حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ حصّہ پنجم
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ پر جرح کی حقیقت غیر مقلدین کی جہالت کا جواب : امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے بعض سوانح نگاروں نے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی طرف عقائد و فروعات سے متعلق بعض ایسی باتیں نقل کی ہیں جن سے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ بالکل بری ہیں ، بہت سے منصف اہلِ قلم نے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے دفاع کیا ہے اور اس کے جوابات لکھے ہیں ، امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی طرف خلق قرآن ، قدر و ارجاء وغیرہ کے الزامات لگائے گئے ہیں ، شیخ طاہر پٹنی صاحب ”مجمع البحار“ اس کے متعلق فرماتے ہیں : امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی طرف ایسے اقوال منسوب کیے گئے ہیں جن سے ان کی شان بالاتر ہے ،وہ اقوال خلق قرآن ، قدر ، ارجا ، وغیرہ ہیں ، ہم کو ضرورت نہیں کہ ان اقوال کے منسوب کرنے والوں کا نام لیں ، یہ ظاہر ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا دامن ان سے پاک تھا ، الله تعالیٰ کا ان کو ایسی شریعت دینا جو سارے آفاق میں پھیل گئی اور جس نے روئے زمین کو ڈھک لیا اور ان کے مذہب وفقہ کو قبول عام دینا ان کی پاک دامنی کی دلیل ہے ، اگر اس میں الله تعالیٰ کا سر خفی نہ ہوتا نصف یا اس سے قریب اسلام ان کی تقلید کے جھنڈے کے نیچے نہ ہوتا ۔ (مجمع البحار)
امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ پر جس طرح کا بھی جرح کیا گیا ہے اس کی حقیقت معاصرانہ چپقلش ، غلط فہمی اور جہالت ، یا تعصب و حسد ہے ، ورنہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی زندگی ان الزامات سے آئینہ کی طرف صاف و شفاف ہے ۔
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں جن جن حضرات نے کلام کیا ہے یا تو وہ محض تعصب اور عناد وحسد کی پیداوار ہے ، جس کی ایک پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں ہے اور بعض حضرات نے اگرچہ دیانةً کلام کیا ہے ، مگر اس رائے کے قائم کرنے میں جس اجتہاد سے انہوں نے کام لیا ہے وہ سرسرا باطل ہے ، کیوں کہ تاریخ ان تمام غلط فہمیوں کو بیخ وبن سے اکھاڑ رہی ہے ، اس لیے ان حوالجات سے مغالطہ آفرینی میں مبتلا ہونا یا دوسروں کو دھوکہ دینا انصاف و دیانت کا جنازہ نکالنا اور محض تعصب اور حسد وغیبت جیسے گناہ میں آلودہ ہونا ہے ۔
خطیب بغدادی نے عبد بن داؤد کے حوالے سے نقل کیا ہے : ”الناس فی أبی حنیفة رجلان : جاھل بہ ، و حاسد لہ ۔ “امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں لوگوں کی دو قسمیں ہیں یا تو امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے فضل وکمال سے ناواقف ہیں یا ان سے حسد کرتے ہیں ۔ (تاریخ بغداد:13/346،چشتی)
خطیب بغدادی کی جرح کی حقیقت : امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ پر جن لوگوں نے جرح کی ہے اور امام صاحب رضی اللہ عنہ کی طرف مطاعن و معایب کو منسوب کیا ہے اس میں سرِ فہرست خطیب بغدادی ہیں ، بعد میں زیادہ تر حضرات نے خطیب کی عبارتوں سے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ، لیکن خطیب کے جرح کی حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے ، اس سلسلے میں بعض حضرات کی رائے تو یہ ہے کہ خطیب بغدادی نے مدح و ذم کی تمام روایات کو ذکر کر کے اپنے مؤرخانہ فریضہ کو انجام دیا ہے ، اس میں انہوں نے روایت کی صحت وغیرہ پر زور نہیں دیا ہے ، خود خطیب بغدادی ان کے قائل نہیں تھے اور نہ ہی یہ خطیب بغدادی کی اپنی رائے تھی ، بعض جرح کو نقل کر کے خطیب نے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا دفاع بھی کیا ہے ، مثلاً جنت و جہنم کے غیر موجود ہونے کی جرح نقل کرکے خطیب کہتے ہیں : قول بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ خودراوی ابو مطیع اس کا قائل تھا ، ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ نہ تھے ، جب کہ بہت سے حضرات کی رائے یہ ہے کہ اگرچہ یہ خطیب بغدادی کی اپنی رائے نہیں ، لیکن خطیب کو ان اقوال کے نقل کرنے سے احتراز کرنا چاہیے تھا ، انہو ں نے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے متعلق ان باتوں کو لکھ کر گویا اپنی کتاب کی استنادی حیثیت کو کم کر دیا ہے ۔
حافظ محمد بن یوسف الصالحی الشافعی ۔ (المتوفی942ھ) فرماتے ہیں : حافظ ابوبکر خطیب بغدادی نے امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو مخل تعظیم باتیں نقل کی ہیں ان سے دھوکہ نہ کھانا ، خطیب بغدادی نے اگرچہ پہلے مدح کرنے والوں کی باتیں نقل کی ہیں ، مگر اس کے بعد دوسرے لوگوں کی باتیں بھی نقل کی ہیں ، سو اس وجہ سے انہوں نے اپنی کتاب کو بڑا دغ دار کر دیا ہے او ر بڑوں اور چھوٹوں کےلیے ایسا کرنے سے وہ ہدف ملامت بن گئے ہیں اور انہوں نے ایسی گندگی اچھالی ہے ، جو سمندر سے بھی نہ دھل سکے ۔ (عقودالجمان)
قاضی القضاة شمس الدین ابن خلکان الشافعی (م861ھ) خطیب بغدادی کی اس غلط طرز گفتگو پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں: خطیب نے اپنی تاریخ میں امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں بہت سے مناقب ذکر کیے ، اس کے بعد کچھ ایسی ناگفتہ بہ باتیں بھی لکھی ہیں جن کا ذکر نہ کرنا اور ان سے اعراض کرنا بہت ہی مناسب تھا ؛ کیوں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ جیسی شخصیت کے متعلق نہ تو دیانت میں شبہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ورع وحفظ میں ، آپ پر کوئی نکتہ چینی بجز قلت عربیت کے اور نہیں کی گئی ہے ۔ (تاریخ ابن خلکان 2/165،چشتی)
خطیب بغدادی اور چند دیگر حضرات کے علاوہ زیادہ تر مصنفین اور مؤرخین ائمہ جرح و تعدیل اور ائمہ حدیث نے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے فضائل ومناقب کو انصاف کے ساتھ ذکر کیا ہے اور کسی قسم کی جرح کو ذکر نہیں کیا ، بلکہ صرف مناقب پر اکتفا کیا ہے ، نمونے کے طور پر چند اسماء الرجال کی کتابوں اور چند ائمہ حدیث کے اقوال کو یہاں مختصراً ذکر کیا جاتا ہے ، امام ذہبی نے تذکرہ الحفاظ میں ، حافظ ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب میں ، حافظ صفی الدین خزرجی نے خلاصة تذہیب تہذیب الکمال میں ، علامہ نووی نے تہذیب الاسماء واللغات میں ، امام یافعی علیہم الرحمہ نے مرآة الجنان میں امام صاحب رضی اللہ عنہ کے حالات اور مناقب کو ذکر کیا ہے ، لیکن کسی نے کوئی جرح نہیں کی ہے ، جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان ائمہ جرح و تعدیل کے نزدیک امام صاحب رضی اللہ عنہ پر جرح کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، اب چند معتمد ترین اور ائمہ علم و فضل علیہم الرحمہ کے اقوال یہاں ذکر کیے جاتے ہیں ، تاکہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی بے داغ اور تقویٰ و طہارت سے لبریز زندگی اور آپ کے فضل وکمال کی مختلف نوعیتیں ہمارے سامنے آسکیں ۔
(فضیل بن عیاض م187ھ) فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ مشہور صوفیاء میں ہیں ، ان کی زندگی زہد و تقویٰ اور عبادت و ریاضت سے عبارت تھی ، وہ فرماتے ہیں : امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ مرد فقیہ تھے ، فقہ میں معروف ، پارسائی میں مشہور ، بڑے دولت مند ، ہر صادر و وارد کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرنے والے ، شب وروز صبر کے ساتھ تعلیم میں مصروف ، رات اچھی گزارنے والے ، خاموشی پسند ، کم سخن تھے ، جب کوئی مسئلہ حلال و حرام کا پیش آتا تو کلام کرتے اور ہدایت کا حق ادا کر دیتے ، سلطانی مال سے بھاگنے والے تھے ۔ ( امام ابوحنیفہ او ران کے ناقدین صفحہ 44،چشتی)
سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ م161ھ ابوبکر بن عیاش کا قول ہے کہ سفیان کے بھائی عمرو بن سعید کا انتقال ہوا تو سفیان کے پاس ہم لوگ تعزیت کےلیے گئے مجلس لوگوں سے بھری ہوئی تھی ، عبدالله بن ادریس بھی وہاں تھے ، اسی عرصہ میں ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ اپنے رفقاء کے ساتھ وہاں پہنچے ، سفیان نے ان کو دیکھا تو اپنی جگہ خالی کر دی اور کھڑے ہو کر معانقہ کیا ، اپنی جگہ ان کو بٹھایا ، خود سامنے بیٹھے ، یہ دیکھ کہ مجھ کو بہت غصہ آیا ، میں نے سفیان سے کہا ابوعبد الله ! آج آپ نے ایسا کام کیا جو مجھ کو برا معلوم ہوا ، نیز ہمارے دوسرے ساتھیوں کو بھی ، انہوں نے پوچھا کیا بات ہے ؟ میں نے کہا آپ کے پاس ابوحنیفہ آئے ، آپ ان کےلیے کھڑے ہوئے ، اپنی جگہ بٹھایا ، ان کے ادب میں مبالغہ کیا ، یہ ہم لوگوں کو ناپسند ہوا ، سفیان ثوری نے کہا تم کو یہ کیوں ناپسند ہوا ؟ وہ علم میں ذی مرتبہ شخص ہیں ، اگر میں ان کے علم کےلیے نہ اٹھتا تو ان کے سن و سال کےلیے اٹھتا اور اگر ان کے سن و سال کےلیے نہ اٹھتا تو ان کی فقہ کے واسطہ اٹھتا اور اگر ان کے فقہ کےلیے نہ اٹھتا تو ان کے تقویٰ کے واسطے اٹھتا ۔ (اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ صفحہ 73)
علامہ محمد بن اثیر الشافعی متوفی 606ھ : علامہ محمد بن اثیر الشافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر الله تعالیٰ کا کوئی خاص لطف اور بھید اس میں مضمر نہ ہوتا تو امت محمدیہ کا تقریباً نصف حصہ کبھی امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی پیروی نہ کرتا اور اس جلیل القدر کے مسلک پر عامل ہو کر اور ان کی تقلید کرکے کبھی قربِ خدا وندوی حاصل کرنے پر آمادہ نہ ہوتا ۔ (حامل الاصول بحوالہ مقام ابی حنیفہ صفحہ 73،چشتی)
علامہ ابن ہارون متوفی 206ھ : علامہ بن ہارون رحمۃ اللہ علیہ کو شیخ الاسلام کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ، اپنے وقت کے عابد وزاہد حضرات میں شمار ہوتے تھے، علم حدیث میں بڑی شان کے مالک تھے ، ان سے پوچھا گیا آدمی فتوی دینے کا کب مجاز ہو سکتا ہے ؟ انہوں نے فرمایاجب ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے مثل اور ان کی طرح فقیہ ہو جائے ۔ ان سے سوال کیا گیا اے ابو خالد ! آپ ایسی بات کہتے ہیں ؟ فرمایا ہاں ! اس سے بھی زیادہ کہتا ہوں ، کیوں کہ میں نے ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ سے بڑا فقیہ اور متورع نہیں دیکھا ، میں نے ان کو دھوپ میں ایک شخص کے دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا تو میں نے سوال کیا آپ دیوار کے سائے میں کیوں نہیں چلے جاتے ؟ وہ کہنے لگے کہ مالک مکان پر میرا قرضہ ہے ، میں نہیں پسند کرتا کہ مدیون کے مکان اور دیوار کے سائے کے نیچے بیٹھ کر اس سے منتفع ہوں ، اس سے زیادہ تقویٰ اور ورع کیا ہو گا ؟ ۔ ( مناقب موفق1/141)
ان کا ہی بیان ہے میں نے ایک ہزار اساتذہ سے علم لکھا اور حاصل کیا ہے ، لیکن خدا کی قسم ! میں نے ان سب میں ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر صاحب ورع اور اپنی زبان کی حفاظت کرنے والا او رکوئی نہیں دیکھا ۔ (مناقب موفق1/195،چشتی)
وکیع بن جراح رحمۃ اللہ علیہ متوفی 198ھ : علم حدیث کے بڑے اماموں میں ان کا شمار ہوتا ہے، امام ابوحنیفہ کے شاگرد اور امام شافعی کے استاذ ہیں ، ان کی مجلس میں کسی نے امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی غلطی بیان کی ، اس پر وکیع نے کہا امام صاحب رضی اللہ عنہ کس طرح غلطی کر سکتے ہیں ؟ حالانکہ امام ابویوسف اور زفر جیسے صاحب قیاس اور یحییٰ بن ابی زائدہ اور حفص بن غیاث اور حبان و مندل جیسے حفاظ حدیث اور قاسم بن معن جیسا لغت و ادب کا جاننے والا اور داؤد طائی اور فضیل بن عیاض جیسا زاہد و پارسا ان کے ساتھ ہیں ، جن کے ایسے ہم نشین ہوں وہ غلطی نہیں کر سکتا ، اگر کبھی غلطی کر جائے تو اس کے جلیس ان کو رد کر دیں گے ۔ (امام ابوحنیفہ اور ان کے ناقدین صفحہ 48)
علامہ الخوارزمی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 665ھ پوری روایت بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں : پھر امام وکیع نے فرمایا جو شخص امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ کہتا ہے وہ تو جانوروں کی مانندیا اس سے بھی زیادہ گم کردہ راہ ہے ۔ (جامع المسانید 1/23) ۔ (مزید حصّہ ششم میں ان شاء اللہ) ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment