Thursday 9 February 2023

حضرت علی رضی اللہ کی تاریخِ ولادت و کعبہ میں پیدا ہونا ۔ حصّہ دوم

0 comments

حضرت علی رضی اللہ کی تاریخِ ولادت و کعبہ میں پیدا ہونا ۔ حصّہ دوم

الحَمْدُ ِلله اہلسنت و جماعت ازواجِ مطہرات ، صحابہ کرام ، اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم اور صالحین علیہم الرّحمہ کی ہر خوبی و شان کو دل و جان سے تسلیم کرتے ہیں پھر چاہے اس خوبی و شان کا تعلق فضائل سے ہو یا خصائص سے لیکن تسلیم کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کسی ہستی کے متعلق شہرت پا جانے والی غلط فہمی کو اس کی فضیلت یا خصوصیت مان لیا جائے اور اس کے انکار پر لعن طعن کیا جائے اللہ تعالیٰ ہمیں جہالت اور جہالت کی اندھی و متعصبانہ عقیدت پر مبنی پیروی سے بچاۓ آمین ۔

مولا علی رضی ﷲ عنہ کعبة اللہ میں پیدا ہوۓ امام حاکم نیشاپوری کا قول ہے : فقد تواتر الاخبار ان فاطمتہ بنت اسد ولدت امیر المؤمنین علی بن ابی طالب کرم اللہ وجھہہ فی جوف الکعبہ ۔ (المستدرک علی الصحیحین - الجزء الثالث کتاب معرفتہ الصحابہ - الرقم٦٠٤٤ صفحہ٥٥٠ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان)
ترجمہ : پس تحقیق اخبار متواترہ سے ثابت ہے کہ فاطمہ بنت اسد (رضیﷲعنہا) نے امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو کعبہ میں جنم دیا ۔

اس قول کو بطور دلیل پیش کرنا کم فہمی ہے کیونکہ امام حاکم یہاں تو تواتر کا دعویٰ کر رہے ہیں اور فضائل علی رضی اللہ عنہ کے باب میں ایک بھی صحیح بلکہ صحیح تو دور ایک ضعیف روایت بھی پیش کرنے کی جرأت نہ کرسکے جس میں حاکم کے دعوے کی دلیل ہو تو فقط حاکم کے کہنے پر متواتر کون مانے ؟ ۔ جب کہ حاکم کی تاریخ وفات 405 ھجری ہے اب ایک واقعہ جو کہ حاکم کی پیدائش سے بھی کئی سو سال پہلے کا ہے اس واقعہ کو حاکم کے کہنے پر تسلیم کرنا اور نہ صرف تسلیم بلکہ متواتر کہنا نا انصافی ہوگا ۔ دوسری بات یہ کہ اس کے تواتر کے دعوے میں حاکم منفرد ہیں ان کے سوا محدثین میں سے کسی نے اس واقعہ کے تواتر کا دعویٰ نہیں کیا  تیسری اور اہم بات یہ کہ اہل علم جانتے ہیں کہ امام حاکم کا جھکاٶ رافضیت کی طرف تھا اور ان کا تواتر کا دعویٰ اسی سلسلے کی ایک کڑی بھی ہوسکتا ہے ۔

حضرتِ حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہ کی خانۂ کعبہ میں ولادت تمام اہل سنت کے نزدیک متفق علیہ ہے ۔ امام مسلم رحمة اللہ علیہ (وفات 261ھ) نے صحیح مسلم شریف میں لکھا ہے : ولد حكيم بن حزام في جوف الكعبة وعاش مئة وعشرين سنة ۔ (صحیح مسلم، كتاب البيوع، باب الصدق في البيع،چشتی)

احوال قریش کے ماہر اور امام, مصعب بن عبد اللہ الزبیری (متوفی 236ھ) نے صاف کہا ہے کہ صرف حکیم بن حزام خانۂ کعبہ میں پیدا ہوئے ۔ نہ ان سے پہلے کوئی پیدا ہوا اور نہ بعد میں ۔ مصعب بن عبد اللہ الزبیری, یہ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی نسل سے ہیں ۔  انساب و احوالِ قریش کے امام ہیں. 236ھ میں وفات ہوئی ۔ ان کا ہی قول سند کے ساتھ امام حاکم نے نقل کیا ہے کہ "حضرت حکیم بن حزام خانۂ کعبہ میں پیدا ہوئے ۔ نہ ان سے پہلے کوئی پیدا ہوا نہ ان کے بعد" ۔ پھر اسی پر امام حاکم نے نقد کرتے ہوئے یہ بات کہی ہے کہ حضرتِ علی کرم اللہ تعالی وجہہ کی ولادت متواتر ہے ۔ مگر اصولی طور پر امام حاکم کا یہ نقد درست نہیں ۔ اگر امام حاکم کے کلام میں تواتر کو اصطلاحی معنوں پر محمول کیا جائے تو تواتر کےلیے ہر زمانے میں اتنے افراد کا بیان ضروری ہے جن کا جھوٹ پر متفق ہونا عادۃً محال ہو ۔

اگر مولاے کائنات رضی اللہ عنہ کی ولادت متواتر ہوتی تو دو چیزیں ضرور ہوتیں :

(1) مصعب زبیری کے زمانے میں بھی کعبے میں ولادت تواتراً منقول ہوئی ہوتی ۔ کیوں کہ ان کا زمانہ پہلے ہے ۔

(2) کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی حدیث کی کتاب میں یہ قول ضرور مذکور ہوتا ۔

مگر ایک طرف مصعب زبیری صاف نفی کر رہے ہیں کہ حکیم بن حزام کے سوا کسی کی ولادت خانۂ کعبہ میں نہیں ہوئی ۔ اور دوسری طرف حاکم کے زمانے (چوتھی صدی کے اختتام) سے پہلے کسی محدث کے یہاں یا کسی حدیث کی کتاب میں کہیں یہ قول نہیں ملتا ۔ نہ سند کے ساتھ اور نہ بلا سند ۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ کوئی تواتر نہیں تھا ۔ کیوں کہ متواتر کے انکار کی گنجائش ہی نہیں ہوتی ۔ اور متواتر چیز ایک جم غفیر کے ذریعے منقول و مروی بھی ہوتی ہے ۔ اسی لیے امامِ حاکم نے حضرتِ ام ہانی کے تذکرے میں جو یہ لکھ دیا تھا : قد تواترت الأخبار بأن اسمہا فاختۃ ۔ اس پر امام ذہبی نے سوال قائم کر دیا : قلت : وأین التواتر ؟ ، یعنی اگر یہ متواتر ہے تو وہ تواتر کہاں ہے ؟ کہیں تو اسے منقول ہونا چاہیے ؟

اسی طرح یہ سوال اِس دعواۓ تواتر پر بھی قائم ہوگا کہ اگر مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خانۂ کعبہ میں ولادت متواتر ہے , تو وہ تواتر کہاں ہے؟ کہیں کسی روایت میں کوئی نام و نشان تو ہونا چاہیے تھا ؟ (چشتی)

جو حضرات امام حاکم کے اس دعوے میں لفظ تواتر کو معروف اصطلاحی معنوں میں لیتے ہیں ان کے ذمہ لازم ہے کہ وہ اس دعوے کا ثبوت بھی فراہم فرمائیں , ورنہ دعوی بلا دلیل کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔

اور اگر امام حاکم کے اس لفظِ تواتر کو تواتر کے اصطلاحی اور معروف معنوں میں نہیں بلکہ صرف ،،ما اشتہر علی الألسنۃ،، یعنی ،،زبان زد،، کے معنے میں لیا جائے تو اس کا مطلب ہوگا کہ حضرتِ علی کرم اللہ وجہہ کی خانۂ کعبہ میں ولادت کی بات امام حاکم کے دور میں بس لوگوں کے درمیان مشہور ہو گئی تھی ۔ ظاہر ہے چار سو سال بعد بلا دلیل بلکہ خلافِ دلیل زبان زد ہوجانے والی چیز حجت نہیں بن سکتی ۔

دوسری اصولی بات یہ کہ امام حاکم نے (حکیم بن حزام کی ولادت کی نفی نہیں کی ہے , بلکہ ان کے ماسوا کی نفی کو وہم قرار دیتے ہوئے) مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں بھی دعوی کیا ہے ۔ مگر دلیل کچھ بھی نہیں دی ۔ اب یہاں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ امام حاکم انساب و احوالِ قریش کے فن میں مصعب زبیری کے ہم پلہ نہیں ہیں ۔ اور ان کا زمانہ بھی بعد کا ہے ۔ حاکم کی وفات 405ھ میں ہوئی ہے ۔ مصعب زبیری جو زمانے کے اعتبار سے متقدم اور اس میدان کے ماہر بلکہ امام ہیں اور امام حاکم پر فائق ہیں وہ صرف حکیم بن حزام کی ولادت مانتے ہیں ۔

اب اگر بالفرض دونوں کی بات بےدلیل مان لی جائے تو بھی مصعب کی بات دو وجہوں سے صحیح اور راجح قرار پائے گی ۔

پہلی یہ کہ دیگر اقوال و روایات سے ان کے قول کی تائید ہوتی ہے ۔ اور دوسری یہ کہ جس فن کا یہ مسئلہ ہے اس میں ان کا پایہ امام حاکم سے بہت بلند ہے , بلکہ وہ خود اتھارٹی ہیں ۔ اس لیے حاکم کا دعوی بلادلیل مصعب کے قول کی تردید و تغلیط نہیں کر سکتا ۔

واضح رہے کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی خانۂ کعبہ میں ولادت پر اہل سنت کے یہاں کوئی روایت نہیں ہے ۔ امام حاکم نے تواتر کا دعوی کر دیا ہے ۔ مگر کوئی دلیل نہیں دی ۔ اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے ان کی عبارت لفظ بلفظ نقل کر دی ہے ۔ خود تحقیق نہیں فرمائی ہے ۔ امام ذہبی علیہ الرحمہ نے خود کہیں یہ نہیں کہا کہ حضرتِ مولا علی رضی اللہ عنہ کی ولادت کعبے میں ہوئی ہے ۔ تلخیص المستدرک میں مستدرک کے اسی مقام پر موجود حدیث پر سکوت کو کچھ لوگ حافظ ذہبی کی طرف سے تائید مانتے ہیں , جب کہ سکوتِ محض کو حجت اور تائید مانا ہی نہیں جا سکتا جب تک کہ امام ذہبی خود اس کی صراحت نہ کر دیں ۔ امام ذہبی نے ایسی کوئی صراحت کہیں نہیں کی ہے کہ جہاں مَیں خاموش رہوں وہاں میری تائید اور حمایت سمجھی جائے ۔ سنن ابو داؤد میں جن حدیثوں پر امام ابوداؤد سکوت فرماتے ہیں ان حدیثوں کو امام ابوداؤد کے نزدیک صالح اور قوی مانا جاتا ہے , اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے "رسالۃ ابی داؤد الی أھل مکۃ" میں اس کی صراحت کر دی ہے کہ جس حدیث پر مَیں سکوت کروں وہ حدیث میری نظر میں صالح /قوی ہوتی ہے ۔ جبکہ امام ذہبی نے تلخیص المستدرک میں ایسی کوئی تصریح نہیں کی ہے تو تلخیص المستدرک میں ان کے سکوت کو تائید اور موافقت سمجھنا کیسے درست ہو سکتا ہے ؟ ۔ یہ ایک عام اصول ہے جو تلخیص المستدرک میں حافظ ذہبی کے سکوت کے بارے میں یاد رکھنے کے لائق ہے ۔ (چشتی)

یہاں ایک چیز یہ بھی قابلِ توجہ ہے کہ بعض علما کے نزدیک ان کے سکوت کو جو موافقت سمجھا جاتا ہے وہ فقط احادیث پر محدثانہ حکم اور ان کی اسنادی حیثیت کے بارے میں سمجھا جاتا ہے ۔ ان کے سکوت کو امام حاکم کے غیر متعلق دعؤوں یا ان کے ہر ہر لفظ کے بارے میں موافقت کوئی نہیں مانتا ۔ اور یہ مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت والی بات امام حاکم نیشاپوری کا صرف ایک دعوی ہے , اس پر کوئی حدیث انھوں نے مستدرک میں پیش نہیں کی ہے ۔ اس لیے یہاں سکوت کو موافقت ماننے کا کوئی جواز کسی کے نردیک نہیں ۔ لہٰذا امام ذہبی کا سکوت اس ولادت والے امام حاکم کے اپنے دعوے پر منطبق کرنا لاعلمی یا فریب کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ ہاں , اگر اس دعوے پر امام حاکم نے کوئی ایک حدیث بھی پیش فرمائی ہوتی اور امام ذہبی اُس حدیث پر سکوت فرماتے تو بعض اہل علم کی اس راے کے مطابق اسے موافقت پر محمول کیا جا سکتا تھا , لیکن یہاں ایسا کچھ نہیں ہے ۔ یہی امام ذہبی سیر أعلام النبلاء میں حضرت حکیم بن حزام کے تعارف میں لکھتے ہیں : قال ابن منده : ولد حكيم في جوف الكعبة ، وعاش مائة وعشرين سنة . مات سنة أربع وخمسين  ۔ روى الزبير ، عن مصعب بن عثمان قال : دخلت أم حكيم في نسوة الكعبة ، فضربها المخاض ، فأتيت بنطع حين أعجلتها الولادة، فولدت في الكعبة ۔ امام ابن مندہ نے کہا : حکیم بن حزام کعبے کے اندر پیدا ہوئے. 120 سال عمر ہوئی ۔ 54ھ میں وفات ہوئی ۔ (چشتی)

نہج البلاغہ کے شارح علامہ بن ابی الحدید اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی جائے پیدائش کے بارے میں اختلاف ہے ، تاہم محدثین کرام نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مولود کعبہ کو تسلیم نہیں کیا ہے اور اس روایت کو محض جھوٹ و اختراع قرار دیا ہے ، ان کا خیال ہے کہ کعبہ میں جن کی ولادت ہوئی وہ حکیم بن حزام بن خولد ہیں ۔ (شرح نہج البلاغہ لابن الحدید 14/1 لابی الحسن الندوی ص 49،چشتی)

نزہتہ المجالس کے مصنف امام عبد الرحمان بن عبدالسلام صفوری شافعی علیہ الرحمہ ہیں جو کہ اپنے وقت کے مشہور خطباء میں سے ہیں اور آپ کی تاریخ وفات 900 ھجری ہے آپ نے مولائے کائنات کے مولود کعبہ والا واقعہ "الفصول المہمہ" نامی کتاب سے بغیر سند کے نقل کیا لہٰذا امام صفوری کا اس واقعہ کو بغیر سند کے نقل کرنا دلیل نہیں بن سکتا ۔ دوسری بات یہ کہ اس بے سند واقعہ میں کعبہ میں پیدا ہونے کو مولا علی رضی اللہ عنہ کی خصوصیت بتایا جا رہا ہے اور صاف الفاظ ہیں کہ یہ فضیلت کسی اور کو نہیں ملی حالانکہ صحیح روایات سے ثابت ہے کہ صحابی حکیم بن حزام رضیﷲعنہ  کعبہ میں پیدا ہوئے ۔ تو صحیح روایات کی موجودگی میں ایسے بے سند واقعات سے کعبہ میں ولادت کو مولا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص کرنا ایسے ہی ہے جیسے دن کے وقت آنکھیں بند کرکے سورج کی نفی کرنا اور رات ہونے پر ضد کرنا ۔ (فافھم)

مولائے کائنات حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مولود کعبہ ثابت کرنے کیلئے شیعہ اور نیم شیعہ سنی ایک "الفصول المہمہ" نامی غیر معروف کتاب کا سہارا بھی لیتے ہیں باوجود اس کے کہ قائلین امام حاکم کے کہنے پر مولائے کائنات کی کعبہ میں ولادت کو اخبار متواترہ سے ثابت مانتے ہیں , مگر افسوس اس بات پر کہ جب دلائل کی باری آتی ہے تو "الفصول المہمہ" جیسی غیر معروف کتاب اٹھا کر سامنے کردی جاتی ہے ۔ اس کتاب کے مصنف "علی بن محمد بن احمد المالکی المکی" ہیں جو "ابن الصباغ" کے نام سے مشہور ہیں اور موصوف کی تاریخ وفات "855 ھ" ہے ۔

دعوٰی تواتر کا اور دلائل ؟ امام حاکم کا قول ، نزہتہ المجالس کا قصہ اور الفصول المہمہ جیسی کتاب جس کو اکثر و بیشتر علماء شاید جانتے ہی نہ ہوں بہر کیف ۔ الفصول المہمہ میں بھی نرا دعوٰی ہی دعوٰی ہے دلیل کا نام و نشان نہیں اور اگر کوئی روایت پیش کی گئی ہے تو اس کی سند مفقود ہے اور بغیر سند کے کوئی روایت حجت نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی قدر و اہمیت ہے , الفصول المہمہ کے مصنف 855 ھ میں فوت ہوئے جبکہ مولا علی رضی اللہ عنہ کی ولادت کا واقعہ ہجرت سے کئی برس پہلے کا ہے لہٰذا ایسا واقعہ جو صاحب فصول المہمہ کی پیدائش سے بھی کئی سو سال پہلے کا ہے  فقط ان کے کہنے پر کیسے مان لیا حائے ؟

مولائے کائنات حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مولود کعبہ ثابت کرنے کیلئے شیعہ اور نیم شیعہ سنی حضرات " ڈوبتے کو تنکے کا سہارا" پر عمل کرتے ہوئے "سبط ابن جوزی" کی کتاب "تذکرہ الخواص" پیش کرکے بگلیں بجاتے ہیں , حالانکہ یہاں بھی سند کے اعتبار سے وہی معاملہ ہے جو "المستدرک" "الفصول" اور "نزھتہ المجالس" میں رہا ہے کہ ایک تو دعویٰ بلا دلیل اور اگر کوئی روایت نقل کر ہی دی تو شاید اس کی سند شیعوں کے بارہویں امام غار وغیرہ میں چھپا کر بیٹھے ہیں , "تذکرہ الخواص" میں بھی فقط دعویٰ ہی دعویٰ ہے نہ کوئی دلیل اور نہ ہی کوئی سند ۔ تو بغیر سند کے کسی واقعہ کا اعتبار کیونکر کیا جا سکتا ہے ؟ ۔ اور واقعہ بھی ایسا جس سے مذہب شیعہ کو تقویت ملتی ہو (فافھم) دوسری اور اہم بات کہ سبط ابن جوزی اور "امام ابن جوزی" دو الگ شخصیات ہیں لہٰذا دھوکہ کھانے کی ضرورت نہیں اور یہ بھی واضح رہے کہ "سبط ابن جوزی" تقیہ باز رافضی تھا تقریباً 654 ھجری میں وفات پائی ۔ اب ایک واقعہ جو سبط ابن جوزی سے کئی سو سال پہلے کا ہے صرف اس کے بیان کرنے سے کیوں تسلیم کیا جائے ؟ اور بالخصوص اس وقت کہ جب سبط ابن جوزی کی اپنی پوزیشن یہ ہو کہ اس کے اپنے قلم سے رافضیت ٹپک رہی ہو تو اس وقت سبط ابن جوزی کی اطاعت میں مولائے کائنات حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مولود کعبہ ماننا نری حماقت نہیں تو کیا ہے ؟

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو مولود کعبہ ماننے والے شیعہ اور نیم شیعہ سنی اپنے اس مفروضہ کی گرتی ہوئی دیوار کو بچانے کی خاطر "نور الابصار" نامی کتاب کو دین و ایمان سمجھتے ہوئے پیش کرتے ہیں ! اور حسب معمول یہاں بھی نرا دعویٰ ہی دعویٰ ۔ لطیفہ یہ ہے کہ نور الابصار کے مصنف الشیخ شبلنجی حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی ولادت کعبہ میں لکھ کر حوالہ "ابن الصباغ" کا دیتے ہیں اور یہ ابن الصباغ وہی ہے جو "الفصول المھمہ" نامی غیر معروف کتاب کا مصنف ہے جس کا رد ہم اوپر پیش کر آئے ہیں ۔ اور ظاہری بات ہے جب اصل کا رد ہو گیا تو فرع خود بخود ختم یعنی جب ابن الصباغ کا رد ہو گیا تو اب جو کوئی بھی ابن الصباغ کا حوالہ دے گا اس کا رد خودبخود ہو جائے گا ۔ لہٰذا "نور الابصار" کا حوالہ پیش کرنا قائلین کو کسی طرح مفید نہیں کیونکہ یہاں بھی نہ تو کوئی دلیل ہے اور نہ ہی کوئی سند بلکہ جو واقعہ ولادت لکھا ہے وہ بھی ابن الصباغ کی الفصول سے لیا گیا ہے جب کہ الفصول میں بھی اس کی کوئی سند نہیں ۔ لہٰذا ایسی موضوع (من گھڑت) روایات سے مولائے کائنات حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مولود کعبہ ثابت کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوا سفید ہے کی رٹ لگائے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنا جس سے کچھ حاصل نہیں ۔ اور صاحب نور الابصار الشیخ الشبلنجی 13 تیرھویں صدی ہجری کے علماء میں سے ہیں اور ایسا واقعہ جو ان کی پیدائش سے سینکڑوں سال پہلے کا ہے اس کے بارے ان کی ذاتی رائے یا دعویٰ کچھ حیثیت نہیں رکھتا ۔

مولائے کائنات حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مولود کعبہ ماننے والے لوگ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرّحمہ کی مایۂ ناز تصنیف "ازالتہ الخفاء" کا حوالہ بھی پیش کرتے ہیں حالانکہ حاکم نیشاپوری کے رد کے بعد شاہ صاحب کا حوالہ پیش کرنا سراسر کج فہمی کی دلیل ہے کیونکہ شاہ صاحب علیہ الرّحمہ اپنی تحقیق کی بناء پر ایسا نہیں فرما رہے بلکہ حاکم ہی کے قول کو نقل کر رہے ہیں حالانکہ ہم پہلی دلیل کے رد میں یہ واضح کر آئے ہیں کہ حاکم کا قول دراصل حاکم کا وہم ہے یا پھر نیم شیعہ ہونے کی ایک کڑی ۔ (فافھم) ۔ اور ایسا دعویٰ جس کی دلیل ہے ہی نہیں اور دعویٰ بلا دلیل مردود ہوتا ہے لہٰذا ایسے مردود قول یا دعوے کو چاہے ایک ہزار بندہ نقل کرتا چلا آئے دلیل نہیں بن سکتا ۔ اسی لئے قائلین کو شاہ صاحب علیہ الرّحمہ کا حوالہ کچھ فائدہ نہیں دے گا کیونکہ شاہ صاحب علیہ الرّحمہ بھی حاکم ہی کا قول نقل کر رہے ہیں ۔

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی کعبہ میں ولادت کے سلسلے میں سب سے مشہور روایت جو نقل کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ : حلمیہ بنت ابی ذوہیب عبداللہ بن الحارث سعدیہ ایک مرتبہ حجاج بن یوسف کے دور خلافت میں ان سے ملنے کےلیے گئیں ـ حجاج نے کہا : اے حلمیہ ! اللہ تجھے میرے پاس لایا ، میں چاہتا ہوں کہ تجھے بلاؤں اور تم سے انتقام لوں ، حلمیہ نے کہا : اس سورش و غصہ کا کیا سبب ہے ؟ حجاج نے جواب دیا : میں نے سنا ہے کہ تم علی کو ابوبکر اور عمر رضی عنہم پر فضیلت دیتی ہو ، حلمیہ نے کہا : حجاج ! خدا کی قسم میں اپنے امام کو اکیلی حضرت عمر و ابوبکر پر فضلیت نہیں دیتی ہوں ، ابوبکر و عمر میں کیا لیاقت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہم سے ان کا موازنہ کیا جائے ، میں تو اپنے امام کو آدم ، نوح ، ابراہیم ، سلمیان ، موسی اور عیسی پر بھی فضیلت دیتی ہو ، حجاج نے برآشفتہ ہو کر کہا میں تجھ سے دل برداشتہ ہوں ، میرے بدن میں آگ لگ گئی ہے ، اگر تو نے اس دعوٰی کو ثابت کردیا تو ٹھیک ورنہ میں تجھے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا ، تاکہ تم دوسروں کے لئے عبرت حاصل کرنے کا ذریعہ بن جائے ، پھر حلمیہ نے ایک ایک کر کے دلائل کے ساتھ علی رضی اللہ عنہ کی برتری ثابت کردی ـ یہاں تک کہ جب حجاج نے کہا تو کس دلیل سے علیؓ کو عیسی علیہ السلام پر ترجیح دیتی ہے ؟ حلمیہ نے کہا : اے حجاج سنو ! جب مریم بن عمران بچہ جننے کے قریب ہوئی جب کہ وہ بیت المقدس میں ٹھہری تھی ، حکم الہی آیا کہ بیت المقدس سے باہر نکل جاؤ اور جنگل کی طرف رخ کرو تاکہ بت المقدس تیرے نفاس سے ناپاک نہ ہوجائے ، اور جب حضرت علی کی ماں فاطمہ بن اسد رضی اللہ عنہما وضع حمل کے قریب ہوئیں تو وحی آئی کہ کعبہ میں داخل ہو جاؤ اور میرے گھر کو اس مولود کی پیدائش سے مشرف کر، پھر حلمیہ کہنے لگی اے حجاج اب تم ہی انصاف کروکہ دونوں بچوں میں کون شریف ہو گا ؟ حجاج یہ سن کر راضی ہو گیا اور حلمیہ کا وظیفہ مقرر کر دیا ۔ (آئینہ مذاہب امامیہ ترجمہ اردو تحفہ اثنا عشریہ از شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ صفحہ 111-113)

اس روایت میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ سر تا پا جھوٹ و کذب او بہتان سے لبریز ہے ، اس میں بہت ساری باتیں جھوٹی اور من گھڑت ہیں ، جنکی تفصیل درج ذیل ہے ، کیونکہ : تراجم کی کتب میں کہیں یہ مذکور نہیں کہ حلمیہ بنت ابی ذویب السعدیہ حجاج بن یوسف کے عہد تک زندہ تھیں اور نہ ہی کہیں کسی نے اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے ـ (سیرت ابن ہشام 1/160)۔(اسد العابہ 76/8،چشتی)

آئینہ مذاہب امامیہ کے مصنف حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ : حلیمہ بن ابی ذویب مورخین کے اتفاق رائے سے حجاج بن یوسف کے زمانے تک زندہ نہیں رہی ـ (آئینہ مذاہب امامیہ ترجمہ اردو تحفہ اثنا عشریہ از شاہ عبدالعزیز صاحب محد دہلوی ص 111-113)

اس روایت کو صحیح ماننے سے اہل سنت و جماعت کے اصولوں کی مخالفت لازم آئے گی کیونکہ اس روایت میں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو عمرین یعنی ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پر فوقیت دینے کی کوشش کی گئی ، جبکہ اہل سنت و جماعت کا متفقہ فیصلہ ہے کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے زیادہ افضل ابوبکر پھر عمر پھر عثمان پھر علی اور ان کے بعد عشرہ مبشرہ رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں ۔

حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت سے متعلق جو بات اس روایت میں کہی گئی ہے وہ محض بکواس ہے اور تاریخ کے خلاف ہے کسی مؤرخ نے اس کا تذکرہ نہیں کیا ہے ، اس کے برخلاف نص قرآن اس بات پر واضح دلالت کرتی کہ حضرت مریم علیہا السلام درد زہ سے پریشان ہو کر اس بات پر آمادہ ہوئیں کہ وہ کسی چیز پر تکیہ کریں اور جب اس حالت میں جنگل میں جانا اور کسی کی مدد کے بغیر وضع حمل ہونا دشوار محسوس کیا تو انہوں نےاختیارِ موت کی خواہش کی، جس کی وضاحت قرآن میں اس طرح سے آئی ہے : فَاَجَآءَهَا الۡمَخَاضُ اِلٰى جِذۡعِ النَّخۡلَةِ‌ۚ قَالَتۡ يٰلَيۡتَنِىۡ مِتُّ قَبۡلَ هٰذَا وَكُنۡتُ نَسۡيًا مَّنۡسِيًّا ۔ (سورۃ نمبر 19 مريم_آیت نمبر 23)
ترجمہ : پھر درد زہ اسے کھجور کے تنے کی طرف لے آیا، کہنے لگی اے کاش ! میں اس سے پہلے مرجاتی اور بھولی بھلائی ہوتی ۔

جَاءَ یَجِيْءُ مَجِیْا “ کا معنی ہے آنا اور ” أَجَاءَ یُجِيُ “ (افعال) کا معنی ہے لانا ، مگر اس کے مفہوم میں مجبور کرکے لانا پایا جاتا ہے ۔ (تفسیر زمحشری) ” الْمَخَاضُ “ عورت کو بچے کی پیدائش کے وقت ہونے والا درد ، یعنی درد زِہ۔ ” مَخِضَتِ الْمَرْأَۃُ “ (ع) جب عورت کے ہاں پیدائش کا وقت قریب ہو ۔ یہ ” مَخْضٌ“ سے ماخوذ ہے ، جس کا معنی شدید حرکت ہے اور یہ نام رکھنے کی وجہ ولادت کے قریب ماں کے پیٹ میں بچے کا شدت سے حرکت کرنا ہے ۔ یعنی درد زِہ کی شدت سے مجبور ہو کر وہ کھجور کے ایک تنے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئیں اور آنے والے وقت کا تصور کر کے، جب ہر طرف سے برائی کی تہمت لگے گی ، طعنے ملیں گے ، گزشتہ زندگی کی ساری نیکی ، پاک بازی اور شرافت کا خاکہ اڑایا جائے گا ، کہنے لگیں کہ اے کاش ! میں اس سے پہلے مرگئی ہوتی اور کسی کو یاد ہی نہ ہوتا کہ کوئی مریم علیہا السلام بھی تھی ۔ اور یہ جو بیان کیا گیا ہے کہ حضرت فاطمہ بن اسد رضی اللہ عنہا کو بھی وحی ہوئی کہ خانہ کعبہ میں جاکر وضع حمل کرے ، یہ بلکل جھوٹ ہے ، کیونکہ اسلامی اور غیر اسلامی فرقوں میں سے کوئی بھی فاطمہ بن اسد کی نبوت کا قائل نہیں ہے ، جبکہ یہاں وحی جو لفظ ہے وہ انبیاٰء کےلیے خاص ہے ۔

ایک روایت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی طرف یوں منسوب کی جاتی ہے کہ انہوں نے فرمایا : ام عمارہ بن عباد الساعدیہ کی طرف سے زہد بنت عجلان الساعدیہ نے مجھے خبردی ، کہا کہ میں ایک دن عرب کی چند عورتوں میں بیٹھی ہوئی تھی کہ اچانک ابوطالب غمگین ہو کر آیا ، میں نے کہا : کیا حال ہے ؟ تو ابوطالب نے کہا : فاطمہ بنت اسد دردزہ میں مبتلا ہے اور وقت ہو جانے کے باوجود بچہ پیدا نہیں ہو رہا ، پھر ابوطالب اپنی بیوی فاطمہ کو خانہء کعبہ کے اندر لے آیاـ اور کہا کہ اللہ کے نام پر بیٹھ جاؤ ، بیٹھ گئی اور پھر دردزہ شروع ہو گیا ، اور ایک پاکیزہ بچہ پیدا ہوا جس کا نام ابوطالب نے علی رکھا ـ (آئینہ مذاہب امامیہ ترجمہ اردو تحفہ اثنا عشریہ از شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی صفحہ 111-113،چشتی)

حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب روایت پر جرح کرتے ہوئے حضرت شاہ عبد العزیز دہلوری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ صحیح اسلام تاریخ کے خلاف یہ محض بکواس ہے ۔ (آئینہ مذاہب امامیہ ترجمہ اردو تحفہ اثنا عشریہ از شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی صفحہ 111-113)

ایک روایت امِ عارہ بنت ِعبادہ سے منسوب ہے کہ : ایک دن میں عرب عورتوں کے پاس تھی کہ ابو طالب مغموم و پریشان تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا : ابوطالب! کیا ہوا ؟ وہ کہنے لگے : فاطمہ بنت ِاسد اس وقت سخت دردِ زِہ میں مبتلا ہیں ۔ یہ کہہ کر انہوں نے دونوں ہاتھ منہ پر رکھ لیے ۔ اسی اثنا میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : چچاجی کیامسئلہ ہے ؟ انہوں نے بتایا : فاطمہ بنت ِاسد دردِ زِہ سے دوچار ہیں ۔ ان کو کعبہ میں لا کر بٹھا دیا گیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ کا نام لے کر بیٹھ جائیے ۔ انہوں نے ایک خوش،صاف ستھرا اور حسین ترین بچہ جنم دیا ۔ ابو طالب نے اس کا نام علی رکھ دیا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس بچے کو اٹھا کر گھر لائے ۔ (مناقب عليّ بن أبي طالب لابن المغازلي، الرقم : 3)

امِ عارہ بنت ِعبادہ سے منسوب ہے کہ : ایک دن میں عرب عورتوں کے پاس تھی کہ ابو طالب مغموم و پریشان تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا : ابوطالب! کیا ہوا؟وہ کہنے لگے : فاطمہ بنت ِاسد اس وقت سخت ۔۔۔۔۔انتہی!

(مناقب عليّ بن أبي طالب لابن المغازلي، الرقم : 3)

یہ جھوٹی روایت ہے ، کیونکہ : اس کا راوی ابو طاہر یحییٰ بن حسن علوی کون ہے ، کوئی پتہ نہیں ۔ محمد بن سعید دارمی کی توثیق درکار ہے ۔ زیدہ بنت قریبہ کے حالاتِ زندگی نہیں مل سکے ۔  ان کی ماں ام العارہ بنت ِعبادہ کون ہے ، معلوم نہیں ۔ پے در پے ’’مجہول‘‘راویوں کی بیان کردہ روایت کا کیا اعتبار ہو سکتا ہے ؟

حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ : خانہ کعبہ میں سب سے پہلے سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے ۔ اور بنو ہاشم میں سب سے پہلے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے ۔ (أخبار مکّۃ للفاکھي : 198/3، الرقم : 2018،چشتی)

اس قول کی سند بھی ’’ضعیف‘‘ ہے ، کیونکہ امام فاکہی کے استاذ ابراہیم بن ابو یوسف کے حالاتِ زندگی نہیں مل سکے ۔ شریعت نے ہمیں ثقہ اور معتبر راویوں کی روایات کا مکلف ٹھہرایا ہے ، نہ کہ مجہول اور غیر معتبر راویوں کے بیان کردہ قصے کہانیوں کا ۔

فقیر کہتا ہے کہ رافضیت کے پیروکار جس قدر حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو مولود کعبہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے دلائل اتنے ہی بے وقعت اور کمزور ہیں اور سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کے لئے ایک اختراع ہیں ۔ کیونکہ خانہ کعبہ جیسے معزر گھر میں کسی کی بھی ولادت ہو وہ ایک عظیم شہرت کی بات ہے ، مؤرخین اس کا تذکرہ ہرگز ترک نہیں کر سکتے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ :

امام سیوطی علیہ الرّحمہ نے اپنی کتاب ” تاریخ الخلفاء ” میں تقریبا 22 صفحات پر حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے فضائل کو بیان کیا ہے اس میں مولود کعبہ ہونے کا ذکرنہیں ۔ (تاریخ الخلفاء للسیوطی 185/207،چشتی)

امام ذہبی علیہ الرّحمہ نے اپنی کتاب ” تاریخ اسلام و وفیات الاعلان ”میں تقریبا 32 صفحات پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولادت سے لیکر وفات تک زندگی کے مختلف گوشوں پر بحث کی ہے اور بے شمار خصوصیات کا ذکر کیا ہے لیکن اس میں مولود کعبہ ہونے کا ذکرنہیں ہے ـ (تاریخ الاسلام للذھبی : 641/ 652)

استعیاب ابن عبدالبر علیہ الرّحمہ نے 40 سے زائد صفحات پر خصائص علی رضی اللہ عنہ کا اور دیگر کامفصل تذکرہ کیا ہے ، لیکن مولود کعبہ ہونے کی بات نہیں لکھی ہے ـ (استعیاب 11٫4- 1089 /3)

ان کے علاوہ قابل ذکر و معتبر مؤرخین و محدثین علیہم الرّحمہ میں سے ابن الاثیر نے اپنی کتاب اسد الغابہ 134-100/4 ۔

ابونعیم اصفہانی نے معرفتہ الصحابہ 1970-1986

امام مزی نے تہذیب الکمال 472/20

امام مسلم نے ” باب ” من فضائل علی ابن ابی طالب ” میں ۔

امام المحدثین محمد بن عبداللہ بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ نے ” باب مناقب علی بن ابی طالب ”میں ۔ حضرت علی کے بے شمار فضائل ذکر کیا ہے ، لیکن کہیں بھی کسی نے مولود کعبہ ہونے کی بات نہیں لکھی ۔

اس کے برخلاف حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کے بارے میں جس نے بھی قلم اٹھایا تقریبا سبھی لوگوں نے ان کو مولود کعبہ کی بات کی ہے ۔

حكيم بن حزام ولد في جوف الكعبۃ، ولا يعرف ذلك لغيره. وأما ما روي أن عليا ولد فيها فضعيف عند العلماء ۔
ترجمہ : حکیم بن حزام کعبے کے اندر پیدا ہوئے اور یہ بات کسی دوسرے کے متعلق سننے میں نہیں آئی اور اس قول کے متعلق کہ حضرت علی کی ولادت کعبہ میں ہوئی علما کے نزدیک یہ قول ضعیف ہے ۔ (السيرة الحلبية۔إنسان العيون في سيرة الأمين المأمون، أبو الفرج، نور الدين ابن برهان الدين حلبی،چشتی)

وذكر أبو الفرج بن الجوزي في كتابہ «مثير العزم الساكن إلى أشرف الأماكن»: وقول من قال: إن علي بن أبي طالب ولد في جوف الكعبۃليس بصحيح، لم يولد فيها غير حكيم ۔
ترجمہ امام ابن جوزی نے اپنی کتاب مثیر العزم الساکن الی اشرف الاماکن میں اس قول کے بارے کہاکہ حضرت علی بن طالب رضی اللہ عنہ کی ولادت کعبے میں ہوئی یہ صحیح نہیں حکیم بن حزام کے علاوہ کوئی کعبہ میں پیدا نہیں ہوا ۔ (إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال، أبو عبد الله، علاء الدين)

ولد حكيم فى جوف الكعبۃ، ولا يُعرف أحد ولد فيها غيره ۔
ترجمہ : حکیم بن حزام کعبے کے اندر پیدا ہوئے اور یہ بات کسی دوسرے کے متعلق سننے میں نہیں آئی ۔ (تهذيب الأسماء واللغات: أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي)

أنہ ولد في جوف الكعبہ، قال العلماء : ولا يعرف أحد شاركہ في هذا ۔
ترجمہ : حکیم بن حزام کعبے کے اندر پیدا ہوئے اور یہ بات کسی دوسرے کے متعلق سننے میں نہیں آئی ۔ (فوائد مختارة من النووي جمع واختيار: سليمان بن محمد الحميد)

ولم يولد في جوف الكعبۃ سوى حكيم بن حزام ۔
ترجمہ : اور کوئی حکیم بن حزام کے علاوہ کعبے میں پیدا نہیں ہوا ۔ (شرح صحيح الإمام البخاري، شمس الدين محمد بن عمر بن أحمد السفيري الشافعي،چشتی)

أنہ ولد في جوف الكعبۃ، ولا يُعرف هذا لغيره وولد فِي جوف الكعبۃ، ولم يُسمع هَذَا لغيره ۔
ترجمہ : حکیم بن حزام کعبے کے اندر پیدا ہوئے اور یہ بات کسی دوسرے کے متعلق سننے میں نہیں آئی اور نہ کسی کی پہچان ہے ۔ (شرح سنن النسائي المسمى «ذخيرة العقبى في شرح المجتبى،محمد بن علي بن آدم بن موسى الإثيوبي الوَلَّوِي)

اور یہی بات ان محدثین و علماۓ کرام نے بھی لکھی ہے : ⬇

وولد حكيم في جوف الكعبة كما سلف، ولا نعرف من ولد بها غيره وأما ما روي أن علياً ولد في جوفها فلا يصح ۔ (الإعلام بفوائد عمدة الأحكام: ابن الملقن سراج الدين أبو حفص عمر بن علي بن أحمد الشافعي المصري)

بوَكَانَ وُلِدَ فِي جَوْفِ الْكَعْبَۃوَلَمْ يَصِحَّ أَنَّ غَيْرَهُ وُلِدَ فِي الْكَعْبَةِ ۔ (المجموع شرح المهذب : أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي)

حكيم بن حزام المولود في جوف الكعبۃ، ولا توجد هذه الخصيصۃ إلا لہ ۔ (شرح ألفيۃ العراقي : أبو الفضل زين الدين عبد الرحيم العراقي،چشتی)

ثُمَّ حَكِيمٌ مُفْرَدٌ بَأَنْ وُلِدْ … بِكَعْبَةٍ وَمَا لِغَيْرِهِ عُهِدْ ۔ (شرح أَلْفِيَّةِ السُّيوطي : الشيخ محمد ابن العلامۃ علي بن آدم ابن موسى الأثيوبي الولوي)

قال الزبير بن بكار كان مولد حكيم في جوف الكعبۃ۔ قال شيخ الإسلام ابن حجر: ولا يعرف ذلك لغيره ۔ (الوسيط في علوم ومصطلح الحديث: محمد بن محمد بن سويلم أبو شُهبة)

قَالَ الزُّبَيْرُ بْنُ بَكَّارٍ: كَانَ مَوْلِدُ حَكِيمٍ فِي جَوْفِ الْكَعْبَۃ۔ قَالَ شَيْخُ الْإِسْلَامِ: وَلَا يُعْرَفُ ذَلِكَ لِغَيْرِهِ، وَمَا وَقَعَ فِي مُسْتَدْرَكِ الْحَاكِمِ مِنْ أَنَّ عَلِيًا وُلِدَ فِيهَا ضَعِيفٌ ۔ (تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي: عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطی،چشتی)

بحَكِيم هَذَا ولد فِي جَوف الْكَعْبَۃ وَلَا يعرف أحد ولد فِيهَا غَيره ۔ (البدر المنير في تخريج الأحاديث والأثار الواقعۃ في الشرح الكبير: ابن الملقن سراج الدين أبو حفص عمر بن علي بن أحمد الشافعي المصري)

اور حقیقت بھی یہی ہے کہ صحیح سند سے مولود کعبہ ہونا صرف حضرت سیدنا حکیم بن حزام رضی للہ عنہ کے لئے ثابت ہے ، جو کہ ام المومنین حضرت سدتنا خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے تھے اور حالت کفر میں ہونے کے باوجود شعب بنی ہاشم میں محصوری کے دور میں مسلمانوں کو چوری چھپے غلہ وغیرہ پہنچایا کرتے تھے ۔ امام نووی نے شرح صحیح مسلم میں ان حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کی بابت تصریح کی ہے کہ ان کے مناقب میں سے ہے کہ وہ کعبہ میں متولد ہوئے اور بعض علماء کا ماننا ہے کہ ان کی اس فضیلت میں کوئی دوسرا صحابی ان کا شریک نہیں ہے ۔ ان کے حالات میں ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ انہوں نے طویل عمر پائی جس میں سے ساٹھ سال حالت کفر میں اور ساٹھ سال حالت اسلام میں بسر کئے اور مدینہ میں 53 ہجری میں وفات پائی۔ امام بخاری نے اپنی تاریخ میں ان کی وفات 60 ہجری کی بتائی ہے ۔ فتح مکہ کے موقع پر اسلام لائے لیکن کبھی مسلمانوں کے مخالف نہ آئے ۔ ابن حجر نے الاصابہ میں ان کے ترجمہ کے تحت لکھا ہے کہ یہ واقعہ فیل سے تیرہ سال قبل پیدا ہوئے اور واقعہ فیل کے وقت سمجھدار تھے ۔ ان کے والد حزام بن خویلد جو کہ سیدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا کے بھائی تھے حرب فجار میں مقتول ہوئے ۔ (اسد الغابہ 58/2) ۔ (تہذیب الکمال 173/7) ۔ (تاریخ اسلام 277/2) ۔ (الاصابہ (رقم : 1800،چشتی) ۔ (تہذیب التہذیب 447/2) ۔ (البدایہ واالنہایہ 68/8) ۔ (الاستعاب 362/1) ۔ (جمہرہ انساب العرب 121)

ان ⬆ تمام کتابوں کے مصنفین نے بھی حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کے بارے میں کعبة اللہ میں پیدا ہونے کی بات لکھی ہے ۔

الغرض صحیح تاریخی روایات سے صرف حضرت سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ جن کا کعبہ میں متولد ہونا ثابت ہے ۔ رہا حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کا مولود کعبہ ہونا تو اس کی تصریح کسی صحیح سند سے ثابت نہیں اور اہل تشیع کے ہاں بھی یہ بات بلا دلیل ہی رائج ہے ۔ یہ سب صرف رافضیت و تفضیلیت کی خامہ فرسائی ہے کہ ہر صحابی رضی اللہ عنہ کے خصائص چھین کر حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کو دے دیئے جائیں کہ جیسا کہ اسد اللہ جو کہ حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کا لقب بھی ہے جن کو جبرائیل علیہ السلام نے یہ لقب دیا تھا اور سیف اللہ جو کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا لقب بھی ہے ، آج کتنے ہی کم علم لوگ ان القابات کا مصداق صرف حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کو باور کرواتے ہیں ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ اسد اللہ ، ذوالقارِ الہٰی ، حیدرِ کرار اور دلیر ہیں ۔ ہمارے لیے صحیح روایات میں آنے والے حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کے خصائص و فضلیت ان کی منقبت کےلیے کافی ہونے چاہیئں کہ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ ہمارے سروں کے تاج ہیں اور ان کی محبت ہمارے ایمان کا جز ہے ۔

مذکورہ حقائق و دلاٸل اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو مولود کعبہ بتانا ایک اختراع باطل ہے جس کی کوٸی صحیح سند موجود نہیں ہے ـ اس کی کوئی حقیقت نہیں ، صحیح تاریخ جو ثابت ہے وہ یہی ہے کہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ ہی کعبہ میں پیدا ہوئے ۔

حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کی ولادت کہاں ہوئی ؟ کچھ تذکرہ ہم سابقہ مضامین میں کر آۓ ہیں ۔ اس میں سب سے زیادہ صحیح اور راجح قول یہی ہے کہ ان کی پیدائش نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی جائے پیدائش سے قریب ایک گھاٹی میں ہوئی جو کہ شعب علی رضی اللہ عنہ کے نام سے معروف ہے ۔ (الجماع اللطیف : 338 ، بحواله اخبار المکرم بآخبار المسجد الحرام : 194)

لہٰذا بے اصل روایتوں کو سہار بنا کر حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کو مولودِ کعبہ بتانے کی کوئی ضرورت نہیں ، اس سے حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کی ذاتِ اقدس میں کوئی کمی نہیں آتی بلکہ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کی ذات عبقری ہے ، اور بے شمار فضائل ، مناقب و کمالات کی مالک ہے اور جھوٹے واقعات و قصص سے بلکل بے نیاز ہے ۔ اللہ عزوجل ہمیں حق و سچ بیان کرنے توفیق عطا فرماۓ اور ہر قسم کے جھوٹ و فتنہ سے محفوظ فرماۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔