ذکر ملتا ہے ۔ (صحیح مسلم شریف حدیث نمبر 429)(المستدرک علی الصحیحین للحاکم حدیث نمبر 8946)(تہذیب الآثار للطبری، حدیث نمبر 2771)(مستخرج أبی عوانۃ ، حدیث نمبر 259،چشتی)(مسند أبی یعلی الموصلی ، حدیث نمبر 3281)(مشکل الآثار للطحاوی حدیث نمبر 4377)(جامع الأحادیث ، حدیث نمبر553 مسند أحمد ، حدیث نمبر 12841)(مجمع الزوائد و منبع الفوائد ، حدیث نمبر 237)
ظاہر ہے کہ براق جیسے جانور پر روح اطہر نہیں بلکہ جسم منور کی سواری ہوتی ہے ۔
شبِ معراج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ تعالی کو دیکھنے کے بارے میں قرآن مجید میں ہے : مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَاطَغٰی ۔
ترجمہ : آنکھ نہ کسی طرف پھری نہ حد سے بڑھی ۔ (القرآن پارہ 27 سورة النجم آیۃ 17)
امام محمد بن احمد مالکی قرطبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ولوکان منامالقال بروح عبدہ ولم یقل بعبدہ ، وقولہ (مازاغ البصر و ما طغی) یدل علی ذلک ، ولوکان مناما لما کانت فیہ آیۃ و لا معجزۃ ، ولما قالت لہ ام ھانی : لاتحدث الناس فیکذبوک،ولافضل ابوبکربالتصدیق،ولماأمکن قریشاالتشنیع والتکذیب،وقدکذبہ قریش فیماأخبربہ حتی ارتدأقوام کانواآمنوا،فلوکان بالرؤیالم یستنکر ۔
ترجمہ : اور اگریہ خواب کا واقعہ ہوتا ، تو اللہ تعالی یوں ارشاد فرماتا : ”بروح عبدہ“ اور ”بعبدہ“ نہ فرماتا ، نیز اللہ تعالی کا فرمان (مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی) بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہ بیداری کا واقعہ تھا ، نیز اگر یہ خواب کا واقعہ ہوتا ، تو اس میں اللہ تعالی کی کوئی نشانی اور معجزہ نہ ہوتا اور آپ سے حضرت ام ہانی یہ نہ کہتیں کہ آپ لوگوں سے یہ واقعہ بیان نہ کریں ، کہ وہ آپ کی تکذیب کریں گے ، اور نہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تصدیق کرنے میں کوئی خاص فضیلت ہوتی اور نہ قریش کے طعن و تشنیع اور تکذیب کی کوئی وجہ ہوتی ، حالانکہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معراج کی خبردی ، تو قریش نے آپ کی تکذیب کی اور کئی مسلمان مرتد ہو گئے اور اگر یہ خواب ہوتا ، تو کوئی اس کا انکار نہ کرتا ۔ (تفسیر الجامع لاحکام القرآن جلد 10 صفحہ 134 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ)
امام محمد اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ان رؤیة اللہ کانت بعین بصرہ علیہ السلام یقظة بقولہ ”ما زاغ البصر “الخ لان وصف البصر بعدم الزیغ یقتضی ان ذلک یقظة ولو کانت الرؤیة قلبیة لقال ما زاغ قلبہ واما القول بأنہ یجوز ان یکون المراد بالبصر بصر قلبہ فلا بدلہ من القرینة وھی ھھنا معدومة ۔
ترجمہ : (مازاغ البصر) کے فرمان سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اللہ عزوجل کو دیکھنا جاگتے ہوئے ظاہری آنکھوں کے ساتھ تھا ، کیونکہ بصر کو عدمِ زیغ (یعنی آنکھ کے کسی طرف نہ پھرنے) سے موصوف کرنا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ یہ معاملہ جاگتے ہوئے تھا اور اگر رؤیت قلبیہ ہوتی ، تو اللہ تعالی ”مازاغ البصر“ کے بجائے ”مازاغ قلبہ“ فرماتا ، بہرحال یہ کہنا کہ یہاں بصر سے مراد بصر قلبی ہے ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس مراد کےلیے کسی قرینے کا ہونا ضروری ہے اور وہ قرینہ یہاں معدوم ہے ۔ (تفسیر روح البیان پارہ 27 سورة النجم آیۃ 17 جلد 9 صفحہ 228 دارالفکر بیروت،چشتی)
شرح صحیح مسلم للنووی میں ہے : اختلف الناس فی الاسراء برسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقیل انماکان جمیع ذلک فی المنام والحق الذی علیہ اکثرالناس ومعظم المتاخرین من الفقھاء والمحدثین والمتکلمین انہ اسری بجسدہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم والآثارتدل علیہ ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معراج کے متعلق علماء کااختلاف ہے ۔ ایک قول یہ ہے کہ پوری معراج خواب میں ہوئی تھی اورحق وہ ہے جس پر اکثر لوگ اور بڑے بڑے فقہاء ، محدثین اور متکلمین ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جسمانی معراج ہوئی ہے اور احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں ۔ (شرح مسلم للنووی جلد 1 صفحہ 91 مطبوعہ کراچی )
مجمع الزوائدمیں ہے : عن ابن عباس انہ کان یقول ان محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رأی ربہ مرتین مرۃ ببصرہ ومرۃ بفؤادہ ۔
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا ۔ ایک مرتبہ سر کی آنکھ سے اور ایک مرتبہ دل کی آنکھ سے ۔ (مجمع الزوائد،باب منہ فی الاسراء جلد 1 صفحہ 79 مطبوعہ مکتبۃ القدسی،چشتی)
امام ابن عساکر نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ حضور سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ان اللہ اعطی موسی الکلام واعطانی الرؤیة لوجھہ وفضلنی بالمقام المحمود والحوض المورود ۔
ترجمہ : بیشک اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو ہم کلامی بخشی اور مجھے اپنا دیدار عطا فرمایا اور مجھ کو شفاعت کبریٰ و حوض کوثر سے فضیلت بخشی ۔ (کنزالعمال بحوالہ ابن عساکر عن جابر حدیث جد 14 صفحہ 447 مؤسسة الرسالة بیروت)
جامع ترمذی ومعجم طبرانی میں حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے : واللفظ للطبرانی عن ابن عباس قال نظر محمد الی ربہ قال عکرمة فقلت لابن عباس نظر محمد الی ربہ قال نعم جعل الکلام لموسیٰ والخلة لابرٰھیم والنظر لمحمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم زاد الترمذی وقد رأی محمد ربہ مرتین ۔
ترجمہ : طبرانی کے الفاظ ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ۔ حضرت عکرمہ نے کہا : میں نے ابن عباس سے عرض کی : کیا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ؟فرمایا : ہاں ، اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کےلیے کلام رکھا اور ابراہیم کےلیے دوستی اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے دیدار اور امام ترمذی نے یہ زیادہ کیا کہ بیشک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دوبار دیکھا ۔ (جامع الترمذی ابواب التفسیر سورة النجم جلد5 صفحہ 248 دار الغرب السلامی بیروت،چشتی)
امام شہاب الدین خفاجی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں : الاصح الراجح انہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رای ربہ بعین راسہ حین اسری بہ کما ذھب الیہ اکثر الصحابة ۔
ترجمہ : مذہب اصح وراجح یہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شبِ معراج اپنے رب کوجاگتی آنکھ سےدیکھا ،جیسا کہ جمہور صحابہ کرام کا یہی مذہب ہے۔(نسیم الریاض ،فصل واما رؤیة لربہ،ج2،ص303، مرکز اھلسنت برکات رضا، گجرات ھند )
دنیاکی زندگی میں جاگتی آنکھوں سے اللہ تعالی کا دیدار نا ممکن ہونے کے بارے میں فتاوی حدیثیہ میں ہے : والامام الربانی المترجم بشیخ الکل فی الکل ابو القاسم القشیری رحمہ اللہ تعالیٰ یجزم بانہ لا یجوز وقوعھا فی الدنیا لاحد غیر نبینا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ولا علی وجہ الکرامة ،وادعی ان الامة اجتمعت علی ذلک ۔
ترجمہ : اور امام ربانی جنہیں شیخ الکل فی الکل ابو القاسم قشیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کہا جاتا ہے ، نے اس بات پر جزم کیا کہ دنیا میں(جاگتے ہوئے) ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا کسی ایک کےلیے بھی اللہ تعالیٰ کے دیدار کا وقوع جائز نہیں ، نہ ہی کرامت کے طور پر اور انہوں نے اس بات پر امت کے اجماع کا دعویٰ کیا ۔ (فتاوی حدیثیہ مطلب فی رؤیة اللہ تعالی فی الدنیا صفحہ 200 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)
بیداری میں دیدارِ الہی کادعوی کرنے والے پر حکمِ کفر ہونے کے بارے میں المعتقد المنتقد میں ہے : کفروا مدعی الرویة کما أن القاری فی ذیل قول القاضی و کذالک من ادعی مجالسة اللہ تعالی والعروج الیہ ومکالمتہ “ قال : وکذامن ادعی رویتہ سبحانہ فی الدنیا بعینہ ۔
ترجمہ : اللہ تعالی کو دیکھنے کا دعوی کرنے والے شخص پر علماء نے کفر کا فتوی دیا ہے جیسا کہ ملا علی قاری نے قاضی عیاض کے اس قول (اسی طرح جواللہ تعالی کے ساتھ ہم نشینی اور عروج کر کے اس تک پہنچنے اور اس سے بات کرنے کامدعی ہو ، یہی حکم ِ کفر ہے ۔ کے تحت کہا ، اور یوں ہی حکمِ کفر ہے اس شخص پر بھی جو اللہ تعالی کو دنیا میں آنکھ سے دیکھنے کادعوی کرے ۔ (المعتقد المنتقد صفحہ 59 مطبوعہ برکاتی پبلیشرز)
حالتِ خواب میں اللہ تعالی کے دیدار کے جائز ہونے کے بارے میں المعتقد المنتقد میں ہے : أمارؤیاہ سبحانہ فی المنام .... جائزة عندالجمھور ، لأنھانوع مشاھدة بالقلب ، ولااستحالة فیہ و واقعة کما حکیت عن کثیر من السلف منھم أبوحنیفة وأحمدبن حنبل رضی اللہ تعالی عنہما ، و ذکرالقاضی الاجماع علی أن رؤیتہ تعالی مناماجائزة ۔
ترجمہ : جمہور علماء کے نزدیک اللہ سبحانہ کو خواب میں دیکھنا جائز ہے ، کیونکہ یہ دل سے حاصل ہونے والے مشاہدے کی ایک قسم ہے اور اس میں کوئی استحالہ نہیں اور خواب میں دیدار واقع بھی ہوا ہے ، جیسا کہ کثیر سلف سے حکایت کیا گیا ہے ، جن میں امام ابوحنیفہ اور امام احمدبن حنبل رضی اللہ عنہما ہیں اور امام قاضی نے اس بات پر اجماع ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالی کا دیدار خواب میں جائز ہے ۔ (المعتقد المنتقد صفحہ 68 مطبوعہ برکاتی پبلیشرز)
منح الروض الازھرمیں ہے : رؤیة اللہ سبحانہ وتعالی فی المنام ، فالأکثرون علی جوازھا .... فقد نقل أن الامام أباحنیفة قال : رأیت رب العزة فی المنام تسعاوتسعین مرة ، ثم رأہ مرة أخری تمام المائة ۔
ترجمہ : اللہ سبحانہ و تعالی کا دیدار خواب میں ممکن ہے ، اور اکثر علماء اس کے جواز پر ہیں ..... منقول ہے کہ امام ابوحنیفہ نے فرمایا : میں نے اللہ رب العزت کو خواب میں ننانوے مرتبہ دیکھا ہے ، پھرانہوں نے ایک مرتبہ اور دیکھا ، سو مکمل کرنے کےلیے ۔ (منح الروض الازھر صفحہ 124 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت،چشتی)
سفر معراج سے متعلق حضرت ملا جیون رحمة اللہ علیہ تفسیرات احمدیہ میں آیت معراج کے تحت فرماتے ہیں : و الأصح أنه کان فی اليقظة و کان بجسده مع روحه و عليه اهل السنة والجماعة فمن قال انه بالروح فقط او في النوم فقط فمبتدع ضال مضل فاسق۔
ترجمہ : صحیح ترین قول یہ ہی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو معراج شریف حالت بیداری میں جسم اطہر اور روح مبارک کے ساتھ ہوئی یہی اہل سنت و جماعت کا مذہب ہے لہٰذا جو شخص کہے کہ معراج صرف جسم کے ساتھ ہوئی یا نیند کی حالت میں ہوئی وہ بدعتی، گمراہ، گمراہ گر اور دائرہ اطاعت سے خارج ہے ۔ (تفسیرات احمدیہ صفحہ 330)
حضرت ملا جیون رحمة اللہ علیہ نے مزید لکھا ہے : و لذا قال اهل السنة باجمعهم ان المعراج الي المسجد الاقصي قطعي ثابت بالکتاب و الي سماء الدنيا ثابت بالخبر المشهور و الی مافوقه من السموات ثابت بالاحاد. فمنکر الاول کافر البتة و منکرالثاني مبتدع مضل ومنکرالثالث فاسق۔
ترجمہ : اسی لیے اہل سنت و جماعت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سفر معراج مسجد حرام سے مسجد اقصی تک قطعی طور پر قرآن کریم سے ثابت ہے اور آسمانی دنیا تک کا سفر حدیث مشہور سے ثابت ہے اور ساتوں آسمان سے آگے خبر واحد سے ثابت ہے۔ چنانچہ جو شخص مسجد اقصی تک معراج کا انکار کرے وہ بالیقین کافر ہے جو مسجد اقصی سے آسمانی دنیا تک سفر کا انکار کرے وہ بدعتی گمراہ گر ہے اور آسمانوں کے آگے سفر کا انکار کرنے والا فاسق و فاجر ہے ۔(تفسیرات احمدیہ صفحہ 328)
شب معراج اور دیدار حق تعالیٰ
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے عالم بالا کی سیر کرتے ہوئے قدرت کی نشانیوں کا مشاہدہ فرمایا اور اللہ تعالی کے دیدار پر انوار کی نعمت لازوال سے مشرف ہوئے۔ جس کا قرآن کریم و احادیث صحیحہ میں کہیں اشارۃً اور کہیں صراحۃً ذکر موجود ہے چنانچہ واقعہ معراج کے ضمن میں ارشاد خداوندی ہے : مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی ۔
ترجمہ : آپ نے جو مشاہدہ کیا دل نے اسے نہیں جھٹلایا ۔ (سورۃ النجم:11)
وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً أُخْرَي ۔
ترجمہ: اور یقیناً آپ نے اُسے دو مرتبہ دیکھا۔(سورۃ النجم: 13)
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَي ۔
ترجمہ : نہ نگاہ ادھر اُدھر متوجہ ہوئی اور نہ جلوۂ حق سے متجاوز ہوئی ۔ (سورۃ النجم: 17)
یعنی آپ کی نظر سوائے جمال محبوب کے کسی پرنہ پڑی ۔ لَقَدْ رَاٰي مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْکُبْرَي ۔
ترجمہ: بیشک آپ نے اپنے رب کی نشانیوں میں سب سے بڑی نشانی (جلوۂ حق) کا مشاہدہ کیا ۔ (سورۃ النجم۔ 18)
کتب صحاح و سنن میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت منقول ہے : وَدَنَا الْجَبَّارُ رَبُّ الْعِزَّةِ فَتَدَلَّي حَتّي کَانَ مِنْهُ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَي ۔
ترجمہ : اور اللہ رب العزت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرب عطا کیا ، مزید اور قرب عطا کیا یہاں تک کہ آپ اس سے دو کمانوں کے فاصلہ پر رہے بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب ہوئے ۔ (صحیح بخاری شریف کتاب التوحید باب قَوْلِہِ (وَکَلَّمَ اللَّہُ مُوسَی تَکْلِیمًا) ۔ حدیث نمبر 7517۔مستخرج أبی عوانۃ،کتاب الإیمان مبتدأ أبواب فی الرد علی الجہمیۃ وبیان أن الجنۃ مخلوقۃ ۔ حدیث نمبر 270 جامع الأصول من أحادیث الرسول کتاب النبوۃ أحکام تخص ذاتہ صلی اللہ علیہ وسلم، اسمہ ونسبہ، حدیث نمبر 8867،چشتی)
صحیح مسلم‘ صحیح ابن حبان ‘مسند ابو یعلی ‘جامع الاحادیث ‘الجامع الکبیر‘ مجمع الزوائد ‘ کنزل العمال‘ مستخرج ابو عوانہ، میں حدیث پاک ہے: عن عبدالله بن شقيق قال قلت لابي ذر لو رايت رسول الله صلي الله عليه وسلم لسالته فقال عن أي شيء کنت تساله قال کنت أسأله هل رايت ربك؟ قال ابو ذر قد سالت فقال "رايت نورا۔"
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا : اگر مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دیدار کی سعادت حاصل ہوتی تو ضرور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے دریافت کرتا، انہوں نے فرمایا تم کس چیز سے متعلق دریافت کرتے ؟ حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے یہ دریافت کرتا کہ کیا آپ نے اپنے رب کا دیدارکیا ہے ؟ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے اس سلسلہ میں دریافت کیا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : میں نے دیکھا، وہ نور ہی نور تھا ۔ (صحیح مسلم،کتاب الإیمان،باب فِی قَوْلِہِ عَلَیْہِ السَّلاَمُ نُورٌ أَنَّی أَرَاہ.وَفِی قَوْلِہِ رَأَیْتُ نُورًا.حدیث نمبر:462۔مستخرج أبی عوانۃ،کتاب الإیمان، حدیث نمبر:287۔صحیح ابن حبان،کتاب الإسراء ،ذکر الخبر الدال علی صحۃ ما ذکرناہ ،حدیث نمبر:58۔جامع الأحادیث،حرف الراء ،حدیث نمبر:12640۔جمع الجوامع أو الجامع الکبیر للسیوطی، حرف الراء ، حدیث نمبر:12788۔مجمع الزوائد،حدیث نمبر:13840،چشتی،مسند أبی یعلی، حدیث نمبر:7163۔کنز العمال،حرف الفاء ،الفصل الثانی فی المعراج، حدیث نمبر:31864)
صحیح مسلم‘ مسند احمد‘ صحیح ابن حبان ‘مسند ابویعلی ‘معجم اوسط طبرانی ‘جامع الاحادیث ‘الجامع الکبیر ‘کنزل العمال‘ مستخرج ابو عوانہ میں حدیث پاک ہے: عن ابي ذر سألت رسول الله صلي الله عليه وسلم هل رأيت ربك؟ قال نور إني أراه۔ ترجمہ: حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ‘میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: کیا آپ نے اپنے رب کا دیدار کیا؟ فرمایا: وہ نور ہے- بیشک میں اس کا جلوہ دیکھتا ہوں ۔ (صحیح مسلم ، کتاب الایمان ،باب نورانی اراہ ،حدیث نمبر:461،مسند احمد، مسند ابی بکر حدیث نمبر:21351 ! 21429،چشتی)
اس حدیث شریف میں بھی صراحت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حق تعالی کا دیدار کیا‘ صحابہ کرام نے عرض کیا: کیا آپ نے رب کا دیدار کیا؟ جواباً ارشاد فرمایا: "نور إني أراه" وہ نور ہے میں ہی تو اسکو دیکھتا ہوں۔ یہ حدیث شریف کتب احادیث میں مختلف الفاظ سے مذکور ہے (1) نور إني أراه ۔ (صحیح مسلم ،حدیث نمبر:461،مسند احمد ،حدیث نمبر:21351!21429)
(2) فقال نورا إني أراه۔ ترجمہ: میں نے جس شان سے دیکھا وہ نور ہی نور ہے ۔ (مسند احمد ،حدیث نمبر:21567) (3) فقال رايت نورا۔ ترجمہ: میں نے نور دیکھا۔ (صحیح مسلم ،حدیث نمبر: 462،مستخرج أبی عوانۃ،کتاب الإیمان،بیان نزول الرب تبارک وتعالی إلی السماء الدنیا ، حدیث نمبر:287۔صحیح ابن حبان،کتاب الإسراء ،ذکر الخبر الدال علی صحۃ ما ذکرناہ ،حدیث نمبر:58۔طبرانی معجم اوسط،حدیث نمبر:8300،مسند احمد ،حدیث نمبر:21537۔جامع الأحادیث، حرف الراء ،حدیث نمبر:12640۔جمع الجوامع أو الجامع الکبیر للسیوطی، حرف الراء ، حدیث نمبر:12788۔صحیح ابن حبان،کتاب الإسراء ، حدیث نمبر:255۔مجمع الزوائد،حدیث نمبر:13840۔مسند أبی یعلی، حدیث نمبر:7163۔کنز العمال،حرف الفاء ،الفصل الثانی فی المعراج، حدیث نمبر:31864،چشتی)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا مفہوم
صحیح بخاری شریف میں روایت ہے: عن مسروق عن عائشة رضي الله عنها قالت: من حدثك أن محمدا صلی الله عليه و سلم رأي ربه فقد کذب و هو يقول (لا تدرکه الأبصار)
ترجمہ : مسروق بیان کرتے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جو شخص تم کو یہ بتائے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب کو احاطہ کے ساتھ دیکھا ہے تو اس نے جھوٹ کہا- اللہ تعالی کا ارشاد ہے `لا تدرکه الابصار۔` آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں ۔ (سرہ انعام 103)۔(صحیح بخاری شریف کتاب التوحید باب قول اللہ تعالی عالم الغیب فلا یظہر علی غیبہ أحدا،حدیث نمبر:7380 )
اس حدیث پاک میں مطلق دیدار الہی کی نفی نہیں ہے بلکہ احاطہ کے ساتھ دیدار کرنے کی نفی ہے اللہ تعالی کا دیدار احاطہ کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ اللہ تعالی کی ذات اور اُس کی صفات لامحدود ہیں- ‘اس لیے احاطہ کے ساتھ دیدارِ خداوندی محال ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بغیر احاطہ کے اپنے رب کا دیدار کیا ہے ۔
جامع ترمذی‘مسند احمد‘ مستدرک علی الصحیحین‘ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری‘ ،تفسیر ابن کثیر ‘‘سبل الہدی والرشاد" میں حدیث پاک ہے : عن عکرمة عن ابن عباس قال راي محمد ربه قلت اليس الله يقول لا تدركه الأبصار و هو يدرك الأبصار؟ قال و يحك إذا تجلي بنوره الذي هو نوره و قد راٰي محمد ربه مرتين ۔
ترجمہ : حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے رب کا دیدار کیا ہے۔ میں نے عرض کیا: کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک واحاطہ کرتا ہے؟ تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: تم پر تعجب ہے! جب اللہ تعالیٰ اپنے اُس نور کے ساتھ تجلی فرمائے جو اُس کا غیر متناہی نور ہے اور بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے رب کا دو مرتبہ دیدار کیا ہے۔
(جامع ترمذی ،ابواب التفسیر ‘باب ومن سورۃ النجم ‘حدیث نمبر:3590۔ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، کتاب تفسیر القرآن، سورۃ والنجم،تفسیر ابن کثیر، سورۃ النجم5،ج7،ص442-سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، جماع أبواب معراجہ صلی اللہ علیہ وسلم،ج3،ص61-مستدرک علی الصحیحین ، کتاب التفسیر ، تفسیرسورۃ الانعام ، حدیث نمبر:3191۔مسند احمد،معجم کبیر،تفسیرابن ابی حاتم ، سورۃ الانعام ، قولہ لاتدرکہ الابصار حدیث نمبر:7767،چشتی)
قال ابن عباس قد راه النبي صلي الله عليه وسلم۔ ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمانے فرمایا : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے رب کا دیدار کیا ہے ۔ (جامع ترمذی شریف ، ج 2، ابواب التفسیر ص 164 ، حدیث نمبر:3202)۔
مسند امام احمد میں یہ الفاظ مذکور ہیں : عن عکرمة عن ابن عباس قال رسول الله صلي الله عليه وسلم رايت ربي تبارك و تعاليٰ ۔ ترجمہ: سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : میں نے اپنے رب تبارك و تعالیٰ کا دیدار کیا ۔ یہ حدیث پاک مسند امام احمد میں دو جگہ مذکور ہے ۔ (مسند امام احمد حدیث نمبر :2449-2502،چشتی)
وقال کعب ان الله قسم رؤيته و کلامه بين محمد و موسي فکلم موسی مرتين و راه محمد مرتين۔ ترجمہ: حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ تعالی نے رؤیت اور کلام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور حضرت موسی علیہ السلام کے درمیان تقسیم فرمایا دوبار حضرت موسی علیہ السلام سے کلام فرمایا اور دو مرتبہ حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رب کا دیدار کیا ۔ (جامع ترمذی ،حدیث نمبر:3678‘ ابواب تفسیر القرآن)
امام طبرانی کی معجم اوسط میں ہے: عن الشعبي أن عبد الله بن عباس کان يقول: إن محمدا صلي الله عليه وسلم رأي ربه مرتين۔ ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے رب کا دو مرتبہ دیدار کیا ۔ (معجم اوسط طبرانی ، باب المیم من اسمہ:محمد ، حدیث نمبر:5922)(مواہب اللدنیہ۔ج8۔صفحہ 248،چشتی)
لقي ابن عباس کعبا بعرفة فسأ له عن شئ فکبرحتي جاوبته الجبال فقال ابن عباس انا بنو هاشم نزعم او نقول أن محمدا قد رأي ربه مرتين ط- فقال کعب أن الله قسم رؤيته وکلامه بين موسي و محمد عليهما السلام فرأي محمد ربه مرتين وکلم موسي مرتين ۔
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت کعب سے مقام عرفہ میں ملاقات کی تو انہوں نے ایک چیز کے بارے میں سوال کیا تو حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے اتنا بلند نعرہ لگایا کہ پہاڑ گونجنے لگا اور فرمایا کہ "اللہ تعالی نے اپنی رؤیت اور کلام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور سیدنا موسی علیہ السلام کے درمیان رکھ دیا ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کا کلام سنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے رب کا دیدار کیا ۔ (تفسیر ابن کثیر‘ سورۃ النجم 5)
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا "میں نے اپنے رب کا دیدار کیا۔"
عن معاذ عن النبي صلي الله عليه وسلم قال "رأيت ربي۔"(کتاب الشفاء ،ج1،196/197)
حضرت امام عبدالرزاق رحمة اللہ علیہ جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے دادا استاذ ہیں، روایت فرماتے ہیں : کان الحسن يحلف بالله ثلاثة لقد رأي محمد ربه ۔ ترجمہ : حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ اس بات پر تین مرتبہ قسم کھاتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے رب کا دیدار کیا ۔ (تفسیر عبد الرزاق،حدیث نمبر:2940)(المواہب اللدنیہ۔ج8،ص،266)
الروض الانف میں ہے : عن ابن حنبل انه سئل هل راي محمد ربه ؟ فقال : راه راه راه حتي انقطع صوته ۔
ترجمہ : حضرت امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ سے روایت ہے کہ آپ سے سوال کیا گیا: کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اللہ تعالی کا دیدار کیا ؟ آپ نے فرمایا : دیدار کیا ، دیدار کیا ، دیدار کیا ، اتنی دیر تک فرمایا کہ سانس ٹوٹ گیا ۔ (الروض الانف‘ رؤیۃ النبی ربہ) ۔ (مزید حصّہ پنجم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment