Tuesday 7 February 2023

حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ حصّہ اوّل

0 comments

حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ حصّہ اوّل

محترم قارئینِ کرام ارشادباری تعالیٰ ہے : یٰٓاَیُّھَاالنَّبِیُّ قُلْ لِّمَنْ فِیْٓ اَیْدِیْکُمْ مِّنَ الْاَسْرٰٓی اِنْ یَّعْلَمِ اللّٰہُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ خَیْرًایُّؤْتِکُمْ خَیْرًامِّمَّآاُخِذَمِنْکُمْ وَ یَغْفِرْلَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌرَّحِیْمٌ ۔ (سورۃ الانفال آیت نمبر 70)

ترجمہ : اے غیب کی خبریں بتانے والے ! جو قیدی تمہارے ہاتھ میں ہیں ان سے فرماؤ ، اگر اللہ تمہارے دل میں بھلائی دیکھے گا تو جو مال تم سے لیا گیا اس سے بہتر تمہیں عطا فرمائے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔


یہ آیت کریمہ حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے سگے چچا ہیں ۔ یہ کفارِ قریش کے ان دس سرداروں میں سے تھے جنہوں نے جنگِ بدر میں لشکرِ کفار کے کھانے کی ذمہ داری لی تھی اور یہ اس خرچ کےلیے بیس اوقیہ سونا ساتھ لے کر چلے تھے لیکن ان کے ذمے جس دن کھلانا تجویز ہوا تھا خاص اسی روز جنگ کا واقعہ پیش آیا اور قتال میں کھانے کھلانے کی فرصت ومہلت نہ ملی تو یہ بیس اوقیہ سونا ان کے پاس بچ رہا ۔ جب وہ گرفتار ہوئے اور یہ سونا ان سے لے لیا گیا تو انہوں نے درخواست کی کہ یہ سونا ان کے فدیہ میں شمار کرلیا جائے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے انکار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جو چیز ہماری مخالفت میں صرف کرنے کے لئے لائے تھے وہ نہ چھوڑی جائے گی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ پر ان کے دونوں بھتیجوں عقیل بن ابی طالب اور نوفل بن حارث کے فدیے کا بار بھی ڈالا گیا تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ۔ یا محمد (صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم) تم مجھے اس حال میں چھوڑو گے کہ میں باقی عمر قریش سے مانگ مانگ کر بسر کیا کروں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا کہ پھر وہ سونا کہاں ہے جس کو تمہارے مکہ مکرمہ سے چلتے وقت تمہاری بیوی ام الفضل نے دفن کیا تھا اور تم ان سے کہہ کر آئے ہو کہ خبر نہیں ہے مجھے کیا حادثہ پیش آئے ۔ اگر میں جنگ میں قتل ہوجاؤں تو یہ تیرا ہے اور عبد اللہ اور عبید اللہ کا اور فضل اور قثم کا (سب ان کے بیٹے تھے) ہے حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا مجھے میرے رب عزوجل نے خبردار کیا ہے ۔ اس پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میں گواہی دیتا ہوں بے شک آپ سچے ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عزوجل کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک آپ اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ میرے اس راز پر اللہ عزوجل کے سوا کوئی مْطَّلع نہ تھا اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اپنے بھتیجوں عقیل و نوفل کو حکم دیا وہ بھی اسلام لائے ۔


ْ خَیْرًا یُّؤْتِکُمْ خَیْرًامِّمَّآاُخِذَ مِنْکُمْ جو ۔ (مال) تم سے لیا گیا اس سے بہتر تمہیں عطا فرمائے گا ۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے پاس بحرین کا مال آیا جس کی مقدار اسی ہزار تھی تو حضورِاقدس صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے نمازِ ظہر کےلیے وضو کیا اور نماز سے پہلے ہی کل مال تقسیم کردیا اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اس میں سے لے لو تو جتنا ان سے اٹھ سکا ، اتنا انہوں نے لے لیا ۔ وہ فرماتے تھے کہ یہ اس سے بہتر ہے کہ جو اللہ عزوجل نے مجھ سے لیا اور میں اس کی مغفرت کی امید رکھتا ہوں ۔ اپنے مال و دولت کا حال بیان کرتے ہوئے حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بیس اوقیہ سونے کے بدلے بیس غلام عطا کیے ، وہ سب کے سب تاجر تھے اور بہت سارا مال کما کر دیتے تھے ، ان میں سے جو غلام سب سے کم کما کر دیتا تھا اس کی مقدار بیس ہزار درہم تھی ۔ (تفسیر خازن سور ۃ الانفال۷۰، ۱۱۲/۲،چشتی)(تفسیر مدارک صفحہ ۴۲۱)(بغوی ، ۲۲۱/۲)


ایک مرتبہ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم میں بہت زیر بار ہوں ۔ غزوہ بدر کے بعد میں نے اپنا فدیہ بھی ادا کیا اور اپنے بھتیجوں عقیل بن ابوطالب بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ ، نوفل بن حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ اور ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ ، کا فدیہ بھی ادا کیا اس لیے مجھے کچھ عطا فر ماٸیے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے پاس سونے چاندی کا ایک ڈھیر لگا ہوا تھا ۔ حضرت عبا س بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے اپنی چادر بچھائی اور اس ڈھیر سے سونا چاندی اٹھا اٹھا کر اپنی چادر میں رکھنے لگے ۔ جب وہ اپنی دل کی حسرت پوری کر چکے تو گٹھڑی باندھی ۔جب اس کو اٹھا کر اپنے سر پہ رکھنے لگے تو وہ اتنی وزنی تھی کہ اسے اٹھا نہ سکے ۔ خدمت اقدس میں عرض کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم اس کے اٹھانے میں میری مدد فر مایئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے انکار کر دیا ۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کسی اور کو حکم دیں کہ وہ اٹھانے میں میری مدد کرے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے ایسا بھی کرنے سے انکار کر دیا ۔ آخر کار انہوں نے اس میں سے کچھ نکال کر وزن کم کیا اور باقی ماند ہ کو بڑی دقت سے کسی طرح سر پہ اٹھالیا اور گھر کی طرف روانہ ہو گئے ۔ جب تک حضرت عباس نظر آتے رہے حضور صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم ان کو دیکھتے رہے اور تعجب کرتے رہے ۔ (ضیاء النبی جلد ۵ صفحہ ۳۲۲،۳۲۱)


اس روایت کے بعدعلامہ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ طاقتور بلند قامت اور سلیم الفطرت آدمی تھے ۔ اس قوت و قامت کے باعث جوکچھ انہوں نے گٹھڑی میں اٹھایا وہ چالیس ہزارسے کم نہ تھا ۔(سبل الہدی جلد ۷ صفحہ ۸۶،ضیاء النبی)


حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا ’’ عباس مجھ سے ہیں اور میں عباس سے ہوں ۔ (ترمذی) یہ ٖغایت محبت کے الفاظ ہیں ۔ جس سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے محبت معلوم ہوتی ہے ۔ عباس مجھ سے ہیں " یعنی میرے خاص قرابتیوں میں سے ہیں یا یہ کہ میرے اہل بیت میں سے ہیں ۔ علماء لکھتے ہیں کہ فضل و شرف اور شرف اور نبوت کے اعتبار سے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی ذات گرامی اصل ہے جب کہ نسب اور چچا ہونے کے اعتبار سے حضرت عباس رضی اللہ عنہ اصل ہیں اور ظاہر یہ ہے کہ مذکورہ ارشاد گرامی دراصل کمال محبت و تعلق ، یک جہتی و یگانگت اور اخلاص و اختلاط سے کنایہ ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے حق میں بھی فرمایا تھا کہ (اے علی ) میں تم سے ہوں اور تم مجھ سے ہو ۔ آپ رضی اللہ عنہ بے انتہا سخی اور صلہ رحمی کرنیوالے تھے ۔


حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ امیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ اقدس میں جب کبھی قحط پڑتا تو نماز استسقاء کے بعدحضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے توسل (وسیلہ) سے دعاکرتے توہمیں سیرابی ملتی تھی۔الٰہی اب ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعاکرتے ہیں ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔اس دعا اور توسل کے سبب ہم سیراب ہوتے ۔ (بخاری شریف)


حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عام الرمادہ (یعنی قحط و ہلاکت کے سال) میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو وسیلہ بنایا اور اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعا کی ۔ پھر لوگوں سے خطاب فرمایا ۔ اے لوگو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو ویسا ہی سمجھتے تھے ۔ جیسے بیٹا باپ کو سمجھتا ہے ۔ (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کوبمنزلہ والد سمجھتے تھے) آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم ان کی تعظیم و توقیر کرتے اور ان کی قسموں کو پورا کرتے ۔ اے لوگو ! تم بھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی اقتداء کرو اور انہیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ بناؤ ۔ تاکہ وہ تم پربارش برسائے ۔ (المستدرک اللحاکم)


امام عسقلانی علیہ الرحمہ نے فتح الباری میں بیان کیاہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بارش کےلیے توسل کیا ۔ توحضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یہ دعاکی ’’اے اللہ ! بلائیں ہمارے گناہوں ہی کیوجہ سے نازل ہوتی ہیں ۔ اور توبہ سے ہی ٹلتی ہیں ۔ اس قوم نے تیرے نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے ساتھ میرے تعلق کا وسیلہ اختیار کیا ہے ۔ اور ہمارے ہاتھ اپنے گناہوں کی توبہ کےلیے تیری بارگاہ میں اُٹھے ہوئے ہیں ۔ اور ہماری پیشانیاں توبہ کےلیے (تیری بارگاہ میں) جھکی ہوئی ہیں ۔ پس تو ہمیں بارش عطا فرما ۔ ان کی یہ دعا ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ آسمان پر اس طرح بادل چھاگئے جیسے پہاڑہوں ۔


حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کا شمار جلیل القدر ، نامور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ہوتا ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے سگے چچا تھے ۔ آپ کاتعلق عرب کے معروف قبیلہ قریش سے تھا ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی ولادت واقعہ فیل سے تین سال قبل ہوئی ۔ (اسدالغابہ،جلد۳،۶۳،۶۰،چشتی)(سیراعلام النبلاء ۲،۷۸)


آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوالفضل رضی اللہ عنہ ہے کیونکہ ان کے سب سے بڑے فرزند کا نام ’’فضل‘‘ تھا انہی کی نسبت سے یہ کنیت ہے ۔ اور وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے جن کا نام ’’عبد اللہ‘‘ ہے بڑے تھے ۔ لیکن حضرت عبد اللہ ہی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مشہور ہوئے اور یہی ان کے نام پرغالب آگیا ۔ (مدارج النبوۃ،جلد۲،۵۶۸)


آپ رضی اللہ عنہ کے والد کا نام نامی عبدالمطلب جبکہ والدہ کانام نتیلہ بنت حباب بن کلب ہے جو قبیلہ نمر بن قاسط سے تعلق رکھتی تھیں اور وہ پہلی عرب خاتون ہیں جنہوں نے بیت الحرام پردیبا کا غلاف چڑھایا ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ پانچ سال کی عمر مبارک میں اتفاقیہ کہیں گم ہو گئے تھے ۔ تلاش کے باوجود نہ مل سکے ۔ توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ ماجدہ نے منت مانی کہ اگر میرا بیٹا مل جائے گا تو میں بیت الحرام پر ریشم کا غلاف چڑھاؤں گی ۔ چند دن بعد آپ رضی اللہ عنہ مل گئے تو آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ نے بڑے اہتمام کے ساتھ منت پوری کی ۔ اور کعبۃ اللہ پر انتہائی قیمتی غلاف چڑھایا۔یہ خانہ کعبہ شریف پرپہلاغلاف تھا۔آپ رضی اللہ عنہ نے بچپن ہی سے علم انساب ، علم ادیان اور علم تاریخ میں مہارت حاصل کی ۔ اپنے والدِ گرامی کی سرپرستی میں خانہ کعبہ کی خدمات میں ہمہ وقت مصروف عمل رہا کرتے تھے ۔ اور سولہ سال کی عمر میں خانہ کعبہ کی نئے سرے سے تعمیر فرمائی ۔ آپ رضی اللہ عنہ کانکاح ام المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کی بہن حضرت لبانۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے ہوا ۔ جو انتہائی معزز خاتون تھیں ۔ ابن سعد نے لکھا ہے کہ حضرت لبانۃ الکبری رضی اللہ عنہا جن کی کنیت ام الفضل ہے ۔ یہ وہ پہلی خاتون ہیں جوحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد مسلمان ہوئیں ۔


آپ رضی اللہ عنہ دراز قد اور خوبرو تھے ۔ بڑے حسین و جمیل و گیسو والے اور طویل القامت تھے ۔ منقول ہے کہ لوگوں کا قد حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے کندھوں تک پہنچتا تھا ۔ اورحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قد حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے کندھوں تک پہنچتا تھا ۔ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا قد حضرت عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے کندھوں تک بعض روایتوں میں وصف میں متعدل بھی لکھا ہوا ہے ۔ (مدارج النبوۃ جلد دوم صفحہ ۵۶۸،چشتی)


حضرت عباس رضی اللہ عنہ زمانہ جاہلیت میں بھی مکہ اور قریش میں زبردست اثر و رسوخ رکھتے تھے ۔ اور ایک بڑے سردار تسلیم کیے جاتے تھے ۔ "عمارہ " (خانہ کعبہ کی دیکھ بھال) اور سقایتہ‘‘ (حاجیوں کے خورد و نوش کا انتظام) کے اہم مناصب ان کے سپرد تھے ۔ جو آپ رضی اللہ عنہ کو وراثت میں ملے تھے ۔ جب مکہ فتح ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے یہ دونوں عہدے انہی کے پاس باقی رکھے ۔


حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم مجھے تو آپ کی نبوت کی نشانیوں نے آپ کے دین میں داخل ہونے کی دعوت دی تھی ۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلممیرے ایمان لانے کاایک سبب یہ بھی ہے کہ میں نے دیکھا آپ گہوارے (پنگھوڑے) میں چاند سے باتیں کرتے اور اپنی انگلی سے اس کی طرف اشارہ کرتے اور جس طرف اشارہ فرماتے چاند اسی طرف جھک جاتا نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا میں چاندسے باتیں کرتا تھا ۔اور چاند مجھ سے باتیں کرتا تھا اور وہ مجھے رونے سے بہلاتا تھا اور اس کے عرش الٰہی کے نیچے سجدہ کرتے وقت میں اس کی تسبیح کرنے کی آواز کو سنا کرتا تھا ۔ (الخصائص الکبریٰ جلد اوّل صفحہ۱۱۶،چشتی)(بیہقی،ابن عساکر،خطیب)


اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان رحمۃ اللہ علیہ کی روح تڑپی اور پکار اُٹھے : ⬇


چاندجھک جاتاجدھر انگلی اُٹھاتے مہد میں

کیا ہی چلتا تھا اشاروں پر کھلونا نور کا


حضرت عباس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم سے بہت محبت فرماتے تھے ۔ ہجرت مدینہ سے پہلے قیمتی مشوروں سے نوازتے محبت کایہ عالم تھا کہ چچا ہونے کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کا غیر معمولی ادب احترام کرتے تھے ۔ ایک دن کسی نے ان سے سوال کیا انت اکبر او النبی صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم (آپ بڑے ہیں یا نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم ؟ تو انہوں نے جواب دیا ہو اکبر و انا اسن (بڑے تو آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم ہی ہیں ہاں عمر میری زیادہ ہے ، بس میری پیدائش پہلے ہو گئی ہے) ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اسلام تو بہت پہلے قبول کر لیا تھا لیکن بعض مصالح کے تحت اپنے اسلام کا اظہار نہیں کرتے تھے چنانچہ جنگ بدر میں وہ بڑی کراہت کے ساتھ اور مجبوری کے تحت مشرکین مکہ کے ساتھ شریک تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین اسلام سے فرما دیا تھا کہ جس شخص کا سامنا عباس رضی اللہ عنہ سے ہو جائے وہ ان کو قتل نہ کرے کیونکہ وہ مجبوراً اس جنگ میں مشرکین مکہ کی طرف سے شریک ہیں جنگ کے خاتمہ پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ بھی قیدیوں میں شامل ہوئے اور ابوالیسیر بن کعب بن عمر نے ان کو قید کیا ۔ پھر انہوں نے فدیہ (مالی معاوضہ) ادا کر کے رہائی حاصل کی اور مکہ واپس آ گئے بعد میں وہاں سے باقاعدہ ہجرت کر کے مدینہ منورہ آ گئے ۔


حضرت عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم جب قریش کی جماعت سے ملتے اور وہ باہم گفتگو کر رہے ہوتے تو گفتگو روک دیتے ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی بارگاہ میں اس امر کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا ’’ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جب میرے اہلِ بیت سے کسی کو دیکھتے ہیں تو گفتگو روک دیتے ہیں ؟ اللہ رب العزت کی قسم کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہوگا ۔ جب تک ان سے اللہ تعالیٰ کےلیے اور میرے قرابت کی وجہ سے محبت نہ کرے ۔ (ابن ماجہ،والحاکم فی المستدرک)


حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم میں عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم ! قریش جب آپس میں ملتے ہیں توحسین مسکراتے چہروں سے ملتے ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو ایسے چہروں سے ملتے ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے (یعنی جذبات سے عاری چہروں کے ساتھ) حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم یہ سن کر شدید جلال میں آگئے اور فرمایا ۔ اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ۔ کسی بھی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہو سکتا ۔ جب تک اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم اور میری قرابت کی خاطر تم سے محبت نہ کرے ۔ ایک روایت میں ہے کہ فرمایا ’’ خدا کی قسم کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہ ہوگا ۔ جب تک وہ اللہ تعالیٰ اور میری قرابت کی وجہ سے تم سے محبت نہ کرے ۔ (مسنداحمدبن حنبل،چشتی)(سنن نسائی،بیہقی شعب الایمان،دیلمی مسندفردوس)


حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ ، سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی بارگاہ میں آئے اورکوئی بات جو انہوں نے لوگوں سے سنی تھی (وہ خود اس پر بڑے رنجیدہ تھے) اس بات کی خبر حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کو دی ۔ آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم اسی وقت منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا ’’ میں کون ہوں ؟ سب نے عرض کیا ۔ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا ۔ میں محمد بن عبد اللہ بن عبدالمطلب ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور اس مخلوق میں سے بہترین مخلوق کے اندر مجھے پیدا فرمایا اور پھر اس بہترین مخلوق کے دو حصے (عرب و عجم) کی اور ان دونوں میں سے بہترین حصہ (عرب) میں مجھے رکھا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس حصے کے قبائل بنائے ۔ اور ان میں سے بہترین قبیلہ (قریش) کے اندر مجھے رکھا ۔ اور پھر اس بہترین قبیلہ کے گھر بنائے تو مجھے بہترین گھر اور نسب (بنو ہاشم) میں رکھا ۔ (سنن ترمذی)


نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد خلفائے راشدین نے حضرت عباس رضی اللہ عنہم کا بڑا اکرام کیا ۔ اہم معاملات میں آپ سے مشورہ لیتے اور اس پرعمل کرتے ۔ امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اموال غنیمت بحساب درجات تقسیم کرنے کا ارادہ فرمایا اور اس کےلیے ایک رجسٹر تیار کیا  ۔ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے مشورہ دیا کہ اوّل اس میں ا پنا نامی گرامی لکھیں ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں کس طرح اوّل نام لکھوں کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ عمِ رسول صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم ہم میں موجود ہیں ۔ چنانچہ سب سے پہلے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی لکھا گیا ۔ اور سب سے بڑھ کر حصہ آپ رضی اللہ عنہ کےلیے مقرر کیا گیا ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کےلیے مسجدِ نبوی کے قبلہ کی جانب ایک قطعہ زمین نشان زد فرما دیا ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے مکان تعمیر کیا ۔ جب تعمیر سے فارغ ہوئے تو اشعار کہے ۔ ان کا اردو مفہوم یہ ہے ۔ یعنی میں نے اس مکان کو کچی اینٹوں ، پتھروں ، لکڑیوں سے بنایاہے ۔ اس کے اوپر پرندوں کے بیٹھنے اور اڑنے کی جگہ ہے ۔ اے ہمارے پروردگار ! اس گھر میں بسنے والوں کےلیے برکت نازل فرما ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے بھی دعافرمائی ۔ اے اللہ ! اس گھر میں برکت عطا فرما ۔ اس گھر کا پرنالہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے کندھے پر چڑھ کر باندھا تھا ۔(وفاالوفاء جلد ۲،۴۰ صفحہ ۲،چشتی)


حضرت عباس رضی اللہ عنہ کامکان منبر کی طرف سے پانچویں ستون اور باب السلام کی طرف سے دوسرے ستون کے درمیان واقع تھا ۔ اس مکان کے تین حصے ہوئے ۔ ایک حصہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی توسیع ، دوسرا حصہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی توسیع کے دوران مسجدِ نبوی میں شامل ہوا ۔ تیرہ ہاتھ لمبا ایک حصہ باقی رہ گیا تھا ۔ جس کے بارے میں روایتوں میں آتا ہے کہ اس حصے میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ اپنے مویشیوں کو باندھا کرتے تھے ۔ پہلے اس حصے کو مروان بن حکم نے اپنے مکان میں شامل کیا ۔ پھرجب حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے مسجد کی توسیع فرمائی تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ والے تیرہ ہاتھ لمبے حصے کو مروان کے مکان سے الگ کر کے مسجد میں داخل کر لیا ۔ (وفاء الوفاء،جلد۲،۵۱۸،اخبارمدینۃ الرسول)


امیرالمومنین سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جب مسجدِ نبوی کی توسیع کا ارادہ فرمایا تو آس پاس کے بعض مکانات خرید لیے ، جنوبی طرف حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا مکان مسجدِ نبوی سے متصل تھا ۔امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے عرض کیا ۔ اے ابو الفضل ! مسلمانوں کی مسجد تنگ ہو گئی ہے توسیع کےلیے میں نے آس پاس کے مکانات خرید لیے ہیں ، آپ بھی اپنا مکان فروخت کر دیں ، اور جتنا معاوضہ کہیں میں بیت المال سے ادا کروں گا ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا ’’میں یہ کام نہیں کرسکتا‘‘ ۔ دوبارہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا ’’ تین باتوں میں سے ایک بات مان لیں‘‘ یا تو اسے فروخت کر دیں اور معاوضہ جتنا چاہیں لے لیں ، یا مدینہ منورہ میں جہاں آپ کہیں وہاں آپ کےلیے مکان بنوا دوں ، یا پھر مسلمانوں کی نفع رسانی اور مسجد کی توسیع کےلیے وقف کر دیں ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا ۔ مجھے ان میں سے کوئی بات بھی منظور نہیں ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا مسئلہ حل ہونے والا نہیں ۔ تو آپ جسے چاہیں فیصل مقرر کر دیں ، وہ ہمارے اس معاملہ کا تصنیفہ کر دے ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا ۔ میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو فیصل بناتا ہوں ۔ دونوں اُٹھ کرحضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے مکان پر جا پہنچے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو ان کے اعزاز میں تکیہ وغیرہ لگوایا اور دونوں بزرگوں کو بٹھا لیا ۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے کہا ۔ ابو الفضل ! آپ اپنی بات کہیے ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا ’’ یہ زمین جس پر میرا مکان ہے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی عطا کردہ ہے ۔ یہ مکان میں نے بنایا اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم بنفسِ نفیس اس کی تعمیر میں شریک رہے ۔ بخدا ! یہ پرنالہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے ہاتھ مبارک کا لگایا ہوا ہے ۔ اس کے بعد امیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی بات کی ۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا ۔ آپ دونوں اجازت دیں تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ سناؤں ۔ دونوں بزرگوں نے عرض کیا بیشک ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کافرمانِ مبارک سنائیے ۔

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو حکم دیا کہ میرے لیے ایک گھر تعمیر کرو جس میں مجھے یاد کیا جائے ۔ اور میری عبادت کی جائے ۔ چنانچہ جہاں پر مسجد اقصیٰ واقع ہے وہاں من جانب اللہ زمین نشان زد کر دی گئی ۔ نشان مربع نہ تھا ایک گوشہ پر ایک اسرائیل کا مکان تھا حضرت داؤد علیہ السلام نے اس سے بات کی اور کہا اس مکان کو فروخت کردو تاکہ اللہ کا گھر بنایا جا سکے ۔ اس نے انکار کر دیا ۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے سوچا ۔ یہ گوشہ زبردستی لے لیا جائے اللہ تعالیٰ کا عتاب نازل ہوا ۔ اے داؤد ! میں نے آپ کو اپنی عبادت گاہ بنانے کےلیے کہا تھا اور آپ اس میں زور و زبردستی کو شامل کرنا چاہتے ہیں ، یہ میری شان کے خلاف ہے ۔ اب آپ میرا گھر بنانے کا ارادہ ترک کر دیں ۔

امیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے کہا ’’ میں جس ارادے سے آیا تھا آپ نے اس سے بھی سخت بات کہہ دی ‘‘امیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ ان کو مسجدِ نبوی شریف میں لے آئے ۔ وہاں کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حلقہ بنائے ہوئے بیٹھے تھے ۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں ۔ اگر کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم سے حضرت داؤد علیہ السلام کے بیت المقدس تعمیر کرنے والی حدیث کو سنا ہے تو اسے ضرور بیان کرے ۔ صحابی رسول حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے بھی سنا ہے ۔ اب حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ، امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا،اے عمر رضی اللہ عنہ آپ مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی حدیث کے بارے میں تہمت دیتے ہو ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بخدا ، اے ابو المنذر ! میں نے آپ پر کوئی تہمت نہیں لگائی ۔ میں چاہتا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی یہ حدیث بالکل واضح ہو جائے ۔ پھر امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہوئے اور کہا ۔ جایئے میں اب آپ سے آپ کے مکان کے بارے میں کچھ نہ کہوں گا ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہا’’ جب آپ نے ایسی بات کہہ دی تو اب میں اپنا مکان توسیع مسجد کےلیے بِلامعاوضہ پیش کرتا ہوں ۔ لیکن اگر آپ حکماً لینا چاہیں گے تو نہیں دوں گا ۔ اس کے بعد امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ میں دوسری جگہ پر بیت المال کے خرچ سے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کےلیے مکان بنوا دیا ۔ (طبقات ابن سعد حصہ سوم صفحہ 83،چشتی)


ایک روایت کے مطابق امیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے وہ پرنالہ اکھاڑنے کا حکم دیا تھا تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہا یہ پرنالہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا یہ بات سن کر امیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے کہا تو آپ میری پیٹھ پر سوار ہو کر یہ پرنالہ وہیں لگا دیجیے جہاں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے لگایا تھا ۔ عثمانیہ دور کے بعد بھی پرنالہ کی جگہ کو قائم رکھا گیا جس پر سورۃ البقرہ کی آیات کریمہ تحریر کی گئی ہیں ۔ جو اس واقعہ کی یاد دہانی بھی کرواتی ہے اور درس بھی دیتی ہے ۔ و مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍیَّعْلَمْہُ اللّٰہُ وَتَزَوَّدُوْافَاِنَّ خَیْرَالزَّادِالتَّقْوٰی وَاتَّقُوْنِ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ ۔ (سورۃ البقرہ۱۹۷) ’’اور تم جو نیکی کرتے ہو اللہ اس کو جانتا ہے ۔ اور زادِ راہ لے لیا کرو اور بہترین زادِ راہ پرہیزگاری ہے۔اور اے عقل مندوں مجھ سے ڈرو‘‘۔

(صحابہ رضوان اللہ اجمعین کے مکانات صفحہ 68،چشتی)(وفاء الوفاء با اخبار دارالمصطفیٰ صفحہ 462)


صلوٰ ۃ التسبیح : ان نوافل کی تعلیم نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو دی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے فرمایا ’’ اے عباس رضی اللہ عنہ ، اے میرے چچا ! کیا میں آپ کو عطا نہ کروں ؟ کیا میں آپ کو بھلائی نہ پہنچاؤں ؟ کیا میں آپ کونہ دوں ؟کیا میں آپ کو دس ایسی باتیں نہ بتاؤں جب آپ ان پرعمل کرنے لگیں تو اللہ تعالیٰ آپ کے اگلے ، پچھلے ، نئے ، پرانے ، جانے ، انجانے ، چھوٹے ، بڑے ، چھپے اور کھلے سارے گناہ معاف فرمادے گا ۔ اور یہ فرمایا کہ اس نماز کو پڑھنے والوں کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں آقا صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا اس کو روزانہ پڑھو ورنہ جمعہ کے دن پڑھو اگر یہ نہ ہو سکے تو مہینہ میں ایک بار پڑھو یہ بھی نہ ہو سکے تو سال میں ایک بار پڑھو اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو عمر میں ایک بار پڑھو ۔ وہ دس باتیں یہ ہیں ۔ صلوۃ التسبیح کی نماز یوں ادا کی جائے ۔ چارکعت نماز (نفل) کی نیت باندھیں اورثناء کے بعد پندرہ دفعہ یہ تسبیح (سبحان اللہ والحمد للّٰہ ولا الٰہ الااللّٰہ واللّٰہ اکبر) پڑھیں پھرسورۃ الفاتحہ (الحمدشریف) اور سورۃ پڑھ کر رکوع میں جانے سے پہلے ہاتھ باندھے دس دفعہ یہی تسبیح پڑھیں پھر رکوع میں جائیں اور سبحان ربی العظیم کہنے کے بعد دس بار یہی تسبیح پڑھیں پھر رکوع سے اٹھیں اور ربنالک الحمد کے بعد کھڑے کھڑے دس بار پھر سجدے میں جائیں اور سبحان ربی الاعلیٰ کے بعد دس بار یہی تسبیح پڑھیں پھر سجدے سے اٹھ کر بیٹھیں اور جلسہ میں اللہ اکبر کے بعد دس بار اس کے بعد دوسرا سجدہ کریں اور سبحان ربی الاعلیٰ کے بعد دس بار اب دوسری رکعت کےلیے کھڑے ہوں اور پندرہ بار یہی تسبیح پڑھ کر باقی سب کچھ پہلی رکعت کی طرح اس میں بھی پڑھیں اورجب دوسری رکعت میں دوسرے سجدے کے بعد التحیات کےلیے بیٹھیں تو تشھد اور درود شریف پڑھنے کے بعد تیسری رکعت کےلیے اٹھیں اور پہلی رکعت میں ثناء کے بعد پندرہ بار اسی طرح چاروں رکعتیں پوری کریں ، واضح رہے ہر رکعت میں 75 بار یہی تسبیح پڑھنی ہے اور چاروں رکعتوں میں 300 مرتبہ ہو گی ۔


حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی وفات حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں ان کی شہادت سے دوسال پہلے بارہ یا چودہ ماہِ رجب یا رمضان المبارک ۲۳ یا ۳۳ ہجری میں ہوئی ۔ اس وقت عمر مبارک اٹھاسی یا نواسی سال تھی ۔ بتیس سال زمانہ اسلام میں رہے ۔ اور جنت البقیع میں دفن کیے گئے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کے فرزند حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے قبرمیں اتارا ۔ (مدارج النبوۃ ،جلددوم۵۷۰)انتقال سے پہلے بینائی سے معذورہوگئے تھے ۔ (اسدالغابہ،سیراعلام النبلاء)


روایتوں میں آتا ہے کہ انہوں نے اپنی وفات کے وقت ستر غلام آزاد کیے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے تمام چچاؤں میں سب سے کم عمر تھے ۔ (مدارج النبوۃ) ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔