فضائل و مناقب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حصّہ سیزدہم
امیر معاویہ پرالزام امام حسن رضی اللہ عنہما کو زہر دے کر قتل کروایا کا جواب : بہت عرصہ پہلے ہم رافضیوں اور نیم رافضیوں کے اس بھونڈے اور من گھڑت اعتراض کا مدلّل جواب دے چکے ہیں اب دوبارہ ضرورت اس لیے پیش آئی کہ سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضی جو کہ بُغضِ معاویہ رضی اللہ عنہ میں مبتلا ہیں نے اس بات کو مختلف کمنٹس اور پوسٹوں کی صورت میں اچھالا اور سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی مگر یہ مبغضین بغض میں اتنا اندھے ہوگئے کہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ رضی اللہ عنہ پر بدکاری کا الزام لگا دیا کہ اس کے یزید سےناجائز تعلقات تھے استغفر اللہ ۔ ان بد بختوں کو اتتنا بھی حیاء نہ آئی کہ خانوادہ رسول علیہم السّلام کی بہو پر بیہودہ الزام لگا دیا اس سے ان بد بختوں کے اندر چھپی رافضیت و اسلام دشمنی واضح ہوتی ہے آیئے اس کے متعلق نئی ترتیب کے ساتھ مفصل و مسدلّل جواب پڑھتے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے بد بختوں کو ہدایت عطاء فرمائے آمین ۔
محترم قارئینِ کرام : یہ الزام انتہائی بے بنیاد اور لغو ہے ۔ حتٰی کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کو بھی معلوم نہ ہو سکا کہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو کس نے قتل کیا ہے ، تو کس طرح دوسروں کو معلوم ہو گیا کہ امام حسن رضی اللہ عنہ کو نعوذ باللہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے قتل کیا ہے ؟
قال بن سعد أخبرنا إسماعيل بن إبراهيم أخبرنا بن عون عن عمير بن إسحاق دخلت أنا وصاحب لي على الحسن بن علي فقال لقد لفظت طائفة من كبدي وإني قد سقيت السم مرارا فلم أسق مثل هذا فأتاه الحسين بن علي فسأله من سقاك فأبى أن يخبره رحمه الله تعالى ۔
ترجمہ : عمیر بن اسحق کہتے تھے کہ میں اور میرے ایک ساتھی حسن رضی اللہ عنہ کے پاس گئے انہوں نے کہا کہ میرے جگر کے کچھ ٹکڑے گرچکے ہیں اورمجھے کئی مرتبہ زہر پلایا گیا ؛ لیکن اس مرتبہ کہ ایسا قاتل کبھی نہ تھا اس کے بعد حسین رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور پوچھا کس نے پلایا، لیکن انہوں نے بتانے سے انکار کیا ۔ (الإصابة في تمييز الصحابة جلد ۲ صفحہ ۷۳،چشتی)
عمیر بن اسحاق کہتے ہیں : دخلت أنا ورجل علی الحسن بن علی نعودہ ، فجعل یقول لذلک الرجل: سلنی قبل أن لا تسألنی ، قال: ما أرید أن أسألک شیئا ، یعافیک اللّٰہ ، قال: فقام فدخل الکنیف ، ثمّ خرج إلینا ، ثمّ قال: ما خرجت إلیکم حتی لفظت طائفۃ من کبدی أقلبہا بہذا العود ، ولقد سقیت السمّ مرارا ، ما شیء أشدّ من ہذہ المرّۃ ، قال: فغدونا علیہ من الغد ، فإذا ہو فی السوق ، قـال : وجاء الحسین فجلس عند رأسہ ، فقال: یا أخی ، من صاحبک ؟ قال : ترید قتلہ ؟ قال: نعم ، قال: لئن کان الذی أظنّ ، للّٰہ أشدّ نقمۃ ، وإن کان بریئا فما أحبّ أن یقتل برئی ۔
ترجمہ : میں اور ایک آدمی سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما پرعیادت کے لیے داخل ہوئے ۔ آپ رضی اللہ عنہمااس آدمی سے کہنے لگے : مجھ سے سوال نہ کرسکنے سے پہلے سوال کرلیں ۔ اس آدمی نے عرض کیا : میں آپ سے کوئی سوال نہیں کرنا چاہتا۔ اللہ تعالیٰ آپ کوعافیت دے۔ آپ رضی اللہ عنہماکھڑے ہوئے اور بیت الخلاء گئے ۔ پھر نکل کر ہمارے پاس آئے ، پھر فرمایا : میں نے تمہارے پاس آنے سے پہلے اپنے جگر کا ایک ٹکڑا (پاخانے کے ذریعہ) پھینک دیا ہے ۔ میں اس کو اس لکڑی کے ساتھ الٹ پلٹ کر رہا تھا ۔ میں نے کئی بار زہر پیا ہے ، لیکن اس دفعہ سے سخت کبھی نہیں تھا ۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم ان کے پاس اگلے دن آئے تو آپ رضی اللہ عنہماحالتِ نزع میں تھے ۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے اور آپ کے سر مبارک کے پاس بیٹھ گئے اور کہا : اے بھائی ! آپ کو زہر دینے والا کون ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہمانے فرمایا : کیا آپ اسے قتل کرنا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا : جی ہاں ! فرمایا : اگر وہ شخص وہی ہے جو میں سمجھتا ہوں تو اللہ تعالیٰ انتقام لینے میں زیادہ سخت ہے ۔ اوراگر وہ بری ہے تو میں ایک بری آدمی کوقتل نہیں کرنا چاہتا ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ : ۱۵/۹۳،۹۴، کتاب المحتضرین لابن ابی الدنیا : ۱۳۲، المستدرک للحاکم : ۳/۱۷۶، الاستیعاب لابن عبد البر : ۳/۱۱۵، تاریخ ابن عساکر : ۱۳/۲۸۲، وسندہٗ حسنٌ،چشتی)
اسی طرح اہل تشیع کی مشہور کتاب بحار الانوار میں علامہ مجلسی نے مروج الذہب للمسعودی الشیعی سے مندرجہ زیل روایت نقل کی ہے : عن جعفر بن محمد، عن أبيه، عن جده علي بن الحسين عليهم السلام قال: دخل الحسين على عمي الحسن حدثان ما سقي السم فقام لحاجة الانسان ثم رجع فقال: سقيت السم عدة مرات، وما سقيت مثل هذه، لقد لفظت طائفة من كبدي ورأيتني أقلبه بعود في يدي، فقال له الحسين عليه السلام: يا أخي ومن سقاك؟ قال: وما تريد بذلك؟ فإن كان الذي أظنه فالله حسيبه، وإن كان غيره فما أحب أن يؤخذ بي برئ، فلم يلبث بعد ذلك إلا ثلاثا حتى توفي صلوات الله عليه ۔
ترجمہ : علی بن حسین بن علی بن ابی طالب (زین العابدین) رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ حسین میرے چچا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے پاس ان کے زہر پلانے کے وقت گئے تو حسن رضی اللہ عنہ قضائے حاجت کے لئے گئے وہاں سے لوٹ کر کہا کہ مجھے کئی مرتبہ زہر پلایا گیا ، لیکن اس مرتبہ کے ایسا کبھی نہ تھا اس میں میرے جگر کے ٹکڑے باہر آگئے تم مجھے دیکھتے کہ میں ان کو اپنے ہاتھ کی لکڑی سے الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا ، حسین رضی اللہ عنہ نے پوچھا بھائی صاحب کس نے پلایا ؟ حسن رضی اللہ عنہ نے کہا، اس سوال سے تمہارا کیا مقصد ہے ، اگر زہر دینے والا وہی شخص ہے جس کے متعلق میرا گمان ہے تو خدا اس کے لئے کافی ہے اور اگر دوسرا ہے تو میں یہ نہیں پسند کرتا کہ میری وجہ سے کوئی ناکردہ گناہ پکڑا جائے ، اس کے بعد حسن رضی اللہ عنہ زیادہ نہ ٹھہرے اور تین دن کے بعد انتقال کرگئے ۔ (بحار الأنوار - العلامة المجلسي - جلد ٤٤ - الصفحة ١٤٨،چشتی)
پس معلوم ہوا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر لگایا جانے والا یہ الزام کوئی بنیاد نہیں رکھتا ، یہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دشمنوں کا اپنا ایجادکردہ الزام ہے ۔
علامہ ابن خلدون رحمۃ اللہ علیہ اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں : وما ينقل من ان معاوية دس إليه السم مع زوجه جعدة بنت الاشعث فهو من أحاديث الشيعة وحاشا لمعاوية من ذلك ۔
ترجمہ : اوریہ روایت کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان (امام حسن رضی اللہ عنہ) کی بیوی سے مل کر زہر دلایا شیعوں کی بنائی ہوئی ہے حاشا معاویہ رضی اللہ عنہ کی ذات سے اس کاکوئی تعلق نہیں ۔ (ابن خلدون جلد ۲ صفحہ ١۸۷،چشتی)
علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : وأما قوله : إن معاوية سم الحسن ، فهذا مما ذكره بعض الناس ، ولم يثبت ذلك ببينة شرعية ، أو إقرار معتبر ، ولا نقل يجزم به ، وهذا مما لا يمكن العلم به ، فالقول به قول بلا علم ۔
ترجمہ : بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ حسن کو معاویہ رضی اللہ عنہ نے زہر دیا تھا کہ کسی شرعی دلیل اور معتبر اقرار سے ثابت نہیں ہے اورنہ کوئی قابلِ وثوق روایت سے اس کی شہادت ملتی ہے اور یہ واقعہ ان واقعوں میں ہے جس کی تہ تک نہیں پہنچا جا سکتا اس لیے اس کے متعلق کچھ کہنا بے علم کی بات کہنا ہے ۔ (منہاج السنہ ج ۴ ص ۴٦۹،چشتی)
علامہ حافظ ابن کثیر اس کے متعلق لکھتے ہیں : وعندي أن هذا ليس بصحيح ، وعدم صحته عن أبيه معاوية بطريق الأولى ۔
ترجمہ : میرے نزدیک تو یہ بات بھی صحیح نہیں کہ یزید نے سیدنا امام حسن کو زہر دے کر شہید کر دیا ہے ۔ اور اس کے والد ماجد سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ گمان کرنا بطریق اولٰی غلط ہے ۔ (البدایہ والنہایہ ج ۸ ص ۴۳)
امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تاریخ میں فرماتے ہیں : قلت : هذا شيء لا يصح فمن الذي اطلع عليه ۔ ترجمہ : میں کہتا ہوں کہ یہ بات صحیح نہیں ہے، اور اس پر کون مطلع ہو سکا ہے ۔ (تاریخ اسلام صفحہ ۴۰،چشتی)
حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی تایخ وصال میں مور خین کا اختلاف ہے،ایک قول یہ ہے کہ سن 49/ہجری میں آپ کا وصال ہوا ۔اور ایک قول یہ ہے کہ سن ۵۰/ہجری میں ہوا،اور سن ۵۱/ہجری کا بھی قول کیا گیا ہے۔لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔آپ کی وفات کاسبب یہ ہوا کہ دشمنوں کی سازش سے آپ کو زہر پلا دیا گیا ،جس کی وجہ سے آپ چالیس دن تک بیمار رہے پھر آپ کا وصال ہو گیا۔ جب بیماری زیادہ بڑھی تو آپ نے اپنے چھوٹے بھائی سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے فر مایا کہ:مجھے تین بار زہر دیا گیا لیکن اس بار سب سے زیادہ شدید زہر تھا جس سے میرا جگر کٹ رہا ہے ۔سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے پو چھا کہ آپ کو کس نے زہر دیا ہے؟تو آپ نے فر مایا:یہ سوال کیوں پوچھتے ہو؟کیا تم ان سے جنگ کروگے۔میں ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں ۔
کچھ لوگوں سے یہاں پر سخت غلطی واقع ہو ئی ،وہ کہتے ہیں کہ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی بیوی “جعدہ بنت الاشعث” کو دشمنوں نے بہلا پھسلا کر اپنی سازش کا حصہ بنا لیا اور وہ دشمنوں کے جھانسے میں آکر حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو دھوکے میں زہر پلادی۔یہ بات بالکل جھوٹ اور افترائے محض ہے۔کیو نکہ تمام مور خین نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ جب حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ سے زہر پلانے والے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے کسی کا نام نہ بتایا اور صرف اتنا کہا کہ : میں ان کا معاملہ اللہ پر چھوڑتا ہوں ۔ تو جب انہوں نےنام نہیں بتایا یہاں تک کہ کسی کے بارے میں اپنی شک کا اظہار بھی نہ فر مایا۔جس کی وجہ سے اس وقت کسی سے قصاص نہ لیا جا سکا تو پھر دوسروں کو کیسے اس کا علم ہوا ؟ اس لیے ایک ایسے مقدس امام جن سے اپنا رشتہ جوڑنے پر اس زمانے کی عورتیں ہر دکھ گوارا کرنے کو تیار رہتی تھی ،پھر جنہیں نوجوانا ن جنت کی سردار کی بیوی بننے کا شرف حاصل ہوا ۔ ان کے بارے میں ایسا خیال ر کھنا اپنی تباہی اور بر بادی کو دعوت دینا ہے۔اللہ تعالی ہم سب کو صراط مستقیم پر قائم رکھے اور اپنے ان نیک بندوں کے صدقے دارین کی سر خروئی نصیب فر مائے ۔
خلیفہ اعلیٰحضرت صدر الافاضل حضرت علامہ سیّد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ سوانح کربلا میں فرماتے ہیں : مؤرخین نے زہر خورانی کی نسبت جعدہ بنت اشعث ابن قیس کی طرف کی ہے اور اس کو حضرت امام کی زوجہ بتایا ہے اوریہ بھی کہا ہے کہ یہ زہر خورانی باغوائے یزید ہوئی ہے اور یزید نے اس سے نکاح کا وعدہ کیا تھا۔ اس طمع میں آکر اس نے حضرت امام کو زہردیا ۔ (تاریخ الخلفاء، باب الحسن بن علی بن ابی طالب،ص۱۵۲) لیکن اس روایت کی کوئی سندِ صحیح دستیاب نہیں ہوئی اور بغیر کسی سندِ صحیح کے کسی مسلمان پر قتل کا الزام اور ایسے عظیم الشان قتل کا الزام کس طرح جائز ہوسکتا ہے ۔
قطع نظر اس بات کے کہ روایت کےلیے کوئی سند نہیں ہے اور مؤرخین نے بغیر کسی معتبرذریعہ یا معتمدحوالہ کے لکھ دیاہے ۔ یہ خبر واقعات کے لحاظ سے بھی ناقابل اطمینان معلوم ہوتی ہے ۔ واقعات کی تحقیق خود واقعات کے زمانہ میں جیسی ہوسکتی ہے مشکل ہے کہ بعد کو ویسی تحقیق ہو خاص کر جب کہ واقعہ اتنا اہم ہو مگر حیرت ہے کہ اَہل بیتِ اَطہار کے اس امامِ جلیل کا قتل اس قاتل کی خبر غیر کو تو کیا ہوتی خود حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پتہ نہیں ہے یہی تاریخیں بتاتی ہیں کہ وہ اپنے برادر ِمعظم سے زہردہندہ کا نام دریافت فرماتے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زہر دینے والے کا علم نہ تھا ۔ اب رہی یہ بات کہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی کانام لیتے ۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا تو اب حضرت جعدہ رضی اللہ عنہا کو قاتل ہونے کیلئے معین کرنے والا کون ہے ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یا امامین کے صاحبزادوں رضی اللہ عنہم میں سے کسی صاحب کو اپنی آخر حیات تک جعدہ کی زہر خورانی کاکوئی ثبوت نہ پہنچانہ ان میں سے کسی نے اس پر شرعی مواخذہ کیا ۔ ایک اور پہلو اس واقعہ کاخاص طور پر قابل لحاظ ہے وہ یہ کہ حضرت امام رضی اللہ عنہ کی بیوی کو غیر کے ساتھ سازباز کرنے کی شنیع تہمت کے ساتھ متہم کیا جاتا ہے یہ ایک بدترین تبرا ہے ۔ عجب نہیں کہ اس حکایت کی بنیاد خارجیوں کی افترات ہوں جب کہ صحیح اور معتبر ذرائع سے یہ معلوم ہے کہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کثیر التزوج تھے اور آپ نے سو (۱۰۰) کے قریب نکاح کیے اور طلاقیں دیں ۔ اکثر ایک دو شب ہی کے بعد طلاق دے دیتے تھے اور حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم بار بار اعلان فرماتے تھے کہ امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عادت ہے ، یہ طلاق دے دیا کرتے ہیں ، کوئی اپنی لڑکی ان کے ساتھ نہ بیاہے ۔ مگر مسلمان بیبیاں اور ان کے والدین یہ تمنا کرتے تھے کہ کنیز ہونے کا شرف حاصل ہوجائے اسی کا اثر تھا کہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن عورتوں کو طلاق دیدیتے تھے ۔ وہ اپنی باقی زندگی حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبت میں شیدایانہ گزار دیتی تھیں اور ان کی حیات کا لمحہ لمحہ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یاد اور محبت میں گزرتا تھا ۔ (تاریخ الخلفاء، باب الحسن بن علی بن ابی طالب صفحہ ۱۵۱) ۔ ایسی حالت میں یہ بات بہت بعید ہے کہ امام کی بیوی حضرت امام رضی اللہ عنہ کے فیض صحبت کی قدر نہ کرے اور یزید پلید کی طرف ایک طمعِ فاسد سے امامِ جلیل رضی اللہ عنہ کے قتل جیسے سخت جرم کا ارتکاب کرے ۔ (مزید حصّہ چہاردم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment