فضائل و مناقب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حصّہ نہم
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے تعلق سے رافضیوں اور تفضیلی رافضیوں نے پوسٹ بنائی کہ معاذ اللہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنا دشمن کہتے تھے جبکہ انہیں رافضیوں شیعوں اور تفضیلی رافضیوں کا معروف مجتہد و معتبر عالم عبد اللہ بن جعفر الحمیری اپنی معتبر کتاب قرب الاسناد میں بسندِ صحیح روایت کرتا ہے : عن جعفر عن أبيه أن عليا ( عليه السلام ) كان يقول لاهل حربه : إنا لم نقاتلهم على التكفير لهم ولم نقاتلهم على التكفير لنا ولكنا رأينا أنا على حق ورأوا أنهم على حق ۔
ترجمہ : امام جعفر اپنے والد امام باقر سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے مدِمقابل (معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے لشکر) کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ ہم انہیں کافر قرار دے کر جنگ نہیں لڑ رہے اور نہ ہی اس لئے لڑ رہے ہیں کہ وہ ہمیں کافر قرار دیتے ہیں بلکہ ہمارے خیال کے مطابق ہم حق پر ہیں اور اُن کے خیال کے مطابق وہ حق پر ہیں ۔ (قرب الاسناد، باب، احادیث متفرقه، صفحہ نمبر 93 رقم 313 مطبوعہ مؤسسة آلِ بیت احیاء التراث بیروت)
جعفر ، عن أبيه عليه السلام : أن عليا عليه السلام لم يكن ينسب أحدا من أهل حربه إلي الشرك ولا إلي النفاق، ولكنّه كان يقول : هم إخواننا بغوا علينا ۔
ترجمہ : امام جعفر صادق اپنے والد امام باقر سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے مدمقابل (معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں) میں سے کسی کو مشرک یا منافق کی نسبت یاد نہیں کرتے تھے لیکن یوں کہتے تھے وہ ہمارے بھائی تھے ان سے زیادتی ہو گئی ۔ (قرب الاسناد باب احادیث متفرقه صفحہ نمبر 94 رقم 318 مطبوعہ مؤسسة آلِ بیت احیاء التراث بیروت)
خیال رہے کہ اس حدیث کی سند میں حضرت امام جعفر صادق ، حضرت امام باقر اور حضرت مولا علی رضی اللہ عنھم اجمعین ہیں ۔ جن کو شیعہ آئمہ معصومین کہتے ہیں اور شیعہ کا عقیدہ ہے کہ امامِ معصوم ، رسول الله کے برابر ہوتا ہے
چنانچہ شیعہ محدث ابو جعفر محمد بن یعقوب بن اسحاق الکلینی لکھتا ہے : الآئمة بمنزلة رسول الله ۔ امام رسول اللہ کے برابر ہوتا ہے ۔ (الاصول من الکافي، جلد2، کتاب الحجة، صفحہ270 ، مطبوعہ دار الکتب الاسلامیہ، مرتضٰی آخوندی، بازار سلطانی تہران،چشتی)
شیعہ عالم یعقوب الکلینی آئمہ کے بارے مزید لکھتا ہے کہ ابو جعفر علیہ السلام کہتے ہیں : نحن لسان الله و نحن وجه الله و نحن عین الله فی خلقه ۔
ترجمہ : ہم (آئمہ معصوم) الله کی مخلوق میں ، الله کی زبان ، الله کا چہرہ اور الله کی آنکھ ہیں ۔ (الاصول من الکافي، جلد2، کتاب التوحید، صفحہ145، مطبوعہ دار الکتب الاسلامیہ، مرتضٰی آخوندی، بازار سلطانی تہران)
شیعہ مذھب کا خاتم المحدثین ملّا باقر مجلسی لکھتا ہے کہ : پس خدا رسول اور اسکے بعد اھلبیت ہی جملہ ماسویٰ الله پر متصرف و غالب حاکم و بادشاہ اور ھادی و حافظ ہیں اور وہ اس لیے کہ معیارِ ولایت ان کو حاصل ہے باقی انبیاء اور ملائکہ یہ منصب نہیں رکھتے تو غیرِ معصوم جماعت کیونکر اس عہدے (معصومیت) کو لے سکتی ہے ؟ ۔ (جلاءالعیون، جلد 2، صفحہ29، مطبوعہ شیعہ بک ایجنسی انصاف پریس لاہور،چشتی)
محترم قارئینِ کرام : آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ شیعہ مجتہدین نے لکھا کہ آئمہ اہلبیت معصوم ہوتے ہیں ، اور رسول اللہ علیہ السّلام کے درجہ کے برابر ہوتے ہیں اور الله کی زبان آنکھ ہوتے ہیں اور انبیاء و ملائکہ سے بڑھ کر ہوتے ہیں ۔ تو یہی امام مولا علی رضی اللہ عنہ فرما رہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے مخلص ساتھی ، مشرک و منافق نہیں ہیں بلکہ ہمارے بھائی ہیں ۔ جن کو مولا علی مخلص مومن اور اپنا بھائی کہیں ہم ان کو مخلص مؤمن اور مولا رضی اللہ عنہ کا بھائی کیوں نہ کہیں ؟ ۔ حُبِ علی رضی اللہ عنہ کا یہی تقاضہ ہے کہ قولِ علی رضی اللہ عنہ کی اتباع کی جائے ۔ یہ کیا بات ہوئی کہ مولا علی رضی اللہ عنہ سے محبت بھی ہو اور ان کی بات بھی نہ مانی جائے ۔
مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ فرمائیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ میرا بھائی ہے اور مولا علی رضی اللہ عنہ کی محبت کا دعوے دار کہے کہ نہیں یا علی سرکار آپ رضی اللہ عنہ سے غلطی ہو گئ معاویہ رضی اللہ عنہ آپ کا دشمن ہے ۔ (معاذالله)
تو بتاؤ رافضیو اور تفضیلیو ہم مولا علی رضی اللہ عنہ کی مانیں یا تمہاری مانیں ؟
ہم تو علی رضی اللہ عنہ والے ہیں اور علی رضی اللہ عنہ کی مانیں گے ۔
باقی اگر کوئی شیعہ اس روایت سے انکار کرے گا تو خود اپنی نظر میں بھی ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا کیونکہ وہ اپنے امامِ معصوم علی علیہ السّلام کے قول کو ٹھکرائے گا ۔
تو ہم مولا علی کی بولی بولیں گے کہ علی معاویہ بھائی بھائی رضی اللہ عنہما
خود کو سنی کہنے والے تفضیلی رافضی بھی سن لیں مولا علی رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان اہلسنّت کے عظیم محدّث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے دادا استاد امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی نقل کیا ہے : ⬇
فرمانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ میرے بھائی ہیں
حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جنگ صفین کے موقع پر پوچھا گیا :
جو لوگ آپ کے مقابلے میں آئے کیا وہ مشرک ہیں ؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : وہ مشر ک نہیں ہیں ۔
پوچھنے والے نے کہا : کیا وہ منافق ہیں ؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : وہ منا فق بھی نہیں ہیں ۔
پوچھنے والے نے کہا : پھر آپ کی نگاہوں میں ان کی حیثیت کیا ہے ؟
جواب میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہم اخواننا بغواعلینا ، وہ لوگ ہمارے بھائی ہیں ، انہوں نے ہمارے اوپر زیادتی کی ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 1013 عربی،چشتی)(مصنف ابی شیبہ مترجم اردو جلد نمبر 11 صفحہ نمبر 734 مکتبہ رحمانیہ لاہور)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے دونوں لشکروں کے مقتولین کے بارے میں پوچھا گیا کہ آپ کا ان کے متعلق کیا خیال ہے ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے : قتلانا وقتلاھم فی الجنۃ ۔ ہمارے لشکر کے مقتول اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کے مقتول سب جنت میں جائیں گے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 1036)
اللہ تعالٰی ہمیں آل و اصحاب رضی اللہ عنہم اجمعین کا ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور رافضیوں شیعوں اور تفضیلی رافضیوں کو ہدایت عطا فرمائے آمین ۔ اب رافضی اور تفضیلی رافضی سینہ کوبی کریں یا اپنے امام پر تبرا لعن طعن یا جو کرنا ہے کریں ۔
جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرے
محترم قارئینِ کرام : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر طعن و اعتراض کرنا یا آپ سے سوء عقیدت رکھنا بدمذہبی و گمراہی و استحقاقِ جہنم ہے ، کیونکہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی رسول ہیں اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اہلِ خیر و صلاح اور عادل ہیں ، ان کا جب ذکر کیا جائے، تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام صحابہ کرام کے ساتھ جنت کا وعدہ فرمایا ہے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے تمام صحابہ کا تذکرہ خیر کے ساتھ کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے ۔ پھر جن اصحاب کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے نام لے کر دعائیں فرمائیں ان میں سے ایک حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نےصحابہ پر طعن کرنے سے منع فرمایا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : وَ مَا لَکُمْ اَلَّا تُنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ وَ لِلہِ مِیۡرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ؕ لَا یَسْتَوِیۡ مِنۡکُمْ مَّنْ اَنۡفَقَ مِنۡ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَ ؕ اُولٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیۡنَ اَنۡفَقُوۡا مِنۡۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوۡا ؕ وَکُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنٰی ؕ وَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ۔
ترجمہ : اور تمہیں کیا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو، حالانکہ آسمانوں اور زمین میں سب کا وارث اللہ ہی ہے ، تم میں برابر نہیں وہ جنہوں نے فتح مکہ سے قبل خرچ اور جہاد کیا،وہ مرتبہ میں ان سے بڑے ہیں جنہوں نے بعد فتح کے خرچ اور جہاد کیا اور ان سب سے اللہ جنّت کا وعدہ فرماچکا اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے ۔ (پارہ 27 ، سورۃ الحدید ، آیت10)
تفسیر قرطبی میں اس آیت کے تحت فرمایا : فِيهِ خَمْسُ مَسَائِلَ الخامسة - قوله تعالى : (وكلا وعد اللہ الحسنى) أي المتقدمون المتناهون السابقون، والمتأخرون اللاحقون، وعدهم اللہ جميعا الجنة مع تفاوت الدرجات ۔
ترجمہ : اس میں پانچ مسائل کا ذکر ہے ۔ پانچواں مسئلہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان : اللہ تعالیٰ نے سب سے حسنیٰ کا وعدہ فرمالیا ہے یعنی سبقت کرنے والے پہلے اور بعد میں شامل ہونے والے متاخرین اللہ تعالیٰ نے ان سب سے درجات کے فرق کے ساتھ جنت کا وعدہ فرمالیا ہے ۔ (الجامع لاحكام القرآن جزء 17 صفحہ نمبر 205 ،207 مطبوعہ کوئٹہ)
تفسیر مظہری میں ہے : وَكُلًّا ۔۔۔اى كل واحد من الفريقين من الصحابة الذين أنفقوا قبل الفتح والذين أنفقوا بعده وَعَدَ اللہ الْحُسْنى ، لا يحل الطعن فى أحد منهم ولا بد حمل مشاجراتهم على محامل حسنة واغراض صحيحۃ او خطأ فى الاجتهاد ۔۔۔ وَاللہ بِما تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ عالم بالبواطن كعلمه بالظواهر فيجازى كلا على حسبه ۔
ترجمہ : اور تمام یعنی وہ صحابہ کرام جنہوں نے قبل فتح مکہ خرچ کیا اور جنہوں نے بعد فتح مکہ خرچ کیا ان دونوں گروہوں میں سے ہر ایک سے اللہ تعالیٰ نے حسنیٰ کا وعد فرمالیا ۔ان میں سے کسی ایک کے بارے میں طعن کرنا حلال نہیں ہے اور ان کے مشاجرات کو اچھے محامل اور درست اغراض یا اجتہادی خطا پر محمول کرنا ضروری ہےاور جو تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس سے خبردار ہے ۔وہ باطن کو بھی ایسے ہی جانتا ہے جیسے ظاہر کو جانتا ہے،تووہ ہر ایک کو اس کے مطابق بدلہ دے گا ۔ (تفسير مظھری، جلد9،صفحہ192، مطبوعہ کوئٹہ)
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا : لا تذکروا مساوی اصحابی فتختلف قلوبکم علیھم و اذکروا محاسن اصحابی حتی تاتلف قلوبکم علیھم ۔
ترجمہ : میرے صحابہ کا تذکرہ برائی کے ساتھ مت کرو کہ تمہارے دل ان کے خلاف ہوجائیں ، میرے صحابہ کی اچھائیاں بیان کرو ، یہاں تک کہ تمہارے دل ان کے لیے نرم ہوجائیں ۔ (کنز العمال ،کتاب الفضائل ،الباب الثالث ،الفصل الاول ، جزء 11، صفحہ247،مطبوعہ لاہور،چشتی)
صحیح بخاری و صحیح مسلم وغیرہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ لا تسبوا أصحابي ، فلو أن أحدكم أنفق مثل أحد ذهبا ما بلغ مد أحدهم، ولا نصيفه ‘‘ ۔
ترجمہ : میرے صحابہ کو بُرا نہ کہو ، پس اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ جتنا سونا خیرات کرے ، تو وہ ان کے ایک مُد یا آدھا مُد خیرات کرنے کو نہیں پہنچ سکتا ہے ۔ (صحیح بخاری کتاب المناقب جلد 1 صفحہ 518 مطبوعہ کراچی)
حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ اللہ فی اصحابی لا تتخذوھم غرضا بعدی ‘‘ ۔
ترجمہ : میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو،میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو ،میرے بعد ان کو (اعتراضات کا) نشانہ نہ بنانا ۔ (جامع ترمذی ابواب المناقب باب فی من سب اصحاب النبی جلد 2 صفحہ 706 مطبوعہ لاہور)
صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں فرمایا ”دعہ فانہ قد صحب رسول اللہ “ ۔
ترجمہ : ان کو کچھ نہ کہو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے صحابی ہیں ۔ (صحیح بخاری کتاب المناقب باب ذکر معاویۃ رضی اللہ عنہ جلد 1 صفحہ531 مطبوعہ کراچی)
سنن ترمذی ، مسند امام احمد اور التاریخ الکبیر للبخاری میں حدیث صحیح منقول ہے (والنظم ھذا للبخاری ) : ” قال ابو مسھرحدثنا سعید بن عبد العزیز عن ربیعۃ بن یزید عن ابن ابی عمیرۃ قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اللھم اجعلہ ھادیا مھدیا واھدہ واھدبہ“ ۔
ترجمہ : حضرت سیدنا ابن ابو عمیرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے دعا فرمائی : اے اللہ ! اسے ہادی ومہدی بنا،اسے ہدایت دے اور اس کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دے ۔ (التاریخ الکبیر ،عبد الرحمن بن ابی عمیرہ جلد 5 صفحہ 240 دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدر آباد دکن)
امام شہاب الدین ابو العباس احمد بن محمد (ابن حجر ہیتمی ) شافعی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کو ذکر کرکے لکھتے ہیں : ”فتامل ھذاالدعاء من الصادق المصدوق وان ادعیتہ لامتہ لا سیما اصحابہ مقبولۃ غیر مردودۃ، تعلم ان اللہ سبحانہ استجاب لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم بھذا الدعاء لمعاویۃ فجعلہ ھادیا للناس مھدیا فی نفسہ ومن جمع اللہ لہ بین ھاتین المرتبتین کیف یتخیل فیہ ماتقولہ علیہ المبطلون ووصمہ بہ المعاندون معاذ اللہ لایدعو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ھذاالدعاء الجامع لمعالی الدنیا والاخرۃ المانع لکل نقص نسبتہ الیہ الطائفۃ المارقۃ الفاجرۃ الا لمن علم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم انہ اھل لذلک حقیق بما ھنالک ۔
ترجمہ : پس غور کرو یہ صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی دعا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی دعا بلا شبہ آپ کی امت کے حق میں بالخصوص آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حق میں مقبول ہے ، رد ہونے والی نہیں ۔ تو جان لے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی اس دعا کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں قبول فرما کر ان کو ہدایت یافتہ اور لوگوں کےلیے رہنما بنا دیا اور جس شخصیت میں اللہ تعالیٰ یہ دونوں مقام جمع فرمادے اس کے بارے میں وہ سب کچھ کیسے گمان کیا جا سکتا ہے ، جو باطل پرست ان کے خلاف کہتے ہیں اور جو معاندین ان پر عیب لگاتے ہیں معاذاللہ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ایسی دعا کہ جو دنیا وآخرت کے بلند مقامات کی جامع ہے اور ہر اس نقص کی مانع ہے ، جس کی نسبت فاسق و گمراہ فرقہ حضرت امیر معاویہ کی طرف کرتا ہے ، صرف اسی کے حق میں کر سکتے ہیں ، جو حقیقتاً اس دعا کا اہل وحق دار ہو ۔ (تطہیر الجنان الفصل الثانی صفحہ 49 دارالصحابہ للتراث )
مسند امام احمد ،مسند بزار،صحیح ابن حبان اور التاریخ الکبیر میں ہے : (والنظم ھذا للبخاری ) ”أبو مسهر عن سعيد بن عبد العزيز عن ربيعة بن يزيد عن عبد الرحمن بن عميرة عن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم قال اللهم علم معاوية الحساب وقه العذاب“ ۔
ترجمہ : حضرت عبد الرحمن بن عمیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے یہ دعا کی : اے اللہ معاویہ کو حساب سکھا اور اسے عذاب سے بچا ۔ (التاریخ الکبیر معاویۃ بن ابی سفیان بن حرب جلد 7 صفحہ 326 رقم 1405 دائرۃ المعارف العثمانیہ، حیدر آباد دکن)
المسامرہ میں ہے : (واعتقاد أھل السنۃ) والجماعۃ (تزکیۃ جمیع الصحابۃ) رضي اللہ عنھم وجوباً بإثبات العدالۃ لکل منھم والکف عن الطعن فیھم ، (والثناء علیھم کما أثنی اللہ سبحانہ وتعالی علیھم) ۔
ترجمہ : اہل سنت کا عقیدہ (یہ ہے کہ) تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کی عدالت کو ثابت کرنے کے ساتھ ان کی پاکیزگی بیان کرناواجب ہے اور ان سب کے معاملہ میں طعن سے رکے رہنا واجب ہے اور ان کی تعریف کرنا ہے ، جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان کی تعریف کی ہے ۔ (المسامرۃ شرح المسامرہ الرکن الرابع الاصل الثامن صفحہ 259 دارالکتب العلمیہ،چشتی)
نبراس میں ہے : سبہ رجل عند خلیفۃ الراشد عمر بن عبد العزیز فجلدہ ۔
ترجمہ : ایک شخص نے خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز کے سامنے حضرت امیر معاویہ کو برا بھلا کہا ، تو آپ نے اسے کوڑے لگوائے ۔ (النبراس شرح شرح العقائد محاربات الصحابۃ واجبۃ التاویل صفحہ 330 مطبوعہ ملتان)
حضرت امیر معاویہ رضی اللّہ عنہ جلیل القدر صحابی رسول ہیں کاتبِ وحی ہیں ان کی مقدس شان میں بکنے والا ، بیہودہ گوئی کرنے والا اِن کی عظمت و شان پر کسی قسم کی حرف گیری (یعنی اعتراض) کرنے والا ، اِن سے بُغض رکھنے والا شخص لعنتی ہے رافضی ہے جہنمی کتا اور جہنمی خنزير ہے نطفہ حرام ہے ولدُ الزِنا ہے قرآن و سُنّت کا مُنکر ہے اہل بیت اَطہار رضی اللہ عنہم کا دشمن ہے اجماعِ اُمِّت کا منکر ہے ۔ اولیائے عظام و آئمہ کرام علیہم الرحمہ کی تعلیمات کا منکر ہے ۔
حضرت امام شعرانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : جس نے اللّٰہ تعالٰی کے ولی کی توہین کی اس کے دل میں زہر آلود تیر پیوست کردیا جاتا ہے ، اور وہ نہیں مرتا ، حتی کہ اس کا عقیدہ فساد کی نذر ہو جاتا ہے ، اور اس پر برے خاتمے کا خوف ہوتا ہے ۔ (الیواقیت الجواہر،مترجم،ص،٦٧)
اللہ اکبر ! جب اولیاءاللہ کی توہین کا یہ عالم ہے تو جو تمام ولیوں سے افضل ہستیوں یعنی حضراتِ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عنہم کے گستاخوں اور بے ادبوں کا کیا انجام ہوگا یہ خود ہی اندازہ کرلیں ۔
امام شہاب الدین خفاجی رحمۃُ اللہ علیہ رحمة اللہ علیہ نے نسیم الریاض شرح شفاء امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ میں فرمایا : ومن یکون یطعن فی معٰویۃ فذالک کلب میں کلاب الہاویۃ ۔
ترجمہ : جو امیر معاویہ پر طعن کرے وہ جہنم کے کتّوں سے ایک کُتا ہے ۔ (نسیم الریاض جز رابع صفحہ 525 مطبوعہ دارالکتب علمیہ بیروت لبنان)۔(نسیم الریاض ،القسم الثانی جلد 3 صفحہ 430 مطبوعہ ملتان)
امام اہلسنت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرے وہ جہنمی کتوں میں سے ایک کتا ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد29 صفحہ 264 ۔ امام اہلسنت اعلیٰحضرت رحمۃ اللہ علیہ)
امام اہلسنت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر طعن کرنے والا جہنّمی کتوں میں سے ایک کتا ہے اور بد تر خبیث تبرائی روفضی ہے ایسے شخص کو امام بنانا جائز نہیں ہے ۔ (احکام شریعت صفحہ نمبر 120 ، 121 )
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا گستاخ جہنمی کتا ہے ، اگر کوئی چورہ شریف سے تعلق رکھ کر حضرت امیر معاویہ کی شان میں گستاخی کرتا ہے تو ہم گدی نشین ہونے کی حیثیت سے اسے تنبیہ کرتے ہیں انسان بن جاؤ ۔ (الدرّۃ الحیدریہ علیٰ کلب الھاویہ عدوّ معاویہ صفحہ نمبر 8 مطبوعہ کرمانوالہ بک شاپ لاہور،چشتی)
پاکستان کے نقشبندی مجددی آستانوں کے مرکزی آستانہ عالیہ چورہ شریف کا واضح حکم آ جانے کے بعد بھی اگر چورہ شریف کا کوئی مرید حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی گستاخی کے گھناؤنے فعل میں ملوث ہے تو وہ باز آ جائے اور آئندہ کےلیے توبہ کرے ۔ اور یہ بات کبھی نہ بھولے کہ ایک صحیح العقیدہ آستانے کے مرید نہ تو خارجیوں کے عقیدہ کے داعی ہیں اور نہ ہی رافضیوں کے عقیدہ کے داعی ۔
امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : ای للامیر معاویۃ رضی اللہ عنہ اما عند اھل الحق فاستقامۃ الخلافۃ لہ رضی اللہ تعالی عنہ من یوم صلح السید المجتبی صلی اللہ تعالی علی جدہ الکریم وابیہ وعلیہ وعلی امہ واخیہ وسلم ۔
ترجمہ : بہر حال اہل حق کے نزدیک حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےلیے اس دن سے خلافت مستحکم ہوگئی ، جس دن حضرت امام مجتبیٰ امام حسن صلی اللہ تعالیٰ علی جدہ الکریم و ابیہ و علیہ و علیٰ امہ و اخیہ وسلم نے صلح کی ۔
اس کے بعد آپ رحمہ اللہ تعالیٰ امام حسن اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان صلح والی حدیث بخاری نقل کرکے فرماتے ہیں ”وبہ ظھر ان الطعن علی الامیر معاویۃ طعن علی الامام المجتبی بل علی جدہ الکریم صلی اللہ علیہ وسلم، بل علی ربہ عزوجل ۔
ترجمہ : اسی سے ظاہر ہوگیا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر طعن کرنا درحقیقت امام مجتبیٰ پر طعن کرنا ہے ، بلکہ یہ ان کے جد کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم پر طعن کرنا ہے ، بلکہ یہ تو اللہ عزوجل پر طعن کرنا ہے ۔
اس کے بعد اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : کیونکہ مسلمانوں کی باگ ڈور کسی غلط آدمی کے ہاتھ میں دینا اسلام اور مسلمین کے ساتھ خیانت ہے اور اگر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ غلط تھے ، جیسا کہ طعن کرنے والے کہہ رہے ہیں ، تو پھر اس خیانت کے مرتکب معاذ اللہ امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ ٹھہریں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی اس خیانت پر رضا لازم آئے گی اور یہ وہ ہستی ہے جس کی شان میں (وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی) وارد ہے ۔ یہ جملے اس شخص کو فائدہ دیں گے جس کےلیے اللہ نے ہدایت کا ارادہ فرمالیا ۔ (المستند المعتمد مع المعتقد المنتقد صفحہ 192-193 برکاتی پبلشر کراچی)
فتاوی رضویہ میں ہے : سِیَر جن بالائی باتوں کےلیے ہے ، اُس میں حد سے تجاوز نہیں کرسکتے ، اُس کی روایات مذکورہ کسی حیض و نفاس کے مسئلہ میں بھی سننے کی نہیں نہ کہ معاذاللہ اُن واہیات و معضلات و بے سر و پا حکایات سے صحابہ کرام حضور سیدالانام علیہ وعلی آلہٖ وعلیہم افضل الصّلاۃ والسلام پر طعن پیدا کرنا ، اعتراض نکالنا ، اُن کی شانِ رفیع میں رخنے ڈالنا کہ اس کا ارتکاب نہ کرے گا ، مگر گمراہ بددین ، مخالف ومضاد حق تبیین ۔ (فتاوی رضویہ جلد 5 صفحہ 582 رضا فاؤنڈیشن لاھور،چشتی)
صدر الشریعہ بدرالطریقہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃفرماتے ہیں : تمام صحابہ کرام رضی ﷲ تعالیٰ عنہم اہلِ خیر و صلاح ہیں اور عادل ، ان کا جب ذکر کیا جائے ، تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے۔ کسی صحابی کے ساتھ سوءِ عقیدت بد مذہبی و گمراہی و استحقاقِ جہنم ہے کہ وہ حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ بغض ہے ، ایسا شخص رافضی ہے ، اگرچہ چاروں خلفاء کو مانے اور اپنے آپ کو سُنّی کہے ۔ مثلاً :حضرت امیرِ معاویہ اور اُن کے والدِ ماجد حضرت ابو سفیان اور والدہ ماجدہ حضرت ہندہ رضی اللہ عنہم ، کوئی ولی کتنے ہی بڑے مرتبہ کا ہو کسی صحابی کے رتبہ کو نہیں پہنچتا ۔ صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم کے باہم جو واقعات ہوئے ، ان میں پڑنا حرام ، حرام ، سخت حرام ہے ۔ مسلمانوں کو تو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ سب حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے جاں نثار اور سچے غلام ہیں ۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اعلیٰ و ادنیٰ (اور ان میں ادنیٰ کوئی نہیں) سب جنتی ہیں ، وہ جہنم کی بِھنک نہ سنیں گے اور ہمیشہ اپنی من مانتی مرادوں میں رہیں گے ، محشر کی وہ بڑی گھبراہٹ انہیں غمگین نہ کرے گی، فرشتے ان کا استقبال کریں گے کہ یہ ہے وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا ۔ یہ سب مضمون قرآنِ عظیم کا ارشاد ہے ۔ صحابہ کر ام رضی اللہ عنہم انبیاء نہ تھے ، فرشتہ نہ تھے کہ معصوم ہوں ۔ ان میں بعض کےلیے لغزشیں ہوئیں ، مگر ان کی کسی بات پر گرفت ﷲ و رسول (عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے خلاف ہے ۔ ﷲ عزوجل نے سورہ حدید میں جہاں صحابہ کی دو قسمیں فرمائیں ۔ مومنین قبلِ فتحِ مکہ اور بعدِ فتحِ مکہ اور اُن کو اِن پر تفضیل دی اور فرما دیا : (وَکُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنٰی) سب سے ﷲ نے بھلائی کا وعدہ فرما لیا ۔ ساتھ ہی ارشاد فرما دیا : (وَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ) ﷲ خوب جانتا ہے ، جو کچھ تم کرو گے ۔ تو جب اُس نے اُن کے تمام اعمال جان کر حکم فرما دیا کہ ان سب سے ہم جنتِ بے عذاب و کرامت و ثواب کا وعدہ فرما چکے ، تو دوسرے کو کیا حق رہا کہ اُن کی کسی بات پر طعن کرے ؟ کیا طعن کرنے والا ﷲ (عزوجل) سے جدا اپنی مستقل حکومت قائم کرنا چاہتا ہے ۔ (بہار شریعت جلد 1 حصہ 1 صفحہ نمبر 252-255 مکتبۃ المدینہ کراچی)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا گستاخ جہنمی کتا ہے ، اگر کوئی چورہ شریف سے تعلق رکھ کر حضرت امیر معاویہ کی شان میں گستاخی کرتا ہے تو ہم گدی نشین ہونے کی حیثیت سے اسے تنبیہ کرتے ہیں انسان بن جاؤ ۔ (الدرّۃ الحیدریہ علیٰ کلب الھاویہ عدوّ معاویہ صفحہ نمبر 8 مطبوعہ کرمانوالہ بک شاپ لاہور،چشتی)
پاکستان کے نقشبندی مجددی آستانوں کے مرکزی آستانہ عالیہ چورہ شریف کا واضح حکم آ جانے کے بعد بھی اگر چورہ شریف کا کوئی مرید حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی گستاخی کے گھناؤنے فعل میں ملوث ہے تو وہ باز آ جائے اور آئندہ کےلیے توبہ کرے ۔ اور یہ بات کبھی نہ بھولے کہ ایک صحیح العقیدہ آستانے کے مرید نہ تو خارجیوں کے عقیدہ کے داعی ہیں اور نہ ہی رافضیوں کے عقیدہ کے داعی ۔ (مزید حصّہ دہم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment